(۳) جہاد کی بلند ترین منزل ’’اقامت دین‘‘

جہاد فی سبیل اللہ کی بلند ترین منزل نظام کی سطح پر جہاد‘ یعنی نظام کو بدلنے کی جدوجہد ہے. یہ اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے باطل نظام اور طاغوت کے خلاف جہاد ہے. اس کے لیے قرآن مجید میں مختلف اصطلاحات آئی ہیں. ان میں سے ایک اصطلاح ’’تکبیر ربّ‘‘ ہے. فرمایا: وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ یعنی اپنے ربّ کی کبریائی کا نظام قائم کرو‘ اپنے ربّ کی تکبیر کرو. اپنے ربّ کو بڑا کرو. کیا معنی؟ ربّ تو خود بڑا ہے‘ اس کو کیسے بڑا کیا جائے؟ وہ بلاشک و شبہ بڑا ہے‘ لیکن اس کی بڑائی مانی نہیں جا رہی. اس کی بڑائی منواؤ! سورۃ المدثر کی ابتدائی تین آیات میں سے دوسری آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی دوسری منزل کا ذکر ہے اور پھر تیسری آیت میں تیسری منزل کا ذکر ہے : یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے! اٹھو اور خبردار کرو!! اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو!!!‘‘ یعنی دعوت کا انداز انذار سے کرو اور پھر اپنے ربّ کی کبریائی قائم کرو. 

اس ضمن میں دوسری اصطلاح ’’اقامت دین‘‘ کی ہے. فرمایا:
اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ (الشوریٰ:۱۳)
’’کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ.‘‘

تکبیر ربّ اور اقامتِ دین ہم معنی اصطلاحیں ہیں. قرآن حکیم میں نبی اکرم کا مقصد بعثت تین مرتبہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖٖ… (التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘الصف:۹)
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق کے ساتھ تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے (یا تمام ادیان پر غالب کر دے)‘‘


اس ضمن میں سورۃ الانفال (آیت ۳۹) میں فرمایا:
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ؕ
’’اور ان (کفار و مشرکین ) سے اُس وقت تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور نظام کُل کا کُل اللہ کے حکم کے تابع ہو جائے.‘‘

اسی کو جدید اصطلاح میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ کا نام دیا جاتا ہے. اسی کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے ’’حکومت ِ الٰہیہ کا قیام‘‘ کا نعرہ لگایا. مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے جب اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور جماعت اسلامی قائم کی تو حکومتِ الٰہیہ ہی کو اپنا نصب العین قرار دیا. اسی پر علامہ مشرقی اور خیری برادران نے بھی کام کیا. پی این اے کی اینٹی بھٹو تحریک میں نظامِ مصطفی  کی اصطلاح اپنائی گئی. اسی کے لیے نظامِ اسلامی اور نظامِ خلافت کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں‘ جن کا مفہوم ایک ہی ہے ع ’’عباراتنا شَتّٰی وَحُسنکَ واحدٌ‘‘ (ہماری عبارتیں مختلف ہیں‘ لیکن اے اللہ! تیرا حسن و جمال تو اپنی جگہ ایک وحدت ہے.)

اس ضمن میں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے بعض اعتبارات سے اہم ترین بائبل کی اصطلاح ’’Kingdom of Heaven on the Earth‘‘ (زمین پر آسمانی حکومت کا قیام)ہے. ان کی Lord's Prayer کے الفاظ ہیں:
Thy Kingdom Come,
Thy will be done on earth
as it is in heavens.


’’اے رب! تیری حکومت قائم ہو‘ اے ربّ! جس طرح تیری مرضی آسمانوں پر پوری ہو رہی ہے اسی طرح زمین پر پوری ہو!‘‘. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مشہور جملہ ہے. 
Repent for the kingdom of heaven is at hand’’ توبہ کرو‘ اس لیے کہ آسمانی بادشاہت آیا چاہتی ہے!‘‘ یہ اشارہ محمد رسول اللہ کی طرف تھا. آسمانی بادشاہت محمد رسول اللہ کے ذریعے قائم ہوئی ہے. بہرحال اس ضمن میں بے شمار اصطلاحات موجود ہیں.

اقامت دین کی شرطِ لازم :منظم جماعت 

اقامت دین کے مراحل بیان کرنے سے پہلے اس کی شرطِ لازم جان لیجیے. جہاد فی سبیل اللہ کی پہلی دو منزلوں پر اصل ہتھیار قرآن ہے اور ان دونوں سطحوں پر کسی منظم جماعت کا ہونا لازمی نہیں‘ لیکن تیسری منزل کے لیے لازم ہے ایک ایسی منظم جماعت وجود میں آئے جو اس دعوت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو. یہ نہیں کہ قومی بنیاد پر کوئی گروہ منظم ہو جائے اور قومی سطح پر کوئی جدوجہد شروع ہو جائے. بلکہ جو لوگ بندگی ٔ ربّ اور شہادت علی الناس کی دعوت شعوری طور پر قبول کر کے آئیں ان پر 
مشتمل ایک منظم جماعت کا ہونا ضروری ہے. جس طرح نماز کے لیے وضو شرط ہے ایسے ہی اقامت دین کے لیے ایک منظم جماعت کا ہونا شرطِ لازم ہے. وہ جماعت ایسے لوگوں کی ہو جنہوں نے اسلام اور ایمان کو شعوری طو رپر قبول کیا ہو‘ جو اپنے نفس سے جہاد کی منزل سر کر کے آئے ہوں اور اپنے نفس کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے تابع کر چکے ہوں. ایسے لوگ منظم جماعت کی شکل میں جمع ہوں. یہ شرط اگر پوری نہیں ہوتی تو پھر وہ جہاد فی سبیل اللہ کی منزل نہیں. ہو سکتا ہے کہ وہ جہاد فی سبیل الحریت یا کوئی اور جہاد ہو جسے جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا ہو.

جماعت کے بارے میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: یَدٌ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ (۱۴’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے‘‘ اور علیکم بالجماعۃ (۱۵’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے‘‘. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اِنَّـہٗ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجِمَاعَۃٍ وَلَا جَمَاعَۃَ اِلاَّ بِاِمَارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلاَّ بِطَاعَۃٍ (سنن الدارمی)
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں ہے‘ اور امارت کے بغیرجماعت نہیں ہے‘ اور امارت کا کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے ساتھ اطاعت بھی نہ ہو.‘‘

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پوری امت ایک جماعت ہے. اگر ایسا ہے تو پھر اس کا امام کون ہے؟ اگر امیر موجود نہیں ہے تو پھر جماعت نہیں ہے. علامہ اقبال‘ جو وحدتِ اُمت کے حدی خواں تھے‘ آخر کار انہیں اپنے خطبات میں یہ کہنا پڑا کہ اس وقت دنیا میں اُمت مسلمہ موجود نہیں ہے‘ بلکہ بہت سی مسلم اقوام موجود ہیں. اسی طرح آج ہم یہ کہیں گے کہ دنیا میں بہت سے مسلم ممالک ہیں اور مسلمان ملک ہونے کے ناطے ان کے حقوق ہیں. جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں. یہ حقوق اپنی جگہ مسلّم ہیں‘ لیکن دنیا بھر کے مسلمان ایک جماعت تو نہیں ہیں. اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو ٹوک انداز میں فرما دیا تھا کہ : لَا جَمَاعَۃَ الِاَّ بِاِمَارَۃٍ یعنی ’’امارت کے بغیر کوئی جماعت نہیں‘‘.

اس موضوع پر ذروۂ سنام یہ حدیث ہے جو حضرت حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. نبی کریم نے فرمایا:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ ‘ اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ ‘ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱۶
’’اے مسلمانو! میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دے رہا ہوں‘ اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے: (۱) التزامِ جماعت (۲) سننا (۳) اطاعت کرنا (۴) ہجرت اور (۵) اللہ کی راہ میں جہاد کرنا.‘‘

یعنی جماعت بھی وہ مطلوب ہے جو سمع و طاعت (Listen and obey) والی ہو. یہ جماعت ہجرت وجہاد کے مراحل طے کرے گی. ہجرت کے ضمن میں رسول اللہ سے پوچھا گیا : اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’اے اللہ کے رسولؐ !افضل ترین ہجرت کون سی ہے؟‘‘ فرمایا: اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ (۱۷’’(افضل ترین ہجرت یہ ہے) کہ تم ہر اس چیز کو چھوڑ دو جو اللہ کو پسند نہیں‘‘.پوچھا گیا:اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ؟ ’’افضل جہاد کون سا ہے؟‘‘ تو فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ
’’(افضل جہاد یہ ہے) کہ تم اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرو اور اسے اللہ کی اطاعت کا خوگر بناؤ ‘‘. اس نکتہ پر ہجرت اور جہاد باہم جڑ جاتے ہیں. ہر اس شے کو چھوڑ دینا جو اللہ کو ناپسند ہے اور اپنے نفس کو اللہ کے حکم کا تابع بنانے کی جدوجہد درحقیقت ایک ہی شے ہے. چنانچہ ہجرت اور جہاد ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں. حرام شے کو چھوڑ دینا ہجرت ہے اور اپنے نفس کو اس بات کے لیے تیار کرنا اور اسے مجبور کرنا کہ وہ حرام کو چھوڑ دے‘ یہ جہاد ہے. اس سطح پر ہجرت اور جہاد دونوں ایک ہو جاتے ہیں لیکن یہ تیسری منزل کا جہاد (جو خود تین درجات پر مشتمل ہے) جب اپنی بلند ترین چوٹی پر پہنچتا ہے تو اُس وقت اللہ کی خاطر اپنا گھر بار‘ خاندان سب کچھ چھوڑ کر دارالاسلام میں آ جانا ہجرت کہلاتا ہے. رسول اللہ کی انقلابی جدوجہد میں یہ مرحلہ ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ کی صورت میں آیا. ہجرتِ مدینہ مسلمانوں پر فرض تھی اور جنہوں نے ہجرت نہیں کی انہیں منافق قرار دیا گیا اور ان کے کوئی حقوق مسلمانوں پر نہیں رہے. بفحوائے : وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یُہَاجِرُوۡا مَا لَکُمۡ مِّنۡ وَّلَایَتِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا (الانفال:۷۲’’رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی تو اُن سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں.‘‘ ہجرت کے بغیر تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں‘ ان کے کوئی حقوق اور ذمہ داری تم پر نہیں. تو یہ ہجرت لازم ہے. دوسری طرف جہاد فی سبیل اللہ کی بلند ترین منزل قتال ہے. اس طرح اوپر جا کر یہ ہجرت اور جہاد ایک دوسرے سے مختلف ہو جائیں گے.