پاکستان کی مذہبی سیاست کا نیا ہدف

’’برسر اقتدار طبقہ ‘‘کی بجائے ’’سوشلزم‘‘
اکتوبر ۱۹۷۰ء

پاکستان کے سیاسی حالات نے اواخر ۱۹۶۸ء سے جو پلٹا کھانا شروع کیا تھا اس کی تیزی اور تندی کو تو اگرچہ سابق صدر ایوب اور حالیہ صدر یحییٰ کی حکمت عملی نے بہت حد تک روک دیا‘تاہم وہ تبدیلی اندر ہی اندر دھیمی چال اور مدھم آواز کے ساتھ مسلسل جاری ہے اور اس کے اثرات صرف سیاسی میدان ہی تک محدود نہیں بلکہ ہماری اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ اس سے تدریجاً متاثر ہورہا ہے‘حتیٰ کہ صرف دو پونے دو سال میں حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ پہلی بہت سی باتیں بالکل بھولی بسری یادیں معلوم ہوتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان دو سالوں میں ہم کم ازکم بیس سال کی مسافت قطع کر آئے ہیں.

دوسرے پہلوؤں سے قطع نظر‘ صرف ’’مذہبی سیاست‘‘کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اواخر ۱۹۶۸ء سے ماقبل اور مابعد کے حالات میں زمین آسمان کا فرق واقع ہوچکا ہے اور اس کے مقدمات و مبادی اور صغریٰ کبریٰ سمیت ساری منطق تبدیل ہوگئی ہے.

پاکستان کے پہلے اکیس سالوں کے دوران میں ہماری مذہبی سیاست میں کامل اتحاد اور اتفاق کا سماں بندھا رہا اور مولانا مودودی ‘مولانا تھانوی یہاں تک کہ مفتی محمود اور مولانا ہزاروی (غور فرمائیے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کس قدر عجیب نظر آتا ہے کہ کبھی کسی مرحلے پر مولانا مودودی اور مولانا ہزاروی بھی ایک ہی کشتی میں سوار رہے ہیں اور دونوں کی حکمت عملی ایک ہی رہی ہے!) ایک ہی راگ الاپتے اور ایک ہی منطق کے چپوؤں سے مذہبی سیاست کی ناؤ کھیتے رہے. 
اس منطق کا صغریٰ کبریٰ یہ تھا کہ:(i)پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے ‘ (ii) پاکستان کے عوام کی ایک عظیم اکثریت(نو سو ننانوے فی ہزار کی حد تک)اسلام ہی کی فدائی اور شیدائی ہے اور اسلامی قانون و دستور ہی کا نفاذ چاہتی ہے‘ (iii)صرف ایک ’’برسر اقتدار طبقہ‘‘ ہے جو قوم کے اس ارادے کی راہ میں مزاحم ہے اور ملک کو دستوری اعتبار سے لادینیت اور تہذیبی و اخلاقی اعتبار سے بے حیائی اور اباحیت پرستی کی راہ پر چلانا چاہتا ہے‘ (iv)لہٰذا ساری اجتماعی جدوجہد کا رخ ان ’’اربابِ اقتدار‘‘ اور اس ’’برسر اقتدار طبقے‘‘ کے خلاف ہونا چاہیے. نہ تو قوم کو ان سے بد ظن کرنے کی کوشش میں کوئی کمی رہنے دینی چاہیے اور نہ ہی ان کے خلاف بے چینی اور بے اطمینانی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے چوکنا چاہیے. 

چنانچہ ان پورے اکیس سالوں کے دوران ہماری تمام مذہبی قوتیں‘چاہے وہ جماعتیں تھیں یا جمعیتیں‘ایک ہی ہدف پر حملے کرتی رہیں اور تحریر و تقریر کا سارا گولہ بارود ایک ہی نشانے پر صرف ہوتا رہا.یہ دوسری بات تھی کہ قلعہ تھا خالص ہوائی‘ اس لیے کہ نہ تو کبھی ’’اربابِ اقتدار‘‘اور ’’برسر اقتدار طبقہ‘‘ کی واضح تعریف کی جا سکی اور نہ ہی اس کا حدود اربعہ متعین کیا جا سکا.

عوام کے بارے میں چونکہ متذکرہ بالا صغریٰ کبریٰ کی رو سے یہ بات طے شدہ تھی کہ وہ تو اسلام کے فدائی اور شیدائی ہیں ہی لہٰذا ان کے ذہن و فکر کی تطہیر اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کا سوال منطقی طور پر خارج از بحث رہا‘ اور رفتہ رفتہ صورت یہ ہوگئی کہ ان کی طرف سے خطاب کا رخ بالکل پھر گیا. گویا ان سے تو کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں‘کہنا تو جو بھی کچھ تھا وہ ان کے انگوٹھوں‘دستخطوں اور قراردادوں کے بل پر ’’ارباب اقتدار‘‘سے تھا!

اس سیاست کا عظیم ترین شاہکار ۱۹۵۳ء کی اینٹی قادیانی موومنٹ تھی جو شروع تو اگرچہ مجلس احرار اسلام اور جمعیت علمائے ہند کے باقیات الصالحات نے کی تھی لیکن جس میں بعد میں اضطراراًجماعت اسلامی کو بھی اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت شریک ہونا پڑا. اس موومنٹ کا نقد نتیجہ 
(net result) یہ نکلا کہ ’’ارباب اقتدار‘‘کے طبقے سے نسبتاً مخلص اور دین دارعناصر کو دیس نکالا مل گیا اور ملکی سیاست کی باگ ڈور زیادہ شاطر اور عیار لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی‘ اور پھر وہ افراتفری مچی جس کے نتیجے میں بالآخر فوجی حکومت قائم ہوکر رہی. 
دورِ ایوبی کے اواخر میں مذہبی سیاست نے پھر طاقت پکڑنی شروع کی اور اس بار اس نے دو 
کامیاب چھاپے مارے. ایک اوائل۱۹۶۷ء میں عید الفطر کے موقع پر اور دوسرے اواخر ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر فضل الرحمان کے خلاف ایجی ٹیشن برپا کرکے. ان دونوں مواقع پر بھی ملک کے تمام مذہبی عناصر بالکل متحد تھے اور بالکل ایسا سماں بندھ گیا تھا کہ ایک طرف حکومت اور برسر اقتدار طبقہ ہے جبکہ دوسری طرف تمام علماء اور ’’رجالِ دین.‘‘ گویا یہ پاکستان کی مذہبی سیاست کی متذکرہ بالا منطق کا نقطۂ عروج تھا.

لیکن افسوس کہ مذہبی سیاست کے اس عروج کو ع ’’ خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود‘‘ کے مصداق نہایت مختصر عمر ملی اور اواخر ۱۹۶۸ء سے ملکی سیاست ایک بالکل ہی نیا موڑ مڑگئی. 

اس نئے موڑ کے یوں تو متعدد پہلو ہیں لیکن مذہبی سیاست جس پہلو سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ یہ ہے کہ چونکہ ایک طرف سیاسی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور دوسری طرف موجودہ فوجی حکومت نے کسی مستقل حکومت کی شکل اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی اور کم از کم تاحال اس نے ایک خالص عبوری اور 
care taker قسم کی حکومت کی صورت اختیار کر رکھی ہے‘لہٰذا ’’ارباب اقتدار‘‘ اور ’’برسرا قتدار طبقہ‘‘ ایسی اصطلاحات بے معنی ہوکر رہ گئیں اور اس طرح گویا وہ ’’ہوائی قلعہ ‘‘فضا میں تحلیل ہوکر نگاہوں سے اوجھل ہوگیا جس پر تمام مذہبی جماعتیں متحد اور متفق ہوکر حملے کیا کرتی تھیں.

نتیجتاًایک جانب وہ اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا جس کی بنیاد حب ِعلی ؓ کی مثبت اساس کے بجائے بغض معاویہ ؓ کی منفی بنیاد پر قائم تھی. چنانچہ دو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور مذہبی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئیں. دوسری طرف تصادم کا میدان بدل گیا‘ اور مقابلہ ’’رجالِ دین‘‘ اور ’’ارباب اقتدار‘‘کے مابین نہ رہا بلکہ اس نے عوامی سطح پر مختلف جماعتوں اور گروہوں کے مابین تصادم کی صورت اختیار کرلی‘جس میں اصل جتھہ بندی دائیں اور بائیں بازو کے رجحانات کے تحت ہو رہی ہے اور اصل وزن انہی دو پلڑوں میں ہے جبکہ مذہبی جماعتیں پاسنگ کی حیثیت سے ان دونوں اطراف میں بلا واسطہ یا بالواسطہ وزن ڈالنے پر مجبور ہورہی ہیں! 
خالص نظریاتی اعتبار سے تو پاکستانی سیاست کے موجودہ عبوری دور کو جلد ہی ختم ہوجانا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ آئندہ سال کے وسط تک انتخابات اور دستور سازی وغیرہ کے تمام مراحل طے ہوکر عوام کی نمائندہ حکومت کو قائم ہوجانا چاہیے لیکن عملاً جو کچھ نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا مراحل میں سے ہر مرحلہ نہایت کٹھن ہے اور دستور سازی کی گھاٹی تو تقریباً ناقابل عبور ہی ہے. بنا بریں موجودہ عبوری دور مستقل نہیں تو کم از کم ’’عارضی مستقل‘‘ ضرور ہے اور چاہے کسی کو پسند ہو یا ناپسند ‘جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاصی طویل مدت تک پاکستان میں عوامی کش مکش ہی کا سلسلہ چلتا رہے گا اور ’’چار و ناچار‘‘فوج ہی کو پاکستان کی سول ایڈ منسٹریشن کی نگرانی بھی کرنی ہوگی. گویا ’’برسر اقتدار طبقہ‘‘ کا تصور اب ایک طویل عرصے تک مفقود رہے گا اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد و اتفاق کی یہ منفی اساس دوبارہ وجود میں نہ آ سکے گی!

تاہم کارکنوں کے لہو کو گرم رکھنا ایک ناگزیر جماعتی ضرورت ہے اور اس کے لیے ایک ایسا ہدف بھی لازم ہے جس پر کارکن مسلسل جھپٹ کر پلٹتے اور پلٹ کر جھپٹتے رہیں. چنانچہ اب کی بار ایک جمعیت علمائے اسلام کو چھوڑ کر بقیہ تمام مذہبی جماعتوں نے اپنی مسلسل چاند ماری کے لیے ’’سوشلزم‘‘ کا ہدف منتخب کیا ہے اور تمام مذہبی جماعتوں کے شعلہ بیان مقررین اپنا پورا زورِ خطابت اسی ایک محاذ پر صرف کر رہے ہیں اور اگرچہ مختلف مذہبی جماعتوں کی مختلف سیاسی جماعتوں سے علانیہ یا در پردہ ساز باز کی بنا پر یہ آپس میں ہرگز متحد نہیں بلکہ اندر ہی اندر ایک دوسرے کی کاٹ میں مصروف ہیں‘تاہم کم از کم ظاہری اعتبار سے ان سب کا مشترک ہدف ’’سوشلزم‘‘ہے. 

یہ دوسری بات ہے کہ ’’برسر اقتدار طبقہ‘‘ کی طرح یہ تازہ ہدف بھی ہے خالص ہوائی‘ اس لیے کہ ذرا تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک میں سوشلزم کے علمبردار ہیں کون لوگ! جماعت اسلامی اور پی ڈی پی تو ہوئیں اصلی اور ٹھیٹھ اسلام پسند‘تینوں لیگیں بھی اور چاہے جو کچھ بھی ہوں سوشلسٹ بہرحال نہیں‘رہے مسٹر بھٹو تو خود وہ اگرچہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا راگ الاپتے ہیں لیکن ان کے تمام سیاسی مخالفین سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیتے ہیں کہ وہ سوشلسٹ ہرگز نہیں ہیں بلکہ یا تو سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں یا صرف ایک فاشسٹ نیشنلسٹ 
لے دے کے دو نیپیں(NAPS) رہ جاتی ہیں‘جنہیں سوشلسٹ کہا جاسکتا ہے. تو اول تو ان کا حلقہ اثر ہے ہی کتنا کہ اس قدر شور و ہنگامہ اٹھانے کی ضرورت پڑگئی‘پھر ان میں سے بھی ولی خاں گروپ بنیادی طور پر نیشنلسٹ ہے نہ کہ سوشلسٹ.

ہاں ایک حقیقت ایسی ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں اور وہ یہ کہ اس ملک کے پڑھے لکھے طبقے‘ اور خاص طور پر ان میں سے بھی ذہین تر عنصر میں سوشلسٹ خیالات قابل لحاظ حد تک موجود ہیں اور نوجوان نسل کا خاصا قابل لحاظ حصہ ذہنی اور فکری طور پر اس رو میں بہہ گیا ہے. ان دونوں طبقات میں ایک اچھی بھلی تعداد ایسے مخلص انقلابی کارکنوں کی بھی موجود ہے جو اپنے پیش نظر انقلاب کے لیے کبھی ایک اور کبھی دوسرے سیاسی گروہ میں شامل ہوکر کام کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اس سے انکار نہیں کہ اگرچہ تعداد کے اعتبار سے یہ لوگ اس ملک میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تاہم اپنے جوش اور جذبہ کار اور مخصوص انقلابی تکنیک کے اعتبار سے یقینا قابل لحاظ ہیں. 
لیکن اس سلسلے میں بھی دو باتیں سوچنے کی ہیں.

ایک یہ کہ یہ لوگ آخر آئے کہاں سے ہیں؟ظاہر ہے کہ نہ روس سے در آمد ہوئے ہیں نہ چین سے بلکہ اسی سرزمین کی پیداوار اور اسی قوم کے افراد ہیں‘ اور خاص طور پر ان کی اصل قوت یعنی نوجوان نسل تو ہے بھی قیام پاکستان کے بعد معرض وجود میں آنے والی.تو پھر ان میں اس ذہنی بے راہ روی کے پیدا ہونے کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا یہ ذمہ داری سب سے بڑھ کر ان لوگوں پر عائد نہیں ہوتی جو بزعم خویش اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی علمبرداری فرماتے رہے لیکن جنہوں نے تمام زور ’’برسر اقتدار طبقہ‘‘ پر تنقید کرنے میں ضائع کردیا اور قوتوں‘صلاحیتوں اور اوقات کا سارا سرمایہ صرف سیاسی جدوجہد کے نذر کردیا اور تعلیم و تربیت کے کام سے یکسر نگاہیں پھیر لیں؟ چنانچہ نہ قوم کی ذہنی و فکری رہنمائی ہوسکی نہ اخلاقی و عملی تربیت‘اور صورت یہ ہوگئی کہ نوجوان نسل میں سے جو جتنا زیادہ ذہین تھا اتنا ہی زیادہ تیزی سے الحاد و مادہ پرستی کی جانب جھکتا چلا گیا. پھر اگر آج یہ نسل خالص مادہ پرستی کی عینک سے معاملات کو دیکھتی ہے تو آخر قصور کس کا ہے؟ دوسرے مذہبی طبقات کو تو چھوڑیے کہ سب ہی کا خیال ہے کہ ان میں جدید نسل کی ذہنی رہنمائی کی صلاحیت موجود نہیں‘سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے پاکستان کے 
۲۳ سالوں کے د وران کیا کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی تحریک کو اتنی طویل مہلت کار کا مل جانا بڑی ہی غیر معمولی خوش قسمتی شمار کی جا سکتی ہے‘ اور تاریخ اس جماعت کا یقینا شدید محاسبہ کرے گی جسے اتنی مہلت ملی لیکن اس نے اپنے آپ کو دور از کار معاملات میں الجھائے رکھا. سیاسی مہمیں تو چلائیں لیکن نہ ذہن و فکر کی دنیا میں انقلاب برپا کیا اور نہ اخلاق و کردار کی وادیوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی. چنانچہ اب اپنی ہی ’’غفلتوں کے شاخسانوں‘‘سے دو چار ہے!

دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کی سیاسی ہنگامہ آرائی اور نعرہ بازی سے جیسی کہ آج کل مذہبی طبقات کی طرف سے ’’سوشلزم ‘‘کے مقابلے میں کی جا رہی ہے‘ کوئی مفید نتیجہ نکلنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس لیے کہ یہ تو شاید ممکن ہو کہ اس طرح ان سیاسی جماعتوں کی پیش قدمی کو آپ کچھ دیر کے لیے روک دیں جو اپنی حصول اقتدار کی جنگ میں پیٹ کے نعرے کو اچھال رہی ہیں لیکن اس کی ہرگز کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ اس طریقے پر کسی ایک ذہن کو بھی بدلا جا سکے اور کسی ایک شخص کے فکر کے رخ کو بھی تبدیل کیا جا سکے. گویا یہ سارا ’’جہاد‘‘ان لوگوں کے خلاف تو شاید کسی حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوسکے جنہیں 
Pseudo Socialist کہاجاتا ہے‘لیکن جو لوگ حقیقتاً سوشلسٹ ہیں اور جن کی زندگی کا مقصد ہی سوشلسٹ اور کمیونسٹ انقلاب برپا کرنا ہے اور جو واقعتا موجودہ انقلابی رو کی ذہنی و فکری رہنمائی کر رہے ہیں ان کے خلاف یہ ساری مہم قطعاً لاحاصل اور بے کارِ محض ہے. بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرز کی نعرہ بازی سے ایسے لوگ اپنے موقف پر مزید جازم اور اپنے نقطہ نظر میں مزید پختہ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور دین و مذہب کا رہا سہا اخلاقی وقار بھی خاک میں ملتا چلا جا رہا ہے. 

ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہماری اس بار بار کی مرثیہ خوانی کا حاصل کچھ بھی نہیں‘اس لیے کہ ملکی سیاست کے میدان میں برسرکار مذہبی جماعتوں کے لیے اب طریق کار کی تبدیلی قطعاً ناممکن ہے. ان کی ایک بڑی تعداد تو جو کچھ کر رہی ہے ‘اس کے سوا اور کچھ کر ہی نہیں سکتی. جن سے توقع ہوسکتی تھی وہ خود ہی اپنی غلط منطق کے صغریٰ کبریٰ کے جال میں اس درجہ پھنس چکے ہیں کہ اب اس سے ان کا رہائی پانا ممکن نہیں رہا. بنا بریں اکثر گمان ہوتا ہے کہ ہماری ساری قیل و قال بے کار اور سعی لاحاصل ہے. 

لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کیا واقعی اتنے بڑے ملک اور اتنی عظیم قوم میں چند لوگ بھی ایسے 
نہیں جو وقتی طور پر سیاست کے اتار چڑھاؤ سے صرف نظر کرکے دین و مذہب کی بنیادی اقدار کے احیاء کے لیے بالکل بنیادی اور اساسی کام میں منہمک ہوسکیں … تو دل گواہی دیتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا. غالباً ساری کمی ہمارے اپنے جذبِ دروں کی‘اور اصل کوتاہی ہمارے بیانِ مطلب اور ادائے مدعا کی ہے اور اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ بارگاہِ ایزدی ہی میں درخواست کی جائے کہ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ ﴿ۙ۲۵﴾وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ ﴿ۙ۲۶﴾وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ ﴿ۙ۲۷﴾یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ ﴿۪۲۸﴾ !

ہمارے اسی باطنی اضطراب کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بار بار خیال آتا ہے کہ ’’میثاق‘‘ کو بند کردیا جائے تاکہ سیاسی میدان سے بالکل لا تعلق ہونے کے باوجود محض اس کے صفحات میں جو سیاسی تبصرے کبھی کبھی آجاتے ہیں ان کا سلسلہ بھی بند ہوجائے اور ہم اپنی صلاحیتوں کی حقیر سی پونجی کو کامل یکسوئی کے ساتھ صرف علومِ قرآنی کی نشر و اشاعت اور تعلیم و تعلم قرآن میں کھپا دیں. تاہم ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا ؎

دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!