قتال فی سبیل اللہ کے مقام کو سمجھنے کے لیے مسلم شریف کی ایک حدیث ملاحظہ کیجیے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ (۱۸
’’جو(مسلمان) اس حال میں مرا کہ نہ اس نے کبھی اللہ کی راہ میں جنگ کی اور نہ ہی اس کے دل میں اس کی آرزو پیدا ہوئی تو اس کی موت ایک طرح کے نفاق پر واقع ہوئی.‘‘

یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں یہ مرحلہ ہی نہ آئے‘ جیسے بعض صحابہؓ مکے میں فوت ہو گئے اور ان کی زندگی میں قتال کا مرحلہ ہی نہیں آیا‘ لیکن اس حدیث کی رو سے اللہ کے راستے میں قتال کی آرزو ہر مسلمان کے دل میں ہونا ضروری ہے.

اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہوئے اپنی جان قربان کر دینے کی آرزو خود رسول اللہ کے دل میں کس درجے موجزن تھی اس کا اندازہ اس حدیث سے کیجئے.فرمایا:

لَوَدِدْتُ اِنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ (۱۹)
’’میرے دل میں بڑی آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جائے‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھرقتل کیا جاؤں.‘‘

اس حدیث میں چار مرتبہ ’’ اُقْتَلُ‘‘ کا لفظ آیا ہے. یہ آرزو محمٌد رسول اللہ کی ہے کہ میں اللہ کی راہ میں بار بار قتل کیا جاؤں. ہم میں سے ہر شخص کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس آرزو سے ہمارے سینے خالی ہوں تو ہمیں رسول اللہ سے کیا نسبت ہے؟

مقتول فی سبیل اللہ کا مقام قرآن مجید میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے:
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ (البقرۃ:۱۵۴
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مُردہ مت کہو.‘‘

وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ (آل عمران:۱۶۹
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مُردہ نہ سمجھو‘ بلکہ وہ تو درحقیقت زندہ ہیں‘ اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں.‘‘

اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا تو زندہ ہے. شہید کے لیے حساب کتاب کا مرحلہ نہیں ہے‘ وہ تو سیدھے جنت میں جائیں گے.اللہ کی راہ میں قتال کا یہ مقام ہے. یہ وہ شہادت ہے جو منزل پر منزل طے کرتی ہوئی چلی آ رہی ہے اور نویں منزل پر آ کر قتال فی سبیل اللہ کے مقام پر پہنچتی ہے. کچھ لوگ سیدھے چھلانگ لگا کر وہاں پہنچتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ ہے.

مقتول فی سبیل اللہ ہونے کی سعادت ان لوگوں کا نصیب ہے جو اللہ کی راہ میں قتال (دو طرفہ جنگ) کرتے ہیں‘ اور اس سعادت میں وہ لوگ بھی شریک ہیں جو یکطرفہ جنگ میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں. جیسے حضرت یاسر اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہمااُس وقت قتل کر دیئے گئے جبکہ ابھی صبر محض (Passive Resistance) کا دور تھا اور قتال کا مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا‘ دو طرفہ جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی. دو طرفہ جنگ شروع ہونے کے بعد جنہوں نے مرتبہ شہادت حاصل کیا یا اس سے پہلے ہی مرتبہ شہادت پر فائز ہو گئے‘ یہ دونوں اس سعادت میں شامل ہو جائیں گے. بہرحال جہاد فی سبیل اللہ اور اس کی منزلوں کا ایک منظم جماعت کے بغیر کوئی تصور نہیں.