جب آپ نے نظامِ باطل کو چھیڑ لیا اور ان کے مفادات پر جب ضرب پڑی تو وہ اٹھیں گے اور اپنے نظام کا دفاع کریں گے. چنانچہ وہ پوری قوت کے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوں گے اور پھر بالفعل تصادم (Conflict) ہو گا.

اس تصادم کی دو شکلیں ہیں. ایک شکل وہ ہے جو ہمیں سیرتِ نبویؐ میں نظر آتی ہے. یہ قتال فی سبیل اللہ تھا‘ جس کے لیے حکم دیا گیا : وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ (البقرۃ:۱۹۰’’اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.‘‘ اور فرمایا: اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا (الحج:۳۹’’اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں.‘‘ اور فرمایا: وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ (البقرۃ:۱۹۳’’اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے.‘‘ اور آخری بار فرمایا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (الانفال:۳۹’’اور تم ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے.‘‘ یعنی پورا نظام اللہ کی حاکمیت کے تابع ہو جائے. اس میں پھر وہ مقامِ محبوبیت ہے جس کا ذکر سورۃ الصف میں ہے. فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ (الصف) ’’اللہ کو تو محبت اپنے ان بندوں سے ہے جو اس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باندھ کر گویا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘ علامہ اقبال نے یہیں 

سے یہ اسلوب مستعار لیا ہے ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!

یہ بلند ترین مقام ہے‘ جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے ؎

مقامِ بندگی دیگر ‘ مقامِ عاشقی دیگر
ز نوری سجدہ می خواہی ز خاکی بیش ازاں خواہی
چناں خود را نگہداری کہ با ایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود ز خونِ دوستاں خواہی!

مقامِ بندگی اور ہے ‘ مقامِ عاشقی اور ہے. عاشق تو وہ ہے جو اللہ کے دین کے غلبے کے لیے میدان میں آئے اور اپنا تن من دھن لگا دے. اس کے اندر اللہ کے لیے وہ غیرت و حمیت ہے کہ وہ حق کو مغلوب نہیں دیکھ سکتا. جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : اَیُبَدَّلُ الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّ؟ ’’کیا دین میں تغیر و تبدل ہو جائے گا جبکہ میں ابھی زندہ ہوں؟‘‘ یعنی میرے جیتے جی ایسا نہیں ہو سکتا. مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کے لیے اور کوئی نہیں نکلے گا تو میں تن تنہا نکلوں گا.

یہ جذبہ درکار ہے ؎
مقامِ بندگی دیگر ‘ مقامِ عاشقی دیگر
ز نوری سجدہ می خواہی ز خاکی بیش ازاں خواہی

اے اللہ! فرشتوں سے تو تجھے اطاعت ہی مطلوب ہے. چنانچہ فرشتوں نے یہی تو کہا تھا کہ 
َ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ’’آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘.ہم آپ کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں. لیکن اس خاکی انسان سے تجھے کچھ اور ہی مطلوب ہے اور وہ کیا ہے ؟

چناں خود را نگہداری کہ با ایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود ز خونِ دوستاں خواہی!

اپنی ذات کا تجھے اتنا احساس ہے کہ اگرچہ تو بے نیاز ہے‘ غنی ہے‘ مگر تو اپنے دوستوں کے خون سے چاہتا ہے کہ تیری توحید کی گواہی دی جائے. تیرے دوست اولیاء اللہ اپنے خون سے تیری گواہی دیں.

بہرحال قتال فی سبیل اللہ دو طرفہ جنگ کی شکل ہے. اس کا ایک نقشہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۱ میں بیان کیا گیا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ 
’’یقینا اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں‘ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں.‘‘