آپ کو اس قرآن عظیم کی عظمت کا اگر کچھ اندازہ کرنا ہو تو اس تمثیل پر غور کیجئے جو سورۃ الحشر میں بیان ہوئی ہے. لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ’’اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیا ہوتا (اور انسان کی طرح اس میں سمجھنے کا جوہر رکھا ہوتا) تو تم دیکھتے کہ وہ جھک جاتا اور پھٹ جاتا اﷲکے خوف سے‘‘.

وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱’’اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تا کہ وہ (اپنے رویہ اور اپنی حالت پر) غور و فکر کریں ‘‘.

اب دیکھئے وہ مساوات (equation) مکمل ہو گئی کہ قرآن مجید سے استفادہ کے لئے شرطِ لازم بھی تقویٰ ہے اور روزے کا مقصد بھی تقویٰ ہے. لہذا روزے سے تقویٰ حاصل کیجئے اور رات کو قرآن کی بارش اپنے اوپر برسائیے‘ تا کہ آپ کے اندر جو آپ کی روح ِمَلکوتی ہے وہ اس سے نشوونما حاصل کرے‘ وہ روح جو اﷲ نے پھونکی تھی. ازروئے الفاظ قرآنی: وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْْ (الحجر: ۲۹’’اور میں نے اُس میں اپنی روح میں سے پھونکا‘‘. پس ہمارا ایک حیوانی وجود ہے اور ایک روحانی وجود ہے. بقول شیخ سعدی ؒ ؎ 

آدمی زادہ طرفہ معجون است 
از فرشتہ سرشتہ وز حیواں!

اس روحانی وجود سے ہم غافل رہتے ہیں جبکہ حیوانی وجود کی بابت ہمیں ہر شے کی خبر ہے. پیٹ کھانے کو مانگتا ہے تو دوڑ دھوپ کرتے ہیں. کوئی اور تقاضا ابھرتا ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں. لیکن روح سے غفلت رہتی ہے. وہ بے چاری سسکتی رہتی ہے‘ کمزور اور لاغر ہوتے ہوتے بے جان ہو جاتی ہے. اس رمضان نے کیا کیا؟ یہ کیا کہ عام دنوں کے عمل کو پلٹ دیا. یعنی اس حیوانی وجود یعنی جسم کے تقاضوں کو ذرا دباؤ ‘ان میں کمی کرو‘دن میں بطن وفرج کے تقاضوں پر پابندیاں اور قدغنیں لگاؤ. رویہ ‘ اخلاق اور معاملات میں خاص طور پر چوکس اور چوکنے رہو. ان کے ضمن میں دین کے اوامرونواہی پر شعوری طور پر عمل پیرا رہو . اﷲ نے آسودگی اور خوشحالی دی ہے تو ہاتھ کو مزید کشادہ کرو. حاجت مندوں‘مسکینوں اور فقراء کے زیادہ سے زیادہ کام آؤ تاکہ حیوانی جبلتوں کا بوجھ روح پر سے کم ہو. پھر روح کی غذا کی طرف شعوری طور پر متوجہ ہو جاؤ اور وہ روحانی غذا کلامِ ربّانی ہے. 

بات کو مزید سمجھ لیجئے. ہمار ا جسم کہاں سے بنا؟ مٹی سے ! 
مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ ’’اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے‘‘.یہ جسدِ خاکی زمین سے آیا ہے. چنانچہ اس کی غذا بھی اسی سے حاصل ہوتی ہے. ہماری تمام ضروریاتِ زندگی کی فراہمی زمین سے ہوتی ہے. بطور مثال غذا اور خوراک کو لے لیجئے‘ وہ کہاں سے آتی ہے؟ گندم اور دوسری اجناس کہاں سے آتی ہیں؟ آپ جو گوشت کھاتے ہیں‘ وہ کہاں سے بنا ہے؟ اس بکری نے بھی تو زمینی نباتات کھائی ہیں جن سے گوشت بنا. یہی دودھ کا حال ہے. الغرض ہمارے وجودِ حیوانی کے لئے ساری ضروریات وہیں سے فراہم ہوتی ہیں جہاں سے ہمارا یہ وجودِ حیوانی خود آیا ہے. اور جو ہماری روح ِربّانی ہے‘ روح ِمَلکوتی ہے‘ یہ اس عالمِ خا کی کی شے نہیں ہے. یہ عالَمِ ناسوت سے متعلق نہیں ہے‘ یہ عالَمِ علوی سے ہے.اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یہ روح عالَم ِمَلکوت سے آئی ہے‘ اسی کی طرف اسے لوٹنا ہے. یہ رُوح امر ربّ ہے. قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ’’کہہ دیجئے (اے نبیؐ !) کہ یہ روح میرے رب کے امر سے ہے.‘‘اور امرِ ربّ کی تقویت کا سامان کلام ِربّ ہے. وہ بھی وہیں سے آیاہے. 

ایک بڑی پیاری حدیث ہے جس میں نبی اکرم  نے عظمت و مقامِ قرآن کو اور اس کے حبل ُ اﷲ ہونے کی حیثیت کو بیان فرمایا ہے. معجم طبرانی کبیر میں حضرت جبیر ؓ بن مطعم سے روایت ہے کہ ایک موقع پر حضور  اپنے حجرۂ مبارک سے برآمد ہوئے‘ آپؐ نے دیکھا کہ مسجد نبویؐ کے ایک کونے میں کچھ لوگ بیٹھے قرآن پڑھ رہے ہیں اور پڑھا رہے ہیں. 

درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے. حضور کے چہرۂ انور پر بشاشت اور خوشی کے آثار ظاہر ہوئے. حضور ان کے پاس چل کر تشریف لے گئے اور ان صحابہ کرام ؓ سے سوال کیا: اَ لَیْسَ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ وَاَنَّ الْقُرْآنَ جَآءَ مِنْ عِنْدِاﷲِ ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ تنہا ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ؟ اور یہ کہ میں اﷲ کا رسول ہوں اور یہ کہ قرآن اﷲ کے پاس سے آیا؟‘‘حضرت جبیر ؓ ‘ آگے روایت کرتے ہیں کہ: قُلْنَا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ ’’ہم نے عرض کیا:یقیناایسا ہی ہے اے اﷲکے رسول!‘‘ حضور  نے صحابہ کرام ؓ کی اس تصدیق و شہادت کے بعد فرمایا: فَاَبْشِرُوْا فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ طَرْفُہٗ بِیَدِ اﷲِ وَ طَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ ’’پھر تو خو شیاں مناؤ‘اس لئے کہ اس قرآن کا ایک سرا اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے ‘‘. آگے ارشاد ہوا: فَتَمَسَّکُوْ ا بِہٖ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَھْلِکُوْا وَلَنْ تُضِلُّوْا بَعْدَہٗ اَبَدًا ’’پس اسے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو! (اگرتم نے ایسا کیا) تو اس کے بعد تم نہ کبھی ہلاک ہو گے اور نہ کبھی گمراہ‘‘.

اس حدیث شریف میں گویا حبل ُ اﷲ کی شرح موجود ہے کہ یہ قرآن حکیم ہے. اب اگر اس حدیث کے ساتھ حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک مرفوع حدیث اور شامل کر لی جائے تو قرآن مجید کے حبل اﷲ ہونے کی بات بالکل واضح اور مبرہن ہو جائے گی. آپ ؓ روایت کرتے ہیں:قال رسول اﷲ  : کِتَابُ اﷲِ ھُوَ حَبْلُ اﷲِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ’’رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :’’ اﷲ کی کتاب ہی اﷲ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے‘‘.

بہرحال اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ قرآن مجید‘ یہ کلام ربّانی روح کے تغذیہ و تقویت کا سبب ہے. اب جبکہ اس روح کو اس کی اصل غذا ملے گی تو وہ اس سے از سر نو قوی اور توانا ہو کر اﷲ کی طرف متوجہ ہو گی اور ’’اپنے مرکز کی طرف پرواز‘‘ کا نقشہ پیش کرے گی تو تمہارے قلب کی گہرائیوں سے اﷲ کے شکر کا چشمہ ابل پڑے گا. پھر اس شکر کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کا بڑا پیارا بیان اگلی آیت نمبر۱۸۶ میں ہے.