دُنیا کی عظیم ترین نعمت قرآن ِحکیم

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 
ارشادِ ربانی ہے:

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ (البقرۃ: ۱۸۵)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘. اور قرآن کیا ہے؟ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ ’’ہدایت اور فرقان کی بینات‘‘. اس ترکیب میں جو تین الفاظ آئے ہیں اس میں سب سے پہلے لفظ ’’ہدایت‘‘ پر توجہ دیجیے کہ ’’ہدایت‘‘ سے مراد کیاہے؟ اس کا ہم عام ترجمہ تو رہنمائی اور راستہ بتانا کرتے ہیں‘ لیکن ذرا گہرائی میں سمجھئے کہ ’’ہدایت کسے کہتے ہیں؟

ہدایت کے دو پہلو

ہدایت کے دو حصے ہیں: ایک ہے انسان کے لیے نظری‘ فکری اور علمی ہدایت اور ایک ہے عملی‘ اخلاقی اور زندگی کے معمولات کے ضمن میں ہدایت. نظری‘ فکری اور علمی ہدایت کے اہم ترین حصے کو ہندی میں ’’ست است وویگ‘‘ کہتے ہیں. یعنی انسان میں یہ تمیز پیدا ہو جائے کہ کیا چیز حق ہے اور کیا باطل ہے. ہندو جب اپنے مردوں کی ’’اَرتھی‘‘ لے کر جاتے تھے تو کہتے تھے : ’’رام نام ست ہے‘‘. تو ’’ست‘‘ کے معنی ’’حق‘‘ کے ہیں. قرآن مجید میں آتا ہے: ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ .اسی طرح ہندی میں اس حق کے لیے لفظ ’’ست‘‘ ہے. ہندی میں بعض الفاظ کے شروع میں اگر سابقے کے طور پر ’’الف‘‘ کا اضافہ کر دیں تو معنی اُلٹے ہو جاتے ہیں‘ مثلاً ’’ٹل‘‘ سے ’’اٹل‘‘. اسی طرح ’’مر‘‘ سے ’’امر‘‘ اور ’’ست‘‘ سے ’’است‘‘. ’’است‘‘ وہ شے ہے جو نظر تو آرہی ہے لیکن حقیقی نہیں ہے‘ جبکہ ’’ست‘‘ وہ شے ہے جو حقیقت پر مبنی ہے. سب سے بڑی بات یہی ہے. انگلستان کے بہت بڑے فلسفی ’’بریڈ لے‘‘ نے اپنی معرکۃ الآ راء کتاب "Appearance and Reality" میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ’’جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے‘ بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے‘‘. جو کوئی محض آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں میں الجھ گیا وہ درحقیقت باطل (falsehood) کا شکار ہے‘ جب تک کہ اس ظاہر کے پردے کو چیر کر باطن کو نہ دیکھا جائے. اقبال نے کہا ہے ؎

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

عربی کا ایک شعر ہے ؎

کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَھْمٌ اَوْ خَیَالٌ اَوْ عُکُوْسٌ فِی الْمَرَایَا اَوْ ظِلاَلٌ
’’ کائنات میں یہ جو کچھ ہے وہم ہے یا خیال ہے‘ یا جیسے شیشوں کے اندر عکس ہوتا ہے یا جیسے سایہ ہوتا ہے.‘‘

اس کی کوئی حقیقت نہیں. یہ مادی دُنیا اور مادی عالم بڑا ٹھوس نظر آتا ہے‘ یہ محسوس بھی ہوتا ہے‘ اس میں ہمیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو فوراً محسوس ہو جاتی ہے اور اس کی مسرت بھی فوراً محسوس ہوتی ہے. ہم اس کی تکلیف سے بھی متاثر ہوتے ہیں اور اس کی راحت سے بھی‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان سمجھ لے کہ یہ نمودِ بے بود ہے‘ یعنی اس کی نمود تو ہے‘ حقیقت کوئی نہیں. حقیقت صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے. قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے : 
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ ’’الحق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.‘‘

انسان کے اندر یہ تمیز پیدا ہو جانا اس کی بھی درحقیقت مختلف corollaries ہیں.دراصل ہمارا ایک جسم ہے جو نظر آتا ہے‘ وزن رکھتا ہے اور اس کے تقاضے ہیں جو محسوس ہوتے ہیں. بھوک لگتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے. پھنسی نکلتی ہے تو درد ہوتا ہے. اس کی مسرت بھی اور اس کی تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے. لیکن ہمارا حقیقی وجود یہ نہیں ہے‘ حقیقی وجود وہ روحانی وجود ہے جو نظر نہیں آتا. وہ reality ہے‘ یہ appearance ہے. یعنی یہ ظاہر ہے اور وہ اصل حقیقت ہے. اسی طرح یہ دنیا کی زندگی ہے‘ عظیم کائنات ہے‘ کہکشائیں (galaxies) ہیں‘ ایسے ایسے ستارے ہیں جو سائز میں ہمارے سورج سے 

لاکھوں گنا بڑے ہیں. پوری کائنات کی وسعت کو دیکھیں تو یہ ہمارا سورج بھی ایک ذرّہ معلوم ہوتا ہے‘ اور ذرّے کا دل چیریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر پورا سورج موجود ہے ؏ ’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں!‘‘ ان ذرات کا دل چیر کر ایٹمی توانائی نکالی گئی ہے ؏ ’’مہر درخشاں ذرۂ فانی‘ ذرۂ فانی مہر درخشاں!‘‘ لیکن یہ سب appearance ہے ‘ حقیقت نہیں ہے.

اگر یہ بات دل میں ٹھک جائے تو گویا انسان کی نظری‘ فکری اور علمی رہنمائی ہو گئی‘ اور اگر نگاہیں یہیں الجھی ہوئی ہیں اور دلچسپیاں انہی ظاہری چیزوں میں ہیں اور بھاگ دوڑ انہی کے لیے ہے‘ انہی کو زندگی سمجھا ہے‘ اپنے آپ کو اسی ظاہری جسم سے تعبیر کیا ہے تو آدمی چاہے فلسفی ہو‘ پی ایچ ڈی ہو‘ مفسر‘محدث‘ فقیہہ اور مفتی ہو‘ وہ درحقیقت اندھیروں (ظلمات) ہی میں ہے. اسی لیے قرآن کہتا ہے: یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (البقرۃ:۲۵۷یعنی اللہ اہل ایمان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے. 

یہ جو ظواہر 
(appearances) ہیں ان کی بجائے حقائق پر توجہ اور نگاہیں مرکوز ہوں تو یہ نظری ہدایت ہے جس کے لیے رسول اللہ کی بڑی پیاری دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ ’’اے اللہ! مجھے تو چیزوں کی حقیقت دکھا جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں‘‘. ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے. کتا بھی کارکو اگر اپنی طرف آتا دیکھ لیتا ہے تو راستہ بدل لیتا ہے. اگر ہم نے بھی یہ کر لیا تو کون سا بڑا تیر مار لیا .تو پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ نظری ہدایت یہی ہے کہ اس سے ظاہر و باطن کا فرق معلوم ہوجائے‘ حق اور باطل (reality and falsehood) پوری طرح واضح ہو جائیں. یہی بات سورۃ الکہف میں بھی بیان ہوئی ہے. جب حقیقت پر باطل کا ملمع ہو جائے تو یہی دجالیت ہے. دجل کسے کہتے ہیں؟ حقیقت پر کسی اور شے کا پردہ ڈال دینا. اسی اعتبار سے یہ دجالیت ہے کہ ان تین حقیقتوں یعنی ذاتِ باری تعالیٰ‘ روح ِ انسانی اور حیاتِ اُخروی پر ان تین ظواہر یعنی کائنات‘ جسم حیوانی اور حیاتِ دنیوی کا پردہ پڑ جائے‘ اور یہی دجل اور فریب ہے. اور جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے یہ دجل بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ اس ظاہر کی دلکشی بڑھتی چلی جا رہی ہے. یہ appearance اور زیادہ دل کو موہ لینے والی چیز بنتی چلی جا رہی ہے. اس کی رونقیں بڑھتی جا رہی ہیں اوراس کی چمک دمک میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ؎ 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!
یہ جھوٹ اور "falsehood" ہے‘ حقیقت نہیں ہے.

بہرحال پہلی بات نظری‘ فکری اور علمی ہدایت ہے. میں نے اس وقت دینی اصطلاحات یعنی ایمان باللہ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرۃ کے حوالے سے بات نہیں کی‘ بلکہ ایک نئے زاویے سے وضاحت کی کوشش کی ہے. اگر انسان میں سَت اَست وویگ‘ reality and appearance ‘reality and falsehood‘ کے مابین فرق و امتیاز‘ حق اور باطل میں امتیازکا وصف قائم ہو گیا تو اسے نظری‘ فکری اور علمی ہدایت حاصل ہو گئی.

دوسری ہدایت عملی ہے. اس معاملے میں بھی قرآن کا فلسفہ سمجھ لیجئے کہ عملی ہدایت کا ایک درجہ انفرادی سطح پر ہے کہ میں کیا کروں کیا نہ کروں؟ اللہ تعالیٰ نے یہ انفرادی ہدایت ہر انسان کے دل میں ودیعت کر کے اسے دُنیا میں بھیجا ہے. اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر ہے‘ یہ نیکی ہے اور یہ بدی ہے‘ یہ بھلائی ہے اور یہ برائی ہے: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ نفس ِانسانی کو معلوم ہے کہ سچ بولنا اچھا ہے اور جھوٹ بولنا برا ہے‘ وعدہ کر کے پورا کرنا اچھا ہے اور وعدہ خلافی کرنا بری بات ہے. بڑوں کی خدمت اور عزت کرنا اچھی بات ہے اور ان کے ساتھ بے عزتی کا معاملہ کرنا بری بات ہے‘ والدین کے ادب اور خدمت پر مبنی رویہ اچھا ہے اور اگر ان کا لحاظ نہ ہو تو یہ بری بات ہے. اسے کون نہیں جانتا؟ یہ دوسری بات ہے کہ انسان کا مزاج ہی بگڑ گیا ہو تو اس وجہ سے وہ اپنے اندر کی اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا. لیکن جس وقت وہ غلط کام کر رہا ہوتا ہے اسے اندر سے ضمیر متنبہ کرتا ہے کہ تم غلط کررہے ہو. اسی کا نام ’’نفس لوامہ‘‘ ہے کہ جس کی قسم کھائی گئی: لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ ’’نہیں!میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی. اور نہیں!میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گرکی.‘‘

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اس انفرادی معاملے پر اتنا زیادہ زور نہیں دیا گیا‘ بلکہ انہیں معروف ومنکر کہا گیا ہے کہ جو چیزیں معروف اور جانی پہچانی ہیں یہی اچھائیاں اور بھلائیاں ہیں‘ پس ان کی پیروی کرو. منکر وہ ہیں جن سے انسان کا نفس خود ہی نفرت کرتا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ انسان اپنے کسی مفاد کی وجہ سے یا کسی وقتی جذبے کے تحت کسی منکر کا ارتکاب کر لیتا ہے‘ لیکن اس کی فطرت اس وقت بھی اسے ٹوک رہی ہوتی ہے کہ غلط کام کر رہے ہو. انسان کو اصل احتیاج اجتماعی زندگی میں ہدایت کی ہے. یہاں آکر جو پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کا حل عقل ِانسانی کے لیے محال مطلق اور ناممکن ہے. دُنیا میں آج تک تین اجتماعی مسائل کی نشاندہی ہوئی ہے: 

۱) عورت اور مرد کے درمیان حقوق و فرائض کے ضمن میں کیا توازن ہو؟ بیوی کے کیا حقوق ہوں اور شوہر کے کیا حقوق ہوں؟ یہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے. انسان اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار رہا ہے.

۲) دوسرامسئلہ اجتماعی نظامِ ریاست و حکومت کا ہے کہ ایک فرد اور عام شہری کو کتنی آزادی ہونی چاہیے اور اس پر کتنا جبر ہونا چاہیے؟ اور اجتماعیت کو کتنا اختیار ہونا چاہیے اور 
checks and balances کا کیا نظام ہونا چاہیے؟ پولیٹکل سائنس ساری کی ساری اسی مسئلے کے گرد گھومتی ہے.

۳) اسی طرح سرمایہ اور محنت‘ کارخانے دار اور مزدور کے حقوق و فرائض میں کیا توازن ہونا چاہیے؟ اس میں ذرا سے عدمِ توازن سے ظلم واستحصال کا بازار گرم ہوجاتا ہے. سرمایہ دار غریب کا خون چوستا ہے ؎
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفائے دہ خدایاں کشت ِدہقاناں خراب!

’’سرمایہ دار نے مزدور کے خون سے شراب کشید کی ہے جسے وہ شام کو کلب میں بیٹہ کر پیتا ہے .اور زمیندار اور لینڈلارڈ کے ظلم و ستم سے کاشتکار کی کھیتی خراب ہے کہ اس کا بچہ فاقے سے ہے‘ حالانکہ محنت و مشقت اسی کاشتکار نے کی ہے.‘‘

یہاں آکر انسان بالکل گھٹنے ٹیک کر اللہ سے ہدایت کا طالب بنتا ہے. سورۃ الفاتحہ کے قرآن مجید کے بالکل شروع میں ہونے کی حکمت بھی یہی ہے کہ انسان پہلے خود کہہ رہا ہے: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’تمام شکر اُس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے. بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے. جزا و سزا کے دن کا مالک ہے. ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.‘‘

ان حقائق تک تو وہ خود پہنچ گیا ہے‘ لیکن اس کے بعد آگے کہتا ہے : 

اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ 
’’اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے.‘‘

اس اجتماعی معاملے کو کہیں قرآن ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہتا ہے ‘کہیں ’’صراط السَّوِیّ‘‘ اور کہیں ’’سواء السبیل‘‘ . مختلف الفاظ آئے ہیں. ان تمام پیچیدگیوں میں سے درمیانی‘ معتدل اور عدل پر مبنی راہ‘ جس میں افراط و تفریط نہ ہو‘ یہ اصل ہدایت ہے جس کے لیے قرآن نازل ہوا.

اس بحث کے حاصل کلام کے طور پر جان لیجئے کہ ہدایت نظری کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے حق اور باطل appearance and reality ‘ ست‘ اَ سَت کے درمیان امتیاز واضح ہو جائے. اللہ حق ہے‘ آخرت حق ہے. آپ نے وہ دعا پڑھی ہو گی: اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ وَالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ (متفق علیہ) یہ تمام امور حق ہیں. باقی جو نظر آ رہا ہے یہ سب باطل ہے. سورۃ الحشر میں متنبہ کیا گیا : وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ (الحشر:۱۹’’ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی جانوں سے غافل کر دیا.‘‘ 

ہم اپنے مادی جسم کو محسوس کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں ‘حالانکہ حقیقت میں تو کوئی اور شے ہے کہ جو ہمارے وجود کی بنیاد بنتی ہے. اسی طرح فرمایا: یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ (الروم:۷’’یہ دنیا کی زندگی کے ظاہر (appearance) کو ہی جانتے ہیں‘‘. حقیقت کو نہیں جانتے. دنیا کی زندگی کی حقیقت معنوی کو جانتے تو اللہ کو پہچان لیتے ‘اور آخرت کو فوراً پہچان لیتے‘ لیکن یہ صرف دنیا کی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں. یہ نظری ہدایت ہے.

جہاں تک عملی ہدایت کا تعلق ہے تو ہر انسان کے لیے اس کی جبلی ہدایت اس کے اندر موجود ہے‘ جیسے پیٹ کھانے کومانگتا ہے‘ جسم کے دوسرے تقاضے ہیں‘ ان کو پورا کیا جائے. اس میں اسے ہدایت صرف اس بات کی دینا ضروری ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ سڑک کے ذریعے جب آپ مری جاتے ہیں تو ہر موڑ پر نشان لگے ہوتے ہیں کہ یہاں سے آرام سے گزرنا‘ ورنہ کھائی میں گر جاؤ گے. سپیڈ کی حدود معین کر دی گئی ہیں. اس طرح سے زندگی کے مختلف معاملات میں حدود اللہ معین کر دی گئی ہیں کہ ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا‘ باقی یہ کہ خیر وشر کے بارے میں تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے‘ کیونکہ تمہیں خود ہی معلوم ہے. البتہ اجتماعی زندگی کے اندر تم محتاج محض ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت تمہیں ملے.

اب اگلے لفظ پر آیئے: بَـیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فرقان کا مطلب ہے حق و باطل میں فرق‘ ست است میں فرق ‘ appearance and reality میں فرق. ’’بینات‘‘ وہ ہیں جو از خود روشن ہوں .سورۃ العنکبوت میں فرمایا: بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ (آیت ۴۹’’بلکہ یہ (قرآن) تو وہ آیاتِ بینات ہیں جو اہل ِعلم کے سینوں میں (پہلے سے) موجود ہیں‘‘.اسی لیے قرآن اپنے آپ کو تذکرہ و تبصرہ کہتا ہے. ’’تبصرہ‘‘ کہتے ہیں کسی کو آنکھ کھول کر دکھا دینا اور ’’تذکرہ‘‘ کے معنی ہیں یاد دلا دینا کہ تمہارے اندر یہ سب کچھ موجود ہے. تمہارے اندر حق ہے‘ تمہارے اندر ذاتِ باری تعالیٰ کی تجلی ہے ؎

ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے!

چنانچہ قرآن مجید جو ’’بینات‘‘ کا لفظ لاتا ہے تو وہ اس اعتبار سے کہ یہ انسانی روح کے لیے جانی پہچانی شے ہے‘ اس میں کوئی نئی شے نہیں ہے. اسی لیے بڑے پیارے انداز میں مولانا روم نے کہا ؎

خشک تار و خشک مغز و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست!

قرآن مجید کو سنتے ہوئے وہ شخص جس کا دل قوی اور زندہ ہو اور روح بیدار ہو تو وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے یہ میرے دوست کی آواز آ رہی ہے‘ اور گویا یہ تو میرے اپنے دل کی آواز ہے. 
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

’’قرآن کے پڑھنے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ قرآن کو پڑھ رہے ہوتے ہیں تو یہ نہیں سمجھتے کہ ہم مصحف میں سے پڑھ رہے ہیں‘ بلکہ ایسے محسوس کرتے ہیں کہ جیسے قرآن ہمارے لوح ِ قلب پر لکھا ہوا ہے اور ہم وہاں سے پڑھ رہے ہیں.‘‘ فطرت ِ انسانی اور قرآن حکیم میں اس قدر ہم آہنگی اسی لیے ہے. یہ قرآن بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ہے اور یہ ایسی روشن آیات ہیں جو علم والوں کے سینوں میں محفوظ ہیں.

دُنیا کی سب سے بڑی نعمت

اب آیئے اس بات کی طرف کہ یہ قرآن سب سے بڑی نعمت کیوں ہے؟ دراصل ہمارا نعمتوں کا تصور دولت‘ شہرت‘ اقتدار‘ جائیداد‘ اولاد‘ صحت وغیرہ تک محدود ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی شے بھی نعمت نہیں ہے‘ نعمت صرف ایک ہے اور وہ ہدایت ہے. ہدایت ہو گی تو دولت بھی نعمت ہے‘ صحت بھی نعمت ہے‘ ہدایت کی بنا پر آپ دولت اور صحت سے نیکیاں کمائیں گے. اور اگر ہدایت نہیں ہے تو اسی صحت کی بنیاد پر بدمعاشیاں کریں گے. تو ظاہر ہے کہ ایسی صحت نعمت نہیں بلکہ زحمت ہے. ہدایت ہے تو زندگی نعمت ہے‘ زندگی کاایک ایک لمحہ نعمت ہے‘ ہدایت نہیں ہے تو زندگی لعنت ہے. ہدایت ہے تو اولاد نعمت ہے‘ اسے آپ دین کے کام میں لگائیں گے اور اسے صدقہ ٔجاریہ بنائیں گے. ہدایت نہیں ہے تو اولاد لعنت ہے جو آپ کے لیے عذاب کا باعث بنے گی. آپ نے حرام کے ذریعے سے جو کچھ کما کر جمع کیا ہے اس کو اللوں تللوں میں اُڑائے گی اور ان کی بدمعاشیوں کا حساب آپ کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا. قرآن مجید میں دو جگہ کہا گیا ہے: 

فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلآَ اَوْلاَدُھُمْۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (التوبہ:۵۵ ‘اور قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ التوبہ: ۸۵

’’ان کے مال اور ان کی اولاد (کی کثرت) تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے‘ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دینا چاہتا ہے.‘‘ اگر ہدایت نہیں تو نہ دولت نعمت ہے‘ نہ اولاد نعمت ہے‘ نہ صحت نعمت ہے‘ بلکہ یہ سب ہماری تباہی کا سامان ہے‘ ہمارے جہنم میں جانے کے لیے تمہید ہے. ہاں پارس وہ شے ہے جس سے کوئی چیز چھو جائے تو وہ سونا بن جاتی ہے. اسی طرح ہدایت وہ شے ہے کہ اس کے ساتھ صحت بھی نعمت ہے‘ زندگی بھی نعمت ہے. اس کے باوجود بھی اگر کچھ کوتاہیاں ہو جائیں تو ان کی تلافی کا امکان ہے. انسان توبہ کے ذریعے اپنی غلطیوں کی تلافی کرلیتا ہے. ہدایت کے ساتھ اگر اقتدار نصیب ہو جائے تو خلق خدا کی بہتری کا سامان ہو جائے گا. اگر اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے جن کے پاس ہدایت نہیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ خلق خدا انہیں کوسے گی اور یہ خلق خدا کو لعنت کریں گے. تو معلوم یہ ہوا کہ اس دُنیا میں‘ اس آسمان کے نیچے اور اس زمین کے اوپر حقیقتاً نعمت صرف ایک ہے اور وہ ہدایت ہے ‘جو کہ مطلقاً نعمت ہے‘ سرتاپا نعمت ہے اور جو ہر نعمت کو نعمت بنانے والی ہے. اگر یہ نہ ہو تو پھر کوئی شے نعمت نہیں ہے.

عظمت ِقرآن‘ بزبانِ قرآن

اس نعمت ہدایت کی عظمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی عجیب بات کی طرف میرے ذہن کو متوجہ کیا. وہ یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے کلام کی جو عظمت بیان کی ہے اس کے ضمن میں سورۃ الحشر کی ایک بڑی عظیم آیت ہے اور پھر دو آیات سورۂ یونس کی‘ چار سورۃ الرحمن کی‘ چھ سورۂ عبس کی اور آٹھ سورۃ الواقعہ کی. گویا ایک‘ دو‘ چار‘ چھ‘ آٹھ سیڑھیاں ہیں. پھر ایک عظیم آیت سورۃ الجمعہ کی ہے جو کہ سورۃ الواقعہ میں بیان کردہ منفی کردار کو مزید واضح کرتی ہے. میں اس وقت ان قرآنی آیات کے حوالے سے عظمت قرآن کی طرف صرف اشارہ کروں گا‘ کیونکہ قرآن کی عظمت فی نفسہٖ کیا ہے؟ یہ ہم سمجھ ہی نہیں سکتے. سورۃ الحشر میں ارشاد ہوتا ہے: 

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ 
’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے. یہ مثالیں ہم لوگوں کے غور و فکر کے لیے بیان کر دیتے ہیں.‘‘

قرآن کے بیان کا مقصدیہ ہے کہ یہ مضمون اتنا لطیف ہے کہ تمہارے ذہن کی گرفت میں نہیں آسکتا. اس تمثیل کے ذریعے سے جو بھی کچھ سمجھ سکتے ہو‘ سمجھ لو. قرآن کی عظمت اپنی جگہ ہے. اقبال نے اس حقیقت کو ایک اور انداز میں کہا ہے ؎ 

فاش گویم آں چہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ گویا ست ایں!

’’اس کتاب کے بارے میں جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں. حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہی شے ہے. جیسے اللہ کی ذات الحق ہے ویسے ہی یہ الحق ہے اور جو صفات اللہ کی ہیں‘ یعنی زندہ وپائندہ اور گویا (متکلم) وہی صفات اس قرآن کی بھی ہیں.‘‘

آگے چلئے‘ دو آیات سورۂ یونس کی ملاحظہ ہوں:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷

’’اے لوگو! دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت بھی آگئی ہے اور تمہارے سینوں کے اندر جو روگ ہیں ان کی دوا بھی آ گئی ہے‘ اور یہ ہدایت اور رحمت ہے اہل ایمان کے حق میں.‘‘

دل اگر سخت ہو گئے ہیں تو ان کو نرم کرنے کے لیے نصیحت بھی قرآن ہے ‘اور پھر یہ کہ دل کے روگ کون سے ہیں؟ ان میں دنیا کی محبت ہے. یہ material world ‘ مال و زر (ہندی میں اسے مایہ کہتے ہیں) حقیقت میں کچھ نہیں ہے. اس کی محبت میں انسان گرفتار ہو گیا تو یہی ضلالت ہے اور یہی گمراہی ہے. اس مایہ کی محبت کو دل سے نکالنا‘ اسے اَست کے چکر سے نکال دینا ہی درحقیقت اس کا علاج ہے. قرآن اس حوالے سے یہ کام کرتا ہے کہ لوگوں کے سینوں میں جو روگ ہیں‘ یعنی مال کی محبت‘ شہرت کی محبت‘ اقتدار‘ دولت و جائیدا دکی محبت‘ ان محبتوں کو کھرچ کھرچ کر نکال دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں اس طرح داخل کرتا ہے کہ اصل محبوب اللہ تعالیٰ ہو جائے. اور پھر قرآن (ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِلْمُوْمِنِیْنَ) یعنی یہ اہل ایمان کے حق میں ہدایت بھی ہے اور رحمت بھی. لیکن اصل بات دل کے ٹھکنے کی ہے.

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ: اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا ہو اور پھر بھی وہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں یہ سوچے کہ اس پر اللہ کا فضل و کرم مجھ سے زیادہ ہوا ہے ( کہ اس کو اللہ نے محل دیا ہے‘ اتنی لمبی کار دی ہے،یعنی اس پر اللہ کا کرم زیادہ ہوا ہے ) تو اس نے قرآن کی بہت ناقدری کی. اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس کتنی بڑی دولت ہے. کسی شخص کے پاس کوہِ نور ہیرا ہو اور وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا ہو تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے پاس کوہِ نور ہیرا ہے. پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ نے مجھے ہندی کا ایک دوہا سنایا تھا. بھیکا ایک ہندی شاعر تھا‘ وہ کہتا ہے ؎ 

بھیکا بھوکا کوئی نہیں‘ سب کی گدڑی لال
گرہ کھول جانے نہیں اس بدیے کنگال

یعنی کوئی انسان بھوکا نہیں ہے. اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں اپنی معرفت گویا کوہِ نور ہیرے کی صورت میں رکھی ہوئی ہے‘ تو پھر وہ بھوکا اور مفلس کیسے ہو گیا! صرف دل کی گرہ کھولنے کی ضرورت ہے. چونکہ انسان اپنے دل کی گرہ کو کھولتا نہیں ہے‘ اس لیے محسوس کرتا ہے کہ بھوکا ہو گیا ہے‘ مفلس اور کنگال ہو گیا ہے. سورۃ یونس کی دوسری آیت ہے :

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ 
’’کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے‘ پس اس (نعمت) پر چاہیے کہ خوشیاں مناؤ. وہ بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں.‘‘

چنانچہ اس قرآن پر فخر کرو کہ اللہ نے ہمیں اتنی بڑی دولت دی ہے.
سورۃ الرحمن کی چار آیات ملاحظہ ہوں: 

اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴
’’الرحمن‘ اس نے قرآن سکھایا‘ انسان کو تخلیق کیا‘ اسے بیان سکھایا.‘‘

