اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جہاد کی اصطلاح کس مفہوم میں استعمال ہوتی ہے. قرآن حکیم میں جہاد کا لفظ سب سے پہلے مکی سورتوں میں آیا ہے‘ لیکن وہاں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے نہیں. سورۃ الحج کی آخری آیت میں فرمایا: وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ’’جہاد کرواللہ کے لیے جیسا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے.‘‘ اسی طرح سورۃ العنکبوت کی آخری آیت ملاحظہ فرمائیں‘ ارشاد ہوا: وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ’’جو لوگ ہمارے لیے جہاد کریں گے (محنت‘ کوشش‘ جدوجہد کریں گے) ہم ان کے لیے اپنے راستے کھولتے چلے جائیں گے (اور ان کے لیے رہنمائی دیتے چلے جائیں گے).‘‘
اس سے آگے بڑھ کر پھر مدنی سورتوں میں اس کے ساتھ لفظ ’’سبیل‘‘ کا اضافہ ہو گیا اور جہاد فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں جہاد) ایک اصطلاح بن گئی. اسی طرح ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ بھی ایک اصطلاح بن گئی.
انسان جو جدوجہد اور محنت کرتا ہے اس میں وہ دو چیزیں کھپاتا ہے‘ یعنی مال اور جان. لہذا جہاد کے ساتھ ’’بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں. یعنی آپ کے پاس جو بھی وسائل و ذرائع ہیں‘ جو بھی اللہ نے آپ کو دولت دی ہے اس کو اس مقصد کے لیے خرچ کیجیے‘اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیت‘ سمجھ‘ شعور اور ذہانت دی ہے اس کو بھی اللہ کی راہ میں لگایئے.
جہاد فی سبیل اللہ ’’بِالْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ‘‘ کے علاوہ ’’بِ‘‘ کے تعدیہ کے ساتھ قرآن مجید میں تو صرف ایک اصطلاح مزید آئی ہے وہ ہے ’’جہاد بالقرآن‘‘ یعنی قرآن کے ذریعے سے جہاد. جہاد کے لیے ہتھیار کیا ہو گا؟ کس چیز سے جہاد کریں گے؟ قرآن کے ذریعے سے! ’’جہاد بالقرآن‘‘ کی اصطلاح سورۃ الفرقان میں وارد ہوئی ہے‘ جس کا آغاز ہی تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾کے الفاظ سے ہوتا ہے. یعنی ’’نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کر دینے والا ہو.‘‘اس سورۃ کے تانے بانے میں قرآن مجید سے متعلق مضامین بنے ہوئے ہیں. اسی میں فرمایا گیا : فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ (آیت:۵۲) ’’پس (اے نبیؐ !) آپ ان کافروں کی بات ہرگز نہ مانئے اور اس قرآن کے ذریعے سے ان کے خلاف پورے زور و شور سے جہاد جاری رکھئے!‘‘ (’’جہاد بالقرآن‘‘ کے موضوع پر میرا کتابچہ بھی موجود ہے‘ جس میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے.)
اس ضمن میں حدیث میں تین اصطلاحات مزید آئی ہیں: (۱) جہاد بالقلب: کسی شے سے شدید قلبی نفرت‘ یہ بھی درحقیقت ایک جہاد ہے. (۲) جہاد باللسان: کسی برائی کے خلاف زبان کھولنا. یہ اس کا اگلا درجہ ہے. (۳) جہاد بالید: ہاتھ سے یعنی طاقت اور قوت سے برائی کے خلاف کوشش کرنا.یہ گویا سب سے اونچا درجہ ہے. یہ درجات صحیح مسلم کی دو احادیث میں بیان ہوئے ہیں. پہلی حدیث حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۴) ’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ (کی قوت) سے اس کو بدل ڈالے‘ پھر اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (اس کے خلاف آواز اٹھائے)‘ لیکن اگر وہ اس کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو تواپنے دل سے (اس برائی سے نفرت رکھے)‘ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘
اس مضمون کو لفظ جہاد کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے اللہ نے کسی نبی کو اس کی اُمت کی طرف مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے کچھ نہ کچھ صحابی اور حواری ہوتے تھے جو اس کی سنت کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اس کے حکم کے مطابق چلتے تھے‘ لیکن بعد میں ایسے ناخلف لوگ آ جاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا.
فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ‘ وَلَیْسَ وَرَآئَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ (۵)
’’پس جو کوئی ایسے لوگوں کے خلاف اپنے ہاتھ (طاقت) سے جہاد کرے گا وہ مؤمن ہو گا‘ اور جو ان کے خلاف اپنی زبان سے جہاد کرے گا وہ مؤمن ہو گا‘ اور جو ان کے خلاف اپنے دل سے جہاد کرے گا (ان کے کرتوتوں سے شدید نفرت رکھے گا) وہ مؤمن ہو گا‘ اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں.‘‘
واضح رہے کہ عام طور پر قتال کے لیے ’’جہاد بالسیف‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے. اس طرح ’’ب‘‘ کے اضافے کے ساتھ یہ پانچ اصطلاحیں ہمارے سامنے آ گئیں:
جہاد بالقرآن‘ جہاد بالقلب‘ جہاد باللسان‘ جہاد بالید‘ جہاد بالسیف.