نظمِ جماعت کی مسنون اساس : بیعت سمع و طاعت

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس منظم جماعت کی تنظیم کی بنیاد کیا ہو؟ اس کے لیے ہمیں جو مسنون ‘ مأثور اور منصوص بنیاد ملتی ہے وہ بیعت سمع و طاعت ہے. نبی اکرم نے اپنے ساتھیوں سے یہ بیعت لی‘ حالانکہ آپؐ اللہ کے رسول تھے اور جو بھی آپؐ پر ایمان لے آتا اس پر آپؐ کی اطاعت لازم تھی‘ لیکن پھر بھی آپؐ نے اُس وقت بیعت لی جبکہ قتال کا مرحلہ آنے والا تھا. سیرت النبی میں ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی نظیر نہیں ہے. وہاں اصل جماعت تو اس بنیاد پر بن گئی تھی کہ اللہ کے رسول نے دعویٰ کیا کہ میں اللہ کا رسول ہوں‘ جس نے یہ مان لیا وہ اُس جماعت میں شامل ہو گیا جو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ پرمشتمل تھی.جنہوں نے تسلیم کر لیا کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘ وہ آپؐ کی پیروی کریں گے‘ آپؐ کا حکم مانیں گے‘ آپؐ کی بات سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے.لہذا وہاں آغاز میں بیعت کی ضرورت نہ تھی. چنانچہ آپؐ نے بیعت آخری مرحلے پر لی‘ لیکن ہمارے پاس تنظیم کی بنیاد کے لیے کوئی متبادل اساس نہ حدیث میں ہے نہ قرآن میں‘ اور نہ ہماری تیرہ سو برس کی تاریخ میں بیعت سمع و طاعت کے علاوہ کوئی بنیاد موجود ہے. اس کے لیے متفق علیہ روایت ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٌ (۲۰)
’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول سے اس بات پر کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے‘ خواہ مشکل ہو خواہ آسانی ہو‘خواہ ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں خواہ ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ خواہ آپ دوسروں کو ہم پر ترجیح دے دیں. جنہیں آپ امیر بنائیں گے یا ذمہ داری سونپیں گے ہم ان سے جھگڑے گے نہیں (ان سے تعاون کریں گے اور ان کی اطاعت کریں گے)‘ جہاں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے (اپنی رائے ضرور پیش کریں گے). ہم اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے. (اس خو ف سے کہ لوگ ملامت کریں گے یا مذاق اڑائیں گے ہم اپنی زبان بند نہیں کریں گے.)‘‘

یہ ہے حزب اللہ (یعنی اللہ کی پارٹی) جس کے بارے میں فرمایا گیا: اُولٰٓئِکَ حِزۡبُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٪۲۲﴾ (المجادلہ:۲۲نیز فرمایا: فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰہِ ہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ﴿٪۵۶﴾ (المائدۃ:۵۶گویا حزب اللہ سے دنیا میں غلبے کا بھی وعدہ ہے (اگر یہ شرائط پوری کی ہوئی ہوں) اور اس حزب اللہ سے آخرت کی فلاح کا وعدہ بھی ہے.سورۃ المجادلہ میں اس فلاح کا ذکر ہے اور سورۃ المائدہ میں غلبے کا ذکر ہے.

نبی اکرم نے جو بیعت سمع و طاعت لی تھی وہ غیر مشروط اور مطلق تھی‘ لیکن آپؐ کے بعد اس بیعت سمع و طاعت میں ’’فی المعروف‘‘ کا اضافہ ہو گا. اس لیے کہ حضور کی اطاعت مطلق اطاعت تھی کہ جو حکم بھی آپ دیں گے اس کی بلاچوں و چرا اطاعت کرنی ہو گی. اس لیے کہ آپؐ سے غلطی کا صدور ممکن نہیں‘ آپؐ معصوم ہیں اور جو کچھ آپؐ پر اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے آپؐ وہی کچھ کرتے اور کہتے تھے. ازروئے الفاظِ قرآنی: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ (النجم:۳،۴
’’اور وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے. یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے.‘‘

اگر کوئی دنیاوی تدبیر ہوتی تو اس میں حضور ساتھیوں سے مشورہ لیتے. بعض مواقع پر ساتھی خود عرض کر دیتے کہ اگر آپ کی رائے وحی پر مبنی ہے تو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ اور اگر یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہے تو ہمیں اس کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی اجازت دیجیے.حضور فرماتے کہ ہاں‘اپنی رائے بیان کریں. لیکن جس بات کا آپؐ حکم فرما دیتے اس پر سب سرتسلیم خم کر دیتے‘ کیونکہ وہ تو ہر حال میں ماننا ہے. لیکن محمد رسول اللہ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی یہ مقام نہیں ہے کہ وہ کہہ سکیں کہ میں جو حکم بھی دوں گا وہ ماننا پڑے گا. حضور کے بعد اصول یہ ہو گا کہ کتاب و سنت کے دائرے کے اندر اندر حکم ہو گا تو مانا جائے گا. اگر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے دائرے کے اندر اندر حکم دیا جائے گا تو ٹھیک ہے‘ اس سے باہر قابل قبول نہیں. اسلامی ریاست کا سیاسی نظام بھی بنے گا تو اسی دائرے کے اندر اندر‘ اور کوئی جماعتی نظام بنے گا تو وہ بھی اس دائرے کے اندر اندر. چنانچہ ہم نے تنظیم اسلامی میں شمولیت کے لیے جو حلف نامہ رکھا ہے وہ اسی حدیث پر مبنی ہے. لیکن اس میں ’’فی المعروف‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے. یعنی ’’ اِنِّیْ اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ … الخ

ظاہر بات ہے بیعت سمع و طاعت اُس جماعت کی بنیاد ہے جو اقامتِ دین کی سطح پر‘ یعنی تیسری منزل پر جہاد فی سبیل اللہ کا کام کرنا چاہے. جیسا کہ عرض کیا گیا‘ بیعت سمع و طاعت کا یہ نظام ’’منصوص‘‘ بھی ہے‘ یعنی قرآن و حدیث کی نص (text) سے ثابت ہے‘ ’’مسنون‘‘ بھی ہے‘ یعنی سنت نبویؐ سے ثابت ہے اور ’’ماثور‘‘ بھی ہے. امت کا اس پر تعامل رہا ہے. تیرہ سو برس کی پوری مسلم تاریخ میں ہر اجتماعی کام شخصی بیعت کی بنیاد پر ہوا ہے. حضور کے ہاتھ پر شخصی بیعت ہوئی‘ پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے ہاتھ پر شخصی بیعت ہوئی. اور جب خلافت غلط رخ اختیار کر رہی تھی تو اس کا رخ درست کرنے کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہمیدان میں آئے تو ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی. یہ دوسری بات ہے کہ کوفیوں نے بیعت توڑ دی. اس کا کوئی وبال حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر نہیں ہے(معاذ اللہ). عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما اٹھے تو ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی. پھر ہمارے ہاں خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی تو بھی بیعت کی بنیاد برقرار رہی. تصوف میں تزکیۂ نفس کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ بھی بیعت ارشاد ہی کی بنیاد پر چلا. پچھلی صدی میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف عالم اسلام میں مزاحمت کی تحریکیں اٹھیں تو وہ سب بیعت کی بنیاد پر ہی تھیں. چاہے وہ سوڈان میں مہدی سوڈانی کی تحریک تھی‘ یا لیبیا میں سنوسی کی تحریک تھی‘ یا ہندوستان میں تحریک شہیدینؒ تھی.

موجودہ دور میں مغربی اثرات کے تحت بالعموم شخصی بیعت کی بجائے دستوری بیعت کا نظام اختیار کیا جاتا ہے. یعنی جماعت کا ایک دستور لکھا ہوا موجود ہے اور آپ کی بیعت اس دستور سے ہے کہ آپ اس دستور کی پابندی کریں گے اور اس دستور کی رو سے جو امیر ہو گا اس کی بات مانیں گے. یہ دستوری بیعت ہے‘ جسے مَیں جائز اور مباح سمجھتا ہوں‘ لیکن میرے نزدیک منصوص‘ مسنون اور ماثور شخصی بیعت اس دستوری بیعت سے بدرجہا بہتر ہے.