چار چیزیں جو سب سے چوٹی کی ہیں اللہ تعالیٰ نے ان چار آیتوں میں جمع کر دی ہیں. اللہ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ’’الرحمن‘‘ ہے. اہل عرب میں ’’اللہ‘‘ کا لفظ زیادہ معروف تھا‘ اور وہ ’’رحمن‘‘ کے لفظ سے بدکتے تھے‘ لیکن قرآن نے آکر جس نام کو زیادہ نمایاں کیا وہ ’’رحمن‘‘ ہے‘ کہ سب سے زیادہ محتاج ہم اللہ کی رحمت ہی کے ہیں. جبکہ رسول اللہ نے یہ فرمایا: ’’جب تک رحمت خداوندی دستگیری نہیں فرمائے گی میں بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا!‘‘ ہمارا تمہارا کیامعاملہ ہےـ. عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ’’اس نے قرآن سکھایا‘‘.ویسے تو انسان کو سارے کا سارا علم اللہ تعالیٰ ہی نے دیا ہے. فزکس ‘ الجبرا ‘ جیومیٹری کس نے سکھائی ؟ کیمسٹری کس نے پڑھائی؟ لیکن سب سے اونچا علم قرآن کا ہے. خَلَقَ الْاِنْسَانَ ’’اس نے انسان کو تخلیق کیا‘‘. ویسے تو ساری کائنات اللہ تعالیٰ ہی نے بنائی‘ فرشتے‘ جن‘ آسمان‘ زمین‘ سیارے اور ستارے بنائے‘ لیکن ان سب میں سب سے چوٹی کی مخلوق انسان ہے. عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ’’اس نے اسے بیان سکھایا‘‘. اسے بہت کچھ سکھایا ہے‘ سماعت‘ بصارت دی ہے اور بہت صلاحیتیں دے رکھی ہیں‘ لیکن چوٹی کی چیز ’’بیان‘‘ ہے اس کا ایک نتیجہ نکلتا ہے‘ اور وہ یہ کہ اس چوٹی کے مصرف کو یعنی قوتِ بیانیہ کو چوٹی کی شے پر خرچ کرو. یعنی اس کو قرآن کے پڑھنے پڑھانے‘ سیکھنے سکھانے‘ سمجھنے سمجھانے میں صرف کرو. چنانچہ اسی قافیہ میں وہ حدیث آجاتی ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

خَیْرُ کُمْ مَّنْ تَـعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗ (رواہ البخاری) 
’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں.‘‘

سیکھنے سکھانے کے مختلف مراحل و مدارج ہیں. قرآن کا صرف ناظرہ پڑھنا‘ سیکھنا سکھانا بھی ٹھیک ہے‘ حفظ اور تجوید بھی ٹھیک ہے .اور قرآن کو سمجھنا ہے تو اس کے لیے عربی سیکھنی پڑے گی. پھر ایک تو اس کا سرسری طور پر سمجھنا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی گہرائیوں میں اترنا ہے‘ اس کے فلسفے اور حکمت کو سمجھنا ہے‘ اسی سے اپنی معاشی زندگی کے لیے ہدایت اخذ کرنی ہے اور اسی سے اپنی سیاسی و سماجی زندگی کے لیے رہنمائی لینی ہے‘ تو یہ اس کے مختلف مدارج ہیں. لیکن بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھیں اور پڑھائیں‘ سیکھیں اور سکھائیں.

اب چھ آیتیں سورۂ عبس کی ہیں:

کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶
’’کوئی نہیں! یہ قرآن یاد دہانی ہے. پس جو چاہے یاد دہانی حاصل کر لے. یہ قرآن بڑے ہی باعزت‘ بلند اور پاکیزہ صحیفوں میں ہے ‘اور اس کے کاتب ملائکہ مقربین ہیں ‘جو کہ بہت ہی با عزت اور نہایت نیک ہیں.‘‘

یہ قرآن کی ایک اور اعتبار سے مدح ہے. قرآن تو صرف یاددہانی ہے. تمہاری روح کے اندر وہ سارا علم موجود ہے‘ تمہاری روح میں دبی ہوئی چنگاری موجود ہے. جیسے چنگاری کے اوپر راکھ آ جاتی ہے اسی طرح تمہاری روح کے اندر موجود چنگاری پر راکھ آ گئی ہے. قرآن صرف اس راکھ کوہٹانے کے لیے آیا ہے‘ یہ دلوں کے زنگ کودور کرنے کے لیے آیا ہے. قرآن اندر کے سوئے ہوئے شعور کوبیدار کرنے کے لیے آیا ہے. اس کے بعد فرمایا: قرآن بہت ہی با عزت صحیفوں میں ہے جو کہ بہت ہی بلند ہیں.ایک جگہ الفاظ آئے ہیں: وَاِنَّــہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ (الزخرف) یہ قرآن تو ہمارے پاس اُمّ الکتاب میں ہے‘تمہارے پاس تو قرآن کی مصدقہ نقلیں ہیں ‘یہ اصل قرآن نہیں ہے بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ (البروج) اصل قرآن تو لوح محفوظ میں ہے.

اب آیئے‘ ملاحظہ کیجئے آٹھ آیتیں (۷۵ تا ۸۲) سورۃ الواقعہ کی:

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶
’’نہیں! مجھے قسم ہے ان مقامات کی جہاں ستارے گرتے ہیں‘ اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے جو ہم نے کھائی ہے.‘‘

آج شاید انسان کو پتا چلا ہے کہ اس کائنات کے اندر بہت بڑے بڑے black holes ہیں‘ جو کہ ’’مَوَاقِعِ النُّجُوْمِ‘‘ ہیں. یہ تو ماہرین فلکیات (astronomists) سے پوچھیں کہ یہ black holes کیا ہیں اور کس بلا کا نام ہیں؟ کوئی بڑے سے بڑا سیارہ قریب سے گزر جائے تو وہ ان میں دھنس جائے گا اور فنا ہو جائے گا:

اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ 
’’یہ بڑا باعزت قرآن ہے‘ چھپی ہوئی کتاب میں ہے. (وہ کتاب اللہ کے پاس لوح ِ محفوظ میں ہے) اسے تو چھو ہی نہیں سکتے مگر صرف وہ کہ جو انتہائی پاک ہوں (یعنی فرشتے جو اسے چھوتے ہیں)ـ.‘‘ 

اگرچہ علماء نے اس آیت سے فقہی حکم نکال لیا ہے کہ بغیر وضو قرآن کو ہاتھ نہ لگایا جائے‘ لیکن یہاں اصل مفہوم کچھ اور ہے‘ اور وہ یہ کہ قرآن کے باطن تک انسان کی رسائی اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کاباطن بالکل پاک نہ ہو جائے‘ ورنہ وہ قرآن کے بھی ظاہر کے اندر الجھا رہے گا کہ یہ اسم ہے‘ یہ فعل ہے‘ اس کا مادہ یہ ہے. اس بات کو مولانا روم اس طرح فرماتے ہیں ؎

ما ز قرآں مغزہا برداشتیم
استخواں پیش سگاں انداختیم

یعنی قرآن سے اس کا اصل مغز تو ہم نے لے لیا ہے اور خالی ہڈی کتوں کے آگے ڈال دی ہے‘ وہ خالی ہڈیوں میں لڑتے رہتے ہیں. پس اگر اندر پاک ہو گیا ہو تو قرآن کے باطن تک رسائی ہو گی‘ ورنہ آپ تفسیر لکھ دیں گے‘ لیکن آپ کی رسائی قرآن کے باطن تک نہیں ہو گی. تفسیریں تو غیر مسلم بھی لکھ دیتے ہیں. لوگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھ دی ہیں‘ حدیث کے بڑے بڑے انڈکس غیر مسلموں نے مرتب کر دیے ہیں‘ لیکن قرآن کے باطن تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی.

تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰
’’پھر اس کا اتاراجانا ہے (لوح ِمحفوظ ‘ کتابِ مکنون ‘ اُمّ الکتاب سے) اُس ہستی کی طرف سے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے.‘‘

آگے اب منفی پہلو ہے. اب تک کی باتیں آپ کو اچھی لگ رہی تھیں‘ اب کڑوی بات ہے: 

اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱

’’ کیا اس قرآن جیسی چیز سے تم بے اعتنائی برت رہے ہو؟‘‘بے توجہی کر رہے ہو‘ اسے پڑھتے نہیں‘ پڑھتے ہو تو سمجھتے نہیں‘ سمجھتے ہو تو عمل نہیں کرتے. اتنی عظیم شے! کائنات کی عظیم ترین نعمت سے یہ سلوک! انگریزی ہم نے اتنی پڑھ لی کہ انگریزوں کو پڑھا دیں‘ لیکن عربی نہیں سیکھ سکے کہ قرآن سمجھ سکیں. آخر اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ پی ایچ ڈی میں‘ فزکس‘ کیمسٹری میں‘ ڈاکٹری میں نہ جانے کتنے کتنے سال لگا کر لوگ ڈگریاں لیتے ہیں کہ آدھی عمر گزر چکی ہوتی ہے. سب کچھ پڑھ لیتے ہیں‘ لیکن اتنی عربی نہیں پڑھ سکتے کہ قرآن سمجھ سکیں. اب یہ سمجھ لو قرآن اس کو کیا کہتا ہے: 

وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ 
’’اورتم نے اپنا نصیب یہ ٹھہرا لیا ہے کہ قرآن کو جھٹلا رہے ہو!‘‘

اگرچہ زبان سے نہیں کہتے کہ قرآن جھوٹا ہے‘ لیکن اگر تم قرآن کو سچا اور حق سمجھتے تو کیا اس کے ساتھ یہ سلوک کرتے!
یہ ہے وہ شے جس کو میں نے 
reverse گیئر سے تعبیر کیا ہے‘ جو میرے اور آپ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے. اس کے لیے میں پھر ایک آیت کا حوالہ دے رہا ہوں اور وہ ہے سورۃ الجمعہ کی آیت ۵. اللہ تعالیٰ نے سابقہ اُمت ِمسلمہ جو مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ اور ملعون ہیں (یعنی یہودی) کی مثال دی ہے:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا (الجمعۃ: ۵)
’’مثال ان لوگوں کی جو حامل توراۃ بنائے گئے‘ پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا (اس کی ذمہ داری ادا نہیں کی) اس گدھے کی سی ہے جس پر (کتابوں کا) بوجھ لدا ہواہو.‘‘
اگر ہم نے بھی وہی رویہ اختیار کیا تو گویا پھر یہ ہماری ہی مثال ہے.

تحریک رجوع الی القرآن

اس ساری گفتگو کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوت کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قرآن کی طرف رجوع کی ایک زبردست تحریک چلنی چاہیے ‘جس میں لوگوں کو دعوت دی جائے کہ آؤ قرآن پڑھو پڑھاؤ‘ سیکھو سکھاؤ‘ سمجھو سمجھاؤ‘ اس کا علم حاصل کرو اور عام کرو. اب ۲۰۰۰ء شروع ہوچکا ہے. میں ۱۹۶۵ء میں دوبارہ لاہور منتقل ہوا تھا‘ یعنی اس تحریک کو شروع ہوئے ۳۵ برس گزر چکے ہیں. ۱۹۶۷ء سے اس سمن آباد سے دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز ہوا. اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ؏ ’’شادم اززندگی خویش کہ کارے کردم!‘‘ بڑا اطمینان اور سکون ہے کہ زندگی اسی کام میں لگی ہے. اپنی بہتر صلاحیت‘ بیشتر وقت‘ بہتر توانائیاں صرف اس کام میں صرف کی ہیں کہ قرآن پڑھو پڑھاؤ‘ سیکھو سکھاؤ‘ سمجھو سمجھاؤ! سورۃ الفتح کے آخر میں ایک نقشہ کھینچا گیا ہے: کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ جیسے ایک کسان نے کھیتی لگائی‘ ہل چلایا‘ بیج ڈالا‘ پانی دیا ‘یا یہ کہ بارانِ رحمت آ گئی تھی‘ اب اس نے دیکھا کہ بیج پھوٹ رہے ہیں او رپتیاں نکل رہی ہیں‘ پھر اس نے اپنا پٹھہ اٹھایا ہے‘ پھر ذرا اس کو گدرا کیا ہے‘ پھر وہ کھیتی اپنی نال پر کھڑی ہو گئی ہے. یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ (آیت۲۹اس کاشتکار کو وہ منظر بہت بھلا اور بہت اچھا لگتا ہے‘ وہ خوش ہوتا ہے او راس کا دل باغ باغ ہوتا ہے کہ میری محنت بارآور ہو رہی ہے. یہی معاملہ محمد رسول اللہ کا تھا. ۲۳ برس کی دن رات کی محنت شاقہ میں ایسے ایسے مرحلے آئے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں. انتقال سے چند دن پہلے جس وقت آپ  مرضِ وفات کی کیفیت میں تھے اور جماعت میں شریک نہیں ہو رہے تھے اس حالت میں آپؐ کو بہت شدید تکلیف رہی ہے. سر میں درد بہت شدید تھا. جس وقت ذرا سا افاقہ ہوا تو حجرے کے دروازے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو مسجد میں نماز ہو رہی تھی‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ امامت کرا رہے تھے. آپ کے چہرے پر یہ سوچ کر تبسم آیا کہ یہ میری کھیتی ہے جو میں نے لگائی ہے‘ آج یہ فصل میری نگاہوں کے سامنے ہے. اور پھر اس کے بعد پردہ ڈال دیا.

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اسی تمثیل کا ایک عکس میں اپنی تحریک رجوع الی القرآن کی صورت میں دیکھ رہا ہوں. میں نے ۳۵ برس پہلے جس کام کا آغاز کیا تھا آج میں اس کھیتی کو اپنی نگاہوں کے سامنے پروان چڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں. میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی سو سے کم تعداد ہو گی جو اس قرآنی فکر کو درس و تدریس کے ذریعے عام کر رہے ہیں‘ او ریہ نوجوان بھی اب ادھیڑ عمر میں پہنچ رہے ہیں. یہ نصف صدی کا قصہ ہے‘ دوچار برس کی بات نہیں. میرے دو بیٹے اب چالیس کی دہائی میں ہیں اور میرے ساتھی نوجوان جو میرے ساتھ میرے درس میں شریک ہوتے تھے وہ fifties کے آ س پاس آرہے ہیں. اتنے لوگ ہیں کہ جو اس کام میں لگے ہوئے ہیں. قرآن کا پڑھنا پڑھانا‘ سیکھنا سکھانا‘ سمجھنا سمجھانا ہو رہا ہے.

میرے پردادا حافظ نور اللہ صاحب کی ۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے جائیداد ضبط کر لی تھی. چنانچہ وہ اپنے آبائی علاقے ضلع مظفر نگر (یوپی) کو چھوڑ کر مشرقی پنجاب کے قصبہ حصار میں منتقل ہو گئے. بعد ازاں دو نسلیں توہماری ایسی گزری ہیں کہ جن میں کوئی قابل ذکر دینی کام نظر نہیں آتا. مسائل روز گار ہی اتنے گھمبیر تھے کہ ؏ ’’دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا‘‘ والا معاملہ رہا. لیکن پھر اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد تیسری نسل سے یہ کام شروع ہو گیا. آج میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کے فضل و کرم سے میرے دو بیٹے حافظ ہیں. میرے تین چھوٹے بھائی ہیں اور تینو ں کا ایک ایک بیٹا حافظ ہے. خاص طور پر میں یہاں برادرم اقتدار احمد مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) کا تذکرہ ضرور کرنا چاہوں گا. ان کے پاس میں خود یہ فرمائش لے کر گیا تھا کہ تم اپنا ایک بیٹا میرے حوالے کرو جو قرآن اکیڈمی میں ایک سالہ کورس کرے اور پھر اس کام میں لگے. انہوں نے اپنے منجھلے بیٹے حمید احمد کو اس کام کے لیے وقف کر دیا‘ لیکن وہ سعادت مند بچہ جلد ہی ایک حادثے میں انتقال کر گیا. اب میرے اندر اس بات کی ہمت نہیں تھی کہ میں ان سے کسی دوسرے بیٹے کا مطالبہ کرتا‘ کیونکہ کاروبار کے تقاضے بھی ہوتے ہیں‘ لیکن میری کسی توقع یا مطالبے کے بغیر فوری طور پر اقتدار احمد مرحوم نے کہا کہ میرے چھوٹے بیٹے رشید ارشد کو اس کام میں لگالیں. میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی حسن نیت کا نتیجہ نکلا ہے کہ اس بچے نے چھوٹی سی عمر میں یہاں دورۂ ترجمہ قرآن مکمل کیا ہے. یہ حافظ بھی ہے. بحمداللہ میرے تین بیٹے بھی دورۂ ترجمہ قرآن کر چکے ہیں. عزیزم عاکف سعید‘ اللہ کے فضل و کرم سے چار پانچ مرتبہ یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں. ابھی امریکہ کے قلب شکاگو سے دورۂ ترجمہ قرآن کر کے آ رہے ہیں. میرے ایک اور شاگرد اس وقت نیویارک میں دورۂ ترجمہ قرآن کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں. اسی طرح پورے پاکستان کے اندر بہت بڑے پیمانے پر یہ کام ہو رہا ہے. یہ سب اللہ کا فضل ہے وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحٰی) ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کا کوئی خاص انعام ہو تو اس کا تذکرہ بھی کیا کریں اور شکر کیا کریں. بحمداللہ میرے دو بیٹے‘ دو پوتے اور ساڑھے پانچ نواسے حافظ ہیں. ایک نے چونکہ پندرہ پارے کیے ہیں‘ اس لیے ساڑھے پانچ کہا ہے. یہ سب کچھ اللہ کے فضل و احسان کا مظہر ہے.

۱۹۴۷ء کی بات ہے‘ اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا‘ ہم حصار میں محصور تھے. ہندو باہر سے آکر پے بہ پے حملے کرتے رہتے تھے‘ ان سے دفاع کے لیے ہم نے مورچے لگا لیے تھے. بھائی جان نے اس وقت B.Sc انجینئرنگ اور میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا. چنانچہ یہ فارغ وقت ہم ایک مسجد میں بیٹھ کر مولانا مودودیؒ کا رسالہ ترجمان القرآن‘ جس میں سورۂ یوسف کی تفسیر چھپ رہی تھی‘ بڑے غور سے پڑھ رہے تھے. قرآن کا ذوق میرے اندر وہیں سے شروع ہوا. شوق پہلے بھی تھا‘ بلکہ یہ تو اُس وقت سے تھا جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا. اُس وقت علامہ اقبال کا ایک شعر میرے ذہن میں چپک کر رہ گیا تھا ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!

اُس وقت میری عمر دس گیارہ سال ہو گی. لیکن قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کا ذوق اس وقت پیدا ہوا جب ہم دونوں مل کر 
joint study کرتے تھے. پھر قرآن کی عظمت منکشف ہوئی. اس سے ایک دلچسپی او رلذت پیدا ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس درجہ مناسبت عطا فرمائی کہ اللہ کے فضل و کرم سے پھر میری زندگی تو اسی کام میں لگ گئی. پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم نے عاشق قرآن تو بہت دیکھے ہیں لیکن فنافی القرآن ڈاکٹر اسرار کے سوا کوئی نہیں دیکھا‘ حالانکہ وہ مولاناا حمد علی ؒ کے بہت قریب رہے. جس زمانے میں حمایت اسلام ایک تبلیغی کالج ہوتا تھا اس وقت وہ اس کے پرنسپل تھے اور اس کے منتظم مولانا احمد علی ؒ ہوتے تھے. ان کا ان سے بہت قریبی ربط تھا.

بہرحال دعوت رجوع الی القرآن کے حوالے سے میں آپ کو جو خوشخبری دے رہا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ جگہ جہاں آپ اس وقت بیٹھے ہیں اب یہ بھی جامع القرآن کی شکل اختیار کرے گی. یعنی جیسے حضوراکرم نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا: اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(متفق علیہ) قریش نے کیلنڈر میں اونچ نیچ کر دی تھی‘ اشہر حرم آگے پیچھے کر دیے تھے‘ لیکن حجۃ الوداع کے موقع پر صحیح تقویم کے مطابق حج ہوا تھا. حضور  نے فرمایا: ’’ آج سے نسی ء کا قاعدہ منسوخ ہوا. آج وقت کی تقویم وہیں آ گئی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیاتھا.‘‘

تو یوں سمجھئے کہ ۱۹۶۶ء سے جو تحریک قرآنی میرے پھوپھی زاد بھائی شیخ نصیر احمد مرحوم کے مکان 211-A این سے اور پھر مسجد خضراء سمن آباد سے درسِ قرآن کی صورت میں شروع ہوئی تھی اور پھر دس برس تک دعوت رجوع الی القرآن کا جو ڈنکا بجا ہے وہ اسی ارضِ سمن آباد میں تھا.پورے شہر سے کھنچ کھنچ کر لوگ آیا کرتے تھے .اور اب یہ کہ منظورحسن صاحب جو اس جگہ کے مالک تھے ان کی خواہش تھی کہ یہ جگہ قرآن مجید کی دعوت کا مرکز بنے. میں اس بات کا اعلان کر رہا ہوں کہ قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن کی طرز پر یہاں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ایک چھوٹی سی جامع القرآن تعمیر ہو گی اور اسے ذرا چھوٹے پیمانے پر ایک مرکز کی حیثیت حاصل ہو گی. اب آپ اُس وقت کو غنیمت سمجھیں اور کمر کس لیں. عربی کلاسز شروع ہوں تو محنت و توجہ کے ساتھ عربی پڑھنے میں لگ جائیں. کوئی اور اجتماعات ہوں تو ان کے اندر پوری پابندی کے ساتھ شرکت کریں.تعمیر ہو تو اس میں دل کھول کر چندہ دیں اور پورے زور و شور کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیں تاکہ یہ جلدازجلد مکمل ہو سکے. یہاں ایک مسجد بھی بنے گی. ابھی تک مختلف مسجدیں مختلف مسلکوں کے نام سے پہچانی جاتی ہیں. کوئی دیوبندی مسلک کی مسجد ہے تو کوئی بریلوی مسلک کی. اسی طرح اہل حدیث اور شیعہ مسالک کی مساجد ہیں. لیکن یہ مسجد اسلام اور قرآن کی مسجد یعنی ’جامع القرآن‘ ہو گی اور اس کے ساتھ کسی فرقہ واریت کا معاملہ نہیں ہوگا. ان شاء اللہ تعالیٰ وہ مرکز یہاں بنے گا.

عظیم ترین نعمت کے تقاضے

اب ذرا ایک اور بات کا جائزہ لیجئے! دیکھئے‘ قرآن مجید سب سے بڑی نعمت ہے‘ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان نعمتوں کا حساب بھی ہونا ہے جو ہمیں عطا کی گئی ہیں : ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (التکاثر) ’’پھر قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں حساب کتاب بھی ہو گا‘‘.یعنی تم نے ہماری نعمت کا صحیح استعمال بھی کیا کہ نہیں؟ نعمت قرآنی کا استعمال ایک تو یہ ہے کہ قرآن پڑھو پڑھاؤ ‘ سیکھو اور سکھاؤ‘ اس کے نور کو عام کرو‘ چہار دانگ عالم کو اس کی روشنی اور ہدایت سے منور کر دو. لیکن اس کا دوسرا معاملہ یہ ہے کہ اس کتاب کے نظام کو قائم کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگاؤ. یہ صرف پڑھنے کے لیے نہیں آئی ہے‘یہ اس لیے آئی ہے کہ ہمارے سارے فیصلے اس کے مطابق ہوں:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ ... ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ... ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدۃ) ’’جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں… وہی تو ظالم ہیں (وہی تو مشرک ہیں)… وہی تو فاسق ہیں.‘‘ 

ہم کیا ہیں؟ انفرادی طو رپر (اللہ کا شکر ہے) ہم مسلمان ہیں‘ اجتماعی طور پر ہم کافر ہیں! ہمارا نظام کافرانہ ہے‘ ہماری معیشت سود پرمبنی ہے. یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت ہے. ہمارے خلاف اللہ اور اس کے رسول کا اعلانِ جنگ ہے. ہمارے معاشرے میں فحاشی‘ عریانی اور بے حیائی ہے. چنانچہ سوچ لیجیے کہ قرآن کے فیصلے کے مطابق ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے!

قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے کہ سارے نبیوں نے کہا: 
یٰــقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَـکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو‘ جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘.اور اُعْبُدُوا اللّٰہَ وَاَطِعْیُوْنِ ’’اللہ کی بندگی کرو اور میری اطاعت کرو‘‘.اللہ کی بندگی اور پرستش کرو ‘لیکن اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے: وَمَآ اُمِرُوْآ اِلاَّ لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَلا حُنَفَـآءَ (البینۃ:۵’’ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی کاحکم دیا گیا تھا اطاعت کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے یکسو ہو کر.‘‘

اب ہماری بندگی تو ادھوری ہے ‘اور ادھوری بھی کہاں ہے؟ ہماری پوری اجتماعی زندگی تو اسلام و قرآن کے خلاف ہے.انفرادی زندگی میں ٹھیک ہے میں شراب نہیں پیتا‘ سود نہیں کھاتا‘ نماز پڑھتا ہوں‘ روزہ رکھتا ہوں‘ لیکن اس سے آگے اجتماعیت کا پہلا قدم شروع ہوتے ہی کفر شروع ہو گیا. آج ہمارے کتنے گھر ہیں جن میں شرعی پردہ ہے؟ میں رواجی پردے کی بات نہیں کررہا‘ شرعی پردے کی بات کر رہا ہوں. اگر گھر میں شرعی پردہ نہیں ہے تو اجتماعیت کا تو پہلا قدم ہی غلط ہوگیا. کتنے لوگ ہیں جو حلال کھا رہے ہیں؟ کتنے کاروباری ہیں جو اپنے آپ کو بینک کے اوور ڈرافٹس سے بچائے ہوئے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جنہوں نے سودی قرضہ لے کر مکان نہیں بنائے ہیں؟ اس سارے کفر کے خلاف جب تک جدوجہد نہ ہو‘ سعی و محنت اور جہاد نہ ہو‘ ہماری یہ جزوی ہدایت اللہ کے ہاں قبول نہیں. سورۃ المائدہ ہی میں فرمایا:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْ ءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ (آیت ۶۸’’(اے نبی !) کہہ دیجیے: اے کتاب والو(یہودیو‘ نصرانیو) تمہاری کوئی حیثیت ہماری نگاہ میں نہیں ہے جب تک کہ تم توراۃ اور انجیل کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے قائم نہیں کرتے.‘‘ 

تمہارا منہ نہیں ہے کہ ہم سے بات کر سکو. اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سے فرماتے ہیں کہ کس منہ سے تم نماز پڑھ رہے ہو جب کہ تم نے اللہ کی کتاب کو قائم نہیں کیا. گویا: 
’’یٰٓــاَھْلَ الْقُرْآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا ’’الْقُرْاٰنَ‘‘ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ‘‘ یعنی’’اے قرآن والو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ تم قرآن کو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرتے.‘‘
چنانچہ اب ہمارے لیے کرنے کا کام کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ میں اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا.اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سو پچاس یا ہزار دو ہزار آدمی مل کر بھی نہیں کر سکتے. لیکن جدوجہد اور کوشش تو کر سکتے ہیں. اپنی توانائیاں‘ صلاحیتیں‘ قوتیں‘ اپنے اوقات‘ اپنے وسائل اور اپنی اولاد کو تو اس کام کے لیے لگا سکتے ہیں. اگر ہم یہ بھی نہیں کرتے تو پھر یقینا اس وعید کا شکار ہو جاتے ہیں کہ:
اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵
’’کیا تم ہماری کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے؟ (یعنی کچھ احکام پر عمل کرتے ہو اور کچھ پر نہیں کرتے؟) تو جان لو کہ تم میں سے جو کوئی یہ حرکت کرے اس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اسے دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے. اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے.‘‘ 
اس سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے. وہ یہ کہ غلبہ چونکہ باطل اور طاغوت کا ہے اور اللہ کا دین مغلوب ہے‘ میں اور آپ اس کے تحت رہنے پر مجبور ہیں‘ ہم سودی نظام کے اندر سانس لے رہے ہیں‘ میرے اور آپ کے سانس کے ساتھ سود اندر جا رہا ہے‘ تو پھر اس سب کے 
کفارے کے لیے ہمیں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ جواب اس کا صرف یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے ہمیں اپنی توانائیوں‘ قوتوں‘ صلاحیتوں‘ اوقات اور وسائل و ذرائع کا کم سے کم حصہ اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اور زیادہ سے زیادہ حصہ ایسی جدوجہد میں لگا دینا چاہیے جس کے ذریعے دین کے نظام کو قائم کیا جا سکے. اگر یہ کر لیا تو کفارہ ادا ہو جائے گا‘ جو گناہ اندر جا رہا ہے وہ دھل جائے گا. اسے آپ اقامت دین یا نظام خلافت کہہ لیں‘ قرآن کا قائم کرنا کہہ لیں‘ دین کا قیام یا نظامِ مصطفی کا قیام کہہ لیں. یہ نام مختلف ہو سکتے ہیں‘ لیکن کام کی نوعیت ایک ہی ہے. ’’عِبَاراتُنَا شَتّٰی وَحُسْنُکَ وَاحِدٌ‘‘.
پھر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر آپ باطل نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں تو اس صورت میں آپ پر اقامت دین کی جدوجہد فرضِ عین ہے. میں یہ بات سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں. میری پوری زندگی قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہے. یہ بات میں اپنے مطالعہ قرآنی کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ جو آدمی اس جدوجہد میں شریک نہیں ہے‘ اس کی نماز‘ نماز نہیں ہے‘ روزہ‘ روزہ نہیں ہے. اس لیے کہ جب تک طاغوت کا کفر نہیں کرتا اس وقت تک اس کا اللہ پر ایمان معتبر ہی نہیں ہوتا.

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ سْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی (البقرۃ: ۲۵۶)

’’پھر جو کوئی طاغوت کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایک مضبوط کنڈے کو تھام لیا.‘‘
طاغوت کا کفر پہلے ہے اور اللہ پر ایمان بعد میں ہے. اگر انسان طاغوت کے خلاف جدوجہد نہیں کر رہا اور ا س کے تحت پھلنے ‘پھیلنے او رپھولنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جائیداد بنا رہا ہے‘ کاروبار بڑھا رہا ہے‘ تو اس کا مطلب ہے طاغوت کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ہے‘ وہ اسے ذہناً قبول کر چکا ہے او ردل سے اسے مان چکا ہے. لہذا اس کی نماز منہ پر دے ماری جائے گی.

التزامِ جماعت کی ضرورت و اہمیت

میرے مطالعے کا حاصل یہی ہے کہ دین کے لیے یہ جدوجہد ہم پر فرض ہے. اس ضمن میں یہ چار باتیں اپنے پلے باندھ لیں: ۱) اس جدوجہد کے لیے کسی جماعت میں شامل ہونا لازم ہے. کیونکہ یہ کام بغیر جماعت کے ممکن نہیں. یہ کام افراد نہیں کر سکتے. اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ (سنن الترمذی) ’’(مسلمانو!) تم پر جماعت سے وابستہ رہنا ضروری ہے‘‘. یَدُ اللہِ مَعَ الْجَمَاعَۃِ (سنن الترمذی) ’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے.‘‘
اور ایک حدیث میں نبی اکرم نے صاف فرما دیا:
اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ (مسند احمد)

’’مسلمانو! میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دے رہا ہوں‘ جن کا مجھے اللہ نے حکم دیا ہے: جماعت کا‘ سننے اور ماننے کا‘ اللہ کے راستے میں ہجرت اور جہاد کا.

جماعت کا التزام ہو اور جماعت بھی سمع و طاعت والی ہو‘ اور یہ جماعت پھر ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزر کر اللہ کے دین کو قائم کرے.‘‘
اس جماعت کا معین ہدف اقامت دین کی جدوجہد ہونا چاہیے. کوئی چھوٹا کام مثلاً تعلیمی‘ تبلیغی اور اصلاحی نوعیت کا نہیں ہونا چاہیے. ویسے تو یہ کہ اگر کوئی سگریٹ نوشی کے خلاف بھی مہم چلائے تو وہ بھی اچھا کام ہے. تمباکو نوشی سے لوگوں کو بچانا‘ یہ بھی اچھا ہے‘ برا نہیں. آپ اپنے محلے کی صفائی کے لیے ’’انجمن حفظانِ صحت‘‘ بنا لیں تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے. لیکن اس جماعت کا 
declared goal اقامت دین اور غلبۂ دین کی جدوجہد ہونا چاہیے.

۲) وہ جماعت انتہائی منظم (disciplined) ہونی چاہیے.

۳) یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس جماعت کا طریقہ کار کیا ہے. ایک بات طے ہے کہ اگر وہ طریقہ کار رسول اللہ کے طریقہ کار سے ماخوذ اور مستنبط نہیں ہے تو آپ کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ؎

خلافِ پیمبرؐ کسے راہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نہ خواہد رسید!

چنانچہ راستہ وہی اختیار کرنا ہو گا .بقول امام مالکؒ : 
لاَ یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا ’’اس اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہیں ہوگی مگر صرف اسی طریقے پر جس پر کہ پہلے حصے کی اصلاح ہوئی ہے.‘‘

۴) آپ کے لیے جس طرح بھی ممکن ہو اُس جماعت کی قیادت کے قریب ہو کر دیکھ لیں کہ دل کیا گواہی دیتا ہے کہ کیا یہ لوگ مخلص ہیں یا بہروپیے ہیں؟ یہ دین کے نام پر دُنیا کی کوئی دکان تو نہیں چمکا رہے؟ اگر دل ان لوگوں کے خلوص کی گواہی دے دے اور یہ جماعت بقیہ شرطیں بھی پوری کر رہی ہو تو پھر اس جماعت میں شامل ہونا فرضِ عین ہے. اگر باطل کے غلبے کے تحت زندگی گزارنے والے شخص کے لیے دین کے غلبے کی جدوجہد فرضِ عین ہے تو پھر اس فرضِ عین کو پورا کرنے کے لیے جماعت کا التزام بھی فرضِ عین ہے. یہ بات سمجھ لیجئے کہ جس طرح نماز کے لیے وضو فرض ہے‘ اس لیے کہ وضو کے بغیر نماز نہیں‘ اسی طرح چونکہ جماعت کے بغیر دین کی اقامت ممکن نہیں ‘لہذا اگر اقامت دین فرض ہے تو التزامِ جماعت بھی فرض ہے.

جماعت سازی کی مسنون اساس

جماعت سازی کے کئی طریقے ہیں. ایک طریقہ ہمارے ہاں انگریزوں کے ساتھ آیا. مثلاً جب نئی تہذیب آئی تو میز کرسی پر بیٹہ کر کھانا کھانا بھی اس کے ساتھ آیا. ظاہر ہے کہ یہ ہماری تہذیب تو نہیں ہے. حضوراکرم  کا طریقہ تو حدیث میں یوں مذکور ہوا ہے: مَا اَکَلَ النَّبِیُّ عَلٰی خِوَانٍِ قَطُّ (صحیح البخاری) کہ نبی کریم نے کبھی خوان پر رکھ کر کھانا نہیں کھایا. حضوراکرم کے زمانے میں میز کرسی تو تھی نہیں‘ البتہ اونچے گھرانوں میں ایک رواج تھا کہ ان کے پاس چھ سات انچ اونچی چوکیاں ہوتی تھیں. زمین پر بیٹہ کر کھا رہے ہوتے لیکن آگے چھ انچ اونچی چوکی رکھی ہوتی‘ جسے ’’خوان‘‘ کہتے تھے. اب بھی بعض گھرانوں میں یہ رواج موجود ہے. حضوراکرم نے کبھی ’’خوان‘‘ پر بھی کھانا نہیں کھایا‘لیکن اس کرسی میز کو کسی نے حرام نہیں کہا. یہ نئی شے تو ہے لیکن حرام نہیں ہے. کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں اس کی ممانعت آ گئی ہو. 

اسی طرح ہندوستان میں انگریزوں کے آنے کے بعد جماعتیں بنانے کا طریقہ یہ بنا کہ پہلے اس کے مقاصد (aims) اور اہداف (objects) لکھ لیے جائیں. اس کے articles of association اور قواعد وضوابط کا تعین کر لیا جائے. گویا پورا دستور (constitution) بنا لیا جائے. اب جو شخص بھی اس دستو رکو مان لے گا وہ اس جماعت کا رکن بن جائے گا. پھر یہ ارکان اس جماعت کے امیر یا صدر کا انتخاب دو یا چار سال کے لیے کریں گے. جماعت بنانے کے اس طریقے کو بھی میں مباح و جائز سمجھتا ہوں. اگرچہ یہ مسنون نہیں ہے‘ لیکن حرام بھی نہیں ہے. جیسے میز کرسی پر کھانا کھانا مسنون نہیں ہے لیکن حرام بھی نہیں ہے‘اسی طرح یہ طریقہ نہ مسنون ہے‘ نہ منصوص ہے اور نہ ماثور ہے‘ لیکن حرام بھی نہیں ہے. دستوری تنظیم (constitutional organization) بھی ٹھیک ہے‘ اگر منظم اور سمع و طاعت والی ہو. لیکن جس جماعت کا قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ سنت‘ خلافت راشدہ اور ہماری پوری تاریخ میں ذکر ہے وہ بیعت کا نظام ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا ہو جس پر آپ کو اعتماد ہو کہ یہ آدمی مخلص ہے‘ دین کو جانتا ہے اور حقیقتاً یہ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو آپ اس سے شخصی طور پر بیعت کر لیں کہ میں آپ کا ساتھی ہوں‘ جو حکم آپ مجھے دیں گے میں کروں گا. میں خود بھی مشورہ دوں گا‘ اپنی رائے دوں گا‘ لیکن یہ کہ فیصلہ گنتی سے نہیں ہو گا کہ یہ اکثریت ہے اور یہ اقلیت ہے‘ نو آدمیوں کی رائے لازماً غلط ہے او ردس کی لازماً صحیح ہے. حالانکہ یہ ضروری نہیں. ہو سکتا ہے کہ آٹھ آدمیوں کی رائے صحیح ہو اور بیس کی غلط ہو. نظام بیعت میں فیصلہ امیر کے ہاتھ میں ہوتا ہے. قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ… فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ (التوبۃ: ۱۱۱)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں…… پس اس بیع پر کہ جو تم نے اللہ سے کی ہے خوشیاں مناؤ.‘‘

یہ بیعت اللہ سے بھی ہے او ر اللہ کے نبی سے بھی. سورۃ الفتح میں دو جگہ ذکر آ گیا:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ (آیت ۱۰
’’بے شک جن لوگوں نے آپؐ سے بیعت کی تو یقینا انہوں نے اللہ سے بیعت کی. اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے.‘‘

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ (آیت ۱۸)
’’بے شک اللہ مؤمنوں سے اس وقت راضی ہو گیا جب وہ درخت کے نیچے آپؐ سے بیعت کر رہے تھے.‘‘

سورۃ الممتحنہ میں خواتین کی بیعت کا ذکر آیا ہے. یہ نظام ہے کہ جو قرآن نے دیا‘ حدیث نے دیا اور سیرت میں بھی یہی نظام ہے. بیعت عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ ہوئیں‘ بیعت رضوان بیعت علی الموت ہو رہی ہے. اسی بیعت پر خلافت راشدہ کا نظام چلا. حضرات ابوبکر‘عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بیعت ہوئی ‘اور جس وقت خلافت ملوکیت میں بدلنے لگی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان میں آئے تو انہوں نے بھی بیعت لی کہ آؤ میرے ساتھ‘ ہم اس ملوکیت کے راستے کو بند کریں. یہ دوسری بات ہے کہ بیعت کرنے والے گھبرا گئے اور ابن زیاد کے تشدد سے خوف زدہ ہو کر انہوں نے بیعت توڑ دی. اس کا کوئی الزام حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر تو نہیں. ہمارا یہ نظام تھا جس کو ہم نے انگریزوں کے آنے کے بعد پس پشت ڈال دیا. حالانکہ ۱۹۱۳ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے جماعت ’’حزب اللہ‘‘ بنائی تو وہ بیعت کی بنیاد پر تھی. کچھ عرصہ کے بعد بیس کی دہائی میں شیخ حسن البناء ؒ نے مصر میں جو جماعت ’’الاخوان المسلمون‘‘ بنائی وہ بھی بیعت کی بنیاد پر تھی. لیکن مولانا مودودیؒ نے جب جماعت اسلامی بنائی وہ بیعت کی بنیاد پر نہیں تھی. البتہ ۱۹۳۰ء میں جب قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء جمع ہوئے اور انہوں نے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کو امیر شریعت بنایا تو ان سے بیعت کی. رسول اللہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جو بیعت لی اس کے الفاظ سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی گھمبیر بیعت ہے. یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ ‘ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ ‘ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ ‘ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا ‘ وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ ‘ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَ مَا کُنَّا ‘ لاَ نَخَافُ فِی اللہِ لَوْمَۃَ لاَئِمٍ

’’ہم نے اللہ کے رسول سے بیعت کی تھی کہ آپؐ کا ہر حکم سنیں گے اور مانیں گے (اطاعت کریں گے) چاہے کتنا ہی مشکل ہو اور خواہ آسان ہو‘ چاہے ہماری طبیعتیں آمادہ ہوں اور چاہے ہمیں اپنی طبیعتوں پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے آپ ہم پر دوسروں کو ترجیح دے دیں (ہم یہ نہیں کہیں گے کہ میں آپ کا پرانا ساتھی تھا‘ آپ نے نو وارد کو مجھ پر امیر بنا دیا) جنہیں آپؐ امیر بنائیں گے ہم ان سے جھگڑیں گے نہیں ‘اور جہاں بھی ہوں گے حق بات ضرور کہیں گے (اپنی رائے پیش کر دیں گے). اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے.‘‘

اسی بیعت کے نظام پر ہم نے تنظیم اسلامی قائم کی ہے. ہماری بیعت میں صرف ایک لفظ کا اضافہ ہے. وہ اس طرح کہ حضور کا ہر حکم واجب الاطاعت تھا. حضور کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھی ہر حکم واجب الاطاعت نہیں ہے. ان سے بھی کتاب وسنت کی دلیل پوچھی جائے گی. کتاب و سنت کے خلاف وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے. چنانچہ ہم نے بیعت کے الفاظ یہ رکھے ہیں: 
’’اِنِّیْ اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ یعنی اس میں صرف دو لفظ (فِی الْمَعْرُوْفِ) بڑھا دیے ہیں‘ باقی وہی بات ہے.

اس بیعت کے بارے میں اب میں آخری بات کہہ رہا ہوں. مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً
’’جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا.‘‘

گویا یہ بیعت ایسے ہی ہے جیسے آپ نے اپنی بکری کے گلے میں رسی ڈالی ہوئی ہے اور رسی کاایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے. چنانچہ اب وہ بکری آپ کے پاس سے کہاں جا سکتی ہے؟ اس طرح سے گویا رسّی کاایک سرا بیعت کرنے والے کی گردن میں ہے اور دوسرا بیعت لینے والے کے ہاتھ میں ہے. صاف صاف بات کر رہا ہوں کہ گردن میں بیعت کے قلادے کے بغیر موت اسلام کی موت نہیں‘ بلکہ جاہلیت کی موت ہے.

میری ان گزارشات کا تجزیہ کریں تو ظاہر ہو جائے گا کہ اقامت دین کے حوالے سے عملاً دو ہی صورتیں ممکن ہیں: یا تو اسلام کا نظام قائم ہے‘ نظام خلافت ہے‘ تو جوخلیفہ ہے اس کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. اگر نہیں کریں گے تو جہنم میں جائیں گے .اور اگر اسلام کا نظام قائم نہیں ہے تو ظاہر ہے وہ نظام خودبخود تو نہیں آئے گا‘ اس کے لیے محنت کرنا پڑے گی‘ جماعت بنانا ہو گی‘ کوشش کرنا ہو گی‘ چنانچہ جماعت کے امیر سے بیعت کرنا ہو گی. ان دو کے علاوہ تیسری 
شکل ممکن نہیں. اگر نظام خلافت ہے تو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت‘ جیسے حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھ پربیعت کی گئی تھی. اور اگر نظام خلافت نہیں ہے تو جو جماعت اس کو قائم کرنے کے لیے کھڑی ہو اس کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. پس ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان ہے اور وہ اسلام کی موت مرنا چاہتا ہے تو اسے بیعت کرنا ہوگی:

اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام:۱۶۲)
’’بیشک میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی میری موت اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے.‘‘ 

میں نے جو دین کا تقاضا سمجھا وہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے. اب آپ میں سے ہر شخص کے دل و دماغ کا فیصلہ ہے. دل ودماغ گواہی دیں کہ بات ٹھیک ہے تو اس کو قبول کرنا آپ پر لازم ہے. اور اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو بے شک رد کر دیں ‘یا اگر بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ یہ کام تو صحیح ہے لیکن یہ تنظیم صحیح نہیں ہے تو کسی اور تنظیم کو دیکھیں. کسی نبی کی تنظیم تو آج موجود نہیں ہے. لہذا آپ کو اس کام کے لیے جو بھی بہتر نظر آئے اور آپ کے خیال میں جو بھی جماعت بہتر طریقے پر جدوجہد کر رہی ہے ا س میں شریک ہو جایئے‘ لیکن کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے فارغ نہ سمجھے. اس لیے کہ غلبہ ٔباطل کے تحت زندگی گزارنے والے شخص کے لیے اقامت دین اور غلبہ ٔدین کی جدوجہد فرضِ عین ہے .اور یہ وہ فرض ہے کہ اگر اس کی طرف انسان توجہ نہیں دے رہا اور اس کے ضمن میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا تو میرے نزدیک ایسا شخص باقی فرائض کی ادائیگی کے باوجود اللہ کے ہاں اپنی اس کوتاہی پر جواب دہ ہو گا.

اقول قولی ھذا واستغفراللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات