جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور اس کے لزوم کے ضمن میں قرآن حکیم کا دوسرا مقام سورۃ الصف کی دو آیات ہیں‘ جن سے بالکل واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر نجات نہیں ہے نہ عذابِ الٰہی سے چھٹکارا ممکن ہے. فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ (الصف)
’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیا میں تمہاری رہنمائی کروں اس کاروبار کی طرف جو تمہیں عذابِ الیم سے چھٹکارا دلا دے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر (جیسے کہ ایمان لانے کا حق ہے) اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے. یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم واقعتا صحیح علم رکھتے ہو.‘‘

آیت کے آغاز میں 
یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ ایمان تو پہلے بھی موجود تھا‘ لیکن اس کے بعد جو یہ فرمایا گیا کہ ’’ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر‘‘ تو معلوم ہوا کہ پہلے سے موجود ایمان قانونی درجے کا ایمان تھا اور یہاںحقیقی ایمان کی بات کی جا رہی ہے. ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ’’جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے.‘‘ معلوم ہوا کہ ازروئے قرآن جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر نجات کا کوئی امکان نہیں‘ کیونکہ اس آیت میں جہاد کے بغیر نجات کی نفی ہو رہی ہے.