باطل عقائد و نظریات کے خلاف جہاد کے لیے دین کی بہت سی اصطلاحات ہیں. مثلاً ’’دعوت و تبلیغ‘‘ ایک اصطلاح ہے.ان دونوں الفاظ میں بڑا پیارا رشتہ ہے. تبلیغ میں آپ کسی کے پاس اپنی بات پہنچانے کے لیے جانتے ہیں اور دعوت میں آپ اُسے کھینچ کر اپنی بات کی طرف لاتے ہیں. درحقیقت یہ ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں. اسی طرح اس کے لیے ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ اور’’وعظ و نصیحت‘‘ جیسی اصطلاحات بھی مستعمل ہیں. اور اس ضمن میں جامع ترین اصطلاح ’’شہادت علی الناس‘‘ ہے‘ یعنی دعوت کا حق اس حد تک ادا کر دینا کہ قیامت کے دن کھڑے ہو کر یہ گواہی دے سکو کہ اے اللہ! ہم نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا. یہ اصلاً انبیاء و رسل کی ذمہ داری تھی‘ جو ختم نبوت کے نتیجے میں اس اُمّتِ مسلمہ کے سپرد کر دی گئی ہے. سورۃ الحج کے آخری رکوع میں فرمایا:
اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ (الحج:۷۵)
’’اللہ چن لیتا ہے فرشتوں میں سے بھی اپنے پیغامبر اور انسانوں میں سے بھی.‘‘
رسول‘ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے برگزیدہ بندے تھے. ان کے پاس اللہ کا پیغام فرشتوں کے ذریعے آتا تھا جو وہ لوگوں تک پہنچا دیتے تھے.جب لوگ اس پیغام کو فراموش کر دیتے تو اس کی یاد دہانی کے لیے ایک اور رسول آ جاتا. فرشتہ اور رسول دونوں ہی اللہ کے فرستادہ اور پیغامبر ہوتے تھے‘ ایک رسولِ ملک ہوتا اور ایک رسولِ بشر. یہ سلسلہ محمد رسول اللہﷺ تک چلتا رہا‘ جو اللہ کے آخری رسول ہیں. رسولِ ملک جبرائیل علیہ السلام ہیں اور رسولِ بشر محمدﷺ . جبرائیل علیہ السلام نے اللہ سے پیغام لے کر محمدﷺ تک پہنچایا اور محمدﷺ نے جبرائیل علیہ السلام سے لے کر اُمت تک پہنچایا. اب امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے پوری نوعِ انسانی کو پہنچائے. اس لیے کہ محمد رسول اللہﷺ آخری رسول ہیں اور وہ تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوئے ہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی:
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا… (سبا:۲۸)
’’اور (اے نبی!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا بنا کر.‘‘
یہ آیت تو بعد میں نازل ہوئی تھی‘ حضور ﷺ نے تو یہ بات اپنے بالکل ابتدائی خطرے میں ارشاد فرمادی تھی. جب آپؐ نے بنو ہاشم کو دعوت دے کر جمع کیا اور کھانا کھلایا تو اس موقع پر آپﷺنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ الفاظ موجود ہیں:
وَاللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ ‘ اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَـیْـکُمْ خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّـۃً (نھج البلاغۃ)
’’اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے‘ میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف بالخصوص اور پوری نوعِ انسانی کی طرف بالعموم.‘‘
اب ظاہر بات ہے کہ دعوت و تبلیغ کا یہ حق کون ادا کرے گا؟ اُمّت کے خلاف شہادت تو رسول اللہﷺ دیں گے کہ اے اللہ! تیرا جو پیغام آیا تھا وہ میں نے ان کو پہنچا دیا تھا. اسی لیے حجۃ الوداع میں آپؐ نے ایک لاکھ سے زائد مجمع سے یہ گواہی لے لی : اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ ’’لوگو! میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا یا نہیں؟‘‘جواب میں صحابہ کرامؓ نے فرمایا:
’’اِناَّ نَشْھَدُ اَنـَّـکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ‘‘
(ہاں! ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے رسالت کا حق ادا کر دیا ہے‘ امانت کا حق ادا کر دیا ہے اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا ہے.)
یہ گواہی تین دفعہ دہرائی گئی. اس کے بعد آنحضورﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا: اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ! پھر آپؐ نے فرمایا: فَلْیُبَلِّـغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۱۲)
یعنی ’’اب یہ ان کی ذمہ داری ہے جو یہاں موجود ہیں کہ پہنچائیں ان کو جو یہاں موجود نہیں ہے.‘‘اس میں وہ تمام انسان شامل ہو گئے جو اُس وقت موجود تھے اور جو موجود نہیں تھے اور جو قیامت تک دنیا میں آئیں گے. یہی وہ شہادت علی الناس کی ذمہ داری ہے جس کے لیے اس اُمت کی تشکیل ہوئی ہے. چنانچہ سورۃ الحج کی مذکورہ بالا آیت آپ نے ملاحظہ کی جس میں فرمایا گیا:
اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ
’’اللہ پسند کر لیتا اپنے فرشتوں میں سے بھی پیغامبر اور انسانوں میں سے بھی.‘‘
اور آخری آیت میں فرمایا:
وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ… (الحج:۷۸)
’’اور جہاد کرو اللہ کی خاطر جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے. اس نے تمہیں (اپنے کام کے لیے بحیثیتِ اُمّت) چن لیا ہے.‘‘
پہلے رسالت کی دو کڑیاں تھیں‘ رسولِ ملک اور رسولِ بشر‘ اور اب رسالت کی تیسری کڑی یہ اُمّت ہے‘ جس کے ذمے پوری نوعِ انسانی تک شہادت علی النّاس کا فریضہ ادا کرنا ہے. چنانچہ اسی آیت کے آخر میں یہ الفاظ وارد ہوئے:
لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ
’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو‘‘.
سورۃ البقرۃ میں اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا گیا کہ اس اُمت کی تأسیس کی غرض و غایت ہی یہ ہے :
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ ( البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّتِ وسط بنا یا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول تم پر گواہ ہو جائے.‘‘
ظاہر بات ہے یہ کام محنت و مشقت چاہتا ہے‘ اس کے لیے جان‘ مال اور وقت صرف کرنا پڑتا ہے. دعوت کو انسانوں تک پہنچادینا آسان کام نہیں ہے.
جہاد فی سبیل اللہ کی اس دوسری منزل کے مزید تین درجات ہیں‘ جو سورۃ النحل میں بیان ہوئے ہیں.فرمایا:
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾ (النحل)
’’(اے نبیؐ !) اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دیجیے حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کیجیے ایسے طریقے پر جو بہترین ہو. آپ کا ربّ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے.‘‘
اس آیت میں سوسائٹی کے اندر موجود تین طبقات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ او ر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے ان طبقات کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھنا ضروری ہے. ع ’’لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!‘‘کے مصداق لوگوں نے دعوت و تبلیغ کو بہت آسان کام سمجھ رکھاہے. گویا کہ دعوت و تبلیغ کو بہت آسان کام سمجھ رکھاہے. گویا کہ دعوت و تبلیغ بہت آسان کام ہے کہ تقریر کی‘ قصّے کہانیاں بیان کیے اور کہہ دیا : ’’وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغْ‘‘. گویا کہ ہم نے بلاغ کی ذمہ داری ادا کر دی ہے. قرآن حکیم دعوت و تبلیغ کے تین درجے بیان کرتا ہے:
(۱) ازروئے قرآن بلاغ و تبلیغ کے تقاضوں میں سرفہرست ’’دعوت بالحکمۃ‘‘ ہے‘یعنی حکمت اور دانائی کے ساتھ دعوت. اس حکمت ودانائی کو عام لوگوں نے غلط فہمی کی بنا پر حکمت عملی سمجھا ہے‘ یعنی آدمی کو دیکھو‘ اس کی نفسیات وغیرہ مدّنظر رکھو. اس بات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے‘ اس کی نفی نہیں‘ لیکن یہاں ’’بالحکمۃ‘‘ ان معنوں میں نہیں آیا‘ بلکہ ’’الموعظۃ الحسنۃ‘‘ کے مقابلے میں آ رہا ہے‘ یعنی دلیل‘ برہان argument کے ساتھ دعوت دی جائے. قرآن اپنے مخالفین سے دلیل مانگتا ہے: قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ’’کہہ دیجیے کہ اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو.‘‘مخالفین کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسلام کے مبلغین سے دلیل اور برہان طلب کریں اور اپنے اعتراضات کے جواب مانگیں.
اس حوالے سے نوٹ کر لیجیے کہ انسانی معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جسے معاشرے کے دماغ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے. جیسے کہ انسان کے جسم میں موجود دماغ (جو بمشکل نصف سیر کا ہو گا) دو من وزنی جسم کو کنٹرول کرتا ہے اور پورا جسم اس کی ہدایات پر عمل کرتا ہے. ہاتھ کسی شے کو پکڑیں یا نہ پکڑیں اس کا فیصلہ یہاں ہوتا ہے. سامنے لکڑی ہے یا سانپ‘ اسے پکڑنا ہے یا نہیں پکڑنا‘ اس کی معلومات یہاں سے دی جاتی ہیں. ہاتھ لکڑی کو پکڑنے کے لیے آگے بڑھ گیا تھا لیکن اسے فوراً روک لیا گیا کہ یہ تو سانپ ہے. یہ سب کنٹرول دماغ سے ہو رہا ہے. پاؤں ہمیں لے کر کدھر جائیں کدھر نہ جائیں‘ اس کا فیصلہ یہاں ہوتا ہے. انسانی معاشرہ بھی بالکل اسی طرح ایک زندہ وجود کی حیثیت رکھتا ہے. اس کا ایک طبقہ اس کا Brain Trust کہلاتا ہے. یہ طبقہ Intelligentsia یا Intellectual Elite پر مشتمل ہوتا ہے‘ جو سوچنے سمجھنے والوں کا طبقہ ہوتا ہے. وہ طے کرتے ہیں کہ معاشرے میں کس چیز کا فروغ ہونا ہے اور کس چیز کو روک دیا جانا ہے‘ کدھر بڑھنا ہے اور کدھر سے پیچھے ہٹ جانا ہے. جبکہ پوری قوم کا معاملہ ہاتھ اور پاؤں کی طرح ہوتا ہے.
آپ کو معلوم ہے ہر انقلابی عمل میں سب سے پہلے انقلابی نظریہ کو معاشرے کا ذہین طبقہ قبول کرتا ہے‘ اور پھر وہ اس بات کو نیچے تک پہنچاتا ہے. اس طبقہ کے لیے‘ ظاہر بات ہے‘ وعظ و نصیحت مؤثر نہیں. کیونکہ ان کے دماغوں کے اندر مختلف نظریات‘ اقدار اور خیالات نے ڈیرے جما رکھے ہوتے ہیں. کہیں ڈاروِن ازم ہے تو کہیں مارکسزم‘ کہیں Logical Positivism ہے اور کہیںExistentialism ہے. نامعلوم اس طرح کے کتنے بے شمار ازم ہیں‘ ان کا توڑ آپ کو کرنا پڑے گا‘ اور وہ توڑ دلائل و براہین کے ساتھ کرنا ہو گا. ان کا دماغ ایک حجاب ہے جس کے باعث آپ ان کے دل تک نہیں پہنچ سکتے. ان کے دماغ میں ان نظریات نے ایک رکاوٹ (Barrier) کی شکل اختیار کر رکھی ہے.چنانچہ پہلے اس رکاوٹ کو توڑ کر اس کے اندر سے گزرنا ہو گا. اس کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان سے اسی سطح پر بات کر سکیں. اور یہ اسی صورت میں ہو گا جبکہ وہ ان نظریات سے کماحقہ ٗ واقف ہوں اور وہ ان پر ایسی معقول تنقید کر سکیں جو مدلل اور منطقی ہو. وہاں فتویٰ سے کام نہیں چلے گا‘ وہاں تو دلائل سے بات کرنا ہو گی‘ اس لیے کہ قرآن وحدیث کو تو وہ مانتے ہی نہیں. جب تک یہ کام نہیں ہوتا آپ اس Intelligentsia کو قائل نہیں کر سکتے.
سو فیصد تو کوئی بھی قوم تبدیل نہیں ہوتی‘ لیکن قوم کی واضح اکثریت کے نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے اس ذہین طبقہ کے اندر ایسا مضبوط نیوکلیئس پیدا ہونا ضروری ہے جو علیٰ وجہ البصیرت اللہ‘ آخرت اور نبوت و رسالت پر یقین رکھتا ہو‘ جسے اسلام پر پورا شرحِ صدر حاصل ہو اور وہ اپنی دعوت کے ذریعے ان کے نظریات کی نفی کرے. جیسے امام غزالیؒ نے ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ لکھی یا امام ابن تیمیہؒ نے ’’الرد علی المنطقیین‘‘ لکھی تو انہوں نے اہل فلسفہ و منطق سے اپنا لوہا منوایا.لیکن اس کے لیے پہلے غزالی بننا پڑے گا اور پہلے امام ابن تیمیہ کے مقام تک رسائی حاصل کرنا ہو گی. اور یہ زندگی بھر کی جدوجہد ہے. دنیا میں بڑے شاندار کیرئیرز ہیں‘ اچھی تنخواہیں مل رہی ہیں‘ مراعات حاصل ہیں‘ ان سب کو چھوڑ کر فکر انسانی کا تجزیہ کر کے فکر انسانی کی تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا اور موجودہ فکر کا صغریٰ کبریٰ جوڑنا ہو گا کہ اس میں کہاں ٹیڑھ یا خرابی آئی ہے. ظاہر بات ہے باطل محض تو کوئی نظریہ بھی نہیں ہے‘ باطل محض کا تو کوئی وجود ہی نہیں. باطل ہمیشہ حق کے کسی جزو کو لے کر اس پر اپنا تانا بانا بنتا ہے . باطل اس کے بغیر کھڑا رہ ہی نہیں سکتا. وہ تو حق کا کوئی جزو لیا ہے اور اس پر باطل کے ردّے چڑھاتا ہے‘ اس کے بل پر وہ اپنا وجود برقرار رکھتا ہے. آپ کو یہ تجزیہ کرنا پڑے گا کہ اس میں حق کتنا ہے اور باطل کتنا ہے‘ صحیح کتنا ہے اور غلط کتنا ہے. اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ سے فرمایا:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ
(یوسف:۱۰۸)
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ لوگو! یہ میرا راستہ ہے ‘ میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں‘ میں خو د بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی‘‘.
میں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مار رہا ہوں.
علیٰ وجہ البصیرت ایمان حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں. پھر اس بصیرت کی روشنی میں ان تمام علوم و افکار کا تجزیہ کرنا آسان کام تو نہیں. اس میں اپنے آپ کو بالکلیہ لگا دینا پڑے گا. یہ تو پوری زندگی کا عمل ہے. دنیاوی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں. جب مارکس اپنی کتاب ’’داس کیپٹل‘‘ لکھ رہا تھا تو اسے فاقوں کا سامنا کرنا پڑا. جب بھی کوئی کوئی تخلیق (Creative) کام ہوا ہے تو وہ فاقوں کے ساتھ ہوا ہے. یہ نہیں کہ بڑے بڑے تحقیقی اداروں کی طرف سے تنخواہیں مل رہی ہوں‘ اس طرح کوئی تخلیقی کام نہیں ہوا کرتا‘ ہاں تحقیقی کام ہو جاتے ہیں کہ کوئی پرانا مخطوطہ لے کر اس کی ایڈیٹنگ کر دی اور اس کی احادیث کی تخریج کر دی تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لی. دنیا میں جہاں بھی تخلیقی کام ہوئے ہیں وہ فقرو فاقہ کے ساتھ ہوئے ہیں.
(۲) دعوت بالحکمۃ کے بعد دوسرا درجہ بالموعظۃ الحسنۃ کا ہے‘جس کے مخاطب عوام الناس ہوتے ہیں‘ جن کے ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہیں‘ آپ جو چاہیں اس پر لکھ دیں. ان لوگوں کے دل و دماغ میں کوئی خناس نہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ڈارون کس بلا کا نام ہے اور فرائڈ کس چڑیا کا نام ہے. ان کے لیے تو ’’از دل خیزد بر دِل ریزد‘‘ والا معاملہ ہے کہ جو بات آپ کہیں گے اور وہ بات آپ کے دماغ سے نہیں بلکہ آپ کے دل سے نکلی ہو‘ چاہے وہ مرصّع زبان میں نہ بھی ہو‘ ٹوٹی پھوٹی زبان میں ہو‘ لیکن خلوص کے ساتھ دل سے نکلی ہوئی ہو تو وہ دل میں سیدھی اتر جائے گی.
اس کے لیے دوسرا تقاضا پھر یہ ہے کہ آپ جس چیز کی دعوت دے رہے ہیں اس کا خود بھی نمونہ ہوں:
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ (حم السجدۃ:۳۳)
’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں خود بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں.‘‘
آپ اس پر اپنی شخصیت کی دھونس جمانے کی کوشش نہ کیجیے‘ بلکہ کہیں کہ میں بھی ایک ادنیٰ مسلمان ہوں. یہ دعوت ’’بالموعظۃ الحسنۃ‘‘ عوام الناس کے لیے ہے اور یہ انتہائی مؤثر ہے‘ اس کا بہت فائدہ ہے. اگرچہ جب تک ایک معاشرے کے اُس intelligentsia یا ذہین اقلیت (intellectual Minority) یا Brain Trust میں ایک مضبوط نیوکلیئس قائم نہیں ہو گا اُس وقت تک معاشرے میں بحیثیت مجموعی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی.دعوت کے نتیجے میں اگر لاکھوں عوام کے اندر تبدیلی آ جائے‘ ان کی زندگی کے شب و روز بدل جائیں‘ ان میں نماز روزے کا اہتمام ہو جائے اور وہ اپنی وضع قطع بھی صحیح کر لیں‘ لیکن اگر اُوپر کے Brain Trust یا intelligentsia میں ایک مضبوط نیوکلیئس موجود نہیں ہے اور اس نے اپنے آپ کو منوا کر معاشرے پر اپنی چھاپ نہیں ڈال دی اور دوسرے لوگوں پر اتمامِ حجت نہیں کر دیا تب تک معاشرہ بحیثیت مجموعی کسی تبدیلی کو قبول نہیں کرے گا.
(۳) دعوت کا تیسرا درجہ ’’جدال حسنہ‘‘ کا ہے: وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ’’اور ان سے جھگڑا کرو بڑے عمدہ طریقے سے‘‘.یہ جدال کن لوگوں کے خلاف ہو گا؟ ظاہر ہے ؏ ’’رِیختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب!‘‘ کے مصداق اس معاشرہ میں صرف آپ ہی دعوت و تبلیغ میں سرگرم نہیں ہیں‘ یہاں عیسائی مشنریز بھی کام کر رہی ہیں‘ قادیانی مبلغین اور بہائی بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ان کے ساتھ آپ کو مجادلہ کرنا پڑے گا. ان لوگوں نے اس کام کو بطورِپیشہ اپنایا ہے اور انہیں اس کی تنخواہ ملتی ہے. وہ اس کام کے لیے پوری طرح تیاری کرتے ہیں اور تربیت لیتے ہیں. چنانچہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں ان سے جدال یعنی بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا تاکہ ان کو چپ کرایا جا سکے‘ ورنہ عوام الناس پر ان کا اثر ہو گا. اس کے لیے ہمارے ہاں خاص طو رپر مناظرہ کا فن بنا ہے. مناظرہ میں یہ پیشِ نظر نہیں ہوتا کہ اپنے مخاطب مدمقابل کو قائل کیا جائے‘ بلکہ اسے خاموش کرانا پیشِ نظر ہوتا ہے اور اس کے لیے بعض حضرات نے آیت قرآنی سے دلیل اختیار کی ہے :
وَ لَا تُجَادِلُوۡۤا اَہۡلَ الۡکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ٭ۖ اِلَّا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ… (العنکبوت:۴۶) ’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے‘ سوائے ان لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں.‘‘
تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ مجادلہ کے ذرا سخت انداز یعنی مناظرہ کی بھی ضرورت ہے. چنانچہ ہمارے ہاں اس مناظرہ کے فن نے جنم لیا. گزشتہ صدی میں ہمارے ہاں نوآبادیاتی حکمرانی کا جو دَور تھا وہ مسلمانوں کے لیے بہت شکست خوردہ اور مرعوبیت کا دور تھا. اس کے دوران ہندوستان بھر میں مشنریز کا سیلاب آ گیا. اُس وقت ایک انگریز پادری فنڈر آیا جو کلکتے سے شروع ہو کر دہلی تک پہنچ گیا اور اس نے تمام بڑے بڑے شہروں میں مسلمان علماء کو مناظروں کے اندر شکست دی‘ جس سے ہندوستان بھر میں کھلبلی مچ گئی. دہلی آ کر اس نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں کلکتے سے چل کر یہاں تک پہنچ گیا ہوں اور کوئی مسلمان عالم دین میرا مقابلہ نہیں کر سکا‘میں بہت سے علماء کو شکست دے کر آیا ہوں‘ اور اب میں پورے ہندوستان کے علماء کو چیلنج کر رہا ہوں کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو میرے مقابلے میں آئے. ذرا سوچئے کہ اگر اُس وقت اس کے مقابلے میں کوئی نہ آتا تو عوام پر کیا اثر ہوتا.ایک طرف سیاسی محکومی اور اس کی مرعوبیت تھی‘ دوسری طرف ہمارے علماء اس پادری کے مقابلے میں خاموش تھے‘ ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں تھی.رہے عوام تو ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا. نہ وہ قرآن سے واقف تھے نہ حدیث سے اور نہ انہیں عربی زبان کی کوئی شُدبُد تھی. ان کا تکیہ تو علماء پر تھا‘ اگر ان میں سے کوئی بھی خم ٹھونک کر اُس کا مقابلہ نہ کرتا تو پھر یہاں عیسائیت کا ایک سیلاب آ جاتا. چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہوا کہ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ میدان میں آئے اور انہوں نے اس سے مناظرہ کر کے اسے شکست دی‘جس کے بعد وہ ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا. لگتا ہے غیرت مند آدمی تھا جو یہاں نہیں رکا‘ اس نے ترکی میں جا اڈا لگایا. رحمت اللہ کیرانویؒ صاحب حج کے لیے گئے ہوئے تھے اور حجازکا علاقہ اس وقت خلافت عثمانیہ کے زیرنگیں تھا. انہیں وہاں خلافت عثمانیہ کا پیغا م موصول ہوا کہ آپ ترکی تشریف لایئے‘ یہاں پر اسی پادری نے‘ جسے آپ نے ہندوستان میں شکست فاش دی تھی‘ ہمارے علماء کا ناطقہ بند کر رکھا ہے. جب اسے علم ہوا کہ رحمت اللہ کیرانویؒ آ رہے ہیں تو وہ وہاں سے بھی بھاگ گیا. عیسائیوں کے اعتراضات کے جوابات میں مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی‘ پھر جس کا خود ترجمہ بھی کیا اور اس پر حواشی بھی لکھے. اس کتاب پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی کچھ نوٹس لکھے ہیں. بہرحال مجادلہ و مناظرہ بھی دعوت کے ضمن میں ایک اہم ضرورت ہے‘ لیکن عام طور پر ’’دعوت‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے مخاطب کو اچھے اور خوبصورت انداز میں قائل کرنے کی کوشش کریں.
’’دعوت‘‘ یا ’’باطل عقائد و نظریات کے خلاف جہاد‘‘ کے یہ جو تینوں مراحل میں نے بیان کیے ہیں‘ ظاہر ہے اس کے لیے محنت کرنی پڑے گی. اس کے لیے پہلے آپ خود علم حاصل کریں گے‘ اسے آگے پہنچائیں گے. اسلام پر آپ کو جب شرح صدر حاصل ہو گا تب ہی آپ اسلام کی دعوت دیں گے. جب آپ کو علیٰ وجہ البصیرت ایمان حاصل ہوگاتب ہی آپ کسی کو اس طرف بلائیں گے. لہٰذا اس کے لیے محنت‘ کوشش اور جدوجہد کرنا‘ تیاری کرنا اور علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے. اس ضمن میں یہ حدیث پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
مَنْ جَائَ ہُ الْمَوْتُ وَھُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لِیُحْیِیَ بِہِ الْاِسْلَامَ فَـبَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ (۱۳)
یعنی جس شخص کو اس حالت میں موت آ گئی کہ وہ ابھی علم کے حصول میں لگا ہوا تھا‘ لیکن اس کی نیت یہ تھی کہ اس کے ذریعے اسلام کو زندہ کرے گا‘ تو ا س کے اور انبیاء کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق رہ جائے گا‘‘. غور کیجیے کہ ابھی اس کی عملی جدوجہد شروع نہیں ہوئی‘ لیکن اس کی نیت یہ ہے کہ اسلام کو زندہ کرنا ہے‘ اسلام کو غالب کرنا ہے‘ ا س کے غلبے کی جدوجہد میں اپنے آپ کو لگانا ہے اور اس کے لیے مجھے علم درکار ہے‘ جب تک میں علم کے ہتھیار سے مسلح نہ ہو جاؤں تو دعوت و تبلیغ کا کام کیسے ہو گا‘ تو ایسے شخص کے لیے کتنی بڑی بشارت ہے!