جولائی ۱۹۶۹ء
میڈیکل کالج لاہور میں اپنے پانچ سالہ عرصہ تعلیم کے دوران راقم الحروف نے معمارِ پاکستان محمد علی جناح مرحوم کا حسب ذیل فقرہ جو کالج ہال کی دیوار پر نہایت جلی حروف میں لکھا ہوا تھا‘بلا مبالغہ سینکڑوں مرتبہ پڑھا ہوگا: 

God has given us a golden opportunity to show our worth as architects of a new nation (or state?) and let it not be said that we did not prove equal to the task (۱)

پھر کچھ تو اس بنا پرکہ فقرہ بجائے خود نہایت جاندار تھا اور اس کے الفاظ کا دروبست نہایت موزوں تھا اور کچھ اس وجہ سے کہ یہ وہ زمانہ تھا کہ پاکستان ابھی نیا نیا بنا تھا اور ہر پاکستانی مسلمان کے دل میں ایک ’’ولولہ تازہ‘‘موجزن تھا اور اس جملے میں گویا ہر شخص کو اپنے ہی دل کی صدا سنائی دیتی تھی‘ یہ فقرہ کچھ اس طرح ذہن میں ثبت ہوگیا تھا کہ آج تک من و عن یاد ہے.

لیکن … افسوس… کہ آج جبکہ پاکستان کو قائم ہوئے بائیس سال ہونے کو آئے اور خود محمد علی جناح مرحوم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا‘ مملکت ِخداداد پاکستان بزبانِ حال نوحہ خواں ہے کہ اس کے بانی و مؤسس کا خدشہ صحیح ثابت ہوا اور اس نئی مملکت کو وہ معمار میسر نہ آ سکے جو ایک انگریز شاعر کے قول کے مطابق ’’اس کے ستونوں کو نہایت گہری اور پختہ بنیادوں سے اٹھاتے اور پھر تعمیر کرتے ہوئے اوجِ ثریا تک پہنچا دیتے! ‘‘ 
(۲بائیس سال گزر (۱) یعنی ’’(مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں) اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نئی قوم (یامملکت؟) کے معماروں کی حیثیت سے اپنی اہلیت و صلاحیت کے اظہار کا ایک سنہری موقع عطا فرمایا ہے اور دیکھنا ! ایسا ہرگز نہ ہو کہ دنیا یہ کہے کہ ہم اس عظیم کام کے اہل ثابت نہیں ہو سکے!‘‘ 

(۲) They build a nations pillars deep and lift them to the sky

جانے کے بعد بھی اگر کسی مملکت کا ’’اساسی نظریہ‘‘تک زیر بحث چلا آ رہا ہو اور دستور سازی ہنوز معرض بحث میں ہو بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان دونوں کے بارے میں نئی نئی بحثیں اٹھ رہی ہوں اور ردّو قدح اور تکرار و نزاع کی نت نئی صورتیں پیدا ہورہی ہو ں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ساری مادی ترقیوں اور معاشی منصوبہ بندیوں کے باوجود ابھی مملکت کی اصل تعمیر کی ابتدا بھی نہیں ہوئی اور قومی تعمیر نو کا کام شروع بھی نہیں ہوسکا.

پاکستان کی زندگی کے بائیس سال درحقیقت گیارہ گیارہ سالوں کے دو مساوی ادوار پر مشتمل ہیں. پہلے گیارہ سالوں (۱۹۴۷ء تا۱۹۵۸ء)کے دوران پاکستان کے سیاست دانوں کی نااہلی وناقابلیت کا تدریجی ظہور ہوا اور اس کے اختتام کے قریب قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور شخصیتیں اس عظیم مملکت کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے میں بالکل ناکام ہوچکی ہیں اور ان کے ہاتھوں اب کسی خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی. اس کے فطری نتیجے کے طور پر ۱۹۵۸ء میں انقلاب آیا جو بظاہر اور ابتداء ً توفوجی تھا لیکن بہت جلد اس نے ایک سابق فوجی کے زیر سربراہی ایک خالص نوکر شاہی کی صورت اختیار کرلی اور اہل سیاست کو میدان سے ہٹا کر مملکت کے دوسرے منظم ادارے یعنی سول سروسز نے ملک کے نظم و نسق کو سنبھال لیا. چنانچہ دوسرا دور (۱۹۵۸ء تا۱۹۶۹ء)در حقیقت بیوروکریسی کا دور تھا اور اس کے دوران قوم کے اس دوسرے طبقے کی بھی بھرپور آزمائش ہوگئی. لیکن افسوس کہ اس دور کے بالکل ابتدا ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا کہ قوم کا یہ طبقہ بھی دیانت و امانت اور احساسِ فرض کے ان اوصاف سے بہت حد تک عاری ہے جو اُس عظیم ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کے لیے لازمی ہیں جو اس کے کندھوں پر آ پڑی ہے. چنانچہ رفتہ رفتہ اس طبقے کی نا اہلیت بھی واضح ہوتی چلی گئی اور۱۹۶۸ ء کے اواخر میں بے اطمینانی کا وہ لاوا جو قوم کے مختلف طبقات میں اس طبقے کی دست درازیوں کے باعث کھول رہا تھا اچانک پھٹ پڑا‘ اور اس طرح یہ دور بھی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگیا. 

ان دونوں طبقات کی ناکامی کے بعد ملک و ملت کے پاس ایک ہی منظم ادارہ باقی رہ گیا ہے یعنی فوج.چنانچہ بدرجۂ مجبوری پھر اسی کو آگے بڑھ کر ملک و ملت کی زمام اپنے ہاتھ میں لینی پڑی ہے اور خدا کا شکر ہے کہ شرافت‘دیانت‘امانت‘حب وطن‘حب قوم‘ ایثار‘قربانی‘احساسِ فرض اور 
تن دہی وجاں فشانی کے اوصاف کے اعتبار سے قوم اپنے اس طبقے پر مکمل اعتماد بھی کرتی ہے… لیکن ظاہر ہے کہ اس ادارے کا اصل فریضہ دفاع وطن ہے اور یہ بجائے خود اتنی عظیم ذمہ داری ہے کہ اس پر کوئی مزید بوجھ ڈالنا حد درجہ ناانصافی ہے. بین الاقوامی حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس کے پیش نظر مستقبل میں دفاعِ وطن کی ذمہ داری یقینا پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھاری اور بوجھل ہوجائے گی اور ڈیفنس سروسز کے کندھوں پر اگر زیادہ دیر تک ملک کے داخلی نظم و نسق کا بوجھ بھی پڑا رہا تو اس سے دفاعِ وطن کے محاذ کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ خطرہ (risk) اتنا بڑا ہے کہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا. دوسری طرف ملک کی سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کی صفوں میں خاصی سرگرمی اور ہلچل کے باوجود تا حال کوئی ایسی صورت سامنے نہیں آ رہی ہے کہ یہ امید کی جا سکے کہ اگر حکومت ان کے حوالے کردی جائے تو یہ اطمینان بخش طور پر اسے سنبھال سکیں گی اور دوبارہ وہی صورتحال پیدا نہ ہوجائے گی جس کے پیش نظر مارشل لاء کا نفاذ لازمی ہوگیا تھا. 

الغرض ‘نظریاتی اور دستوری بحثوں اور مناقشوں پر مستزاد یہ ہے وہ نازک صورت حال اور عظیم الجھاؤ 
(dilemma) جس سے مملکت خداداد پاکستان اس وقت دو چار ہے.

اس صورتحال کے اسباب میں سے تین عوامل تو ہماری گزشتہ نصف صدی کی تاریخ سے متعلق ہیں اور تین پیچیدگیاں وہ ہیں جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہوئیں اور مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہیں.

تاریخی عوامل کے بارے میں ہم ان صفحات میں مفصل لکھ چکے ہیں اور یہاں ان کے مفصل اعادے کی گنجائش بھی نہیں. مختصراً وہ یہ ہیں کہ:

اولاً…آج سے تقریباً نصف صدی قبل ملت اسلامیہ پاک و ہندکی قوتیں اور توانائیاں منقسم ہوگئیں اور قومی لائحہ عمل اور پالیسی سے اختلاف کی بنا پر علماء کا وہ طبقہ جو ماضی میں قوم کا اصل رہنما رہا تھا اور جس میں مخلص اور بے لوث عوامی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی‘ اپنے متوسلین سمیت قوم کے سوادِ اعظم سے کٹ کر رہ گیا اور اس طرح قوم اپنی بہترین متاع سے محروم 
ہوگئی . رہا یہ سوال کہ یہ حادثہ کیسے اور کیوں واقع ہوا‘تو یہ ایک علیحدہ مستقل موضوع ہے جس پر گفتگو کی اس وقت گنجائش نہیں. (یہ تحریر اب’’اسلام اور پاکستان‘‘نامی کتاب میں شامل ہے!)

ثانیاً … اسلامیانِ ہند کی قومی قیادت قومی تعمیر نو اور قوم کی تنظیم و تربیت کے ضمن میں ہرگز کوئی قابل ذکر کام نہیں کرسکی. اب چاہے یہ کہہ لیا جائے کہ اسے اس کا وقت نہیں ملا‘چاہے یہ کہ اس نے اس کی جانب توجہ نہیں کی‘فرق کوئی واقع نہیں ہوتا. واقعہ بہرحال یہی ہے کہ قومی تحریک نے بس ایک ہنگامی اور فوری سی ضرورت کو تو ضرور پورا کردیا لیکن اس نے قوم کو نہ کوئی قومی تنظیم دی نہ قومی قیادت!

ثالثاً … قیامِ پاکستان سے تقریباً ایک دہائی قبل ایک اور صاحب نے ’’قومی تحریک‘‘ کو مطعون کر کے ایک ’’بین الاقوامی اور خالص اصولی اسلامی تحریک‘‘کے نام پر قوم کے جسد سے مخلص کارکنوں کا ایک اور ٹکڑا کاٹ لیا اور قیام پاکستان کے فوراً بعد اسی ’’ٹکڑی‘‘ کی مدد سے ’’اسلامی دستور‘‘ اور ’’انقلابِ قیادت‘‘ کے نعروں کے ساتھ قومی قیادت پر ایک زور دار شبخون مارا. نتیجتاً قومی قیادت کے رہے سہے مخلص عناصر کو قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک جانب قومی تنظیم کے اندرونی خلفشار کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف ان صاحب کی بیرونی یلغار کا . اس دو گونہ کشمکش نے قومی قیادت کے ان مخلص عناصر کو کمزور کرتے کرتے بالآخر میدان سے بالکل خارج 
(knock out) کر دیا اور میدان بالکلیہ ان لوگوں کے ہاتھ آ گیا جن کا کوئی دین تھا تو خالص اغراض پرستی اور ایمان تھا تو محض مفادات پر اور جو کبھی یونینسٹ ہوتے تھے‘کبھی لیگی. پھر کبھی ری پبلکن بن جاتے تھے اور کبھی پھر لیگی! ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں پاکستان کی قومی سیاست کے تابوت میں وہ آخری کیل ٹھکی جس کے بعد خالص بیورو کریسی کا دور شروع ہوگیا. (ان تینوں امور پر ہماری مفصل تحریریں ’’اسلام اور پاکستان‘‘نامی کتاب میں شامل ہیں)

ان تین تاریخی عوامل پر مستزاد ہیں وہ تین پیچیدگیاں جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہوگئی تھیں اور گویا پاکستان کی تعمیر ہی میں مضمر ہیں اور جن کا الجھاؤ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے. آئندہ ہم ان کے بارے میں قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں. 
ان میں سب سے نمایاں اور اہم ترین پیچیدگی خالص جغرافیائی ہے یعنی یہ کہ مملکت خداداد پاکستان دو ایسے علیحدہ اور دُور دراز خطوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر واقع ہوئے ہیں اور جن کے مابین ایک ایسی مملکت حائل ہے جو حالت جنگ ہی میں نہیں عین حالت امن میں بھی ایک بالقوہ دشمن(potential enemy) کی حیثیت رکھتی ہے. واقعہ یہ ہے کہ یوں تو اگرچہ پاکستان کا وجود ہر اعتبار سے ایک معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن خاص اس اعتبار ہی سے تو یہ تاریخ عالم کا ایک نہایت ہی انوکھا اور محیر العقول تجربہ ہے جس کی شاید ہی کوئی دوسری نظیر کبھی موجود رہی ہو.

یہ جغرافیائی پیچیدگی بجائے خود بھی کچھ کم اہم اور الجھی ہوئی نہ تھی‘لیکن دو مزید عوامل نے اس کے الجھاؤ کو دوگونہ کردیا ہے . یعنی ایک اس حقیقت نے کہ تہذیب‘ تمدن‘ زبان‘ لباس ‘طرزِ بودوباش اور جذباتی و ذہنی ساخت غرض ایک مذہب کے سوا ہر اعتبار سے ان دو خطوں کے رہنے والے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اگر دین و مذہب کے سوال کو خارج از بحث کردیا جائے تو دنیا کے مروجہ معیارات میں سے کسی معیار کے اعتبار سے بھی انہیں ایک قوم قرار نہیں دیا جا سکتا. دوسرے اس واقعے نے کہ ان دو خطوں میں سے جو خطہ رقبہ‘محل وقوع‘دفاع اور تعمیر و ترقی کے امکانات الغرض تمام اعتبارات سے اہم تر ہے وہ بلحاظ آبادی کم تر ہے اور دوسرا خطہ جو نہ صرف یہ کہ ان تمام اہم امور کے اعتبار سے بہرحال ثانوی حیثیت رکھتا ہے 
(۲‘بلکہ ایک نہایت جاندار‘ فعال‘سرمایہ دار اور تعلیم یافتہ غرض ہر اعتبار سے نہایت مؤثر لیکن پاکستان کے اساسی نظریے کی دشمن اور اس کے عین وجود سے بغض و عداوت رکھنے والی اقلیت کی اضافی پیچیدگی بھی لیے ہوئے ہے‘تعدادِ نفوسِ انسانی کے لحاظ سے دوسرے خطے سے برتر ہے. ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اضافی عوامل کی بنا پر اس خالص جغرافیائی اشکال نے ایک نہایت پیچیدہ مسئلے کی صورت اختیار کرلی ہے. (۱) ممکن ہے ہماری یہ عریاں حقیقت نگاری بعض لوگوں کو ناگوار معلوم ہو اور واقعہ یہ ہے کہ کوئی سیاسی کارکن اس حقیقت کے اظہار کی جرأت نہیں کرے گا‘ تاہم ہمارے نزدیک واقعہ یہی ہے اور اسے ذہنی طور پر قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہیں. اور یہ اسی پیچیدگی اور اشکال کا نتیجہ ہے کہ بائیس سال کی طویل مدت میں بھی پاکستان کا کوئی دستور نہیں بن سکا اور دستور سازی کے میدان میں نہ صرف یہ کہ ہنوز روز اول کا معاملہ ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دُور دُور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اور الجھاؤ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے!

اس اشکال اور الجھاؤ کا مستقل حل تو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ دینی جذبات اور ملی احساسات کو مسلسل اُجاگر کیا جاتا رہے اور اس جذبہ کے دوام اور تسلسل کا مستقل اور پائیدار بندوبست کیا جائے جو ایک دوسرے سے اتنے بعید اور باہم اس قدر مختلف خطوں کے ایک مملکت میں شامل ہونے کا سبب بنا تھا. تاہم فوری طور پر بعض دوسری چیزیں بھی پیش نظر رہنی ضروری ہیں.

ایک یہ کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اس ’’سنجوگ‘‘ کا برقرار رہنا مشرقی پاکستان کے عوام کی آزاد مرضی ہی پر منحصر ہے اور اسے کسی طرح بھی ان پر ٹھونسا نہیں جا سکتا‘ بلکہ اس معاملے میں جبر و تشدد کا رد عمل نہایت خوف ناک ہوسکتا ہے.

دوسرے یہ کہ اس ’’آزاد مرضی‘‘ کا انحصار بھی جتنا کچھ دینی جذبات اور ملی احساسات پر ہے اتنا ہی اس امر پر بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ یہ محسوس کریں کہ ہمارے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو رہی بلکہ مثبت طور پر انہیں یہ احساس بھی ہو کہ خود ان کا مفاد مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے ہی سے وابستہ ہے اور مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ رہ کر ہی دنیا میں ایک باعزت اور باوقار آزاد مملکت کی حیثیت سے زندہ رہ سکتے ہیں. مزید بر آں یہ کہ اگر خدانخواستہ کبھی ’’علیحدگی‘‘ کی صورت پیدا ہوئی تو مغربی پاکستان کے لیے تو پھر بھی امکانِ غالب موجود ہے کہ وہ اپنی آزاد اور باوقار حیثیت کو برقرار رکھ سکے گالیکن مشرقی پاکستان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا کہ کسی دوسری وسیع تر قومیت میں ضم اور کسی دوسری بڑی مملکت میں جذ ب ہوکر رہ جائے.

ان دو امور کی روشنی میں جائزہ لیا جانا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی مرضی دراصل ہے کیا! اگر وہ واقعتامغربی پاکستان سے علیحدہ ہو کر ایک آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں تو ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کی اس خواہش کے آڑے نہیں آ سکتی. بین الانسانی علائق میں سب سے زیادہ مقدس رشتہ میاں اور بیوی کا ہوتا ہے لیکن اس میں بھی دین فطرت نے علیحدگی کی ایک سبیل رکھ دی ہے اور صاف ہدایت کی ہے اگرچہ طلاق حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے تا ہم ’’معلق‘‘ رکھنے سے بہتر یہی ہے کہ علیحدگی اختیار کر لی جائے .بالکل اسی طرح اگر ہمارے مشرقی پاکستانی بھائی واقعتاً یہ محسوس کرتے ہوں کہ مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے میں انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے تو ان کی بے اطمینانی کے سبب سے پورے ملک کی سیاسی و دستوری زندگی کو مسلسل’’معطل‘‘ رکھنے سے بہتر یہ ہے کہ ان کی مرضی کو بروئے کار آنے کا موقع دیا جائے.

ہم نے اوپر بھی عرض کیا تھا‘ اور اب مزید وضاحت سے کہے دیتے ہیں کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے مابین ’’مساوات‘‘ کا مفہوم اگر یہ ہے کہ دار الحکومت ایک مغربی پاکستان میں ہو اور دوسرا مشرقی پاکستان میں اور مرکزی حکومت چھ ماہ وہاں رہے اور چھ ماہ یہاں‘اور دفاعی اخراجات میں بھی لازماً کامل مساوات برتی جائے تو یہ خالص احمقانہ تصور ہے. ایسی مساوات خاندان کے مختصر سے ادارے میں بھی نہیں چل سکتی‘کجا یہ کہ ایک عظیم مملکت جو طرح طرح کی پیچیدگیوں سے دو چار ہو‘اس کے انتظام و انصرام میں برتی جا سکے. اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس سے کہیں بہتر یہ ہے کہ دونوں خطے آزاد ہوکر اپنے اپنے بقا و استحکام اور تعمیر وترقی کی فکر کریں.

لیکن ہمیں یقین ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی خواہش ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوں. اگرچہ ماضی قریب میں ان پر یہ’’بہتان‘‘ کثرت سے لگایا گیا ہے کہ ان میں ’’علیحدگی پسندی‘‘کا رجحان موجود ہے ‘ہم یہ باور نہیں کرسکتے کہ مشرقی پاکستان کے مسلمان حقائق و واقعات اور موجود الوقت ظروف و احوال سے اتنے بے خبر ہوسکتے ہیں کہ ان خطرات کا اندازہ نہ کرسکیں جو ایسی کسی تجویز میں لازماً مضمر ہیں.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ان میں زیادہ سے زیادہ بس ’’صوبائی خود اختیاری‘‘کے حصول کی خواہش ہے اور وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ صوبائی معاملات میں انہیں زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو . یہ ہمارے نزدیک ان کا ایک ایسا حق ہے جس سے کسی بھی معقول انسان کو کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ‘اور مرکزی حکومت کے مؤثر طور پر اپنے فرائض سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے جو امور ضروری ہیں انہیں مرکز کی تحویل میں دینے کے بعد بقیہ تمام معاملات میں مشرقی پاکستان کو کامل صوبائی خود اختیاری لازماً ملنی چاہیے.

انہی متذکرہ بالا دو امور کی روشنی میں دستور کے مسئلے پر بھی ایک بار حتمی طور پر فیصلہ کرلینے کی شدید ضرورت ہے اور تمام حالات و واقعات کا مردانہ وار مواجہہ کرکے اس مسئلے کو ایک بار قطعی طور پر طے کرلینا لازمی ہے. اگرچہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کے نزدیک کسی مملکت کے انتظام و انصرام میں اصل فیصلہ کن عامل کی حیثیت دیانت و امانت کو حاصل ہے نہ کہ قواعد و ضوابط اور تدابیر تحدید و توازن (checks and balances) کے اس بے جان ڈھانچے کو جسے ’’دستور‘‘ کہاجاتا ہے تاہم ہمارے یہاں جو خلا اس میدان میں چلا آ رہا ہے اسے ایک بار جرأ ت و ہمت کے ساتھ عوام کی آزادانہ رائے کے مطابق پر کرلینا ہی بہتر ہے!

دستور کے مسئلے پر ہمارے یہاں اس وقت بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں. بہت سے لوگ ۱۹۵۶ء کے دستور کی بحالی کے خواہاں ہیں‘اگرچہ وہ ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر رہے ہیں کہ اس میں بنیادی ترمیموں کی ضرورت ہے اور اگرچہ خان قیوم خان نے ایک علیحدہ آواز بلند کی ہے یعنی یہ کہ فی الحال ایک عبوری دستور نافذ کردیا جائے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’دائیں بازو‘‘نے اپنے حلقہ اثر کی تمام جماعتوں اور شخصیتوں کو اس معاملے میں تقریباً متفق کرلیا ہے(جس کی تازہ ترین مثال شیخ مجیب الرحمن کا بھی۱۹۵۶ء کے دستور کی بحالی سے متفق ہوجانا ہے).دوسری طرف ایک مطالبہ یہ ہے کہ بالغِ حق رائے دہی کی بنیاد پر ایک دستور ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں آئے اور اسے ایک معین مدت (مثلاً چھ ماہ)کے اندر اندر دستور سازی کا پابند کیا جائے. بعد میں یہی اسمبلی پارلیمنٹ کی حیثیت سے کام کرسکتی ہے.

ہمارے نزدیک یہی دوسری رائے منطق کے ہر اصول کے مطابق اقرب الی الصواب ہے اور اگرچہ ہمیں‘جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا‘۱۹۵۶ء کے دستور سے بھی کوئی کد نہیں‘تاہم ہمارے نزدیک حقیقت یہی ہے کہ ہمارے یہاں اب تک کی کسی دستوری دستاویز کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی پشت پر عوام کی مرضی اور رائے موجود ہے. ان میں سے کسی کو بھی آئندہ انتخابات کی بنیاد بنایا گیا‘تو یہ اعتراض جائز طور پر موجود رہے گا کہ ایک غیر نمائندہ دستور کے تحت منعقد شدہ انتخابات کے نتائج بھی قابل اعتماد نہیں قرار دیے جا سکتے. ہمارے نزدیک صدرِ مملکت محمد یحییٰ خاں کی وہ رائے نہایت صحیح ہے جو انہوں نے خان قیوم خاں کی متذکرہ بالا تجویز کے جواب میں ظاہر کی ہے‘یعنی یہ کہ موجودہ مارشل لاء خود ایک ’’عبوری دستور‘‘کی ضرورت پوری کر رہا ہے.اب اس معاملے میں جو اقدام بھی ہو وہ عارضی اور عبوری اور پیشگی طور پر واجب الترمیم نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو ایک بار قطعی طور پر طے کرلیا جائے‘ اور ظاہر ہے کہ اس کی کوئی صورت اس مؤخر الذکر تجویز کے سوا ممکن نہیں.

دوسری بڑی پیچیدگی جو گویا پاکستان کی تعمیر ہی میں مضمر ہے اور روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے یہ ہے کہ اپنے اول یوم پیدائش ہی سے پاکستان کو ایک ایسی مملکت کی عداوت و دشمنی کا سامنا ہے جو ایک طرف تو نہ صرف یہ کہ اس کے بالکل قریبی ہمسائے کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ پاکستان کے دونوں خطوں کے مابین حائل ہونے کی بنا پر گویا پاکستان کے چھوٹے سے جسم میں ایک بہت بڑے خنجر کی طرح پیوست ہے‘ اور دوسری طرف اپنی وسعت‘قوت‘آبادی اور وسائل تمام اعتبارات سے پاکستان سے کم از کم چوگنی ہے. (۳

بھارت کی یہ مستقل عداوت نہ صرف یہ کہ ہمارے محدود وسائل و ذرائع پر ایک بہت بڑے بوجھ کا سبب بنی رہی ہے جس کی بناپر اس نوزائیدہ مملکت کی تعمیر و ترقی کے جملہ امکانات بروئے کار نہ آ سکے…بلکہ بدقسمتی سے اسی ایک مرکز کے گرد ہماری پوری خارجہ حکمت عملی کو ہمیشہ گھومنا پڑا ہے. 

اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو گزشتہ بائیس سالوں کے دوران دو دور گزر چکے ہیں اور اب تیسرے دور کا آغاز ہورہا ہے. پہلا دور آرام و آسائش بلکہ عیش اور گلچھروںکا دور تھا. دوسرے میں ہمیں نسبتاً مشکل تر حالات کا سامنا کرنا پڑا اور اب جو دور شروع ہورہا ہے ‘آثار و قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں ہمیں اپنی آزاد اور باوقار حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت شدید جدوجہد اور محنت و مشقت کا سامنا کرنا ہوگا. (۳) اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت اور اسرائیل میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے. دونوں دنیا کے نقشے پراپنی شکل و صورت کے اعتبار سے بالکل خنجروں سے مشابہ ہیں. ایک بلادِ عرب کے سینے میں پیوست ہے اور دوسرا اسلامیانِ پاکستان کے جسد میں. بلادِعرب اگر وسعت میں زیادہ ہیںتو اسلامیانِ پاکستان تعداد میں مسلمانانِ عرب کی مجموعی تعداد سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں. اسرائیل بھارت کے مقابلے میں چاہے بہت چھوٹا ہے لیکن مغربی استعمار کی پشت پناہی کی بنا پر بھارت سے کسی طرح بھی کمزور نہیں! پہلے دور میں دنیا کی بڑی طاقتیں دو دھڑوں میں منقسم تھیں. ایک طرف روس اور چین پر مشتمل کمیونسٹ بلاک تھا اور دوسری طرف اینگلو امریکی اتحاد. ان کے مابین شدید کش مکش اور مسلسل جنگ جاری تھی جو کبھی گرم ہوجاتی تھی کبھی سرد. بھارت نے ایک نئی طاقت کی حیثیت سے ان کے مابین ’’ثالثی‘‘کا کردار اختیار کرنے کی کوشش کی اور اپنی نام نہاد آزاد اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی کے نام پر خصوصاً مغربی بلاک کو پریشان کرنا شروع کیا. اس صورت حال کا عروج تھا وہ وقت جب ہندوستان میں ’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘کے نعرے لگ رہے تھے .اس وقت مغربی بلاک کو شدید ضرورت تھی کہ اس علاقے میں کوئی ملک ایسا ہو جہاں اس کے قدم بھی کسی قدر جم سکیں. ان کی اس ضرورت کو اپنی خارجہ حکمت عملی میں فٹ پا کر پاکستان نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا. چنانچہ یہ وہ دور تھا جب ہم پر چچا سام نہایت مہربان تھے اور ہمارے ہر طرح کے ناز نخرے برداشت کرنے کو تیار تھے! دوسری طرف ہم بھی ان کے کامل نیاز مند تھے اور ان کے اشارے پر کبھی سیٹو میں حاضری دیتے تھے کبھی سنٹو میں !

اس کے بعد حالات بدلے. ایک طرف چین اور روس کے مابین اختلافات کی خلیج نمودار ہوئی‘دوسری طرف روس کا رویہ مغربی اتحاد کے ساتھ بدلنا شروع ہوا‘تیسری طرف بھارت کو ’’عقل‘‘ آئی اور اس نے اندر ہی اندر چچا سام سے تعلقات استوار کرلیے‘ اور چوتھی طرف روس‘مغربی اتحاد اور بھارت تینوں نے چین کو اپنے مشترک دشمن کی حیثیت دینی شروع کردی .نتیجتاً بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ حکمت عملی کے میدان میں ہم نے جس زمین پر تعمیر کی تھی وہ پیروں تلے سے کھسکنی شروع ہوگئی اور بھارت کو امریکہ اور روس دونوں کے منظورِ نظر کی حیثیت حاصل ہوگئی . یہ ہمارے لیے مشکلات کے دور کا آغاز تھا. اس دور کے بالکل ابتدا میں ایک کوشش امریکہ نے یہ کی بھی کہ کسی طرح بھارت اور پاکستان کے مابین ایسی مکمل ’’مفاہمت‘‘کرا دی جائے کہ یہ دونوں سوکنوںکی بجائے بہنوں کی صورت اختیار کرلیں اور دونوں ہمارے اشاروں پر یکساں حرکت کرسکیں. اس غرض سے اس نے پنجاب کے دریاؤں کے پانی کے مسئلے کو جیسے تیسے حل کرانے کا کھکھیڑ مول لیا اور بعض دوسرے معاملات میں بھی صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی. ان کوششوں کا عروج (climax) تھی وہ تجویز جو امریکہ نے سابق صدر ایوب کے ذریعے پیش کرائی کہ پاکستان اور ہندوستان کا دفاع مشترک ہوجائے. اس تجویز پر پنڈت نہرو کے احمقانہ رد عمل سے اس معاملے میں اینٹی کلائمکسکے دور کا آغاز ہوا اور پاکستان میں آزاد خارجہ حکمت عملی کا دور شروع ہوگیا. 

اب ظاہر ہے کہ کسی کے گھڑے کی مچھلی بنے رہنے میں جو آسانی اور عافیت ہے وہ اپنی آزاد رائے اور آزادانہ حیثیت و تشخص کو برقرار رکھنے اور دوسروں سے منوانے (یعنی assert کرنے )میں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی. آزادی بہرحال جدوجہد ‘ محنت و مشقت اور ایثار و قربانی کا مطالبہ کرتی ہے. چنانچہ اس دور میں ہمیں لامحالہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں. 

اب جس تیسرے دور کا آغاز ہورہا ہے ‘وہ اسی صورت حال کی گویا ایک منطقی انتہا کا دور ہے. اس وقت جن حالات سے ہم دو چار ہیں وہ یہ ہیں کہ ایک طرف صاحب برطانیہ بہادر تو بالکل ہی اپنی بساط مشرق سے لپیٹ گئے ہیں‘خود چچا سام بھی پہلے کوریا اور پھر ویت نام میں اس قدر مار کھا چکے ہیں کہ اب اس علاقے سے کسی قدر باعزت طور پر کھسک جانے ہی میں عافیت محسوس کر رہے ہیں. دوسری طرف روس نے امریکہ کی خاموش رضا کے تحت اس علاقے میں کچھ زیادہ ہی پاؤں پسارنے شروع کردیے ہیں اور تیسرے جنوب مشرقی ایشیا میں ان دونوں کا اصل اتحادی بھارت اور اصل دشمن چین بن چکا ہے. اب امریکہ‘روس اور بھارت تینوں مل کر زور لگا رہے ہیں کہ ہم ان کے تابع مہمل بن کر ان کی مرضی کے مطابق چین کی مخالفت میں ان کا پسندیدہ کردار ادا کریں اور اس علاقے میں بھارت کے مقابلے میں گھٹیا درجے کی شہریت (second rate citizenship) قبول کر لیں. اس طرح یہ دور ہماری قومی غیرت اور حمیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر شروع ہورہا ہے اور اس کے لیے ہم پر ہر ممکن دباؤ کو استعمال کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں. چنانچہ ایک طرف بھارت نے ایران اور عرب ممالک میں اپنے تجارتی و صنعتی اثر و رسوخ کے جال کو تیزی کے ساتھ بچھانا شروع کردیا ہے اور یہ امر ہمیں ہوشیار کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے کہ ان ممالک کی جانب سے بھارت کے ان عزائم کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے. دوسری طرف بھارت نے افغانستان سے اپنے پرانے معاشقے کی از سر نو تازہ جوش وخروش کے ساتھ تجدید کرنی شروع کردی ہے اور ایک فراخہ بند سے جو خطرہ مشرقی پاکستان کی زرعی معیشت کو تھا‘اس کا حل بھی ابھی نہیں ہوا تھا کہ افغانستان سے آنے والے دریاؤں کو خشک کرکے مغربی پاکستان کی معیشت پر خطرناک وار کرنے کی سکیم پر سوچ بچار شروع ہوگیا ہے. تیسری طرف خاص اس موقع پر سرحدی گاندھی سے اندرا گاندھی کی ملاقات‘انہیں ’’نہرو پرائز‘‘ وصول کرنے کے لیے بھارت آنے کی دعوت اور ان کی خدمت میں اسی لاکھ روپے کی رقم بطورِ نذرانہ پیش کرنے کی سکیم سے بھارت کے عزائم واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں. بھارت کی ان ساری کوششوں اور تدبیروں پر مستزاد ہیں روس کی تجاویز جو کبھی کوسیجن صاحب کے پیش کردہ معاشی تعاون کے منصوبے کی صورت میں سامنے آتی ہیں اور کبھی برزنیف صاحب کی پیش کردہ ’’اجتماعی سلامتی‘‘کی سکیم کی شکل اختیار کرتی ہیں‘ اور ان سب پر ثبت ہے چچا سام کی منظوری و رضا مندی کی مہر جو ایسی تمام تجاویز پر خاموشی یا’’محتاط ردِّعمل‘‘کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے. 

یہ صورت حال ہر غیور اور باحمیت پاکستانی سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ کمر ہمت کس کر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مستعد ہوجائے. اس مشکل کے وقت میں ہماری اصل قوتِ مدافعت و مزاحمت ایک آزاد اور باعزت و باوقار ملک و ملت کی حیثیت سے زندہ رہنے کے ایک شدید داعیے ہی سے پیدا ہوسکتی ہے‘ اور یہ داعیہ محض ’’زندگی برائے زندگی‘‘کے نظریے سے کبھی پیدا نہیں ہو سکتا. اس نظریے کے تحت تو انسان بسا اوقات ذلت اور بے عزتی کی حالت کو بھی گوارا کرلیتا ہے. یہ داعیہ کسی مقصد زندگی سے آشنا ہوکر ہی پیدا ہوسکتا ہے. ملت اسلامیہ پاکستان کے اندر اگر کسی مقصد کا عشق پیدا ہوجائے اور یہ انسانیت کے لیے کسی نظریے اور پیغام کی علمبردار بن کر اٹھ سکے تبھی اس میںوہ ہمت‘ وہ جرأت‘ وہ ایثار‘ وہ قربانی اور محنت و مشقت کا وہ جذبہ بیدار ہو سکتا ہے جو ان حالات میں اس کے بقا و تحفظ ہی نہیں ترقی و استحکام اور عزت و وجاہت کا ضامن بھی بن سکتا ہے. اب ظاہر ہے کہ یہ نظریہ وہی ہوسکتا ہے جس کے نام پر پاکستان قائم ہوا تھا اور وہ پیغام اسلام کے پیغام کے سوا اور کوئی نہیں. گویا جس طرح پہلی پیچیدگی کا اصل اور مستقل حل دینی جذبات اور ملی احساسات کو اجاگر کرنے میں ہے‘اسی طرح اس دوسری پیچیدگی اور اشکال کا اصل حل اور اس سے پیدا شدہ چیلنج کا اصل جواب بھی یہی ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایمان کے داعی اور اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہوں اور اس مقصد کے ساتھ ایک ایسا والہانہ عشق ہمارے اندر پیدا ہوجائے کہ اس کے لیے بڑی سی بڑی محنت اور کٹھن سے کٹھن مشقت ہمیں آسان معلوم ہونے لگے اور بڑے سے بڑا ایثار اور اونچی سے اونچی قربانی حقیر محسوس ہو. اس پیچیدہ صورت حال کا ایک ضمنی تقاضا بھی ہے اور وہ یہ کہ ہماری خارجہ حکمت عملی کو اب دورِ ثانی کے مقابلے میں بھی زیادہ ’’آزاد‘‘ہونا چاہیے اور اندریں حالات ہمیں عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر پہلے سے بھی زیادہ زور دینا چاہیے. چنانچہ خدا کا شکر ہے کہ اس موقع پر ایک طرف ’’دائیں بازو‘‘ کی چوٹی کی قیادت (top brass) نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں چین کی مخالفت میںبڑی طاقتوں (سپرپاورز) کا آلہ کار ہرگز نہیں بننا چاہیے اور دوسری طرف وزیر اعظم روس کے دہلی سے واپسی پر ’’سرراہے‘‘ ورودِ پاکستان اور اب صدرِ امریکہ کی خلائی جہاز کی واپسی کے منظر کو دیکھنے کے بعد ٹہلتے ٹہلاتے پاکستان کو بھی نوازتے جانے کے پروگرام سے یہ احساس شدت کے ساتھ ابھرا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی کو بھی جلد پاکستان آنا چاہیے (جس کا سب سے بڑا مظہر آج ۵ جولائی کے اخبارات میں شائع شدہ صدرِ مملکت محمد یحییٰ خاں کا یہ بیان ہے کہ چو این لائی عنقریب پاکستان کا دورہ کریں گے) . 

نہ صرف یہ ‘بلکہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو روس‘امریکہ اور بھارت کے اتحادِ ثلاثہ کے احمقانہ دباؤ کے تحت کچھ زیادہ ہی تیزی کے ساتھ چین کی جانب جھکنا ہوگا اور یہ حالات کا ایک ایسا بہاؤ ہوگاجس کے رخ کو روکنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا.