موجودہ حالات میں مسلح تصادم کا متبادل

سیرت النبی میں ہمیں تصادم کی جو صورت نظر آتی ہے وہ تو قتال یعنی دو طرفہ جنگ ہی کی ہے. لیکن موجودہ حالات میں اس کی ایک یک طرفہ شکل بھی ہو سکتی ہے. اس کو ایک اجتہادی رائے سمجھ لیجیے. (میری تالیف ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ کا آخری باب اسی پر مشتمل ہے.) ہمارے موجودہ حالات دَورِ نبویؐ کے حالات سے کئی اعتبارات سے مختلف ہیں. آج حکومتیں بہت طاقتور ہیں اور وہ باطل نظام کی محافظ ہیں.ملک میں اگر جاگیرداری نظام رائج ہے تو حکومت میں جاگیردار بیٹھے ہیں‘ سرمایہ داری نظام میں سرمایہ دار حکومت سنبھالے بیٹھے ہیں. اگر آپ نظام کو بدلنا چاہیں گے تو وہ لوگ چونکہ حکومت پر فائز ہیں اس لیے وہ اپنے تمام تر وسائل آپ کے خلاف استعمال کریں گے. حکومت پر فائز ہونے کے ناطے مسلح افواج‘ ایئر فورس‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز ان کے اختیار میں ہیں‘ جبکہ عوام نہتے ہیں. اس لیے یہ مقابلہ اتنا غیر مساوی ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ قتال کا معاملہ قابلِ عمل نہیں ہے. تاہم نوٹ کیجیے کہ یہ بہرحال جائز ہے‘ جہاں بھی اس کے قابل عمل ہونے کا امکان ہو وہاں فاسق و فاجر حکمرانوں سے قتال کیا جا سکتا ہے. اس کو کسی نے حرام نہیں کیا. یہ تو غلام احمد قادیانی (علیہ ما علیہ) کا موقف ہے کہ ’’دین کے لیے حرام ہے اب دوستو قتال!‘‘ قتال جہاں قابل عمل (feasible) ہو گا لازماً کیا جائے گا.

لیکن اگر اُدھر قوت اتنی ہے اور ادھر عوام نہتے ہیں تو عوام کو اپنی طاقت کا اظہار عوامی سطح پر منظم مظاہروں کی صورت میں کرنا ہو گا اور حکومت کے خلاف ایک تحریک مزاحمت اٹھانا ہو گی. یہ تحریک عدم تشدد پر مبنی عدم تعاون اور سول نافرمانی کی تحریک ہو گی‘ جو بالآخر غیر مسلح بغاوت 
(Unarmed Revolt) کی صورت اختیار کرے گی. یہ غیر مسلح بغاوت یک طرفہ ہو گی‘ جس میں حصہ لینے والے خود جان دینے کے لیے تیار ہوں‘ لیکن کسی کی جان کے درپے نہ ہوں.قتال اگرچہ دو طرفہ معاملہ ہے.لیکن اس میں بھی اصل شے تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آنا ہوتا ہے. تو جو شخص اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے میدان میں آ گیا ہے تو گویا کہ اس نے قتال کا تقاضا پورا کر دیا. قتال اگریک طرفہ ہو اور غیر مسلح بغاوت کی صورت اختیار کرے تو اس میں حصہ لینے والوں کو پولیس اور فوج کی گولیوں کا نشانہ بننا پڑے گا‘ ان پر لاٹھی چارج ہو گا اور یہ جیلوں میں ٹھونسے جائیں گے. اگر لوگ اس کے لیے تیار ہو گئے ہیں تو گویا انہوں نے وہ شرط پوری کر دی ہے کہ وہ اپنے خون سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اللہ تعالیٰ کے نظام کی سربلندی کی جدوجہد کی گواہی دینے کو تیار ہیں. اس حوالے سے یہ سول نافرمانی اور غیر مسلح بغاوت ’’مسلح تصادم‘‘ (Armed Conflict) کا بدل ہے.