اکتوبر ۱۹۶۹ء 

سالِ رواں کے اس ربع کے دوران میں جو واقعات عالمِ اسلامی میں رونما ہوئے اور جن حوادث کا سامنا اُِمت مسلمہ کو رہا ‘ان کی یاد سے کلیجہ شق ہوتا ہے.اتنے گوناگوں مصائب اور ایسے پے بہ پے حوادث کہ انسان حیران و پریشان ہوکر رہ جائے کہ ؏ 
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں!

ایک طرف مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کیا گیا اور عالم اسلامی کے روحانی مراکز میں سے تیسرا عظیم ترین مرکز‘حرمِ ثالث اور ان تین مقدس ترین مقامات میں سے ثالث ثلاثہ جن کی زیارت کی نیت سے شد رحال کی آنحضور نے اجازت دی ہے‘ آگ کے شعلوں میں لپٹ کر پورے عالم اسلام کے لیے مجسم دعوتِ آہ و فغاں بن گیا . ــ؎ 

رولے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننابہ بار
وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

پورا عالم اسلام بے قرار ہوگیا‘قلوب مضطرب ہوگئے‘روحیں بے چین ہوگئیں‘غم و اندوہ اور غیظ و غضب کی ایک لہر پوری ملت اسلامی کے جسد میں دوڑ گئی لیکن آخرش’’قہر درویش بر جان درویش‘‘کے سوا کچھ نہ ہوسکا. پوری ملت اسلامی بس تلملا کر رہ گئی. اس لیے کہ ؏ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘.

جس طرح بسا اوقات کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلینے ہی میں عافیت دیکھتا ہے اسی طرح جی چاہتا ہے کہ اس صورت حال کے عواقب سے بھی آنکھیں بند کرلی جائیں اور قطعاً نہ سوچا جائے کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا! بصورت دیگر سخت مایوسی کا سامنا ہوتا ہے‘اعصاب جواب دینے لگتے ہیں اور نبضیں چھوٹتی محسوس ہوتی ہیں.دشمن ہمیں ٹٹول رہا ہے اور رفتہ رفتہ 
ہماری کمزوریوں سے آگاہ ہوتا چلا جا رہا ہے. صورت حال یک دم تبدیل ہوگئی ہے‘اور دفعۃً عالم ارضی کی پوری نام نہاد ملت اسلامی کا بھرم کھل گیا ہے. ابھی تک معاملہ صرف فلسطینی عربوں کے حقوق کا تھاجسے خود عربوں نے سخت ناعاقبت اندیشی سے کام لے کر اپنا ایک داخلی سا مسئلہ بنا رکھا تھا‘لیکن اب معاملہ پوری ملت اسلامیہ کی دینی غیرت و حمیت کا ہے. اس ذلت کو اگر یہ پوری امت اس طرح گوارا کر گئی تو دشمن حرمِ نبویؐ کی حرمت پر وار کرنے سے کب باز رہے گا؟ آج کے دور میں جبکہ لاکھوں میل کے فاصلے کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی‘اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے مسجد نبوی ؐ کا فاصلہ کل چھ سو میل اور مسجد حرام کا فاصلہ قریباً آٹھ سو میل رہ گیا ہے… اور کم از کم حرمِ نبویؐ پر اپنے دعویٰ استحقاق کو تو اسرائیل نے کبھی مخفی بھی نہیں رکھا. ادھر قرآن حکیم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان امتوں کو ان کی بد عملی و بدکرداری کی سزاان کے مقاماتِ مقدسہ کی اغیار کے ہاتھوں بے حرمتی کی صورت میں بھی دیتے ہیں. چنانچہ ماضی کی اُمت ِمسلمہ یعنی بنی اسرائیل کو یہ سزا دوبار دی گئی : 

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ﴿۷﴾ 
(بنی اسرائیل) 
’’پھر جب آیا دوسری وعید کا وقت (تو مسلط کیا تم پر لوگوں کو)تاکہ بگاڑ دیں وہ تمہارا حلیہ اور داخل ہوں مسجد میں اسی طرح جس طرح داخل ہوئے تھے اس میں پہلی بار اور تباہ کردیں ہر چیز کو جس پر بھی بس چل جائے !‘‘

تو کیا اب ہماری سیہ کاریوں کی کالک حرمین شریفین کی مقدس پیشانیوں پر بھی ملی جائے گی! 
عیاذًا باللّٰہ اعیاذًا باللہ!! 

دوسری طرف بھارت میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی‘ اور تاحال یہ شغل جاری ہے!یوں تو ہندی مسلمانوں پر ظلم و تشدد اور تعدی وعدوان بھارت کی ہندوجاتی کا روز کا معمول ہے لیکن احمد آباد اور اس کے گرد و نواح میں تو ان دنوں بالکل ۱۹۴۷ء کی خونچکاں داستان دہرائی گئی اور بعینہٖ وہی نقشہ سامنے آ گیا کہ ؏ ’’ہوگیا مانند آب ارزاں مسلمان کا لہو!‘‘ 
اللہ کی شان ہے کہ جو شہر خود احمد مجتبیٰ کے نامِ نامی سے معنون ہو‘اس میں انؐ ہی کے دین کے نام لیوا اس طرح بھیڑ بکریوں کے مانند ذبح ہو رہے ہیں اور پورا عالم اسلام ہے کہ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘کا نقشہ پیش کررہا ہے‘ در آنحالیکہ کتابِ الٰہی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ : 

وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾ 
(النساء) 
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم جنگ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور ان مغلوب و مقہور مردوں‘عورتوں اور بچوں (کی داد رسی)کے لیے جو کہتے ہیں کہ:اے ہمارے پروردگار!ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں‘اور ہمارے لیے اپنی جانب سے کوئی حمایتی اور مددگار اٹھا!‘‘
اس معاملے میں یوں تو اس عالم ارضی کی پوری امت مسلمہ کی ملی غیرت و حمیت کا مرثیہ کہنا چاہیے‘ خصوصاً اس لیے کہ یہ ایک ناقابل انکار واقعہ ہے کہ بر صغیر پاک و ہند کی ملت اسلامی نے ہمیشہ پورے عالم اسلامی کے رنج و غم کو اپنا دکھ درد شمار کیا اور تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ صورت حال یہ رہی کہ چاہے کبھی بلقان و ترکی پر برا وقت آیا ہو‘چاہے طرابلس و شام پر ‘ہندوستانی مسلمان بالکل اس طرح تڑپ اٹھتا رہا جیسے خود ا س کے پہلو میں خنجر بھونکا گیا ہو. ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!

لیکن ادھر یہ عالم ہے کہ بھارت میں ’’فی کل عام مرۃ او مرتین‘‘ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے‘اور عالم اسلام … بات کہنے کی نہیں لیکن ؏ ’’ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘کے مصداق کہنی پڑتی ہے کہ …خصوصاً عالم عرب کا حال یہ ہے کہ ان کی ہر حکومت بھارت کی نیاز مندی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور اسے سر آنکھوں پر بٹھانے کے لیے ایک دوسرے سے زیادہ بے تاب نظر آتی ہے.ماضی میں پنڈت نہرو کو عین مملکت عربیہ سعودیہ میں حرمین شریفین کی خادم و محافظ حکومت نے ’’رسول السلام‘‘کے خطاب سے نوازا
اور اس موقع پر تو حد ہوگئی کہ عین اس وقت جبکہ بھارت کے ایک صوبائی دار الحکومت میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا اور گھاس پھونس کی طرح جلایا جارہا تھا‘زعمائے عرب رباط کی مسلم سربراہ کانفرنس میں بھارت کی شرکت پر زور دے رہے تھے اور اس معاملے میں ان کی صفوں میں ایک غیر معمولی اتحاد و اتفاق نظر آ رہا تھاحتیٰ کہ اس حمام میں’’رجعت پسند شاہ پرست‘‘اور نام نہاد’’ترقی پسند‘‘سب یکساں ننگے تھے. ؎

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے

عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب سے یہ گلہ شکوہ قدرے دور کی بات سہی‘لیکن ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے تو یہ واقعتاً ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ جن کی قربانیوں کے طفیل آج نہ صرف یہ کہ آزادی کے سانس لے رہی ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ گلچھرے اڑا رہی ہے ان پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر بھی یہ ٹس سے مس نہیں ہوتی . خدا کے یہاں دیر ہے ‘اندھیر نہیں اور مکافاتِ عمل صرف عالمِ آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اقوام و ملل کے اجتماعی جرائم کا حساب تو اکثر و بیشتر یہیں چکا دیا جاتا ہے.ہمارے لچھن اگر وہی رہے کہ جو اب ہیں اور ہم اسی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کے خون کی سرخی کو شرابِ ارغوانی اور غازۂ چہرۂ نسوانی میں تبدیل کرتے رہے تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا !

کم از کم ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اگر ہم ہندی مسلمانوں پر ظلم و ستم کی اس پیہم یلغار کو اسی طرح خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے اور ہماری رگِ حمیت صرف اسی قدر جوش کھاتی رہی کہ ہر بار ظالموں کی اس منڈلی کی دہائی دی جاتی رہی جسے اقوامِ متحدہ کہاجاتا ہے تو رفتہ رفتہ ہماری حمیت قومی اور غیرتِ ملی کا جنازہ بالکل نکل جائے گا اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب صورت وہ ہوجائے گی کہ ؏ :

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
پھر تاریخ کی یہ شہادت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس گھرانے سے غیرت و حمیت رخصت ہوجائے ‘اس سے آزادی اور خود اختیاری کو بھی روانہ ہوتے دیر نہیں لگتی. اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجامِ بد سے بچائے!آمین. 

اندرونِ ملک کے حالات کو دیکھئے تو مزید مایوس کن صورت حال نظر آتی ہے اور ؏ 

’’تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم‘‘
کا نقشہ دکھائی دیتا ہے‘ یہاں تک کہ اوپر کا سارا گلہ شکوہ ہی بے بنیاد نظر آنے لگتا ہے. اس لیے کہ یہ سارا ’’استغاثہ‘‘توصرف’’ملت اسلامیہ‘‘کے نام مناسب ہوسکتا ہے اور یہاں یہ تصور ہی کم ہوتے ہوتے بالکل معدوم کے درجے کو پہنچ چکا ہے ؏ 

آں قدح بشکست و آں ساقی نماند!

چنانچہ جس قسم کے نعرے آج سے پچیس تیس سال قبل عالم عرب میں لگے تھے یعنی 
’’المصر للمصریین‘‘ (مصر مصریوں کا ہے) اسی قسم کے نعرے آج سرزمینِ پاک میں بلند ہو رہے ہیں.

مشرقی پاکستان میں تو بنگالی قومیت کا راگ شروع ہی سے الاپا جارہا تھا. اب سندھ بھی ’’جئے سندھ‘‘کے نعروں سے گونج رہا ہے اور یہی حال بلوچستان اور سابق صوبۂ سرحد کا ہے.وہاں پختونستان کا سٹنٹ تو قدیم تھا ہی‘ایک نئی دو عملی یہ ایجاد ہوئی ہے کہ ’’عظیم باپ‘‘افغانستان میں بیٹھ کر آزاد پختونستان کے نعرے کو ہوا دے رہا ہے اور اس کی صلبی و معنوی ذریت پاکستان میں بیٹھ کر اس کی ایک دوسری نسبتاً کم قابل اعتراض تعبیر پیش کر رہی ہے. الغرض وہ نغمہ کہ:

بتانِ رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
کہ ایرانی رہے باقی نہ تورانی نہ افغانی!

جو تحریک پاکستان کے دوران خوب زور شور سے بلند ہوا تھا‘ایران و افغانستان تک کیا پہنچتا خود پاکستان میں دم توڑ رہا ہے (۱. پوری ارض پاک میں ایک خطہ پنجاب ہے جو شاید اپنے اس مایہ ناز (۱) خود ہم نے جولائی کے شمارے میں پاکستان کی اجتماعی زندگی کی جن الجھنوں اور پیچیدگیوں کا تذکرہ کیا تھا ان میں سے تیسری الجھن جو مضمون کی دوسری قسط میں بیان ہوئی تھی یہی ہے کہ پاکستان میں ’’قومیت‘‘ کا ایک ہولناک خلا ہے جو کوئی آج پیدا نہیں ہوا بلکہ ابتدا سے چلا آ رہا ہے ‘لیکن بعد میں ہم نے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے اس لیے احتراز کیا کہ ع ’’اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں!‘‘ سردست صرف اس اشارے پر اکتفا مناسب ہے کہ پاکستان قائم تو ’’ملت از وطن است‘‘ کی پرزور نفی اور ’’ملت اسلامی‘‘ کے تصور کے زوردار اثبات پر ہوا تھا‘ لیکن خود اس کے قائم کرنے والے نے پہلے ہی روزغیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ کر کہ ’’پاکستان میں نہ کوئی ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان‘ مذہبی اعتبار سے نہیں‘ اس لیے کہ وہ تو ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے لیکن سیاسی اعتبار سے…! ‘‘ملت اسلامی کے تصور کی نفی اور ’’وطنی قومیت‘‘ کا اثبات کر دیاتھا.چنانچہ اسی وقت سے ہمارے یہاں ’’ملت اسلامی‘‘ اور ’’پاکستانی قومیت‘‘ کے مابین ایک گھپلا جاری ہے. اور یہ اسی گھپلے کے ثمرات ہیں جو آج علاقائی و لسانی قومیتوں کے فروغ کی صورت میں ظاہرہو رہے ہیں. اس لیے کہ نظریہ ملت کو خود ہم نے منہدم کر دیا اور پاکستانی قومیت کا تصور ہمارے مزاج کے مناسب نہ تھا.چنانچہ ہماری اجتماعی زندگی میں وہ خلا پیدا ہوا جورفتہ رفتہ متذکرہ بالا قومیتوں اور عصبیتوں سے پر ہوا. چنانچہ اب شکایت ہوتو کس سے اور گلہ ہو تو کس کا؟کہ ع ’’اے بادصبا ایں ہمہ آوردئہ تست!‘‘

اگرچہ یہ اندیشہ بھی شدید ہے کہ بات کہیں ’’حدود‘‘ سے تجاوز نہ کر جائے‘ لیکن دردِدل بالکل خاموش بھی نہیں رہنے دیتا. حیرت ہوتی ہے کہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ’’مبینہ‘‘ الفاظ پر تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواتھا اور آج تک بھی ان کا قصور معاف نہیں ہوا‘ حالانکہ جب انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت فرمائی تو علامہ نے بھی اپنے اشعار سے رجوع کر لیا تھا‘ لیکن بانی پاکستان کے اس نظریہ وطنیت پر تنقید کی جرأت کسی کو نہ ہوئی حتیٰ کہ علماء بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے ؎

دیکھ کعبے میں شکست رشتہ تسبیح شیخ!

بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ! 
سپوت کی لاج رکھنے کو جسے دنیا علامہ اقبال کے نام سے جانتی ہے‘ ’’رجوع الی الجاہلیت ‘‘کی اس وبا سے قدرے بچا ہوا ہے…لیکن تابہ کے؟اگر یہ ایک واقعی قانون فطرت ہے کہ ’’ہر عمل ایک ردعمل کو جنم دیتا ہے‘‘ تو جلد یا بدیر یہاں بھی وہی صورت پیدا ہو کر رہے گی.

اس صورت حال میں ہندی مسلمانوں کی داد رسی کی توقع کس سے ہو؟ یہاں تو بنگالی مسلمان نے غیر بنگالی مسلمان کا خون بہانے سے دریغ نہ کیا. کوئٹے میں بارہا فسادات کی آگ بھڑکی اور سندھ کے متعدد شہروں میں غیر سندھی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا باقاعدہ پروگرام بن چکا تھا. یہ تو بھلا ہو مارشل لاء کا کہ بروقت نافذ ہوگیا ورنہ مغربی پاکستان بھی اس میدان میں مشرقی پاکستان کی ہمسری کا شرف حاصل کرلیتا. 

تشتّت و انتشار کی اس گرم بازاری میں مزید اضافہ دائیں اور بائیں بازو کی قوتوں کی ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی سے ہو گیا ہے.چنانچہ دونوں کیمپوں میں ایک دوسرے سے نفرت اور بیزاری بڑھتی جا رہی ہے اور اشتعال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے حتیٰ کہ تشدد اور تصادم اور 
فیصلہ کن مقابلے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور نوجوان ایک دوسرے پر پِل پڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں. 

رہی سہی کسر علمائے دیوبند کے دو متحارب گروہوں نے ایک دوسرے کے مقابل آکر پوری کردی ہے. ان کے مابین بغض حادث نہیں ‘قدیم ہے. قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کے مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے لیکن معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ 
’’تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُھُمْ شَتّٰی‘‘ والا معاملہ تھا. چنانچہ جونہی دوبارہ اختلاف رونما ہوا ‘فضا ایک دم شرعی گالیوں سے معمور ہوگئی. بنائے نزاع ’’سوشلزم‘‘کو قرار دیا گیا ہے‘ در آنحالیکہ سرمایہ داری کے دونوں ہی گروہ یکساں مخالف ہیں اور مزدوروں اور کسانوں کی ’’حالت زار‘‘ کا دونوں ہی کو برابر رنج و غم ہے. حتیٰ کہ معاشی عدل و اعتدال کے لیے فوری تدابیر میں بھی دونوں میں کوئی اختلاف نہیں. بایں ہمہ کفر کے فتوے عام ہو رہے ہیں اور ’’کانگرسی مولوی‘‘ کی گالی میں تو خیر کوئی مضائقہ ہی نہیں ؏ 

’’بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است‘‘

عجیب طرفہ تماشا ہے کہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘کی اصطلاح تو سرآنکھوں پر لیکن ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح قطعاً ناجائز و حرام. پھر مزید یہ کہ جس شخص نے سب سے پہلے یہ اصطلاح استعمال کی یعنی محمد علی جناح مرحوم وہ تو سب کے نزدیک قائد اعظم اوررحمۃ اللہ علیہ‘لیکن اب جو بھی یہ لفظ منہ سے نکالے وہ کافر ومرتد. بحالی جمہوریت کے لیے تو ہرکس وناکس سے تعاون کو جائز ہی نہیں لازمی و ناگزیر قرار دیا جائے لیکن معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے کی غرض سے کوئی مزدوروں سے اتحاد کرلے تو گردن زدنی ٹھہرے! ؎ 

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری!

خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس تفرقہ و انتشار کا انجام کیا ہوگا اور ہماری قومی و ملی زندگی کس حادثے سے دوچار ہوگی. بظاہر احوال تو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی!