جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں سب سے بڑا مغالطہ‘ جو بہت عام ہے اور صرف عوام ہی میں نہیں‘ خواص یعنی علماء کو بھی لاحق ہے‘ یہ ہے کہ ’’جہاد‘‘ کے معنی ’’ـ جنگ‘‘ کے ہیں. گویا کہ ’’جہاد‘‘ کو ’’قتال‘‘ کے مترادف باہم معنی قرار دے دیا گیا ہے . غور طلب بات ہے کہ لسانیات کا یہ بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی زبان کے دو الفاظ بالکل ایک مفہوم کے حامل نہیں ہوتے. اس سے آگے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ اور ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ قرآن مجید کی دو مستقل اصطلاحیں ہیں‘ جو قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوئی ہیں. مثلاً سورۃ الصف چودہ آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورۃ ہے اور اس میں یہ دونوں اصطلاحات آئی ہیں. اس کی آیت ۴ میں ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح بایں طور آئی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ (الصف)
’’یقینا اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘

آگے آیت نمبر۱۱ میں فرمایا: 
تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ
’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول ( ) پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے.‘‘

چنانچہ ان دونوں اصطلاحوں کو مترادف قرار دے دینا بہت بڑی غلطی ہے. یہ دونوں الفاظ بعض اوقات ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو جاتے ہیں اور قرآن مجید میں بھی یہ اس طرح استعمال ہوئے ہیں‘ اس کی مثالیں آگے آئیں گی‘ لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ دونوں قرآن کی مستقل اصطلاحات ہیں.

قرآن حکیم کی بنیادی اصطلاحات میں سے دو دو اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ جن کے مابین خاص اور عام کا رشتہ ہے. مثلاً ’’مؤمن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ بظاہر مترادف الفاظ ہیں کہ ایک ہی شخص کے لیے دونوں الفاظ کا استعمال ہو سکتا ہے‘ لیکن ’’مسلم‘‘ عام اصطلاح ہے اور ’’مؤمن‘‘خاص. یعنی ہر ’’مؤمن‘‘ تو لازماً ’’مسلم‘‘ ہے ‘ لیکن ہر مسلمان لازماً مؤمن نہیں ہے. چنانچہ آج جن آیات کے حوالے سے حقیقت جہاد اور اس کی فرضیت و لزوم کے ضمن میں گفتگو کی جائے گی ان میں وہ آیات بھی ہیں جن میں ان دونوں اصطلاحوں (مؤمن اور مسلم) کو علیحدہ کر دیا گیا ہے. اسی طرح اصطلاحات کا ایک اور جوڑا ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ ہے. نبی اور رسول میں کئی اعتبارات سے فرق کیا جاتا ہے‘ لیکن یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص.

یعنی ہر رسول تو لازماً نبی ہے‘ لیکن ہر نبی لازماً رسول نہیں ہے. جہاد اور قتال میں بھی بالکل یہی رشتہ ہے کہ ان دونوں میں عموم اور خصوص کی نسبت ہے.اس میں جہاد عام ہے اور قتال خاص ہے‘ یعنی قتال تو لازماً جہاد ہے‘ لیکن جہاد لازماً قتال نہیں ہے. ان تینوں جوڑوں کے بارے میں اہل علم نے بہت عمدہ اصول وضع کیا ہے : اِذَااْجتَمَعَاتَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَااجْتَمَعَا‘ یعنی جب کسی ایک جگہ پر یہ دونوں الفاظ اکٹھے آئیں گے تو یقینًا ان میں بہت بڑا فرق ہو گا‘ Simultaneous Contrast ہو گا‘ لیکن یہ الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوں گے.چنانچہ اگر ایک ہی جگہ مسلم اور مؤمن کے الفاظ آ رہے ہوں تو ان کے مفہوم میں لازماً فرق ہو گا. اسی طرح اگر ایک ہی جگہ جہا د اور قتال کے الفاظ آئیں‘ جیسا کہ سورۃ الصف کی مثال دی گئی ہے‘ تو لازماًفرق ہو گا. لیکن اگر دونوں علیحدہ علیحدہ استعمال ہو رہے ہوں تو یہ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہو سکتے ہیں‘ یعنی نبی کی جگہ رسول اور رسول کی جگہ نبی‘ اسی طرح جہاد کی جگہ قتال اور قتال کی جگہ جہاد ‘ اور مؤمن کی جگہ مسلم اور مسلم کی جگہ مؤمن کے الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں. بہرحال اس فرق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے.