فرمایا: وَاِذَا سَاََلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ’’اور (اے نبی!) جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو (آپؐ ‘کہہ دیجئے) میں نزدیک ہی ہوں‘‘. بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال و جواب ایک علیحدہ سی بات ہے‘ صیام کے احکام کے ضمن میں کیسے آگئی! لیکن غور کیجئے تو صاف سمجھ میں آجائے گا کہ جب صیام و قیام کے نتیجہ میں ایک بندۂ مؤمن کی روح کو جلا ملی اور جب اس کے قلب میں شکر کا جذبہ اُبھرا تو اس کا عین تقاضا ہے کہ تعلق مع اﷲ کے جوش و ولولہ میں شدت پیدا ہو‘ طبیعت میں اﷲ سے مانگنے‘ اس سے سوال کرنے‘ اس کے آگے ہاتھ پھیلانے‘ اس کے سامنے گڑگڑانے‘ اس سے استغفار کرنے‘ اس سے عفو و مغفرت طلب کرنے‘ اس کی طرف رجوع کرنے اور اپنی خطاؤں ‘ معصیتوں اور لغزشوں سے توبہ کرنے کے جذبات موجزن ہوں. گویا اب بندہ اﷲ کی طرف ہمہ تن اور پوری یک سوئی سے متوجہ ہوا. 

اب فطری طور پر دل میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ میرا ربّ مجھ سے کتنا دُور ہے؟لہذا نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے کہ اے نبی! جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے دریافت کریں تو میری طرف سے ان سے کہہ دیجئے: فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ’’پس میں نزدیک ہی ہوں ‘‘. یہ ہے ایک بندۂ مؤمن کے ہمہ تن متوجہ ہونے کا نتیجہ کہ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب نبی ؐ کی زبانی کہ جن کو مشرکین و کفار مکہ تک الصادق اور الامین جانتے اور مانتے تھے‘ اہل ایمان کو اپنی قربت کی یقین دہانی کرا رہا ہے. ہماری سب سے بڑی کمزوری اور بیماری ہماری غفلت ہے. ہماری توجہ اﷲ کی طرف نہیں بلکہ دنیا کی طرف اور اپنے نفس کی طرف ہے. اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا ہی درحقیقت ہماری ہدایت کا اصل راز ہے. جب روح کو کلامِ ربّانی سے از سر نو تقویت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے تو اسے بہت قریب پاتی ہے. چنانچہ فرمایا: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ ’’اور(اے نبی!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ان کو بتا دیجئے کہ میں قریب ہوں(کہیں دور نہیں ہوں)‘‘

اللہ تعالیٰ بندوں سے کتنا قریب ہے! اس کے ضمن میں سورۂ قٓ (جو مکی سورۃ ہے)کی آیت نمبر ۱۶ کے یہ الفاظ مبارکہ 
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ اور اللہ کی معیت کے لیے سورۃ الحدید (جو مدنی ہے )کی آیت نمبر ۴ کے یہ الفاظ مبارکہ وَ ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ پیش نظر رہیں!اپنے ربّ کو ڈھونڈنے کے لئے ‘اس سے مناجات کرنے کے لئے ‘اس سے راز و نیاز کرنے کے لئے‘ اس سے عرض و معروض کرنے کے لئے‘ اس سے طلب کرنے کے لئے کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے‘ وہ بالکل قریب ہے. اور اگلی بات فرمائی: اُجِیْبُ دَعْــــوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ’’میں تو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں جب مجھے پکارے ‘‘یہ تو تم ہو کہ ہماری طرف رُخ نہیں کرتے اور متوجہ نہیں ہوتے. ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کو ئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں!

پھر یہ تو ہر شب کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ رات کے پچھلے پہر اﷲ تعالیٰ سمائے دنیا پرنزول فرماتے ہیں اور پھر ایک صدا ہوتی ہے ‘ ندا لگتی ہے: ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَیُعْطٰی؟ ھَلْ مِنْ دَاعٍ فَیُسْتَجَابُ لَہٗ؟ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَیُغْفَرُلَہٗ؟ (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ ؓ ) ’’ہے کوئی مانگے والا کہ اسے عطا کیا جائے؟ ہے کوئی پکارنے والاکہ اس کی دُعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی گناہوں سے مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کی جائے؟‘‘ تو ہم اﷲ سے غائب ہیں ‘وہ تو غائب نہیں.

