’’جہاد فی سبیل …‘‘ کی تین منزلیں ہیں:
(۱) جہاد فی سبیل الحیاۃ
جہاد فی سبیل… کی پہلی منزل جہاد فی سبیل الحیاۃ ہے. یعنی زندہ رہنے کے لیے جہاد.اسے علامہ اقبال نے ’’جہادِ زندگانی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ؎
یقین محکم ‘ عمل پیہم ‘ مُحبّت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں!
نظریۂ ارتقاء کے حوالے سے ایک اصطلاح Struggle for Existance اسی مفہوم میں استعمال ہوتی ہے.ظاہر ہے کہ زندہ رہنے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر کسی کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس میں اپنے ابنائے نوع سے مسابقت (Competition) کا معاملہ درپیش ہوتا ہے.مثال کے طور پر اگر کہیں ملازمت کی ایک جگہ نکلتی ہے تو اس کے لیے سینکڑوں درخواستیں آتی ہیں اور ہر درخواست کنندہ اپنا سا زور لگا رہا ہوتا ہے‘ سفارش کروائی جاتی ہے اور بھاگ دوڑ کی جاتی ہے. یہ سب اس لیے کہ معاش کی ایک شکل پیدا ہو جائے. ’’جہاد فی سبیل الحیاۃ‘‘ گویا کہ ہر ذی حیات (Living Organism) کا لازمہ ہے. ہر شے جو زندہ ہے اس کو اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے مسلسل جہاد کرنا پڑتا ہے.اسی تصور میں ’’بقائے اَصلح‘‘ (Survival of the fittest) کا تصور شامل کیا جاتا ہے.
زندگی کا یہی جہاد اگر بندۂ مؤمن کرتا ہے تو یہ اس کے لیے عبادت کے درجے میں ہو گا‘ بشرطیکہ وہ احکامِ الٰہی کی پابندی کرتا ہو. اگر وہ اپنے ہاتھ کی محنت سے اپنی معاش کما رہا ہے تو اس کے لیے’’اَلْـکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ‘‘ کی بشارت ہے. چنانچہ ایک بندۂ مؤمن حلال اور حرام کی حدود کو قائم رکھتے ہوئے‘ حلال پر اکتفا کر تے ہوئے اور حرام سے قطعی طور پر بچتے ہوئے ’’جہاد فی سبیل الحیاۃ‘‘ کر رہا ہے تو یہ اس کے لیے عبادت کے درجے میں ہے. تاہم اس کے لیے ایک اور خاص قسم کے جہاد کی ضرورت ہو گی‘ جو بعد میں بیان کیا جائے گا.
(۲) جہاد فی سبیل الحقوق
’’جہاد فی سبیل الحیاۃ‘‘ سے بلند تر منزل ’’جہاد فی سبیل الحقوق‘‘ کی ہے. اپنے حقوق کی جدوجہد میں سب سے بڑا جہاد ’’جہاد فی سبیل الحریت‘‘ ہے. آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور آزادی کے حصول کے لیے جہاد مسلمان اور غیر مسلم سب کرتے رہے ہیں. تیسری دنیا نے نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کی تو محنت‘ جدوجہد اور جہاد کے نتیجے میں. عجیب بات یہ ہے کہ سب لوگوں نے آزادی کی راہ میں جان دینے والوں کے لیے ’’شہید‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے. ہندو بھی شہید کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں. جن مجاہدین آزادی نے آزادی کے حصول کے لیے اپنی جانیں قربان کیں وہ ان کے شہداء ہیں. بنگلہ دیش میں جن لوگوں نے پاکستان سے علیحدگی کے لیے جانیں دیں ان کے لیے بھی شہداءِ بنگلہ دیش کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.
جہاد فی سبیل الحریت کو مَیں نے جہاد فی سبیل الحقوق سے خاص کیا ہے. اس لیے کہ شیر کے مُنہ میں سے نوالا نکالنا آسان کام نہیں ہوتا. جن طبقات نے لوگوں کے حقوق غصب کیے ہوئے ہیں ان کے چنگل سے نکلنا آسان کام نہیں. سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کی گرفت سے نکلنا آسان نہیں. اسی طرح اگر کسی قوم نے دوسری قوم کو غلام بنا لیا ہے تو اس سے آزادی حاصل کرنا آسان کام نہیں‘ لہٰذا اس کے لیے جہاد ہو سکتا ہے‘ بلکہ قتال کی ضرورت پیش آ سکتی ہے. یہ جہاد اگر کوئی مسلمان شریعت کے حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے کرتا ہے تو یہ جائز ہے ‘ اور اگر اس میں اپنی جان دیتا ہے تو وہ مرتبہ شہادت پر فائز ہوتا ہے‘ اگرچہ درجے کے اعتبا ر سے یہ شہادت وہ نہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں جان دینے سے ہوتی ہے. ع گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی! شہادت کے درجات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا‘ لیکن بہرحال یہ مرتبہ شہادت ہی ہے. رسول اللہﷺ نے تو یہاں تک فرمایا: مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ (۶) ’’جو کوئی اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا تو وہ شہید ہے.‘‘ یعنی کسی مؤمن پر اگر ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے تو اس کے سامنے دو راستے ہیں‘ یا تووہ کہے کہ میری جان بخشی کرو اور جو کچھ میرے پاس ہے وہ لے لو‘ اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے مال کی حفاظت میں ڈٹ جائے اور مقابلہ کرے. اس صورت میں اگر وہ مارا گیا تو اس کا درجہ شہید کا ہے.
(۳) نظریہ اور نظام کی سطح پر جہاد
اگر آپ کسی خاص نظریئے کے قائل ہوگئے ہوں‘ اس کی حقانیت آپ کے دل میں جاگزیں ہو گئی ہو اور اب آپ چاہتے ہوں کہ اس نظریئے کا پرچار ہو‘ اس نظریہ پر مبنی نظام قائم ہو اور اس کے منافی نظام کو ختم کیا جائے اور اس پورے نظام کی دھجیاں بکھیر دی جائیں (علامہ اقبال کے الفاظ میں ’’برہم زن‘‘اور شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں فَکُّ کُلِّ نِظَامٍ) تو یہ جہاد کی بلند ترین منزل ہے. اس کا تعلق انسان کے خیالات‘ نظریات‘ عقائد اور سوچ و فکر سے ہے. ظاہر بات ہے پھر اس نظریئے پر مبنی جہاد ہو گا. اپنے پسندیدہ نظریئے کو پھیلانا‘ عام کرنا اور اس نظریئے پر مبنی نظام قائم کرنے کے لیے جہاد نظریاتی جہاد ہو گا. فرض کیجیے اگر کسی کے ذہن میں اشتراکیت کا فلسفہ بیٹھ گیا ہے اور وہ اسی کو صحیح سمجھتا ہے‘ تاریخ کی یہی تعبیر اسے درست معلوم ہوتی ہے تو اب اگر اس نے اس نظریئے کو پھیلایا اور اس کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی تو یہ ’’جہاد فی سبیل الاشتراکیہ‘‘ ہے.
عوام کے جمہوری حقوق کے لیے آواز اٹھانا‘ جاگیرداری نظام سے آزادی حاصل کر کے جمہوریت کے قیام کی جدوجہد کرنا ’’جہاد فی سبیل الدیموکراتیہ‘‘ ہے. اسی طرح ایک جہاد ’’فی سبیل الشرک‘‘ ہے‘ یعنی شرک کے حق میں جہاد کرنا.اس معنی میں یہ لفظ (جہاد) قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے کہ مشرک والدین اگر تم سے جہاد کریں کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو تو ان کی اطاعت مت کرنا. سورۃ العنکبوت میں الفاظ آئے ہیں : وَاِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَالَـیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا اور سورۃ لقمان میں فرمایا: وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَـیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا مشرک والدین کے نوجوان بیٹھے جب ایمان لے آئے تو ان پر مشرک والدین کا بھرپور دباؤ یہ تھا کہ واپس آ جاؤ اور اس دین کو چھوڑ دو. ان کا دباؤ اور کوشش درحقیقت جہاد فی سبیل الشرک ‘ فی سبیل الکفر اور فی سبیل الطاغوت تھا.چنانچہ قرآن مجید میں یہ آیت بھی آئی ہے : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ… (النساء:۷۶) ’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں…‘‘ظاہر بات ہے بدر میں ابوجہل اور اس کے ساتھی بھی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر آئے تھے‘لہذا وہ بھی مجاہد تھے‘ لیکن وہ مجاہد فی سبیل الشیطان‘ فی سبیل الشرک اور فی سبیل الطاغوت تھے. جبکہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ مجاہدین فی سبیل اللہ تھے.
یہاں آ کر اب ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح معیّن ہوئی. ’’جہاد‘‘ کی تیسری منزل کسی نظریئے اور نظام کی بنیاد پر جہاد ہے اور اسلام میں وہ نظریہ ایمان ہے. ایمان کے اس نظریئے پر ایک نظام قائم ہوتا ہے. اس نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے.