اکلِ حلال اور تقویٰ کا باہمی تعلق

اس رکوع کی آخری آیت کا بظاہر رمضان کے روزوں سے تعلق معلوم نہیں ہوتا‘ لیکن حقیقت میں بہت گہرا تعلق ہے. اس لیے کہ دو مقامات پر بڑے شدّو مدسے روزوں کی غایت تقویٰ بیان فرمائی گئی ہے. اس کے متعلق سوچنا پڑے گا کہ اس تقویٰ کا ’’معیار‘‘ کیا ہے اور اس کا عملی ظہور کس طور سے ہوگا! کیا تقویٰ کا تعلق کسی خاص قسم کی وضع قطع سے ہے! کیا تقویٰ کسی خاص شکل و صورت کا نام ہے کہ داڑھی رکھ لی ہے ‘ وہ بھی ’’شرعی مقدار‘‘کے مطابق؟ اور ازار ٹخنوں سے اونچا پہننے کا اہتمام ہے؟ تو کیا اس طرح تقویٰ کے تقاضے پورے ہوگئے؟ 

معاذ اللہ ان چیزوں کی نفی نہیں ہے. جو چیز بھی سنت کے مطابق ہے‘ وہ اپنی جگہ نورانی ہے اوریقینا ہمارے لیے قابل قدر ہے. میں نے یہ اندازِ گفتگو آپ لوگوں کو چونکانے کے لیے اختیار کیاہے ‘چونکہ اصل تقویٰ یہ چیزیں نہیں ہیں. اصل تقویٰ کیاہے؟ وہ ہے اکلِ حلال!
اکلِ حلال ہے تو تقویٰ ہے‘ یہ نہیں ہے تو تقویٰ نہیں ہے.چاہے کتنی ہی شکل و صورت اور وضع قطع ان چیزوں کے مطابق بنا لی گئی ہو جن کو عام طور پر ’’تقویٰ‘‘ سمجھا جاتا ہے وہ اصل تقویٰ نہیں ہے. عبادتوں کے کتنے ہی ڈھیر لگا لئے گئے ہوں اور ہر سال عمرے پر عمرے اور حج پر حج کئے جارہے ہوں تو یہ بھی اصل تقویٰ نہیں ہے. یہ اہم بات سمجھنے کی ہے. میں پہلے آپ حضرات کو بتا چکا ہوں کہ روزے میں آپ حلال چیزیں کیوں نہیں کھاتے! تعلقِ زن و شو قائم کیوں نہیں کرتے! اس لیے کہ اللہ کا حکم نہیں ہے. لیکن روزے کی حالت میں آپ دوسرے نواہی ٔ شریعت کا ارتکاب کر رہے ہیں تو آپ نے درحقیقت روزہ رکھا ہی نہیں. یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا. یہ فتویٰ ہے محمد رسول اللہ کا.حضور نے فرمایا:

مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃً فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ (بخاری ‘ ابو داوٗد‘ ترمذی: عن ابی ہریرہ ؓ ) 
’’جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پرعمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے.‘‘

محض بھوکا پیاسا رہنے سے کیا حاصل؟ یہ روزہ تو نہ ہوا کہ روزہ رکھا ہوا ہے اور کاروبار میں‘ عام بات چیت میں دھڑلّے سے جھوٹ بول رہے ہیں. روزہ رکھا ہوا ہے اور جُوا کھیل رہے ہیں‘ تاش‘ شطرنج‘ کیرم یا اسی نوع کی خرافات کاشغل ہو رہا ہے. کوئی ٹوکے توجواب ملتا ہے کہ’’روزے کو بہلایا جار ہا ہے‘‘ ’’غیبت‘‘ ازروئے قرآن مجید کیا ہے؟ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا! روزہ رکھ کر حلال جانور کا حلا ل گوشت تو کھا نہیں رہے اور بے محابہ غیبتیں کر کر کے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھار ہے ہیں. اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یہ روزہ کہاں ہوا! یہ فاقہ ہے‘ روزہ نہیں!یہ میرا یا کسی مولوی کا نہیں بلکہ حضور ‘ کا فتویٰ ہے. حضور اکرم  فرماتے ہیں: کَمْ مِّنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صَوْمٍ اِلَّا الْجُوْعُ… ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کو اپنے روزے سے بھوک پیاس کے سوا اور کچھ نہیں ملتا.‘‘ تو اگر فی الواقع روزہ رکھا ہواور اس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہو تو اس کا معیار اور اس کی کسوٹی ہے اکل حلال!

چنانچہ اس رکوع کی آخری آیت میں فرمایا: وَلَا تَاْْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ’’اور آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ.‘‘یعنی حرام طریقوں سے ایک دوسرے کے مال ہڑپ نہ کرو.وَ تُدْلُوْا بِہَا اِلَی الْحُکَّامِ ’’اور اپنے اموال کو (رشوت کے طور پر اور ناجائز طریقوں سے دے دلا کر) حکام تک پہنچنے کا ذریعہ مت بناؤ.‘‘ لِتَاْ کُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنز ’’ کہ اس طرح لوگوں کے مال کا کچھ حصہ جانتے بوجھتے ناحق اور گناہ سے ہضم کر جاؤ.‘‘یعنی ایسانہ کرنا کہ حکام کو رشوت دی اورکسی کا حق اپنے نام کرالیا‘قاضی کو کوئی رشوت دی اور کسی کی زمین کی ڈگری اپنے نام کرا لی‘ سرکاری اہل کاروں کو رشوت دی اور کسی کا مال کھا گئے. گویا یہ رشوت حرام کی ایک بڑی نمایاں شکل ہے. 
اس آخری آیت کے دو حصے ہیں. پہلے حصہ میں تو حرام کاروبار سے اور دیگر حرام طریقوں سے آمدنی کی کلی ممانعت ہو گئی. جیسے سودی لین دین‘ سٹہ اور اسی قبیل کے تمام ناجائز ذرائع سے کمائی کی نفی ہو گئی. دوسرے حصہ میں حکام تک رسائی کے لیے رشوت کو ذریعہ بنانے اور لوگوں کے مال ناحق اورناجائز طریقوں سے ہڑپ کرنے سے مجتنب اور باز رہنے کی خاص طور پر تاکید ہو گئی اور روزے اوررمضان کے احکام کے ساتھ اس آیت کو رکھ کر گویا یہ رہنمائی دے دی گئی کہ جان لوکہ اصل تقویٰ یہ ہے. اگر حرام خوری سے باز نہ آؤ تو پھر چاہے تم عبادات کے ڈھیر پر ڈھیر لگالو‘ وہ تقویٰ حقیقی نہیں ہوگا ‘بلکہ تقویٰ کا بہروپ ہو گا. وہ تمہاری کچھ رسومات ہیں جن کا تم نے طومار باندھ رکھا ہے‘ وہ حقیقی عبادات سرے سے ہیں ہی نہیں!

اس آیت مبارکہ اور ان احادیث سے جو ابھی پڑھی گئی ہیں‘ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تقویٰ کا حقیقی معیار اکلِ حلال ہے. اکل حلال کی اہمیت کے بارے میں نبی کریم  کی ایک حدیث کا مزید مطالعہ کر لیجئے. اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں اور اسے امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے. حدیث مبارک کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی طَیِّبٌ لَا یَقْبلُ اِلَّا طَیِّباً ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ صرف پاک چیزیں ہی قبول کرتا ہے.‘‘اس کے بعد رسول اللہ نے قرآن حکیم کی دو آیات تلاوت فرمائیں جن میں رسولوں اور مؤمنوں کو ا کلِ حلال کا حکم دیا گیا ہے. ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ ’’پھرحضور نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کر کے آتا ہے‘اس کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہیں‘‘.

فرض کیجئے کہ کوئی شخص آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دور دراز سے حج کے لیے نکلا ہے اور بہت طویل سفر کر کے عرفات تک پہنچا ہے. آج کل تو آپ ہوائی جہاز سے تین چار گھنٹے میں جدہ اور آگے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں مکہ مکرمہ پہنچ جاتے ہیں. پھر حج کے مناسک کی ادائیگی کے لیے جو سہولتیں اِس دَور میں مہیا ہیں‘ ان سے متمتع ہو کر اگر واپسی کی جلدی ہو تو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ میں حج کے تمام مناسک سے فارغ ہو کر آرام سے اپنے شہر واپس پہنچ سکتے ہیں.

لیکن ذرا اُس دَور کا تصور کیجئے کہ کوئی شخص فَجٍ عَمِیْق (دور دراز کی راہوں) سے آیا ہے. اسے تو مہینوں کی مسافرت طے کرنی پڑی ہے. اس کا جو حلیہ بنا ہو گا اسے چشم تصور میں لائیے. حضورفرماتے ہیں: یَمُدَّ یَدَہٗ اِلَی السَّمَاءِ یَا ربِّ یا ربِّ ’’یہ شخص آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھا کر پکار ہا ہے اے میرے پروردگار‘ اے میرے مالک و آقا!‘‘ وَ مَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَّ مَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَّ مَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَّ غُذِّیَ بِالْحَرَامِ ’’ حالانکہ اس کا کھانا بھی حرام کا ‘ پینا بھی حرام کا‘ لباس بھی حرام کا اور اس کا جسم حرام کی غذا سے بنا ہے.‘‘ اس شخص کے بارے میں حضور فرماتے ہیں: فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟ ’’ تو ایسے شخص کی دُعا کیسے قبول کی جائے؟‘‘

یہ حرام خوری اس کے اور اس کے ربّ کے درمیان حجاب بن گئی ہے. اس کی دُعا قبول ہو تو کیسے ہو؟ ایک وضاحت پیشِ نظررہے کہ یہاں جس حرام کا ذکر ہے اُس سے کھانے پینے کی وہ چیزیں مراد نہیں ہیں جو نصوصِ قطعی سے حرام ہیں ‘بلکہ وہ حرام خوریاں ہیں جن کا آج کل عام رواج ہے اور جن کے حرام ہونے کا خیال 
اِلاَّ مَاشَاءَ اللّٰہ لوگوں کو ہی رہ گیا ہے. اس رکوع کی یہ آخری آیت اس اعتبار سے بڑی اہم ہے کہ اس نے ہمارے سامنے حقیقی تقویٰ کا ایک معیار رکھ دیا ہے. اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان تمام نواہی اور منکرات سے بچ سکیں جن سے ہمارا دین ہمیں بچانا چاہتا ہے ‘اور صحیح تقویٰ اختیار کرنے کے لیے ہمارے دلوں میں طلب صادق پیدا فرمائے اور اس پر پوری زندگی مستقیم رہنے کے لیے ہماری نصرت فرمائے. آمین یا ربّ العالمین!

اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم و لسائر المسلمین والمسلمات