۱ -جہاد مع النفس :

پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی بندۂ مؤمن جہاد فی سبیل الحیاۃ‘ یعنی زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تو اگر وہ یہ جدوجہد حلال و حرام کی حدود کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ یعنی حرام سے بالکلیہ اجتناب کرتے ہوئے اور صرف حلال پر اکتفا کرتے ہوئے کر رہا ہے تو وہ اس کے لیے عبادت کے درجے میں ہے. اپنے آپ کو احکامِ شریعت کا پابند بنانے کے لیے بھی جہاد کی ضرورت ہے اور یہ جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی منزل ہے. خود مسلمان ہونے کے لیے‘ خود اللہ کی اطاعت پر کاربند رہنے کے لیے ‘ شریعت کو اپنے اوپر نافذ کرنے کے لیے‘ اپنے وجود پر اللہ کا حکم قائم کرنے کے لیے‘ خود اپنی ذات پر خلافت کا نظام قائم کرنے کے لیے جہاد کرنا جہاد فی سبیل اللہ کی اوّلین منزل ہے.

واضح رہے کہ اوّلین ہونے کے ناطے یہ اہم ترین بھی ہے. اس لیے کہ اس پہلی منزل پر دوسری منزل تعمیر ہو گی‘ جو بلند تر ہو گی‘ اس کے اوپر تیسری منزل اس سے بھی بلند تر ہو گی. لیکن اہم ترین پہلی منزل ہے‘ کیونکہ پہلی منزل وجود میں آئے گی تو اس پر دوسری منزل بنے گی اور دوسری منزل موجود ہو گی تو تیسری بنے گی . اوپر کی دو منزلوں کی پختگی اور مضبوطی کا دار ومدار بالکلیہ پہلی منزل پر ہے. اس حوالے سے جہاد فی سبیل اللہ کی اوّلین منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ شریعت کے اوامر و نواہی کا پابند ہونے کے لیے جہاد کیا جائے. اس کے لیے سب سے پہلے اپنے نفس امارہ کے خلاف جہاد ضروری ہے.

ایمان کا نور قلب میں پیدا ہوتا ہے. جیسے کہ فرمایا: 
مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ (النور:۳۵’’اُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہو.‘‘ حضرت عبداللہ بن عباس iکے نزدیک یہاں ’’فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ‘‘ کے الفاظ محذوف ہیں.یعنی ’’مَثَلُ نُوْرِہٖ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ‘‘ . مؤمن کے دل میں جو نورِ ایمان آتا ہے وہ دو اجزاء نورِ فطرت اور نورِ وحی پر مشتمل ہوتا ہے. چنانچہ اس کے بارے میں فرمایا : نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ

اب انسان میں حیوانی تقاضے (Animal Instincts) بھی موجود ہیں جو بہت زوردار ہیں.ظاہر بات ہے کہ زندہ رہنے کا تقاضا بہت شدید ہے‘ زندہ رہنے کے لیے اسے کھانے پینے کو بھی چاہیے‘ اسے رزق اور تسکین چاہیے. پھر صرف یہ نہیں کہ وہ ضرورت کی حد تک ہو‘ بلکہ اس میں کچھ لذّات بھی ہوں‘ اللہ نے taste Buds پیدا کیے ہوئے ہیں. پھر یہ کہ اپنی نسل کی بقاء کے لیے اس کے اندر ایک جنسی جذبہ موجود ہے.فرائڈ کے نزدیک تو یہ انسان کے اندر سب سے قوی جذبہ ہے اور انسانی محرکاتِ عمل میں یہ جذبہ سب سے زیادہ طاقتور ہے.انسان کے خاکی وجود میں جو حیوانی داعیات موجود ہیں وہ تو اپنی تسکین چاہتے ہیں‘ انہیں حلال و حرام سے کوئی غرض نہیں. چنانچہ پیٹ بھرا ہونا چاہیے‘ زبان کو چٹخارہ چاہیے‘ جنسی جذبہ بھی اپنی تسکین چاہتا ہے. یہ تمام instincts اندھے بہرے ہیں‘ انہیں جائز و ناجائز اور حلال و حرام سے کوئی بحث نہیں. یہ گویا کہ انسان پردباؤ ڈالتے ہیں اور اسے مجبور کرتے ہیں . سورۃ یوسف کی آیت ۵۳ میں اس کی تعبیر یوں کی گئی ہے : اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ ’’نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے.‘‘ یعنی ہمارے اندر کا حیوان جو تمام حیوانی تقاضے رکھتا ہے‘ انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے. گویا ؎

’’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے!‘‘

کے مصداق انسان کو اس کی روح نیکی کی طرف کھینچ رہی ہے اور دوسری طرف اس کا نفس اسے برائی کی طرف کھینچ رہا ہے. چنانچہ ہمارے اندرونی میدانِ جنگ میں کشاکش خیر و شر برپا ہے‘ جس کے دو فریق ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف زورآزمائی کر رہے ہیں. نفسِ انسانی کے لیے مولانا روم نے اس شعر میں بہترین تعبیر کی ہے ؎

نفسِ ما ہم کم تر از فرعون نیست
لیکن او را عون ایں را عون نیست!

یعنی یہ میرا نفس بھی فرعون سے کم نہیں ہے. اس لیے کہ جیسے فرعون نے کہا تھا کہ اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ (الزخرف:۵۱’’کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے؟ اور یہ سارا آبپاشی کا نظام میرے کنٹرول میں نہیں ہے؟‘‘ مَیں جس کا پانی چاہوں جاری رکھوں اور جس کا چاہوں بند کر دوں‘ یہ میرے اختیار میں ہے. اس طرح یہ نفس کہتا ہے کہ یہ وجود میرا ہے‘ اس پر میرا حکم چلے گا‘ مجھے اس سے غرض نہیں کون خدا ہے‘ کیا اس کا حکم ہے. اسی طرح یہ نفس کہتا ہے مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے؟ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے‘ میری خواہشات ‘ میرے جذبات اور میری شہوات کی تسکین ہونی چاہیے. فرق صرف یہ ہے کہ فرعون کے پاس لائو لشکر بھی تھا‘ مدد (فوج) تھی‘ لہذا اس نے زبان سے بھی کہہ دیا اَنَا رَبُّـکُمُ الْاَعْلٰی کہ میں ہی تمہارا بڑا رب ہوں. لیکن میرے نفس کے پاس کوئی فوج نہیں ہے‘ اس کے کوئی اعوان و انصار نہیں ہیں‘ لہذا یہ زبان سے خدائی کا دعویٰ نہیں کرتا.

اب یہاں ایک حدیث شریف ملاحظہ کیجیے جس میں نفس کے خلاف جہاد کو ’’افضل الجہاد‘‘ قرار دیا گیا ہے. حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
اَفْضَلُ الْجِھَادِ اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی (۷’’افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کرو‘‘.

