تحریک پاکستان کی وراثت اور ’’مذہبی رومانویت‘‘

جون‘ جولائی۱۹۷۰ء

آج سے تین چار ماہ قبل ان صفحات میں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش میں دین و مذہب کو جس طرح اچھالا جا رہا ہے اور اسلام کے نام کو جس طرح ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اس پر بھی مفصل اظہارِ خیال کریں گے اور جتنے مذہبی گروہ اس وقت سیاسی میدان میں برسر پیکار ہیں ان کے بارے میں بھی اپنی رائے تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے. گزشتہ شمارے میں یہ وعدہ بوجوہ پورا نہیں کیا جا سکا تھا. آج کی صحبت میں ہم اللہ کا نام لے کر اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. 
وَمَا توفیقی اِلا بِاللّٰہ العظیم. 

ان تین چار مہینوں کے دوران‘اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ پاکستانی سیاست کی فضا میں ’’انقلابی‘‘ رنگ مسلسل کم ہوتے ہوتے تقریباً معدوم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ انتخابی رنگ نے لے لی ہے.

گزشتہ شمارے میں ہم نے پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کے علمبرداروں کی جانب سے کسی انقلابی جدوجہد اور عوامی ایجی ٹیشن کے اجراء کے امکان کا تذکرہ کرنے کے بعد عرض کیا تھا کہ: 

’’لہٰذا ہماری استدعا پاکستان کے سوشلسٹ عناصر سے یہی ہے کہ وہ اس آگ سے کھیلنے کی کوشش نہ کریں بلکہ سیدھی طرح سیاسی میدان میں اپوزیشن کا معروف کردار اختیار کرکے ایک مضبوط اور پیہم سیاسی عمل کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کریں‘ اور اس ملک کے سیاسی و معاشی ڈھانچے میں وہ تبدیلیاں برپا کرنے کی کوشش کریں جو انہیں مناسب اور ضروری معلوم ہوں.‘‘

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک ملت اسلامیہ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے 
ایک یہ بھی ہے کہ چاہے اس کے ظاہری اسباب کچھ بھی رہے ہوں اور اس کاکریڈٹ کوئی بھی لے لے‘بہرحال نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی فوری انقلاب کے امکانات تقریبا ختم ہوچکے ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں اور سارے سیاسی گروہ پوری دلجمعی کے ساتھ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں.

مسٹر بھٹو کے بارے میں ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ وہ خود بھی ’’انقلابی‘‘ سے زیادہ ’’سیاسی‘‘ مزاج رکھتے ہیں اور ان کی تحریک بھی نظریاتی سے زیادہ قومی رنگ کی حامل ہے. لہٰذا انہیں تو خالص انتخابی رنگ اختیار کرنے میں کسی دقت کے پیش آنے کا سوال ہی نہیں تھا. چنانچہ انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کرنا پڑا کہ اپنے ڈھیلے ڈھالے جماعتی نظم میں چند ’’پریشاں روزگار‘آشفتہ مغز‘آشفتہ ہو‘‘نوجوانوں کو خارج کرکے اصل اہمیت صاحب حیثیت اور ذی وجاہت لوگوں کو دے دی اور خود بھی زیادہ گرما گرم اور اشتعال انگیز باتیں کہنی بند کردیں (اگرچہ عوام کے جذبات اور ان کی دلچسپی کے اعتبار سے جو کمی اس طرح واقع ہوسکتی تھی اس کو بعض دوسرے 
fire brand مقررین‘ جیسے ریٹائرڈ میجر جنرل اکبر خاں‘کی شعلہ نوائی سے پورا کرنا پڑا).حد یہ ہے کہ سابق صدر ایوب خان کے فیلڈ مارشل کے منصب کی بحالی ایسے اقدام پر بھی وہ مہر بلب رہے ؏ 
’’کہ ہم نے انقلاب چرخ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں‘‘

ویسے بھی صوبۂ سندھ کی حد تک تو ان کی جماعت یا جمعیت پہلے ہی سے عوام سے زیادہ وڈیروں کے سہارے قائم تھی. اب یہ رنگ مزید پختہ ہوگیا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ زمینداروں اور جاگیرداروں کی باہمی سیاست میں مسٹر بھٹو آنے والے انتخابات میں کھوڑو اور قاضی فضل اللہ گروپ کا بھرپور مقابلہ کریں گے اور کیا عجب کہ انہیں شکست دینے میں بھی کامیاب ہوجائیں. 

البتہ مولانا بھاشانی کا معاملہ بہت مختلف تھا اور ان کے لیے یہ قلب ماہیت اتنی آسان نہ تھی. چنانچہ ان کی گاڑی کو پٹڑی بدلتے ہوئے بہت سے شدید جھٹکے کھانے پڑے. ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس تک ان کا ’’انقلابی‘‘ رنگ پوری طرح قائم تھا اور اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس وقت تک وہ کلیتاً اپنی جماعت کے‘خصوصاً مشرقی پاکستان کے انتہا پسند عناصر کے زیر اثر تھے. ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ان کی آتش نوائی ان کے مغربی پاکستانی ساتھیوں کی اکثریت کو پسند نہیں آئی. ادھر مشرق میں 
ایک قابل لحاظ عنصر انتخابات کے حق میں زور لگا رہا تھا. چنانچہ ان کی جماعت میں ان تین چار ماہ کے دوران بڑی رسہ کشی اور کھینچا تانی رہی‘ اور واقعہ یہ ہے کہ ان کی اعلان کردہ ملک گیر ہڑتال کی ناکامی میں جہاں خارجی اسباب کا دخل تھا وہاں اصل فیصلہ کن دخل اسی داخلی انتشار کو حاصل تھا. 

ہڑتال کی ناکامی کے بعد اس کشمکش میں رفتہ رفتہ سیاسی عنصر کا پلڑا بھاری ہوتا گیا اور مولانا بھاشانی نے پٹڑی بدلنی شروع کردی. چنانچہ ایک طرف تو ایسٹ پاکستان نیپ کے انتہا پسند انقلابی عناصر جن کے سرخیل مسٹر طہٰ تھے‘ پارٹی سے کٹ گئے اور دوسری طرف مولانا بھاشانی نے جو ’’انقلابی سٹیم‘‘ انقلابی جدوجہد کی تیاریوں کے دور میں کارکنوں میں بھر دی تھی اسے چند بے ضرر سے ’’گھیراؤں‘‘میں نکلوا کر پارٹی کے انقلابی انجن کو ٹھنڈا کردیا. اس ڈرامے کا ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ مولانا خود بیمار ہوکر پارٹی کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر ہوگئے اور کونسل نے ایک طرف انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرکے اپنی قلب ماہیت کا اعلان کردیا اور دوسری طرف مولانا بھاشانی کو تیسری بار پارٹی پریذیڈنٹ منتخب کرکے ان کی شخصیت کو بھی مجروح ہونے سے بچا لیا. 

اس طرح اصولی اعتبار سے تو اب نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں گروپوں کے مابین کوئی فرق نہیں رہا‘ماسوائے اس کے کہ بھاشانی گروپ ’’تازہ واردِ بساطِ سیاست‘‘ ہونے کی وجہ سے ابھی قدرے زیادہ ’’نظریاتی‘‘ ہے جبکہ ولی خاں گروپ ایک عرصے سے اس دشت کی بادیہ پیمائی کر رہا ہے لہٰذا قدرے زیادہ ’’سیاسی‘‘ ہے. اس لیے ہماری رائے میں اگر ان دونوں گروپوں کے لیڈر ذاتیات سے بلند ہوسکیں تو اب جلد ہی انہیں دوبارہ باہم مدغم ہوجانا چاہیے. واللہ اعلم! 

بہرحال بھٹو اور بھاشانی کے سیاسی و انتخابی لائن اختیار کرلینے سے پاکستان کے سر سے کسی فوری دھماکہ خیز انقلاب کا خطرہ ٹل گیا ہے اور سارا کھیل خالص سیاسی نوعیت کا رہ گیا ہے. 
فللہ الحمد!! 

ان تین چار ماہ کے دوران میں اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی پاکستان میں پورے زور شور سے اور مشرقی پاکستان میں کسی قدر کم قوت کے ساتھ تحریک پاکستان کا گویا از سر نو احیاء ہوگیا ہے.چنانچہ ایک طرف مسلمانوں کی جدا گانہ قومیت اور نظریۂ ملی کا راگ خوب الاپا جا رہا ہے‘ دوسری 
طرف نظریۂ پاکستان کی دہائی دی جا رہی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے سرمایہ داروں کی تجوریوں کے منہ کھل گئے ہیں اور تیسری طرف اسلام‘ اسلام کا شور مچ رہا ہے اور بہت سے خوش گمان لوگوں کی آنکھوں میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کی امیدوں کے سوکھے چمن میں یکبارگی بہار کی آمد کے خیال سے چمک پیدا ہوگئی ہے. 

یہ دوسری بات ہے کہ اس تازہ احیاء شدہ ’’تحریک پاکستان‘‘ کے دل صد پارہ کے کچھ ٹکڑے کسی کے قبضے میں ہیں اور کچھ کسی دوسرے کے ہاتھ . چنانچہ ایک طرف تحریک پاکستان کی ’’مذہبی رومانویت ‘‘ہے جس پر کم از کم تاحال بلا شرکت غیرے پوری مضبوطی کے ساتھ جماعت اسلامی قابض ہے اور اس میں وہ کسی کو بھی شریک کرنے کو تیار نہیں. حتیٰ کہ اس کے اصل وارثین میں سے ایک گروہ جو علماء دیوبند کے تھانوی و عثمانی حلقوں پر مشتمل ہے ‘نہ صرف پورا زور صرف کرنے بلکہ چھینا جھپٹی کرنے کے باوجود جماعت اسلامی کو اس ’’قبضہ غاصبانہ ‘‘سے بے دخل کرنے میں ناکام ہورہا ہے. اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا تھانوی کی طرف سے اس سلسلے کی مزید کارروائی کے سد باب کے لیے غالباً جماعت اسلامی متحدہ اسلامی محاذ کے قیام کے لیے گفت وشنید تک سے احتراز کرے گی. حال ہی میں تحریک پاکستان کی مذہبیت کی وراثت کا دعویدارایک دوسرا گروپ البتہ ایسا سامنے آیا ہے جو چاہے جماعت اسلامی کو اس ’’قبضہ غاصبانہ‘‘ سے کلی طور پر بے دخل نہ کرسکے‘بہرحال اس میں سے قابل لحاظ حصہ ضرور بٹوا لے گا.ہمارا اشارہ بریلوی مکتب فکر کے علماء اور مشائخ کی اس کانفرنس کی جانب ہے جو حال ہی میں ’’دار السلام‘‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بڑی شان و آن بان کے ساتھ منعقد ہوئی ہے اور جس میں متعدد مقررین نے جماعت اسلامی پر شدید لے دے کی ہے.

دوسری طرف اس مذہبی رومانویت کے بالکل برعکس تحریک پاکستان کے اصل اور اساسی محرک یعنی ہندوؤں کے سیاسی‘تہذیبی اور معاشی تسلط کے خوف اور اس سے بچاؤ کے جذبے کی وراثت ہے جس پر اتفاقاً ہی سہی بہرحال کم از کم مغربی پاکستان کی حد تک کلیتاً مسٹر ذوالفقار علی بھٹو قابض ہوگئے ہیں. تحریک پاکستان کا یہ اصل ’’باطن ‘‘اس وقت دو صورتوں میں ظاہر ہو رہا ہے:ایک ہندوستان دشمنی اور دوسرے عوام کے معاشی حقوق کی بازیافت کی جدوجہد. ان میں سے مقدم الذکر کی علامت 
(symbol) تو مسٹر بھٹو ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران ہی میں بن گئے تھے اور مؤخر الذکر کی علامت وہ اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر بن گئے. چونکہ ایک طرف یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کے اساسی محرکات میں اصل فیصلہ کن حیثیت معاشی عوامل ہی کو حاصل تھی اور دوسری طرف اس حقیقت کا انکار بھی شدید قسم کی ڈھٹائی کے بغیر ممکن نہیں کہ اسلامی سوشلزم کا تصور مصور پاکستان علامہ اقبال کے یہاں تو پورے زور شور کے ساتھ موجود ہے ہی ‘خود خالق پاکستان مسٹر محمد علی جناح اور ان کے دست راست خان لیاقت علی خاں کے یہاں بھی بصراحت مذکور ہے (یہ تو شاید پرانی باتیں معلوم ہوں‘ تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ اس خط میں جو محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بی ڈی ممبروں کو بھیجا اور جسے گویا ان کے چھوٹے سے منشور کی حیثیت حاصل تھی‘محترمہ فاطمہ جناح نے ٹیپ کا بند یہی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’…تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اپنی زندگی اسلامی سوشلزم اور ان اصول و نظریات کے مطابق گزار سکیں جن کی بنیاد پر ہماری عظیم مملکت پاکستان وجود میں آئی ہے.‘‘؏ ’’چیست یاران طریقت بعد ازیں انکارِ ما!‘‘).لہٰذا چاہے یہ کسی کو برا لگے چاہے بھلا‘بہرحال واقعہ یہی ہے کہ تحریک پاکستان کی اصل روح باطنی کے وارث مسٹر بھٹو ہیں (اگرچہ مغربی پاکستان میں ہندوستان دشمنی کی راہ سے خان عبدالقیوم خاں اور مشرقی پاکستان میں اس خطے کے معاشی حقوق کی بازیافت کے علمبردار ہونے کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمن بھی تحریک پاکستان کے اس جزو کی وراثت میں کسی حد تک شریک قرار دیے جا سکتے ہیں).

تیسری طرف تحریک پاکستان کے اس ’’جسد خاکی‘‘ کی وراثت کا مسئلہ ہے جو نواب زادوں ‘جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں سے مرکب تھا اور دین و مذہب کے باب میں زیادہ سے زیادہ لبرل اسلام کا قائل تھا. اگرچہ مسلم لیگ بطور ایک وحدت کے تو کبھی کی مرحومین کی فہرست میں شامل ہوچکی تاہم اس کے جسد خاکی کے اجزاء ابھی موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ ٹھنڈے پیٹوں ہرگز اس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی دوسری جماعت زبردستی تحریک پاکستان کی وراثت پر تنہا قابض ہوجائے اور مسلم لیگ کی واحد جانشین بن بیٹھے‘اس لیے کہ بظاہر احوال تو تحریک پاکستان کی وراثت کے اصل مدعی وہ ہیں نہ کہ کوئی اور .(مسلم لیگ کے ’’باقیات الصالحات‘‘ہونے کی حیثیت سے تحریک پاکستان کی وراثت کے دعوے داروں میں فی الوقت مدعی ٔاعظم کی حیثیت بلاشبہ مسٹر ممتاز محمد خاں دولتانہ اور ان کے ساتھیوں کو حاصل ہو گئی 
ہے‘ اگرچہ کچھ دوسرے گروپوں کا دعویٰ بھی اس باب میں بالکل بے بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا. )

قصہ مختصر یہ کہ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں تحریک پاکستان کے احیاء کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے لیکن چونکہ تحریک پاکستان کے حصے بخرے ہوچکے ہیں اور ؏ 

’’اڑائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے‘‘
کے مصداق اس کی وراثت کے مدعی بہت سے ہیں‘لہٰذا چاہے ’’تحفظ نظریۂ پاکستان ‘‘کے نام پر بھیک کسی ایک جماعت ہی کو زیادہ مل جائے‘انتخابات کے میدان میں تحریک پاکستان کے اس حالیہ احیاء کے ثمرات بہت سی سیاسی جماعتوں کے مابین تقسیم ہوں گے اور کوئی ایک جماعت چاہے وہ کوئی سی بھی ہو ‘ان سے بلا شرکت غیرے متمتع نہیں ہوسکتی.

’’مذہبی رومانویت ‘‘کی اصطلاح ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے بالکل اجنبی ہو اور وہ اس سے ناخوش بھی ہوں‘اس لیے وضاحتاً عرض ہے کہ یہ ’’ایجاد ِبندہ‘‘ نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے اس اصطلاح کو مسلم ہندوستان کے زمانۂ حاضر کے سب سے بڑے مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب نے مسلمانانِ ہند کی ماضی قریب کی تاریخ کے اس دور کی کیفیت کی تعبیر کے لیے استعمال کیا تھا جس میں مسلمانوں کی قیادت کچھ صحافی قسم کے لیڈروں کے ہاتھ آ گئی تھی جنہوں نے ملت اسلامیہ ہند کو حقائق کا مواجہہ 
(face) کرنے کی بجائے تصورات و جذبات کی دنیا میں رہنا سکھایا اور گویا زمین پر قدم بہ قدم چلانے کی بجائے ہوا میں اڑایا اور فضا کی پہنائیوں کی سیر کرائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے اس کے کہ قوم میں محنت و مشقت‘ایثار و قربانی اور جہد مسلسل و سعی پیہم کا مادہ پیدا ہوتا اسے اکثر و بیشتر تصورات کے حسین خوابوں کی دنیا میں کھوئے رہنے اور کبھی کبھی ہڑبڑا کر اٹھنے اور جوش و ہیجان میں کچھ نعرے لگا کر پھر خوابِ خرگوش میں مبتلا ہوجانے کی عادت پڑ گئی. مولانا محمد علی جوہر مرحوم کا ’’کامریڈ‘‘ اس مرض کی صرف ابتدائی علامات کا مظہر تھا. مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ ‘‘میں یہ مرض اپنی پوری شدت کو پہنچا اور وہیں سے اس کی چھوت مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو لگی جنہوں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے اس طرز کی صحافیانہ قیادت کے تسلسل کو برقرار رکھا. یہ تو اس ’’سلسلۃ الذہب‘‘ کی صرف متصل کڑیاں ہیں. ان کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں اس کی اور بھی شاخیں پھوٹیں‘ جیسے مولانا ظفر علی خاں مرحوم کا ’’زمیندار‘‘. وقس علی ہذا. 

اس صحافیانہ قیادت نے ایک طرف مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ کی داستانیں سنا کر شاد کام کیا اور ’’پدرم سلطان بود‘‘کے نشے میں مبتلا کردیا اور دوسری طرف حکومت الٰہیہ کے قیام اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے بلند ترین نصب العین عطا کیے لیکن اس کے لیے کسی عملی نہج کو نہ واضح کیا نہ اس کی داغ بیل ڈالی. نتیجتاً پوری قوم پر مذہبی رومانویت کی سی کیفیت طاری ہوگئی جس کا تعلق ہوش سے زیادہ جوش اور عمل سے زیادہ تصور سے تھا. 

مولانا ابو الکلام مرحوم نہایت ذہین آدمی تھے. انہوں نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ یہ سب ہوائی رومان ہے‘حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں. نتیجتاً انہوں نے جلد ہی قیامِ حکومت الٰہیہ کے ’’آسمانی‘‘ نصب العین سے دست کش ہوکر غیر ملکی سامراج سے آزادی کے حصول کا حقیر سا ’’زمینی‘‘ نصب العین اختیار کرلیا اور بقیہ زندگی خاموشی کے ساتھ اس کی تحصیل میں کھپا دی . اس موقع پر مولانا مودودی آگے بڑھے اور انہوں نے مولانا ابوالکلام کو ان کی زندگی ہی میں مرحوم قرار دے کر ان کے چھوڑے ہوئے مشن کو سنبھال لیا اور اس مذہبی رومان میں مزید رنگ آمیزی شروع کردی. لیکن ’’بدقسمتی‘‘ سے اسی زمانے میں مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک زور پکڑ گئی اور اس نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے مذہبی رومان کی قیادت خود سنبھال لی اور اسلامی تہذیب‘اسلامی تمدن‘اسلامی قانون وغیرہ اصطلاحات کا استعمال کثرت سے شروع کردیا اور اس طرح وہ ’’مذہبی رومانویت‘‘ کم از کم وقتی طور پر مسلم لیگ کے قبضے میں چلی گئی. تب مولانا مودودی نے یہ کہہ کر کہ اس قسم کی قومی تحریکوں سے کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی 
(۱اس کا تو بس (۱) ’’اس خام خیالی (loose thinking) کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی وتاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہو گئی ہے جس کا نام ’’اسلامی حکومت‘‘ ہو‘ لیکن خالص علمی (سائنٹیفک)طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیونکر قائم ہوتی ہے.‘‘

(اقتباس از ’’اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے‘‘ تحریر مولانا مودودی) 
’’ایک ہی مخصوص‘‘ طریقہ ہے ‘مسلمانوں کی قومی تحریک سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس ’’ایک ہی مخصوص ‘‘طریق (۲پر کام شروع کردیا.

۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک مسلم لیگ نے مسلمانانِ ہند کی اس مذہبی رومانویت کو خوب استعمال 
(exploit) کیا اور اس کے بل پر اپنی اس حیثیت کو تسلیم کرا لیا کہ وہ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے. یہی وہ وقت تھا جبکہ بریلوی مکتب فکر کے علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد اور دیوبندی مکتب فکر کے تھانوی اور عثمانی حلقے اس رومانی غبارے میں مزید ہوا بھرنے کے لیے میدان عمل میں آگئے. چنانچہ اسی بنا پر ہم نے سطور بالا میں ان ہی دونوں حلقوں کو تحریک پاکستان کی مذہبی رومانویت کی وراثت کے حقیقی دعویدار قرار دیا ہے. لیکن رومان بہرحال رومان ہی ہوتا ہے. پاکستان کے قیام کے بعد جلد ہی اس حسین خواب کا بھانڈہ چوراہے میں پھوٹ گیا اور یہ محسوس ہونے لگا کہ ؏ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا!‘‘ ابھی اس غبارے کی پوری گیس نکلنے نہیں پائی تھی کہ مولانا مودودی اپنے اس ’’ایک ہی مخصوص ‘‘طریق کارکو چھوڑ چھاڑ مذہبی رومانویت کے اس غبارے میں از سر نو گیس بھرنے کے لیے میدان میں آگئے. اول (۲) اس مخصوص طریق کار کے ابتدائی ناگزیر لوازم (pre-requisites) کا بیان مودودی صاحب ہی کے الفاظ میں سنیے:

’’درحقیقت اسلامی حکومت کسی معجزے کی شکل میں صادر نہیں ہوتی. اس کے پیدا ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات‘ وہ مقصد زندگی‘ وہ معیار اخلاق‘ وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہو. اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے مستعد ہوں… پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اسی ذہنیت اور اسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں … پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام لے کر اٹھے جو اس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے. اس سے مسلم سائنٹسٹ ‘مسلم فلسفی‘ مسلم مورخ‘ مسلم ماہرین سیاست غرض ہر شعبہ علم و فن میں ایسے آدمی موجود ہوں جو اپنی نظر و فکر کے اعتبار سے مسلم ہوں‘ جن میں یہ قابلیت ہو کہ افکار و نظریات کا ایک پورا نظام اورعملی زندگی کا ایک مکمل خاکہ اسلامی اصولوں پر مرتب کریں اور جن میں اتنی طاقت ہو کہ دنیا کے ناخداشناس ائمہ فکر کے مقابلے میں اپنی عقلی و ذہنی قیادت 
(intellectual leadership) کاسکہ جما دیں.‘‘ (ایضاً) اول انہیں اپنی اس کوشش میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکنع ’’پیوستہ رہ شجر سے امید ِبہار رکھ‘‘ کے مصداق وہ تندہی کے ساتھ کام میں لگے رہے تاآنکہ آج نہ صرف یہ کہ پاکستان میں تحریک پاکستان کی مذہبی رومانویت کا از سر نو دور دورہ ہے بلکہ اس کی وراثت پر جماعت اسلامی اس طرح قابض ہے کہ اس کے اصل اور جائز وارثوں تک کو اپنا جائز حق وصول کرنا اور جماعت اسلامی کو اس ’’قبضہ غاصبانہ‘‘ سے بے دخل کرنا مشکل نظر آ رہا ہے!

تاہم جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں ’’قیادت پاکستان‘‘ کے خواب کی تعبیر ابھی کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتی. اس لیے کہ اول تو تحریک پاکستان کی مذہبی رومانویت کے جائز وارث بھی میدان عمل میں آ گئے ہیں اور دوسرے اس تحریک کے بعض دوسرے اجزاء بھی تھے جن کی وراثت دوسروں کو منتقل ہوچکی ہے. الغرض ؏ ’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ !‘‘

پاکستان کے سیاسی میدان میں اس وقت جو مذہبی گروہ یا جماعتیں برسرکار ہیں ان میں سب سے نمایاں تو جماعت اسلامی ہی ہے‘دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام ہے جس کی قیادت مولانا درخواستی‘مفتی محمود اور مولانا ہزاروی کر رہے ہیں. ان کے بعد چند متفرق مذہبی گروہ ہیں جو مسلک و مزاج کے اعتبار سے چاہے کتنے ہی مختلف ہوں‘ سیاسی موقف کے اعتبار سے ملت واحدہ ہیںیعنی مرکزی جمعیت علماء اسلام‘جمعیت اہل حدیث اور بریلوی مکتب فکر کے علماء ومشائخ کے مختلف گروپ.

ان میں سے جہاں تک مؤخر الذکر متفرق گروہوں کا تعلق ہے ‘ہمیں ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہنا. اس لیے بھی کہ سیاست ان کا مستقل مشغلہ نہیں ہے بلکہ سیاست سے ان کی دلچسپی صرف موسمی 
(seasonal) قسم کی ہے. ان کا اصل اور مستقل شغل درس و تدریس اور اپنے اپنے ہم خیال فرقوں کی مذہبی پیشوائی ہے جس کے ذیل میں مدارس و مکاتیب کے قیام و اہتمام‘مساجد کی امامت اور اپنے اپنے مخصوص عقائد کی تبلیغ و تلقین میں یہ حضرات پوری طرح مصروف رہتے ہیں اور اس لیے بھی کہ ان کی یہ موسمی سیاست بھی تضادات اور قلابازیوں سے خالی ہے. آج سے پچیس سال قبل بھی یہ حضرات قومی سیاست کا مذہبی ضمیمہ بن گئے تھے‘ اور آج پھر انہوں نے یہی رول اختیار کرلیا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ اس وقت قومی سیاست کی علمبردار جماعت ایک ہی تھی‘ لہٰذا یہ سب متفقہ طور پر اس کے معاون و مددگار بن گئے تھے اور اب قومی سیاست کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے لہٰذا ان کا تعاون بھی منقسم ہوجائے گا.چنانچہ ان کی اکثریت تو مرحوم مسلم لیگ کے صلبی وارثوں کے مختلف گروہوں ہی کی مدد کرے گی. ایک قدر قلیل شاید تحریک مسلم لیگ کی معنوی وارث یعنی جماعت اسلامی کا ساتھ دے دے. اسلام اور سوشلزم کی ہوائی جنگ میں چونکہ ان سب گروہوں نے متفقہ طور پر جماعت اسلامی کا ساتھ دیا تھا لہٰذا جماعت اسلامی کو توقع ہوگئی تھی کہ شاید انتخابات میں بھی وہ ان سب کی متفقہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن جونہی وہ ہوائی جنگ ختم ہوئی اور انتخابات کی بساط بچھنی شروع ہوئی ‘اس متحدہ اسلامی محاذ کے شرکاء کے رخ بھی تبدیل ہونے شروع ہوگئے. حتیٰ کہ اب اتحاد و اتفاق کے لیے کبھی کراچی اور کبھی لاہور میں مذاکرات تو منعقد ہوتے رہتے ہیں لیکن بات نہ کسی طور بن رہی ہے نہ بن سکے گی. ہمارے اندازے کے مطابق مولانا احتشام الحق تھانوی کی مرکزی جمعیت علماء اسلام بالواسطہ یا بلا واسطہ کونسل مسلم لیگ کا ساتھ دے گی اور بریلوی مکتب فکر کے علماء اور مشائخ کی اکثریت اپنے اپنے علاقوں میں لیگ ہائے ثلاثہ میں سے زیادہ تر دوسری دو مسلم لیگوں سے منسلک زمینداروں اور جاگیرداروں کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گی جبکہ جمعیت اہل حدیث کی تازہ نوجوان قیادت اور جمعیت علماء پاکستان کے صرف نعیمی گروپ کی حمایت جماعت اسلامی کو حاصل ہوجائے گی . واللہ اعلم!

پاکستان کے سیاسی میدان کے اصل اور مستقل مذہبی کھلاڑی در حقیقت دو ہی ہیں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام. اگرچہ فی الوقت یہ دونوں بالکل مخالف کیمپوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر معاملات میں ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں‘ تاہم ان دونوں کے مابین بعض امور مشترک بھی ہیں.

مثلاً ایک یہ کہ قبل از تقسیم ملک و قیام پاکستان ان دونوں کی راہیں مسلمانان ہند کی مجموعی قومی سیاست سے جدا تھیں. ایک گروپ کانگریس کا حامی و حلیف تھا اور دوسرے نے اپنی 
ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بالکل ہی الگ بنائی تھی (اگرچہ اس اتفاق میں بھی اختلاف کا ایک رنگ موجود تھا یعنی یہ کہ مودودی صاحب نے ابتدا میں کچھ عرسے تک کم از کم نظری اور کاغذی حد تک قومی سیاست کا ساتھ دیا تھا اور اس زمانے میں جمعیت علماء ہند کے موقف پر شدید اور نہایت تلخ تنقیدیں کی تھیں جن کی یاد فریق ثانی کے ذہن سے کسی طرح محو نہیں ہوسکتی!)

دوسرے یہ کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں کی قومی قیادت کے مقابلے میں بھی ان دونوں کا رویہ ایک جیسا رہا اور دونوں نے ہر ممکن طریق پر قومی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش کی‘صرف اس فرق کے ساتھ کہ جبکہ جماعت اسلامی نے بزعمِ خویش قومی قیادت کے حریف کی پوزیشن سنبھال لی تھی اور وہ اس کی جگہ لینے کے لیے مثبت طور پر جارحانہ پیش قدمی کر رہی تھی وہاں جمعیت اور اس کے ہم خیال علماء کی روش اکثر و بیشتر صرف عدم تعاون اور ترک موالات کی قسم کی 
passive resistance تک محدود رہی.تاہم نتیجہ تقریباً ایک ہی رہا اور اکثر معاملات میں یہ دونوں گروہ‘چاہے برضا و رغبت چاہے بادلِ ناخواستہ‘ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے.چنانچہ اینٹی قادیانی موومنٹ میں جماعت کو مجبوراً احرار اور جمعیت علماء اسلام کے پیچھے لگنا پڑا اور دوسری طرف پاکستان کے پہلے دس گیارہ سالوں کے دوران اسلامی دستور و قانون کے نفاذ کے مطالبے اور دوسری دہائی کے دوران سابق صدر ایوب خاں کی مخالفت میں اکثر جمعیت جماعت کا ساتھ دیتی رہی حتیٰ کہ بعض مواقع پر تو حیرت انگیز حد تک اشتراکِ عمل رہا. مثلاً ۱۹۶۷ء میں عید الفطر کے موقع پر اور ۱۹۶۸ء کے اواخر میں ڈاکٹر فضل الرحمن کے خلاف ایجی ٹیشن میں.

تیسرے یہ کہ دونوں ہی نے احیائے دین اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے باب میں صرف نعروں پر اکتفا کی اور اس کے لیے کسی مثبت تعمیری کام کی داغ بیل نہیں ڈالی. اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری جماعت اسلامی پر عائد ہوتی ہے اور اصل گلہ اسی سے ہے. اس لیے کہ جیسا کہ سطور بالا میں دیے ہوئے اقتباس سے ظاہر ہے‘ وہ علمی وفکری انقلاب ہی کے نام پر قومی تحریک سے علیحدہ ہوئی تھی اور واقعہ یہ ہے کہ اس کی کسی حد تک صلاحیت بھی اس نے اپنے اندر قیام پاکستان سے قبل کے پانچ چھ سالوں میں پیدا کرلی تھی‘ لیکن افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد اس نے ساری صلاحیتوں اور قوتوں کو سیاسی میدان میں جھونک دیا. رہی جمعیت علماء تو اس غریب نے نہ کبھی اس کا دعویٰ کیا اور نہ ہی علوم و فنون جدیدہ سے بعد شدید کی بنا پر اس میں ایسے کسی کام کی صلاحیت ہی ہے. لہٰذا اس 
سے نہ کبھی اس کی کوئی توقع تھی نہ اب کوئی گلہ ہے!

ان چند مابہ الاشتراک امور کے سوا ہر اعتبار سے پاکستانی سیاست کے اکھاڑے کے یہ دونوں مذہبی پہلوان ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں اور ہوتے ہوتے ان کے عناد اور بغض نے ا نتہائی خطرناک صورت اختیار کرلی ہے‘حتیٰ کہ اب جس شدید نوعیت کی عداوت ان دونوں کے مابین ہے اس کی مثال نہ دوسری سیاسی جماعتوں میں مل سکتی ہے نہ مذہبی گروہوں میں. 

سیاسی امور میں ان کے مابین جو بعد المشرقین پایا جاتا ہے ‘اس کے تذکرے سے قبل اس حقیقت کی جانب اشارہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان دونوں کا مذہبی رنگ بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے. کسی گزشتہ اشاعت میں ہم ضمنی طور پر حاشیے میں یہ جملہ لکھ بیٹھے تھے کہ ’’جماعت اسلامی کا مذہبی رنگ ہلکا اور سطحی ہے اور قدامت پسندی اور جدت پسندی کا ملغوبہ‘جبکہ جمعیت علماء اسلام کا مذہبی رنگ نہایت گہرا بھی ہے اور خالص قدیم اور روایتی بھی‘‘. اس پر بہت سے لوگوں حتیٰ کہ ہمارے بعض بزرگوں اور کرم فرماؤں نے بھی ناک بھوں چڑھائی حالانکہ یہ ایک روزِ روشن کے مانند عیاں حقیقت ہے جس کا انکار بالکل آنکھیں بند کرکے ہی کیا جا سکتا ہے. کیا یہ حقیقت نہیں کہ جمعیت علماء اسلام کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو پرانے سند یافتہ اور سکہ بند علماء ہیں اور سالہا سال سے درس و افتاء کی مسندوں پر رونق افروز ہیں! پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ جمعیت علماء اسلام کے کارکنوں کی ایک عظیم اکثریت درس نظامی کے فارغ شدہ علماء پر مشتمل ہے یا زیر تعلیم طلبہ پر‘جبکہ جماعت اسلامی کی اصل قوت سکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی اکثریت ناظرہ قرآن مجید تو شاید پڑھ لے‘ کسی ایک حدیث کے متن تک کو صحیح نہیں پڑھ سکتی! پھر ظاہری وضع قطع اور تراش خراش کے اعتبار سے بھی ان دونوں کے مابین عظیم تفاوت ہے. اس سلسلے میں فوری تقابل 
(simultaneous contrast) کا ایک موقع حال ہی میں لاہور میں پیش آیا. پچھلے دنوں یہاں ایک جلوس جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’اسلام پسندوں‘‘کی قوت کے مظاہرے کے لیے نکالا گیا‘ اور دوسرا جمعیت علماء اسلام نے اپنی طاقت کے مظاہرے کے لیے نکالا. پہلے جلوس کے قائدین میں بھی چار میں سے صرف ایک باریش تھے اور شرکاء میں بھی بمشکل پانچ فی صد داڑھی والے تھے اور ان میں سے بھی زیادہ سے زیادہ ایک فی صد کی داڑھی فقہی معیار پر پوری اترتی تھی جبکہ دوسرے جلوس کے قائدین اور شرکاء سب کم از کم پچانوے فی صد مکمل شرعی وضع قطع کے حامل تھے. (ان جلوسوں کے مابین ایک اور نمایاں تفاوت جس کا براہ راست تعلق جماعت اسلامی سے نہیں ہے‘ یہ تھا کہ ’’شوکت اسلام ‘‘کے جلوس میں نعرۂ تکبیر پر نعرۂ رسالت حاوی تھا اور کہیں کہیں سے نعرۂ حیدری کی آواز بھی سنی جاتی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے جلوس میں دینی نعروں میں سے نعرۂ تکبیر کے سوا کوئی اور نعرہ سننے میں نہیں آیا)باقی رہا نظریات و افکار کا معاملہ تو مولانا مودودی خود تجدد پسندوں اور قدامت پرستوں کے مابین ’’بیچ کی راس‘‘ کے آدمی ہونے کے مدعی ہیں جبکہ جمعیت علماء اسلام ہے ہی ان علماء پر مشتمل جن کو قدامت پرستی اور جمود کے طعنے دیے جاتے ہیں.تو پھر ہم نے اپنے اس جملے میں آخر اور کون سا زہرگھول دیا تھا؟

سیاسی موقف کے اعتبار سے جماعت اور جمعیت کے مابین جو بعد المشرقین پایا جاتا ہے‘تجزئیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد تین امور پر قائم ہے.

ایک یہ کہ عالمی سیاست کے میدان میں جمعیت علماء اسلام مغربی سامراج کی جانی دشمن ہے اور اس کی بیخ کنی کے لیے وہ کسی بھی دوسری طاقت سے تعاون کو درست سمجھتی ہے (درحقیقت یہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت ماضی میں جمعیت علماء ہند نے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا تھا)جبکہ جماعت اسلامی کی رائے میں چونکہ مغربی الحاد نے کسی نہ کسی حد تک دین و مذہب کے ڈھانچے کو بھی قائم رکھا ہے اور مغربی جمہوریت میں رائے کی آزادی بھی برقرار رہتی ہے لہٰذا کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی طاقتیں کم تر درجے کی برائی ہیں. 

دوسرے یہ کہ بین الاسلامی اور خصوصاً بین العرب سیاست میں جمعیت کی تائید اور ہمدردیاں ان ممالک کے ساتھ ہیں جنہوں نے بادشاہتوں کے تختے الٹ کر سوشلسٹ یا نیم سوشلسٹ نظام اختیار کرلیے ہیں اور روس کی امداد کے سہارے مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کے مظہر اعظم اسرائیل کے خلاف مصروفِ پیکار ہیں‘ جبکہ جماعت اسلامی ان ممالک کی مؤید اور حامی ہے (اور ان کی سرپرستی سے فائدہ بھی اٹھا رہی ہے) جہاں ابھی ملوکیت قائم ہے اور جو سوشلزم کی مخالفت کے پردے میں امریکہ کی حمایت کا دم بھر رہے ہیں. 
تیسرے ملکی سیاست کے میدان میں حال ہی میں دائیں اور بائیں بازو کی جو تقسیم عمل میں آئی ہے اس میں جمعیت علمائے اسلام بائیں بازو کی حامی ہے اور عوام کے معاشی حقوق کی بازیافت کی جدوجہد میں مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ ہے. چنانچہ لیبر پارٹی کے ساتھ اس کا باقاعدہ معاہدہ ہوچکا ہے اور بائیں بازو کی دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس کا اتحاد کسی بھی وقت اور کسی بھی صورت میں ممکن ہے جبکہ جماعت اسلامی نے سوشلزم کی مخالفت کو اسلام اور کفر کی جنگ کا درجہ دے کر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت کا رنگ اختیار کرلیا ہے. چنانچہ ملک کے سرمایہ دار طبقات کو اپنی نجات صرف اسی سے وابستہ نظر آتی ہے اور ان کی تجوریوں کے منہ اس کے ’’تحفظ نظریۂ پاکستان فنڈ‘‘کے لیے کھل گئے ہیں.

بات تو درحقیقت بس اتنی سی ہے جو اوپر بیان ہوئی لیکن شدت مخالفت میں یہی اختلافات اس صورت میں ظاہر ہورہے ہیں کہ جماعت اسلامی اور اس کے ہم خیال حلقوں کی جانب سے جمعیت پر کانگریسی مولویوں کی پھبتی کے علاوہ سوشلزم اور کمیونزم کے لیبل ہی نہیں کفر کے فتوے تک چسپاں کیے جارہے ہیں اور جمعیت کی طرف سے جماعت اور ان کے ہم نواؤں کو امریکہ کے پٹھو‘سامراج کے آلۂ کار ‘یہودیوں کے کارندے اور سرمایہ داروں کے ایجنٹ ایسے خطابات سے نوازا جارہا ہے.

جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں ہم نے آج سے پورے ڈیڑھ سال قبل جبکہ پاکستانی سیاست کے موجودہ ہنگامہ خیز دور کی ابتدا ہوئی ہی تھی‘ ان صفحات میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں جن سے جمعیت کے متذکرہ بالا سیاسی موقف کے تاریخی پس منظر پر روشنی پڑتی ہے. یعنی یہ کہ جمعیت علماء اسلام کا عوامی مزاج اور سامراج دشمن کردار ہرگز ’’حادث‘‘ نہیں بلکہ نہایت قدیم ہے اور اپنی پشت پر ایک طویل تاریخ اور شاندار ماضی لیے ہوئے ہے اور بعض لوگوں کا یہ گمان بالکل بے بنیاد ہے کہ اس کا موجودہ رویہ صرف جماعت اسلامی کی مخالفت کا نتیجہ یا ذاتی طور پر مولانا مودودی کی دشمنی کی پیداوار ہے.

مئی۱۹۶۸ ء میں باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں ان کی جو کانفرنس منعقد ہوئی اس کے تقریباً 
دو سال اور ایک ماہ بعد پھر ایک عظیم الشان ’’آئین شریعت کانفرنس‘‘ لاہور میں جون کے آخر ی ہفتے میں جمعیت کے زیر اہتمام منعقد ہوئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اکابر و عام کارکن دونوں نہایت سخت جان اور واقعتاً آہنی چنوں کے مانند ہیں‘اس لیے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک کے تمام مذہبی عناصر متحد ہوکر ان کی مخالفت پر کمر بستہ رہے ہیں اور انہوں نے ہر ممکن طریقے سے انہیں بدنام کرنے اور عوام کو ان سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی ہے‘لیکن ان کے قدم آگے ہی بڑھ رہے ہیں. تازہ ترین اضافہ یہ ہوا ہے کہ جس طرح جماعت اسلامی گزشتہ تقریباً دس سال سے صدر ناصر اور عالمِ عرب کی عوامی تحریکوں کی دشمنی اور ان کے خلاف شدید زہر آلود پروپیگنڈے کی قیمت عرب بادشاہوں اور امیروں کی ’’سرپرستی‘‘ کی صورت میں وصول کرتی رہی ہے اسی طرح اب جمعیت بھی عرب ممالک کے فریق مخالف کی نگاہوں میں آگئی ہے اور اسے بھی کچھ نہ کچھ ’’سرپرستی‘‘ ضرور حاصل ہوجائے گی.

ان حضرات پر ’’کانگریسی مولوی‘‘کی پھبتی سن کر خدا جانتا ہے کہ دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے‘اس لیے کہ اس کی اولین زد مولانا حسین احمد مدنی ؒ ایسے اکابر ملت‘ مجاہدین حریت اور زعمائے دین پر پڑتی ہے جن کے سیاسی موقف سے چاہے کسی کو کتنا ہی اختلاف ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے علم و فضل‘تقویٰ و تدین‘ خلوص و بے نفسی‘ عزم و ہمت‘جاں فشانی وتن دہی‘قربانی و ایثار اور حلم و تواضع کی کوئی دوسری مثال مسلم ہند کی ماضی ٔقریب کی تاریخ پیش نہیں کرسکتی.مولانا مدنی ؒ کی زیارت کا شرف ہماری گناہ گار آنکھوں کو تو حاصل نہیں ہوا لیکن ان کی اس ’’کرامت‘‘ کا مشاہدہ ہم نے بچشم سر کیا ہے کہ کتنے ہی مخلص اور متدین لوگوں کی آنکھوں سے ان کا نام سنتے ہی آنسوئوںکا دریا بہہ نکلتا ہے اور حلقہ دیوبند کے مدارس کی وہ زیر تعلیم نوجوان نسل جس نے مولانا کو نہ دیکھا نہ سنا‘ان کی توہین پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتی ہے. 

ذاتی طور پر ہمارے لیے تو سب سے بڑی شہادت مولانا امین احسن اصلاحی کی ہے جن کے الفاظ میں :’’مولانا مدنی صرف اپنی سیاسی رائے کے سوا ہر اعتبار سے ایک مثالی شخصیت تھے.‘‘

اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی ایک مرتبہ مولانا اصلاحی نے سنایاکہ:جن دنوں کانگریس اور 
مسلم لیگ کی کشمکش زوروں پر تھی اور مولانا مدنی اور ان کے رفقاء تنقید و استہزاء کا ہدف بنے ہوئے تھے ‘ایک روز خبر آئی کہ کچھ لیگی نوجوانوں نے مولانا کے ساتھ نہایت توہین و تذلیل کا معاملہ کیا. ان دنوں دار الاسلام سرنا ‘پٹھان کوٹ میں عام معمول یہ تھا کہ شام کے وقت ہم سب لوگ اکٹھے سیر کے لیے نہر پر جایا کرتے تھے (گویا یہ ان دنوں کی مرکز جماعت اسلامی کی شام کی نشست تھی!مدیر). وہاں مولانا مودودی سمیت کچھ لوگوں نے اس خبر پر خوش گپی کے انداز میں تبصرے کرنے شروع کیے ‘لیکن میں خاموش رہا. کچھ دیر بعد مولانا مودودی نے مجھ سے بھی کچھ کہنے کی فرمائش کی تو میں نے کہا کہ میں اور تو کچھ نہیں جانتا لیکن یہ ضرورجانتا ہوں کہ جس قوم نے مولانا مدنی ایسے شخص کی توہین کی ہے اس پر یقینا کوئی بہت بڑی آفت آنے والی ہے!اس پر پوری مجلس پر خاموشی طاری ہوگئی. تھوڑی دیر کے بعد مولانا مودودی نے کہا: مولانا آخر جو لوگ قوم کے احساسات وجذبات کا بالکل لحاظ نہ کریں ان کے ساتھ قوم کبھی گستاخی بھی کر گزرے تو کون سی بڑی بات ہے!اس پر میں نے مزید تو کچھ نہ کہا لیکن اپنے اس فقرے کو دہرا دیا:’’میں اور تو کچھ نہیں جانتا ‘صرف یہ جانتا ہوں کہ جس قوم نے مولانا مدنی ایسے شخص کی توہین کی ہے اس پر یقینا کوئی بہت بڑی آفت آنے والی ہے!‘‘

ذاتی تقویٰ و تدین کے علاوہ‘ اب تو ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ان حضرات کے سیاسی موقف کے بارے میں بھی اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں. خود مولانا احتشام الحق تھانوی نے آج سے تقریباً تین سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ کہے تھے کہ :’’اب جو حالات پیش آرہے ہیں ان کو دیکھ کر تو خیال ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کے بارے میں ان حضرات کی رائے زیادہ درست تھی جو کہتے تھے کہ پاکستان میں فروغ اسلام کو نہیں‘فرقِ باطلہ اور الحاد و اباحیت کو حاصل ہوگا!‘‘لیکن بات یہاں تک نہ پہنچے تو بھی کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ اُس وقت کی ضدم ضدا میں جو زیادتیاں ایک دوسرے پر ہوگئی تھیں اب کم از کم ان کا اعادہ تو نہ ہو.
ہم خود اپنا یہ ذاتی احساس بھی اس مقام پر بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بقیہ تمام معاملات اور قیل و قال ایک طرف‘کم از کم ہندوستان کے مسلمانوں کے مسئلے کے اعتبار سے تو کبھی کبھی شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ’’پاکستان کی سکیم سے 
ہندوستان کے مسلمانوں کی قوت جو پہلے ہی تہائی ہے وہ تو تین حصوں میں بٹ کر مزید کم ہوجائے گی اور ہندوئوں کی طاقت بالکل یکجا اور مجتمع رہے گی‘‘ ان کا خیال کس قدر درست تھا!

اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے کسی تازہ قتل عام کی خبر آتی ہے‘ دوسرے لاکھوں اور کروڑوں حساس مسلمانوں کی طرح راقم الحروف کے دل پر بھی چھریاں چل جاتی ہیں اور نہ صرف یہ کہ یہاں کا سکھ چین کاٹ کھانے کو دوڑنے لگتا ہے بلکہ سیدنا مسیحؑ کی تمثیل کے عین مطابق ہر کھانا ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں کا گوشت اور ہر مشروب ان کا خون نظر آنے لگتا ہے.
ہمیں دوسروں سے تو کوئی گلہ نہیں لیکن حیرت ناک افسوس ہوتا ہے حلقہ دیوبند ہی کے ان اکابر پر جو نہ صرف درس و افتاء بلکہ تلقین و ارشاد کی مسندوں پر رونق افروز ہوتے ہوئے بھی ایسے کٹھور دل واقع ہوئے ہیں کہ کچھ سیاسی یا روپہلی مصلحتوں کی بنا پر اب بھی ان خادمانِ دین و ملت پر کانگریسی مولوی ایسی تحقیر آمیز پھبتی کسنے سے باز نہیں رہتے.

رہا سوشلسٹ اور کمیونسٹ ہونے کا الزام اور اس کی آڑ میں بالواسطہ کفر کا فتویٰ تو جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے وہ تو‘ جیسا کہ ہم بعد میں تفصیل سے واضح کریں گے‘یہ سب کچھ ایک شدید مجبوری اور اضطرار کے تحت حکمت عملی کے طور پر کر رہی ہے.رہے تھانوی و عثمانی حلقے تو ان کی جانب سے یہ معاملہ کچھ تو نا سمجھی میں ہورہا ہے اور کچھ غالباً مدنی گروپ کے اس جرمِ عظیم کے انتقام کے طور پر جو اس نے جمعیت العلماء کی قیادت سے ان حضرات کو بے دخل کرکے ’’یوسف بے کارواں‘‘بنا کر کیا تھا. اس لیے کہ جتنی کچھ سوشلزم کی قائل جمعیت علماء اسلام ہوسکتی ہے ‘اس سے کہیں زیادہ سوشلزم جماعت اسلامی نے بھی حالات سے مجبور ہوکر اپنے منشور میں داخل کرلیا ہے اور تھانوی و عثمانی اکابر کی قیادت میں مختلف مذہبی گروہوں کے ۱۱۸علماء نے بھی اپنے فتویٰ کے ذریعے اسے سند جواز عطا فرما دیا ہے. تو ظاہر ہے کہ بنائے نزاع سوشلزم نہیں ‘کچھ اور ہے.

جمعیت کی طرف سے ان ساری مدافعانہ گزارشات کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ خود ان کی اپنی بعض باتوں سے نہ صرف یہ کہ ان کی موجودہ قیادت کے وقار کو دھکا لگا ہے بلکہ ان کے اکابر و اسلاف کی شہرت اور نیک نامی کو بھی نقصان پہنچا ہے.

ان چیزوں میں سے ایک ان کی شدید بد نظمی و بے ترتیبی ہے جس کی وجہ سے بسااوقات بڑی ہی مضحکہ خیز صورتیں پیش آتی ہیں اور پوری جمعیت تمسخر و استہزاء کا ہدف بنتی ہے. چنانچہ ماضی میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی معاملے میں جمعیت کے ایک لیڈر کا بیان کچھ اور ہوتا ہے اور کسی دوسری مقتدر ہستی کا بالکل کچھ اور… اور بالکل وہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؏ 

من چہ می گویم و طنبورۂ من چہ می سراید!

اگر گستاخی شمار نہ ہو تو ہم جمعیت کے اکابر کی خدمت میں گزارش کریں گے کہ وہ اس سقم کو جلد از جلد دور کرنے کی کوشش کریں اور تنظیم و جماعت بندی کے کم از کم ناگزیر لوازم کا ضرور اپنے یہاں اہتمام کریں. 

دو سری اور اہم تر چیز جمعیت کے اکابر میں سے بعض کی معیارِ شرافت سے گری ہوئی زبان اور ہلکا طرزِ تکلم ہے جس نے حقیقت یہ ہے کہ جمعیت کو خصوصاً شہروں کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کے حلقے میں شدید نقصان پہنچایا ہے. ہمیں ان حضرات کے خلوص میں ہرگز کوئی شک نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے جوش ‘جذبے اور قوتِ کارکردگی پر رشک آتا ہے‘لیکن ان کے طرزِ خطاب اور اندازِ تکلم پر گردن کو ندامت سے جھکا لینے کے سوا کوئی چارئہ کار نظر نہیں آتا. کاش کہ یہ حضرات تقریر و خطاب کے موقع پر 
وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ کی قرآنی ہدایات کو پیش نظر رکھ سکیں اور یہ اندازہ کرسکیں کہ اس کی خلاف ورزی کرکے وہ خود اپنے مقصد اور مشن کو کس قدر نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں.
تیسری بات یہ کہ اعوان و انصار کے انتخاب میں ان کے یہاں بھی احتیاط ملحوظ نہیں رکھی جاتی بلکہ جس وقت جو شخص مفید مطلب نظر آئے اسے سر آنکھوں پر بٹھا لیا جاتا ہے‘ حالانکہ اس کا ایک نہایت تلخ قسم کا تجربہ انہیں ماضی ٔ قریب میں بھی ہوچکا ہے.اس کے علاوہ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بعض اوقات بالکل آوارہ اور اوباش لوگ شریک ہوکر ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے ہر شریف انسان کو ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے اور قلبی اذیت بھی. چنانچہ جماعت اسلامی کے ’’متحدہ 
اسلامی محاذ‘‘کا توڑ کرنے کے لیے جو ’’متحدہ دینی محاذ‘‘جمعیت کے زیر سرپرستی بنا‘اس کے جلسے میں نہایت ناگفتہ بہ صورتیں پیش آئیں. اور پھر یوم جہاد کے مشترکہ جلوس میں بھی اس قسم کے عناصر نے جو طرز عمل اختیار کیا اس پر بھی ہر شخص نے نفرین و ملامت کی اور اس میں شریک ہونے کی وجہ سے جمعیت کی شہرت کو شدید نقصان پہنچا. ہماری ناچیز رائے میں جمعیت کو ہر گز اس طرح کے سہارے تلاش نہیں کرنے چاہئیں اور جو کام بھی ہو بس اپنی ہی قوت کے بل پر کرنا چاہیے. ہمارا اندازہ ہے کہ غالباً اب جمعیت کے اکابر نے کم از کم اس معاملے میں تو اپنی روش تبدیل کر بھی لی ہے.چنانچہ حالیہ آئین شریعت کانفرنس کے موقع پرجلوس و جلسوں میں بحمداللہ ایسی کوئی صورت پیدا نہیں ہونے پائی‘بلکہ جلوس تو بلاشبہ اسلامی متانت‘ سنجیدگی اور وقار کا ایک عظیم الشان شاہکار تھا .

رہی جماعت اسلامی تو اس کا ماضی اگرچہ کچھ زیادہ لمبا چوڑا نہیں‘اس لیے کہ اس کا شجرۂ نسب زیادہ سے زیادہ مولانا ابو الکلام مرحوم کے’’ الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ سے ملتا ہے یا خیری برادران سے ‘ اور اگرچہ مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک سے اس کی علیحدگی کے اسباب کے بارے میں بھی بہت کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہے تاہم ہمارے نزدیک اس نے جو کام ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک کیا وہ درست خطوط پر بھی تھا اور نتیجہ خیز بھی! اگر وہ انہی خطوط پر کام کرتی رہتی تو شاید آج اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب ’’شد پریشاں خوابِ من‘‘کی سی مایوس کن صورت پیش نہ کر رہا ہوتا‘لیکن افسوس کہ اس نے کچھ وقتی سی ترغیبات 
(temptations) سے دھوکا کھا کر‘جیسا کہ ہم پہلے عرض کر آئے ہیں‘خود اپنے بیان کردہ ’’ایک ہی مخصوص‘‘ طریق کارکو تج کرکے پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں کود جانے کا فیصلہ کرلیا اور تحریک پاکستان کی مذہبی رومانویت کے اس غبارے میں از سر نو گیس بھرنی شروع کردی جو قیام پاکستان کے بعد تیزی سے خالی (deflate) ہورہا تھا. 

پھر چونکہ سیاسی میدان میں داخلے کے لیے ان کے پاس سوائے مذہب کے اور کوئی اسناد 
(credentials) سرے سے موجود ہی نہیں تھیں لہٰذا اس میدان کے ہر مقابلے اور حصولِ اقتدار کی جنگ کے ہر معرکے کو انہیں ایک ناگزیر ضرورت کے تحت ’’اسلام اور کفر‘‘ کی جنگ قرار دینا پڑا. چنانچہ کم از کم ان کے جرائد و رسائل کے صفحات کی حد تک‘پاکستان میں مسلسل ۲۳ برس سے اسلام اور کفر کی جنگ لڑی جا رہی ہے.

اوّل اوّل اس جنگ میں ’’کفر‘‘ کی جانب سے لڑنے والی اور اسلام کا راستہ روکنے والی وہ قومی قیادت تھی جس میں خواجہ ناظم الدین اور سردار عبدالرب نشتر ایسے پابند صوم و صلوٰۃ اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین ایسے اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ بھی موجود تھے. جب یہ قیادت کچھ خارجی دباؤ اور کچھ داخلی انتشار کی وجہ سے میدان سے ہٹی تو انہوں نے ا طمینان کا سانس لیا اور گمان کیا کہ اب میدان صاف ہے. چنانچہ ’’حکمت عملی‘‘ سے کام لیتے ہوئے ۱۹۵۵ء کے سالانہ اجتماع کی قراردادوں کے ذریعے امریکہ کو بھی سفید جھنڈی دکھا دی گئی کہ آپ پریشان نہ ہوں‘ہم بھی کوئی غیر نہیں آپ ہی کے نیاز مند ہیں. لیکن افسوس کہ اس وقت کی اکھیڑ پچھاڑ اور توڑ پھوڑ میں سے بجائے اس کے کہ ان کے لیے کوئی ’’خیر کی راہ‘‘ نکلتی‘الٹا ۱۹۵۸ء کا مارشل لاء اور سابق صدر ایوب خاں کا دس سالہ دور اقتدار بر آمد ہوگیا. چنانچہ ’’اسلام اور کفر‘‘ کی جنگ کا ایک دوسرا دور شروع ہوگیا. اس دور کی ابتدا میں جماعت اسلامی نے ایوب خاں کے بھاری پتھر کو راستے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کی. کبھی سہروردی مرحوم سے اشتراک کیا‘کبھی محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت قبول کی. الغرض ؏ ’’ہم نے کیا کیا نہ کیا دیدہ و دل کی خاطر‘‘ لیکن جب یہ پتھر اپنی جگہ سے ٹس سے مس ہوتا نظر نہ آیا تو تھک ہار کر اپنے قدیم ترین جریدے کے ایک اداریے کے ذریعے صلح کی پیشکش کی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا. لیکن ابھی یہ دوستی صرف گول میز کانفرنس تک ہی پہنچ پائی تھی کہ خود ایوب خاں کا دورِ اقتدارختم ہوگیا. 

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

صرف یہی نہیں بلکہ جس چیز کو مسلسل دس سال تک سب سے بڑا شر اور ساری برائیوں کی جڑ اور اسلام کے راستے کی واحد رکاوٹ ٹھہرایا تھا ‘اس کے ہٹتے ہی ایک اور بلا نمودار ہوگئی اورع ’’شامت اعمالِ ما صورتِ بھٹو گرفت‘‘کا نقشہ نظر آنے لگا. علاوہ ازیں ایک طرف معاشرے کے مظلوم و مجبور طبقے یعنی کسان‘مزدور‘کم تنخواہ پانے والے سرکاری ملازم اور محنت کش ایک طوفان بن کر اٹھتے نظر آئے اور دوسری طرف ’’یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے ‘‘گلے کو آنے لگے . چنانچہ اسلام اور کفر کی جنگ کا ایک نیا معرکہ شروع ہوا اور سوشلزم کو کفر کا ایک ہوائی اور فرضی مورچہ قرار دے کر اس پر گولہ باری شروع کردی گئی.

اسلام اور سوشلزم یا بالفاظ دیگر اسلام اور کفر کی ہوائی جنگ گزشتہ ایک سال سے ہمارے ملک میں پورے زور شور سے جاری ہے اور اس میں شک نہیں کہ کچھ سرمایہ داروں کی پشت پناہی اور کچھ دوسرے دینی حلقوں کی امداد نے اس جنگ میں خالص سوشلسٹ عناصر کو پسپائی پر مجبور بھی کردیا ہے ‘لیکن 
برا ہو جمعیت علماء اسلام کا کہ وہ اس جیت کو بھی شکست میں تبدیل کرنے پر تل گئی ہے.چنانچہ اس نے ایک طرف مزدوروں‘کسانوں اور مظلوم ومقہور عوام کی پشت پناہی شروع کردی ہے اور دوسری طرف جماعت کی امریکہ نوازی‘سامراج دوستی اور سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا بھانڈہ چوراہے میں پھوڑنا شروع کردیا ہے. 

تو پھر کون سے تعجب کی بات ہے اگر جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ غصہ جمعیت علماء اسلام ہی پر آئے اور اس کے کارکن اس کے اکابر کا تذکرہ کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجائیں! 

ہم واضح طور پر عرض کردینا چاہتے ہیں کہ جہاں تک اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی کسی حقیقی امید اور واقعی توقع کا تعلق ہے ‘وہ تو ہمیں نہ جماعت اسلامی سے ہے نہ جمعیت علماء سے اس لیے کہ ان دونوں جماعتوں کا اصل اور حقیقی مزاج سیاسی ہے. اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جو کام ناگزیر اور لابد منہ ہے یعنی ایک ذہنی و فکری انقلاب اور عوام کی اخلاقی و عملی تربیت‘وہ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں کر رہا.
لیکن جہاں تک ان دونوں مذہبی گروہوں کی سیاسی حکمت عملی کا تعلق ہے‘ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہمارے نزدیک جماعت اسلامی کا یہ مستقل شغل کہ وہ اپنی حصولِ اقتدار کی جنگ کے ہر معرکے کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر پیش کرتی ہے‘ اسلام کے حق میں نہایت مضر اور اس ملک میں مذہب کے مستقبل کے اعتبار سے سخت خطرناک ہے. اس چرواہے کی مانند جو خوا مخواہ ’’شیر 
آیا ‘شیر آیا‘‘ کہہ کر لوگوں کو امداد کے لیے بلا کر ان کا مذاق اڑایا کرتا تھا‘ہمیں اندیشہ ہے کہ ہر وقت اور ہر موقع پر ’’اسلام خطرے میں‘‘ کے نعرے لگانے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ جب کبھی واقعی شیر آ ہی جائے اور اسلام کو حقیقی خطرہ در پیش ہو تو عوام اسے بھی مذاق سمجھ کر بیٹھے رہ جائیں اور کسی کی غیرتِ دینی جوش میں نہ آئے.

تحریک پاکستان کے دوران بھی ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعرے بڑے زور شور سے لگے تھے اور اس وقت بھی بہت سے سادہ لوح اور نیک دل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امیدوں کے چراغ روشن ہوگئے تھے. لیکن پھر مسلسل ۲۳سال جس طرح ان نعروں کی مٹی پلید کی گئی ‘اس سے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے لوگوں کے دلوں پر مایوسی اور ناامیدی کے کیسے کیسے اندھیارے پھیلے. اب پھر اسی ’’رومانویت‘‘ کا دور دورہ ہے‘لیکن انتخابات کے نتیجے میں جو کچھ ہو گا وہ کسے معلوم نہیں. ظاہر ہے کہ’’ اسلام اور کفر‘‘کی اس ہوائی جنگ کی فتح کے ثمرات کی ساری فصل پرانے‘پیشہ ور اور جدی و پشتی سیاست دان کاٹیں گے اور ایک بار پھر مذہبی رومانویت کا غبارہ پھٹے گا اور لوگوں میں مایوسی و بددلی کی عام لہر پھیلے گی.اس بار اس 
dis-illusionment کی پوری ذمہ داری جماعت اسلامی پر عائد ہوگی. 

دوسری طرف جمعیت علماء اسلام کی تمام خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہماری رائے میں اس کی موجودہ حکمت عملی آخر کار اسلام کے لیے مفید ثابت ہوگی . اس لیے کہ اس وقت اصل صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں نے طبقاتی شعور فی الواقع پیدا کردیا ہے اور کسانوں‘مزدوروں اور دوسرے محنت کش طبقات میں یہ احساس بیدار ہوگیا ہے کہ وہ مظلوم و مجبور ہیں اور ان کا استحصال ہوتا رہا ہے.چنانچہ وہ اپنے معاشی حقوق کی بازیافت کے لیے منظم جدوجہد کا آغاز کرچکے ہیں‘ اور ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ان کو مسلسل ذہنی و فکری غذا بھی دے رہے ہیں اور اس جدوجہد میں ان کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں. جب تک یہ صورت پیدا نہیں ہوئی تھی اور کسان اور مزدور’’قسمت‘‘ پر راضی و شاکر تھے ‘بات مختلف تھی لیکن اب صورتحال بالکل تبدیل ہوچکی ہے اور پسے ہوئے طبقات اپنا حق وصول کرنے کے لیے عملاً اٹھ کھڑے ہوئے ہیں. اس مرحلے پر ’’سرمایہ داری‘‘ بھی اپنے تحفظ کے لیے ہر ممکن چال چل رہی ہے اور اس کے مدافعانہ ہتھیاروں میں سے ظاہر ہے کہ اہم ترین ہتھیار ’’مذہب‘‘ کا ہے. 
لہٰذا اگر خدا نخواستہ صورت یہ ہوتی کہ ملک کے تمام مذہبی طبقات مجتمع ہوکر سرمایہ داری کے پشت پناہ بن جاتے تو یہ ہمارے نزدیک نہایت خطرناک صورتحال ہوتی‘اس لیے کہ اس صورت میں عوامی طاقتوں کا سیلاب سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ دین و مذہب کو بھی بہا کر لے جاتا.

لیکن جمعیت علماء اسلام کے اپنے آپ کو غرباء کی صف میں کھڑا کرلینے سے بحمد اللہ یہ خطرہ دور ہوگیا ہے. اب ان شاء اللہ جنگ اسلام اور کفر کی نہیں رہے گی بلکہ سیاسی گروہوں کی باہمی جنگ اقتدار ہوگی‘یا ایک نظریۂ سیاست و معیشت کا دوسرے نظریۂ سیاست و معیشت سے مقابلہ ہوگا!

ہم اپنے بارے میں وضاحت سے عرض کیے دیتے ہیں کہ ہمیں اصل دلچسپی صرف اسلام اور اس کی نشاۃ ثانیہ سے ہے. بین الاقوامی سیاست کے اتار چڑھاؤ بھی ہمارے سامنے ہیں‘بین الاسلامی اور بین العرب سیاست کے بارے میں بھی ہمارا ایک نقطۂ نظر ہے اور ملکی سیاست کے پیچ و خم سے بھی ہم بحمد اللہ بالکل نا آشنا نہیں … لیکن ہم علیٰ وجہ البصیرت جانتے ہیں کہ ان چیزوں کا فی الوقت اسلام اور اس کی نشاۃ ثانیہ اور دین اور اس کے احیاء سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے. لہٰذا ان تمام چیزوں سے نظری دلچسپی رکھنے کے باوجود ان میں سے کسی میں کسی پہلو سے کوئی عملی حصہ لینے پر ہماری طبیعت کسی طرح مائل نہیں ہوتی. ہم اپنی مہلت عمر اور صلاحیتوں کی حقیر سی پونجی کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے عظیم الشان کام کے کسی ایک چھوٹے سے گوشے کی خدمت میں صرف کردینے ہی کو اصل کامیابی سمجھتے ہیں. اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق ارزانی عطا فرمائے. آمین! 

واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین