اور CIVILIAN COUP DETAT

فروری ‘مارچ ۱۹۷۰ء
فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی حکومت کو ختم ہوئے اور ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ ہوئے ابھی پورا ایک سال بھی نہیں ہوا‘لیکن حالات اتنے بدل چکے ہیں اور ع ’’کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی‘‘کا ایسا نقشہ بندھا ہے کہ موصوف کی حکومت ماضی بعید کا قصہ اور ازمنۂ قدیم کی داستان نظر آتی ہے. بالکل یقین نہیں آتا کہ ایک ہی سال قبل یہاں صدر ایوب ’’کوس لمن الملک‘‘ بجا رہے تھے‘ اورآنجہانی کنونشن مسلم لیگ ملک کی واحد فعال اور نمائندہ سیاسی جماعت ہونے کی مدعی تھی! کہاں آج یہ حال ہے کہ سابق صدر کو کارٹونوں میں سانپ کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے اور لیگ کے ٹٹو کے سر سے ’’کنونشن‘‘ کا سینگ ہی سرے سے غائب ہوچکا ہے. کتنا عظیم انقلاب ہے‘ اور 
وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ کی کیسی کامل تصویر!

عبرت کی جا ہے کہ وہی لوگ جو کل تک ایوب خان کے بوٹ کی ٹو چاٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں نظر آتے تھے ‘آج انہیں گالیوں سے نواز رہے ہیں. ؎ 

من تو شدم تو من شدی‘من تن شدم تو جاں شدی 
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

ایسے لوگوں سے تو ہمیں کچھ نہیں کہنا‘اس لیے کہ ان کا تو اپنا وجودِ نامسعود ہمارے نزدیک ملک وملت کے ماتھے کا کلنک کا ٹیکہ ہے. سابق صدر کے دور اقتدار کے سیاسی مخالفین سے البتہ ہم یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اب انہیں کوسنا چھوڑ دیں‘ اس لیے کہ سیاسی میدان میں ان کی وفات واقع ہوچکی ہے اور ہمارے دین کی تعلیم یہی ہے کہ ’’اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْر!‘‘ ان کا دور گزر گیا. او رکچھ انہوں نے کیا ‘عدالت اُخروی میں اس کا حساب کتاب ہوجائے گا. تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡـَٔلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۳۴﴾ وہ کامیاب ہوئے یا ناکام‘ان کا امتحان بہرحال ختم ہوچکا. اب امتحان آپ کا ہے‘اپنی کامیابی کی فکر کیجیے ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘تو عرصہ ٔمحشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

خصوصاً ان لوگوں پر تو اس وقت بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے جو سابق صدر کی ذات اور ان کی حکومت ہی کو ملک و ملت کے جملہ امراض وعلل کا سببِ واحد قرار دیتے تھے کہ اب جبکہ وہ میدان سیاست سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے تو منطقی طور پر انہیں جلداز جلد سب مسائل کو حل کرکے دکھا دینا چاہیے. ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس عظیم امتحان میں کامیابی عطا فرمائے. 

اس ایک سال کے عرصے میں پاکستان کی سیاسیات کا جو جدید نقشہ بنا ہے وہ تقریباً وہی ہے جو ہم نے گزشتہ سال جنوری ‘فروری اور مارچ کے شماروں میں ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ کے صفحات میں کھینچا تھا. چنانچہ مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ مدیر ماہنامہ ’’الفرقان‘‘لکھنؤ اپنے ایک حالیہ مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’وہاں (پاکستان) سے کوئی اخبار‘ رسالہ‘ پرچہ پرزہ نہ آسکنے کی وجہ سے وہاں کے حالات سے مکمل بے خبری ہے. رمضان المبارک میں ہمارے مولانا بنوری مکہ معظمہ پہنچ گئے تھے. ان سے اس وقت تک کے حالات خاصی تفصیل سے معلوم ہوگئے تھے اور سن کر قلق اور افسوس ہی ہوا تھا… لیکن آپ نے بہت پہلے مستقبل کی سیاسی معرکہ آرائی کا جو نقشہ کھینچا تھا‘اس کی پوری پوری تصدیق ہوگئی تھی.‘‘

اگرچہ پاکستان کی تاریخ کے اس عظیم ترین سیاسی ایجی ٹیشن میں جو نومبر۱۹۶۸ء میں شروع ہو کر بالآخر مارچ ۱۹۶۹ء میں دوسرے مارشل لاء کے نفاذ پر منتج ہوا تھا ‘دائیں اور بائیں بازو کے 
عناصر بہت حد تک گڈ مڈ تھے لیکن دو باتیں بالکل واضح تھیں.ایک یہ کہ دائیں اور بائیں بازو کے عناصر کی واضح تقسیم کا عمل (polarization) تیزی سے ہورہا تھا. دوسرے یہ کہ اس عوامی تحریک میں بائیں بازو کے عناصر کا پلڑا فیصلہ کن طور پر بھاری تھا اور دائیں بازو کے عناصر اپنے آپ کو بالکل ایک مخمصے کی سی کیفیت میں گرفتار پا رہے تھے اور اگر وہ تحریک جاری رہتی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک عظیم انقلاب سے دوچار ہوجاتا‘جس کی ابتدا بھی کم از کم مشرقی پاکستان میں تو مولانا بھاشانی کی سرکردگی میں ہوگئی تھی.

واقعہ یہ ہے کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں سے کسی میں بھی یہ دم خم نہ تھا کہ وہ اس عوامی تحریک کی راہ روک سکتی. یہ تحریک رکی تو صرف سابق صدر ایوب کی حکمت عملی سے جس کے لیے صاحب موصوف بالکل بجا طور پر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے تشکر و امتنان کے حقدار ہیں! (چنانچہ گول میز کانفرنس کے دوران ان جماعتوں کے زعماء نے صدر ایوب کی جو مدح و ثنا کی تھی‘اس سے یہ قرض کسی حد تک ادا بھی ہوگیا تھا‘ اور اب اگر ان کی اکثریت دوبارہ اپنی تقاریر کو ان پر تیز و تند تنقید سے مزین کرنے لگی ہے تو یہ غالباً ایک مجبوری ہے جس کے لیے وہ معذور ہیں. اس لیے کہ: ؏ ’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر!‘‘)

سیاسی جماعتوں سے افہام و تفہیم اور گفت و شنید پر آمادگی‘ڈی اے سی کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور پھر راؤنڈ ٹیبل کانفرنس 
(RTC) کا انعقاد! ایسے اقدامات کو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت بالکل بجا طور پر ’’غیر فوجی انقلاب‘‘ (CIVILIAN COUP DETAT) سے تعبیر کیا تھا اور واقعہ یہی ہے کہ ان کے ذریعے کم از کم مغربی پاکستان کی حد تک ’’انقلاب‘‘کی راہیں مسدود ہوگئی تھیں. 
گول میز کانفرنس کی ناکامی کا پورا الزام شیخ مجیب الرحمن کے سر تو خوا مخواہ لگ گیا‘حتیٰ کہ بعض نادان لوگوں نے اس کا حصہ رسدی میاں ممتاز دولتانہ تک بھی صرف اس لیے پہنچا دیا کہ انہوں نے شیخ صاحب موصوف کو گول میز کانفرنس میں شریک کرنے پر اصرار کرنے میں پہل کی تھی ‘ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خود شیخ صاحب خالص ’’سیاسی‘‘ آدمی ہیں ’’انقلابی‘‘ ہرگز نہیں 
اور خود ان کی پشت پر بھی مغرب کے ڈوبتے سورج کا سایہ ہے‘مشرق کے ابھرتے ہوئے سورج کا نہیں. اصل مسئلہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی ایسے عظیم’’انقلابی ‘‘ آدمی نے عوامی ایجی ٹیشن کی باگ ڈور سنبھال لی تھی اور شیخ صاحب خوب جانتے تھے کہ اگر وہ راولپنڈی میں کچھ لے دے کر سودا کرلیں تو پلٹن میدان تک پہنچنا تو دور کی بات ہے‘ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر اترنا ہی محال ہوجائے گا. 

بہرحال متذکرہ بالا ’’غیر فوجی انقلاب‘‘مشرقی پاکستان کے لیے ناکافی ثابت ہوا اور وہاں عوامی تحریک کو روکنے کے لیے سابق صدر ایوب کو پہلے آئندہ کے لیے صدارتی الیکشن میں حصہ نہ لینے کے فیصلہ کا اعلان‘پھر اگر تلہ سازش کیس کی واپسی ایسی گراں قیمتیں ادا کرنے کے بعد بھی اس کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہ آیا کہ خود حکومت سے دستبردار ہوکر نظم و نسق اور امن و امان کے قیام کی ذمہ داری فوج کے حوالے کردیں.اس طرح انہیں بالآخر ملک کو دوبارہ فوج کے سپرد کرتے ہی بنی‘اور پاکستان دوسرے مارشل لاء کی آہنی گود میں چلا گیا. 

مارشل لاء کے نفاذ کے بعد کچھ عرصہ گومگو 
(suspense) کی کیفیت طاری رہنا فطری تھا‘جس کے دوران عوامی ایجی ٹیشن بالکل فرو ہوگیا اور پاکستان کے مشرقی اور مغربی دونوں خطوں میں پرسکون کیفیت پیدا ہوگئی . نتیجتاً دائیں بازو کے’’سیاست دانوں‘‘کو بھی سکھ چین کا سانس لینا نصیب ہوا اور انہوں نے بھی بند کمروں‘کوٹھیوں کے باغیچوں اور آراستہ پیراستہ ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنسوں میں چہکنا شروع کردیا.

اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ملکی سیاست کے میدان میں دائیں اور بائیں بازو کے کیمپوں کی واضح تشکیل کا عمل 
(polarization) بھی وقتی طور پر معطل ہوگیا!

ادھر نئے صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آغا محمد یحییٰ خاں نے کل چھ سات ماہ کے عرصے میں ملک کی اس سیاسی و آئینی گاڑی کو جو پٹڑی سے اتری ہوئی ہے دوبارہ راستے پر ڈالنے کی 
غرض سے پر امن انتقالِ اقتدار کے واضح اقدامات کا متعین پروگرام اور ٹائم ٹیبل سمیت اعلان کرکے اپنے سر سے پورا الزام اتار پھینکا اور ایک انگریزی محاورے کے مطابق گیند کو قطعی طور پر عوام کے پالے میں پہنچا دیا . اس طرح ’’سیاست دانوں‘‘ کے لیے تو راہیں ایک دم کشادہ ہو گئیں لیکن ’’انقلابی‘‘ لوگ بالکل اسی طرح کے مخمصے میں پھنس کر رہ گئے جس طرح کے مخمصے میں عوامی ایجی ٹیشن کے دوران دائیں بازو کے سیاست دان پھنس گئے تھے. 

پاکستان کی بائیں بازو کی قوتوں کے بارے میں جنوری ۱۹۶۹ء میں ہم نے یہ رائے ظاہر کی تھی: 

’’مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اس کی ایک عظیم علامت ہیں اور مغربی پاکستان میں یوں تو اس کے کئی ایک دھڑے ہیں لیکن اس کی اصل علامت کی حیثیت بلاشبہ مسٹر بھٹو کو حاصل ہو گئی ہے. اگرچہ ان دونوں کے مابین اشتراکِ عمل کی کوئی واضح صورت تا حال سامنے نہیں آئی‘تاہم یہ ایک یقینی امر ہے کہ عنقریب ان دونوں میں اتحاد کی صورت پیدا ہوجائے گی اور پھر یہ بائیں بازو کا وہ اصل مرکز (نیوکلیئس) ہوگا جس کے گرد ملک کے تمام سوشلسٹ عناصر حتیٰ کہ معتدل مزاج (یا عام اخباری اصطلاح کے مطابق ماسکو نواز) طبقے بھی جو اس وقت پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں‘جلد یا بدیر جمع ہونے پر مجبور ہوجائیں گے.‘‘

ان میں سے مولانا بھاشانی اور ان کے گروہ نے تو تا حال الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان بھی نہیں کیا اور وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کی کوئی اہمیت سرے سے ہے ہی نہیں‘اصل مسئلہ روٹی کا ہے جسے ووٹ سے قبل حل ہونا چاہیے. مغربی پاکستان میں مسٹر بھٹو اگرچہ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن یہ بھی غالباً یہاں کی عام فضا کے زیر اثر ہے ورنہ ان کی اکثر تقریروں کا ٹیپ کا بند یہی ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت جن مسائل سے دو چار ہے ان کی نوعیت فی الاصل سیاسی نہیں ‘معاشی ہے.بایں ہمہ چونکہ حکومت وقت کا موقف بالکل منطقی اور اتنا صاف ہے کہ جس پر کسی براہ راست چوٹ 
(frontal attack) کی گنجائش نہیں لہٰذا بائیں بازو کی قوتیں اس وقت بالکل ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘کی سی صورتحال سے دو چار ہیں اور الیکشن کے بارے میں ان کا رویہ ؏ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا مصداق بن کر رہ گیا ہے.

ویسے بھی سیدھی سی بات ہے کہ ’’سیاسی سرگرمی‘‘کی نوعیت کچھ اور ہوتی ہے اور ’’انقلابی 
جدوجہد‘‘کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں. الیکشن کو جہاں ایک طرف سیاسی سرگرمی کے نقطۂ عروج کی حیثیت حاصل ہوتی ہے‘وہاں ایک انقلابی کارکن کے نقطہ نظر سے وہ کھیل تماشے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتابلکہ اس کے نزدیک اس کی اصل حیثیت ایک گلے سڑے نظام کے عفونت بھرے سنڈاس کی ہوتی ہے. بقول علامہ اقبال ؎

الیکشن‘ ممبری‘ کرسی‘ صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

پاکستان کے سیاسی میدان میں اس وقت دو گروہ تو ایسے ہیں جو ’’انقلاب‘‘ کے علمبردار ہونے کے مدعی ہیں‘یعنی ایک بائیں بازو کے عناصر جو سوشلسٹ انقلاب کے علمبردار ہیں اور دوسری جماعت اسلامی جو اسلامی انقلاب کی علمبرداری کا ادعا کرتی ہے. باقی تمام عناصر خالص سیاسی مزاج کے حامل ہیں جن میں سے کچھ قومی سیاست کے علمبردار ہیں‘ایک گروہ خالص مذہبی سیاست کا دعوے دار ہے اور بقیہ علاقائی نیشنلزم کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں. 

بائیں بازو کی قوتوں میں سے بھی ہمارے نزدیک خالص اور ٹھیٹھ انقلابی مزاج صرف مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی کا ہے اور اگرچہ فی الوقت انہوں نے بھی شیخ مجیب الرحمن کے بنگلہ نیشنلزم کے نعرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی قوم پرستی کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے‘تاہم حقیقت یہی ہے کہ وہ اول و آخر خالص سوشلسٹ انقلاب کے داعی ہیں. رہے مسٹر بھٹو تو وہ بائیں بازو کی جانب فیصلہ کن رجحان رکھنے کے باوجود ’’انقلابی‘‘ سے زیادہ ’’سیاسی‘‘ مزاج کے حامل ہیں.بنا بریں اگرچہ اسلام پر تو ان کی کرم فرمائی صرف شدید ضرورت کے تحت اور وہ بھی برائے نام ہی ہوتی ہے‘تاہم پاکستانی قوم پرستی کا عنصر ان کی تحریک میں ایک مستقل جزو کی حیثیت سے شامل ہے. یہی وجہ ہے کہ مولانا بھاشانی اور ان کی جماعت نے نہ صرف یہ کہ تاحال الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ گمان غالب یہی ہے کہ وہ الیکشن کا مقاطعہ کرکے ’’تحریک‘‘ کا راستہ اختیار کریں گے اور کسی نہ کسی راہ سے کوئی عوامی ایجی ٹیشن برپا کرنے کی کوشش کریں گے. خود مسٹر بھٹو بھی الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان اور اس کی بھرپور تیاری کے ساتھ ساتھ ’’تحریک‘‘ کی راہ بھی کھلی رکھے ہوئے ہیں اور ایسا آتش گیر مواد بھی جا بجا چھڑکتے چلے جا رہے ہیں جو ’’بوقت ضرورت ‘‘کام آ سکے اور جس سے کسی مناسب موقع پر کسی عوامی ایجی ٹیشن کا دھماکہ پیدا کیا جا سکے. 
رہی جماعت اسلامی تو اس کے بارے میں چونکہ ہماری مستقل رائے یہ ہے کہ اس کی ابتدا تو ضرور ایک انقلابی جماعت کے انداز میں ہوئی تھی لیکن اب اس کا مزاج خالص سیاسی ہے لہٰذا اس کا ذکر ہم بعد میں کریں گے.یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ اپنے اسی سیاسی مزاج کے ناگزیر تقاضے کے تحت جماعت اسلامی بھی نہ صرف یہ کہ الیکشن کے دنگل میں شرکت کے لیے پورے زور شور کے ساتھ لنگر لنگوٹے کس رہی ہے بلکہ اس کے نزدیک الیکشن ہی ملک و ملت کے جملہ مسائل کا واحد حل ہے.

اصل سیاسی قوتوں میں سے‘جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا‘کچھ قومی سیاست کی علمبردار ہیں اور نہ صرف پاکستانی قوم پرستی بلکہ کسی حد تک جذبہ ملی کا پرچم بھی اٹھائے ہوئے ہیں.لہٰذا فطری طور پر ان کے نعروں میں اسلام اور نظریہ پاکستان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے‘چاہے اس کے رہنماؤں کی زندگیوں میں نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰۃ ایسے بنیادی شعائر اسلام تک کا دُور دُور تک کوئی نام و نشان نظر نہ آئے. یہ عناصر در اصل تحریک مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے اصل وارث ہیں اور فی الوقت پی ڈی پی اور مسلم لیگ کے ان متعدد دھڑوں پر مشتمل ہیں جن کے مابین بعض سیاسی پہلوانوں کی شخصیتوں کے تصادم کے سوا اور کوئی چیز ما بہ الاختلاف موجود نہیں. دوسرا گروہ جو آل پاکستان سطح پر سیاست میں حصہ لے رہا ہے ‘جمعیت علمائے اسلام کا ہے جو نظریۂ پاکستان سے زیادہ اسلام کا علمبردار ہے اور جس کا اسلام کے ساتھ مخلصانہ تعلق بھی ظاہر و باہر ہے‘ لیکن فی الوقت بائیں بازو کی قوتوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے کفر تک کے فتووں کا ہدف بن رہا ہے.اس گروہ کے بارے میں بھی ہم بعد میں تفصیل سے کلام کریں گے. 

باقی سیاسی جماعتیں علاقائی رجحانات کی حامل ہیں جو اپنے اپنے علاقوں کی تہذیب‘زبان‘کلچر‘مالی مفادات اور سیاسی و معاشی حقوق کے تحفظ کے نعروں کے سہارے اقتدار کی جنگ جیتنا چاہتی ہیں .ان میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ بااثر جماعت شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ ہے جو بنگلہ نیشنلزم اور مشرقی بنگال کے معاشی و سیاسی حقوق کی بازیافت کی تحریک کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اور اس وقت بلاشک و شبہ مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی ’’سیاسی‘‘ قوت ہے . دوسرے نمبر پر عبدالولی خان کی نیپ ہے جو سرحد اور بلوچستان میں علاقائی نیشنلزم کو ہوا دے رہی ہے جبکہ کراچی اور مشرقی پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کادم بھر رہی ہے. تیسرے نمبر پر جی ایم سید 
اور ان کا سیاسی ٹولہ ہے جو سندھ میں سندھی نیشنلزم کی آگ بھڑکا رہا ہے. ان تمام دھڑوں کے مابین ایک قدر تو مشترک ہے‘ یعنی علاقہ پرستی اور ریجنل نیشنلزم لیکن ایک اہم پہلو مابہ الامتیاز بھی ہے‘ یعنی یہ کہ جب کہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ پرانے اور پختہ کار rightist ہیں‘بقیہ تمام کے تمام کم از کم معتدل حد تک ضرور leftist ہیں.

ان اختلافات کے علی الرغم جہاں تک متذکرہ بالا سیاسی گروہوں کا تعلق ہے ‘اس پرانے اور صد فی صد درست مقولے کے مطابق کہ ’’سیاست میں کوئی چیز آخری اور حتمی نہیں ہوتی‘‘ ان کے مابین جوڑ توڑ‘کسر و انکسار اور ’’ادھر سے کٹ ادھر جڑ‘‘کے عمل کا مستقلاً جاری رہنا بالکل طبعی اور فطری امر ہے اور اس پر خوا مخواہ ناک بھوں چڑھانے اور واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہیں. البتہ یہ ظاہر ہے کہ کچھ مہلت عمر صرف اس اتحاد اور اتفاق کو مل سکتی ہے جو چاہے کتنا ہی جزوی سہی بہرحال کسی نہ کسی قدر مشترک کی بنیاد پر قائم ہو.مثلاً دولتانہ اور مجیب کے مابین چاہے قومی اور علاقائی سطح کا فرق موجود ہو‘ دائیں بازو کی قدرِ مشترک بھی موجود ہے. چنانچہ ان کے مابین مفاہمت اگر ہوچکی ہے تو کسی قدر پائیدار بھی ثابت ہوگی اور اگر نہیں ہوئی تو کسی بھی وقت ہوسکتی ہے‘لیکن جی ایم سید سے دولتانہ کا اتحاد بالکل بے بنیاد تھا اور اسے ختم ہی ہوجانا چاہیے تھا. دوسری طرف سید اور مجیب کے مابین علاقہ پرستی کی قدر مشترک موجود تھی جس کی بنا پر اتحاد ہوگیا‘ اور یہ پائیدار بھی ثابت ہوگا.وقس علی ہذا.

الغرض پاکستان کے سیاسی میدان میں اس وقت ایک جماعت خالص انقلابی ہے یعنی مولانا بھاشانی کی نیپ. تین جماعتیں نیم مقصدی اور نیم سیاسی ہیں یعنی جماعت اسلامی‘جمعیت علماء اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی. ان میں سے مقدم الذکر دونوں مذہبی رنگ کی حامل ہیں جبکہ تیسری اس اعتبار سے بالکل بے رنگ ہے‘ اور موخر الذکر دونوں بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ پہلی 
extreme rightist ہے. بقیہ تمام جماعتیں خالص سیاسی ہیں چاہے پاکستانی قومیت کی علمبردار ہوں چاہے علاقائی نیشنلزم کی. متذکرہ بالا جماعتوں کے علاوہ کچھ اور گروپ بھی سیاسی میدان میں برسر عمل ہیں. مثلاً ایک ایئر مارشل اصغر خان جو اپنی ذات ہی میں ایک انجمن ہیں اور اب تک تو کٹی ہوئی پتنگ کے مانند ادھر اُدھر پھر رہے تھے لیکن اب ’’تحریک استقلال‘‘کے اجراء کے عزم کے ساتھ از سر نو سامنے آئے ہیں. ان کے علاوہ کچھ مذہبی گروپ ہیں جن کی اپنی تو کوئی خاص سیاسی اہمیت نہیں‘لیکن اس اعتبار سے خاصی اہمیت ہوگئی ہے کہ ان سب کا متفقہ وزن دائیں بازو کے پلڑے میں پڑ رہا ہے. ہماری مراد مرکزی جمعیت علماء اسلام‘مرکزی جمعیت اہل حدیث اور جمعیت علمائے پاکستان وغیرہ مذہبی گروہوں سے ہے. ان کے سیاسی موقف پر ہم آئندہ اظہار خیال کریں گے.

پاکستان میں آئندہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے ؟ اس سوال کے جواب کا کلی انحصار اس امر پر ہے کہ آیا بائیں بازو کی اصل قوتیں مستقبل قریب میں کسی انقلابی تحریک اور عوامی ایجی ٹیشن کے اجراء کا انتہائی اقدام کر گزرتی ہیں یا نہیں! مولانا بھاشانی کے بارے میں ہم اوپر عرض کر آئے ہیں کہ اس وقت ان کی حالت اس شیر کی سی ہے جو نرغے میں آ گیا ہو اور کسی راستے کی تلاش میں دیوانہ وار ادھر اُدھر دوڑ رہا ہو. چنانچہ وہ کبھی پاکستان کی سا لمیت کی دہائی دیتے ہیں ‘کبھی ’’خلافت ربانیہ‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی ’’اسلامی ثقافتی انقلاب‘‘کا راگ الاپتے ہیں. لیکن واقعہ یہ ہے کہ تاحال انہیں کوئی ’’مخرج‘‘نظر نہیں آیا. تاہم چند اسباب کی بنا پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جیسے تیسے کسی نہ کسی بہانے کوئی نہ کوئی انتہائی اقدام کر گزریں گے‘اس لیے کہ نرغے میں آئی ہوئی تو بلی بھی شیر ہوجاتی ہے اور ایک 
desperate انسان سے کچھ بھی بعید نہیں ہوتا. پھر مولانا بھاشانی عمر کی اس حد کو بھی پہنچ چکے ہیں جہاں مزید انتظار کی گنجائش مشکل ہی سے رہ جاتی ہے. دوسری طرف مسٹر بھٹو کو بھی صاف نظر آرہا ہے کہ کسی عوامی ایجی ٹیشن کی صورت میں ان کے chances الیکشن کی نسبت بہرحال زیادہ ہیں. چنانچہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے‘ وہ الیکشن کی تیاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی میں ’’شفٹ‘‘ اور خصوصاً پاک چین دوستی‘پاک و ہند جھگڑے اور قضیے اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایسے مسائل کو بھی چھیڑ رہے ہیں اور کبھی کسی مرکزی وزیر کو برسر عام للکار کر اور کبھی لائسنسوں اور پرمٹوں وغیرہ کی بندربانٹ کا تذکرہ کر کے پرسکون سیاسی فضا میں تلاطم کی لہریں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں. مزید بر آں‘ ’’تاشقند کا بلا‘‘بھی ابھی ان کے تھیلے میں محفوظ ہے. 

اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت زیر ترقی ممالک کی اکثریت جن حالات سے دو چار ہے ان کے پیش نظر خصوصاً ایسے ملکوں میں جہاں سیاسی خلا بھی پایا جاتا ہو‘کسی عوامی ایجی ٹیشن کا برپا کردینا کوئی مشکل کام نہیں.

عوام کی زندگی جس طرح دن بدن اجیرن ہوتی چلی جا رہی ہے ‘اس کی بنا پر عوام تو ع’’دیوانہ را ہوئے بس است‘‘ کے مصداق بس اس کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی ذرا ہمت اور جرأت سے کام لے کر ایک بار کوئی زور دار نعرہ لگا دے.

جہاں تک ہمت و جرأت کا تعلق ہے ‘مسٹر بھٹو تو ماضی قریب ہی میں یہ ثابت کرچکے ہیں کہ ان میں چاہے اور کسی چیز کی کتنی بھی کمی کیوں نہ ہو‘ہمت و جرأت کی ہرگز کوئی کمی نہیں.رہے مولانا بھاشانی تو ان کا بھی پورا سیاسی کیریئر جرأت اور ہمت کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے.
بنا بریں پاکستان کے سوشلسٹ عناصر کی جانب سے کسی انقلابی اقدام کا امکان ہرگز خارج از بحث نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ بحالات موجودہ بہت متوقع ہے.

لیکن اگر ایسا ہوگیا تو… ایک طرف تو اس کا نتیجہ ہمارے نزدیک ایک بہت بڑے خون خرابے کی صورت میں ظاہر ہوگا جو مغربی پاکستان میں تو چاہے زیادہ ہولناک نہ ہو ‘ مشرقی پاکستان میں بالکل انڈونیشیا کے پیمانے پر ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان کا وجود تک سخت خطرے سے دو چار ہوسکتا ہے. دوسری طرف ایسے کسی اقدام سے ہمارے نزدیک بحالاتِ موجودہ سوشلسٹ عناصر کی کامیابی کے امکانات بھی بہت کم ہیں‘اس لیے کہ ان کا مقابلہ بیک وقت دو طاقتوں سے ہوگا. ایک طرف حکومت وقت ہوگی اور وہ بھی سیاسی نہیں فوجی جو امن و امان کو برقرار رکھنے کے فرض کو ادا کرے گی اور دوسری طرف مخالف سیاسی قوتیں ہوں گی جن کو اس طرح آپ سے آپ گویا حکومت کا کور بھی حاصل ہوجائے گا… اور پاکستان کے سوشلسٹ عناصر ابھی اتنے طاقتور بہرحال نہیں ہیں کہ ایسی دو طرفہ جنگ لڑ کر بھی کامیاب ہوجائیں . 
لہٰذا ہماری استدعا پاکستان کے سوشلسٹ عناصر سے یہی ہے کہ وہ اس آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں بلکہ سیدھی طرح سیاسی میدان میں اپوزیشن کا معروف کردار اختیار کرکے ایک مضبوط اور پیہم سیاسی عمل کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کریں‘اور اس طرح ملک کے سیاسی و معاشی ڈھانچے میں وہ تبدیلیاں برپا کرنے کی کوشش کریں جو انہیں مناسب اور ضروری معلوم ہوں.

لیکن چونکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اول تو ہماری اس درخواست کا اس کیمپ کے کانوں تک پہنچنا ہی بہت مشکل ہے اور اگر یہ مرحلہ بھی کسی طرح سر ہوجائے تو اس کی قبولیت کا امکان بہت کم ہے‘لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان حضرات کو تحمل اور بردباری کے ساتھ غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان کو بد امنی‘ انتشار‘فتنہ و فساد اور خون خرابے کے اس خطرے سے بچا لے جو آج عین اس کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے!

اور اگر یہ صورت پیدا ہوگئی اور پاکستان کی بائیں بازو کی قوتیں ’’آخری مقابلے‘‘ کو کسی اور موقع کے لیے مؤخر کرکے فی الوقت صرف سیاسی جدوجہد پر قناعت کرنے پر آمادہ ہوگئیں تو اگرچہ نظریاتی بحث مباحثہ 
(ideological debate) کی گرما گرمی تو پھر بھی باقی رہے گی لیکن ظاہر ہے کہ اصلاً سارے کا سارا کھیل خالص سیاسی نوعیت کا رہ جائے گا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین ’’کچھ دے کچھ لے‘‘کے اصول پر کسر و انکسار کے ذریعے معاملات طے ہوجائیں گے. اس صورت میں حکومت جو بھی بنے گی‘ بہرحال دائیں بازو کے عناصر پر مشتمل ہوگی اور بائیں بازو کو فی الحال صرف اپوزیشن کی پوزیشن پر اکتفا کرنا ہو گا.

خالص سیاسی نقطۂ نظر سے ہمارے نزدیک اس وقت مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو فیصلہ کن قوت حاصل ہے اور مغربی پاکستان کے دائیں بازو کے عناصر کو انہیں چاہے ناگزیر برائی 
(inevitable evil) کی حیثیت ہی سے سہی‘ بہرحال قبول کرلینا چاہیے اس لیے کہ بالآخر ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار بھی نہیں رہ جائے گا اور ؎ 

ہر چہ دانا کند‘ کند ناداں 
لیک بعد از خرابی بسیار!

کے مصداق ان کا اس وقت کا سب و شتم بعد میں نقصان دہ ہی ثابت ہو گا‘ مفید نہیں!اس اعتبار سے ہمارے نزدیک مسٹر دولتانہ کی سیاسی حکمت عملی بہت صحیح ہے اور وہ لوگ سخت غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں جو حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مجیب دشمنی کے جوش میں خود مسٹر دولتانہ کو بھی مسلسل رگڑے چلے جا رہے ہیں.

دوسری طرف مغربی پاکستان میں بھی اگرچہ دائیں بازو کی سیاسی قوت تو بہت زیادہ منتشر ومنقسم ہے لیکن شخصی اعتبار سے واقعہ یہ ہے کہ مسٹر دولتانہ کے قد کاٹھ 
(stature) کا کوئی دوسرا سیاست دان ریٹائرڈ لوگوں میں ہو تو ہو کم از کم میدان میں موجود نہیں. اس اعتبار سے ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی علمبردار تمام جماعتوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان کی شخصیت کو ذہنی طور پر قبول (reconcile) کرنے کا کڑوا گھونٹ جیسے تیسے بھر ہی لیں اور ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر ان سے مفاہمت کرلیں. خاص طور پر لیگ ہائے ثلاثہ کو تو اگر وہ واقعتاً اپنے مبینہ اغراض و مقاصد اور نظریات کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھتی ہیں‘شخصیتوں کے تصادم سے صرفِ نظر کرکے ان کی ذات پر جمع ہو ہی جانا چاہیے . ہماری رائے میں آنجہانی کنونشن مسلم لیگ کا وہ دھڑا جس کی قیادت بظاہر فضل القادر چودھری لیکن درحقیقت سابق صدر ایوب ہی کے ہاتھ میں ہے‘ غالباً جلد ہی اس ’’نوشتہ دیوار‘‘کو پڑھ لے گا. رہے خان قیوم تو ان کا معاملہ خالص ذاتی نوعیت کا ہے. کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ آل پاکستان سطح پر ’’ابھرنے‘‘ کی غرض سے ہر قیمت پر دولتانہ کو گرانے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی تمام قوتیں اور توانائیاں صرف سابق صوبہ سرحد میں علاقہ پرستی کے رجحانات کے مقابلے کے لیے وقف کردیتے لیکن ع ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!‘‘ اسی طرح کاش کہ پی ڈی پی کے مختلف عناصر میں بھی شخصی سطح سے ابھر کر ملک و ملت کے وسیع تر مفادات کے پیش نظر حقائق کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے.
رہی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی تو ہمارے نزدیک اگر ملک کی گاڑی سیاسی پٹڑی پر چلتی رہی اور الیکشن منعقد ہونے کی نوبت آ ہی گئی تو ؎

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق 
نوحہ غم ہی سہی ‘ نغمہ شادی نہ سہی

کے مصداق الیکشن کی ساری رونق انہی کے دم سے ہوگی اور سارا شور و شغب اور ہنگامہ بلکہ سر 
پھٹول بھی ان ہی کے مابین ہوگا.واللہ اعلم !

واضح رہے کہ مندرجہ بالا تمام گفتگو خالص سیاسی نقطہ نظر سے تھی ‘اور اس میں ہم نے حتی الامکان ایک غیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے واقعی صورتحال کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ہماری پسند یا ناپسند کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہے.

جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے‘ہمیں اصل دلچسپی تو اگرچہ صرف دین و مذہب اور اس کے مستقبل سے ہے‘تاہم چونکہ پاکستان نہ صرف یہ کہ اسلام کے نام پر بنا ہے بلکہ ہمیں فی الواقع یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خدائی تدبیر کے سلسلے کی ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے ‘لہٰذا ہمیں دل سے اس کا بقاء و استحکام بھی مطلوب ہے. سیاسی جماعتوں میں سے فطری طور پر ریجنل نیشنلزم کے علمبرداروں کے مقابلے میں ہماری ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ’’نظریہ پاکستان‘‘کے علمبردار ہیں اور اسلام کا نام بھی لیتے ہیں‘چاہے اس کی حیثیت زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ ہو. دوسری طرف جو تحریکیں معاشی بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کے مداوا کے طور پر ’’اجتماعی معیشت‘‘کی علمبردار بن کر اٹھ رہی ہیں‘انہیں بھی ہم نہ دشمنِ پاکستان سمجھتے ہیں نہ دشمن اسلام بلکہ ہمارے نزدیک مناسب حدود کے اندر رہتے ہوئے یہ بھی وقت کا ایک اہم تقاضا ہے اور ہماری پختہ رائے یہ ہے کہ سیاسی حقوق کے ساتھ جب تک عوام کو اپنے جائز معاشی حقوق بھی حاصل نہ ہو‘جمہوریت واقعتاً ایک ’’گندے انڈے‘‘سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی.

ہمارے تجزئیے کے مطابق ہمارے ملک کے عوام اس وقت جاگیرداری‘ سرمایہ داری اور نوکر شاہی بیک وقت تین لعنتوں کے چنگل سے نکل کر سیاسی‘معاشی اور تہذیبی استقلال سے ہمکنار ہونے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور اس وقت ہم بحیثیت ملک و قوم اپنی زندگی کے دو بالکل مختلف ادوار کے مابین ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں!

اس قسم کے عبوری دور میں جبکہ بہت سے رجحانات بیک وقت متصادم ہوں‘ ایک پیچیدہ صورتحال کا پیدا ہوجانا بالکل طبعی و فطری ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں‘شور و شغب اور کسی قدر اونچ نیچ قطعاً غیر متوقع نہیں.

اس پر مستزاد ہیں بین الاقوامی کھینچ تان اور مختلف عالمی قوتوں کی باہمی رسہ کشی کے اثرات جن سے پیچیدگی دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتی ہے اور حالات مزید نازک صورت اختیار کرلیتے ہیں.

ہمارے ملک میں اس وقت یہ سارے ہی عوامل کار فرما ہیں اور ان کی پیدا کردہ پیچیدگی ہی کم نہ تھی‘لیکن اس میں مزید اضافہ دین ومذہب کے نام کی دہائی کی وجہ سے خوامخواہ پیدا کرلیا گیا ہے‘در آنحالیکہ اجتماعی زندگی تو بہت دور کی بات ہے‘دین و مذہب کو ہماری ایک عظیم اکثریت کی نجی زندگی میں بھی کسی فیصلہ کن عامل کی حیثیت حاصل نہیں.

اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش میں اسلام ہر گز کسی قابل لحاظ فریق کی حیثیت سے شریک نہیں ہے بلکہ اسے محض ایک سیاسی نعرے کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے. 

ہم نے گزشتہ سال کی ابتدائی اشاعتوں میں بھی اس صورتحال کی جانب چند اشارے کیے تھے‘لیکن زیادہ تفصیل میں جانا اس لیے مناسب نہیں سمجھا تھا کہ ہماری گزارشات سے حاصل تو کچھ بھی نہ ہوگا البتہ کچھ ایسے بزرگ ضرور ناراض ہوجائیں گے جن کا احترام ہم تہہ دل سے کرتے ہیں. لیکن اب دو اسباب کی بنا پر ہمارے لیے اس موضوع پر قلم اٹھانا ضروری ہوگیا ہے:

ایک اس سبب سے کہ ہوتے ہوتے اب اس معاملے نے بہت نازک صورت اختیار کرلی ہے اور ملک کی سیاسی فضا میں اسلام اور سوشلزم کی خیالی جنگ کا کچھ ایسا ہوائی سا سماں باندھ دیا گیا ہے کہ عوام کی اکثریت کے لیے صحیح صورتحال کا فہم نہایت مشکل ہوگیا ہے اور ان میں ایک شدید جذباتی تناؤ پیدا ہورہا ہے جو کسی بھی وقت خوں ریز تصادم کی صورت اختیار کرسکتا ہے.چنانچہ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ نوبت فتویٰ بازی تک پہنچ چکی ہے اور اس کا ہدف عوام ہی نہیں بالواسطہ طور پر وہ لوگ بھی بن گئے ہیں جن کی دین داری اور تقویٰ کی قسم تک کھائی جا سکتی ہے. 

اور دوسرے اس وجہ سے کہ ہمارے بزرگوں‘کرم فرماؤں‘دوستوں اور عزیزوں میں سے 
بھی بہت سے حضرات نے ان دنوں ہمیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی دعوت دی ہے. عام ملاقاتوں اور گفتگوؤں سے قطع نظر ان دنوں پے بہ پے متعدد خطوط میں اس مسئلے کو چھیڑا گیا ہے اور مختلف مشوروں سے بھی نوازا گیا ہے. ہمارے لیے ان سب حضرات کے خطوط کا جواب دینا مشکل ہے اور اس کے مقابلہ میں آسان تر صورت یہی ہے کہ ایک بار ہم اس موضوع پر ’’میثاق‘‘کے صفحات میں مفصل اظہار خیال کردیں. 

چنانچہ آئندہ اشاعت میں ہم ان شاء اللہ العزیز اس موضوع پر مفصل کلام کریں گے. 

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ! آمین یا رب العالمین!!