’’کل کیا ہوگا وہ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ کے مصداق کسی کو معلوم نہیں اور اس جنگ کا مجموعی نتیجہ کیا نکلے گا وہ بھی وَّ اَنَّا لَا نَدۡرِیۡۤ اَشَرٌّ اُرِیۡدَ بِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِہِمۡ رَبُّہُمۡ رَشَدًا ﴿ۙ۱۰﴾ کے مصداق کسی کے علم میں نہیں!
اگرچہ ہم ان لوگوں میں سے تونہیں تھے جو ’’فتح لازماً ہماری ہوگی!‘‘ اور ’’ہم عید کی نماز دہلی اور کلکتہ میں پڑھیں گے!‘‘کی قسم کی بڑیں ہانکتے تھے‘تاہم اس اقرار میں ہمیں کوئی باک محسوس نہیں ہوتا کہ ایسی ذلّت آمیز شکست کا ہمیں تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا. چنانچہ مشرقی پاکستان کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کے سبب سے یہ خدشہ تو ہمیں کبھی کبھی ہوتا تھا کہ کہیں مشرقی پاکستان ہماری فوج کا قبرستان نہ بن جائے (چنانچہ مخدومی پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب نے یاد دلایا کہ بالکل انہی الفاظ میں ایک بار راقم نے اس خدشے کا اظہار ان کے سامنے کیا تھا) لیکن یہ کبھی تصور میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ مشرقی پاکستان عالم ارضی کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کی عزت و ناموس کی شمشان بھومی کی صورت اختیار کرلے گا اور ایک ایسی فوج کے ایک لاکھ کے لگ بھگ جوان اور افسر انتہائی ذلت کے ساتھ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے جس کی شجاعت کا ڈنکا صرف عالمِ اسلام ہی میں نہیں پوری دنیا میں بجتا ہے اور جس کی بہادری کے اپنے ہی نہیں دشمن بھی معترف ہیں. (بعد میں معلوم ہوا کہ مشرقی پاکستان سے گرفتار کرکے بھارت لے جائے جانے والے لوگوں میں ریگولر فوجی تینتالیس ہزارتھے‘باقی سویلین لوگ تھے!) بنی اسرائیل کی تاریخ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ انہیں دشمنوں کے ہاتھوں عبرت ناک شکستیں اٹھانی پڑیں. تاریخ کے اوراق میں ایسے کئی مواقع کی داستانیں تفصیل کے ساتھ محفوظ ہیں. چنانچہ جب کبھی پڑھنے میں آتا کہ اس طرح کے مواقع پر کئی کئی لاکھ کی تعداد میں یہودی مرد ‘عورتیں اور بچے اسیر بنا لیے جاتے تھے تو حیرت ہوتی تھی کہ کیا واقعی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک قوم ابھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہو لیکن اسیری کی ذلت کو قبول کرلے‘ اور جیسا کہ نبوکد نصر کے حملے کے بعد ہوا‘بالکل بھیڑ بکریوں اور ڈھور ڈنگروں کی طرح لاکھوں کی تعداد میں ہنکا کر ایک ملک سے دوسرے کو لے جائی جائے! افسوس کہ ملت اسلامیہ پاکستان نے اپنی آنکھوں سے جیتے جی یہ منظر دیکھ لیا کہ اس کے ایک لاکھ کے لگ بھگ کڑیل افراد نے نہ صرف یہ کہ انتہائی ذلت آمیز طریقے پر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ انہیں اس حال میں ’’بنگلہ دیش‘‘ سے بھارت منتقل کیا گیا کہ ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے. اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.
اس حادثہ فاجعہ پر جو کرب والم نہ صرف مسلمانانِ پاکستان بلکہ مسلمانان عالم نے محسوس کیا ہے ‘حقیقت یہ ہے کہ وہ بیان سے باہر ہے. کتنے ہی لوگوں کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ کاش کہ ہماری فوج ایک ایک کرکے کٹ مرتی لیکن ہتھیار نہ ڈالتی. ہر شخص اپنے دل میں رنج و غم کا ایک بند طوفان لیے پھرتا ہے اور پوری قوم کے احساسات میں تلخی کا زہر گھل کر رہ گیا ہے.
کاش کہ اس موقع پر قوم کو کوئی ’’زبان‘‘ میسر ہوتی جو اس کے احساسات کی ترجمانی کرکے اس کے دل کے بوجھ کو کسی قدر ہلکا کردیتی. قومی اور ملی سطح پر ہماری تہی دامنی کا عالم یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس ایسی کوئی ’’زبان‘‘ بھی موجود نہیں. بغداد کی تباہی پر جو نوحے شیخ سعدی نے کہے تھے ان سے اس وقت نہ معلوم کتنے لوگوں کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا ہوگا. ان کا یہ شعر جو زبان زدِ خاص و عام ہے ‘ان کے اپنے احساسات کی شدت کا کس درجہ غماز ہے کہ ؎
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں
برزوال ملک مستعصم امیر المومنیں
پھر جب دولت ِہسپانیہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھنی تو بقول علامہ اقبال ؎
آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی
ابن بدروں کے دلِ ناشاد نے فریاد کی
پھر جب دہلی پر قیامت ٹوٹی تو علامہ اقبال ہی کے الفاظ میں ’’داغ رویا خون کے آنسوجہاں آباد پر!‘‘یہاں تک کہ اسی صدی میں شمالی افریقہ پر یورپی استعمار کے مظالم پر علامہ شبلی نے دردناک مرثیے کہے اورخود علامہ اقبال نے جزیرہ صقلیہ (سسلی)پر بایں الفاظ نوحہ کہا کہ ؎
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
لیکن افسوس کہ آج حال یہ ہے کہ روئے ارض کی عظیم ترین مسلمان مملکت پر قیامت گزر گئی‘پھر بھی کوئی ایسا نالہ کسی جانب سے سننے میں نہیں آیا جو قوم کی آواز قرار پاتا اور جسے سن کر قوم محسوس کرتی کہ کم از کم اس کے جذبات کا اظہار تو ہوگیا. ان حالات میں بے ساختہ نوکِ قلم پر حضور ﷺکے وہ الفاظِ مبارک آتے ہیں جو آپؐ کی زبان مبارک سے غزوئہ اُحد کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لانے پر جوش گریہ سے نکلے تھے کہ ’’اَمَّا حَمْزَۃُ فَلَا بَوَاکِیَ لَہٗ!‘‘ ’’ ہائے!حمزہ کے لیے رونے والیاں بھی نہیں!‘‘بالکل اسی طرح حقیقت یہ ہے کہ آج سقوطِ مشرقی پاکستان کا رونے والا بھی کوئی موجود نہیں.
یہ رونا رلاناواقعہ یہ ہے کہ محض رسمی نہیں ہوتا بلکہ اس سے حقیقتاً قوم کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور ذہن کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے. ورنہ بسا اوقات اس طرح کے صدمے اندر کی اس بند چوٹ کے مانند جو کسی مریض کو اندر ہی اندر ختم کردیتی ہے ‘کسی قوم کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ سقوط ِمشرقی پاکستان پر قوم کے جذبات کا اظہار نہ ہوسکنے کے باعث اندر ہی اندر کا صدمہ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے جذ بہ خود اعتمادی کو گھن کی طرح چٹ کر رہا ہے اور عوام کی اکثریت نہ صرف یہ کہ اس طرح کے خیالات میں غلطاں و پیچاں ہے کہ آیا ہماری کوئی حقیقی بنیاد ہے بھی کہ نہیں‘ اور آئندہ بقیہ ملک بھی قائم رہ سکے گا یا نہیں‘ بلکہ لوگ یہاں تک سوچنے لگے ہیں کہ کیا واقعی پاکستان کا قیام درست اور صحیح تھا! کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کا قیام ہی ایک غلطی ہو اور اب تاریخ کے بے رحم ہاتھ اس غلطی کی جبری اصلاح کے درپے ہوچکے ہوں؟
یہ صورت حال بہت مشابہ ہے اس کیفیت سے جو زلزلے کے کسی جھٹکے کے بعد اعصاب پر طاری ہوتی ہے ‘یعنی یہ کہ انسان ہل کر رہ جاتا ہے اور اسے نہ اپنے نیچے زمین ہی محسوس ہوتی ہے نہ سر پر آسمان بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ فضا میں معلق ہو. پھر یہ حالت زلزلے کے جھٹکے کے بعد فوراً ختم نہیں ہوجاتی بلکہ دیر تک طاری رہتی ہے‘اور انسان بہت دیر تک غیر یقینی کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے.
اس صورت حال میں اس چیز کی شدید ضرورت ہے کہ رنج و الم اور درد و کرب کے احساسات کو زبانِ اظہار عطا کرنے کے ساتھ ساتھ سنجیدگی سے تجزیہ بھی کیا جائے کہ جو کچھ پیش آیا اس کے اسباب کیا تھے. حقیقی غلطی کہاں تھی اور کتنی تھی‘بلکہ یہ بھی کہ یہ واقعہ جو پیش آیا ہے وہ حقیقت میں ہے کیا؟ اس سے ہماری کمزوریاں اور خامیاں ظاہر ہوئی ہیں تو کون سی؟ تاکہ قوم پر بحیثیت مجموعی نا امیدی اور مایوسی کی جو کیفیت طاری ہوگئی ہے وہ ختم ہو اور بے اعتمادی اور غیر یقینی کے بادل جو ملک و ملت کی فضا پر چھا گئے ہیں وہ چھٹ جائیں.
ہمارے نزدیک ’’سقوطِ مشرقی پاکستان‘‘ایک حادثہ نہیں بلکہ دو واقعات کا مجموعہ ہے‘ اور کسی حقیقی تجزئیے کے لیے لازمی ہے کہ ان دونوں پر آغاز ہی سے علیحدہ علیحدہ غور کیا جائے.ان میں سے ایک ہے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی اور وہاں ایک نئی خود مختار مملکت کا بنگلہ دیش کے نام سے قیام‘ اور دوسرا ہے پاک ہند جنگ میں پاکستان کی ذلت آمیز شکست اور عبرت ناک ہزیمت. ان دونوں حوادث کے جمع ہوجانے اور بیک وقت وقوع پذیر ہونے کو چاہے روایتی طور پر اپنی بدقسمتی پر محمول کرلیاجائے‘ چاہے چند افراد کی نا اہلی اور بے تدبیری یا غداری پر‘چاہے پوری قوم کی سیاسی بے شعوری اور اجتماعی نابالغی پر‘بہرحال یہ حقیقت ہے کہ یہ ہیں دو بالکل جدا حادثات اور انہیں گڈ مڈ کرنا کسی طور پر درست نہیں‘اس لیے کہ اس حادثے کی اصل تلخی دوسرے جزو سے متعلق ہے نہ کہ پہلے سے!
جہاں تک مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کا تعلق ہے‘اس سے پہلے کہ ہم اس واقعے پر اپنا حالیہ ’’تبصرہ‘‘ پیش کریں ‘مناسب ہے کہ آج سے دو ڈھائی سال قبل جولائی ۱۹۶۹ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ ‘‘میں ہم نے اس مسئلے کے بارے میں جو کچھ لکھا تھا اسے دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کردیں. اس ’’تذکرہ و تبصرہ ‘‘کا آغاز ہم نے بانی پاکستان محمد علی جناح مرحوم کے اس مشہور فقرے سے کیا تھا کہ:
God has given us a golden opportunity to show our worth as architects of a new nation (or state?) and let it not be said that we did not prove equal to the task!
اور اس کے بعد عرض کیا تھا کہ :’’افسوس کہ آج جبکہ پاکستان کو قائم ہوئے بائیس سال ہونے کو آئے اور خود محمد علی جناح مرحوم کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا‘ مملکت خداداد پاکستان بزبانِ حال نوحہ خواں ہے کہ اس کے بانی و مؤسس کا خدشہ صحیح ثابت ہوا اور اس نئی مملکت کو وہ معمار میسر نہ آ سکے جو ایک انگریز شاعر کے قول کے مطابق ’’اس کے ستونوں کو نہایت گہری اور پختہ بنیادوں سے اٹھاتے اور پھر تعمیر کرتے ہوئے اوجِ ثریا تک پہنچا دیتے!‘‘
پھر اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے اسباب میں سے ’’تین تاریخی عوامل‘‘ پر گفتگو کی تھی اور تین ایسی ’’پیچیدگیوں‘‘ کا ذکر کیا تھا جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہوگئی تھیں اور گویا پاکستان کی تعمیر ہی میں مضمر ہیں اور جن کا الجھاؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے. پھر ان میں سے ایک کے بارے میں عرض کیا تھا کہ:
’’ان میں سب سے نمایاں اور اہم ترین پیچیدگی خالص جغرافیائی ہے یعنی یہ کہ مملکت ِخداداد پاکستان دو ایسے علیحدہ اور دُور دراز خطوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل سے زیادہ فاصلے پر واقع ہوئے ہیں اور جن کے مابین ایک ایسی مملکت حائل ہے جو حالت جنگ ہی میں نہیں عین حالت امن میں بھی ایک بالقوہ دشمن (potential enemy) کی حیثیت رکھتی ہے .واقعہ یہ ہے کہ یوں تو اگرچہ پاکستان کا وجود ہر اعتبار سے ایک معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن خاص اس اعتبار ہی سے تو یہ تاریخ عالم کا ایک نہایت ہی انوکھا اور محیرالعقول تجربہ ہے جس کی شاید ہی کوئی دوسری نظیر کبھی موجود رہی ہو.
یہ جغرافیائی پیچیدگی بجائے خود بھی کچھ کم اہم اور الجھی ہوئی نہ تھی‘لیکن دو مزید عوامل نے اس کے الجھاؤ کو دوگونہ کردیا ہے . ایک اس حقیقت نے کہ تہذیب‘ تمدن‘ زبان‘لباس‘ طرزِ بودوباش اور جذباتی و ذہنی ساخت غرض ایک مذہب کے سوا ہر اعتبار سے ان دو خطوں کے رہنے والے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اگر دین و مذہب کے سوال کو خارج از بحث کردیا جائے تو دنیا کے مروجہ معیارات میں سے کسی معیار کے اعتبار سے بھی انہیں ایک قوم قرار نہیں دیا جا سکتا. دوسرے اس واقعے نے کہ ان دو خطوں میں سے جو خطہ رقبہ‘محل وقوع‘ دفاع اور تعمیر و ترقی کے امکانات الغرض تمام اعتبارات سے اہم تر ہے وہ بلحاظ آبادی کم تر ہے اور دوسرا خطہ جو نہ صرف یہ کہ ان تمام اہم امور کے اعتبار سے بہرحال ثانوی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ایک نہایت جان دار ‘فعال‘سرمایہ دار اور تعلیم یافتہ غرض ہر اعتبار سے نہایت مؤثر لیکن پاکستان کے اساسی نظریے کی دشمن اور اس کے عین وجود سے بغض و عداوت رکھنے والی اقلیت کی اضافی پیچیدگی بھی لیے ہوئے ہے‘تعدادِ نفوسِ انسانی کے لحاظ سے دوسرے خطے سے برتر ہے. ذرا دِقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دو اضافی عوامل کی بنا پر اس خالص جغرافیائی اشکال نے ایک نہایت پیچیدہ مسئلے کی صورت اختیار کرلی ہے.
اور یہ اسی پیچیدگی اور اشکال کا نتیجہ ہے کہ بائیس سال کی طویل مدت میں بھی پاکستان کا کوئی دستور نہیں بن سکا اور دستور سازی کے میدان میں نہ صرف یہ کہ ہنوز روز اول کا معاملہ ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ دُور دُور تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اور الجھاؤ روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے!
اس اشکال اور الجھاؤ کا مستقل حل تو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ دینی جذبات اور ملی احساسات کو مسلسل اجاگر کیا جاتا رہے اور اس جذبہ کے دوام اور تسلسل کا مستقل اور پائیدار بندوبست کیا جائے جو ایک دوسرے سے اتنے بعید اور باہم اس قدر مختلف خطوں کے ایک مملکت میں شامل ہونے کا سبب بنا تھا. تاہم فوری طور پر بعض دوسری چیزیں بھی پیش نظر رہنی ضروری ہیں.
ایک یہ کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اس’’ سنجوگ‘‘ کا برقرار رہنا مشرقی پاکستان کے عوام کی آزاد مرضی ہی پر منحصر ہے اور اسے کسی طرح بھی ان پر ٹھونسا نہیں جا سکتا‘ بلکہ اس معاملے میں جبر و تشدد کا رد عمل نہایت خوف ناک ہوسکتا ہے.
دوسرے یہ کہ اس ’’آزاد مرضی‘‘ کا انحصار بھی جتنا کچھ دینی جذبات اور ملی احساسات پر ہے اتنا ہی اس امر پر بھی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ یہ محسوس کریں کہ ہمارے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو رہی بلکہ مثبت طور پر انہیں یہ احساس بھی ہو کہ خود ان کا مفاد مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے ہی سے وابستہ ہے‘ اور مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ رہ کر ہی دنیا میں ایک باعزت اور باوقار آزاد مملکت کی حیثیت سے زندہ رہ سکتے ہیں. مزید بر آں یہ کہ اگر خدانخواستہ کبھی ’’علیحدگی‘‘ کی صورت پیدا ہوئی تو مغربی پاکستان کے لیے تو پھر بھی امکانِ غالب موجود ہے کہ وہ اپنی آزاد اور باوقار حیثیت کو برقرار رکھ سکے گا‘لیکن مشرقی پاکستان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا کہ کسی دوسری وسیع تر قومیت میں ضم اور کسی دوسری بڑی مملکت میں جذ ب ہوکر رہ جائے.
ان دو امور کی روشنی میں جائزہ لیا جانا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی مرضی در اصل ہے کیا؟ اگر وہ واقعتاً مغربی پاکستان سے علیحدہ ہو کر ایک آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں تو ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کی اس خواہش کے آ ڑے نہیں آ سکتی. بین الانسانی علائق میں سب سے زیادہ مقدس رشتہ میاں اور بیوی کا ہوتا ہے لیکن اس میں بھی دین فطرت نے علیحدگی کی ایک سبیل رکھ دی ہے اور صاف ہدایت کی ہے اگرچہ طلاق حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے تا ہم’’ معلق‘‘ رکھنے سے بہتر یہی ہے کہ علیحدگی اختیار کرلی جائے .بالکل اسی طرح اگر ہمارے مشرقی پاکستانی بھائی واقعتاً یہ محسوس کرتے ہوں کہ مغربی پاکستان کے ساتھ رہنے میں انہیں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے تو ان کی بے اطمینانی کے سبب سے پورے ملک کی سیاسی و دستوری زندگی کو مسلسل ’’معطل‘‘ رکھنے سے بہتر یہ ہے کہ ان کی مرضی کو بروئے کار آنے کا موقع دے دیا جائے.‘‘
اس قدر طویل اقتباس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ کسی حادثے کے وقوع پذیر ہوجانے کے بعد تو ہر شخص ہی پنڈت بن جاتا ہے. ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اپنی اس تحریر میں اس ’’اشکال اور الجھاؤ‘‘کے جس مستقل حل کی طرف اشارہ کیا تھا یعنی یہ کہ :’’دینی جذبات اور ملی احساسات کو مسلسل اجاگر کیا جاتا رہے اور اس جذبے کے دوام اور تسلسل کا مستقل اور پائیدار بندوبست کیا جائے جو ایک دوسرے سے اتنے بعید اور باہم اس قدر مختلف خطوں کے ایک مملکت میں شامل ہونے کا سبب بنا تھا‘‘وہ تو نہ ہونا تھا نہ ہوا البتہ جتنی قابل حذر چیزوں کا ذکر ہم نے کیا تھا‘شامت اعمال سے وہ سب کی سب بدترین صورتوں میں رونما ہوکر رہیں. چنانچہ جب یہ کمزور رشتہ کمزور تر ہوتا نظر آیا تو نہ تو ’’مشرقی پاکستان کے عوام کی آزاد مرضی‘‘ کو بروئے کار آنے کا موقع دیا گیانہ ان سے سیدھی طرح بات ہی کی گئی بلکہ اس کے برعکس ’’جبروتشدد‘‘ کی راہ اختیار کی گئی اور دفعۃً طاقت و قوت کا سخت ترین استعمال کر لیا گیا. نتیجتاً اس کا ردِّعمل بھی ’’نہایت خوف ناک‘‘ صورت میں سامنے آیا. آج ہم اس صورت حال سے دو چار ہیں کہ ایک طرف مغربی پاکستان کے عوام کی گردنیں شدید ترین احساسِ ذلت و رسوائی سے جھکی ہوئی ہیں اور ان کی آنکھوں میں مایوسی اور دل شکستگی کے مہیب سائے ڈیرہ ڈالے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف وہ حسین و زرخیز اور سرسبز و شاداب خطہ جسے دنیا ربع صدی تک ’’مشرقی پاکستان‘‘ کے نام سے جانتی رہی ہے نہ صرف یہ کہ ہم سے کٹ گیا ہے بلکہ اس وقت دشمن کے قبضے میں ہے اور اس بات کا حقیقی خطرہ موجود ہے کہ کہیں وہ مستقل طور پر ’’مہابھارت‘‘ میں ضم اور ہندی قومیت میں ’’جذب‘‘ ہوکر نہ رہ جائے. (پ ن: واقعہ یہ ہے کہ یہ اللہ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے کہ ہمارے یہ اندیشے غلط ثابت ہوئے اور آج بحمد اللہ بنگلہ دیش ایک آزاد و خود مختار ملک کی حیثیت سے موجود ہے‘جہاں نہ صرف یہ کہ مسلمان عظیم اکثریت میں ہیں بلکہ دینی احساسات کے اعتبار سے بھی دنیا کے کسی اور خطے کے مسلمانوں سے پیچھے یا کم تر نہیں ہیں!)
حقیقت یہ ہے کہ دسمبر۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں جو حالات و واقعات رونما ہوئے وہ ہمارے سابق حکمران ٹولے کی شدید نا اہلی اور انتہائی بے بصیرتی و بے تدبیری حتیٰ کہ بدنیتی اور بد دیانتی کے شاہکار تو ہیں ہی‘مجموعی اعتبار سے ہماری پوری قوم کے سیاسی افلاس کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں.ہم نے گزشتہ پورے سال کے دوران اس موضوع پر بالکل قلم نہیں اٹھایا کہ مارشل لاء کی تلوار سر پر لٹکی ہوئی تھی اور زبان و قلم پر سخت پہرے قائم تھے. چنانچہ ستمبر‘ اکتوبر ۱۹۷۱ء کے ’’تذکرہ و تبصرہ‘‘ میں ہم نے عرض بھی کردیا تھا کہ:
’’جہاں تک ملکی حالات کا تعلق ہے ‘ان پر کچھ لکھنے پر ابھی طبیعت بالکل آمادہ نہیں ہوتی. اس لیے کہ بحالات موجودہ پورا سچ (Whole Truth) کہنا ممکن نہیں اور جزوی صداقت (Half Truth) کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ وہ بسا اوقات جھوٹ اور کذب کی صورت اختیار کرلیتی ہے. لہٰذا جب تک قلم غیرمعمولی حالات کی بنا پر عائد شدہ پابندیوں سے آزاد نہیں ہوجاتا ‘ہم منقار زیر پر رہنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں.‘‘ ہماری حتمی رائے جو مندرجہ بالا اقتباس کے بین السطور میں بھی موجود ہے‘یہ ہے کہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی خطوں کو ابتدا ہی سے ایک ملک متصور کرکے سفر کا آغاز اگرچہ نہایت خلوص کے ساتھ اور in absolute good faith ہوا تھا ‘تاہم تھی یہ ایک غلطی. اس کے برعکس صحیح شکل وہی تھی جس کی جانب مشہور و معروف قرار دادِ لاہورمیں اشارہ کیا گیا تھا ‘یعنی یہ کہ جغرافیائی حقائق کا منہ چڑانے کی بجائے ان کا مناسب لحاظ کیا جاتا اور ان دونوں خطوں کو ابتدا ہی سے دو آزاد اور خود مختار ملک تصور کرکے سفر کا آغاز کیا جاتا. اس صورت میں غالب امکان یہی تھا کہ ایک طرف تو یہ دونوں ملک بھارت کی مشترک دشمنی کے زیر اثر آپ سے آپ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے ایک دوسرے کے ساتھ نہایت قریبی تعاون اور اشتراکِ عمل رکھنے پر مجبور ہوتے اور دوسری طرف مشرقی پاکستان میں مقامی ہندوسرمایہ داروں کے غریب مسلمان عوام کے معاشی استحصال کا وہ احساس وشعور بھی برقرار رہتا جو پاکستان کے وجود میں آنے کا اصل اور بنیادی محرک بنا تھا. لیکن افسوس کہ ہم بحیثیت قوم چاہے خالص عارضی اور محض وقتی طور پر ہی سہی بہرحال آزادیٔ ہند سے متصلاً قبل کے زمانہ میں ’’جذبۂ ملی‘‘ سے اس درجہ سرشار ہوگئے تھے کہ نہایت ٹھوس حقائق بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور ہم نے ان دونوں دور دراز خطوں کا ’’سنجوگ‘‘ ایک متحدہ ملک کی صورت میں قائم کردیا. یہ دراصل قومی سطح پر ہمارے سیاسی افلاس کا نہایت نمایاں مظہر اور ہمارے قومی مزاج کی ’’جذباتیت‘‘کا منہ بولتا ثبوت تھا.
واقعہ یہ ہے کہ اگر بحیثیت قوم ہم میں کچھ بھی سیاسی شعور ہوتا تو ہم بہت جلد اس غلطی کا احساس و ادراک کرلیتے. اس لیے کہ خان لیاقت علی خان مرحوم کی بی پی سی رپورٹ کا حد درجہ حسرت ناک انجام اسی لیے ہوا تھا کہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی خطوں کے مابین بندھن کے لیے کوئی قابلِ قبول دستوری فارمولا تلاش نہ کیا جا سکا. لیکن ہماری ’’جذباتیت‘‘ اور حقائق سے گریز کی مستقل عادت پھر آڑے آئی اور ہم نے حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا.
اس کے بعد پاکستان میں حکومت کی سطح پر سازشوں اور انقلابوں کا جو چکر چلا اس کا اصل اور بنیادی سبب تو اگرچہ یہ تھا کہ یہاں جو قوم آباد تھی وہ دفعۃً آزاد تو ہوگئی تھی لیکن اس کا سیاسی و اجتماعی شعور ابھی بالکل خام تھا اور یہاں قومی سطح پر نہ کوئی محکم تنظیم موجود تھی نہ مضبوط قیادت‘البتہ اس کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ جب ملک کی کوئی دستوری اساس ہی قائم نہ ہوسکی تو لامحالہ ؏ ’ خموشی گفتگو ہے‘بے زبانی ہے زباں میری‘‘کے مصداق بے دستوری ہی یہاں کا دستور اور بے آئینی ہی یہاں کا آئین قرار پایا. چنانچہ ملک و ملت کا سفینہ کچھ عرصہ تو سازشوں اور انقلابوں کے چھوٹے چھوٹے گردابوں میں ہچکولے کھاتا رہا اور بالآخر ایک بڑے بھنور میں آ پھنسا ‘اور ایوب خاں کا گیارہ سالہ ’’سنہری دور‘‘ شروع ہوگیا جس کے دوران میں ’’صدارتی طرزِ حکومت‘‘ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے سیاسی محرومی کے احساس کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا.
اس میں شک نہیں کہ دورِ ایوبی میں مشرقی پاکستان میں صنعتی ترقی وغیرہ کی صورتوں میں وہاں کے عوام کی اشک شوئی اور دل جوئی کی بہت کوششیں بھی ہوئیں‘لیکن اس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ان تمام کوششوں کے علی الرغم رفتہ رفتہ مشرقی پاکستان واقعتا مغربی پاکستان کی ’’نوآبادی‘‘ (colony) بنتا چلا گیا‘جس سے وہاں فطری طور پر سیاسی بے چینی مسلسل بڑھتی چلی گئی.
اس صورت حال سے دشمن نے بھرپور فائدہ اٹھایا. چنانچہ ایک طرف مشرقی پاکستان کی اس ہندو اقلیت نے جلتی پر تیل ڈالا جو خود ہمارے الفاظ میں’’ نہایت جاندار‘ فعال‘ سرمایہ دار اور تعلیم یافتہ غرض ہر اعتبار سے نہایت مؤثر لیکن پاکستان کے اساسی نظرئیے کی دشمن اور اس کے عین وجود سے بغض و عداوت رکھنے والی تھی‘‘ اور جو وہاں زبان اور کلچر کی بنیاد پر جداگانہ قومیت کی اساس کو اجاگر کرنے کا کام بھی مسلسل بیس سال سے کر رہی تھی. ہندوؤں کو ابھی اس نہج پر کام کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے میں یقیناً بہت مدت تک جدوجہد کرنی پڑتی لیکن اس سیاسی بے چینی نے ان کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کردیا اور انہوں نے سیاسی محرومی کے احساس کو بآسانی مغربی پاکستان کے خلاف جذبہ نفرت (hate complex) میں تبدیل کر دیا. دوسری طرف ہمارے ’’عظیم ہمسائے‘‘نے اس آگ کو نہ صرف ہوا دی اور بھڑکایا بلکہ اس کے لیے ہر طرح کا ایندھن بھی فراہم کیا. نتیجتاً علیحدگی پسندی کا ایک زبردست رجحان پیدا ہوا اور اس کے لیے ایک عوامی تحریک جڑ پکڑ گئی.
۱۹۶۹ء میں دوسرے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اگرچہ حکومت وقت نے بہت سی ہمالیہ ایسی غلطیاں بھی کیں‘مثلاً یہ کہ مغربی پاکستان کی وحدت کو بلاوجہ ختم کردیا‘تاہم دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد تک بحیثیت مجموعی سابق صدر یحییٰ کی نیک نیتی پر شک کے لیے کوئی گنجائش موجود نہ تھی اور ان کا ملک کو ہنگاموں اور ایجی ٹیشنوں کی فضا سے نکال کر معروف سیاسی سرگرمی حتیٰ کہ عام انتخابات کی راہ پر لے آنے میں کامیاب ہوجانا تو بلاشبہ بہت قابل قدر تھا‘لیکن اس کے بعد کی داستان نہایت تلخ ہے‘اور جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں ‘حکمران ٹولے کی شدید نا اہلی اور انتہائی بے بصیرتی اور بے تدبیری ہی نہیں بدنیتی اور بددیانتی کا عظیم شاہکار ہے. یہی وہ مقام ہے جہاں سے ’’سقوطِ مشرقی پاکستان‘‘ کے اصل تلخ جزو یعنی ہماری ذلت آمیز شکست اور عبرت ناک ذلت و رسوائی کے اسباب کا آغاز ہوتا ہے.
دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ مشرقی پاکستان نے بحیثیت مجموعی علیحدگی پسندگی کے حق میں واضح فیصلہ صادر کردیا ہے. اب ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی آزاد رائے کو عملاً بروئے کار آنے کا موقع دیا جاتا یا کم از کم یہ کہ ان سے واضح انداز میں بات کی جاتی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی کہ حقیقتاً وہ چاہتے کیا ہیں! آیا مغربی پاکستان سے مکمل علیحدگی کے خواہاں ہیں یا کسی درجے کا کوئی بندھن قائم رکھنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں؟ راقم نے انتخابات کے نتائج مدینہ منورہ میں سنے تھے اور اسی وقت احباب سے عرض کردیا تھا کہ اب مشرقی اور مغربی پاکستان کو کوئی طاقت ساتھ نہیں رکھ سکتی. زیادہ سے زیادہ جو کچھ ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ؎
ہر چہ دانا کند‘ کند ناداں
لیک بعد از خرابی بسیار!
کے مصداق یہ علیحدگی خوش اسلوبی سے نہ ہو بلکہ بھونڈے طریق پر ہو اور صرف خرابی ہی نہیں خون خرابے کے ساتھ ہو. ساتھ ہی بارگاہِ رب العزت میں دعا بھی کی تھی کہ ’’پروردگار!پاکستان کے موجودہ فوجی حکمرانوں کو جنرل ڈیگال ہی کی سمجھ عطا فرما دے کہ وہ اس علیحدگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ عمل میں لے آئیں! ‘‘لیکن افسوس کہ ہماری یہ دعا بارگاہ رب العزت میں قبول نہ ہوئی اور قوم کے سیاسی افلاس اور اجتماعی شعور کے فقدان کے نتائج سامنے آ کر رہے.
اب یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ سابق صدر یحییٰ خان اور ان کے مشیروں کا ’’عام انتخابات ‘‘کے انعقاد کا کریڈٹ حاصل کرنے کا فیصلہ اس غلط اندازے پر مبنی تھا کہ دونوں خطوں میں چاہے کچھ بڑے بڑے گروپ بھی انتخابات جیت لیں لیکن اکثریت چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپوں کی ہوگی جن کو مہرے بنا کر ہم سیاست کی شطرنج پر بازی کھیلتے رہیں گے. لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خوش قسمتی تھی یا بد قسمتی کہ ان کے یہ اندازے غلط ثابت ہوئے. مغربی پاکستان میں تو پھر بھی پیپلز پارٹی کے بڑے دھڑے کے ساتھ کچھ نہ کچھ چھوٹے گروپ بھی آگئے‘لیکن مشرقی پاکستان میں تو ساری کی ساری سیٹیں عوامی لیگ نے حاصل کرلیں اور اس طرح شطرنج کی کسی بساط کے بچھنے کا امکان ہی موجود نہ رہا.
بس یہیں سے بدنیتی کے اس سلسلے کا آغاز ہوگیا جو بالآخر انتہائی ذلت و رسوائی پر منتج ہوا. پہلے تو تین ماہ شش و پنج ہی میں گزار دئیے گئے‘پھر اسمبلی کا اجلاس طلب بھی کیا گیا تو اس پیشگی اہتمام کے ساتھ کہ وہ بالفعل منعقد نہ ہونے پائے.
اس مرحلہ پر پاکستان کے موجودہ صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کا کردار بھی نہایت مشکوک اور حد درجہ تباہ کن ثابت ہوا. اب چاہے بھٹو صاحب اپنے اُس وقت کے موقف کی کیسی ہی خوش نما تاویلیں کرلیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ داغ ان کے دامن پر ہمیشہ قائم رہے گا کہ چاہے دانستہ اس سازش میں شریک نہ رہے ہوں اور محض نادانستہ ہی استعمال ہوئے ہوں بہرحال ایک بہت بڑی تباہی کے اسباب میں شامل ضرور ہوگئے. ان کے بارے میں ہمارا اندازہ یہ تھا کہ ان کی جذباتی‘ سیماب وش‘ جلد باز اور volatile شخصیت کے ظاہری خول کے اندر ایک سنجیدہ‘حقیقت بیں اور ٹھوس calculating شخصیت چھپی ہوئی ہے لیکن افسوس کہ مشرقی پاکستان کے معاملے میں انہوں نے کسی تدبر اور معاملہ فہمی کا ثبوت نہیں دیا.
اس مسئلے میں تھوڑا سا الزام ہماری رائے میں مغربی پاکستان کے دائیں بازو کے ان شکست خوردہ سیاست دانوں پر بھی آتا ہے جنہوں نے انتخابات کے فوراً بعد بھٹو دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہوکر شیخ مجیب الرحمن کی مدح سرائی اور کاسہ لیسی شروع کردی اور اس طرح گویا بھٹو صاحب کو بالکل corner کردینے کی کوششیں شروع کردیں. ہمارے نزدیک یہ ان لوگوں کی بے تدبیری اور نا سمجھی کا بہت بڑا ثبوت تھا. لیکن اگر بھٹو صاحب کا رویہ ان کے اس طرز عمل کے رد عمل کے طور پر تھا تب بھی یہ بھٹو صاحب کے اپنے فہم اور تدبر کے دامن پر ایک بہت بڑا داغ ہے.
بہرحال اسمبلی کے انتہائی تاخیر کے ساتھ طلب کیے جانے اور پھر ملتوی کردئیے جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے محسوس کیا کہ ہم اپنا مقصود آئینی طریق پر حاصل نہیں کرسکتے. چنانچہ حالات بگڑنے شروع ہوئے‘قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا‘جس پر پہلے تو حکومت وقت نے نہایت پراسرار خاموشی اختیار کی اور پھر یکبارگی سخت ترین ملٹری ایکشن کا آغاز کردیا.
اس کے بعد کی داستان نہایت طویل ہے‘اور داستان سرائی یہاں مقصود نہیں. مختصراً یہ کہ ملٹری ایکشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر بھارت بھاگ گئے جسے بھارت نے اپنا مسئلہ بنا لیا. اس کے پردے میں پہلے گوریلے اور مسلح تخریب کار بھیج کر اور پھر براہ راست حملہ کرکے مشرقی پاکستان کے لیے فوری خطرہ پیدا کردیا اور پھر وہ چودہ روزہ جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان کو ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی اور مشرقی پاکستان ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا.
جہاں تک اس ’’ذِلت آمیز شکست‘‘ اور ’’عبرت ناک ہزیمت ‘‘کے اسباب کا تعلق ہے ‘اب تک اس موضوع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے. تقریباً ڈیڑھ ماہ سے یہی ہمارے عوام کی گفتگوؤں کا موضوع بھی رہا ہے اور ’’دانشوروں‘‘کے تجزیوں کا بھی. اب تو اس قضیے کے باقاعدہ تصفیے کے لیے ایک اعلی سطح کا کمیشن بھی کام کر رہا ہے. تاہم اس مسئلے کے بعض پہلو ایسے ہیں جو عوام کی نظروں سے تو اوجھل ہیں ہی‘ہمارے علم کی حد تک ’’دانشوروں‘‘نے بھی کم از کم تاحال دانستہ یا نادانستہ ان سے اعراض ہی کیا ہے. رہا حمود الرحمن کمیشن تو غالباً یہ پہلو اس کے دائرہ تحقیق و تفتیش(scope) سے بھی باہر ہی رہیں گے. لہٰذا ہماری رائے میں ان صفحات میں ان کے جانب مختصر اشارہ مناسب رہے گا.
اب تک جو کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ‘اس کا مرکز و محور سابق صدر یحییٰ خان اور ان کے رفقائے کار فوجی حکمران رہے ہیں. اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اس شکست کے فوری اسباب (exciting causes) بہرحال ان لوگوں کی شدید ترین نا اہلی‘حد درجہ کی بے تدبیری اور بے بصیرتی‘حوصلے کی کمی‘قوت فیصلہ کے فقدان اور اعصاب کے ضعف کے گرد ہی گھومتے ہیں .یہ تمام چیزیں براہ راست نتیجہ ہیں ان کی عیاشیوں اور بدکاریوں کااور ان کے کردار کی پستی‘اخلاق کی دناء ت اور سیرت کے گھناؤنے پن کا. خمر تو کہتے ہی اسے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے (الخمر ما یخامر العقل) لہٰذا ہمارے ان حکمرانوں کی سمجھ بوجھ اور معاملہ فہمی تو اس راہ سے رخصت ہوئی. رہی ہمت و جرأت اور حوصلہ و ارادہ تو ان سب کا جنازہ بدکاریوں نے نکال دیا. نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف یہ کہ یہ لوگ خود بتاشے کی طرح بیٹھ گئے بلکہ ساتھ ہی ایک پوری قوم بلکہ روئے ارض کی پوری امت مسلمہ کی عزت و ناموس کا دھیلہ کر گئے.
لیکن‘جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا‘یہ سب شکست کے صرف فوری اسباب ہیں اور اس بحر کی گہرائیوں میں ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ کے مصداق تہہ بر تہہ تاریکیاں موجود ہیں اور صرف سطح آب پر چمکنے والی چیزوں پر نگاہ رکھنا اور گہرائیوں میں اتر کر حقائق کا مواجہہ کرنے سے گریز کرنا بھی من جملہ ان بیماریوں کے ہے جو ہمیں اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے جا رہی ہیں. اس لیے کہ یہ در حقیقت قومی سطح پر گریز اور فراریت کا وہ مرض ہے جس نے پوری قوم کا مزاج اس طرز پر ڈھال دیا ہے کہ ہر ناکامی اور ہر خرابی کی ساری ذمہ داری کسی ایک یا چند افراد یا کسی ایسے گروہ یا طبقے کے سر تھوپ کر پوری قوم اپنی جگہ مطمئن ہوجائے اور بڑی سے بڑی ناکامی پر نہ اس کا اجتماعی شعور بیدار ہو‘نہ اسے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا احساس و ادراک ہوسکے اور نہ ہی اس کے قومی ضمیر میں کوئی خلش یا چبھن پیدا ہو. اس صورت حال کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر دانشوروں اور خصوصاً صحافیوں پر عائد ہوتی ہے کہ ان کا دماغ اور قلم اکثر و بیشتر قوم کے اجتماعی شعور کو تھپک تھپک کر اور لوریاں دے دے کر سلانے ہی کا کام کرتا ہے. اب یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اس طبقے کے فہم و ادراک کے قصور کا نتیجہ ہے یا مصلحت بینی اور عافیت کوشی کا ثمرہ. اس لیے کہ اس دور میں اصل ’’سلطانِ جائر‘‘عوام ہیں اور ان کے سامنے ’’کلمہ ٔحق‘‘ کہنا’’لانا ہے جوئے شیر کا!‘‘
ہمارے نزدیک ہماری ذلت آمیز شکست کے متذکرہ بالا فوری اسباب اور سطحی سبب کے نیچے کے تہہ در تہہ اسباب میں سے پہلا سبب یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ بلکہ اس پورے قضیے میں ہمارا سرے سے کوئی اخلاقی موقف ہی موجود نہ تھا‘بلکہ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں دسمبر ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب بڑی دھاندلی اور صریح بد دیانتی پر مبنی تھا. نتیجتاً چاہے ہم خود اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے میں کتنے ہی کامیاب ہوگئے ہوں بہرحال پوری دنیا کے سامنے ہم بالکل ننگے (exposed) تھے اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں جس کسی نے بھی ہمارے ملٹری ایکشن کی کسی درجے میں مدافعت کی اسے کس قدر بوجھ اپنے ضمیر پر ڈالنا پڑا ہوگا. خود ہم اپنے موقف کی مدافعت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہہ سکے وہ یہ تھی کہ اس حمام میں صرف ہم ہی ننگے نہیں ہیں بلکہ ؏ ’’ ایں گناہیست کہ در شہر شمانیز کنند‘‘بھارت نے بھی تو کشمیر میں یہی کیا تھا اور خود روس بھی تو اپنے کئی حلیف ممالک میں یہی کچھ کرچکا ہے!
اس معاملے کا افسوس ناک ترین پہلو یہ ہے کہ اس مسئلے میں بعض ایسے لوگوں نے بھی نہ صرف یہ کہ حکومت وقت کی تائید کی اور اس پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے بلکہ عملاً امداد اور تعاون کی روش اختیار کی اور ایک بد دیانت اور شرابی و زانی ٹولے کا آلۂ کار بننا قبول کرلیا جو اس ملک کے سیاسی میدان میں حق و صداقت کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں اور جن کا سارا سیاسی کاروبار دین و مذہب کے نام پر چل رہا ہے. ہمارا دل اس تصور سے کانپ اٹھتا ہے کہ اگرع ’’قیاس کن زِگلستانِ من بہار مرا‘‘ کے مصداق اسی واقعے کو ہماری قوم کی اخلاقی حس کو ماپنے کے لیے پیمانہ بنا لیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا! ظلم اور دھاندلی کے خلاف بولنے کی جرأت اور ہمت نہ ہو تو کم سے کم خاموش تو رہا جا سکتا ہے. یہ کتنی بڑی ابن الوقتی اور جواری پن ہے کہ انسان اپنے مفادات پر نگاہ رکھتے ہوئے اور ذاتی مواقع کے پیش نظر کسی ظالم کے ظلم میں اس کا ساجھی اور مددگار بن جائے. ہماری قوم کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ اس دھاندلی کے آغاز میں تو مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کا لیڈر اس کا آلۂ کار بن گیا اور دوسرے مرحلے (phase) میں جب اس لیڈر کو ہوش آ گیا اور اس نے دبی زبان سے ہی سہی ظلم کے خلاف کسی قدر بولنا شروع کیا تو اس ملک میں مذہب و سیاست کی سب سے بڑی علمبردار جماعت کو اس ظلم اور زیادتی کا آلہ کار بننے کا شرف حاصل ہوگیا.
شکست کے اسباب و عوامل میں سے دوسرا گہرا سبب یہ ہے کہ ہم تاحال سیاسی اعتبار سے ایک ’’نابالغ‘‘ قوم ثابت ہوئے ہیں اور ہمارے یہاں جو ذمہ داریاں کسی قومی قیادت کو سنبھالنی چاہئیں تھیں ان کا بوجھ بھی فوج کو اٹھانا پڑا ہے. جدید دور کی ریاست (state) ایک بڑا عظیم اور ہمہ گیر ادارہ ہے اور اس میں مختلف ذمہ داریاں مختلف طبقوں کو اٹھانی پڑتی ہیں اور ع ’’ہر کسے را بہرکارے ساختند ‘‘کے مصداق ہر طبقے کو اپنی مخصوص ذمہ داریوں کے لیے مناسب تربیت (training) دی جاتی ہے اور جس طرح ملک کے دفاع اور اس کی سرحدوں کا تحفظ نہ عوام کے بس کا ہے نہ سول انتظامیہ کے‘اسی طرح اہل سیاست کے حصے کا بوجھ نہ فوج اٹھا سکتی ہے نہ سولِ انتظامیہ. کسی قومی تنظیم اور قومی قیادت کے خلا کو کوئی دوسرا ادارہ پر نہیں کرسکتا. اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری حالیہ شکست قومی اور اجتماعی سطح پر ہماری مسلسل ناکامیوں (failures) اور درجہ بدرجہ پسپائی کا نقطہ عروج(climax) ہے اور بظاہر تو یہ نتیجہ ہے صرف ہماری فوج بلکہ صحیح تر الفاظ میں اس کی بھی صرف سابق عیاش اوربدکردار قیادت کے بودے پن کا‘لیکن درحقیقت یہ منطقی انتہا ہے ہمارے سیاسی دیوالیہ پن کی اور مظہر اتم ہے پوری پاکستانی قوم کی نا اہلیت اور ناقابلیت اور اجتماعی و سیاسی نابالغی کا!
جیسا کہ ہم نے جولائی ۱۹۶۹ء کے محولہ بالا ’’تذکرہ وتبصرہ‘‘ میں بھی عرض کیا تھا‘ پاکستان کی ربع صدی کی مختصر سی تاریخ کے ابتدائی گیارہ سالوں کے دوران‘یعنی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک کے عرصے میں‘پاکستان کے سیاست دانوں کی نا اہلی و ناقابلیت کا تدریجی ظہور ہوا اور اس کے اختتام کے قریب قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور شخصیتیں اس عظیم مملکت کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے میں بالکل ناکام ہوچکی ہیں اور ان کے ہاتھوں اب کسی خیر کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی. اس کے فطری نتیجے کے طورپر۱۹۵۸ ء میں ایک انقلاب آیا جو بظاہر اور ابتداء ً تو فوجی تھا لیکن اس نے بہت جلد ایک سابق فوجی کے زیر سربراہی ایک خالص نوکر شاہی کی صورت اختیار کرلی اور اہل سیاست کو میدان سے ہٹا کر مملکت کے دوسرے منظم ادارے یعنی سول سروسز نے ملک کے نظم و نسق کو سنبھال لیا. چنانچہ دوسرا گیارہ سالہ دور جو ۱۹۵۸ء تا ۱۹۶۹ء تک جاری رہا درحقیقت بیوروکریسی کا دور تھا اور اس کے دوران قوم کے اس دوسرے طبقے کی بھی بھرپور آزمائش ہوگئی‘لیکن افسوس کہ اس دور کے بالکل ابتدا ہی سے ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا کہ قوم کا یہ طبقہ بھی دیانت و امانت اور احساسِ فرض کے ان اوصاف سے بہت حد تک عاری ہے جو اس عظیم ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کے لیے لازمی ہیں جو اس کے کندھوں پر آ پڑی ہے. چنانچہ رفتہ رفتہ اس طبقے کی نا اہلیت بھی واضح ہوتی چلی گئی اور ۱۹۶۸ء کے اواخر میں بے اطمینانی کا وہ لاوا جو قوم کے مختلف طبقات میں اس طبقے کی دست درازیوں کے باعث کھول رہا تھا ‘اچانک پھٹ پڑا اور اس طرح یہ دور بھی دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگیا.
ان دونوں طبقات کی ناکامی کے بعد ملک و ملت کے پاس ایک ہی منظم ادارہ باقی رہ گیا ہے ‘یعنی فوج. چنانچہ اب کی بار ایک خالص ’’جرنیلی حکومت‘‘قائم ہوئی اور فوج نے ملک کے پورے نظم و نسق کو سنبھالا. ہم نے اسی وقت عرض کردیا تھا کہ: ’’اس ادارے کا اصل فریضہ دفاع وطن ہے اور یہ بجائے خود اتنی عظیم ذمہ داری ہے کہ اس پر کوئی مزید بوجھ ڈالنا حد درجہ نا انصافی ہے. بین الاقوامی حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس کے پیش نظر مستقبل میں دفاعِ وطن کی ذمہ داری یقینا پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھاری اور بوجھل ہوجائے گی اور ڈیفنس سروسز کے کندھوں پر اگر زیادہ دیر تک ملک کے داخلی نظم و نسق کا بوجھ بھی پڑا رہا تو اس سے دفاعِ وطن کے محاذ کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ خطرہ اتنا بڑا ہے کہ اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا. ‘‘
اب اگر یہ ادارہ ان دو طرفہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں ناکام ہوا تو اس کا الزام جتنا اس کے سر آتا ہے اتنا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ پوری قوم پر آتا ہے کہ اس نے اس پر اس کی بساط سے زیادہ بوجھ ڈالا ہی کیوں. لہٰذا سابق صدر یحییٰ خان اور ان کے رفقائے کار کی نا اہلیت کے پردے میں در اصل پوری قوم کی ناقابلیت کا ظہور ہوا ہے اور ان کی ناکامی اصلاً پوری قوم کی ناکامی ہے. یہ بالکل دوسری بات ہے کہ ارباب سیاست اور بیوروکریسی کی نا اہلیوں اور ناکامیوں کے نتائج صرف اندرون ملک بدانتظامی اور بے چینی و خلفشار تک محدود رہے تھے جبکہ فوج کی ناکامی نے ہماری خامیوں اور نا اہلیوں کا بھانڈا بین الاقوامی چوراہے میں پھوڑ کر رکھ دیا اور ہم اپنے قدیم دشمن کے ہاتھوں ایک شرم ناک شکست سے دوچار ہوگئے.
مزید گہرائی میں اتر کر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری صورت حال کی تہہ میں در اصل وہی الجھاؤ (dilemma) کار فرما ہے جس کا ذکر ہم نے نومبر۱۹۷۱ء کی اشاعت میں شائع شدہ اپنی ایک تقریر میں کیا تھا. یعنی یہ کہ ایک طرف تو نہ پاکستان کے قیام کے لیے کوئی وجہ جواز مذہب کے سوا موجود ہے اور نہ ہماری قومیت کے لیے کوئی اساس دین کے سوا کسی چیز کو قرار دینا ممکن ہے. گویا کہ نظری اعتبار سے تو ہماری قومیت بھی صرف اور صرف اسلام ہے اور ہمارا وطن (۱) بھی صرف اور صرف اسلام ہے لیکن دوسری طرف عملاً صورت حال یہ ہے کہ یہی چیزیں یہاں کم ہوتے ہوتے بالکل معدوم کے حکم میں آ گئی ہیں. اس لیے کہ قیام پاکستان کے وقت تو پھر بھی‘چاہے ایک جذباتی اور سطحی سی نوعیت ہی کا سہی‘بہرحال ایک ’’جذبہ ملی‘‘ ہمارے یہاں موجود تھا‘لیکن بعد میں نہ صرف یہ کہ اسے غذا نہیں ملی بلکہ رفتہ رفتہ ان جڑوں ہی کو کھود ڈالا گیا جو اسے امکانی طور پر سینچ (۱) ’’ اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے‘‘ سکتی تھیں. نتیجتاً اس وقت ہم بحیثیت قوم فضا میں معلق ہیں اور باوجود اس کے کہ ہمارے نیچے ایک ایسا خطہ زمین موجود ہے جسے دنیا مغربی پاکستان کے نام سے جانتی ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ہماری قومیت کی کوئی بنیاد بالفعل موجود نہیں.
اب ظاہر ہے کہ قومی وملی کردار اور سیاسی و اجتماعی شعور بہرحال کسی تصورِ قومیت ہی کی اساس پر وجود میں آ سکتے ہیں اور کسی ملک کے رہنے والوں میں فکر کی کوئی ہم آہنگی‘ سوچ کی یکسانیت اور مقاصد کی یک جہتی کسی مشترک قومی جذبے ہی کی بنیاد پر پیدا ہو سکتی ہے‘بلکہ خود انفرادی سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر کا انحصار بھی بہت حد تک اس اجتماعی شعور ہی پر ہوتا ہے. اس لیے کہ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں‘اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
تو بحالات موجودہ ہمارے اندر کوئی روح بیدار ہو تو کیسے؟ ہمارے قومی کرداری کی تعمیر ہو تو کس طرح اور ملک و ملت کے لیے قربانی اور ایثار کا جذبہ پروان چڑھے تو کس بنیاد پر؟ یہی اصل سبب ہے اس کا کہ نہ ہمارے اندر کوئی اجتماعی شعور بیدار ہوا نہ کوئی قومی نقطہ نظر پیدا ہوسکا‘نہ کوئی قومی تنظیم وجود میں آ سکی‘نہ کوئی قومی قیادت ابھر سکی. نتیجتاً ناکامیوں کا ایک سلسلہ چل نکلا. پہلے اہل سیاست ناکام ہوئے‘پھر بیوروکریسی فیل ہوئی اور آخر کار فوج کی ناکامی کی صورت میں ہمارے قومی وقار کو وہ دھکا لگا جس کی یاد نسلوں تک باقی رہے گی اور جس کی تلافی خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کب اور کس صورت میں ممکن ہوسکے گی!
افسوس کہ گزشتہ تین مہینوں کے دوران جو حالات وواقعات رونما ہوئے انہوں نے ان دو نکات‘یعنی ایک یہ کہ پاکستان کی بحیثیت ملک اور اس میں بسنے والوں کی بحیثیت قوم کوئی اساس اور بنیاد اسلام کے سوا موجود نہیں اور دوسرے یہ کہ یہی جنس اب یہاں عنقا کے حکم میں ہے‘کو نہایت تلخ لیکن حد درجہ سنگین حقائق کی طرح ہماری آنکھوں کے سامنے لاکر رکھ دیا ہے.چنانچہ ایک طرف ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے اور ایک ’’علاقائی قومیت‘‘ نے پاکستانی قومیت کے تصور پر فتح حاصل کر لی. علیحدگی پسندی کے اس عمل کا آغاز تو فطری طور پر وہیں سے ہوا جہاں جغرافیائی فاصلے کی ایک اضافی پیچیدگی بھی موجود تھی لیکن خود مغربی پاکستان میں بھی یہ عمل اندر ہی اندر جا ری ہے اور حقیقت بیں نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ مغربی پاکستان میں شمالاً جنوباً وہ دراڑ پڑ چکی ہے جو بڑھ کر کسی خوف ناک کھائی میں تبدیل ہوسکتی ہے…اور دوسری طرف پاکستان کے دونوں خطوں میں وہ قیادتیں برسرکار آ گئی ہیں جن کا اور چاہے کسی بھی چیز سے کتنا ہی مضبوط رشتہ کیوں نہ ہو‘ دین و مذہب سے بہرحال کوئی تعلق نہیں ہے. چنانچہ ’’بنگلہ دیش‘‘ کی حکمران جماعت کے تو متعدد ذمہ دار لوگ کہہ ہی چکے ہیں کہ ہمارے تین بنیادی اصول وہی ہیں جن پر بھارت عمل پیرا ہے یعنی لادینیت ‘جمہوریت اور سوشلزم‘بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ’’اگرچہ بنگلہ دیش مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے تاہم ہم یہ پسند نہیں کریں گے کہ اسے ایک مسلمان ملک کہا جائے‘‘ اور ایک صاحب تو یہاں تک غزل سرا ہوئے ہیں کہ ’’ہم بنگلہ دیش میں اسلام کو کچل کر رکھ دیں گے!‘‘ وَقِسْ عَلیٰ ھذَا. ادھرمغربی پاکستان میں بھی اب وہ قیادت برسر اقتدار آ گئی ہے جو اس نظرئیے کی حامل ہے جسے ہمارے ملک کے ایک صد و چودہ علماء کرام نے کفر قرار دیا تھا اور جو اگرچہ قولاً جمہوریت اور سوشلزم کے ساتھ اسلام کا پیوند بھی لگاتی ہے لیکن جس کی سیاست خالصتاً سیکولر اصولوں پر قائم ہے. چنانچہ وہ طریق انتخاب کے مسئلے میں کھلم کھلا جداگانہ کی بجائے مخلوط انتخابات کی حامی رہی ہے اور اگرچہ وہ اس امر کی مدعی ہے کہ ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ تاہم اس سوال سے قطعاً بحث کرنے کو تیار نہیں کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم!
متذکرہ بالا مباحث سے راقم الحروف کے نزدیک تین اہم نتائج مستنبط ہوتے ہیں:
ایک یہ کہ اگرچہ ملکی اور ملی استحکام کے لیے کرنے کے کام بے شمار ہیں تاہم پاکستان کا اصل استحکام اور ملت اسلامیہ پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کا اصل دارومدار ’’احیائے اسلام‘‘ پر ہے. چنانچہ اگر کوئی شخص صرف بعض سماجی برائیوں (social evils) مثلاً رشوت یا جہیز کی رسم ایسی چیزوں کے استیصال (eradication) کے لیے کوئی حقیقی اور واقعی محنت کرتا ہے تو ہمارے نزدیک وہ بھی یقینا قومی تعمیر نوہی کا ایک کام کر رہا ہے اور اسے ملک و ملت کے ہر بہی خواہ کی اشیرواد حاصل ہونی چاہیے ‘لیکن ع ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ ‘‘ کے مصداق پاکستان دنیا کا ایک ایسا انوکھا ملک ہے جس کی واحد اساس مذہب ہے اور اس میں بسنے والے لوگ دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جن کی قومیت کی کوئی بنیاد مذہب کے سوا موجود نہیں.لہٰذا یہاں ملک اور ملت دونوں کا استحکام‘آخری تجزیے میں‘صرف ایک ہی شے سے وابستہ ہے اور وہ ہے احیائے دین و مذہب.
اوریہ ‘ایک اعتبار سے ‘ایک بہت بڑی خوشی قسمتی بھی ہے اس لیے کہ انسان کو عقیدے‘قومیت اور وطنیت کی ایسی ’’وحدت‘‘ شاذ ہی نصیب ہوتی ہے. ذرا ہندوستان کے کسی مسلمان کی حالت زار کو ذہن میں لائیے کہ وہ کیسے انتشارِ ذہنی اور خلفشارِ قلبی کا شکار ہے کہ اس کے دین و مذہب کے تقاضے اس کے دل و دماغ سے کچھ اور ہیں اور ملک و وطن کے تلخ حقائق اسے کسی اور جانب چلنے پر مجبور کرتے ہیں. حتیٰ کہ کسی عرب ملک کے دین دار مسلمان کا حال بھی یہ ہے کہ اس کا دین اسلام ہے‘قومیت عربی اور وطنیت مصری یا سعودی یا اردنی. اس کے برعکس ایک پاکستانی مسلمان ہے کہ اس کا دین بھی اسلام ‘قومیت بھی اسلام اور وطن بھی اسلام.
اس اعتبار سے حقیقت یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں کہ جب میں احیائے دین کے لیے کسی حقیر سی خدمت میں اپنے آپ کو کھپا رہا ہوتا ہوں تو مجھے کامل اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ میں اپنے خالق و مالک کا حق بھی ادا کر رہا ہوں اور اپنی قوم اور ملک کا بھی. اس لیے کہ میری قوم کا اتحاد بھی اصلاً اسی میں مضمر ہے اور ملک کے استحکام کا دارومدار بھی حقیقتاً اسی پر ہے.
دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ’’احیائے اسلام‘‘ اور ’’احیائے دین و مذہب‘‘ کا کام فی الوقت سیاسی میدان میں نہیں کیا جا سکتا بلکہ ابھی ایک عرصے تک اس غرض کے لیے پوری قوت تعلیم و تدریس اور فکر و ادب کے میدان میں کھپانی ہوگی اور توجہ کو معاشرتی اور سماجی دائروں میں مرتکز رکھنا ہوگا. اس لیے کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی ملک کے سیاسی میدان میں صرف وہی اقدار بروئے کار آ سکتی ہیں جو فی الواقع معاشرے میں رچی بسی ہوئی ہوں اور لوگوں کے دل اور دماغ میں گہری جڑیں رکھتی ہوں. عوام کی سوچ کے زاویوں اور ان کی بنیادی اقدار کو بدلے بغیر سیاست کے میدان میں کسی انقلاب یا حقیقی تبدیلی کی توقع نہایت احمقانہ ہے. ادھر حال یہ ہے کہ فی الواقع ہمارے معاشرے میں دینی اقدار نہایت مضمحل بلکہ تقریباً مردہ ہیں. یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چوبیس سالوں کے دوران اس ملک کی سیاسی فضا میں جو کام دین کے نام پر کیا گیا وہ قطعاً بے ثمر اور لاحاصل ثابت ہوا.
دوسری جانب مندرجہ ذیل معروضی حقائق ہیں جن کی تفصیل میں جانا اس وقت ممکن نہیں: (تفصیل کے لیے دیکھئے راقم کی تالیف ’’استحکام پاکستان‘‘)
(۱) ہماری ایک عظیم اکثریت کا دین و مذہب کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں!
(۲) مذہب کے متوسلین کی اکثریت کا تصورِ دین محدود بھی ہے اور مسخ شدہ بھی!
(۳) وسیع تر تصور کے حامل لوگوں کی اکثریت بھی بالکل بے عمل ہے!
(۴) فعال مذہبی عناصر کا مجموعی اثر و نفوذ بھی نہایت قلیل اور ناقابل شمار ہے!
یہ حقائق اگرچہ نہایت تلخ ہیں تاہم ہیں بالکل واقعی جن کا انکار سوائے ہٹ دھرمی اور بے جا ضد کے کسی طرح ممکن نہیں. تو سوچنا چاہیے کہ دین کے مستقبل سے حقیقی دلچسپی رکھنے والوں کا فی الوقت سیاسی میدان میں اپنی قوتوں کو ضائع کرتے رہنا آخر چہ سود؟
اس سے بھی بڑھ کر ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے حق نصح کی ادائیگی کے طور پر یہ عرض کردیں گے کہ ملک کے سیاسی میدان میں اسلام کے نام پر جو کچھ ہوا اب تک تو وہ صرف لا حاصل اور بے کار ہی رہا ہے لیکن آئندہ انتہائی خطرناک بھی ہوسکتا ہے‘اور اس وقت خود حکمت عملی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس میدان سے پسپائی اختیار کرکے پوری قوت کو تعلیم وتدریس اور ذہنی و فکری انقلاب پر مرکوز کردیا جائے!یہ بات ہم بہت پہلے سے کہہ رہے ہیں لیکن اکثر و بیشتر ہماری بات کو کسی ضد یا تعصب پر محمول کیا گیا لیکن اب حقائق تلخ ترین صورت میں سامنے آ چکے ہیں. کاش کہ اب بھی لوگ سوچنے پر آمادہ ہوجائیں اور ایک غلط میدان میں قوتوں کو ضائع کرتے رہنے سے باز آجائیں!
تیسرا نتیجہ جو در اصل دوسرے نتیجے ہی کی منطقی انتہا ہے‘یہ ہے کہ چونکہ دین کا قصر بنیادوں تک منہدم ہوچکا ہے لہٰذا اس کی سرسری مرمت سے کام نہیں چل سکتا بلکہ ضرورت بنیاد سے از سرِ نو تعمیر کی ہے‘یا بالفاظ دیگر یہ مرحلہ در حقیقت ’’قیامِ نظامِ اسلامی‘‘ کا نہیں بلکہ’’ تجدید ایمان‘‘ اور ’’تعمیر یقین ‘‘کا ہے اور ’’احیائے اسلام‘‘ کے لیے لازم ہے کہ پہلے پورے معاشرے میں ’’احیائے ایمان‘‘ کی ایک ہمہ گیر تحریک برپا ہوجائے اور ایمان و یقین کی روشنی سے ہمارا معاشرہ جگمگا اٹھے.
اس مرحلے پر ایک نگاہ باز گشت اپنے معاشرے پر اس اعتبار سے دوبارہ ڈال لیجیے کہ اس کے مختلف طبقات میں ایمان اور یقین واقعتاً کس حال میں ہیں. ہماری رائے میں ایمان اور یقین کا جائزہ لینے کی غرض سے ہم اپنے معاشرے کو تین طبقات میں تقسیم کرسکتے ہیں:
سب سے بڑا طبقہ عوام الناس پر مشتمل ہے جن کے یہاں ایمان درحقیقت نام ہے چند موروثی عقائد کا جن کا ان کے فہم اور شعور سے کوئی تعلق نہیں. چنانچہ انہوں نے چند اعتقادات کو اپنے ذہن کے کسی گوشے میں بس رکھ تو لیا ہے لیکن ان کا کوئی لحاظ نہ رکھتے ہوئے زندگی کی عملی روش کو زمانے کے عام بہاؤ کے رخ پر ڈال دیا ہے .اس سے زیادہ کی ان سے توقع بھی فضول ہے.
دوسرا بڑا اور اہم ترین طبقہ پڑھے لکھے‘سمجھ دار اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے جن میں ڈاکٹر‘انجینئر‘وکلاء ‘سی ایس پی افسر‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر بلکہ یونیورسٹیوں کی زیر تعلیم نسل بھی شامل ہے.
اس طبقے کی اکثریت‘حقیقت یہ ہے کہ خالص ملحد لوگوں پر مشتمل ہے. یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے اکثر ’’خاموش ملحد‘‘ہیں اور اپنے الحاد کو زبان پرنہیں لاتے‘ اگرچہ ایک چھوٹی سی اقلیت ایسے نسبتاً زیادہ جری اور بے باک لوگوں کی بھی موجود ہے جو کھلم کھلا اپنے الحاد کا اقرار اور اعلان کرنے سے نہیں ہچکچاتے!
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جدید تعلیم یافتہ طبقے میں خاصی تعداد میں ایسے بھلے لوگ بھی موجود ہیں جو کم از کم ایک ثقافت کی حد تک اسلام کے دامن سے وابستہ ہیں اور کچھ نماز روزہ کرلیتے ہیں. تاہم زیادہ گہرے تجزئیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بھی ایک عظیم اکثریت ذہنی و فکری اعتبار سے دوغلی شخصیت (split personality) کی حامل ہے اور انہوں نے اپنے دماغ کے ایک کونے میں مذہب اور اس کے معتقدات کو رکھ چھوڑا ہے جبکہ دوسرے خانے میں جدید افکار و نظریات کو ‘اور ان دونوں کو متضاد متصور کرتے ہوئے بھی بیک وقت قبول کر رکھا ہے.
مثال کے طور پر جدید علم الحیات (Biology) جس شخص نے بھی پڑھا ہے وہ ڈاروِن کے نظریۂ ارتقاء کو ایک واقعہ تصو رکرنے پر مجبور ہے یا کم از کم اس کی تردید کے لیے کوئی تشفی بخش دلائل نہیں رکھتا. دوسری طرف عام خیال یہی ہے کہ یہ نظریہ قرآن حکیم کے نظریۂ تخلیق و ہبوطِ آدم کی عین ضد ہے. ہمارے ڈاکٹروں اور علم الحیوانات یا علم النباتات کے فارغ التحصیل لوگوں میں بہت سے ایسے نیک سرشت لوگ بھی موجود ہیں جو ان دونوں کو بیک وقت مانتے بھی ہیں اور ساتھ ہی ان کے دلوں میں یہ چور بھی موجود ہے کہ ہیں یہ دونوں چیزیں باہم متضاد اور ایک دوسرے کی کامل ضد!
حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم کے طبقہ متوسط کے بہت سے دینی مزاج رکھنے والے لوگ جو فعال مذہبی جماعتوں سے بھی وابستہ ہیں‘ خود اس باطنی روگ کا شکار ہیں کہ ان کے اپنے دین و ایمان کو جدید علوم و فنون اور نظریات و افکار نے اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے.
تیسرا طبقہ علماء کرام کا ہے. اس طبقے میں بلاشبہ کہیں کہیں علم و عرفان کی شمعیں روشن ہیں‘لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طبقے کی بھی اکثریت کا حال یہ ہے کہ اگرچہ ایمان کے اعلان میں سب سے زیادہ بلند و بانگ وہی ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی کیفیت خالص دنیا داری بلکہ دنیا پرستی کا نقشہ پیش کرتی ہے. چنانچہ عوام الناس میں ایک کہاوت مشہور ہوچکی ہے کہ ’’مولوی جو کہے اسے سن بھی لیا کرو اور حتی الامکان اس پر عمل کی کوشش بھی کرولیکن جو کرے اسے دیکھا مت کرو.‘‘یہ ہے حال ہمارے معاشرے کا ایمان اور یقین کے اعتبار سے!
چنانچہ ہمارے نزدیک تو ’’کرنے کا اصل کام‘‘ وہی ہے جو ہم نے تفصیل کے ساتھ اپنے کتابچے ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ‘‘ میں بیان کیا ہے. یعنی یہ کہ قرآن حکیم کی روشنی میں وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر ایک ایسی زبردست فکری تحریک برپا کی جائے جو ایک طرف منفی طور پر جدید مادہ پرستانہ اور ملحدانہ افکار و نظریات کا مدلل ابطال کرے اور دوسری طرف مثبت طور پر معاشرے کے پڑھے لکھے اور ذہین طبقے (Intelligentsia) کے قلوب و اذہان میں ایمان اور یقین کی شمعیں روشن کردے. اس لیے کہ جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے ‘ان کے قلوب میں تو نورِ ایمان صرف اصحاب یقین کی صحبت سے بھی پیدا ہوسکتا ہے اور یہ کام ہمارے معاشرے میں اس گئے گزرے دور میں بھی کسی نہ کسی درجے میں ہورہا ہے‘یعنی جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ‘علماء کرام کے حلقوں میں کہیں کہیں علم و عرفان کی جو شمعیں روشن ہیں ان سے عوام الناس کی حد تک ماحول میں کچھ نہ کچھ نورِ ایمان سرایت کر ہی رہا ہے‘لیکن متذکرہ بالا ذہین طبقہ اپنے ذہن کی ساخت اور مزاج کی افتاد کے اعتبار سے مجبوراً محتاج ہے کہ پہلے ان کے ذہن کی گرہیںکھولی جائیں‘اور اسے گمراہ کن افکار و نظریات سے خلاصی دلائی جائے‘تب ہی ان کے قلوب و اذہان ایمان اور یقین کی روشنی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوسکیں گے! اس موضوع پر ہم تفصیل کے ساتھ اپنے متذکرہ بالا کتابچے میں گزارشات پیش کرچکے ہیں. جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے ‘اس کا حال تو اس معاملے میں واقعتاً اب وہ ہوچکا ہے کہ ؎
ما ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
اِلا حدیث دوست کہ تکرار می کنیم
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ زندگی کو تعلیم و تعلّم قرآن ہی میں صرف کردینے کی توفیق عطا کیے رکھے! آمین.