یہاں دو الفاظ ’’افضل‘‘ اور ’’اعلیٰ‘‘ کا فرق نوٹ کر لیجیے. ’’اعلیٰ‘‘ یعنی بلند ترین تیسری منزل ہے‘ لیکن افضل پہلی منزل ہے‘ اس اعتبار سے کہ یہ مضبوط اور مستحکم ہو گی تو اس پر اگلی منزل کی تعمیر کا سوال پیدا ہوگا. اگر یہی کمزور ہے اور اوپر آپ نے مزید بوجھ ڈال دیا تو پوری عمارت ہی بیٹھ جائے گی. ایک حدیث میں رسول اللہ نے ’’افضل‘‘ اور ’’اعجب‘‘ کا فرق کیا ہے. ہمیں معلوم ہے کہ افضل ایمان تو بلاشک و شبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے‘ یہاں تک کہ ادنی ٰسے ادنی ٰ صحابیؓ کا ایمان بھی بڑے سے بڑے ولی اللہ سے افضل ہے. حضور نے صحابہ کرامؓ سے دریافت فرمایا:’’کیا تم جانتے ہو کہ 
’’اَعجبُ الایمان‘‘ کون ہے؟‘‘یعنی سب سے زیادہ خوبصورت‘ عجیب اور دل کو لبھانے والا ایمان کس کا ہے؟ صحابہؓ نے جواب میں عرض کیا کہ فرشتوں کا ایمان‘ جو کہ اللہ کے حضور میں ہیں. آپ نے فرمایا: وَمَالَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ’’وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ تو اپنے ربّ کے پاس ہی ہیں؟‘‘ایمان میں ان کا اپنا کون سا کمال ہوا؟ دوسری مرتبہ صحابہؓنے عرض کیا: رسولوں کا ایمان! آپ نے فرمایا: وَمَالَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْھِمْ ’’وہ کیسے ایمان نہ لاتے‘ ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے‘‘. پھر صحابہ کرامؓ نے بڑی جرأت کر کے عرض کیا :’’فَنَحْنُ‘‘ پھر ہمارا ایمان اَعجب ہے!آپ نے فرمایا: وَمَالَـکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَاَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ ’’تم کیسے ایمان نہ لاتے جبکہ میں تمہارے مابین بنفس نفیس موجود ہوں.‘‘ پھر آپ نے فرمایا: 

اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا لَقَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فیھا کِتَابٌ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْھَا (۸)
’’میرے نزدیک مخلوق میں خوبصورت ترین (اور دل کو لبھانے والا) ایمان تو ان لوگوں کا ہو گا جو میرے بعد آئیں گے (ان کو میری صحبت سے حصہ نہیں ملے گا)‘ انہیں (اللہ کی) کتاب کے اوراق ملیں گے تو وہ ان میں موجود حقائق پر ایمان لائیں گے.‘‘

چنانچہ اَعجب ایمان تو بعد والوں کا ہے جبکہ افضل ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے. اس طرح اعلیٰ جہاد‘ جہاد کی آخری منزل قتال فی سبیل اللہ ہے‘ لیکن افضل جہاد‘ جہاد مع النفس ہے.


۲
 . شیطانِ لعین اور اس کے غیر مرئی لشکر کے خلاف جہاد :

شیطان ہمارے نفسانی تقاضوں میں پھونکیں مارتا اور انہیں مشتعل کرتا ہے. شیطان ہمیں ورغلاتا ہے‘برے راستے کو مزین کر کے دکھاتا ہے ‘ اس لیے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے. قرآن حکیم میں ارشاد ہوا: اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَــکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا (فاطر:۶’’درحقیقت شیطان ہمارا دشمن ہے‘ لہذا تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو.‘‘ سورۃ کہف میں شکوے کے انداز میں فرمایا: اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا ﴿۵۰﴾ ’’کیا تم مجھے چھوڑ کر ابلیس اور اس کی ذریت (اس کے ایجنٹ اور چیلے چانٹوں) کو اپنا دوست (اور سرپرست) بناتے ہو‘ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ بہت ہی برا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں.‘‘ میری دوستی اور میری ولایت کو چھوڑ کر انہوں نے شیطانِ لعین کے ساتھ دوستی گانٹھ لی ہے؟ شیطان کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے : اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ ؕ (الاعراف:۲۷’’شیطان اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے تاکتے ہیں (اور وہاں سے حملہ آور ہوتے ہیں) جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے.‘‘ایک غیر مرئی شیطان (جن) تو ہر انسان کے ساتھ لگا دیا گیا ہے جو اسے برائی پر اکساتا رہتا ہے.
ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (۹) (متفق علیہ) یعنی ’’شیطان تو انسان کے وجود میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جیسے کہ خون گردش کرتا ہے.‘‘ اب اس کی دو توجیہات ممکن ہیں. ایک تو یہ کہ یہ شیاطین چونکہ جِنّات ہیں اور ان کا مادہ تخلیق نار ہے اور نار ایک لطیف شے ہے‘ لہذا اس کی لطافت کی وجہ سے وہ واقعتا انسان میں سرایت ہی کر جاتے ہوں. دوسرے یہ کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے نفس کو مشتعل کر دیتے ہوں‘اور چونکہ نفس ہمارے پورے انسانی وجود کو کنٹرول کر رہا ہے‘ تو اس طرح گویا وہ بالواسطہ ہمارے پورے وجود میں سرایت کر جاتے ہوں. واللہ اعلم.

۳ . بگڑے ہوئے معاشرے کے خلاف جہاد:

اگر کوئی معاشرہ بگڑ گیا ہے اور اس کے رجحانات غلط ہو گئے ہیں تو اس کا ایک دباؤ ہوتا ہے جو انسان کو غلط رُخ کی طرف لے جانا چاہتا ہے. ہر شخص کو ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہو گا کہ کوئی ہجوم ایک رُخ پر جا رہاہو تو اُس رُخ پر چلنا بہت آسان ہو جاتا ہے‘ لیکن اس کے خلاف چلنے کے لیے بڑی مشقت و محنت کی ضرورت ہوتی ہے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑا زور لگا کر آپ دوچار قدم آگے بڑھائیں لیکن اس ہجوم کا ایک ریلا آئے اور وہ آپ کو دھکیل کر پھر دس قدم پیچھے لے جائے.لہذا اگر معاشرے کا رُخ بے حیائی کی طرف ہے‘ معاشرہ اللہ کی بغاوت کی طرف چل رہا ہے اور سب لوگ اس حال میں خوش و خرم‘ مسرور اور مگن ہیں اور وہ اس رخ پر بڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ تو ان میں سے کسی ایک شخص کا اللہ کی طرف رخ کرکے بڑھنا اور ’’اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا‘‘ کا اعلان کرنا آسان کام نہیں ہے.
ایسے شخص کو اس معاشرے کے خلاف شدید جدوجہد کرنی پڑے گی‘ اور ہو سکتا ہے کہ اسے سب سے پہلے اپنے گھر والوں کے خلاف ہی جہاد کرنا پڑے. سورۃ التغابن میں فرمایا:

یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ
’’ اے اہل ایمان! تمہاری اپنی بیویوں اور تمہاری اولاد میں تمہارے دشمن موجود ہیں‘ لہٰذا ان سے بچ کر رہو.‘‘

اور پھر یہ کہ مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا ہے. چنانچہ یہ سارا معاملہ گھر سے شروع ہو جائے گا. پھر رشتہ داری اور برادری کا معاملہ ہے. آپ نے اس معاشرے میں رہنا ہے اور اس کے اپنے غیر اسلامی رسوم و رواج ہیں. تو اب برادری اور قبیلے سے کیسے کٹ جائیں؟ اس کا دباؤ ہے. اب آپ کے سامنے دو ہی راستے ہیں. آسان راستہ تو یہ ہے کہ ع ’’زمانہ باتو نہ سازد توبازمانہ بساز!‘‘یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کر رہا ہے تو تم زمانے کے ساتھ موافق ہو جاؤ اور اسی رنگ میں ڈھل جاؤ. اس طرح کھینچا تانی (friction) ختم ہو جائے گی. اختلاف اور مزاحمت تو اسی وقت ہوتی ہے کہ لوگ اُدھر جا رہے ہوں اور تم اِدھر آ رہے ہو‘ لیکن اگر تم نے بھی وہی رخ اختیار کر لیا تو سیدھا اور آسان راستہ ہے. لیکن جس چیز کو جہاد کہا جائے گا وہ یہ ہے کہ ع ’’زمانہ باتونہ سازد تُو بازمانہ ستیز!‘‘ یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کر رہا ہے تو تم زمانے سے جنگ کرو‘ اس کے خلاف لڑو‘ جہاد کرو.

یہ تھی جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی منزل‘ جس کے تین مراتب یا مدارج (sub stages) میں نے آپ کو بتائے ہیں.