میں عرض کر چکا ہوں کہ نبی اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ میں صرف غزوۂ تبوک کے وقت نفیر عام ہوئی تھی‘ اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں ان میں صرف تشویق و ترغیب دلائی گئی کہ اے اہل ایمان‘ اللہ کی راہ میں نکلو! اللہ کی راہ میں جہاد کرو! لیکن اسے فرضِ عین قرار نہیں دیا گیا. آپﷺ کی پوری جدوجہد کے دوران‘ سوائے غزوۂ تبوک کے موقع کے‘ قتال سب مسلمانوں کے لیے لازم نہیں کیا گیا. اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ قتال ہر وقت نہیں ہوتا‘ اور جب ہو تو عام حالات میں وہ فرضِ کفایہ ہوتا ہے‘ سوائے اس کے کہ نفیر عام ہو. چنانچہ قتال فرضِ عین نہیں ہے.لہذا اگر کوئی قتال کے لیے نہیں نکلا تب بھی اس کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہو گیا‘ بلکہ فرمایا: وَکُلًا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ؕ ’’(ان دونوں میں سے) ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے.‘‘لیکن قتال فی سبیل اللہ کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر نکل آنے والوں کے لیے بہت بڑا اجر ہے.
اس کے مقابلے میں غزوۂ تبوک کے موقع پر نفیر عام تھی‘ لہذا اس موقع پر یہ انداز اختیار فرمایا گیا :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۳۸﴾اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا… (التوبۃ:۳۹)
’’اے اہل ایمان! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں (جنگ و قتال کے لیے) تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے. کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دے بیٹھے ہو؟ (اور اگر تم نے دنیا کی زندگی پسند کر لی ہے) تو جان لو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا ثابت ہو گا. اور اگر تم (قتال کے لیے) نہیں نکلو گے تو سن رکھو کہ اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا.‘‘
یہ دو مقامات میں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں. چنانچہ معلوم ہوا کہ جب قتال فرضِ عین بن جائے‘ یعنی نفیر عام ہو تو اس کی صورت اور ہو گی‘ ورنہ عام حالات میں قتال فی سبیل اللہ فرضِ کفایہ ہے‘ فرضِ عین نہیں ہے اور اس کے لیے تشویق و ترغیب سے کام لیا جائے گا. البتہ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر نجات کا کوئی تصور ممکن نہیں.