جہاد فی سبیل اللہ کی ان دو منزلوں (جہاد مع النفس اور دعوت) پر جہاد کے لیے ہتھیار صرف ایک ہے‘ او ر وہ قرآن ہے. نفس کے خلاف جہاد کے لیے بھی آپ کو جو تلوار درکار ہے وہ قرآن ہے. اگر آپ کے وجود میں شیطان سرایت کر سکتا ہے تو قرآن مجید بھی آپ کے وجود میں سرایت کر جائے گا. زہر کا اثر اگر جسم میں کسی ایک جگہ ہو تو اس کا مقامی طور پر علاج کفایت کرے گا‘ لیکن زہر اگر پورے جسم میں پھیل گیا ہو تو آپ کو وہ تریاق چاہیے جو پورے جسم کے اندر پھیل سکے اور وہ صرف قرآن ہے. چنانچہ علامہ اقبال نے اسے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ؎

کشتن ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است!
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی!
کشتۂ شمشیر قرآنش کنی!!

اس شعر میں دو حدیثوں کے مفہوم کو جمع کر لیا گیا ہے. ایک تو حضور نے فرمایا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہے. کسی نے پوچھ لیا کہ کیا آپؐ کے ساتھ بھی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:ہاں ہے‘ لیکن میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے. آپؐ کے فرمان کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میں اس کی ایذاء سے امن و سلامتی میں ہوں اور وہ مجھے گزند نہیں پہنچا سکتا.
دوسری حدیث یہ ہے کہ شیطان تو انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے. ان دونوں حدیثوں کے مفاہیم کو علامہ اقبال نے اپنے ان دو اشعار میں سمودیا ہے. چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ابلیس کو ہلاک کر دینا مشکل کام ہے‘ وہ تو دل کی گہرائیوں میں جا کر بیٹھ جاتا ہے. اب ظاہر بات ہے کہ پورا دورانِ خون تو دل ہی کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا وہ خون کے ساتھ انسان کے جسم میں گردش کرتا ہے. لہذا بہتر یہ ہے کہ اسے مسلمان بناؤ ! اور یہ مسلمان ایسے بنے گا کہ قرآن کی شمشیر سے اس کا قلع قمع کرو!

یہ قرآن انسان کے قلبی‘ باطنی اور روحانی امراض یعنی حسد‘ تکبر‘ بغض‘ عناد‘ حبِ مال‘ حبِ جاہ کے لیے شفا ہے. اس کے بارے میں سورۃ یونس میں فرمایا گیا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾ (یونس :۵۷،۵۸)
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے. یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے. اے نبیؐ ! کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی. پس یہ وہ چیز ہے جس پر لوگوں کو خوشی منانی چاہیے. یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں.‘‘

چنانچہ شیطان کے خلاف جہاد کے لیے بھی ہتھیار قرآن ہے اور اپنے نفس کے خلاف جہاد کے لیے بھی ہتھیار قرآن ہی ہے. اس میں کچھ شک نہیں کہ حکمت کا منبع اور سرچشمہ بھی قرآن ہی ہے. قرآن کے اندر غواصی کیجیے‘ غور و خوض کیجیے‘ اس میں غوطہ زنی کیجیے . ع 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان!

مولانا روم نے کہا تھا کہ :
چند خوانی حکمت یونانیاں
حکمت ایمانیاں را ہم بخواں!

یعنی تم کب تک یونانیوں کا فلسفہ پڑھتے رہو گے‘ کبھی حکمت قرآنی اور حکمت ایمانی بھی تو پڑھو! قرآن کہتا ہے : ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (بنی اسرائیل:۳۹’’اے نبیؐ ! یہ باتیں اس حکمت میں سے ہیں جو آپ کے رب نے آپ کی طرف نازل کی ہیں.‘‘ اور حضور کی تعلیم و تربیت کی بلند ترین منزل یہی حکمت ہے: یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ نبی اکرم کے بنیادی طریق کار یا انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کے عناصر چہارگانہ قرآن حکیم میں چار مقامات پر بیان ہوئے ہیں‘ ان میں تین مقامات پر ترتیب یہی ہے‘ صرف ایک مقام پر ذرا بدلی ہوئی ہے جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا پر مشتمل ہے :

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ (البقرۃ:۱۲۹)
لیکن بقیہ تینوں مقامات پر‘ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات آئی ہے‘ ترتیب اس طرح ہے : (۱) تلاوتِ آیات (۲) تزکیہ (۳) تعلیم کتاب (۴) تعلیم حکمت. چنانچہ سورۃ البقرۃ میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (آیت ۱۵۱)
پھر سورۃ آل عمران میں فرمایا:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (آیت ۱۶۴)
سورۃ الجمعۃ میں یہ عناصر چہارگانہ بایں الفاظ بیان ہوئے:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ (آیت ۲)

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے حکمت کو بالکل نظر انداز کر دیا اور اس کے لیے قرآن مجید کی طرف ہمارا رجوع نہیں رہا‘ جو حکمت کا سب سے بڑا منبع و سرچشمہ ہے. پھر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت طویل عرصے تک ’’حکمت‘‘ تو درحقیقت حکمت ِ یونان ہی کو قرار دیاجاتا رہا ہے . وہیں کے فلسفہ اور منطق نے ہمارے ہاں فروغ پایا اور عام طور پر ہمارے بڑے سے بڑے علماء بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوئے اِلاّ ماشاء اللہ وہ تو چند لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ’’توڑ دیتا ہے کوئی موسٰی طلسم سامری‘‘ کے مصداق پیدا کرتا ہے. امام غزالیؒ اور ابن تیمیہؒ تو بہرحال ایک ہی بار پیدا ہوتے ہیں. شاہ ولی اللہؒ بھی روز بروز پیدا نہیں ہوتے. ہمارے ہاں عام طور پر تصور یہی رہا ہے کہ حکمت تو وہی ’’حکمت یونانیاں‘‘ ہے. چنانچہ عالمِ اسلام میں ارسطو کی منطق کا صدیوں تک ڈنکا بجتا رہا. ابنِ سینا‘ فارابی‘ کندی اور ابنِ رشد کون 

تھے؟ یہ سب کے سب ارسطو کی منطق کے ڈسے ہوئے تھے ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے!

اس حوالے سے حکمت کا منبع و سرچشمہ بھی قرآن مجید ہے‘ پھر یہ کہ موعظہ حسنہ بھی قرآن ہے‘ اور جدال کے لیے سارا مواد بھی قرآن حکیم میں موجود ہے. کفار و مشرکین‘ ملحدین اور مادہ پرستوں کے خلاف جدال کے دلائل قرآن میں موجود ہیں.گویا جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی اور دوسری منزل پر جو ہتھیار درکار ہے وہ قرآن ہے.

اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں منزلوں پر کسی جماعت کی ضرورت نہیں‘ یہ کام انفرادی طور پر بھی ہو سکتا ہے. ایک شخص اپنے نفس اور اپنے شیطان کے خلاف جہاد خود کر سکتا ہے‘ اس کے لیے جماعت لازم نہیں. اسی طرح ایک شخص داعی بن کر کھڑا رہے اور لوگوں کو اللہ کا بندہ بننے کی دعوت دیتا رہے تو یہ کام وہ انفرادی حیثیت میں کر سکتا ہے. اس ضمن میں سب سے اعلیٰ مثال حضرت نوح علیہ السلام کی موجود ہے جو ساڑھے نو سو برس تک قوم کو دعوت دیتے رہے. چنانچہ یہ کام انفرادی طور پر بھی ہو سکتے ہیں. البتہ پہلی منزل پر اگر کچھ ایسے لوگوں کی صحبت نصیب ہو جائے جو اسی کشاکش میں لگے ہوئے ہوں تو کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کے مصداق ان کی معیت اور صحبت اختیار کی جانی چاہیے. وہ صادقین کون ہیں؟ قرآن کے الفاظ میں:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ (الحجرات)
’’یقینا مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر شک میں نہ پڑے‘ اور انہوں نے جہادکیا اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. یہی سچے لوگ ہیں.‘‘

چنانچہ اگر آپ ایسے صادقین کی تلاش کر کے ان کی صحبت حاصل کریں اور ان کے ساتھ رہیں‘ اس سے یقینا آپ اُن کا رنگ اختیار کریں گے. لیکن لازم نہیں ہے کہ کوئی منظم جماعت ہو. اسی طرح دعوت و تبلیغ کا جہاد انفرادی طور پر بھی ہو سکتا ہے . شاہ ولی اللہ نے یہ کام خالص انفرادی طو رپر کیا‘ ان کی نہ کوئی انجمن تھی نہ ادارہ تھا. لیکن اگر اس معاملے میں کوئی انجمنیں‘ درس گاہیں یا ریسرچ کے ادارے وجود میں آجائیں تو یقینا یہ مفید ہو گا. اور اس کام کی کسی حد تک ضرورت بھی ہے کہ ایسے اشاعتی ادارے قائم ہوں جو مختلف زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم اور تشریحی نوٹس مرتب کر رہے ہیں.