دسمبر۱۹۷۱ء

ان سطور کی تحریر کے وقت مشرقی پاکستان پر بھارت کا باقاعدہ حملہ شروع ہوئے بیس روز ہوچکے ہیں اور مغربی پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ شروع ہوئے بھی آٹھ دن ہوچکے ہیں. اس وقت دونوں محاذوں پر میدانی جنگ بھی نہایت گھمسان کی ہورہی ہے اور دونوں ملکوں کی بحری و فضائی قوتوں میں بھی خوف ناک ٹکراؤ جاری ہے. ادھر اقوامِ متحدہ میں بھی گفت و شنید کا سلسلہ چل رہا ہے اور دنیا بھر کے تمام اہم دارالسلطنتوں کی توجہات بھی برصغیر پر مرتکز ہیں.

کل کیا ہوگا وہ 
وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ (۱کے مصداق کسی کو معلوم نہیں اور اس جنگ کا مجموعی نتیجہ کیا نکلے گا وہ بھی وَّ اَنَّا لَا نَدۡرِیۡۤ اَشَرٌّ اُرِیۡدَ بِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِہِمۡ رَبُّہُمۡ رَشَدًا ﴿ۙ۱۰﴾ (۲کے مصداق کسی کے علم میں نہیں! حتیٰ کہ یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ جنگ کے خاتمے سے قبل یہ سطور بھی طبع ہوکر قارئین تک پہنچ پاتی ہیں یا نہیں!

تاہم ایک بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کے وجود اور بقا کے لیے یہ جنگ فیصلہ کن ہے اور ہر پاکستانی مسلمان کے لیے یہ وقت جان کی بازی کھیل جانے کا ہے‘اور ساتھ ہی چونکہ پاکستان کا قیام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی فضل ہی تھا اور اس کا اب تک قائم رہنا بھی اسی کے رحم و کرم کا نتیجہ ہے لہٰذا ہر پاکستانی کو بارگاہ خداوندی میں صدقِ دل سے دعا بھی کرنی چاہیے. 

لیکن واضح رہنا چاہیے کہ دعا بس کچھ رٹے ہوئے الفاظ کے زبانوں سے ادا کر دینے کا نام نہیں 
(۱) ’’اور نہیں جانتا کوئی ذی نفس کہ وہ کل کو کیا کمائے گا.‘‘ (سورۂ لقمان:آیت۳۴)

(۲) ’’اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کی شامت آ گئی ہے یا ان کا رب ان پر کرم فرمائی کا ارادہ رکھتا ہے. ‘‘ (سورۃالجن: آیت۱۰
ہے بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر وہ شخص جو خدا کی رحمت کو پکارنا اور اس کی تائید و نصرت کو آواز دینا چاہے‘پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ خود اس نے اپنے پروردگار سے کوئی وفادارانہ رشتہ بھی استوار کیا یا نہیں؟ خود اس نے اس کے دین کے ساتھ خلوص و اخلاص کا معاملہ کیا یا نہیں؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا تو واضح فرمان یہ ہے کہ اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَکُمۡ ﴿۷﴾ (۳

واقعہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان ایسی نعمت غیر مترقبہ اور دولت خداداد کی نہ کوئی قدر کی اور نہ ہی اس کا کوئی حق ادا کیا اور ہم بحیثیت قوم عدالت خداوندی میں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور اب بھی کوئی آثار ایسے موجود نہیں کہ یہ امید کی جا سکے کہ ہماری اجتماعی زندگی کا دھارا دین کی طرف مڑسکے گا. 

ان حالات میں ظاہر ہے کہ کوئی بھی فرد اس پوزیشن میں نہیں کہ پوری قوم کی جانب سے بارگاہِ خداوندی میں 
اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ (۴کا توبہ نامہ پیش کرکے ؕ اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ۚ (۵کی استفہامی درخواست اور دعا پیش کرسکے‘ہاں ایک بات ممکن ہے اور وہ یہ کہ: 

ہر وہ شخص جو واقعتا صدقِ دل سے خدا کی رحمت کو پکارنا اور اس کی تائید و نصرت کو آواز دینا چاہتا ہو‘ پہلے بارگاہِ خداوندی میں اپنے تمام گناہوں پر صدق دل سے اظہارِ ندامت بھی کرے اور عزمِ توبہ بھی!اور پھر یہ عہد کرے کہ کم از کم اس کی اپنی زندگی اور اس کے بیشتر اوقات اس کے دین کی نصرت کے لیے وقف رہیں گے اور اس کی قوتوں‘صلاحیتوں اور توانائیوں کا بہتر اور اکثر حصہ اللہ کی ہدایت (۳) ’’اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جما دے گا.‘‘ (سورۂ محمدؐ : آیت۷)

(۴) ’’ہم تیری ہی جانب رجوع کرتے ہیں!‘‘ (سورۃ الاعراف: آیت۱۵۶)
(۵) ’’کیا توہمیں ہمارے ناسمجھ لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ہلاک فرما دے گا.‘‘ (سورۃ الاعراف:آیت۱۵۵
کی نشر و اشاعت اور اس کے دین کے غلبے کے مقصد میں صرف ہو گا اور وہ پاکستان میں ایک صحیح معنی میں اسلامی معاشرہ اور حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست کے قیام کو اپنی زندگی کا اصل نصب العین بنائے رکھے گا. 

تب اگر وہ اللہ تعالیٰ سے پاکستان کی سلامتی کی دعا کرے گا تو وہ یقینا مقبول ہوگی. راقم خود اسی عزم اور ارادے کے ساتھ بارگاہِ خداوندی میں پاکستان کی فتح کی درخواست پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی جاننا چاہتا ہے کہ کون ہیں وہ لوگ جو اس عزم اور ارادے میں اس کے ساتھ ہیں.

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ. اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ. آمین یا رب العالمین.