البتہ ایک بات سمجھ لیجیے کہ یہ معاملہ قتال کا نہیں ہے‘ بلکہ یہ جہاد کی بحث ہو رہی ہے. ’’قتال‘‘ کے ضمن میں سورۃ النساء کی آیت ۹۵ بہت اہم ہے. فرمایا:

لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۹۵
’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں (یعنی قتال نہیں کرتے) اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں (یہاں جہاد کا لفظ قتال کے معنی میں آیا ہے ) دونوں کی حیثیت برابر نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو بہت بڑا درجہ دیا ہے ان لوگوں کے مقابلے میں جو بیٹھے رہنے والے ہیں. اور (ان دونوں میں سے) ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے. اور اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں بہت بڑا اجر دیا ہے .‘‘

میں عرض کر چکا ہوں کہ نبی اکرم کی سیرتِ طیبہ میں صرف غزوۂ تبوک کے وقت نفیر عام ہوئی تھی‘ اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں ان میں صرف تشویق و ترغیب دلائی گئی کہ اے اہل ایمان‘ اللہ کی راہ میں نکلو! اللہ کی راہ میں جہاد کرو! لیکن اسے فرضِ عین قرار نہیں دیا گیا. آپ کی پوری جدوجہد کے دوران‘ سوائے غزوۂ تبوک کے موقع کے‘ قتال سب مسلمانوں کے لیے لازم نہیں کیا گیا. اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ قتال ہر وقت نہیں ہوتا‘ اور جب ہو تو عام حالات میں وہ فرضِ کفایہ ہوتا ہے‘ سوائے اس کے کہ نفیر عام ہو. چنانچہ قتال فرضِ عین نہیں ہے.لہذا اگر کوئی قتال کے لیے نہیں نکلا تب بھی اس کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ہو گیا‘ بلکہ فرمایا: وَکُلًا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ؕ ’’(ان دونوں میں سے) ہر ایک کے لیے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے.‘‘لیکن قتال فی سبیل اللہ کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھ کر نکل آنے والوں کے لیے بہت بڑا اجر ہے.

اس کے مقابلے میں غزوۂ تبوک کے موقع پر نفیر عام تھی‘ لہذا اس موقع پر یہ انداز اختیار فرمایا گیا :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ ؕ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۳۸﴾اِلَّا تَنۡفِرُوۡا یُعَذِّبۡکُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا… (التوبۃ:۳۹)
’’اے اہل ایمان! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں (جنگ و قتال کے لیے) تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے. کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دے بیٹھے ہو؟ (اور اگر تم نے دنیا کی زندگی پسند کر لی ہے) تو جان لو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا ثابت ہو گا. اور اگر تم (قتال کے لیے) نہیں نکلو گے تو سن رکھو کہ اللہ تمہیں دردناک عذاب دے گا.‘‘

یہ دو مقامات میں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں. چنانچہ معلوم ہوا کہ جب قتال فرضِ عین بن جائے‘ یعنی نفیر عام ہو تو اس کی صورت اور ہو گی‘ ورنہ عام حالات میں قتال فی سبیل اللہ فرضِ کفایہ ہے‘ فرضِ عین نہیں ہے اور اس کے لیے تشویق و ترغیب سے کام لیا جائے گا. البتہ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر نجات کا کوئی تصور ممکن نہیں.