ایک عربی نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے .کس قدر پیارے اشعار ہیں!

اَغِیْبُ وَذُو اللَّطَائِفِ لَا یَغِیْبٗ
وَاَرْجُوْہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبٗ
کَرِیْمٌ مُنْعِمٌ بَرٌّ لَطِیْفٌ
جَمِیْلُ السِّتْرِ لِلدَّاعِیْ مُجِیْبٗ
فَیَا مَلِکَ الْمُلُوْکِ اَقِلْ عِثَارِیْ
فَاِنِّیْ عَنْکَ اَنْأَتْنِی الذُّنُوْبٗ

’’میں غائب ہو جاتا ہوں وہ صاحبِ الطاف و کرم تو غائب نہیں ہوتا‘ میں نے اس سے ایسی آس لگا رکھی ہے جو یاس میں نہیں بدلتی. وہ کریم ہے‘ عطا کرنے والا ہے‘ نہایت مہربان ہے‘ لطیف ہے . بڑی خوبصورتی سے پردہ پوشی کرنے والا ہے‘ پکارنے والے کی دعا قبول کرنے والا ہے. پس اے بادشاہوں کے بادشاہ! میری لغزشوں سے درگزر فرما‘ مجھے تو میرے گناہوں نے تجھ سے دور کر دیا!.‘‘

اﷲ سے دوری کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں. وہ تو ہر جگہ‘ ہر آن موجود ہے. ہماری تو جہات کسی اور طرف ہیں. آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توکہتے ہیں: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ’’میں نے متوجہ کر لیا ہے اپنے چہرے کو اسی (اﷲ) کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین‘ سب سے یک سو ہو کر اور مَیں نہیں ہوں مشرکوں میں سے. ‘‘ یہ دوسری بات ہے کہ یہ الفاظ کہہ دینے کے باوجود اﷲ کی طرف توجہ نہیں ہوتی. توجہ اپنے حساب کتاب میں رہتی ہے‘ دماغ اپنے دُنیوی معاملات ہی کی چکی میں پستا رہتا ہے.

اس آیۂ مبارکہ کی طرف دوبارہ توجہ فرمائیے: وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اب رمضان و قرآن اور صیام و قیام ‘ ان سب کا جو مشترک نتیجہ نکلے گا‘ وہ یہ ہے کہ تمہاری روح بیدار ہو گی‘ تقویت پائے گی اور اﷲ کی طرف متوجہ ہو گی. تو اس کے لئے خوشخبری ہے کہ میں کہیں دور نہیں ہوں. مجھے تلاش کرنے کے لئے کہیں بیابانوں میں جانے کی اور پہاڑوں کی غاروں میں تپسیائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے. میں تمہارے بالکل قریب ہی ہوں گویا ؎

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی!

تمام قدیم مذاہب میں اللہ کے ساتھ بندوں کے ربط و تعلق کا مسئلہ ہمیشہ ایک لاینحل گتھی بنا رہا ہے. اکثر مذہبوں نے تو اللہ کو اتنا دور اور بندوں سے اتنا بعید فرض کر لیا ہے کہ اس تک براہ راست رسائی گویا ممکن ہی نہیں. چنانچہ ایسے تمام مذاہب نے اللہ کے دربار تک رسائی کے لیے بے شمار واسطے اور وسیلے گھڑ لیے ہیں اور ناقابل فہم مشرکانہ نظام بنا لیے ہیں. قرآن نے اس وہم کو دُور کر کے صاف صاف بتا دیاہے کہ تم جسے دُور سمجھ رہے ہو‘ وہ دُور نہیں ہے‘ تمہارے بالکل قریب ہے. اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے‘ جب چاہو اور جہاں چاہو اُس سے ہم کلام ہوجاؤ. اقبال نے اپنی ایک نظم میں نقشہ کھینچا ہے کہ اللہ کاارشادہے کہ یہ جو میرے دربان بن کر بیٹہ گئے ہیں کہ ان کو خوش کئے بغیر مجھ تک رسائی نہیں ہو سکتی‘ یہ سب ڈھکوسلہ ہے. ان کو ہٹا دو‘ میرا دربار ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا ہوا ہے. یہاں کسی کے لیے کوئی قدغن نہیں‘ خلوص کے ساتھ جب اور جہاں چاہو مجھے پکارو اور مجھ سے جو چاہو مانگو. علامہ اقبال کا شعر ہے ؎
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو!

یہ نہیں ہے کہ تمہاری دُعا کسی پوپ‘ کسی پادری‘ کسی پروہت‘ کسی پجاری‘ کسی پنڈت یا کسی پیر ہی کی وساطت سے مجھ تک پہنچ سکتی ہے! دیکھئے عجب اتفاق ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہونے والے سب مہاپرشوں کے نام’’پ‘‘ ہی سے شروع ہوتے ہیں .تو ان سب خود ساختہ واسطوں اور وسیلوں کو درمیان میں سے ہٹادو. اللہ کا ربط و تعلق بندے کے ساتھ براہِ راست ہے. یہاں کسی واسطے کی ضرورت ہے ہی نہیں! اس تعلق کے مابین حجاب ہم خود ہیں. ہماری حرام خوری ہے جو حجاب بنی ہوئی ہے. ہماری غفلتیں ہیں جو حجاب بنی ہوئی ہیں. اپنی غفلتوں کا پردہ چاک کیجئے اور آج اللہ کی جناب میں توبہ کیجئے! وہ ہر آن‘ ہر لحظہ تمہاری دُعا کو سننے والا ہے. وہ ہمیشہ ہی قریب رہتا ہے اور رمضان میں تو اس عموم میں خصوص پیدا ہوجاتا ہے.

ذرا سوچئے تو سہی کہ آیت مبارکہ کے اس حصہ میں ہمارے لیے کتنی بشارت‘تسلی‘ تسکین اور راحت کا سامان رکھ دیا گیا ہے. ا س میں انسان کے لیے کتنی آزادی کا پیغام ہے! آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کے منشور(Magnacharta) کی بہت دھوم ہے‘ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا میگنا کارٹا اور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق ‘ اس سے فریاد‘ اس سے استغاثہ‘ اس سے حاجت روائی کی درخواست میں کوئی ’’پ‘‘ سے شروع ہونے والا‘ جن کی فہرست مَیں گنوا چکا ہوں‘ حائل نہیں ہے.

میں صوفیاء کرام کے سلسلۂ ارشاد کی نفی نہیں کر رہا. کوئی خدا ترس مرشدہو‘ جو قرآن و سنت کی روشنی میں تزکیۂ نفس کرنے اور صحیح طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چلانے والا ہو تو 
کُوْنُوْ ا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کی قرآنی ہدایت کے مطابق ایسے مرشدین سے ضرور فیض حاصل کرنا چاہئے. لیکن ہمارے یہاں پیری مریدی کا جو عام اور غلط تصور رائج ہے اس کے اعتبار سے میں اس کی نفی کر رہا ہوں.

یہاں نبی اکرم ‘ کی زبان مبارک سے ہمیں خوش خبری دی جارہی ہے: 
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ آپ کو معلوم ہو گا کہ دُعاکے لیے وضو بھی شرط نہیں ‘ آپ حالات ناپاکی میں بھی دُعا مانگ سکتے ہیں. دُعا پرکوئی قدغن نہیں ہے‘ آپ ہر حال میں اپنے ربّ کے حضور دستِ سوال دراز کر سکتے ہیں.

البتہ ایک بات ملحوظ رہے‘ آیت کے اس حصہ میں پکارنے والے کی ہر پکار سننے اور جواب دینے کا ذکر ہے. یہاں یہ شبہ لاحق نہ ہو کہ ہر دُعا کے قبول کرنے کا حتمی وعدہ 
بھی ہے. بیچارے بندے کو کیا خبر کہ وہ جو دُنیوی چیز اللہ سے مانگ رہا ہے‘ اس میں اس کے لیے خیر ہے یا شر! کون سی شے اس کے حق میں مفید ہو گی اور کون سی مضر! دُعائیں وہی قبول ہوں گی جو اللہ کی رحمت و حکمتِ مطلقہ کے منافی نہیں ہوں گی. لیکن نبی ٔ رحمت ‘ نے یہ خوش خبری دی ہے کہ بندہ ٔ مؤمن کی کوئی دُعا نہ ردّ ہوتی ہے‘ نہ ضائع. وہ جس چیز کے لیے دُعا کرتا ہے اگروہ اللہ تعالیٰ کے علم کاملہ میں بندے کے حق میں مفید ہوتی ہے تو اسے وہی عطا کر دی جاتی ہے‘ یا پھر اس سے بہتر چیز عنایت ہو جاتی ہے‘ یا پھراللہ ربّ الکریم اس دُعا کو بندے کے حق میں نیکی قرار دے کر اس کے اجر و ثواب کو آخرت کے لیے محفوظ فرما لیتا ہے‘ اس دُعا کے عوض اس کے نامۂ اعمال میں سے بہت سی برائیوں کے داغ دھو دیئے جاتے ہیں. الغرض بندۂ مؤمن کی کوئی دُعا ضائع نہیں ہوتی. وہ کسی نہ کسی صورت میں قبول ہوتی ہے.

اب اس آیت مبارکہ کا اگلا حصہ پڑھئے. اس میں دو شرطوں کا بیان آرہا ہے. پہلی یہ کہ: فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اور دوسری یہ کہ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ ان دونوں کو سمجھنا ہو گا. پہلی شرط میں فرمایا کہ میرے بندوں کو بھی چاہئے کہ میرا حکم مانیں‘ میری پکار پر لبیک کہیں. میں جب پکاروں فوراً حاضر ہوجائیں‘ جس چیز کا حکم دوں بجا لائیں‘ جس کام سے اور جس چیز سے روک دوں ‘ رک جائیں. فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ ’’پس انہیں بھی چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں.‘‘ یک طرفہ معاملہ (Oneway Traffic) نہیں چلے گا. آپ کو قرآن مجید میں یہ بات متعدد جگہ ملے گی کہ اللہ تعالیٰ یک طرفہ معاملہ نہیں فرماتا. جیسے سورۃ البقرۃ میں فرمایا:اَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ ’’ تم اس عہد کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا ہے‘ میں اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیاہے.‘‘اور جیسے سورۂ ابراہیم میں فرمایا: لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷﴾ ’’ اگر تم ہمارا شکر کرو گے تو ہم تمہیں اور زیادہ نعمتیں دیں گے‘ اور اگر تم نے ناشکری کی تو پھر ہمارا عذاب بھی بڑا سخت ہوگا.‘‘

اور جیسے سورۂ محمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ ’’اے اہل ایمان! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے‘ تو وہ تمہاری مدد کرے گا.‘‘ تم اللہ(کے دین) کی مدد نہ کرو‘ بلکہ اس کے دشمنوں سے ساز باز کرو‘ اس کے باغیوں سے یارا نہ گانٹھو اور چاہو کہ اللہ تمہاری مدد کرے تو یہ نہیں ہوگا. ہاں اس کا ارشاد ہے کہ اگر تم مجھے یا د رکھو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا. فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْ کُرْکُمْ اور ایک حدیثِ قدسی میں تو بڑے پیارے الفاظ آتے ہیں کہ ’’میرا بندہ میرے بارے میں جو یقین رکھتا ہے میں اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں. جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں‘ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں‘ اور اگر وہ مجھے ساتھیوں میں یاد کرتا ہے تو میں اسے بہتر ساتھیوں میں (ملاء اعلیٰ‘ ملائکہ مقرین کی محفل میں) یاد کرتا ہوں ‘ اور اگر وہ ایک بالشت بھر میرے قریب آتا ہے تو میں ہاتھ بھر اُس کے قریب ہو جاتا ہوں‘ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کے پا س دوڑ کر آتا ہوں‘‘. (رواہ البخاری و مسلم) تو دو طرفہ معاملہ ہوگا.

اسی طریقہ سے اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری دُعائیں قبول کروں تو تم بھی میری پکار پر لبیک کہو. وَلْیُؤْمِنُوْ ا بِـْی ’’اور انہیں چاہئے کہ مجھ پر ایمان پختہ رکھیں‘‘ .اس آیت کا اختتام ہوتاہے ان الفاظ مبارکہ پر: لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ’’تاکہ ان پر فوزو فلاح اور رشد وہدایت کی راہیں کھل جائیں (اور یہ ان راہوں پر گامزن ہوجائیں)‘‘. 

اگلی آیت (نمبر۱۸۷) میں روزے سے متعلق احکام ہیں. اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابتدائی حکم آیا تھا کہ ’’تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے تم سے پہلے لوگوں پرفرض کیا گیا.‘‘اب شریعت موسوی میں سحری کاکوئی نظام نہیں تھا. رات کو سوجاؤ تو روزہ شروع اور روزے کے دن کے علاوہ شب میں بھی تعلقِ زن وشو کی اجازت نہیں تھی. یہ دوشرطیں بڑی کڑی تھیں‘ صحابہ کرام ؓ کو یہ مغالطہ تھا کہ شاید یہ پابندی ہمارے یہاں بھی ہے. لیکن چونکہ کوئی واضح حکم بھی نہیں تھا لہذا کوئی نہ کوئی رات کو بیوی کے ساتھ ہم 
بستری کر بیٹھتا تھا‘ لیکن دلوں میں یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ ہم نے غلط کام کیاہے‘ گناہ کا ارتکاب کرلیا ہے. اس پس منظر میں احکام دے دیئے گئے کہ اس اعتبار سے تمہارا روزہ یہود کے روزے سے مختلف ہے. اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ؕ ’’حلال کیا گیا تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ہم بستری اور ان سے تعلق قائم کرنا.‘‘ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ؕ ’’وہ تمہارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو.‘‘ جیسے انسان کے لباس اور اس کے جسم کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی ایسے ہی میاں بیوی کے درمیان ‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ کوئی پردہ نہیں .یہ بڑے لطیف انداز میں تعلق زن و شو کی تعبیر ہے.

آگے ارشاد فرمایا : عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ ’’اللہ خوب جانتا ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے.‘‘ یہ بڑا بلیغ پیر ایہ ہے. فرض کیجئے کہ ایک شخص بکری کا گوشت کھا رہا ہے‘ لیکن اسے شک ہے کہ شاید یہ سُور کاہے‘ تو وہ گناہ گار ہوگیا‘ کیونکہ جیسے ہی اسے شک ہواتھا کہ یہ خنزیر کا گوشت ہے‘ اسے رک جانا چاہئے تھا. اگر وہ اس شبہ کے باوجود کھا رہاہے تو اپنے آپ سے خیانت کر رہا ہے. مفہوم یہ ہواکہ اگرچہ فی نفسہٖ روزے کی شب میں تعلقِ زن و شو جائز تھا‘ لیکن جس کایہ خیال تھا کہ یہ ناجائز ہے‘ پھر بھی کر بیٹھا ‘وہ تو گناہ گار ہو گیا.اب تسلی دی جا رہی ہے کہ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ ۚ ’’اس نے تم پر نظرِ عنایت کی اور تمہاری خطا کو معاف کردیا‘‘.اس حصہ میں اللہ کے فضل وکرم کا بیان ہے. آگے قانون واضح فرما دیا کہ یہ حرام اور ناجائز ہے ہی نہیں. تم خواہ مخواہ کے شک اور وہم میں مبتلا رہے. فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ’’ اب تم (روزے کی راتوں کوبلاروک ٹوک) مباشرت کر سکتے ہو اور (خواہش کرو‘ حاصل کرو)تلاش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے.‘‘اس سے مراد اولاد بھی ہے جو اللہ تعالیٰ اس تعلقِ زن و شو کے نتیجہ میں عطا فرماتا ہے اور تسکین بھی. لِتَسْکُنُوْا اِلَیْہَا یہ بھی اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے جو اللہ نے انسان کے لیے رکھی ہے. دوسری رعایت یہ ہے کہ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا ’’کھاؤ اورپیو‘‘.رات کے وقت کھانے پینے پرکوئی قدغن نہیں ہے. البتہ ایک حد مقرر ہے‘ وہ ہے کہ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ’’یہاں تک کہ رات کی کالی دھاری سے صبح کی سفید دھاری تمہیں صاف دکھائی دینے لگے (ممیز ہو جائے).‘‘یہ وہ وقت ہے جسے ہم پو پھٹنا کہتے ہیں. جب ایک لکیر سی مشرق میں نظر آتی ہے یہ گویا طلوعِ فجر ہے. اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے. 

یہ سحری ہے جس کی صرف اجازت ہی نہیں بلکہ تاکید ہے. حضور کا ارشاد گرامی ہے : سَحِّرُ وْا فَاِنَّ فِیْہِ بَرَکَۃٌ ’’سحری ضرور کیاکرو ‘اس لیے کہ اس میں بڑی برکت ہے.‘‘آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے اوریہود کے روزے کے مابین در حقیقت یہ سحری ہی مابہ الامتیاز شے ہے .پھر اس میں بڑی وسعت رکھی گئی ہے. فرض کیجئے کہ کوئی مسلمان سحری کھار ہا ہے. ایک نوالہ اس کے مُنہ میں ہے اور ایک ہاتھ میں ہے اور شک ہو گیا ہے کہ شاید پو پھٹ گئی ہے‘ تب بھی وہ اس برکت کو پورا کرلے. اس میں تشدد اور سختی سے منع کیاگیا ہے. گویا اس طور پر نبی اکرم  یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ کی تبیین اور تشریح فرما رہے ہیں. آگے فرمایا: ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج ’’پھر روزے کو پورا کرو رات تک‘‘ .اہل سنت کے تمام فقہی مکاتب کے نزدیک غروبِ آفتاب کے معاً بعد رات شروع ہوجاتی ہے. یہ بات نبی اکرم ‘ کی سنت سے ثابت ہے. اس بارے میں احادیث شریفہ میں ہمیں حضور ‘ کی یہ تاکید ملتی ہے کہ افطار میں جلدی کیا کرو‘ اسی میں برکت ہے. اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے. اہل تشیع کے یہاں معاملہ مختلف ہے‘ لیکن ہمارے لیے صحیح عمل یہی ہے کہ سنت کے مطابق غروب آفتاب کے فوراً بعد افطار کر لیا جائے.

اس آیت کے آخری حصے میں حکم آیا کہ : 
وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ’’ اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہوتو رات کوبھی تعلقِ زن و شو کی اجازت نہیں.‘‘اس سے معلوم ہوا کہ اعتکاف ماہ رمضان المبارک کی ایک خصوصی عبادت ہے. حضور اکرم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے. یہ نبی اکرم  کی سنت اور بڑی عظیم نفلی عبادت ہے. اس کے تفصیلی احکام بھی سنت ہی سے ملتے ہیں. اعتکاف کی برکات اور حکمتوں کے متعلق موقع ملا اور اللہ کو منظور ہوا تو پھر کبھی تفصیل سے کچھ عرض کروں گا. یہاں حالت اعتکاف میں مباشرت کی قطعی ممانعت وارد ہوگئی. البتہ بیوی مسجد میں آسکتی ہے‘ گفتگو کر سکتی ہے‘ مشورہ لے سکتی ہے. آگے فرمایا : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا ’’ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ ان کے قریب بھی مت جانا.‘‘تجاوز کرناتو دُور کی بات ہے‘ وہ کھلی معصیت ہے‘ فرمایا جار ہاہے کہ حدود کے قریب بھی نہ پھٹکنا‘ ذرا فاصلے پر ہی رہنا. 

اس بات کو نبی اکرم نے ایک نہایت بلیغ اسلوب سے سمجھایا اور واضح فرمایا ہے کہ:’’ ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ ہوتی ہے. اللہ نے جو چیزیں حرام کر دی ہیں وہ اس کی محفوظ چراگاہ کے مانند ہیں. کوئی چرواہا اپنے گلّے کو اگر آخری حد تک لے جائے گا تو کبھی کوئی بھیڑ بکری چھلانگ لگائے گی اور اس ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہوجائے گی.لہذا بہتر یہ ہے کہ کچھ فاصلے پر رہو‘‘. اس آیت کا اختتام ان الفاظ مبارکہ پر ہوتا ہے: 
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ ’’اس طرح اللہ اپنی آیات کی لوگوں کے لیے وضاحت فرماتاہے (اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے) تاکہ وہ اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچیں( تقویٰ اختیار کریں)‘‘ یہاں اس رکوع کی پانچویں آیت ختم ہوتی ہے .پہلی آیت ختم ہوئی تھی ان الفاظ پر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ جبکہ یہ آیت ختم ہوتی ہے لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ پر. اس سے بھی آپ رمضان کے پورے پروگرام کا تقویٰ سے جو گہرا تعلق ہے‘ اس کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں.