فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا زوال

ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی کیریئر کا آغاز
جنوری ۱۹۶۹ء

اب سے ڈھائی تین ماہ قبل پاکستان کی سیاسی فضا میں جو زبردست طوفانی ہلچل پیدا ہوئی تھی‘ اس کا زور تو اگرچہ اب کم ہوگیا ہے اور دوبارہ کچھ ویسی ہی سکون آمیز کیفیت سیاسی میدان پر طاری ہوگئی ہے جیسی کسی بڑے طوفانِ بادو باراں کے بعد فضا پر طاری ہوتی ہے (۱تاہم اس طوفان نے سیاسی میدان کے بہت سے گوشوں کو نکھار دیا ہے اور بہت سے زیر سطح رجحانات کو سطح پر لاکر نمایاں کردیا ہے. ’’میثاق‘‘ اگرچہ ملکی سیاسیات سے بالعموم زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا‘تاہم اس وقت جو صورت حال سامنے ہے اس سے بالکل صرفِ نظر بھی ممکن نہیں. بنا بریں ہم بعض مسائل و معاملات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں.

میدانِ سیاست کی اس حالیہ سرگرمی کی ابتدا کچھ تو واقعتاً طوفانی انداز کی تھی اور کچھ اس بنا پر بہت زیادہ طوفانی محسوس ہوئی کہ ایک عرصے سے ہمارے ملک میں سیاست کے میدان پر قبرستان کی سی خاموشی طاری تھی… ورنہ ظاہر ہے کہ ہر آزاد ملک میں کچھ نہ کچھ سیاسی سرگرمی تو ہر وقت ہی جاری رہتی ہے‘جو انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی کبھی کبھی طوفانی انداز اختیار کرلیتی ہے (جیسا کہ حال ہی میں فرانس میں ہوا تھا). رہے درمیانی درجے کے ممالک تو ان میں تو اکثر و بیشتر سیاست چلتی ہی اس انداز پر ہے‘مثلاً ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں سال بھر کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب اس کے کسی نہ کسی حصے میں بالکل اسی طرح کی صورت حال موجود نہ رہتی ہو 
(۱) اگرچہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ عین ممکن ہے کہ یہ سکوت و سکون کسی دوسرے طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت ہو! جیسی ہمارے یہاں اس طوفان کے ابتدائی دنوں میں تھی . ہمارے یہاں چونکہ ایک طویل عرصے کے تعطل کے بعد سیاسی سرگرمی کا آغاز ہوا تھا لہٰذا کچھ تو یہ فی نفسہٖ تیز و تند (rash) تھی اور کچھ انتظامیہ بھی اس کے لیے تیار نہ تھی.چنانچہ اس کی جانب سے صورت حال سے عہدہ بر آ ہونے میں شدید غلطیاں ہوئیں. نتیجتاً آگ مزید بھڑکی اور کچھ ایسا سماں بندھا کہ ایک بار تو بالکل ایسے محسوس ہوا جیسے صدر ایوب کی حکومت خاتمے پر ہے اور پاکستان فوری طور پر کسی نئی سیاسی و انتظامی صورت حال سے دو چار ہونے والا ہے. لیکن رفتہ رفتہ صورت حال سنبھل گئی . چنانچہ ایک طرف کچھ تو ایجی ٹیشن کا زور مدھم پڑا اور کچھ حکام سنبھلے‘اور دوسری طرف کچھ اپوزیشن کی اپنی صفوں کے بعض رخنے منظر عام پر آئے اور کچھ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح کی جانب سے بھی سیاسی گفتگو پر آمادگی کا اظہار ہوا. نتیجتاً حالات و 
واقعات نے کسی فوری اور ہنگامی معاملے کی بجائے مسلسل اور مستقل سیاسی سرگرمی کی صورت اختیار کرلی!

ہمارے نزدیک سیاسی میدان کی یہ سرگرمی بجائے خود ملک و ملت کے حق میں ایک فال نیک ہے. قبرستان کی سی خاموشی یا جیل کا سا ’’سب اچھا!‘‘حکمرانوں کے نقطہ نظر سے چاہے کتنا ہی خوش آئند ہو‘کسی آزاد ملک اور زندہ قوم کے حق میں زہر ہلاہل سے کسی طرح کم نہیں.

ہمارے نزدیک عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملکی و ملی مسائل سے بھرپور دلچسپی لیں اور اپنے بھلے اور برے کے بارے میں خود سوچیں. اپنے ملک کے انتظامی معاملات کا فیصلہ اور اپنی قومی پالیسیوں کے رخ کا تعین عوام کا حق ہی نہیں فرض ہے… اور خاص طور پر پاکستان ایسے زیر ترقی ملک میں تو اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ عوام انتظامیہ پر نہ صرف یہ کہ کڑی نظر رکھیں بلکہ اسے پوری طرح لگام دے کر رکھیں ورنہ سیاسیات کے اس مشہور و معروف اصول کے مطابق کہ ’’اختیار و اقتدار میں بے راہ روی کا رجحان فطری طور پر موجود ہوتا ہے اور اقتدارِ مطلق تو لازماً بے راہ ہوکر رہتا ہے !‘‘ (۲ایک بے لگام اور بگٹٹ انتظامیہ کا بے راہ اور کج رو ہونا قطعی و یقینی ہے! (۲)"Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely" قیام پاکستان کے ابتدائی دس سالوں میں ملکی سیاست کے بازار میں خاصی رونق رہی تھی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’پارلیمانی سیاست‘‘ کی گہما گہمی اور حالات کی تبدیلی اور واقعات و حوادث کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا تھا… اگرچہ مضبوط اور محکم سیاسی جماعتوں کے فقدان کے باعث میدانِ سیاست کی یہ ساری گرما گرمی خیر کے بجائے شر پیدا کرتی چلی گئی‘جس کا منطقی نتیجہ ۱۹۵۸ء کے فوجی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا. ہم نے مئی۱۹۶۷ء میں ان ہی صفحات میں ۱۹۵۸ء کے اس فوجی انقلاب کی نوعیت‘اس کے اسباب و علل اور عواقب و نتائج کے بارے میں جو رائے پیش کی تھی وہ حسب ذیل ہے:

’’میدانِ سیاست کے اس اختلال کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل کر رفتہ رفتہ سروسز کے جانب منتقل ہوتی چلی گئی ‘ تاآنکہ ۱۹۵۸ء میں صدر ایوب نے تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے کر فوجی حکومت قائم کردی اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر ایک طرف حکومت کا پورا نظم و نسق کلیۃً سروسز کے حوالے کردیا اور دوسری طرف بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے سیاسی حقوق اور اختیارات کو تدریجاً عوام کے جانب منتقل کرنے کا وہی سلسلہ ازسر نو شروع کیا جس پر تقریباً نصف صدی قبل غیر ملکی حکمران عمل پیرا ہوئے تھے. گویا پاکستان کی عوامی سیاست ایک دم واپس نصف صدی قبل کے مقام پر پہنچ گئی!ملی اور قومی نقطۂ نگاہ سے یہ صورتِ حال یقینانہایت تشویش ناک اور پریشان کن ہے اور ہر مخلص اور محب وطن پاکستانی کو لازماً اس پر سخت مضطرب اور غمگین ہونا چاہیے… لیکن اس حقیقت کو ہر آن پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس کا اصل سبب قوم میں سیاسی شعور کی خطرناک حد تک کمی اور ملی و قومی احساسات کا خوف ناک حد تک فقدان ہے!کسی ایک یا چند افراد کے سر اس پوری صورت حال کی ذمہ داری تھوپ دینا یا سیاسی بے بصیرتی کا شاہکار ہے یا علمی خیانت کا!‘‘

بہرحال مارشل لاء کے نافذ ہوتے ہی فطری طور پر ملکی سیاست کا بازار ایک دم بند ہوگیا اور تمام سیاسی حلقے موت و زیست کی کش مکش سے دوچار ہوگئے.

مارشل لاء تو ہمارے ملک میں اگرچہ چند ہی سال جاری رہا اور چاہے کسی کو پاکستان کے موجودہ دستور سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو بہرحال یہ ایک واقعہ ہے کہ ۱۹۶۲ء سے ہمارے ملک میں ایک باقاعدہ دستوری حکومت قائم ہے 
لیکن بالکل ایسے جیسے حضرت سلیمان ؑ کی وفات کے بعد بھی ایک عرصے تک جنوں اور شیطانوں پر ان کی ہیبت و وحشت کے اثرات قائم رہے تھے‘ ہمارے سیاسیئین کو بھی مارشل لاء کے صدمے سے ہوش میں آنے میں کافی وقت لگا اور مارشل لاء کے خاتمے کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک ملکی سیاست کے میدان میں مکمل سرد بازاری کا سماں طاری رہا!

یہ واقعہ ہے کہ مارشل لاء کے صدمے سے سب سے پہلے ہوش میں آنے والی جماعت‘جماعت اسلامی تھی‘جو سیاسی جماعتوں پر سے پابندی اٹھ جانے کے فوراً بعد ایک منظم جماعت کی حیثیت سے برسر کار ہوگئی … اور یہ اس لیے ممکن ہوسکا کہ اس کے کارکنوں نے مارشل لاء کے دوران بھی کسی نہ کسی صورت میں اپنی اجتماعیت کو برقرار رکھا تھا. دوسرے نمبر پر حرکت میں آنے والا گروپ نظامِ اسلام کا تھا. مسلم لیگ کے احیاء کی کوشش ہوئی تو وہ فوراً سرکاری اور مخالف ِسرکار دو حصوں میں منقسم ہوگئی. رہے پاکستان کے اکثر قدیم‘خاندانی اور پیشہ ور سیاست دان تو ان کی اکثریت صورت حال کو کچھ زیادہ امید افزا نہ پاکر بدستور گوشہ عافیت میں دبکی رہی. 

۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات کے موقع پر ۱۹۵۸ء کے بعد پہلی مرتبہ ملکی سیاست کے میدان میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی‘ اور محترمہ فاطمہ جناح کی ہمت و جرأت نے مارشل لاء کے عصائے سلیمانی کو دیمک کی طرح چٹ کرلیا. تب سیاسی سورماؤں کو ہوش آیا اور وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے. لیکن اب وقت کم تھا اور صدر ایوب کی سیاسی حکمت عملی نے انتخابات کو ملتوی کرنے سے انکار کرکے ’’احزاب‘‘ مخالف کے ہاتھوں سے موقع چھین لیا!

اس موقع پر مخالف احزاب نے ’’COP‘‘ کے نام سے جو متحدہ محاذ قائم کیا تھا اس کے پاس عوام کو اپیل کرنے کے لیے آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کے قیام کا بھاری بھرکم نعرہ تھا. لیکن تجزیے سے جو بات سامنے آتی تھی وہ صرف یہ تھی کہ صدارتی طرز حکومت کے بجائے پارلیمانی طرز کا احیاء مطلوب تھا اور بس. اس مطالبے اور اس کے لیے متحدہ محاذوں کے قیام کے بارے میں ہماری پختہ رائے وہی ہے جو ہم نے مئی ۱۹۶۷ء کے متذکرہ بالا تذکرہ و تبصرہ میں عرض کی تھی‘یعنی یہ : ’’ساتھ ہی یہ موٹی سی بات بھی ہر مخلص پاکستانی کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس کا علاج نہ صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت یا بلا واسطہ و بالواسطہ انتخابات کے مسئلوں پر وقتی ہنگامے اٹھانے سے ہوسکتا ہے‘نہ مینڈکوں کی پنیری کی طرح کے بالکل انمل بے جوڑ متحدہ محاذوں کے قیام سے!اس صورت حال کی اصلاح کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ بالکل فطری طریق پر عوام میں سے کوئی سیاسی جماعت ایسی اٹھے جو مسلسل محنت و مشقت اور پیہم جدوجہد کے ذریعے ایک طرف ان میں سیاسی شعور اور اپنے بھلے اور برے کی حقیقی پہچان پیدا کرے اور دوسری طرف ایک بڑی تعداد میں ایسے قومی کارکنوں کو تربیت دے کر تیار کرے جو ہر طرح کے مفادات سے صرف نظر کرکے خالص اصولوں کے لیے کام کرسکیں اور اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ مخلصانہ تعلق اور قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے انتھک محنت و مشقت اور ایثار و قربانی کی صلاحیت رکھتے ہوں!‘‘

۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات کے بعد کے چار سالوں کے بعض حالات و واقعات کا تذکرہ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کے صحیح تجزیے اور ان مختلف عوامل کے صحیح فہم کے لیے ناگزیر ہے جو اس وقت ملک کی سیاسی فضا میں برسرِ کار ہیں:

(۱۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات کے دوران جو زلزلہ سا صدر ایوب کے ایوانِ اقتدار میں محترمہ فاطمہ جناح کی شرکت کے باعث آ گیا تھا‘اس سے خبردار ہوکر صدر ایوب نے اپنی سیاسی حیثیت کومستحکم کرنے اور اس غرض کے لیے اپنی جماعت کو مضبوط بنیادوں پر ازسر نو منظم کرنے کی جانب توجہ کی اور واقعہ یہ ہے کہ اس کے لیے انہوں نے سرتوڑ کوشش کی. چنانچہ ابتدائی زمانے میں جبکہ احزاب اختلاف ابھی کچھ تو اپنی انتخابی شکست کے زخم چاٹنے میں مصروف تھیں اور کچھ باہم دست و گریباں بھی ہوگئی تھیں‘ کنونشن لیگ کی تنظیم نو کا خاصا چرچا ہوا اور کچھ عرصے تک تو یہ محسوس کیا گیا کہ شاید آئندہ اس ملک کی واحد سیاسی تنظیم سرکاری لیگ ہی ہوگی… لیکن جلد ہی یہ بات واضح ہوگئی کہ نہ تو صدر ایوب عوام میں کوئی جذبۂ تازہ پیدا کرسکے اور نہ ہی مخلص اور محنتی کارکنوں کی کوئی ٹیم تیار کرسکے.چنانچہ ادھر کچھ عرصے سے صدر ایوب کے قریبی حلقے کے لوگ بھی برملا اعتراف کر رہے ہیں اور غالباً حالیہ سیاسی ہنگاموں کے بعد تو صدر ایوب خود بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ کو ایک منظم اور فعال عوامی جماعت بنانے کی کوشش میں قطعاً ناکام ہوگئے ہیں اور اس کوشش میں جو وقت اور سرمایہ صرف ہوا وہ اکثر و بیشتر ضائع ہوگیا ہے!

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی عوامی جدوجہد کے دوران محنت و مشقت اور ایثار و قربانی کے ذریعے منظم و مستحکم ہوا کرتی ہیں اور مصائب و تکالیف کے الاؤ اور ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزر کر ہی ان کے کارکنوں کا مسِ خام کندن بنتا ہے.مسند ِاقتدار تک رسائی کے بعد سے تو فوری طور پر کسی سیاسی جماعت کا زوال شروع ہوجاتا ہے. حکومت کے ایوانوں اور اقتدار کی مسندوں پر بیٹھ کر سیاسی جماعتوں کی تنظیم کی کوشش ویسا ہی احمقانہ خیال ہے جیسا یہ منصوبہ کہ پہلے سیدھے یا ٹیڑھے جس راستے سے بھی ممکن ہو اقتدار پر قبضہ جما لیا جائے اور پھر اس کے ذریعے ایک عوامی اسلامی انقلاب برپا کیا جائے.

واقعہ یہ ہے کہ کنونشن لیگ سے منسلک لوگوں میں سے اکثر و بیشتر کی اصل نظر مفادات پر ہے اور ان ہی کی باہمی بندر بانٹ پاکستان مسلم لیگ کی اصل اجتماعی سرگرمی ہے‘نہ اس کے پاس مخلص کارکن ہیں اور نہ ہی عوام کی پشت پناہی اسے حاصل ہے.نتیجتاًصدر ایوب کی حکومت یا تو خود ان کی اپنی ذات کے بل پر قائم ہے یا سروسز کے سہارے‘اس کی کوئی حقیقی اور واقعی سیاسی اساس موجود نہیں ہے.

(۲۱۹۶۵ ء کی پاک ہند جنگ بلاشبہ گزشتہ صدارتی انتخابات کے بعد کے دور کا اہم ترین واقعہ ہے. ملک کے بقا و دفاع اور خاص طور پر اس کی خارجہ حکمت عملی کے اعتبار سے تو اس کی اہمیت اظہر من الشمس ہے ‘ملک کی داخلی سیاست پر بھی اس کے بہت گہرے اثرات مترتب ہوئے. ہمیں یہاں اس سترہ روزہ جنگ کے اسباب و علل سے تو سرے سے کوئی بحث ہی نہیں‘اس کے تمام عواقب و نتائج کا استحصاء بھی مطلوب نہیں‘البتہ ان میں سے چند ایسے امور کا تذکرہ ناگزیر ہے جن کا براہِ راست تعلق ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے ہے.

* ان میں سے اہم ترین امر تو یہ ہے کہ اس جنگ کے جو نتائج بر آمد ہوئے ان کی بناء پر صدر ایوب کی سیاسی حیثیت کو شدید دھکا لگا اور ان کا جو ستارہ ایشیا کے ایک عظیم رہنما یا بالفاظِ دیگر ایشیائی ڈیگال کی حیثیت میں عروج کی جانب حرکت کر رہا تھا‘مائل بہ زوال ہوگیا. 

* دوسرے یہ کہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی جو چند سال قبل سے مسلسل ایک خاص رخ پر بڑھتی چلی جا رہی تھی ایک انتہا پر پہنچ کر نہ صرف یہ کہ رک گئی بلکہ واپس قدیم سمت میں گردش کرنے لگی اور بظاہر احوال بھی اس میں کم از کم اعتدال کا رنگ نمایاںہوگیا. 

* تیسرے یہ کہ مسلم قومیت کا جو جذبہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا سب بنا تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد جلد ہی سرد پڑ گیا تھا‘اس جنگ کے دوران نہ صرف یہ کہ ایک دم پھر بیدار ہوا بلکہ ایک بار پھر اپنے پورے عروج کو پہنچ گیا‘اگرچہ اس کا یہ زور شور (tempo) اب کی بار بھی عارضی ہی ثابت ہوا اور جنگ کے بعد جلد ہی یہ جذبہ پھر سرد پڑنا شروع ہوگیا. 

پاکستان کی خارجہ حکمت عملی اور پاکستانی قومیت دونوں کے اعتبار سے پاکستان کی سیاسیات میں جو مد اس جنگ کے دوران آیا تھا‘صدر ایوب کو تو اپنی مخصوص ذمہ دارانہ حیثیت کی مجبوریوں کی بنا پر اسے ایک خاص حد تک لے جانے کے بعد واپس جذر کی جانب لوٹنا پڑا… لیکن ان کے ایک اپنے تربیت دادہ نوجوان ساتھی نے مد سے جذر کی جانب رجوع سے انکار کردیا اور وہ اسی مقام پر کھڑا رہ گیا. نتیجتاً اس نے اس مد کے لیے علامتی حیثیت اختیار کرلی. بس یہیں سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی اصل ذاتی سیاسی زندگی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک بالکل نئے باب کا آغاز ہوگیا!

(۳) قدیم سکہ بند احزابِ اختلاف‘جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا‘۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات کے بعد کچھ عرصہ تو کچھ اپنی انتخابی شکست کے زخموں کو سہلانے میں مصروف رہیں اور کچھ باہمی اختلافات میں الجھی رہیں. اس کے فوراً بعد ۱۹۶۵ء کی پاک ہند جنگ واقع ہوگئی جس میں پوری قوم متحد اور یکسو تھی اور اختلاف و افتراق کی گنجائش ہی نہ تھی. جنگ کے فوراً بعد اعلانِ تاشقند سے انہیں صدر ایوب کی حکومت کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آیا تھا اور مخالف جماعتوں کے جوشیلے کارکن اس پر مصر بھی تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جائے . لیکن بعض بزرگ سیاست دانوں نے عوامی ایجی ٹیشن کی تجویز کو رد کر کے ایک پرامن آئینی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی‘کونسل مسلم لیگ‘نظام اسلام پارٹی‘عوامی لیگ اور مشرقی پاکستان کے قومی جمہوری محاذ پر مشتمل ایک متحدہ محاذ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کے نام سے معرض وجود میں آ گیا‘ جو تقریباً دو سال سے سہل انداز میں اور سہج چال سے لیکن بڑے تسلسل و استقلال کے ساتھ دھیمے دھیمے آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک مسٹر بھٹو نے ہنگامہ کھڑا کرکے اسے بالکل نئی صورت حال سے دوچار کردیا. 

پی ڈی ایم کو اس بات کا کریڈٹ بہرحال دیا جانا چاہیے کہ اس نے تقریباً دو سال تک بحالی ٔجمہوریت کے لیے بڑی مستقل مزاجی سے کام کیا ہے اور اس کے لیے واقعی اور حقیقی محنت کی ہے. اگرچہ وہ جس شائستہ (sophisticated) قسم کے طریق کار کی عادی ہے‘اس سے کسی بھی حکومت کو فوری طور پر خائف ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی‘کجا کہ ایک ملک کی اپنی نوکر شاہی (beurocracy) کی حکومت کو‘جو ایک حقیقی عوامی جمہوری حکومت کے سوائے باقی تمام قسم کی حکومتوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے … تاہم اس میں شک نہیں کہ کم از کم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پی ڈی ایم کی حالیہ دو سالہ جدوجہد ایسی منظم اور مسلسل اور آئینی و پر امن جدوجہد کی کوئی دوسری مثال جماعت اسلامی کی ابتدائی دستوری مہموں کے سوا نہیں ملتی .

اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ پی ڈی ایم کا اصل تنظیمی ڈھانچہ بھی جماعت اسلامی ہی کے سہارے قائم ہے اور اس کی اصل روح رواں بھی جماعت اسلامی ہی ہے. پی ڈی ایم میں شامل دوسری تمام جماعتیں اور پارٹیاں چند معروف سیاست دانوں کی باہمی ایسوسی ایشنوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں. وہ اصل جماعتی تنظیم جس کے بل پر پی ڈی ایم کا سارا کاروبار چل رہا ہے ‘صرف جماعت اسلامی کی ہے.

پی ڈی ایم کے بارے میں ایک اور اہم بات جو پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس پر دائیں بازو کے رجحانات کا فیصلہ کن غلبہ ہے. بائیں رجحانات کے حامل صرف نہایت نرم طبع اور معتدل مزاج لوگ ہی اس میں کھپ سکے ہیں اور انہیں بھی جلد یا بدیر اس سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی … یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اس اعتبار سے بھی اصل علامتی حیثیت اس گروہ میں جماعت اسلامی ہی کو حاصل ہے. اور یہ‘جیسا کہ ہم بعد میں قدرے تفصیل سے عرض کریں گے‘ اس ملک میں اسلام کے مستقبل کے اعتبار سے ایک بہت بڑی بدقسمتی کا آغاز ہے.

(۴) سوشلسٹ ذہن اور بائیں بازو کے رجحانات مشرقی پاکستان کی حد تک تو کم از کم اتنے ہی’’قدیم‘‘ ہیں جتنا خود پاکستان‘لیکن مغربی پاکستان میں یہ رجحانات زیادہ تر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد ابھرے ہیں. اور گزشتہ دو ڈھائی سال کے عرصے میں ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رجحانات تیزی کے ساتھ پھیلے بھی ہیں اور مختلف تنظیمی ہیئتوں کی شکل میں نمودار بھی ہوئے ہیں. اس کا ایک سبب ملک کی معیشت میں ’’صنعتی انقلاب‘‘ کے اثرات بھی ہیں‘جن سے موجودہ استحصالی نظام معیشت کی گھناؤنی صورت کھل کر سامنے آرہی ہے. تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیکاری سے بھی ان رجحانات کو تقویت حاصل ہوئی ہے. ان کے علاوہ ہماری گزشتہ پانچ چھ سال کی خارجہ پالیسی نے بھی‘جس کے مدّو جذر کے جانب ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں ‘ان رجحانات کو تقویت دی ہے . غرض کہ مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر ہمارے ملک میں سوشلسٹ نظریات اور بائیں بازو کے رجحانات نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی قوت کی صورت اختیار کرلی ہے.

مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اس کی ایک عظیم علامت ہیں اور مغربی پاکستان میں یوں تو اس کے کئی ایک دھڑے ہیں لیکن ان کے اصل علامت کی حیثیت بلاشبہ مسٹر بھٹو کو حاصل ہوگئی ہے. اگرچہ ان دونوں کے مابین اشتراکِ عمل کی کوئی واضح صورت تاحال سامنے نہیں آئی‘تاہم یہ ایک یقینی امر ہے کہ عنقریب ان دونوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہوجائے گی اور پھر یہ بائیں بازو کا وہ اصل مرکز (nucleus) ہو گا جس کے گرد ملک کے تمام سوشلسٹ عناصر حتیٰ کہ معتدل مزاج (یا عام اخباری اصطلاح کے مطابق ماسکونواز)طبقے بھی جو اس وقت پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں ‘جلد یا بدیر جمع ہونے پر مجبور ہوجائیں گے.

(۵) گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران تدریجاً ایک اور قوت بھی پاکستانی سیاست کے منظر عام پر نمودار ہوئی ہے. ہماری مراد جمعیت علمائے اسلام سے ہے جس نے اس عرصے میں رفتہ رفتہ خاصی قوت بہم پہنچائی ہے اور اپنے منتشر اثرات کو خاصے مضبوط تنظیمی سلسلے میں منسلک کرلیا ہے. یہ تنظیم اگرچہ اپنی ہیئت اور نوعیت کے اعتبار سے دوسری تنظیموں مثلاً جماعت اسلامی سے بہت مختلف انداز کی ہے (مثلاً اس کے یہاں کاغذی کارروائی اور دفتری نظام شاید بالکل ہی دقیانوسی اور primitive طرز کا ہو‘لیکن ایک مشترک ذہنی ساخت اور مشترک اندازِ فکر اور اس کے ساتھ ساتھ ایک شاندار ماضی کے ورثے کی بنا پر اس گروہ نے بہت جلد ایک نہایت منظم اور فعال فطری تنظیم کی صورت اختیار کرلی ہے. عوام میں اس کی جڑیں انتہائی زیریں سطحوں (substrata) تک گہری اتری ہوئی ہیں. دینی مدارس اس کے مستقبل مراکز اور اللہ کے گھر اس کے مستقل دفاتر ہیں. اس کے عام کارکن ہی نہیں اکابر تک سب خالص عوامی کارکن ہیں. سادگی‘دین داری اور غایت درجہ خلوص کے ساتھ نہایت زور دار جذبۂعمل اس کے شعائر ہیں. ان تمام چیزوں کے پیش نظر یہ اندازہ قطعاً مبالغہ پر مبنی نہیں ہے کہ آئندہ پاکستان کی سیاست کے میدان میں جمعیت علمائے اسلام نہایت موثر رول ادا کرے گی.

ہم انہی صفحات میں چند ماہ قبل یہ عرض کرچکے ہیں کہ یہ گروہ ذہناً و قلباً خالص حسینی ہے‘ یعنی علمائے دیوبند کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جس کے سرگروہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ تھے. اس طرح ان کا تعلق تحریک آزادی ٔہند و استخلاصِ وطن کے اس قدیم و عظیم سلسلے سے جا ملتا ہے جو تحریک شہیدین سے شروع ہوکر‘۱۸۵۷ء کے جہادِ آزادی سے ہوتا ہوا‘اور پھر تحریک خلافت اور ریشمی رومالوں کی تحریک ایسی دوسری متعدد چھوٹی چھوٹی کڑیوں سے گزر کر بالآخر جمعیت علمائے ہند پر ختم ہوا تھا اور اس پورے عرصے میں اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا رہا تھا. آزادء ہند سے متصلاً قبل مسلمانان ہند کی ایک عظیم اکثریت نے اس گروہ کے راستے کو چھوڑ کر ایک دوسرا راستہ اختیار کرلیا تھا جو بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا. یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اول اول اس طبقے پر شکست کا سا احساس طاری رہا‘ اور ان حضرات نے ایک عرصے تک حلقہ دیوبند کے ان دوسرے اکابر کی سیادت قبول کرکے جنہوں نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا گوشہ عافیت میں پناہ لیے رکھی. ۵۳-۱۹۵۲ء میں مجلس احرار اسلام نے جو عظیم سیاسی ایجی ٹیشن برپا کیا تھا ‘اس کی پشت پر اصل قوت اسی گروہ کی تھی. اس کے فوراً بعد جب پاکستانی سیاست میں انتشار برپا ہوا اور مسلم لیگ کو فیصلہ کن سیاسی حیثیت حاصل نہ رہی تو اس گروہ نے بھی اپنی حامی ٔمسلم لیگ قیادت کا جو اگر دن سے اتار پھینکا اور خالصتاً اپنا اصل اور قدیم رنگ اختیار کرلیا. 

اُس وقت سے اب تک اندر ہی اندر ان کی تنظیم وسعت اختیار کرتی رہی اور اس کے کارکنوں میں جو ش و جذبہ بیدار ہوتا رہا. گزشتہ سال ان کی جو کانفرنس لاہور میں موچی دروازے کے باہر ہوئی تھی‘اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ جلد ہی جمعیت پاکستان کی عملی سیاست میں مؤثر طور پر دخیل ہوگی… اور واقعہ بھی یہی ہے کہ مارشل لاء کے بعد سے جو سکوت و سکون پاکستانی سیاست پر طاری تھا اور لوگ جس طرح سہمے سہمے سے تھے‘ اس میں پہلی ہلچل اور اولین سیاسی سرگرمی جمعیت ہی کے زیر اثر پیدا ہوئی. ہماری مراد اس کامیاب ایجی ٹیشن سے ہے جو ڈاکٹر فضل الرحمن کی کتاب کے خلاف برپا ہوئی تھی اورجس سے چھٹکارا پانے کے لیے حکومت ِوقت کو ڈاکٹر صاحب موصوف کو قربانی کا بکرا بناناپڑا تھا!

اس گروہ کے بارے میں اہم ترین بات جو نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا رجحان بائیں بازو کی جانب ہے اور چاہے اس کا سبب مغربی استعمار سے شدید نفرت کا وہ قدیم جذبہ ہو جو انہیں اپنے اسلاف سے ورثے میں ملا ہے اور گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے‘ چاہے یہ واقعہ ہو کہ چونکہ یہ خود ایک خالص عوامی قوت ہیں لہٰذا عوام کی دقتوں اور مشکلات کا زیادہ قریبی احساس رکھتے ہیں‘اور چاہے یہ ہو کہ ماضی میں ان کا اشتراکِ عمل جس عظیم سیاسی تحریک کے ساتھ رہا ہے (ہماری مراد ماضی کی انڈین نیشنل کانگرس ہے)اس پر بالعموم سوشلسٹ خیالات کا غلبہ تھا… سبب یا اسباب خواہ کچھ بھی ہوں بہرحال واقعہ یہی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کا رجحان بائیں بازو کی جانب ہے . چاہے اس کے اکابر و رہنما خالص اور بے آمیزش اسلام ہی کے علمبردار ہوں‘اس کے کارکنوں میں کثیر تعداد ایسے جوشیلے لوگوں کی شامل ہے جو اسلام کے ساتھ سوشلزم کا پیوند نظری طور پر درست اور بحالاتِ موجودہ عملاً لازمی خیال کرتے ہیں!

یہی وجہ ہے کہ شرق اوسط کی سیاست میں بھی یہ حضرات صدر ناصر کے حامی و موید اور شاہ فیصل کے ناقد و مخالف ہیں‘ اور تازہ سیاسی ہنگامے میں بھی ان کی شرکت اولاً نیشنل عوامی پارٹی اور بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ ہوئی ہے. اس صورت حال کا صحیح اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انگلستان سے واپسی پر جب مولانا مودودی نے غیر معمولی گھن گرج کے ساتھ سوشلزم کے حامیوں کو چیلنج کیا تو اس کے جواب میں جمعیت علمائے اسلام کے سرکاری آرگن’’ترجمان اسلام‘‘ نے ’’مودودی صاحب کی تازہ گھن گرج‘‘کے عنوان سے تحریر فرمایا :

’’لندن کی سرد آب و ہوا سے صحت یاب ہوکر مودودی صاحب پاکستان کے نسبتاً گرم ماحول میں تشریف لا چکے ہیں جس کی گرمی میں کافی اضافہ ان کی غیرحاضری کے دوران کے پیدا شدہ گرم سیاسی موسم نے کر رکھا ہے. آپ نے ۳۰ دسمبر کی شام کو لاہور میں مختلف حصوں سے آئے ہوئے اپنی جماعت کے کارکنوں سے زبردست گھن گرج کے عالم میں فرمایا کہ’’جب تک ہم زندہ ہیں اس وقت تک کسی کی یہ ہمت نہیں ہے کہ یہاں اسلام کے سوا کسی اور نظام کو لا سکے.‘‘مودودی صاحب کی یہ گھن گرج اگر اس دعویٰ کی حقیقتاً حامل ہوتی اور اپنے ان فرمودات کے دوسرے حصوں میں خود ہی انہوں نے اپنی اس ’’گھن گرج‘‘ کی بالمعنی تردید نہ فرما دی ہوتی تو اس اعلان کا خیر مقدم پاکستان کا ہر دین دار مسلمان تہ دل سے کرتا. لیکن اسے کیا کیجیے کہ اس ساری ’’گھن گرج‘‘ کا مقصد صرف یہاں پہنچ کر ختم کردیا گیا کہ ’’اسلام اور سوشلزم کا پیوند لگانا ممکن نہیں‘‘ اور یہ کہ ’’یہ محمد ِؐ عربی کی امت کا ملک ہے‘یہ مارکس یا ماؤزے تنگ کی امت کا ملک نہیں ہے‘‘. سوال یہ ہے کہ اسلام اور سوشلزم کے پیوند کا انکار کرنے والا اسلام اور برطانوی پارلیمانی نظام کے پیوند کا بھی انکار کیوں نہیں کرتا؟ اور محمد عربی ؐ کی اُمت کے اس ملک کے مارکس اور ماؤزے تنگ کی اُمت کا ملک ہونے کی نفی کرنے والا اس ملک میں اُس برطانوی سیاسی نظام کی بحالی کی جدوجہد میں کیوں مصروف ہے جو گلیڈ سٹون‘لائڈ جارج ‘چرچل وغیرہ کا تراشیدہ اور رائج کردہ ہے؟ آخر اسلامی نظام کے قیام کی یہ بلند بانگ صدا صرف سوشلزم ہی کے مقابلہ میں کیوں اتنی ’’گھن گرج‘‘دکھاتی ہے اور کیوں برطانوی پارلیمانی نظام کی حمایت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ اس نظام کے ہر چھوٹے بڑے جزو کو بھی قبول کرتی چلی جاتی ہے؟‘‘ (ترجمان اسلام:۱۰جنوری۱۹۶۹ء) الغرض ایک مدت ِطویل کے حبس کے بعد جو طوفانی کیفیت گزشتہ ڈھائی تین ماہ کے دوران پاکستانی سیاست کے میدان پر طاری رہی تھی‘اس کے مدھم پڑتے ہی جو نئی صورت حال سامنے آئی ہے اور گزشتہ چند سالوں سے جو رجحانات زیر سطح تقویت پاتے رہے ہیں ان کے ایک دم سطح پر آجانے سے سیاست کی جو تازہ بساط پاکستان میں بچھی ہے‘اس کا مختصر نقشہ یہ ہے:

(۱) جہاں تک حکومت وقت کا تعلق ہے ‘وہ کچھ ایک فرد کی ذاتی شخصیت کے سہارے اور زیادہ تر نوکر شاہی کے بل پر قائم ہے. اس کی عوامی و سیاسی جڑیں اول تو کوئی ہیں ہی نہیں‘اور جو ہیں ان کی حیثیت بھی زیادہ سے زیادہ ان اضافی جڑوں (adventitious roots) کی سی ہے جو بعض درختوں (مثلاً برگد)کی شاخوں سے اُتر کر زمین میں پنجے گاڑ لیتی ہیں اور درخت کے پھیلاؤ کے لیے اضافی سہاروں کا کام دیتی ہیں.

(۲) پاکستانی سیاست کا وہ دور اب گزر چکا جب سیاست صرف اصحابِ دولت و ثروت کے مشغلے کی حیثیت رکھتی تھی اور گنتی کے چند جاگیردار اور سرمایہ دار (جن میں تازہ اضافہ بعض نو دولتیے صنعت کاروں کا ہوا تھا)اس پر کامل اجارہ داری رکھتے تھے. اب یہاں عوامی سیاست کے دور کا آغاز ہوگیا ہے اور وہ دور قریب آیا چاہتا ہے جس کی خبر علامہ اقبال مرحوم نے اپنے ان اشعار میں دی تھی کہ ؎ 
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ 
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

اور ؎
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا

(۳) پاکستان کی موجودہ بساطِ سیاست کے عناصر اربعہ یہ ہیں:ایک دائیں بازو کے قدیم خاندانی اور پیشہ ور سیاست دان جو اکثر و بیشتر زمینداروں اور سرمایہ داروں کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اگرچہ اس وقت متعدد سرکاری و غیرسرکاری لیگوں میں منقسم ہیں لیکن درحقیقت ملت واحد ہیں اور اور کسی بھی وقت ؏ ’’آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘کے مصداق باہم متحد ہوسکتے ہیں (کنونشن لیگ اور کونسل لیگ تو خالص ہم جنس ہیں ہی‘عوامی لیگ میں البتہ لیگی الاصل عناصر کے ساتھ بعض حقیقی عوامی عناصر بھی شامل ہیں‘لیکن سیاست کی موجودہ تیز رفتاری کے پیش نظر ان کا جلد ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجانا قطعی ہے).دوسرے‘دائیں بازو 
کی مضبوط مذہبی جماعت … جماعت اسلامی. تیسرے‘بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن میں سے کچھ فی الوقت پی ڈی ایم (یا تازہ تر ڈی اے سی)میں شامل ہیں اور کچھ اس کے باہر ہیں. چوتھے‘بائیں بازو کی مذہبی جماعت …جمعیت علمائے اسلام .(۳

(۴) پاکستان کی آئندہ سیاسیات کا اصل محور (axis) دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات کا تصادم ہوگا (۴اور متذکرہ بالا موجودہ بساطِ سیاست میں جو گروہ بندیاں اس محور کے علاوہ کسی اور بنیاد پر قائم ہیں یا ابھی قائم ہو رہی ہیں وہ جلد یا بدیر ٹوٹ کر رہیں گی اور نئی صف بندی (alignment) اسی محور کے گرد ہوگی.

اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل حذر لیکن قطعاً یقینی امر یہ ہے کہ دائیں اور بائیں بازو کی بیرونی قوتیں بھی اب پاکستانی سیاست میں پہلے سے کہیں زیادہ دخیل ہوں گی اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر کے دفاع اور ان میں توسیع کے لیے زیادہ سے زیادہ امکانی حد تک اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی. 

(۵) ہمارے نزدیک اس وقت ملک کی داخلی سیاست کے اصل بنیادی مسائل دو ہیں. ایک یہ کہ سیاسی اختیارات جو مختلف اسباب و عوامل کی بنا پر عوام کے بجائے نوکر شاہی کے قبضے میں چلے گئے ہیں‘وہ اختیار و اقتدار کے اصل مالکوں یعنی جمہور کو منتقل کیے جائیں . دوسرے یہ کہ دولت اور خصوصاً ذرائع پیداوار جو عوام الناس کے بجائے ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری بن گئے ہیں انہیں پوری قوم میں عدل و انصاف کے ساتھ تقسیم کیا جائے. گویا کہ پہلی ’’سلطانی ٔجمہور‘‘ (۳) رہے بعض وہ ’’تازہ واردانِ‘‘ بساطِ سیاست جو آزاد سیاست دانوں کی حیثیت سے دنگل میں شریک ہوئے ہیں تو اس سے قطع نظر کہ ہمارے نزدیک ان حضرات کی کوئی واقعی سیاسی اہمیت نہیں ہے اور ان میں سے بعض کا جو شاندار استقبال ہوا ہے وہ بھی ہمارے نزدیک پاکستانی قوم کے ایک طبقے کے سیاسی افلاس کا مظہر ہے‘چونکہ وہ تقریباً سب کے سب دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہم انہیں میدانِ سیاست کا پانچواں سوار بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ متذکرۃ الصدر عناصر اربعہ میں سے پہلے عنصر ہی کا ضمیمہ سمجھتے ہیں!

(۴) جس کی ایک ناخوشگوار ابتداء لاہور او ر کراچی میں دائیں بازو کی انتہائی جماعت جماعت اسلامی اور بائیں بازو کے انتہا پسند لوگ یعنی پی پی پی کے کارکنوں کے سرپھٹول کی شکل میں ہو چکی ہے. کے نظام کے واقعی اور حقیقی نفاذ کی کوشش ہے اور دوسری ’’دورِ سرمایہ داری‘‘ کے منحوس اثرات اور نقوشِ کہن کو مٹانے کی سعی و جہد ہے.

ہمارے نزدیک یہ دونوں ہی کوششیں درست بھی ہیں اور مبارک بھی‘اور ملک کے ہر ذی شعور شہری کا فرض ہے کہ وہ ان میں اپنی صلاحیت‘استعداد اور قوتِ کار کے مطابق حصہ لے. اسلام کے نزدیک یہ دونوں ہی مقاصد محمود ہیں. اسلام ایک طرف اسے بھی گوارا نہیں کرتا کہ بندگانِ خدا کی گردنوں پر کوئی ایک فرد یا کچھ افراد یا کوئی مخصوص طبقہ خدائی کا تخت جما کر بیٹھے… اور دوسری طرف عدل وانصاف پر بھی انتہائی زور دیتا ہے. چنانچہ 
وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (۵آنحضور کے فرائض منصبی میں سے ہے اور لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ

 (۶کتابِ الٰہی کا مقصد نزول ہے اور دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ(۷کی کوئی صورت اسلام کے نزدیک کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں!
لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں اس وقت ان دونوں ہی میں شدید افراط و تفریط سے کام لیا جا رہا ہے. دائیں بازو کے اہل سیاست نے صرف پہلے کام پر نگاہوں کو مرکوز کردیا ہے اور دوسرے معاملے کے ضمن میں وہ ’’وعدۂ فردا‘‘ سے آگے قدم بڑھانے کو تیار نہیں‘اور مزید بد قسمتی یہ کہ ’’سلطانی جمہور‘‘ کے ذیل میں بھی ان کے سارے تصورات یورپ کے مبنی بر الحاد فکر سے مستعار لیے ہوئے ہیں. دوسری طرف بائیں بازو کے حامی لوگوں نے اپنی اصل توجہ دوسرے کام پر مرکوز کردی ہے اور ’’عدل اجتماعی‘‘ کے لیے نظام بھی ان کے پیش نظر خدا تعالیٰ اور رسول کا عطا کردہ نہیں ‘بلکہ مارکس‘ لینن اور ماؤزے تنگ کا وضع کردہ ہے!! (۵) ’’اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں تمہارے مابین انصاف کروں.‘‘ (الشوریٰ:۳۸)

(۶) ’’تاکہ لوگ عدل و انصاف کے نظام پر قائم رہیں‘‘ (الحدید:۲۵)

(۷) ’’(سرمائے کا) اُلٹ پھیر تمہارے اہل ثروت ہی کے مابین.‘‘ (الحشر:۷اس صورت حال میں ہر اس شخص کے لیے جو اول و آخر صرف مسلمان ہو اور جس کے نزدیک دین ومذہب ہر چیز پر مقدم ہوں ‘ایک اہم لمحہ فکریہ ہے. ایسے سب لوگوں کو خواہ وہ موجودہ سیاسی سرگرمی میں کسی حیثیت سے شریک ہوں خواہ کسی خالص غیر سیاسی کام میں مصروف ہوں‘ اس صورت حال کا بنظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے اور آئندہ پیش آنے والے حالات کے مد نظر دین کے احیاء اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مناسب لائحہ عمل طے کرکے اس پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے . ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

(۲
فروری ۱۹۶۹ء 
گزشتہ ماہ کا ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ ہم نے اس نسبتاً پرسکون وقفے کے دوران تحریر کیا تھا جو پاکستانی سیاست کے میدان میں پہلی طوفانی ہلچل کے بعد کچھ دنوں کے لیے آیا تھا. اور اگرچہ ہم نے اس وقت کی سکون آمیز کیفیت کے بارے میں اس خدشے کا اظہار بھی کردیا تھا کہ ’’عین ممکن ہے کہ یہ سکوت و سکون کسی دوسرے طوفان کا پیش خیمہ ہی ثابت ہو‘‘ تاہم واقعہ یہ ہے کہ ہمیں قطعاً اندازہ نہ تھا کہ اس قدر فوری طور پر ایک دوسرا طوفان آجائے گا جس کی تیزی و تندی سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے گی.

بہرحال‘متوقع یا غیر متوقع‘طوفان کا یہ دوسرا ریلا تھا بہت سخت‘جس میں معاملہ جلسوں‘جلوسوں‘مظاہروں‘لاٹھی چارج اور اشک آور گیس کے استعمال سے بہت آگے نکل کر عوام کی طرف سے توڑ پھوڑ ‘لوٹ مار ‘آتش زنی و خشت باری بلکہ بعض مقامات پر مہلک ہتھیاروں کے استعمال تک … اور حکومت کی جانب سے پولیس کی فائرنگ‘فوج کی طلبی اور کرفیو کے نفاذ تک جا پہنچا. چنانچہ مشرقی و مغربی پاکستان کے درجن بھر بڑے بڑے شہروں میں مسلسل کئی روز تک لاقانونیت کا دور دورہ رہا اور شہری زندگی پر کامل تعطل کی کیفیت طاری رہی … اور اگرچہ ان سطور 
کی تحریر کے وقت صورتحال یہ ہے کہ بالعموم حالات پر قابو پایا جا چکا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ فوج کی آمد اور کرفیو کے نفاذ کے بعد کسی جگہ سے بھی کسی خاص واقعے یا حادثے کی اطلاع نہیں ملی‘چنانچہ اکثر مقامات سے کرفیو اٹھایا بھی جا چکا ہے‘تاہم حالات کسی طرح بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیے جا سکتے اور عین ممکن ہے کہ کچھ وقفے کے بعد دوبارہ نا خوشگوار واقعات کا سلسلہ شروع ہوجائے.

ہم نے گزشتہ ماہ بھی عرض کیا تھا ‘اور پھر اعادتاً عرض ہے کہ ہمیں ملک کی سیاست سے براہِ راست کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے. ہوسکتا ہے کہ اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ ع’’ہر کسے را بہر کارے ساختند‘‘ کے مصداق ہمارا مزاج ہی سیاست سے موافقت نہ رکھتا ہو اور ہم اپنی افتادِ طبع کے باعث اس سے بعد محسوس کرتے ہوں. 

لیکن جہاں تک ہماری شعوری سوچ کا تعلق ہے‘اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہمیں اصل دلچسپی دین و مذہب سے ہے اور ہماری پختہ رائے یہ ہے کہ اگرچہ ہماری ملکی سیاست کے میدان میں مسلسل دین و مذہب کا نام لیا جاتا رہا ہے اور اس وقت بھی دو مضبوط مذہبی گروہ پاکستانی سیاسیات میں برسرکار ہیں‘حقیقت یہ ہے کہ نہ ہماری موجودہ ملکی سیاست کا کوئی تعلق اسلام سے ہے اور نہ ہی گزشتہ اکیس سال کے دوران کبھی دین و مذہب کو پاکستان کی سیاست میں کسی موثر عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے. 

بایں ہمہ چونکہ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان اپنے گردو پیش سے بالکل لاتعلق نہیں رہ سکتا اور ملک و ملت کے مسائل تو بہت اہم ہیں‘گلی اورمحلے کے معاملات سے بھی کسی انسان کے لیے قطعاً لا تعلق رہنا ممکن نہیں‘لہٰذا گزشتہ ماہ بھی ہم نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کا اپنے نقطہ نظر سے تجزیہ کیا تھا اور اپنے فہم کی حد تک موجودہ سیاست کے حدود اربعہ کے تعین کی کوشش کی تھی… اور اس ماہ بھی ہم اپنی رائے‘جو خالصتاً ملک و ملت کی خیر خواہی اور قوم و وطن کی نصح و ہمدردی پر مبنی ہے‘پیش کرنا چاہتے ہیں. 
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاست سخت تشویش ناک صورت اختیار کر گئی ہے اور ملک و ملت کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ جماعتی سیاست کے تقاضوں سے بلند تر ہوکر خالص ملی و قومی سطح پر غور و فکر کریں اور اس پیچیدہ صورت حال کو جلد از جلد سلجھانے کی کوشش کریں. 

یہ ایک واقعہ ہے کہ سیاسی ایجی ٹیشن کے اس دوسرے ریلے میں لا قانونیت اور انارکی کار نگ غالب تھا . اگرچہ تمام مخالف جماعتوں نے تخریبی سرگرمیوں کی ذمہ داری سے اظہارِ براء ت کیا ہے اور توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی ساری ذمہ داری کسی قدر غنڈہ عناصر پر اور زیادہ تر حکام کے غلط اقدامات پر ڈالی ہے اور یہ الزام بھی لگایا ہے کہ یہ ساری کارروائی حکام نے سخت تر اقدامات کا جواز مہیا کرنے کے لیے ازخود اپنے ایجنٹوں سے کرائی ہے‘تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ عوامی سطح پر سیاسی شعور اور جماعتی تنظیم کی ابھی ہمارے یہاں بہت کمی ہے اور اپوزیشن کسی طرح بھی اس امر کا دعویٰ نہیں کرسکتی کہ قوم کی ایک ایسی واضح اکثریت کا اعتماد و تعاون اسے حاصل ہے کہ وہ اپنی سیاسی تحریک کو طے کردہ خطوط پرچلانے اور اسے کوئی غلط رُخ اختیار کرنے سے روکنے پر قادر ہے.

آنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے ایک مرتبہ اپنی سیاسی تحریک کو عین عروج کے موقع پر محض اس بنا پر ایک دم بند کردیا تھا کہ ایک مشتعل ہجوم نے ایک تھانے پر حملہ کردیا تھا اور اس کے باوجود کہ ان کے تمام اہم رفقاء اس پر سخت برہم ہوئے تھے اور مصر تھے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں‘وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے تھے . گویا ان کا موقف یہ تھا کہ ایسے واقعات کا ظہور ہماری سیاسی پوزیشن کی کمزوری اور عوام پر ہماری گرفت کی کمی کا ثبوت ہے ‘اور ہمیں ابھی ؎

نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی

کے مصداق عوامی تحریک چلانے سے اجتناب کرتے ہوئے اپنی توجہات عوام کے سیاسی شعور کی تربیت اور عوامی تنظیم کے استحکام پر مرکوز کردینی چاہئیں.

ہمارے یہاں‘جیسا کہ ہم نے گزشتہ ماہ بھی عرض کیا تھا‘اس وقت عوامی سیاست کے دور کا آغاز ہورہا ہے. لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بالکل شروع ہی سے سیاست کے میدان میں صحت مند روایات قائم ہوتی چلی جائیں اور مختلف الخیال عناصر اپنی اصل توجہ رائے عامہ کو بیدار کرنے اور اپنی جماعتی تنظیم کو مستحکم کرنے پر صرف کریں. ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی میں کسی کی بھی خیر نہیں ہے اور تخریبی سرگرمیوں سے موجودہ حکومت ہی کو پریشانی نہیں ہوگی بلکہ اگر یہ عادت پختہ ہوگئی تو آئندہ بھی ہر حکومت کو مسلسل دقت کا سامنا رہے گا. ہمارا سیاسی شعور ابھی بہت کچھ پختگی کا محتاج ہے اور اس نیم خام اور نیم پختہ حالت میں اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تمام محب وطن اور محب قوم عناصر پوری طرح ہوشیار رہیں‘ مبادا ملک و ملت کے دشمن انارکی کے پردے میں قوم و وطن کو کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں. 

خاص طور پر طلبہ کا مسئلہ اس وقت نہایت پیچیدہ صورت اختیار کر گیا ہے.ان میں عام بے چینی اور اضطراب کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اس کے بہت سے اسباب ہیں‘اور یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا ہی نہیں پوری دنیا کا ہے. تہذیب ِجدید نے انسان کو روحانی قدروں سے جس طرح بیگانہ کیا ہے اور اخلاقی معیارات جتنی تیزی سے پست ہوئے ہیں اس کا مظہرِ اتم بہرحال نوجوان نسل ہی کو ہونا چاہیے اور کسی اعلیٰ نصب العین کے فقدان کے باعث جو مہیب خلا انسانی زندگی میں پیدا ہوگیا ہے اس کا سب سے نمایاں اثر بھی نوجوان طلبہ ہی میں نظر آنا چاہیے. ان پیچ در پیچ اسباب کی بنا پر پوری دنیا میں نوجوان طلبہ کے طبقے کی کیفیت بالکل بارود کی سی ہے جو ذرا سی چنگاری سے بھڑک اٹھنے کو تیار ہوتا ہے. پھر خاص طور پر زیر ترقی ممالک کے اپنے مخصوص مسائل ہیں جن سے طلبہ کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے. چنانچہ ہمارے یہاں بھی یہ طبقہ ؏ ’’دیوانہ را ہوئے بس است‘‘ کے مصداق گویا منتظر ہی تھا کہ کہیں سے کوئی صورت ایجی ٹیشن کی پیدا ہو اور یہ اس میں کود پڑیں.

گزشتہ چند سالوں کے دوران ہماری حکومت نے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں پر جو پابندیاں عائد کیے رکھی ہیں ان سے بھی ان کے اندر ہی اندر ایک لاوا پکتا رہا ہے جسے بہرحال ایک نہ ایک پھٹنا تھا. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ حالیہ سیاسی ایجی ٹیشن میں اصل زور شور طلبہ ہی کا پیدا کردہ ہے اور موجودہ سیاسی ہماہمی ان ہی کی رہین منت ہے. تین ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ یونیورسٹیاں اور کالج بند ہیں اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ قطعاً معطل پڑا ہے. اور اب بھی اگرچہ کچھ کالج کھل گئے ہیں ‘بہت سے طالب علم کلاسوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود کہ ان کے کچھ مطالبات تسلیم بھی کیے جا چکے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے گویا ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں لیکن ان کا ایجی ٹیشن علیٰ حالہٖ قائم ہے اور نہ صرف یہ کہ اس میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ ان کے مطالبات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے… حتیٰ کہ مشرقی پاکستان کے طلبہ نے تو اپنے مطالبات میں تمام سیاسی طبقات کے جملہ مطالبات کو شامل کرلیا ہے.

یہ صورتحال بھی متقاضی ہے کہ ملک و ملت کے بہی خواہ اس پر اپنے اپنے جماعتی و گروہی نقطہ ہائے نظر سے نہیں بلکہ قومی و ملی نقطہ نظر سے سوچیں. جو سیاسی حلقے طلبہ کو اپنے پیش نظر سیاسی انقلاب کے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں‘وہ در حقیقت آگ سے کھیل رہے ہیں اور انہیں کسی طرح قوم اور وطن کا بہی خواہ قرار نہیں دیا جا سکتا. سیاست اصلاً ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو تعلیم سے فارغ ہوکر ملک کے ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں. طلبہ کا اصل کام یہ ہے کہ اپنے زمانہ ٔتعلیم میں آئندہ زندگی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی زیادہ سے زیادہ استعداد پیدا کریں. اسی تعلیم و تربیت کا ایک جزو یقیناً سیاسی شعور اور ملکی وقومی مسائل کی سوجھ بوجھ بھی ہے‘لیکن دوران تعلیم کسی سیاسی دھڑے کا آلہ کار بننا طلبہ کے لیے اپنے مستقبل کے اعتبار سے بھی نقسان دہ ہے اور ملک و ملت کے مجموعی مفادات کے اعتبار سے بھی سخت مضر ہے.

اس تازہ ایجی ٹیشن پر صدر ایوب کا رد عمل ہمارے نزدیک بہت صائب اور متوازن ہے. ان کے لیے ایک راستہ یہ بھی تھا کہ موجودہ صورتحال کو صرف ’’بعض شرپسند لوگوں ‘‘کی جانب منسوب کرکے تشدد کی راہ اختیار کرلیتے . اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو بہرحال حکومت کی قوت اس وقت ان کے ہاتھ میں تھی ہی. لیکن اس کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ دستوری مسائل پر گفتگو کرنے پر آمادگی ظاہر کرکے انہوں نے یقینا دانش مندی کا ثبوت دیا ہے جس کی ہمارے نزدیک قدر کی جانی چاہیے.

دوسری طرف یہ پیچیدگی بھی صاف محسوس ہو رہی ہے کہ اپوزیشن نے اب تک جو موقف اختیار کیے رکھا ہے اور جس نہج پر اپنی سیاسی تحریک کو چلایا ہے‘اس کے پیش نظر اس کے کسی بھی 
عنصر کے لیے اس وقت حکومت کے ساتھ سیاسی گفت و شنید کی راہ اختیار کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے. بائیں بازو کے لوگوں سے تو ظاہر ہے کہ اس وقت کسی گفتگو کا کوئی امکان ہی نہیں‘انہیں تو اب اس ملک کی سیاست میں حقیقی اور واقعی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے. معاملہ جو بھی ہوسکتاہے‘دائیں بازو کے ان عناصر ہی سے ہوسکتاہے جو ڈی اے سی اور صحیح تر الفاظ میں پی ڈی ایم میں شریک ہیں. لہٰذا پہلا خطرہ تو یہی ہے کہ مفاہمت کی ادنیٰ ترین کوششوں کو بھی بائیں بازو کی جماعتیں عوامی جدوجہد سے فرار اور عوامی مفادات سے غداری کے نام سے اچھالیں گی. پھر پی ڈی ایم خود کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ کئی سیاسی جتھوں کا مجموعہ ہے‘مفاہمت کی گفتگو کے شروع ہوتے ہی ان کے باہم ایک دوسرے سے الجھ جانے کا امکان بھی خارج از بحث نہیں. گویا چند در چند وجوہ کی بنا پر صدر ایوب سے مفاہمت کی گفتگو فی الوقت ان لوگوں کے لیے بھی بہت مشکل ہوگئی ہے جن کا صدر ایوب اور حکمران پارٹی سے نظریات کا کوئی اختلاف نہیں اور جنہیں بعض فروعی دستوری معاملات کے ذیل میں اپنے بعض مطالبات منوا کر منطق کے ہر اصول کے مطابق موجودہ حکمران گروہ کے ساتھ ؏ ’’آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک ‘‘کی سی کیفیت سے بغل گیر ہوجانا چاہیے.

تاہم یہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے‘جو ہماری رائے میں مشکلات اور موانع کے باوجود پورا ہوگا… اور انتشار‘لاقانونیت اور انارکی کے خطرات اور خصوصاً طالب علموں کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر‘ ہمارے نزدیک فی الوقت ملک و ملت کے مجموعی مفادات کے اعتبار سے یہی مناسب اور صحیح تر بھی ہے. 

اس مقصد کے لیے اس وقت خاص طور پر ایسے لوگوں کو میدان میں آنا چاہیے جو تحریک مسلم لیگ کے ساتھ وابستہ رہے تھے‘لیکن بعد میں مختلف اسباب کی بنا پر میدان سیاست سے ہٹتے اور گوشہ گیر ہوتے چلے گئے. چنانچہ اس وقت نہ کونسل لیگ سے وابستہ ہیں نہ کنونشن لیگ سے. متحدہ ہندوستان جب انگریز کی غلامی سے نجات پانے کی جدوجہد میں مصروف تھا تو بارہا ایسا ہوتا تھا کہ جب حکومت ِوقت اور تحریک آزادی کی علمبردار جماعتوں کے مابین کسی مسئلے پر ڈیڈ لاک ہوجاتا تھا تو کچھ ایسے لوگ حرکت میں آتے تھے جو اپنی نرم طبیعت اور دھیمے مزاج کی بنا پر سرکار دربار میں بھی رسائی رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی مخلص محب وطن بھی تھے. ایسے لوگ اگرچہ نہ تاریخ تحریکِ آزادی میں کسی نمایاں حیثیت کے مالک ہیں نہ ہی عوام نے انہیں کبھی اپنا ہیرو تسلیم کیا. تاہم اصحاب فہم و بصیرت جانتے ہیں کہ حصولِ آزادی کی جدوجہد میں انہوں نے بھی ایک مثبت کردار ادا کیا ہے. ہماری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ ہماری ملکی سیاست کی موجودہ پیچیدہ صورتحال بھی کچھ ایسے ہی لوگوں کے ناخن تدبیر سے سلجھ سکتی ہے… اور اگر ایسے لوگ اس مرحلے پر سامنے نہ آئے تو اندیشہ ہے کہ صورتحال پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی چلی جائے گی اور انتشار بڑھتا چلا جائے گا جس سے پاکستان کا وجود تک خطرے میں پڑسکتا ہے.

یہ تو ہے موجودہ پیچیدہ صورتحال کا فوری حل… باقی جہاں تک پاکستان کی موجودہ سیاست کے مستقل خطوط کا معاملہ ہے اس کے ضمن میں جو تجزیہ ہم نے گزشتہ ماہ ان صفحات میں پیش کیا تھا‘ہمیں خوشی ہے کہ قارئین میثاق نے بھی بالعموم اس سے اتفاق کا اظہار کیا اور بعد کے بعض حالات و واقعات سے بھی ان کی مجموعی حیثیت سے تائید و توثیق ہوئی. 

یہ بات اب مزید واضح ہوگئی ہے کہ آئندہ اس ملک کی سیاست کا اصل محور دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات کا تصادم ہوگا. موجودہ حکومت بھی واضح طور پر دائیں بازو کی جانب جھک چکی ہے اور پی ڈی ایم کے اکثر عناصر بھی واضح طور پر اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں. گویا پی ڈی ایم اس وقت حقیقی و واقعی اپوزیشن نہیں‘مصنوعی اپوزیشن ہے جس کا موجودہ حکومت سے اصل اختلاف نظریات پر نہیں ذاتیات پر مبنی ہے جس پر بعض فروعی دستوری اختلافات کا پردہ ڈال دیا گیا ہے. لہٰذا بساطِ سیاست کے موجودہ نقشے میں بہت جلد تبدیلیاں واقع ہوں گی اور پھر اس ملک کی سیاست کی اصل بساط بچھے گی جو دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم پر مبنی ہوگی . یہی وجہ ہے کہ ڈی اے سی کے نام سے جو وسیع تر اتحاد وجود میں آیا تھا وہ مستحکم ہونے سے پہلے ہی بکھرتا نظر آ رہا ہے . چنانچہ سابق سندھ کے بعض مقامات پر جب ڈی اے سی کے تحت جلوس نکالنے کی کوشش کی گئی تو بعض نعروں اور کتبوں کی عبارتوں پر شدید اختلاف ہوگیا‘اور ڈی سی اے کی صرف چار جماعتیں اس میں شریک ہوسکیں جبکہ بقیہ چار نے علیحدگی اختیار کی. 

دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات کے حامل… اور مغربی طرز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت اور سوشلزم و کمیونزم کے حامی عناصر کی اس باہمی ٹکر میں ہمیں اندیشہ ہے کہ اسلام کا نام خوا مخواہ لیا جائے گا جس سے کسی فریق کو تو شاید نہ کوئی نفع پہنچے نہ نقصان‘ لیکن اسلام کو یقینا ً نقصان پہنچے گا. 

حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام کی پاکستان میں نشاۃ ثانیہ کے اصل معمار مولانا غلام غوث ہزاروی کے ایک بیان پر جو لے دے ہوئی ہے اس سے یہ بحث زور شور کے ساتھ شروع ہوگئی ہے کہ آیا سوشلزم کا اسلام کے ساتھ پیوند لگ سکتا ہے یا نہیں. ہم نے گزشتہ شمارے میں جمعیت کے بارے میں جو تفصیلی رائے پیش کی تھی‘مولانا غلام غوث صاحب کے اس بیان سے اس کے اہم ترین جزو کی تصدیق ہوگئی. مولانا کے اس بیان کا اصل تعاقب حلقہ دیوبند ہی کے ان علماء کی جانب سے ہوا ہے جنہوں نے ماضی میں تحریک مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا . ان حضرات کی ہمارے دل میں واقعتاً بڑی عزت ہے‘ لیکن انہوں نے سوشلزم کو اسلام کی عین ضد اور جمہوریت کو عین اسلام ثابت کرنے کے لیے جس قسم کے دلائل دیے ہیں ان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسے بھاری بھرکم لوگوں کی جانب سے اور ایسی بچگانہ باتیں! 


اسلام بلاشبہ اپنی ذات میں ایک مکمل نظام ہے اور اساسی عقائد و نظریات سے لے کر حیاتِ انسانی کے مختلف شعبوں کی تفصیلی تشکیل تک اس کا اپنا ایک منفرد مزاج ہے جو کسی دوسرے نظرئیے یا نظام کی پیوند کاری قبول نہیں کرتا. 

چنانچہ نہ اس کے کسی جزو کا پیوند کسی اور نظام کو لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور نظام کے کسی جزو کی پیوند کاری اس کے ساتھ ممکن ہے. لیکن اگر اس بنا پر کہ اس کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے کے بعض اجزا جمہوریت کے بعض اجزاء سے جزوی مشابہت رکھتے ہیں‘ اس کا تعلق جمہوریت کے ساتھ قائم کیا جا سکتا ہے تو یقینا اس کے معاشی نظام عدل و قسط کے بھی بعض اجزاء سوشلزم کے بعض اجزاء سے مطابقت رکھتے ہیں اور اس بنا پر اسلام کا رشتہ سوشلزم کے ساتھ بھی ممکن ہے… بلکہ ہمیں یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ خلافت راشدہ میں خلیفہ کی ذات میں اختیارات کا جس قدر ارتکاز تھا اس سے مشابہت کی بنا پر آمریت کا رشتہ بھی اسلام کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے. اسلامی نظامِ معیشت و حکومت کا عروج یقینا حضرت عمر hکی خلافت کا زمانہ تھا اور اس میں جہاں جمہوریت کاملہ کے ایسے مظاہر دیکھنے میں آتے تھے کہ ایک عام مسلمان ان کو برسر منبر ٹوک دیتا تھا وہاں ان کے سفر بیت المقدس میں سوشلزم کی بلند ترین منزل کی شان بھی موجود ہے. ویسے ہمارے نزدیک‘ان دونوں ہی کے ساتھ اسلام کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کرنا نرا تکلف ہے. ہمارے یہاں نہ حامیانِ جمہوریت‘ جمہوریت کے داعی اس لیے بنے ہیں کہ انہیں اسلام کی بارگاہ سے اس کا حکم ملا ہے اور نہ ہی سوشلزم کے حامی اس کی جانب اس لیے جھکے ہیں کہ انہیں اسلام کا تقاضا یہی معلوم ہوا. یہ سب کچھ تو تاریخ کے ایک عام بہاؤ کے تحت ہورہا ہے جو گزشتہ دو تین صدیوں سے خالصتاً غیرمذہبی و لادینی رخ پر بہہ رہا ہے اور جس میں مذہب سے سرے سے کوئی بحث (reference) ہی نہیں! حامیانِ دین و مذہب کی اس عام بہاؤ کے زیر اثر پیدا ہونے والے مختلف رجحانات کو بپتسمہ دینے کی کوشش بالکل خوا مخواہ ہے!

موٹی سی بات ہے کہ فکر و فلسفے کے اعتبار سے موجودہ پوری دنیا کا امام تاحال یورپ ہے‘ اور جو خالص بے خدا و مادہ پرستانہ تہذیب وہاں سے اٹھی تھی وہ تاحال پورے کرہ ارضی پر حکمران ہے. وہاں کے ازمنہ وسطیٰ کے جاگیرداری نظام (فیوڈل سسٹم) کی کوکھ سے خالص تاریخی عوامل کے زیر اثر جو جمہوری نظام بر آمد ہوا تھا‘اس نے اولاً سیاسی شعبہ زندگی میں جمہوریت (ڈیموکریسی) کی صورت اختیار کی جس کے مختلف ممالک میں مختلف ایڈیشن تیار ہوئے. اسی جمہوریت نے بعد میں معاشی نظام میں آزاد معیشت کی راہ سے سرمایہ داری (کیپٹلزم)کی کریہہ صورت اختیار کرلی‘جس کا رد عمل سوشلزم اور کمیونزم کی صورت میں ظاہر ہوا‘جو درحقیقت نظریہ و فکر کے اعتبار سے اسی قدیم لا دینی مادہ پرستانہ سلسلہ فکر کی اگلی منطقی کڑی اور نظام کے اعتبار سے سرمایہ داری کا قدرتی رد عمل ہے. اس رد عمل کے بھی مختلف ملکوں میں مختلف ایڈیشن تیار ہوئے اور اس میں مادر پدر آزاد معیشت کی تباہ کاریوں کی روک تھام میں انسان نے ایک دوسری انتہا پر پہنچ کر فرد کی آزادی کو بالکل سلب کرکے اسے اجتماعیت کے کاملۃً بھینٹ چڑھا دیا ہے. اس کے باوجود چونکہ اس صورت میں بھی انسان اپنے اوپر کسی اور بالاتر اقتدار کو تسلیم نہیں کرتا‘لہٰذا سوشلزم کے تمام ایڈیشن بھی چاہے وہ روسی ہوں یا چینی‘مدعی جمہوریت ہی کے ہیں. چنانچہ اس وقت عالمی کمیونسٹ تحریک کاسب سے بڑا علمبردار ملک بھی ’’عوامی جمہوریہ چین‘‘ ہی کہلاتا ہے!

سیاسی و معاشی نظاموں کے انقلابات کا یہ سلسلہ اولاً تو صدی ڈیڑھ صدی میں تکمیل کو پہنچا تھا‘لیکن اب دنیا کے تمام زیر ترقی ممالک میں یہ داستان بڑی تیزی کے ساتھ دوہرائی جا رہی ہے اور یہ حالات کا ایک خالصتاً اپنا رخ ہے جو کسی مرحلے پر بھی دین و مذہب سے کوئی فتویٰ طلب نہیں کرتا. مفتیانِ دین و مذہب خوا مخواہ اس کے مختلف موڑوں پر اپنے دار الافتاء سے فتوے صادر کرنے کا تکلف کرتے رہتے ہیں.

پاکستان بھی ایک نیم ترقی یافتہ اور نیم پس ماندہ ملک ہے اور اس میں بسنے والے عوام بھی ایک نیم خوابیدہ و نیم بیدار قوم ہیں. اس نیمے دروں و نیمے بروں حالت میں جتنے دوسرے ممالک مبتلا ہیں‘عام اس سے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم‘جو کچھ وہاں ہورہا ہے وہی یہاں ہوسکتا ہے اور ہو رہا ہے… اور ہوتا رہے گا جب تک کہ دین و مذہب اس معاشرے میں واقعتا ایک مؤثر عامل کی حیثیت اختیار نہ کرلیں … جس کے امکانات بحالاتِ موجودہ دور دور تک نظر نہیں آتے!

ہمارے اس وقت کے جملہ اجتماعی مسائل کی اصل صورت یہ ہے کہ :

(۱) آج سے اکیس سال قبل آزادی کی صورت میں دفعتاً جو سیاسی حقوق و اختیارات ہمارے ہاتھ آئے‘ہم بحیثیت قوم اس کے اہل ثابت نہیں ہوئے. اور چاہے یہ کہہ لیا جائے کہ یہ حقوق و اختیارات عوام کے ہاتھوں تک کبھی پہنچے ہی نہیں.بیچ ہی میں کچھ جاگیر داروں (فیوڈل لارڈز) اور کچھ سابق حکمرانوں کی تربیت دادہ سروسزنے انہیں اچک لیا‘خواہ یہ کہہ لیا جائے کہ چونکہ عوام اس کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا رفتہ رفتہ یہ اختیارات پہلے چند پیشہ ور سیاست دانوں اور پھر ان کے بھی نااہل ثابت ہوجانے پر کلیۃً سروسز کو منتقل ہوگئے‘دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے اور اس کا رد عمل عوامی جمہوریت کی بحالی یا از سر نو قیام کی کوششوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے!

(۲) آزادی کے وقت ہمارا ملک ایک خالص زرعی ملک تھا اور ان اکیس سالوں کے دوران رفتہ رفتہ صنعت نے ترقی کی‘تا آنکہ اب ہم ایک نیم زرعی و نیم صنعتی ملک بن چکے ہیں. لیکن چونکہ یہ سارا کام مغرب سے مستعار لیے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے تحت ہوا ہے لہٰذا ہمارے یہاں بھی سرمایہ داری اپنی کریہہ ترین صورت میں ظہور پذیر ہوچکی ہے . چنانچہ ملک کی زرعی دولت پر جو اجارہ داری پہلے سے قائم تھی اس میں مزید اضافہ یہ ہوا کہ ملک کی پوری صنعت و تجارت پر بھی چند خاندانوں کا قبضہ ہوگیا ہے. اس کے رد عمل کے طور پر یہاں بھی وہی کچھ سوچا جا رہا ہے جو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں سوچا جا سکتا ہے یعنی یہ کہ تقسیم دولت اور ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت کے پورے نظام کو بیخ و بن سے اکھیڑ ڈالا جائے.

ظاہر ہے کہ یہ دونوں رد عمل تاریخ کے متذکرہ بالا عمومی بہاؤ ہی کے اجزا ہیں اور ان میں سے کسی کا بھی کوئی تعلق دین و مذہب سے نہیں !
لیکن چونکہ اتفاقاً ہمارے ملک کے عوام کو مذہب سے ایک جذباتی سا تعلق بھی ہے‘لہٰذا اس غریب کا نام خوا مخواہ اچھالا جاتا ہے. خود تحریک پاکستان کے دوران بھی‘جس کے اصل اساسی عوامل معاشرتی و معاشی تھے‘اس کا نام زور شور سے لیا گیا اور پاکستان کا مطلب ہی ’’لا الہ الا اللہ ‘‘بتایا گیا ‘جس کی حقیقت آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ربع صدی گزر جانے کے باوجود اس غریب اسلام کا زیادہ سے زیادہ اتنا ہی نام نشان یہاں نظر آتا ہے جتنا ہندوستان کے مسلمانوں میں‘بلکہ ہمارے اندازے کے مطابق اس سے بھی کم… اور اب بھی مختلف عمرانی نظریات کے حامل لوگ خوا مخواہ اس کا نام بدنام کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں !

جمعیت علمائے اسلام کا ذکر تو اس وقت رہنے دیجیے‘ اس لیے کہ وہ پاکستانی سیاست کے میدان میں فی الحال نووارد ہے اور ابھی اس کی سیاست کے خطوط بالکل مبہم ہیں. چنانچہ وہ کبھی این اے پی اور پی پی پی کے دوش بدوش نظر آتی ہے اور کبھی پی ڈی ایم سے اشتراک کرتی دکھائی دیتی ہے اور کبھی ایک پلڑے میں وزن ڈالتی ہے کبھی دوسرے میں!

البتہ جماعت اسلامی اس لیے قابل ذکر ہے کہ اسے پاکستان کی سیاسیات میں برسر عمل ہوئے پورے اکیس سال بھی ہوچکے ہیں اور اس پورے عرصے میں وہ اس امر کی مدعی بھی رہی ہے کہ اس کا اصل مقصد احیائے اسلام اور اقامت ِدین ہے!

ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس پورے سفر کے دوران اس کی دینی و مذہبی حیثیت اگر کوئی تھی بھی تو کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوچکی ہے اور وہ تاریخ کے بہاؤ کا رخ موڑنے کی بجائے خود متذکرہ بالا تاریخی بہاؤ کے رخ پر بہہ نکلی ہے… اور اب چاہے ایک مضبوط اور منظم گروہ کی حیثیت سے ملکی سیاست کے میدان میں اس نے اپنا کوئی وقار قائم کر بھی لیا ہو‘دینی و مذہبی حیثیت سے اس کی سرے سے کوئی اہمیت باقی نہیں رہی!

پاکستانی سیاست کے افق پر اول اول جماعت اسلامی بڑے اعتماد اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ نمودار ہوئی تھی. اس کا خیال تھا کہ تحریک پاکستان ہی کے جذباتی پس منظر کو اجاگر کرکے اور ’’پاکستان کا مطلب کیا:لا الہ الا اللہ‘‘ کے خالص مسلم لیگی نعرے کو اپنا کر‘اسلامی دستور و قانون کے نفاذ کے نام پر وہ انقلابِ قیادت کی مہم تنہا اپنے زورِ بازو کے بل پر بہت جلد سر کرلے گی . چنانچہ اس وقت اگر کسی اور نے اس کو تعاون و اشتراک کی پیشکش بھی کی تو اس نے نہایت حقارت کے ساتھ اس کو ٹھکرا دیا . لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں اور تنہا اپنے زورِ بازو سے کام نہیں چل سکے گا تو جماعت نے مذہب ہی کے نام پر علماء اور مذہبی جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایک عرصے تک جماعت اسلامی کی مذہبی سیاست’’ علماء کے متحدہ و متفقہ مطالبات ‘‘کی بنیاد پر چلتی رہی.

لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد پھر محسوس ہوا کہ چڑھائی بہت سخت ہے اور گاڑی اس سیکنڈ گیئر میں بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تو ایک قدم اور نیچے اتر کر خالص ’’جمہوریت‘‘ کے نعرے پر سیاست کی نئی بساط بچھائی گئی جس پر تاحال سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے… اور جس کا مظہر کمال یہ ہے کہ ڈی اے سی جس میں پاکستانی سیاست کے اکھاڑے کے دونوں مذہبی پہلوان اس وقت مجتمع ہیں‘اس کے مطالبات اور متفقہ نکات میں غریب اسلام کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں!

خدا شاہد ہے کہ ہمارے پیش نظر کسی جماعت کی تنقیص ہر گز نہیں. ان گزارشات سے ہمارا مقصد صرف اپنی اس رائے کی وضاحت ہے کہ موجودہ سیاست کا دین و مذہب سے قطعا ًکوئی 
تعلق نہیں اور وقت کا جو دھارا خالص غیر مذہبی و لادینی رخ پر بہہ رہا ہے‘اس کی مختلف لہروں کی باہمی آویزش میں اسلام کا نام استعمال کرنا اور خاص طور پر اسے موجودہ بوسیدہ‘گلے سڑے اور ظالمانہ و استحصالی نظامِ معیشت کا پشت پناہ بنا کر کھڑا کردینا اسلام کی دوستی نہیں‘اس کے ساتھ دشمنی ہے .تاریخ کے رخ کا جو ’’ڈان‘‘ ایک خاص سمت میں بہہ رہا ہے اس کا رخ مذہب کی جانب موڑنے کی صرف ایک راہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے فلسفہ و فکر کے میدان میں انقلاب برپا کیا جائے اور روحانی اقدار کا از سر نو احیا ہو‘ ایمان ویقین کی روشنی دنیا میں پھیلے‘اور اخلاق و اعمال میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوں. جب یہ انقلاب کسی انسانی معاشرے میں ایک معتد بہ حد تک رونما ہوچکے گا تب کہیں جا کر اس کا امکان پیدا ہوگا کہ اس کی سیاست بھی مذہب کے تابع ہو اور وہاں خدا پرستانہ نظامِ زندگی پوری شان کے ساتھ جلوہ آرا ہوسکے. ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا موجودہ پاکستانی معاشرہ ان اعتبارات سے دین و مذہب کی روح سے بہت بعید ہے. لہٰذا ایسے لوگوں کا جن کا اصل تعلق اسلام اور صرف اسلام سے ہو اور جن کی زندگیوں کا مقصود صرف اور صرف احیائے اسلام و اقامت ِدین ہو‘موجودہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا اپنی قوتوں‘صلاحیتوں اور اوقات کو ضائع کرنا ہے. ان کے لیے ایک ہی راہ کھلی ہے اور وہ یہ کہ… اگر علمی و فکری کام کرنے کی استعداد رکھتے ہوں تو تعلیم وتعلّم قرآن کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں اور کتاب اللہ کے علم وحکمت کی تحصیل و اشاعت میں مصروف ہوجائیں‘ اس لیے کہ ایمان و یقین کے احیا کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں … اور اگر علمی کام سے مناسبت نہ رکھتے ہوں تو معاشرے کے کونوں کھدروں میں بیٹھ جائیں اور خلوص و اخلاص کی قوتوں کو بروئے کار لاکر عوام الناس میں دینی و روحانی اقدار کی از سر نو ترویج کی کوشش کریں. 

ہم تحریک پاکستان کے بارے میں تو یہ رائے نہیں رکھتے کہ اس کا اساسی محرک دینی و مذہبی جذبہ تھا‘لیکن پاکستان کے معجز نما ظہور … اور دو اہم مواقع پر اس کے معجزانہ تحفظ و بقاء …کی بنا پر یہ احساس ضرور رکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام دین کے احیاء اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور پورے عالم ارضی میں غلبہ اسلام کی خدائی سکیم کی ایک کڑی ضرور ہے. اسی بنا پر ہمیں اس کا بقا و وجود بھی عزیز ہے اور اس میں انتشار اور انارکی کسی صورت گوارا نہیں. لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس مبارک انقلاب کی ابتداء سیاسی میدان سے نہیں بلکہ علم و فکر اور فلسفہ و حکمت کے میدان سے ہوگی.اور ایک علمی و تعلیمی انقلاب کے سوا اس کی کوئی راہ موجود نہیں .اس میدان میں بالکل ابتدائی اور کمیت کے اعتبار سے نہایت حقیر کوشش کیے چلے جانا بھی‘چاہے اس کے محسوس نتائج سامنے نہ آئیں‘ہمارے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ سیاسی میدان میں بلند بانگ دعاوی کے ساتھ شرکت کی جائے ‘لیکن بجائے اس کے رخ کو دین و مذہب کے جانب موڑنے کے خود اس کی رو میں بہہ جایاجائے ؎

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج پھر درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں مسلمان جینے اور ایمان پر مرنے کی سعادت نصیب فرمائے.آمین! 

(۳
مارچ ۱۹۶۹ء

آج سے دو ماہ قبل‘جنوری۱۹۶۹ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ میں ’’میثاق ‘‘ کے دورِ جدید کے ڈھائی سال کے عرصے میں پہلی بار ملکی سیاسیات پر قلم اٹھایا گیا تھا. ’’میثاق‘‘ کے تیرہ صفحات پر پھیلی ہوئی اس تحریر میں پاکستان کی موجودہ سیاست کے رجحانات اور ان کے پشت پر کار فرما عوامل کا جو تجزیہ ہم نے اپنے فہم کے مطابق کیا تھا وہ قارئین ’’میثاق‘‘ کے حلقے میں تو بالعموم پسند کیا ہی گیا‘بعض دوسرے حلقوں کی جانب سے بھی اس کی تائید وتصویب ہوئی (۱اور عام طور پر یہ محسوس کیا گیا کہ یہ صورتحال کی واقعی اور حقیقی عکاسی اور مسائل و معاملات کا صحیح و بے لاگ تجزیہ ہے . اس تحریر کی اشاعت کے بعد کے دو ماہ بلاشبہ پاکستانی سیاسیات کی اکیس سالہ تاریخ کا اہم ترین دور ہیں‘جن میں عوامی تحریک ایک طوفان بن کر اٹھی اور ایسی معرکۃ الآراء تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا کوئی تصور بھی چھ ماہ قبل تک نہیں کیا جا سکتا تھا. لیکن اس طوفان کے متعدد ریلے گزر جانے کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اور پاکستانی سیاست کی سٹیج پر جو تازہ نقشہ جما ہے وہ بعینہٖ وہی ہے جس کی تصویر ہم نے دو ماہ قبل کی اس تحریر میں کھینچی تھی. (۱) چنانچہ ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ نے جسے اس وقت مسٹر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکاری ترجمان کی حیثیت حاصل ہے‘ اپنی اکیسویں اشاعت میں اس پوری تحریر کو نقل کیا. گزشتہ دو ماہ کے دوران کی ساری کھینچ تان اور اکھیڑ پچھاڑ اور اتنی مختلف النوع پیش قدمیوں اور پسپائیوں کے بعد جو صورتحال واضح ہوکر سامنے آتی ہے اس کا اس قدرصحیح اور پیشگی اندازہ صرف اسی لیے ممکن ہوسکا کہ ہمارا مطالعہ خالصتاً معروضی تھا اور اس میں ہماری پسند یا ناپسند کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا. صورتِ واقعہ جیسی کچھ ہے ‘ہم نے اسے بعینہٖ اسی طرح سمجھنے کی کوشش کی اور بغیر کسی قطع و برید اور کتربیونت کے جوں کا توں پیش کردیا. 

ہماری گزشتہ ماہ کی پیش کردہ مندرجہ ذیل رائے بھی اگر ذہن میں تازہ کرلی جائے تو جو صورت حال اب درپیش ہے اس کی نقشہ کشی بھی مکمل ہوجائے گی اور اس کے بارے میں ہماری رائے بھی ایک بار پھر واضح ہوجائے گی:

’’اس تازہ ایجی ٹیشن پر صدر ایوب کا رد عمل ہمارے نزدیک بہت صائب اور متوازن ہے. ان کے لیے ایک راستہ یہ بھی تھا کہ موجودہ صورتحال کو صرف ’’بعض شر پسند لوگوں‘‘ کی جانب منسوب کرکے تشدد کی راہ اختیار کرلیتے . اگروہ ایسا کرنا چاہتے تو بہرحال حکومت کی قوت اس وقت ان کے ہاتھ میں تھی ہی‘ لیکن اس کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ دستوری مسائل پر گفتگو کرنے پر آمادگی ظاہر کرکے انہوں نے یقینا دانش مندی کا ثبوت دیا ہے جس کی ہمارے نزدیک قدر کی جانی چاہیے.

دوسری طرف یہ پیچیدگی بھی صاف محسوس ہورہی ہے کہ اپوزیشن نے اب تک جو موقف اختیار کیے رکھا ہے اور جس نہج پر اپنی سیاسی تحریک کو چلایا ہے ‘اس کے پیش نظر اس کے کسی بھی عنصر کے لیے اس وقت حکومت کے ساتھ سیاسی گفت و شنید کی راہ اختیار کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے. بائیں بازو کے لوگوں سے تو ظاہر ہے کہ اس وقت کسی گفتگو کا کوئی امکان ہی نہیں‘انہیں تو اب اس ملک کی سیاست میں حقیقی اور واقعی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے. معاملہ جو بھی ہوسکتا ہے‘دائیں بازو کے ان عناصر ہی سے ہوسکتا ہے جو ڈی اے سی اور صحیح تر الفاظ میں پی ڈی ایم میں شریک ہیں. لہٰذا پہلا خطرہ تو یہی ہے کہ مفاہمت کی ادنیٰ ترین کوششوں کو بھی بائیں بازو کی جماعتیں عوامی جدوجہد سے فرار اور عوامی مفادات سے غداری کے نام سے اچھالیں گی. پھر پی ڈی ایم خود کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ کئی سیاسی جتھوں کا مجموعہ ہے. مفاہمت کی گفتگو کے شروع ہوتے ہی ان کے باہم ایک دوسرے سے الجھ جانے کا امکان بھی خارج از بحث نہیں. گویا چند درچند وجوہ کی بنا پر صدر ایوب سے مفاہمت کی گفتگو فی الوقت ان لوگوں کے لیے بھی بہت مشکل ہوگئی ہے جن کا صدر ایوب اور حکمران پارٹی سے نظریات کا کوئی اختلاف نہیں اور جنہیں بعض فروعی دستوری معاملات کے ذیل میں اپنے بعض مطالبات منوا کر منطق کے ہر اصول کے مطابق موجودہ حکمران گروہ کے ساتھ ؏ ’’آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک ‘‘کی سی کیفیت سے بغل گیر ہوجانا چاہیے.

تاہم یہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے جو ہماری رائے میں مشکلات اور موانع کے باوجود پورا ہوگا…اور انتشار‘لاقانونیت اور انارکی کے خطرات اور خصوصاً طالب علموں کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر‘ہمارے نزدیک فی الوقت ملک و ملت کے مجموعی مفادات کے اعتبار سے یہی مناسب اور صحیح تر بھی ہے.‘‘

وقت کا یہ ’’اہم تقاضا‘‘ ہونے کو پورا تو ہوگیا لیکن جو موانع و مشکلات اس کی راہ میں پیش آئی ہیں اور ان کے دوران پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے جس نازک ترین موڑ سے گزرا ہے اس کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے. 

صدر ایوب کی گفت و شنید کی دعوت نے پوری ڈی اے سی کو بالکل اچانک آ لیا تھا. چنانچہ کچھ عرصہ تو وہ غریب شش و پنج میں مبتلا رہی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے. صدر ایوب تو ایک فرد تھے‘ انہوں نے ایک رخ پر چلے چلتے اچانک اباؤٹ ٹرن کرلیا‘لیکن ایک تحریک کی رواں دواں گاڑی کو تو بریک لگاتے لگاتے بھی آخر وقت لگتا ہے. دوسری جانب یہ خطرہ بھی واقعی اور حقیقی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ادھر ایک قیادت عوامی تحریک کو بریک لگا کر نیچے اترے اُدھر دوسری قیادت اس کے انجن کو دوبارہ سٹارٹ کرکے لے کر چلتی بنے. تیسری طرف یہ معاملہ بھی صاف تھا کہ اب یہ عوامی تحریک اگر مزید آگے بڑھی تو اس کا روکنا مشکل تر ہوجائے گا اور پھر اس کا تمام تر فائدہ بائیں بازو کے لوگوں کے حصے میں آئے گا. 

یہ اسباب و عوامل تھے جن کی بنا پر وہ عمل اندرونی طور پر بڑی تیزی کے ساتھ لیکن ظاہری اعتبار سے بڑی تدریج اور مدھم چال کے ساتھ شروع ہوا جسے اب مسٹر بھٹو بجا طور پر غیر فوجی انقلاب (Civilian Coup de tat) سے تعبیر کر رہے ہیں . (۲(۲) عین اس مرحلے پر جبکہ پاکستان اس ’’غیر فوجی انقلاب‘‘ سے گزر رہا ہے‘ مسٹر آدم ملک وزیر خارجہ انڈونیشیاجہاں کچھ عرصہ قبل ایک باقاعدہ فوجی انقلاب آیا تھا‘ کا دورئہ پاکستان اور حکومت پاکستان کی طرف سے سہارتو حکومت کے ساتھ تعلقات مزید بڑھانے کی خواہش کا اظہار بہت معنی خیز ہے! مفاہمت اور مصالحت کا یہ عمل بنیادی طور پر تین لوگوں ہی کے مابین ہوا ہے اور اگر کوئی ’’عبوری قومی حکومت‘‘وجود میں آئی ‘جس کا امکان بالکل خارج از بحث نہیں ‘تو وہ اصلاً ان لیگ ہائے ثلاثہ ہی پر مشتمل ہوگی.

اس عمل کی مخالفت و مزاحمت بھی‘جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا‘بائیں بازو کے انتہاپسند لوگوں ہی کی جانب سے ہوئی . مسٹر بھٹو چونکہ ابھی کوئی مستحکم تنظیم نہیں رکھتے اور بدلتے ہوئے حالات نے گویا کم از کم وقتی طور پر تو ان کے پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لی ہے لہٰذا انہیں محض منفعلانہ مخالفت(passive resistance) پر اکتفا کرنا پڑا. لیکن مولانا بھاشانی چونکہ اپنی پشت پر ایک واقعی عوامی سیاسی قوت بھی رکھتے ہیں لہٰذا انہوں نے اس مفاہمت کو برسر میدان للکارا اور بالفعل یہ کوشش کی کہ اب جبکہ ڈی اے سی عوامی تحریک کو بریک لگا رہی ہے وہ خود اس کی قیادت سنبھال کر اپنے پیش نظر انقلاب کی داغ بیل ڈال دیں. 

… اور واقعہ یہ ہے کہ کم از کم مشرقی پاکستان میں اس ’’انقلاب‘‘ کی ابتدا ہوگئی تھی. فروری ۱۹۶۹ء کی سترہ تاریخ سے اکیس تاریخ تک کے چند دن واقعتا پاکستان کی تاریخ میں وہ تیسرا نازک موقع تھے جبکہ پاکستان کا وجود سخت خطرے سے دو چار تھا اور اس کی سا لمیت سخت مشکوک ہوگئی تھی.

ہم نے گزشتہ ماہ ان صفحات میں برسبیل تذکرہ عرض کیا تھا کہ :’’ ہم تحریک پاکستان کے بارے میں تو یہ رائے نہیں رکھتے کہ اس کا اساسی محرک دینی و مذہبی جذبہ تھا لیکن پاکستان کے معجز نما ظہور… اور دو اہم مواقع پر اس کے معجزانہ تحفظ و بقاء …کی بنا پر یہ احساس ضرور رکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام دین کے احیاء اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور پورے عالمِ ارضی میں غلبہ اسلام کی خدائی سکیم کی ایک کڑی ضرور ہے! ‘‘تحریک پاکستان کے اساسی محرکات اور پاکستان کے معجز نما قیام کے ضمن میں تو ہم اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ مارچ تا مئی ۱۹۶۷ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ میں ظاہر کر 
چکے ہیں (یہ مضامین اب ہماری تالیف ’’اسلام اور پاکستان‘‘ میں شامل ہیں) .رہے وہ دو اہم مواقع جن پر ہمارے نزدیک پاکستان کے وجود و بقا کا تحفظ بالکل معجزانہ طور پر ہوا تو ان میں سے پہلا موقع تو وہ تھا جب صدر ایوب نے اس وقت جبکہ وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کے بالکل تنہا مالک تھے‘ امریکی اثرات کے تحت متحدہ دفاع (joint defence) کی تجویز کی صورت میں گویا پاکستان کو چاندی کی طشتری میں رکھ کر بھارت کی خدمت میں پیش کردیا تھا. اسے اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت و مشیت کے سوا اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ پنڈت نہرو کی عقل اس وقت ماری گئی اور انہوں نے کمال رعونت کے ساتھ صدر ایوب کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا. (۳اور اس طرح خالصتاً معجزانہ طور پر پاکستان کا مستقل وجود برقرار رہ گیا (۴دوسرا موقع ۱۹۶۵ء کی جنگ تھی جس میں پاکستان کا بچ جانا کسی دنیوی حساب کتاب سے سمجھ میں آنے والی بات نہیں. اس کی ایک ہی توجیہہ ممکن ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی کو پاکستان کا تحفظ و بقا مطلوب ہے!

ہمارے تجزئیے میں ہر اعتبار سے ان دونوں مواقع کے برابر نازک موقع سترہ تا اکیس فرور ی ۱۹۶۹ء کے چند دن تھے. ہمارے نزدیک اگر اس موقع پر صدر ایوب وہ بھاری قیمت ادا نہ کرتے جو انہوں نے اولاً انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کرکے ادا کی جو ایک کھلے اعترافِ شکست کے مترادف تھا‘اور پھر اگر تلہ سازش کیس واپس لے کر ادا کی جو داخلی و بین الاقوامی دونوں حیثیتوں سے سخت ذلت آمیز صورت تھی‘ تو واقعہ یہ ہے کہ کم از کم مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی (۳) یادش بخیر‘ بالکل اسی مقام سے پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے’’چین نواز‘‘ دور کا آغاز ایک بالکل ناگزیر ضرورت کے طور پر ہوا تھا. راقم نے بارہا نجی گفتگوئوں میں اس صورتحال کو اس تشبیہ سے تعبیر کیا ہے کہ امریکہ کے زیر اثر صدر ایوب نے پنڈت نہرو اور بھارت کے سامنے رکوع تو کر لیا لیکن پنڈت جی شاید اپنے تہذیبی پس منظر کی بنا پر چاہتے تھے کہ وہ باقاعدہ سجدہ کریں جسے ایک مسلمان کا بیٹا گوارا نہ کر سکا. چنانچہ بجائے سجدہ کرنے کے صدر ایوب الٹے تن کر کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد مسلسل نہ صرف بھارت بلکہ اس کے معنوی سرپرست امریکہ سے بھی دور ہوتے چلے گئے. نتیجتاً پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کا جھکاؤ چین کی جانب ہوتاچلاگیا.

(۴) یاد رہے کہ آنجہانی پنڈت نہرو ہی کی ایک پہلی حماقت کے نتیجے میں پاکستان اپنی موجودہ صورت میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا تھا‘ ورنہ مسلم لیگ نے تو کیبنٹ مشن پلان کو قبول کرلیا تھا. اور اگر کبھی تین خطوں پر مشتمل ’’مہابھارت‘‘ ایک بار وجود میں آجاتا تو پھر کسے معلوم کہ پھر کبھی علیحدگی ممکن ہو سکتی یا نہیں! کے جاری کردہ ’’انقلاب‘‘ کو روکنے کی کوئی صورت ممکن نہ تھی! (۵

اس صورت میں پاکستان کے مشرقی و مغربی خطوں کے حالات ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہوجاتے کہ پھر ان کے ساتھ رہنے کی کوئی صورت ممکن نہ رہتی اور عوامی جمہوریہ چین کی زیر سرپرستی مشرقی پاکستان اور مغربی بنگال پر مشتمل ایک علیحدہ کمیونسٹ ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوجاتی .(۶

ہمارے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے پاکستان اور اہل پاکستان پر کہ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اس موقع پر بالکل گھٹنے ٹیک دینے کی سخت ذلت آمیز کیفیت کو گوارا کرلیا اور اس طرح پاکستان کی سالمیت کو جو خطرہ لاحق ہوگیا تھا وہ کم از کم فوری طور پر ٹل گیا.

ہم ایک سے زائد بار اس حقیقت کو واضح کرچکے ہیں کہ ہمارے نزدیک نہ سیاسی جبرواستبداد کے خلاف عوام کی جدوجہد کوئی بری چیز ہے نہ ہی معاشی ظلم و استحصال کے خلاف عوامی تحریک چلانا کسی درجے میں کوئی غلط کام ہے. دونوں ہی مقاصد اپنی جگہ درست ہیں‘بلکہ ہمیں ان لوگوں کی رائے میں بہت وزن معلوم ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائے بغیر سیاسی ڈھانچوں میں سطحی اور اوپری تبدیلیوں سے قطعاً کچھ حاصل نہ ہوگا اور نام نہاد جمہوریت بھی اس صورت میں سرمایہ داروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گی … لیکن ہماری پختہ رائے یہ ہے کہ یہ سارے معاملات معروف سیاسی اسلوب و طریق سے طے ہونے چاہئیں اور اس میں نہ تو لاقانونیت اور انارکی کا رنگ پیدا ہونا چاہیے اور نہ ہی انقلابی طریقے اختیار کیے جانے چاہئیں. 
(۵) مولانا بھاشانی کی سیاسی قوت کا جو مظاہرہ اس موقع پر ہوا وہ بہت حیرت انگیز تھا. شیخ مجیب الرحمن پیرول پر رہائی کی صورت میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت پر آمادہ ہی نہیں بے تاب تھے. لیکن مولانا بھاشانی کی سیاست نے پورے ملک کو تعطل اور گومگو کی کیفیت میں مبتلاکیے رکھا تاآنکہ صدر ایوب نے متذکرہ بالا بھاری قیمت ادا کر کے مولانابھاشانی کو بے بس کر دیا!

(۶) مغربی بنگال کے درمیانی زمانے کے انتخابات کے جو نتائج حال ہی میں سامنے آئے ہیں‘ ان کے پیش نظر یہ خطرہ خیالی ووہمی نہیں… بالکل حقیقی تھا! جو لوگ سیاست کے میدان میں ملک و ملت کی مخلصانہ خدمت کرنا چاہتے ہوں انہیں چاہیے کہ محنت و مشقت سے کام کرنے کی عادت ڈالیں‘ مستقل مزاجی اور عزم و استقلال کے ساتھ اپنے اپنے نظریات کی نشر و اشاعت کریں‘ اپنے اپنے پروگرام عوام کے سامنے پیش کریں اور اس طرح اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کریں. پھر اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر کو مضبوط و محکم تنظیمی سلسلوں میں منسلک کریں اور کھلی سیاسی جدوجہد کے ذریعے ملک کے اجتماعی نظام میں اپنی صوابدید کے مطابق تبدیلیاں برپا کرنے کی کوشش کریں .محض ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی یا وقتی مسائل ومعاملات کو نعروں کی صورت میں اچھال کر عارضی شور و غوغا برپا کردینے سے نہ صرف یہ کہ حاصل کچھ نہ ہوگا بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچ جائے. اسی طرح انقلابی طریقوں کے اختیار کرنے میں بھی شدید خطرات مضمر ہیں اور بھلائی سے زیادہ برائی کا اندیشہ ہے. گویا کہ ان دونوں کی حیثیت ہمارے نزدیک وہی ہے جو قرآن مجید کی رو سے شراب اور قمار کی‘یعنی اِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا. 

اس اعتبار سے ہمارے لیے انگریز قوم کی تاریخ میں ایک بڑا اہم سبق ہے. اس قوم نے اپنے ملک میں ’’رائے عامہ‘‘ کے بروئے کار آنے کے راستوں کو ہمیشہ کھلا رکھا. نتیجتاً دنیا میں جتنے انقلاب آئے ان کے بہترین ثمرات سے بھی یہ متمتع ہوتی رہی لیکن کبھی کوئی انقلابی تبدیلی بھی اس کے یہاں برپا نہیں ہوئی. بادشاہت اور جاگیرداری کے خلاف ’’انقلاب‘‘ فرانس کی سرزمین پر رونما ہوا اور اس کے لیے فرانسیسی قوم کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ‘لیکن اس کے بہترین ثمرات سے انگلستان متمتع ہوا. چنانچہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت کی اعلیٰ ترین صورت وہاں قائم ہے. اور لطف یہ ہے کہ علامتی بادشاہت بھی تاحال وہاں موجود ہے اور جاگیرداری نظام کے آثار کو بھی ابھی تک انہوں نے بالکلیہ ختم نہیں کیا. اسی طرح کمیونسٹ انقلاب کے لیے خون کی ندیاں دوسرے ممالک میں بہیں لیکن فلاحی ریاست اور کفالت ِعامہ کی خوبصورت ترین صورت کو آزاد معیشت کے ساتھ خوبصورت ترین طریقے پر انگلستان نے نتھی کیا… اور یہ سب کچھ نہایت عمدہ تدریج کے ساتھ بالکل کھلی اور عیاں سیاسی سرگرمی کے نتیجے کے طور پر ہوتا رہا. 

اسی قسم کا ایک تجربہ ہمارے ہمسایہ ملک میں ہو رہا ہے جہاں جملہ معاملات کو سیاست کے میدان میں طے کرنے کے دروازے کھلے ہیں. کمیونسٹ پارٹی حتیٰ کہ چین کے حامی کمیونسٹوں پر بھی کوئی پابندی نہیں. چنانچہ سیاست کے میدان میں اتار چڑھاؤ اور مدوجزر تو آتے رہتے ہیں‘لیکن تاحال کسی ’’انقلاب‘‘ سے بھارت کو دو چار ہونا نہیں پڑا. 

ہمارے یہاں بھی خیر اسی میں ہے کہ یہ بات بطورِ اصولِ موضوعہ تسلیم کرلی جائے کہ جملہ معاملات و مسائل کا حل معروف سیاسی وجمہوری طریقوں پر ہوگا اور سب کو یہ حق حاصل ہوگا کہ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرکے اختیار و اقتدار حاصل کرنے اور مسند ِحکومت پر قبضہ جمانے کی کوشش کریں. اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی میدان کی پابندیوں کو حتی الامکان ختم کردیا جائے اور جذبہ و فکر کے اثر و نفوذ کی تمام راہوں کو حتی الامکان سب کے لیے یکساں کھول دیا جائے‘تاکہ کہیں کسی زیر زمین سرگرمی یا انقلابی طریق کار کی ضرورت کا احساس ہی پیدا نہ ہو. اس اعتبار سے ہمارے نزدیک مسٹر بھٹو کی اس رائے میں بڑا وزن ہے کہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی پر سے بھی پابندی اٹھا لی جانی چاہیے. یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جذبہ و فکر کی راہوں کو کبھی مسدود نہیں کیا جاسکتا. آپ ان کے ایک جانب بند باندھیں گے تو وہ دوسری جانب بہہ نکلیں گے. ہمارے حالیہ تجربے سے تو یہ بات بالکل ہی ثابت ہوگئی ہے کہ کسی فکر کو پابند و پابجولاں کرنا ممکن نہیں. کمیونسٹ پارٹی پر ہمارے یہاں پابندی عائد رہی‘لیکن کمیونسٹ انقلاب ہمارے نصف بہتر خطے کے عین دروازوں تک پہنچ گیا تھا!فکر کا مقابلہ جوابی فکر ہی سے کیا جا سکتا ہے اور معاملات و مسائل کا حل ان کا مردانہ وار مواجہہ 
(face) کرنے ہی سے ممکن ہے. مصنوعی پابندیوں اور فراری ذہنیت سے کوئی معرکہ سر نہیں کیا جا سکتا!

ایک دوسری نہایت اہم بات یہ ہے کہ ملکی سیاست کے میدان میں مذہب کا نام نہایت احتیاط کے ساتھ اور بالکل ناگزیر حد تک ہی لیا جانا چاہیے. ہمارے پڑھے لکھے طبقے کا بالعموم مذہبی اعتبار سے جو حال ہے وہ سب ہی کو معلوم ہے اور خود عوام کی ایک عظیم اکثریت میں بنیادی اخلاقی و روحانی اقدار جس سطح پر ہیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں. جب مذہب اس وقت نہ ہمارے فکر میں سرایت کیے ہوئے ہے نہ جذبے میں تو آخر سیاست کے میدان میں اس کی کارفرمائی کیسے ہوگی؟ پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ دین و مذہب کے اعتبار سے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور سردار شوکت حیات خاں یا شیخ مجیب الرحمن اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے مابین کون سا فرق و تفاوت ہے؟بلکہ عجیب تر صورت یہ ہے کہ پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے داعی اعظم مولانا بھاشانی تو علمائے دیوبند کے صحبت یافتہ اور صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور نظام اسلام پارٹی کے متعدد اہم کارکنوں کے ملی و قومی جذبہ و اخلاص کے معترف ہونے کے باوجود ذاتی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ وہ جمعے کی نماز پڑھنے کے بھی روادار نہیں! مقصود کسی کی تنقیص نہیں بلکہ صرف اس امر کی وضاحت ہے کہ ہمارے ملک میں مذہب بالکل بنیاد سے تعمیر جدید کا محتاج ہے اور احیاء اسلام کی آرزو رکھنے و الے لوگوں کو پہلے فکر کے میدان میں اسلامی انقلاب اور عوامی سطح پر اسلام کی مخصوص اخلاقی و روحانی اقدار کی از سر نو ترویج کا کٹھن اور صبر آزما کام کرنا ہوگا. موجود الوقت حالات میں سیاسی میدان میں اسلام کا نعرہ لگانا اور سیاسی و معاشی مسائل میں مختلف نقطہ ہائے نظر کے حامل لوگوں پر کفر و الحاد کے فتوے چسپاں کرنا بالآخر خود دین و مذہب کے لیے مضر ثابت ہوگا. 

سوچنا چاہیے کہ اس وقت جو مسائل بالعموم ملک اور قوم کے سامنے ہیں‘ ان میں سے آخر کون سے مسئلے کا کوئی خاص تعلق دین و مذہب سے ہے؟ طرز حکومت وحدانی ہو یا وفاقی‘جمہوریت صدارتی ہو یا پارلیمانی‘انتخابات بالواسطہ ہوں یا بلاواسطہ ‘مغربی پاکستان ایک صوبہ رہے یا دوبارہ متعدد صوبوں میں منقسم ہوجائے. جس طرح ان تمام مسائل میں اسلام کا کوئی ایک منصوص حکم نہیں ہے بلکہ حالات و ضروریات کے اعتبا رسے مناسب تر کوئی صورت بھی اختیار کی جا سکتی ہے اسی طرح ان مسائل میں بھی اسلام میں حالات و ضروریات کے مطابق مناسب صورتیں اختیار کرنے کی بڑی گنجائش ہے کہ زمین کا بندوبست کن بنیادوں پر ہو اور بڑی بڑی صنعتوں اور ذرائع پیداوار پر انفرادی ملکیت برقرار رکھی جائے یا انہیں اجتماعی ملکیت قرار دے کر حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے. مزارعت کا مسئلہ ہمارے یہاں سلف سے متنازعہ فیہ چلا آ رہا ہے اور حضرت عمرؓ نے مفتوحہ علاقوں کو مجاہدین کے مابین تقسیم کرنے کی بجائے پوری ملّت اسلامی کی اجتماعی ملکیت قرار دے کر ایک اہم اجتہاد فرمایا تھا جس پر پوری امت کا اجماع بھی ہوگیا تھا. لہٰذا ان مسائل میں دلیل کی بنیاد پر کوئی ایک یا دوسرا موقف تو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی کسی رائے کو اسلام کا حتمی فیصلہ قرار دے کر بقیہ آراء کو کفر و الحاد قرار دے دینا یقیناً زیادتی اور حدود سے تجاوز ہے. ہماری رائے میں بالکل صحیح کہا ہے مولانا غلام غوث ہزاروی نے کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام مسائل و معاملات اور ان کی پیچیدگیوں اور مشکلات کا صحیح فہم حاصل کیا جائے اور ان کے حل کی مخلصانہ کوشش کی جائے‘نہ یہ کہ جو بھی ذرا عام روش سے ہٹ کر بات کرے اس کے خلاف کفر و الحاد کے فتووں کی توپیں داغنی شروع کردی جائیں.

پاکستان میں بحالی جمہوریت کے علمبردار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اب پھر بس قبل از مارشل لاء کی سی جمہوریت ملک میں دوبارہ قائم ہوسکتی ہے اور بالکل اسی طرح کے سے حالات لوٹ کر آ سکتے ہیں تو وہ سخت غلطی پر ہیں. اس ملک میں اب حقیقی عوامی سیاست کے دور کا آغاز ہورہا ہے اور جمہور اب صرف اس بات پر کبھی قانع نہ ہوں گے کہ ان کو ’’ووٹ‘‘ کی صورت میں سرمایہ داروں سے کچھ ’’نوٹ‘‘ حاصل کرنے کا ایک کاغذی سا حق مل جائے بلکہ وہ اپنے تمام سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے سے گریز نہیں کریں گے. اس صورت حال میں اگر کسی نے مذہب کو ان کے خلاف دلیل کی حیثیت سے استعمال کیا تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا اور وہ یہ کہ مذہب کے ساتھ عوام کا رہا سہا تعلق بھی ختم ہوجائے گا اور مذہب سے بیزاری کی عام رو چل نکلے گی. تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور ہوش مند لوگوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے. 

راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی پہلی نشست اگرچہ کل نصف گھنٹے کی تھی اور اس کی نوعیت خالص رسمی ملاقات کی تھی تاہم اس سے آئندہ صورت حال کا پورا نقشہ سامنے آ گیا ہے اور اگرچہ فی الحال شرکائے کانفرنس بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں…چنانچہ کسی جانب سے ’’عبوری قومی حکومت‘‘ کا نام لیا جا رہا ہے اور کوئی صرف نئے انتخابات تک کے لیے ’’عارضی نگران ادارے‘‘ کا نام لے رہا ہے‘کوئی ۱۹۵۶ء کے دستور کی کامل بحالی کا مطالبہ کر رہا ہے تو کوئی بالکل نئے سرے سے دستور سازی کا تقاضا کر رہا ہے. ون یونٹ توڑنے کا مطالبہ تو پرانا ہی تھا‘اب شیخ مجیب الرحمن صاحب مشرقی و مغربی خطوں کے مابین مساوات 
(parity) کے اصول کو بھی ختم کرنے پر تل گئے ہیں. غرضیکہ وہ تمام مسائل از سر نو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن کی بنا پر پاکستان میں دستور سازی کے کام میں ابتداء ً تاخیر و تعویق ہوئی تھی اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ پاکستان کی ان تمام دستوری پیچیدگیوں کے حل کی عملی صورت کیا ہوگی… تاہم یہ بات واضح ہے کہ کنونشن ‘کونسل اور عوامی تینوں لیگوں ہی کے مابین کچھ لے اور دے کر اور کسر و انکسار کے اصول کے تحت کوئی معاہدہ ہوجائے گا اور ان ہی کے اتحاد و اتفاق سے کوئی مضبوط حکومت مرکز میں بن سکے گی. یہ بھی بالکل واضح ہے کہ مولانا بھاشانی اور مسٹر بھٹو کے اتحاد سے اصل اپوزیشن وجود میں آئے گی اور مقابل کے اصل دھڑے یہی دو ہوں گے. باقی رہے ڈی اے سی کے دوسرے شرکاء تو ان میں سے بعض ادھر اور بعض اُدھر ہوجائیں گے. مغربی پاکستان کا ولی و قصوری گروپ اور مشرقی پاکستان کے شش نکاتی عوامی لیگ کے انتہا پسند طبقات اپوزیشن کے جانب آئیں گے اور مذہبی جماعتوں میں سے جمعیت علمائے اسلام بلاواسطہ یا بالواسطہ ان ہی کے پلڑے میں وزن ڈالے گی. دوسری طرف نظام اسلام اور جماعت اسلامی چاہے فوراً حکومت میں شرکت کو ترجیح دیں یا فی الحال باہر رہنے کو پسند کریں‘بہرحال متذکرہ بالا اتحادِ ثلاثہ کو سہارا دیں گی!

آئندہ کی سیاست کا عملی نقشہ یہ بنے یا کوئی اور‘ہماری دلی خواہش جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا‘صرف یہ ہے کہ سارے معاملات سیاست کے کھلے میدان میں معروف طریقے پر طے ہوں اور نہ تشدد‘انارکی اور ٹکراؤ کی صورت پیدا ہونہ انقلابی طور طریقے اختیار کیے جائیں. 

خدا کرے کہ اب ملک کے دونوں خطوں میں حالات معمول پر آجائیں.تعلیمی ادارے کھل جائیں اور زندگی کا عام کاروبار معمول کے مطابق جاری رہے اور طوفانی سیاست کی کوئی نئی لہر ملک کو اپنی گرفت میں نہ لے لے. اس لیے کہ اب اگر کوئی نئی لہر اٹھی تو اس کا رنگ بالکل مختلف ہوگا. صدر ایوب اور ان کی حکومت تو اب میدان سے عملاً ہٹ ہی گئے ہیں. اب اگر تصادم ہوا تو عوام کا عوام سے ہوگا اور اس کے نتائج نہایت سنگین ہوں گے. ہماری دلی دعا ہے کہ مولانا بھاشانی اور مسٹر بھٹو دونوں اپنی موجودہ شکست کو کھلے دل سے قبول کرکے معروف طریقے پر اپوزیشن کا کردار اختیار کرلیں اور اپنی قوت کے مظاہرے اور کسی انقلابی اقدام کا خیال دل میں نہ آنے دیں…بصورتِ دیگر پاکستان کے مشرقی و مغربی دونوں خطوں میں عوامی تصادم شدید ترین صورت میں ظاہر ہوگا. مشرق میں اصل مقابلہ مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن کے مابین ہوگا جبکہ مغرب میں مسٹر بھٹو اور جماعت اسلامی کے حامی طلبہ میں. مغرب میں تو دھمکیوں اور جوابی دھمکیوں کا آغاز بھی ہوچکا ہے، مشرق میں فی الحال خاموشی ہے لیکن یہ خاموشی کسی بہت بڑے ٹکراؤ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے .اللہ تعالیٰ ہی اس نازک موقع پر پاکستان کی حفاظت فرمانے والا ہے!
(۲

آزادی ٔہند کے بعد ابتداء ً عام خیال یہ تھا کہ بھارت میں کمیونسٹ انقلاب کے امکانات بہت روشن ہیں جبکہ پاکستان میں اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں لیکن گزشتہ چھ ماہ کے دوران رفتہ رفتہ یہ بات واضح ہوتی چلی گئی ہے کہ در اصل معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور آج کا پاکستان بھارت کے مقابلے میں کمیونزم اور سوشلزم سے زیادہ قریب ہے. سوچنا چاہیے کہ اس انقلاب کے اسباب کیا ہیں.

متذکرہ بالا عام خیال کی بنیاد اس مغالطے پر تھی کہ پاکستان میں مذہب ایک موثر قوت ہے اور وہ کمیونزم کے سیلاب کی راہ میں ایک مضبوط بند ثابت ہوگا. واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑا مغالطہ تھا اور حقیقت اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ قومی حیثیت سے ہمارے اوپر بھی مذہب کا رنگ ایک ملمع سے زیادہ نہیں. اس لیے کہ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ‘مذہب نہ ہمارے فکر پر حاوی ہے اور نہ ہی اسے ہمارے اصل موثر طبقات کے جذبات میں کوئی حقیقی نفوذ حاصل ہے. خالص عوامی سطح پر جو جذباتی لگاؤ مذہب کے ساتھ ہے اس کی اجتماعیات میں کوئی فیصلہ کن اہمیت نہیں ہوسکتی. لہٰذا کمیونزم کی متوقع روک تھام کرنے والا یہ دفاعی بند محض ہوائی و خیالی تھا اور اس کا بے حقیقت ہونا اب ثابت ہوچکا. 
اس اعتبار سے تو پاکستان اور بھارت ایک ہی جیسے تھے لیکن دو باتوں میں ان کے مابین بہت فرق و تفاوت تھا.

ایک یہ کہ یہاں فکر اور نظریے کے میدان میں ایک گھپلا اور الجھاؤ مسلسل جاری رہا اور قوم کے اصل مؤثر طبقات کی لادینیت کے ساتھ ایک سطحی اور عوامی مذہبیت مسلسل الجھتی رہی جبکہ بھارت خالص لا دینیت کی راہ پر گامزن رہا اور اس میدان میں کوئی منافقت کی راہ اس نے اختیار نہ کی. 

اور دوسرے یہ کہ ہمارے یہاں ایک مہیب سیاسی خلا تھا. چنانچہ نہ کوئی مضبوط سیاسی جماعت موجود تھی نہ قابلِ اعتماد قومی قیادت جبکہ بھارت میں ایک عظیم اور محکم سیاسی جماعت بھی موجود تھی اور ایک مضبوط اور معتمد علیہ قومی قیادت بھی. 

ہمیں معلوم ہے کہ ہماری یہ ’’عریاں حقیقت نگاری ‘‘بہت سے لوگوں پر بڑی گراں گزرے گی‘لیکن ہم مجبور ہیں کہ صورتِ واقعہ جیسی کچھ ہمیں نظر آتی ہے ویسی ہی بیان کریں. واقعہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کے نظریاتی گھپلے اور سیاسی خلا ہی نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا ہے اور حالات کے رخ میں کوئی تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ایک طرف نظریے اور فکر کے میدان میں دوغلے پن کو ختم کرکے یک سوئی و یک رنگی اختیار کی جائے اور دوسری طرف سیاسی میدان کے خلا کو مضبوط اور محکم سیاسی جماعتوں اور کھلی اور بے روک ٹوک سیاسی سرگرمی کے ذریعے پر کیا جائے. 

دوسری بات کے ضمن میں تو ہم تفصیل کے ساتھ اوپر لکھ چکے ہیں‘ اب چند گزارشات پہلی بات کے ذیل میں عرض کرنی ہیں. خصوصاً اس امر کے پیش نظر کہ بعض حضرات نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ’’ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد‘‘ کو ختم کردیا جائے.

یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں نظریے اور فکر کے میدان میں جو الجھاؤ موجود ہے اس کو جانب ِلادینیت نہیں بلکہ جانب ِدین و مذہب ہی سلجھانا ممکن ہے. اگر یہ بات مسلم ہے کہ کسی ملک اور قوم کی اصل قوت اس کے عوام ہی ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے عوام کا جذباتی تعلق بہرحال دین و مذہب ہی کے ساتھ ہے ‘لادینیت و لا مذہبیت کے ساتھ نہیں. نتیجتاً قوم میں فکر و نظر کی یکسانی و یک رنگی پیدا کرنے کی صرف ایک صورت ممکن ہے اور وہ یہ کہ قوم کے طبقہ خواص کے اذہان بھی دین و مذہب کے رخ پر ڈھلیں اور ان کے قلوب بھی اسلام و ایمان کے نور سے منور ہوں. لیکن یہ کام جس قدر اہم اور ضروری ہے اسی قدر مشکل اور کٹھن بھی ہے‘ اور محض سیاسی میدان میں عوام کی مذہبیت کے سہارے دین و مذہب کے نعرے لگانے سے ہرگز نہیں ہو سکتا. اس کے لیے ضرورت ہے ایک عظیم علمی و تعلیمی تحریک کی جس کے ذریعے ایک طرف علم کو مومن بنایا جائے اور دوسری جانب آئندہ نسلوں کو مسلمان بنا کر اٹھایا جائے. چونکہ یہی وہ چیز ہے جس پر ہمارے نزدیک اسلام کے مستقبل اور احیائے اسلام اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دارومدار بھی ہے اور پاکستان کے بقا و تحفظ کا انحصار بھی‘لہٰذا ہم ان صفحات میں بھی اسی کی اہمیت بار بار اجاگر کرتے رہے ہیں. اپنی حقیر قوتوں اور صلاحیتوں اور محدود فرصت و مہلت عمر کا مصرف بھی ہم نے یہی قرار دیا ہے کہ خالص قرآن حکیم کی بنیاد پر ایک علمی و فکری تحریک کا اجراء ہو اور اس کے لیے ابتدائی اقدام کے طور پر ایک قرآن اکیڈمی قائم کی جائے. (الحمد للہ کہ قرآن اکیڈمی کا سنگ بنیاد ۱۹۷۶ء میں رکھ دیا گیا تھا اور اب تو اس کے کوکھ سے قرآن کالج اور قرآن آڈیٹوریم بھی برآمد ہوچکے ہیں!)

علم و فکر کے میدان میں انقلابی کام کی توقع حکومتوں سے بالعموم نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ حکومتیں عموماً موجود الوقت فکری و نظریاتی ماحول کی عکاسی ہی کرسکتی ہیں. رائج الوقت فکری دھاروں کو بدلنا عام طور پر افراد اور پرائیویٹ اداروں ہی کے کرنے کا کام ہوتا ہے. یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے گزشتہ اکیس سالوں کے دوران جدید و قدیم کے امتزاج کی ضرورت کے احساس کے تحت جتنے ادارے حکومت کی زیر سرپرستی قائم ہوئے وہ دین سے زیادہ بے دینی کے رخ پر بہہ نکلے اور ان سے اکثر و بیشتر فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا جس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال ادارہ تحقیقات اسلامی کراچوی ثم اسلام آبادی ہے.

اس ادارے کی داستان بہت طویل ہے. یہ اولاً کراچی میں مرحوم لیاقت علی خان کے دورِ حکومت میں مرحوم ظہیر الدین لال میاں کے پرزور اصرار پر قائم ہوا تھا. یکے بعد دیگرے متعدد حضرات اس کی سربراہی کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس کے کام کا کوئی واضح نقشہ متعین نہ ہو سکا. ۱۹۵۸ء کے فوجی انقلاب کے بعد اس کی سربراہی ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے ہاتھ آئی اور ۱۹۶۲ء کے دستور میں اس کے اغراض و مقاصد حسب ذیل الفاظ میں متعین ہوئے: 

THE FUNCTION OF THE INSTITUTE SHALL BE TO UNDERTAKE ISLAMIC RESEARCH AND INSTRUCTION IN ISLAM FOR THE PURPOSE OF ASSISTING IN THE RECONSTRUCTION OF MUSLIM SOCIETY ON A TRULY ISLAMIC BASIS.
Constitution: Article No. 207(2)

لیکن افسوس کہ اس ادارے نے بجائے اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے بالکل دُور از کار اور لایعنی بحثوں کے دروازے کھول دیے جن سے الجھنوں ہی میں اضافہ ہوا اور فکراسلامی کی تشکیل جدید کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی. نتیجتاً عوام میں اس ادارے کے خلاف غم اور غصہ کے جذبات پیدا ہوئے جس کی انتہائی صورت پچھلے دنوں اس مطالبے کی شکل میں سامنے آئی کہ اس ادارے ہی کو بند کردیا جائے.

ہمارے نزدیک یہ مطالبہ محض غصے اور جھنجھلاہٹ کا مظہر ہے اور اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ چونکہ پاکستان اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے حاصل کیا گیاتھا لیکن گزشتہ اکیس سال کے عرصے میں یہاں نہ صرف یہ کہ اسلام کی جانب کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی بلکہ اُلٹی لا دینیت اور اباحت پسندی ہی کو ترقی ہوئی لہٰذا پاکستان کا وجود عبث ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے.

ہمارے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ اس ادارے کو جس پر پاکستان کے غریب عوام کا کروڑوں روپیہ خرچ ہوچکا ہے اور لاکھوں روپیہ ہر سال خرچ ہورہا ہے ‘صحیح اور اہل لوگوں کے سپرد کیا جائے اور اس سے بالفعل وہی مقصد حاصل کیا جائے جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا.

پاکستان میں آئندہ جو حکومت بھی بنے‘اور جو لوگ بھی برسر اقتدار آئیں‘ ان سے ہماری مخلصانہ گزارش یہی ہے کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستان کی ترقی و استحکام ہی نہیں اس کا عین وجود بھی اسی ایک امر پر منحصر ہے کہ آیا اسلام یہاں خواص و عوام دونوں کے اذہان و قلوب میں رچ بس کر پوری قوم میں فکر و نظر کی ہم آہنگی و یک رنگی پیدا کرتا ہے یا نہیں. اگر ہم نے جلد اس سوال کا مثبت جواب عملاً پیش نہ کیا تو جو صورت حال سامنے ہے اس کے پیش نظر دنیا کی اس عظیم ترین مسلمان مملکت کا چھوٹی چھوٹی علاقائی و لسانی قومیتوں میں بٹ کر منتشر ہونا اور پھر انہی بنیادوں پر آس پاس کی بڑی قومیتوں میں ضم ہوجانا یقینی ہے … اور یہ کام محض تقریروں اور بیانوں میں اسلام کی تعریف و توصیف سے نہیں ہوگا بلکہ صرف اس طرح ہوگا کہ ایک طرف علوم کو مسلمان بنایا جائے اور ایمان باللہ ہی کی بنیاد پر تمام طبعی ‘عمرانی اور نفسیاتی علوم کی تدوین جدید ہو اور دوسری طرف نظامِ تعلیم کے پورے ڈھانچے کو ازسرِ نو اسلامی خطوط پر استوار کیا جائے. ان دونوں کاموں میں بھی مقدم چونکہ بہرحال علوم کی تدوین جدید ہی ہے اور اس ضمن میں اسلامی ریسرچ کے سرکاری و نیم سرکاری ادارے نہایت وقیع خدمت سر انجام دے سکتے ہیں‘لہٰذا اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ یہ ادارے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیے جائیں جو جدید و قدیم دونوں علوم پر حاوی بھی ہوں اور ذہناً مسلم اور قلباً مومن بھی ہوں اور اسلامی ریسرچ کے کام کو صحیح خطوط 
پر آگے بڑھا سکیں. خدا کرے کہ یہ اہم ترین کام جو ہمارے یہاں اب تک نظر انداز ہوتا آیا ہے‘ اب مزید مؤخر نہ ہو!

اس سلسلے میں اپنی جانب سے ایک حقیر سی کوشش کے طور پر ہم ہی نے ’’تحقیق اسلامی: اس کے معنی و مدعاو دائرہ کار ‘‘کے موضوع پر محترم ڈاکٹر محمد رفیع الدین صاحب کا مقالہ بالاقساط ’’میثاق‘‘ میں شائع کیا اور ان شاء اللہ بہت جلد اسے ایک پمفلٹ کی صورت میں بھی شائع کردیں گے (یہ کتاب شائع ہوچکی ہے اور مکتبہ انجمن سے حاصل کی جا سکتی ہے).ہمارے نزدیک یہ مقالہ اپنے موضوع پر قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ قوم کا ہر صاحبِ بصیرت شخص جو ذہناً و قلباً مومن و مسلم ہو‘اس کے مندرجات کو اپنے دل کی آواز محسوس کرے گا.