اب پھر آیت نمبر ۱۸۵ کی طرف رجوع کیجئے! رمضان کے روزے کے لئے حکم آیا کہ تم میں سے جو بھی اس مہینہ میں موجود ہو وہ لازماً روزہ رکھے. اب پورے ماہ کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا. ایامِ بیض کے روزوں کے لئے جو دو رعایتیں تھیں وہ برقرار ہیں. وَ مَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ’’ اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر گنتی پوری کر لے‘‘.لیکن وہ رعایت جو ایامِ بیض کے حکم کے ساتھ دی گئی تھی کہ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے‘ اس رعایت کو منسوخ اور ساقط کر دیا ہے. البتہ یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ اس رعایت کو قرآن مجید نے منسوخ و ساقط کیا ہے‘ لیکن رسول اﷲ ﷺ نے خاص حالات میں اس کو قائم رکھا ہے‘ جیسے کوئی شخص بہت بوڑھا ہو گیا ہو اور اب اس میں روزہ رکھنے کی بالکل استطاعت ہی باقی نہ رہی ہو‘ کوئی دائمی مریض ہو جسے اب شفا کی کوئی توقع ہی نہ رہی ہو‘ مثلاً کوئی ٹی بی کی تھرڈ اسٹیج میں ہے یا کوئی ذیابیطس کا دائمی مریض ہو گیا ہے اور اس کے صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہیں ہے . اسی پر ایسے مختلف عوارض و امراض کو قیاس کر لیجئے. ایسے لوگوں کے لئے نبی اکرم ﷺ نے یہ رعایت برقرار رکھی ہے کہ وہ فی روزہ ایک مسکین کو دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیں. کھانے کی جگہ اناج کی مقدار اور چند دوسری شرائط کا بھی تعین کیا گیا ہے.
الغرض خاص حالات میں اس رعایت کو حضور ﷺ نے باقی رکھا ہے. اہل سنت کے نزدیک یہ بات اصولاً طے ہے کہ رسول اﷲ‘ﷺ کا یہ اختیار ہے کہ آپؐ قرآن کے خاص کو عام اور قرآن کے عام کو خاص کر سکتے ہیں‘قرآن کے حکم پر اضافہ فرما سکتے ہیں اور قرآن کے حکم کی تبیین میں مزید حکم دے سکتے ہیں.یہ منکرین سنت کی گمراہی ہے کہ وہ حضورﷺ کی سنت اور آپ ؐ کے احکام کو دین میں حجت نہیں مانتے. حالانکہ بعض احادیثِ صحیحہ میں بصراحت آیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’ یہ نہ سمجھنا کہ کھانے پینے کی صرف وہی چیزیں حرام ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے‘ کچھ اور چیزیں بھی ہیں جن کی حرمت کا مَیں تمہیں حکم دے رہا ہوں‘‘. یا جیسے قرآن مجید میں حکم آیا کہ ایک شخص بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں نہیں رکھ سکتا. حضورﷺ نے اسے مزید عام کر دیا کہ پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو بھی بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا. ایسی بے شمار مثالیں ہیں. اس وقت میں نے چند مثالیں اس لئے دی ہیں کہ اگر کسی شخص کے ذہن میں یہ اشکال ہو کہ حضورﷺ نے بوڑھوں اور دائمی مریضوں کے لئے رمضان کے روزے کے فدیہ کو برقرار کیسے رکھا‘ تو وہ اشکال رفع ہو جائے اور یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ چیزیں رسول اﷲ ﷺ کے اختیار میں شامل ہیں اور ان کا آپؐ ‘ کوحق حاصل ہے.
آگے چلئے ‘ ابھی آیت نمبر۱۸۵ہی کا سلسلہ جاری ہے‘ فرمایا: یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ ’’اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری و سختی اورتنگی نہیں چاہتا‘‘. یعنی یہ ساری رعایتیں اور سہولتیں جو بیان ہوئیں اس سے مقصود اﷲ کو بندوں کے حق میں آسانیاں فراہم کرنا ہے‘ نہ کہ دشواریاں‘ سختیاں اور تنگیاں. لہٰذا بیماری یا سفر کی وجہ سے جو روزے قضا ہو جائیں‘ بعد میں ان کی تکمیل کر لو. یہاں یہ بات سمجھ لیجئے کہ یہ نیکی اور تقویٰ کا غلط تصور ہے کہ ایک سو چار ڈگری کا بخار ہے اورروزہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں. سفر پر جا رہے ہیں اور روزوں کا اہتمام والتزام بھی ہو رہا ہے.
یہ درحقیقت اپنے اوپر تشدد ہے اور یہ بھی ایک طرح کا کفران نعمت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو رعایتیں دی ہیں‘ آپ ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے. اکثر لوگوں کو خواہ مخواہ یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ آج کل کا سفر بھی کون سا مشکل سفر ہے. حالانکہ آپ کو کیا پتہ کہ آپ کراچی سے لاہور کے لئے ریل میں چلے اور راستہ میں گاڑی کسی معمولی پلیٹ فارم پر پانچ چھ گھنٹے کے لئے رک گئی. اب آپ کیا کریں گے؟ اسی پر قیاس کر لیجئے کہ آج کل کے سفر میں بھی کس طرح کی تکالیف آ سکتی ہیں. اب اگر اﷲتعالیٰ نے رعایت دی ہے تو کسی کے اس سے استفادہ کرنے کو ہر گز گھٹیا بات نہ سمجھئے‘ بلکہ اس کے لئے اصول دے دیا گیا. حضور ﷺ کاارشاد مبارک ہے: یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا (متفق علیہ: عن انس بن مالک) ’’ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو‘ سختی اور تنگی پیدا نہ کرو‘‘.
صحیح احادیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم‘ﷺ ایک سفر پر جا رہے تھے‘ دیکھا کہ کچھ لوگ بے ہوشی کے عالَم میں پڑے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے ہیں. دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور دھوپ کی تمازت سے ان پر غشی طاری ہو گئی. تو حضور‘ﷺ نے فرمایا: لَیْسَ مِنَ الْبِّرِّ الصِّیَامُ فِی السَّفَرِ (رواہ النسائی : عن ابی مالک الاشعری) ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی کی بات نہیں ہے‘‘. یہ در حقیقت اپنے اوپر تشد دہے جو اﷲکو پسند نہیں ہے. جہاں رعایت دی ہے وہاں اس رعایت سے فائدہ اٹھائیے. اس موقع پر ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ بلاغت قرآنی کا یہ ایک عام اسلوب ہے. لہذا آیت کے اس حصہ میں یُسرو عُسر کا معاملہ صرف صیام پر موقوف نہیں ہے.
ہر حکم کی تہہ میں بندوں کے حق میں رحمتیں اور مصلحتیں ہی ملیں گی. جہاں کوئی دشواری یا معذوری پیش آئے وہاں کوئی نہ کوئی مناسب و متناسب رعایت یا رخصت رکھ دی گئی ہے. اب آیت کی طرف پھر رجوع کیجئے اور دیکھئے کہ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَ لَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ کے فوراً بعدفرمایا: وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ یہ رعایتیں ہیں‘ لیکن چھوٹ نہیں ہے‘یہ اس لئے رکھی گئی ہیں تا کہ بعد میں تم تعداد پوری کر لو. تعداد بہر حال پوری کرنی پڑے گی. یہ نہیں ہے کہ آپ فدیہ دے کر روزہ رکھنے سے بچ جائیں. یہاں صیغہ امر کا ہے. وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ یہاں حرفِ ’’ل‘‘ لامِ تاکیدو لزوم ہے. یعنی لازم ہے کہ بعد میں تعداد پوری کرو. آگے فرمایا : وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾ ’’اور تا کہ تم اپنے ربّ کی تکبیر کرو. (اس کی کبریائی کا اظہار کرو ) اس پر کہ جو اُس نے تمہیں راہِ راست دکھائی (جو ہدایت تمہیں عطا فرمائی) اور تم شکرگزار بن کر رہو‘‘.
یہ تکبیر کیا ہے اور یہ شکر کیا ہے؟ وہ یہ کہ تم کو اندازہ ہو‘ آگہی ہو‘ شعور و ادراک ہو کہ یہ قرآن اﷲ کی کتنی عظیم نعمت اور کتنی بڑی دولت ہے ! اب یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اس نعمت اور دولت کی صحیح قدرو قیمت کا اندازہ کب اور کیسے ہو گا! یہ بات سطوت و عظمت قرآن مجید سے متعلق ہے.
ہمارے غور و فکرکے لئے اس آیت میں ایک اہم نکتہ ہے. اس مقام پر قرآن مجید کو ’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘ فرمایا گیا ہے. یعنی اسے تمام انسانوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا ہے .لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سورۃ البقرۃ کے بالکل آغاز میں اسی قرآن کے متعلق فرمایا جاتا ہے: ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ’’ یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے‘‘ . اب ان دونوں باتوں میں جو ربط و تعلق ہے‘ اسے سمجھنا ہو گا. قرآن مجید میں بذاتہٖ اور فی نفسہٖ تو ہدایت کا سامان پوری نوع انسانی کے لئے موجود ہے‘ لیکن اس سے ہدایت وہی حاصل کرے گا جس میں تقویٰ کی کچھ نہ کچھ رمق اور تلاشِ حق کی کچھ نہ کچھ طلب موجو د ہو. یہ چیز ابوجہل میں نہیں تھی ‘چنانچہ وہ خالی رہا‘ قرآن کی ہدایت سے استفادہ نہیں کر سکا اور اس سے محروم رہا.
ابو لہب کیوں محروم رہا؟ اس لئے کہ اس میں بھی تقویٰ کی نہ کوئی رمق تھی اور نہ ہی خدا ترسی کا مادہ تھا. گویا ہدایت کی طلب ہی موجود نہیں تھی. تو جب تک طلب موجود نہ ہو کوئی استفادہ کیسے کرے! جیسے آپ کو معلوم ہے کہ جب تک پیا س نہ لگے‘ اس وقت تک آپ کو پانی کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا. ہاں پیاس لگی ہوئی ہو اور پھر پانی کا ایک گھونٹ ملے تو معلوم ہو گا کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے. اگر پیاس کے باعث جان پر بنی ہو تو بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ایک گھونٹ پانی کے عوض اپنی پوری سلطنت دینے پر آمادہ ہو جائے گا. شدید بھوک لگی ہوئی ہو تو سوکھی روٹی بھی پراٹھا معلوم ہو گی. لیکن اگر بھوک نہیں تو آپ چاہے شیر مال رکھ دیجئے‘ اس کی طرف طبیعت راغب ہی نہیں ہو گی. پس معلوم ہوا کہ جب تک طلب نہ ہو اُس وقت تک کسی شے کی قدرو قیمت کا احساس نہیں ہوتا. لہذا وہ طلب پیدا کرنے کے لئے تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے.
اس روزے سے تمہارے اندر تقویٰ ابھرے گا. اب اس تقویٰ کی پونجی کو لے کر رات کو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہو جاؤ اور اب تمہارے قلب پر اس قرآن کا نزول ہو. یہ بارانِ رحمت‘ یہ بارش جان افزا جب تم پر برسے گی تب تم کو احساس ہو گا کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے‘ کتنی بڑی دولت ہے‘ اور اﷲ کا کتنا بڑا انعام و احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ کلام پاک عطا فرمایا.آپ کو معلوم ہے کہ کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے. اس اعتبار سے یہ قرآن مجید اﷲ کی صفت ہے. ہماری اصوات اور حروف و الفاظ میں مصحف کے اندر لکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام ہمارے سامنے ہے. اس قرآن کے ذریعہ سے ہمیں اﷲ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے. وہ ہم سے کلام فرما رہا ہوتا ہے اور ہم اس سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں. یہی بات ہے جو بڑے پیارے اور دل نشین الفاظ میں علامہ اقبال نے ان اشعار میں کہی ہے : ؎
فاش گویم آنچہ در دل مضمراست
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است!
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود!
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویاست ایں
’’ اس کتاب کے بارے میں جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے‘ اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں! حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں‘ کچھ اور ہی شے ہے! یہ کتابِ حکیم جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لئے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے!یہ ذات حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا کلام ہے‘ لہذا اسی کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی.‘‘