اس کے بعد یہ جماعت اب انقلابی مرحلے اقامت دین کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کرے گی تو پہلا مرحلہ صبر محض (Passive Resistance) ہو گا‘ اس لیے کہ ماحول مخالفت کرے گا. پہلے زبانی اور پھر جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا‘ پاگل اور دیوانہ کہا جائے گا. آپ کو معلوم ہے یہ ساری باتیں رسول اللہ سے کہی گئیں. حضور کو مجنون‘ شاعر‘ ساحر اور مسحور کہا گیا. یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے ایک عجمی غلام گھر میں بند کیا ہوا ہے‘ اس سے dictation لیتے ہیں‘ تورات اور انجیل کی باتیں اس سے سیکھتے ہیں اور ہم پر آ کر دھونس جماتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے. حضور کو یہ ساری باتیں سننی پڑیں. زبانی طور پر ایذا رسانی کے بعد پھر جسمانی تشدد کا دور شروع ہوا. نبی اکرم کی ذاتِ گرامی کو بھی اس کا نشانہ بننا پڑا. خاص طور پر نوجوانوں اور غلاموں کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایاگیا. غلاموں پر ان کے آقاؤں اور نوجوانوں پر ان کے بزرگوں کو حق حاصل تھا کہ جو چاہیں کریں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خاندان بنی اُمیہ کے چشم وچراغ تھے. ان کے چچا نے انہیں چٹائی کے اندر لپیٹ کر دھواں دے دیا‘ جس سے آپؐ کا دم گھٹنے لگا. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی ماں نے مَرن برت رکھ لیا. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ برہنہ کر کے گھر سے نکال دیئے گئے. حضرت عثمانؓ نے اسی لیے اپنی زوجہ محترمہ (حضور کی صاحبزادی) کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی. غلاموں کے ساتھ جو معاملہ ہو رہا تھا وہ سب کو معلوم ہے.لیکن اُس دَور میں حکم تھا کہ ’’کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ‘‘ یعنی اپنے ہاتھ روکے رکھو.اس لیے کہ تمہیں ابھی وقت چاہیے. ابھی تم تھوڑے ہو اور تمہارا Base بڑا محدود ہے‘ تم اگر اس حالت میں مزاحمت کرو گے تو کچل دیے جاؤ گے. تمہیں ابھی وقت چاہیے اور اس وقت کے لیے صبر کرو‘ اپنے ہاتھ روکے رکھو‘ چاہے تمہارے ٹکڑے اڑا دیئے جائیں یا زندہ بھون دیا جائے. اپنے دفاع میں بھی ہاتھ مت اٹھاؤ. یہ صبر محض ہے. مکی دَور میں کم از کم آٹھ برس تک یہ مرحلہ جاری رہا. ابتدائی چار سال اس مرحلے میں شامل نہیں تھے‘ بلکہ جسمانی تشدد کا آغاز چوتھے سال سے ہوا ہے. چنانچہ پورے آٹھ یا نو برس تک کسی تشدد کا جواب نہیں دیا گیا اور ہاتھ بندھے رکھے گئے.

انقلابی جدوجہد میں صبر محض کی حکمت عملی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی خاموش اکثریت (Silent Majority) کی ہمدردیاں ان انقلابی افراد کی طرف منعطف ہونا شروع ہو جاتی ہیں. اُمیہ بن خلف نے حضرت بلال  کو اس طرح وحشیانہ طور پر مارا ہے کہ اس طرح حیوانوں کو بھی نہیں مارا جاتا. کیا بلالؓ نے کہیں چوری کر لی تھی یا اس کی بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈالا تھا؟ نہیں‘ وہ تو صرف یہ کہتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں. خاموش اکثریت خاموش تو ہوتی ہے لیکن وہ اندھی یا بہری تو نہیں ہوتی‘ اگرچہ وہ بول نہیں سکتی کیونکہ اس میں اس کی ہمت و جرأت نہیں ہوتی کہ ظالم سے پوچھ سکے کہ کیا کر رہے ہو؟ لیکن وہ اندھی‘ بہری یا گونگی تو نہیں ہوتی. وہ دیکھ اور سن رہی ہوتی ہے. نتیجتاً ان کی ہمدردیاں اندر ہی اندر انقلابی جماعت کے افراد کے ساتھ ہو جاتی ہیں. ع ’’جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحہ زمانہ!‘‘کسی انقلابی جدوجہد میں Passive Resistance کا دَور انتہائی مؤثر اور فیصلہ کن ہوتا ہے اور آئندہ کی کامیابیوں کی ضمانت یہیں سے ملتی ہے.