اگست۱۹۷۰ء
پاکستان کی موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ بلاشبہ نہایت قابل داد ہے کہ اس نے ڈیڑھ سال سے بھی کم مدت میں ملک کو سخت ہیجان انگیز اور ہنگامہ خیز’’انقلابی‘‘فضا سے نکال کر نہایت پرسکون ’’سیاسی‘‘جدوجہد کی راہ پر ڈال دیا ہے.واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں ’’انتخابی‘‘ سرگرمی جس زور شور کے ساتھ لیکن جس ہموار طریقے پر جاری ہے اس کے پیش نظر یہ باور کرنا مشکل معلوم ہوتاہے کہ صرف سال سوا سال قبل یہاں ’’گھیراؤ‘‘اور ’’جلاؤ‘‘کی باتیں ہو رہی تھیں. مظاہروں‘ جلوسوں اور ہڑتالوں سے شہری زندگی تقریباً معطل ہوگئی تھی اور نہ صرف باہمی تصادم اور سر پھٹول بلکہ باقاعدہ کشت و خون اور سول وار کا خطرہ درپیش تھا.
صدر یحییٰ نے اپنی ۲۸؍جولائی کی نشری تقریر میں اگر اس سلسلے میں کسی کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے تو یہ یقیناان کا حق ہے. جس قسم کے ناگفتہ بہ اور مخدوش حالات میں انہوں نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تھی ان کا بیان تحصیل حاصل ہے.اُلجھی ہوئی صورت حال کی یہ گتھی کسی نہایت پختہ کار‘معاملہ فہم اور سلجھے ہوئے سیاست دان کے ناخن تدبیر ہی سے سلجھ سکتی تھی. اس لیے کہ اس قسم کے حالات میں ذرا سی بے احتیاطی نہایت مضر نتائج پیدا کرسکتی ہے اور جہاں ضرور ت سے زیادہ نرمی سے لوگوں کی جرأتیں بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں ضرورت سے زیادہ سختی بھی جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے. گویا ’’سردی گرمی‘نرمی سختی‘‘کا ایک نہایت معتدل سا امتزاج ہی ایسے مواقع پر کامیاب ہوسکتا ہے. چنانچہ ماننا پڑتا ہے کہ صدر یحییٰ اس ’’بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز‘‘راستے پر چلنے میں کامیاب رہے. ابتدا میں انہوں نے قدرے نرمی سے کام لیا جسے‘جیسا کہ خود انہوں نے فرمایا‘کچھ لوگوں نے کمزوری پر محمول کیالیکن انجامِ کار ان کی یہ پالیسی صحیح ثابت ہوئی اور اس طرح واقعتاً لوگوں کے دلوں کی بھڑاس نکل گئی. چنانچہ بعد میں انہوں نے تدریج کے ساتھ باگیں کھینچنی شروع کردیں تا آنکہ آج اُدھر مولانا بھاشانی کے صاحب زادے ’’اندر‘‘ہیں اور مسیح الرحمان صاحب بھی معافی مانگ کر ہی ’’باہر‘‘آ سکے ہیں‘ اور ادھر مسٹر بھٹو کی شوخیاں قصۂ ماضی بن چکی ہیں اور اب وہ ہر بات ناپ تول کر کررہے ہیں. اور صورت یہ ہے کہ انتخابی جلسے اطمینان اور سکون کے ساتھ ہو رہے ہیں اور کہیں گڑ بڑ نہیں ہوپاتی .بڑے بڑے جلوس نکل رہے ہیں لیکن ہنگامہ نہیں ہوتا اور بڑے بڑے جغادری قسم کے’’انقلابی‘‘رہنما بھی ووٹوں اور سیٹوں کے ’’اہتمامِ خشک و تر‘‘کے شدید ’’دردِ سر‘‘میں مبتلا کاسۂ گدائی لیے مارے مارے پھر رہے ہیں.
ان حالات میں صدر یحییٰ کا تازہ انتباہ بروقت بھی ہے اور نہایت معنی خیز بھی. اس لیے کہ اب حالات جس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اس میں تھوڑی سی نرمی سے بھی سارے کیے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے . اب نہ صرف یہ کہ اگر حکومت امن و سکون کے قیام اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے سختی کرے تو وہ بالکل حق بجانب ہوگی بلکہ اگر صورت اس کے برعکس ہو اور حکومت کی نرمی کی وجہ سے صورت حال دوبارہ بگڑ جائے تو خود حکومت پر یہ الزام آئے گا کہ وہ اقتدار کی منتقلی کو معرضِ التوا میں رکھنا چاہتی ہے.
اور یہ وہ الزام ہے جس سے موجودہ حکومت کم از کم تا حال بالکل بری ہے. اس لیے کہ اگرچہ نیتوں اور ارادوں کا جاننے والا تو اللہ ہی ہے تاہم اس وقت تک صدر یحییٰ اور ان کی حکومت کے بارے میں کسی انتہائی بدگمان مزاج انسان کے لیے بھی یہ کہنا کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ اقتدار کو عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف منتقل کرنے کے معاملے میں نیک نیت نہیں ہیں. انہوں نے اس معاملے میں جس پختہ عزم کے ساتھ مسلسل اور بروقت اقدامات کیے ہیں اس سے تاحال ان کی پوزیشن شک و شبہ سے بالکل بالا رہی ہے. اب اسی پوزیشن کا تقاضا ہے کہ ایک طرف تو وہ انتخابات کے لیے سازگار فضا برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس معاملے میں کسی نرمی کو ہرگز راہ نہ دیں بلکہ اگر ضرورت ہو تو انتخابات کے بالکل قریب ملک پر نیم فوجی و نیم سول حکومت کی بجائے خالص فوجی نظم قائم کردیں (اس سلسلے میں ہمارے نزیک یہ مطالبہ بھی بالکل صحیح ہے کہ انتخابات سے دو ماہ قبل کم ازکم صدارتی کابینہ کو توسبکدوش کر ہی دیا جائے)… اور دوسری طرف انتخابات کے التوا کے کسی مطالبے پر کان نہ دھریں بلکہ ووٹروں کو ہر امکانی سہولت مہیا کرنے پر خواہ کتنا ہی خرچ آجائے‘ انتخابات مقررہ تاریخ پر ضرور منعقد کرائیںتاکہ اس شبہ کی گنجائش پیدا نہ ہو سکے کہ موجودہ حکومت خود زیادہ دیر تک برسراقتدار رہنا چاہتی ہے!
اس مؤخر الذکر معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم ایک غریب قوم ہیں اور انتخابی بخار کی جس کیفیت میں ہم اس وقت من حیث القوم مبتلا ہیں اس کو طول دینے کی ’’عیاشی‘‘ کے ہم کسی طرح متحمل نہیں ہوسکتے. اس وقت نہ صرف یہ کہ پوری قوم کی توجہ انتخابات پر مرتکز ہوگئی ہے بلکہ ایک غریب قوم کے روپے پیسے کی حقیر پونجی اور صلاحیتوں‘قوتوں اور اوقات کے سرمائے کا بڑا حصہ اس مد میں صرف ہورہا ہے. چنانچہ اب یہ مرحلہ جس قدر جلد طے ہوجائے اتنا ہی اچھا ہے اور اس کو طول دینا کسی طرح صحیح نہیں. اس لیے کہ
؏ ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا.‘‘
یہ بات محتاج بیان نہیں کہ ’’اقتدار کی منتقلی‘‘کی ذمہ داری کا بوجھ جتنا جتناموجودہ حکومت کے کندھوں سے اترتا جا رہا ہے اتنا ہی سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے کندھوں پر پڑتا چلا جا رہا ہے. جس قدر وہ بری الذمہ ہوتی جا رہی ہے اسی قدر یہ ’’ذمہ دار‘‘ بنتے چلے جا رہے ہیں… تاآنکہ اگر انتخابات بروقت منعقد ہوگئے ‘ بظاہر احوال اب یہ یقینی ہی سا نظر آتا ہے ‘اور پھر بھی اس ملک کے پیچیدہ مسائل حل نہ ہوئے اور معاملات کی گتھی نہ سلجھی تو مستقبل کا مورخ مجبور ہوگا کہ اس کی ذمہ د اری سے موجودہ فوجی حکومت کو بالکل بری قرار دے اور سارا الزام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر عائد کرے. گویا آئندہ چند ماہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے فہم وفراست‘ تدبر و حکمت‘قربانی و ایثار اور سب سے بڑھ کر حب وطن اور حب قوم کے لیے کھلا چیلنج بن کر آ رہے ہیں اور بزبانِ حال مبارزت خواہ ہیں کہ: ؏ ’’پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!‘‘
پاکستانی سیاست کا جو دور اواخر ۱۹۶۸ء سے شروع ہوا تھا اس میں اول اول انقلابیت کا دور دورہ رہا اور اس کی ایسی طوفانی آندھی آئی کہ باقی ہر چیز نگاہ سے اوجھل ہوگئی. اس کا زور کم ہوا اور فضا قدرے صاف ہوئی تو اسلام اور سوشلزم کی کاغذی اور ہوائی جنگ شروع ہوگئی اور کچھ عرصے کے لیے تو ایسا سماں بندھا کہ گویا ایک طرف ’’نظریہ پاکستان‘‘ہے جو خالص اور بے میل اسلام ہے اور دوسری طرف سوشلزم ہے جو بے شک و بلا ریب کفر ہے… اور جنگ بس صرف ان دو کے مابین ہے‘بیچ کی راہ سرے سے کوئی ہے ہی نہیں!ادھر کچھ عرصے سے یہ مصنوعی شورا شوری بھی ختم ہوچکی ہے. چنانچہ ہوائی باتوں کے بجائے ٹھوس معاملات پر گفتگو ہونے لگی ہے اور ’’رومانویت‘‘پر حقیقت پسندی غالب آنے لگی ہے. نتیجتاً ایک طرف دولتانہ اور فضل القادر گلے مل گئے ہیں جبکہ بھٹو اور قاضی فضل اللہ میں بھی ’’معاملے‘‘کی بات چیت ہوئی ہے‘چاہے بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ہو… اور دوسری طرف ’’انتہا پسندی‘‘کی مذمت ہونے لگی ہے اور باقاعدہ پر چار شروع ہوگیا ہے کہ ملک و ملت کی نجات ’’بیچ کی راہ‘‘اختیار کرنے میں ہے.
اس سلسلے میں بعض نہایت ’’عریاں حقائق‘‘بھی بہت دلچسپ انداز میں پیش کیے جانے لگے ہیں‘مثلاً یہ کہ:
’’پاکستان’’غیر صالح‘‘لوگوں ہی نے قائم کیا تھا اور وہی اسے قائم رکھ سکتے ہیں!‘‘
یا یہ کہ:
’’تحریک پاکستان صرف ’’لبرل اسلام‘‘کی علمبردار تھی نہ کہ رجعت پسند مولویانہ اسلام کی!‘‘وغیرہ وغیرہ.
ان باتوں پر اس اعتبار سے تو اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ’’عریاں نگاری‘‘ ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ یہ’’حقیقت نگاری‘‘نہیں. سچ ہے: ؎
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا
ادھر ہمارے ’’فقہائے مصلحت بیں‘‘اور’’حکمائے حکمت عملی‘‘کا حال یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اپنے پورے ماضی سے دستبردار اور سابقہ ہر موقف سے منحرف ہوگئے ہیں بلکہ اپنی ساری ذہانت اس پر صرف کر رہے ہیں کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر اور تاریخ کو مسخ کرکے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کردکھایا جائے.
چنانچہ ’’جماعت اسلامی نے کبھی تحریک پاکستان کی مخالفت نہیں کی‘‘!ایسے دروغِ مصلحت آمیز کا سلسلہ تو عرصہ دراز سے چل ہی رہا تھا‘اب ایک قدم آگے بڑھا کر قیام پاکستان کے کریڈٹ میں بھی حصہ داری کا دعویٰ شروع ہوگیا ہے اور اس سلسلے میں جماعت کی سول سروس کے اساتین ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں. یہاں تک کہ ان میں سے ایک نسبتاً سادہ لوح بزرگ تو کچھ عرصہ قبل ایک جلسہ عام میں یہ تک کہہ بیٹھے کہ:
’’پاکستان کے قیام میں اکیلے مولانا مودودی کا حصہ باقی تمام لوگوں کے مجموعی حصے سے بھی زیادہ ہے.‘‘
جس پر پرائے تو خیر پرائے ہی ہوتے ہیں اپنوں (جیسے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ لاہور) کو بھی چیخ اٹھنا پڑاکہ: ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ!
ہمارا اسی وقت یہ خیال تھا کہ یہ بات ان کی ’’طبع زاد‘‘نہیں ہوسکتی. چنانچہ حال ہی میں بات واضح ہو گئی اور مولانا مودودی نے بہ نفس نفیس ایک طرف یہ ارشاد فرما کر کہ : ’’جماعت اسلامی ہندوستان کی مسلمان قوم کے دفاع کے حصارِ ثانوی کے طور پر قائم کی گئی تھی‘‘ قطع نظر اس سے کہ یہ صحیح ہے یا غلط‘کم از کم اپنی طرف سے تو اپنی ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (حصہ سوم)اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ایسی تالیفات سے اعلان براء ت کردیا… اور دوسری طرف یہ اعلان کرکے کہ’’ہم نہ مردوں کو داڑھی رکھنے پر مجبور کریں گے نہ عورتوں کو برقع پہننے پر‘‘نہ صرف یہ کہ اپنی مایہ افتخار تصنیف ’’پردہ‘‘سے رجوع کرلیا بلکہ اپنی مبینہ ’’راسخ العقیدگی‘‘سے تائب ہوکر’’لبرل اسلام‘‘ کی بارگاہ میں سجدہ سہو بھی ادا کردیا ــ؎
دیکھ کعبے میں شکست رشتۂ تسبیحِ شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ!
رہا یہ سوال کہ آیا اس تمام ہیر پھیر سے کچھ حاصل بھی ہوسکے گا یا نہیں؟ تو ظاہر ہے کہ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے وہ تو بہرحال اتنی بڑی بڑی قیمتیں کسی بڑی توقع ہی پر ادا کر رہی ہے‘ اور یقینا کوئی بڑی ہی امید ہے (۱) جس کی بنا پر اپنے پورے دین و مذہب کو ’’اک قصہ ماضی‘‘بنایا جا رہا ہے… لیکن ہمیں یقین ہے کہ قوم کے بارے میں یہ گمان کہ شاید یہ بھی ؏ ’’ہنس کے وہ بولی کہ پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو ‘‘ (۲) والا معاملہ کرلے گی‘نری خوش فہمی ہے.یہ دنیا بڑی ’’حقیقت پسند‘‘واقع ہوئی ہے اور ایسی سطحی باتوں سے یہاں کوئی دھوکا نہیں کھاتا‘ خصوصاً جو خود اپنے ’’ماضی‘‘ہی سے رشتہ توڑ لیں ان سے کون اپنا ’’حال‘‘وابستہ کرنا پسند کرتا ہے. ان کا انجام تو یہی ہوتا ہے کہ‘جیسا کہ کبھی ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا‘یہ بے لنگر کی کشتیوں کے مانند لہروں کے رحم و کرم پر ادھر اُدھر بھٹکتے رہیں اور ؎
ہم تو فانی جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
کی جیتی جاگتی تصویر… اور خلق خدا کے لیے عبرت کا سامان بن جائیں!
٭٭٭ (۱) اس فریب خوردگی پر بھی ’’اسلام پسند‘‘ حلقے کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت ہفت روزہ جریدے ’’زندگی‘‘ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں تحریر کیا ہے کہ : ’’…لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے انتخابی مہم کے دوران جماعت کے مختلف اکابرین نے جس طرح کے مبالغہ آمیز دعوے شروع کیے ہیں ان سے ہر صاحب نظرکو صدمہ پہنچا ہے . اس کے رہنماؤں کی طرف سے کبھی تو عوام کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ہماری حکومت قائم ہو جائے گی اور کبھی یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ فلاں علاقے پر ہم قبضہ کر لیں گے. ہمیں حیرت ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کی بنیادی حیثیت دینی ہو‘ اسق کے ذمہ دار ارکان اس قدر غیر ذمہ دارانہ اندازے لگا کر خود کو خوش فہمیوں میں مبتلا کر کے اورعوام کو اپنی کامیابیوں کی لوریاں سنا کر آخر کون سی شے حاصل کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں…‘‘
(۲) میرے اسلام کو اک قصہ مارضی سمجھو!
ہنس کے وہ بولی کہ ’’پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو!‘‘ (اکبرؔ)