جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں مغالطے

اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم 
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ (الحجرات:۱۴)
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (الصف)
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصف)
وَعَنِ الْحَارِثِ الْاَشْعَرِیِّ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : اَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ‘ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱)
وَعَنْ اَنَسٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : اَلْجِھَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الدَّجَّالَ (۲)

معزز حاضرین و محترم خواتین! ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے مرکزی عنوان کے تحت نوٹ: احادیث کے مکمل حوالہ جات کتابچے کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں. تین ذیلی عنوانات زیرگفتگو آئیں گے:

۱) جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں خود اپنوں کو اور غیروں کو کیا مغالطے لاحق ہو گئے ہیں؟
۲) جہاد فی سبیل اللہ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اور اس کے مراحل اور لوازم کیا ہیں؟
۳) اس کی فرضیت اور لزوم کا کیا معاملہ ہے؟ 


ہمارے دین میں عام طور پر جو ترتیب ملتی ہے وہ پہلے نفی اور پھر اثبات ہے. چنانچہ کلمۂ طیبہ میں بھی پہلے نفی ہے‘ پھر اثبات ہے : ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ.‘‘ اسی طرح آیت الکرسی کے بعد والی آیت میں الفاظ آئے ہیں :
فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ… (البقرۃ:۲۵۶)
’’ پھر جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لایا…‘‘

اسی حوالے سے میں پہلے مغالطوں کے بارے میں گفتگو کروں گا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں کون سے مغالطے ہیں جو اوّلاً خود مسلمانوں کو لاحق ہوئے‘ لیکن پھر ان پر دشمنانِ اسلام نے اسلام کی رسوائی اور بدنامی کی بنیاد کھڑی کر دی. ظاہر بات ہے کہ دشمنوں کا معاملہ تو فارسی کے اس شعر کے مصداق ہے ؎

نیشِ عقرب نہ از پئے کین است!
اقتضائے طبیعتش این است!

یعنی بچھو کا ڈنگ مارنا کسی کینے یا دشمنی کی وجہ سے نہیں ہے‘ بلکہ یہ اس کی طبیعت کا تقاضا ہے. تو دشمنوں کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسلام پر حملے کریں. لیکن اگر ہم نے خود اس کے لیے بنیاد فراہم کر دی ہو تو پہلے ہمیں اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیے.