اب آخری دو باتیں نوٹ کر لیجیے.

۱- پہلی دو منزلوں کے جہاد کا جہاد فی سبیل اللہ ہونا اس شرط سے مشروط ہے کہ ہدف تیسری منزل ہو. اگر پیشِ نظر اقامتِ دین نہیں ہے تو پھر یہ چیزیں جہاد فی سبیل اللہ شمار نہیں ہوں گی. ہو سکتا ہے کہ پہلی منزل پر تزکیۂ نفس خانقاہی نظام بن کر رہ جائے اور بس تزکیہ اور تربیت کا یہی عمل نسلاً بعد نسلٍ چلتا رہے. اسی طرح اگر دعوت و تبلیغ کا ہدف بھی ’’اقامت دین‘‘ نہیں ہے تو پھر یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ کے کھاتے میں شمار نہیں ہو گی . ع
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف!

لہٰذا آغاز ہی سے ہدف اقامت دین اور غلبۂ دین ہونا چاہیے. ابتدا ہی سے یہ ہدف سامنے رہنا چاہیے. اس لیے کہ ساری جدوجہد منزل بہ منزل اسی کے لیے ہو رہی ہے.

(۲) جب کوئی بندئہ مؤمن غلبہ طاغوت کے تحت زندگی گزار رہا ہو تو اس کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ آج پوری کی پوری امت کا حال یہ ہے کہ وہ طاغوت اور باطل کے غلبے کے تحت زندگی گزار رہی ہے‘ اِلّا ماشاء اللہ‘ کچھ pockets ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں. مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں اسلامی حدود و تعزیرات کا نفاذ ہوا ہے یا کسی حد تک سعودی عرب‘ ایران اور سوڈان میں اپنے اپنے فقہی تصورات کے مطابق اسلامی قوانین نافذ کئے گئے ہیں‘ باقی پوری امت مسلمہ طاغوت کے شکنجے میں ہے. چاہے سوفیصد مسلمان آبادی ہے لیکن نظام کافرانہ ہے. ایسی صورت حال میں قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ … فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ … فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ یعنی جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں… وہی تو ظالم ہیں… وہی تو فاسق (نافرمان) ہیں. بقول  اقبال ؎

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی!
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

اس حالت میں اگر اس طاغوت کا انکار نہیں ہے‘ اس سے شدید نفرت نہیں ہے‘ اس کے خلاف جہاد کاعزمِ مصمم نہیں ہے اور اللہ کے دین کے غلبے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا گیا تو پھر یہ زندگی میرے نزدیک نفا ق کی زندگی ہے. پھر اس باطل نظام کے تحت پھلنا ‘ پھولنا‘ اپنی جائیدادیں بنانا اور کاروبار چمکانا جائز نہیں ہے. ایسی حالت میں بندئہ مؤمن اور کچھ نہ کرے لیکن 
Under protest ضرور رہے‘ کیونکہ وہ مجبور ہے. وہ ان حالات میں ایک مجاہد کی حیثیت سے رہے اور مسلسل جہاد کرتا رہے. کم سے کم درجے میں اس نظام سے شدید نفرت تو ہو‘ اس کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہو‘ اس نظام کی خدمت نہ کی جائے‘ اس کی چاکری نہ کی جائے‘ اس کے ساتھ مصالحت (Reconsilation) نہ ہو‘ بلکہ ایک جدوجہد ہو اور انسان یہ سمجھے کہ یہ میرے لیے فرضِ عین ہے. یہ جہاد بندۂ مؤمن پر فرضِ عین ہے. اس جہاد کے بغیر نجات نہیں ہے اور اس جہاد کے بغیر ایمان نہیں ہے. یہی وہ جہاد ہے جس کے بارے میں محمد رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَلْجِھَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الدَّجَّالَ (۲۱)
’’جہاد (فی سبیل اللہ)جاری ہے اُس دن سے لے کر جس دن اللہ نے مجھے مبعوث کیا تھا اور اس وقت تک جاری رہے گا جب میری اُمت کا آخری حصہ دجال کے ساتھ جنگ کرے گا.‘‘

چنانچہ نوٹ کیجیے‘ بارہ برس مکے میں جو جہاد ہوا وہ بھی جہاد فی سبیل اللہ تھا‘ قتال تو کہیں پندرہ برس بعد جا کر میدانِ بدر کے اندر ہوا ہے. پہلے جہاد حضور نے تین تنہا کیا‘ پھر آپؐ پر ایمان لانے والے آپ کے ساتھیوں نے یہی جہاد کیا. بارہ برس صبر محض (Passive Resistance) میں گزرے ہیں تو اس دوران بھی جہاد فی سبیل اللہ منزل بمنزل آگے بڑھتا رہا ہے اور پھر اقدام (Active Resistance) کا ایک دو سال کا عرصہ ہے اور پھر جا کر مسلح تصادم (Armed Conflict) یعنی قتال فی سبیل اللہ کا مرحلہ آیا ہے.

بہرحال جہاد فی سبیل اللہ رسول اللہ کی بعثت سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب اُمت کا آخری حصہ دجال کے ساتھ جنگ کرے گا. دجال کے ساتھ جو جہاد ہو گا وہ جہاد کی آخری منزل یعنی قتال ہو گا. یہ ایک بہت بڑی جنگ ہو گی جسے حدیث میں ’’اَلْمَلحمَۃُ الْعُظْمٰی‘‘ قرار دیا گیا ہے. اور یہ مرحلہ بھی اب کوئی زیادہ دور نہیں ہے‘ اس کے لیے عالمی سطح پر سٹیج تیار ہو رہا ہے اور اس کے لیے سارے عوامل دیکھنے والوں کو نظر آ رہے ہیں.

یہ ہے جہادِ مسلسل‘ جُہدِ مسلسل‘ جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت اور لزوم‘ اس کی منزلیں‘ اس کے مراحل اور اس کے لوازم. اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے .

اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ لِیْ وَلَکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمْیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