قرآن مجید کی ترکیب و تقسیم

آیات اور سورتوں کی تقسیم

بہت سی چیزوں سے مل کر کوئی شے مرکب بنتی ہے. قرآن کلام مرکب ہے .اس کی تقسیم سورتوں اور آیات میں ہے.پھر اس میں احزاب اور گروپ ہیں. عام تصورِ کتاب تو یہ ہے کہ اس کے ابواب ہوتے ہیں ‘لیکن قرآن حکیم پر ان اصطلاحات کا اطلاق نہیں ہوتا. قرآن حکیم نے اپنی اصطلاحات خود وضع کی ہیں .ان اصطلاحات کی دنیا میں موجود کسی بھی کتاب کی اصطلاحات سے کوئی مشابہت نہیں ہے. چنانچہ علامہ جاحظ نے ایک بڑا خوبصورت عنوان قائم کیاہے. وہ کہتے ہیں کہ عرب اس سے تو واقف تھے کہ ان کے بڑے بڑے شعراء کے دیوان ہوتے تھے. سارا کلام کتابی شکل میں جمع ہو گیا تو وہ دیوان کہلایا. لہذا کسی بھی درجے میں اگر مثال اور تشبیہہ سے سمجھنا چاہیں تو دیوان کے مقابلے میں لفظ قرآن ہے. پھردیوان بہت سے قصائد کا مجموعہ ہوتا تھا .ہمارے ہاں بھی کسی شاعر کا دیوان ہو گا تو اس میں قصائد ہوں گے‘ غزلیں ہوں گی‘ نظمیں ہوں گی.قرآن حکیم میں اس سطح پر جو لفظ ہے وہ سورت ہے.اللہ تعالیٰ کایہ کلام سورتوں پر مشتمل ہے. اگر کوئی نثر کی کتاب ہے تو وہ جملوں پر مشتمل ہو گی اور اگر نظم کی ہے تو وہ اشعار پر مشتمل ہو گی. اس کی جگہ قرآن مجید کی اصطلاح آیت ہے. شاعری میں اشعار کے خاتمے پر ردیف کے ساتھ ساتھ ایک لفظ قافیہ کہلاتا ہے اور غزل کے تمام اشعار ہم قافیہ ہوتے ہیں. قرآن مجید پربھی ہم عام طور پر اس لفظ کا اطلاق کر دیتے ہیں‘اس لیے کہ قرآن مجید کی آیات میں بھی آخری الفاظ کے اندر صوتی آہنگ ہے.یہاں انہیں فواصل کہا جاتا ہے‘قافیہ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا کہ کسی بھی درجے میں شعر کے ساتھ کوئی مشابہت نہ پیدا ہو جائے.

قرآن مجید کا سب سے چھوٹا یونٹ آیت ہے. یعنی قرآن مجید کی ابتدائی اکائی کے لیے لفظ آیت اخذ کیا گیا ہے. آیت کے معنی نشانی کے ہیں. قرآنی آیت گویا اللہ کے علم و حکمت کی نشانی ہے.آیت کا لفظ قرآن مجید میں بہت سے معانی میں استعمال ہوا ہے. مثلاً آیاتِ آفاقی اور آیاتِ انفسی. ا س کائنات میں ہرطرف اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں. کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی قدرت‘ اس کے علم اور اس کی حکمت کی گواہی دے رہی ہے.گویا ہر شے اللہ کی نشانی ہے. پھر کچھ نشانیاں ہمارے اندر ہیں.چنانچہ فرمایا: 
وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے . اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی. کیا تم کو سوجھتا نہیں؟‘‘ مزید فرمایا: سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (حٰم السجدۃ:۵۳’’عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی‘ یہاں تک کہ اُن پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘. انگریزی میں آیت کے لیے ہم لفظ verse بول دیتے ہیں‘ مگر verse توشعر کو کہتے ہیں جبکہ قرآن کی آیات نہ تو شعر ہیں‘ نہ مصرعے ہیں‘ نہ جملے ہیں. پس بعینہٖ لفظ آیت ہی کو عام کرنا چاہیے. بہرحال کچھ آیاتِ آفاقی ہیں‘ یعنی اللہ کی نشانیاں ‘ کچھ آیاتِ انفسی ہیں‘ وہ بھی اللہ کی نشانیاں ہیں اور آیاتِ قرآنیہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور علم کامل کی نشانیاں ہیں. یہ لفظ قرآن کی اکائی کے طور پر استعمال ہوا ہے. 

جان لینا چاہیے کہ آیات کا تعین کسی گرامر ‘بیان یانحو کے اصول پر نہیں ہے‘ اس میں کوئی اجتہاد داخل نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے ایک اصطلاح ’’توقیفی‘‘ استعمال ہوتی ہے‘یعنی یہ رسول اللہ کے بتانے پر موقوف ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آیات بہت طویل بھی ہیں. ایک آیت آیۃ الکرسی ہے جس میں مکمل دس جملے ہیں ‘لیکن بعض آیات حروفِ مقطعات پر بھی مشتمل ہیں. 
حٰمٓ ۚ﴿۱﴾ ایک آیت ہے‘ حالانکہ اس کا کوئی مفہوم معلوم نہیں ہے‘ عام زبان کے اعتبار سے اس کے معانی معین نہیں کیے جا سکتے. یہ تو حروف تہجی ہیں.اس کو مرکب کلام بھی نہیں کہہ سکتے ‘کیونکہ اس کو علیحدہ علیحدہ پڑھا جاتا ہے. اس لیے یہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں. حٰمٓ ۚ﴿۱﴾عٓسٓقٓ ﴿۲﴾ ان کو جمع نہیں کر سکتے‘ یہ توڑ توڑ کر علیحدہ علیحدہ پڑھے جائیں گے. اسی طرح ’’الٓـمّٓ ‘‘ کو ’’اَلَمْ‘‘ نہیں پڑھا جا سکتا. لیکن یہ بھی آیت ہے. اس ضمن میں ایک بات یاد رکھئے کہ جہاں حروفِ مقطعات میں سے ایک ایک حرف آیا ہے جیسے صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ ‘ نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ ‘ قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ یہاں ایک حرف پر آیت نہیں بنی‘ لیکن دو دو حروف پر آیتیں بنی ہیں . ’’حٰمٓ ‘‘ قرآن میں سات جگہ آیا ہے اور یہ مکمل آیت ہے. الٓـمّٓ آیت ہے. 

البتہ ’’الٓرٰ‘‘ تین حروف ہیں اور وہ آیت نہیں ہے. معلوم ہوا کہ اس کی بنیاد کسی اصول ‘ قاعدے یا اجتہاد پر نہیں ہے‘ بلکہ یہ امور کلیتہً توقیفی ہیں کہ حضور کے بتانے سے معلوم ہوئے ہیں. البتہ پھر حضور سے چونکہ مختلف روایات ہیں‘ اس لیے اس پہلو سے کہیں کہیں فرق واقع ہوا ہے. چنانچہ آیاتِ قرآنیہ کی تعداد متفق علیہ نہیں ہے. اس پر تو اتفاق ہے کہ آیات کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے‘ لیکن بعض کے نزدیک کم و بیش ۶۲۱۶‘ بعض کے نزدیک ۶۲۳۶ اور بعض کے نزدیک ۶۶۶۶ ہے. اس کے مختلف اسباب ہیں. بعض سورتوں کے اندر آیات کے تعین میں بھی فرق ہے. لیکن یہ سب کسی کا اپناا جتہاد نہیں ہے‘ بلکہ سب کے سب اعداد و شمار حضور سے نقل ہونے کی بنیاد پر ہیں. ایک فرق یہ بھی ہے کہ آیت بسم اللہ قرآن حکیم میں ۱۱۳ مرتبہ سورتوں کے شروع میں آتی ہے (کیونکہ سورتوں کی کل تعداد۱۱۴ ہے اور ان میں سے صرف ایک سورت سورۃ التوبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں آتی).اگر اس کو ہر مرتبہ شمار کیا جائے تو۱۱۳ تعداد بڑھ جائے گی‘ ہر مرتبہ شمار نہ کیا جائے تو ۱۱۳ تعداد کم ہو جائے گی. اس اعتبار سے آیاتِ قرآنیہ کی تعداد متفق علیہ نہیں ہے ‘بلکہ اس میں اختلاف ہے. جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ حروف مقطعات پر بھی آیت ہے‘ مرکباتِ ناقصہ پر بھی آیت ہے ‘جیسے وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ کہیں آیت مکمل جملہ بھی ہے ‘اور ایسی آیتیں بھی ہیں جن میں دس دس جملے ہیں.

قرآن حکیم کی آیتیں جمع ہوتی ہیں تو سورتیں وجود میں آتی ہیں.سورت کا لفظ 
’’سُور‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ لفظ سورۃ الحدید میں فصیل کے معنی میں آیا ہے. پچھلے زمانے میں ہر شہر کے باہر ‘گرداگرد ایک فصیل ہوتی تھی جو شہر کا احاطہ کر لیتی تھی ‘ شہر کی حفاظت کا کام بھی دیتی تھی اور حد بندی بھی کرتی تھی.آیات کو جب جمع کیا گیا تو اس سے جو فصیلیں وجود میں آئیں وہ سورتیں ہیں .فصل علیحدہ کرنے والی شے کو کہتے ہیں. تو گویا ایک سورۃ دوسری سورۃ سے علیحدہ ہو رہی ہے. فصیل علیحدگی کی بنیاد ہے. فصیل کے لیے ’’سُور‘‘ کا لفظ مستعمل ہے‘ پھراس سے سورت بنا ہے. البتہ یہ سورتیں ’’ابواب‘‘ نہیں ہیں‘بلکہ جس طرح آیت کے لیے لفظ verse مناسب نہیں اسی طرح سورت کے لیے لفظ’’باب‘‘ یا chapter درست نہیں .

اب جان لیجیے کہ جیسے آیات کا معاملہ ہے ایسے ہی سورتوں کا بھی ہے .چنانچہ سورتیں بہت چھوٹی بھی ہیں. قرآن مجید کی تین سورتیں صرف تین تین آیات پر مشتمل ہیں: سورۃ العصر‘سورۃ النصر اور سورۃالکوثر. جبکہ تین سورتیں ۲۰۰ سے زائد آیات پر مشتمل ہیں. سورۃ البقرۃ کی ۲۸۵ یا ۲۸۶ آیات ہیں.(سورۃ البقرۃکی آیات کی تعداد کے اعتبار سے رائے میں فرق ہے). سب سے زیادہ آیات سورۃ البقرۃ میں ہیں. پھر سورۃ الشعراء میں ۲۲۷اور سورۃ الاعراف میں ۲۰۶ آیات ہیں.محققین و علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آیات کی طرح سورتوں کا تعین بھی حضور نے خود فرمایا. اگرچہ ایک ضعیف سا قول ملتا ہے کہ شاید یہ کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کسی اجتہاد سے کیا ہو‘ مگر یہ مختار قول نہیں ہے‘ ضعیف ہے. اجماع اسی پر ہے کہ آیتوں کی تعیین بھی توقیفی اور سورتوں کی تعیین بھی توقیفی ہے. 

قرآن حکیم کی سات منازل

دَورِ صحابہؓ میں ہمیں ایک تقسیم اور ملتی ہے اور وہ ہے سات منزلوں کی شکل میں سورتوں کی گروپنگ. انہیں احزاب بھی کہتے ہیں. ’’حزب‘‘ کا لفظ احادیث میں ملتا ہے‘ لیکن وہ ایک ہی معنی میں نہیں ہوتا. یہ لفظ اس معنی میں بھی استعمال ہوتا تھا کہ ہر شخص اپنے لیے تلاوت کی ایک مقدار معین کر لیتا تھا کہ میں اتنی مقدار روزانہ پڑھوں گا. یہ گویا کہ اس کا اپنا حزب ہے .چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہٖ مِنَ اللَّیْلِ‘ اَوْ عَنْ شَیْ ءٍ مِنْہُ‘ فَقَرَأَہٗ مَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الظُّھْرِ‘ کُتِبَ لَــہٗ کَاَنَّمَا قَرَأَہٗ مِنَ اللَّیْلِ 
(اخرجہ الجماعۃ الا البخاری) 
’’جو شخص نیند( یا بیماری) کی وجہ سے رات کو (تہجد میں) اپنے حزب کو پورا نہ کر سکے‘ پھر وہ فجر اور ظہر کے درمیان اس کی تلاوت کر لے تو اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا گویا اس نے اسے رات کے دوران پڑھا ہے‘‘. (یہ حدیث بخاری کے سوا دیگر ائمہ حدیث نے روایت کی ہے.)
یعنی جو شخص کسی وجہ سے کسی رات اپنے حزب کو پورا نہ کر سکے ‘جتنا بھی نصاب اس نے معین کیا ہو‘ کسی بیماری کی وجہ سے‘ یانیند کا غلبہ ہو جائے ‘تو اسے چاہیے کہ اپنی اس قراءت یا تلاوت کو وہ دن کے وقت ضرور پورا کرلے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے اکثر کا معمول تھا کہ ہر ہفتے قرآن مجید کی تلاوت ختم کر لیتے تھے. لہذا ضرورت محسوس ہو ئی کہ قرآن کے سات حصے ایسے ہو جائیں کہ ایک حصّہ روزانہ تلاوت کریں تو ہر ہفتے قرآن مجید کا دَور مکمل ہو جائے. اس لیے سورتوں کے سات مجموعے یا گروپ بنا دیے گئے .ان گروپوں کے لیے آج کل ہمارے ہاں جو لفظ مستعمل ہے وہ ’’منزل‘‘ ہے ‘ لیکن احادیث و روایات میں حزب کا لفظ آتا ہے.

احزاب یا منازل کی اس تقسیم میں بڑی خوبصورتی ہے. ایسا نہیں کیا گیا کہ یہ ساتوں حصّے بالکل مساوی کیے جائیں. اگر ایسا ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ سورتیں ٹوٹ جاتیں‘ ان کی فصیلیں ختم ہو جاتیں. چنانچہ ہر حزب میں پوری پوری سورتیں جمع کی گئیں. اس طرح احزاب یا منزلوں کی مقداریں مختلف ہو گئیں. چنانچہ کچھ حزب چھوٹے ہیں کچھ بڑے 
ہیں ‘لیکن ان کے اندر سورتوں کی فصیلیں نہیں ٹوٹیں‘ یہ ان کا حسن ہے. غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شے بھی شاید اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے. اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منزلوں کی تعیین بھی توقیفی ہے ‘لیکن منزلوں کی اس تقسیم میں گنتی کے اعتبار سے جو حسن پیدا ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی کا ایک مظہر ہے. سورۃ الفاتحہ کو الگ رکھ دیا جائے کہ یہ تو قرآن حکیم کا مقدمہ یا دیباچہ ہے تو اس کے بعد پہلا حزب یا منزل تین سورتوں (البقرۃ ‘ آل عمران‘ النساء) پر مشتمل ہے. دوسری منزل پانچ سورتوں پر ‘ تیسری منزل سات سورتوں پر ‘ چوتھی منزل نو سورتوں پر‘پانچویں منزل گیارہ سورتوں پراور چھٹی منزل تیرہ سورتوں پر مشتمل ہے‘ جبکہ ساتویں منزل (حزبِ مفصل) جو کہ آخری منزل ہے ‘اس میں ۶۵ سورتیں ہیں .آخر میں سورتیں چھوٹی چھوٹی ہیں. یاد رہے کہ ۶۵ بھی ۱۳ کا multiple بنتا ہے (۶۵=۵*۱۳). سورتوں کی تعداد جیسا کہ ذکر ہو چکا ۱۱۴ ہے. یہ تعدادمتفق علیہ ہے‘ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں . 

آج کل جو قرآن مجید حکومت سعودی عرب کے زیر اہتمام بہت بڑی تعداد میں بڑی خوبصورتی اور نفاست سے شائع ہوتا ہے‘ اس میں حزب کا لفظ بالکل ایک نئے معنی میں آیا ہے. انہوں نے ہر پارے کو دو حزب میں تقسیم کر لیا ہے‘ گویا نصف پارے کی بجائے لفظ حزب ہے .پھر وہ حزب بھی چار حصّوں میں منقسم ہے: رُبع الحزب‘ نصفُ الحزب اور پھر ثلاثۃُ ارباعِ الحزب. اس طرح انہوں نے ہر پارے کے آٹھ حصے بنا لیے ہیں. یہ لفظ حزب کا بالکل نیا استعمال ہے. اس کی کیا سند اور دلیل ہے اور یہ کہاں سے ماخوذ ہے‘ یہ میرے علم میں نہیں ہے.

انسانی کلام حروف و اصوات سے مرتب ہوتا ہے اور ہر زبان میں حروفِ ہجائیہ ہوتے ہیں.پھر حروف مل کر کلمات بناتے ہیں. کلمات سے کلام وجود میں آتا ہے‘ خواہ وہ کلام منظوم ہو یا نثر ہو. اسی طرح قرآن مجید کی ترکیب ہے. حروف سے مل کر کلمات بنے‘ کلمات نے آیات کی شکل اختیار کی‘ آیات جمع ہوئیں سورتوں کی شکل میں اورسورتیں جمع ہو گئیں منزلوں کی شکل میں.

رکوعوں اور پاروں کی تقسیم

سورتوں کی پہلی تقسیم رکوعوں میں ہے. یہ تقسیم دورِ صحابہ‘ؓ اور دورِ نبویؐ میں موجود نہیں تھی. یہ تقسیمیں زمانۂ مابعد کی پیداوار ہیں. رکوعوں کی تقسیم بڑی سورتوں میں کی گئی.۳۵ سورتیں ایسی ہیں جو ایک ہی رکوع پر مشتمل ہیں ‘یعنی وہ اتنی چھوٹی ہیں کہ انہیں ایک رکعت میں آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے‘ لیکن بقیہ سورتیں طویل ہیں. سورۃ البقرۃ میں ۲۸۵ یا ۲۸۶ آیات ہیں اور اس کے ۴۰ رکوع ہیں. حضور سے منقول ہے کہ آپؐ نے ایک رات ان تین سورتوں (البقرۃ‘ آل عمران‘النساء) کی منزل ایک رکعت میں مکمل کی ہے. لیکن یہ تو استثناء ات کی بات ہے. عام طور پر تلاوت کی وہ مقدار جو ایک رکعت میں بآسانی پڑھی جا سکتی ہوایک رکوع پر مشتمل ہوتی ہے. رکوع رکعت سے ہی بنا ہے. یہ تقسیم حجاج بن یوسف کے زمانے میں یعنی تابعین کے دور میں ہوئی ہے . لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ یہ تقسیم بڑی محنت سے معانی پر غور کرتے ہوئے کی گئی ہے کہ کسی مقام پر ایک مضمون مکمل ہو گیا اوردوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے تو وہاں اگر رکوع کر لیا جائے تو بات ٹوٹے گی نہیں. اگرچہ ہمارے ہاں عام طور پرائمہ مساجد پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے‘ عربی زبان سے واقف نہیں ہوتے ‘لہذا اکثر ایسی تکلیف دہ صورت ِحال پیدا ہوتی ہے کہ وہ ایسی جگہ پر رکوع کر دیتے ہیں جہاں کلام کا ربط منقطع ہو جاتا ہے. پھر اگلی رکعت میں وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے بات معنوی اعتبار سے بہت ہی گراں گزرتی ہے. رکوعوں کی تقسیم بالعموم بہت عمدہ ہے‘ لیکن چند ایک مقامات پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ آیت یہاں سے ہٹا کررکوع ماقبل میں شامل کی گئی ہوتی یا رکوع کا نشان اس آیت سے پہلے ہوتا تو معانی اور مفہوم کے اعتبار سے بہتر ہوتا. بہرحال اکثر و بیشتر رکوعوں کی تقسیم معنوی اعتبار سے صحیح ہے جو بڑی محنت سے گہرائی میں غور کر کے کی گئی ہے. 
اس کے علاوہ ایک تقسیم پاروں کی شکل میں ہے. یہ تقسیم تو اور بھی بعد کے زمانے کی 
ہے اور بڑی بھونڈی تقسیم ہے‘ اس لیے کہ اس میں سورتوں کی فصیلیں توڑ دی گئی ہیں. 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں کا جوشِ ایما ن کم ہوا اور لوگوں نے معمول بنانا چاہا کہ ہر مہینے میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرلیں تب اُن کو ضرورت پیش آئی کہ اس کو تیس حصّوں میں تقسیم کیا جائے. اس مقصد کے لیے کسی نے غالباً یہ حرکت کی کہ اُس کے پاس جو مصحف موجود تھا اُس نے اس کے صفحے گن کرتیس پر تقسیم کرنے کی کوشش کی. اس طرح جہاں بھی صفحہ کٹ گیا وہیں نشان لگا دیا اور اگلا پارہ شروع ہو گیا. اس بھونڈی تقسیم کی مثال دیکھئے کہ سورۃ الحجر کی ایک آیت تیرہویں پارے میں ہے جبکہ باقی پوری سورت چودہویں پارے میں ہے. ہمارے ہاں جو مصحف ہیں ان میں آپ کو یہی شکل نظر آئے گی. سعودی عرب سے جو قرآن مجید بڑی تعداد میں شائع ہو کر پوری دنیا میں پھیلا ہے‘ یہ اب پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اسی انداز سے شائع کیا جاتا ہے جس سے کہ ہم مانوس ہیں. البتہ اہل عرب کے لیے جو قرآن مجید شائع کیا جاتا ہے اس میں رموزِ اوقاف اور علاماتِ ضبط بھی مختلف ہیں اور اس میں چودہواں جزء سورۃ الحجر سے شروع کیا جاتا ہے. گویا وہ تقسیم جو ہمارے ہاں ہے اس میں انہوں نے اجتہاد سے کام لیا ہے ‘اگرچہ پار وں کی تقسیم باقی رکھی ہے. بعض دوسرے عرب ممالک سے جوقرآن مجید شائع ہوتے ہیں. ان میں پاروں کا ذکر ہی نہیں ہے. اس لیے کہ یہ کوئی متفق علیہ چیز نہیں ہے اور زمانۂ تابعین میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ‘یہ اس سے بہت بعد کی بات ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
خَیْرُالنَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ اس حدیث کی رو سے بہترین ادوار تین ہی ہیں دورِ صحابہؓ ‘ دورِتابعین ‘پھر دورِتبع تابعین.ان تین زمانوں کو ہم ’’قرونٌ مشہودٌ لھا بِالخیر‘‘ کہتے ہیں. باقی اس کے بعد کا معاملہ حجت نہیں ہے ‘اس کی دین کے اندر کوئی مستقل او ر دائمی اہمیت نہیں ہے.

ترتیب ِنزولی اور ترتیب ِمصحف کا اختلاف

قرآن حکیم کی ترتیب کے ضمن میں پہلی بات جو بالکل متفق علیہ اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے وہ یہ ہے کہ ترتیب ِنزولی بالکل مختلف ہے اور ترتیب ِمصحف بالکل مختلف ہے. اکثر و بیشتر جو سورتیں ابتدا میں نازل ہوئیں وہ آخر میں درج ہیں اور ہجرت کے بعد جوسورتیں نازل ہوئی ہیں (البقرۃ ‘ آل عمران‘ النساء‘ المائدۃ)ان کو شروع میں رکھاگیاہے. تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ترتیب ِنزولی اور ترتیب مصحف مختلف ہے.

جہاں تک ترتیب نزولی کا تعلق ہے‘ اس سے ہر طالب علم کو دلچسپی ہوتی ہے جو قرآن مجید پر غور کرنا چاہتا ہے. اس لیے کہ ترتیبِ نزولی کے حوالے سے قرآن حکیم کے معانی اور مفاہیم کا ایک نیا پہلو سامنے آتا ہے. ایک تو یہ کہ ایک خاص پس منظر کے ساتھ سورتیں جڑتی ہوئی چلی جاتی ہیں. ابتدا میں کیا حالات تھے جن میں یہ سورتیں نازل ہوئیں‘ پھر حالات نے کیا پلٹا کھایا تو اگلی سورتیں نازل ہوئیں. چنانچہ ترتیبِ نزولی کے حوالے سے قرآن حکیم کو مرتب کیا جائے تو ایک اعتبار سے وہ سیرت النبیؐ کی کتاب بن جائے گی. اس لیے کہ آغاز وحی کے بعد سے لے کر آپؐ کے انتقال تک وہ زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا. دوسرے یہ کہ اس پورے زمانے کے ساتھ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کا جو مجموعی ربط ہے ترتیب نزولی کی مدد سے اسے سمجھنے اور غور و فکر کرنے میں مدد ملتی ہے. پس قرآن مجید کے ہر طالب علم کو اس سے دلچسپی ہونا سمجھ میں آتا ہے. چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ انہوں نے ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن حکیم کو مرتب کیا تھا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات بہت شدومد کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے بھی اس کوترتیب نزولی کے اعتبار سے مرتب کیا تھا ‘اور عوام کی سطح پریہ مشہور ہے کہ اہل تشیع اسی کو اصل اور مستند قرآن مانتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ مصحف ان کے بارہویں امام کے پاس ہے ‘ جو ایک غار میں روپوش ہیں. قیامت کے قریب جب وہ ظاہر ہوں گے تب وہ اپنا یہ مصحف یعنی ’’اصل قرآن‘‘ 
لے کر آئیں گے. گویا اہل تشیع یہ قرآن اُس وقت تک کے لیے ہی قبول کرتے ہیں. عام طور پر ان کی طرف یہی بات منسوب ہے ‘لیکن دورِ حاضر کے بعض شیعہ علماء اس تصور کے قائل نہیں ہیں. ایک شیعہ عالم دین سید ہادی علی نقوی نے بہت شدّومدّ کے ساتھ اس تصور کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ ’’ہم اسی قرآن کو مانتے ہیں‘ یہی اصل قرآن ہے اور اسے من و عن محفوظ مانتے ہیں. ہمارے نزدیک کوئی آیت اس سے خارج نہیں ہوئی اور کوئی شے باہر سے بعد میں اس میں داخل نہیں ہوئی. یہی جو ’’دُفَّتین‘‘ یعنی جلد کے دو گتّوں کے مابین ہے‘ یہی حقیقی اور اصلی قرآن ہے‘‘.

بہر حال اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایسا کوئی مصحف تھا جسے آپ نے ترتیب نزولی کے مطابق مرتب کیا تھا تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں. علمی اور تحقیقی اعتبار سے قرآن حکیم پر غور وفکر کرنے کے لیے قرآن مجید کے بعض انگریزی تراجم میں بھی ترتیب نزولی کے اعتبار سے سورتوں کو مرتب کر کے ترجمہ کیا گیا ہے. (محمد عِزۃ د روِزۃ نے بھی اپنی تفسیر 
’’التفسیر الحدیث‘‘ میں سورتوں کو نزولی اعتبار سے ترتیب دیا ہے.) علمی اعتبار سے اس میں کوئی حرج نہیں ‘لیکن ا صل حجیت ترتیب مصحف کی ہے. یہ ترتیب توقیفی ہے. یہ محمدٌ رسول اللہ کی دی ہوئی ترتیب ہے اور یہی ترتیب لوح محفوظ میں ہے. اصل قرآن تو وہی ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾ (الواقعۃ) اور: بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ (البروج) ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں جلال الدین سیوطی نے بہت ہی زور اور تاکید کے ساتھ کسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر تمام انسان اور جن مل کر کو شش کر لیں تب بھی ترتیب نزولی پر قرآن کو مرتب نہیں کیا جا سکتا. اس لیے کہ اس کے بارے میں ہمارے پاس مکمل معلومات نہیں ہیں. بہت سی سورتوں کے اندر بعد میں نازل ہونی والی آیات پہلے آ گئی ہیں اور شروع میں نازل ہونی والی بعد میں آئی ہیں. اس اعتبار سے ایک ایک آیت کے بار ے میں معین کرنا اور اس کی ترتیب کے بارے میں اجماع ناممکن ہے. چنانچہ اصل مصحف وہی ہے جو ہمارے پاس ہے اور اس کی ترتیب بھی توقیفی ہے جو محمدٌ رسول اللہ نے بتائی ہے.
اس ترتیب مصحف کے اعتبار سے اِس دور میں سورتوں کی ایک نئی گروپنگ کی طرف راہنمائی ہوئی ہے. مولانا حمید الدین فراہی ؒ نے خاص طور پر اپنی توجہ کو نظم قرآن پر مرکوز کیا‘ آیات کا باہمی ربط تلاش کیا.نیز یہ کہ آیتوں کی وہ کون سی قدر مشترک ہے جس کی بنا پر ان کو سورتوں میں جمع کیا گیا پھر یہ کہ ہر سورۃ کا ایک عمود اور مرکزی مضمون ہے‘ بظاہر آیات غیر مربوط نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت اُن کے مابین ایک منطقی ربط موجود ہے اور ہر آیت اس سورۃ کے عمود کے ساتھ مربوط ہے مزید یہ کہ سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں ان چیزوں پر مولانا فراہیؒ نے زیادہ توجہ کی. مولانا اصلاحی صاحب نے اس بات کو مزید آگے بڑھایا ہے. 

اس ضمن میں ایک اشتباہ پیدا ہو سکتا ہے ‘ جسے رفع کر دینا ضروری ہے کہ قرآن مجید کا یہ پہلو اس زمانے میں کیوں سامنے آیا اور اس سے پہلے اس پر غور کیوں نہیں ہو سکا؟ کیا ہمارے اسلاف قرآن مجید پر تدبر کا حق ادا نہیں کرتے تھے؟ اس اشتباہ کو اپنے ذہن میں نہ آنے دیں‘ اس لیے کہ قرآن مجید کی شان یہ ہے کہ اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے. حضور کا اپنا قول ہے کہ 
’’لَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہُ‘‘ . اگرکوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی خاص دور کے محدثین‘ محققین‘ مفسرین قرآن مجید کے علم کا بتمام و کمال احاطہ کر چکے تو وہ سخت غلطی پر ہے. اگر ایسا ہوتا تو یہ قرآن مجید پر بھی طعن ہوتا اور خود حضورؐ کے اس قول کی بھی نفی ہوتی. یہ تو جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھے گا قرآن مجید کے عجائب‘ اس کی حکمتیں ‘اس کے علوم و معارف کے نئے نئے خزانے برآمد ہوتے رہیں گے. چنانچہ ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ مطالعہ قرآن کے بعد ہم یہ محسوس کریں کہ ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کو سیکھا ہے اور بعد میں آنے والے اس میں سے کچھ اور بھی حاصل کریں گے‘ وہ ہمیشہ اس کے لیے کوشاں رہیں گے‘اس میں غور و فکر اور تدبر کرتے رہیں گے اور نئے نئے علوم اورنئے نئے نکات اس میں سے برآمد ہوتے رہیں گے. اللہ تعالیٰ کی حکمت میں یہی زمانہ اس انکشاف کے لیے معین تھا ‘اور ظاہر بات ہے کہ حکمتِ قرآنی کا جو بھی کوئی نیا پہلو دریافت ہو گا وہ کسی انسان ہی کے ذریعے سے ہو گا. لہذا اس کے لیے طبیعت کے اندر بُعد محسوس نہ کریں. بہرحال مولانا فراہیؒ نے نظم قرآن کو اپنا خصوصی موضوع بنایا. وہ تفسیر قرآن لکھنا چاہتے تھے مگر لکھ نہیں سکے‘ صرف چند سورتوں کی تفاسیر انہوں نے لکھی ہیں. ان میں سے بھی بعض نامکمل ہیں. وہ ایک مفکر قسم کے انسان تھے‘ مصنف قسم کے انسان نہیں تھے. مفکر انسان مسلسل غور کرتارہتا ہے اور اس کے سامنے نئے نئے پہلو آتے رہتے ہیں. چنانچہ ان کا تصنیف و تالیف کا انداز یہ تھاکہ انہوں نے مختلف موضوعات پر فائل کھول رکھے تھے. جب کوئی نیا خیال آتا تو کاغذ پر لکھ کر متعلقہ فائل میں شامل کر لیتے. یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر تصانیف ان کی وفات کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئی ہیں‘ جبکہ ان کے زمانے میں وہ صرف فائلوں کی شکل میں تھیں اور کسی شے کے چھپنے کی نوبت آئی ہی نہیں.سوچ و بچار کا تسلسل ان کے آخری لمحے تک جاری رہا. ’’مقدمہ نظام القرآن‘‘واقعتا ان کے فکر اور سوچ کی صحیح نمائندگی کرتاہے. اس ضمن میں ان کے شاگرد رشید امین احسن اصلاحی صاحب نے بات کو آگے بڑھایا ہے. نظم قرآن کے بارے میں ان حضرات کے نتیجۂ فکر کے چند نکات ملاحظہ ہوں:

(i) ہر سورت کا ایک عمود ہے‘ جیسے ایک ہار کی ڈوری ہے اور اس میں موتی پروئے ہوئے ہیں. یہ ڈوری دیکھنے والوں کونظر نہیں آتی ‘موتی نظر آتے ہیں‘لیکن ان کو باندھنے والی شے تو ڈوری ہے جس میں وہ پروئے گئے ہیں. اسی طرح ہر سورت کا ایک مرکزی مضمون یاعمودہے جس کے ساتھ اس کی تمام آیات مربوط ہیں .

(ii)قرآن مجید کی اکثر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہی مضمون کا ایک رخ ایک سورت میں آجاتا ہے اور اسی کا دوسرا رخ اس جوڑے کے دوسرے حصّے میں آ کر مضمون کی تکمیل کر دیتا ہے. مولانا اصلاحی صاحب نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے. البتہ جہاں تک اس اصول کے انطباق کا تعلق ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے اور جو حضرات میرے دروس میں تسلسل سے شرکت کرتے رہے ہیں 
انہیں معلوم ہے کہ مجھے بہت سے مواقع پر اصلاحی صاحب سے اختلاف بھی ہے‘ لیکن اصولاً یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید کی اکثر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں. تاہم بعض سورتیں منفرد حیثیت کی مالک ہیں‘ ان کا جوڑا اس جگہ پرموجود نہیں ہے. اگرچہ میں نے تحقیق کی ہے کہ اکثر وبیشتر ایسی سورتوں کے جوڑے بھی معناً قرآن میں موجود ہیں. مثلاً سورۃ النور تنہا اور منفرد ہے‘سورۃ الاحزاب بھی منفرد اور تنہا ہے ‘لیکن یہ دونوں آپس میں جوڑا ہیں اور ان میں جوڑا ہونے کی نسبت بتمام و کمال موجودہے. اسی طرح سورۃ الفاتحہ منفرد ہے. وہ تو اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ واقعتا اس کا بتمام و کمال جوڑا بننا ممکن نہیں‘ وہ اپنی جگہ پر قرآن حکیم اور سَبعًا مِنَ المثَانِی ہے‘ لیکن سورۃ الناس میں غور کریں تو معناً یہ سورت سورۃ الفاتحہ کا جوڑا بنتی ہے. اس لیے کہ سورۃ الفاتحہ میں استعانت ہے اور سورۃ الناس میں استعاذہ. پھر سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی تین شانیں رَبّ‘ مَلِک‘ الٰہ ہیں اور یہی تین شانیں سورۃ الناس میں بھی ہیں. 

(iii) تلاوت کے لیے سات منزلوں کے علاوہ قرآن حکیم میں سورتوں کی ایک معنوی گروپنگ بھی ہے.اس اعتبار سے بھی سورتوں کے سات گروپ ہیں اور ہر گروپ میں مکی اور مدنی دونوں طرح کی سورتیں شامل ہیں. ہر گروپ میں ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتیں اور اس کے بعد ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتیں ہیں. ایک گروپ کی مکی اور مدنی سورتوں میں وہی نسبت ہے جو ایک جوڑے کی دو سورتوں میں ہوتی ہے. جیسے ایک مضمون کی تکمیل ایک جوڑے کی سورتوں میں ہوتی ہے ‘ یعنی ایک رُخ ایک فرد میں اوردوسرا رُخ دوسرے فرد میں ‘اسی طرح ہر گروپ کا ایک مرکزی مضمون اور عمود ہے‘ جس کا ایک رُخ مکی سورتوں میں اور دوسرا رخ مدنی سورتوں میں آجاتا ہے. اس طرح غور و فکر اور تدبر کے نئے میدان سامنے آ رہے ہیں .جو انسان بھی ان کا عمود معین کرنے میں غور و فکر کرے گا وہ کسی نتیجے پر پہنچے گا‘ اگرچہ عمود معین کرنے میں اختلاف ہو سکتا ہے. سب سے بڑ ا گروپ پہلا ہے جس میں مکی سورت صرف ایک 
یعنی سورۃ الفاتحہ جبکہ مدنی سورتیں چار ہیں جو سوا چھ پاروں پر پھیلی ہوئی ہیں‘یعنی سورۃ البقرۃ‘ آل عمران‘ النساء اور المائدۃ. دوسرا گروپ اس اعتبار سے متوازن ہے کہ اس میں دو سورتیں مکی اور دو مدنی ہیں. سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف مکّی ہیں‘جبکہ سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ مدنی ہیں. تیسرے گروپ میں سورۂ یونس سے سورۃ المؤمنون تک چودہ مکی سورتیں ہیں. یہ تقریباً سات پارے بن جاتے ہیں. اس کے بعد ایک مدنی سورت ہے اور وہ سورۃ النور ہے. اس کے بعد چوتھے گروپ میں سورۃ الفرقان سے سورۃ السجدۃ تک مکیات ہیں‘ پھر ایک مدنی سورت سورۃ الاحزاب ہے. پانچویں گروپ میں سورۂ سبا سے سورۃ الاحقاف تک مکیات ہیں‘ پھر تین مدنی سورتیں‘ سورۂ محمد‘سورۃ الفتح اور سورۃ الحجرات ہیں. اس کے بعد چھٹے گروپ میں پھر سورۂ ق سے سورۃ الواقعہ تک سات مکیات ہیں جن کے بعد پھر دس مدنیات ہیں سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم. اسی طرح ساتویں گروپ میں بھی پہلے مکی سورتیں ہیں اور آخر میں دو مدنی سورتیں. اس طرح یہ سات گروپ بنتے ہیں. یہ گروپ مولانا اصلاحی صاحب کے مرتب کردہ ہیں. ان میں پہلا اور آخری گروپ اس اعتبار سے عکسی نسبت رکھتے ہیں کہ پہلے گروپ میں صرف ایک سورت سورۃ الفاتحہ مکی ہے اور سوا چھ پاروں پر مشتمل چار طویل ترین سورتیں مدنی ہیں‘ جبکہ آخری گروپ میں سورۃ الملک سے لے کر پورے دو پارے تقریباً مکیات پر مشتمل ہیں‘ آخر میں صرف دوسورتیں ’’ معوذتین‘‘ مدنی ہیں. یعنی یہاں نسبت بالکل عکسی ہے. لیکن دوسرا گروپ بھی متوازن ہے‘ یعنی دو سورتیں مکی‘ دو مدنی اور چھٹا گروپ بھی متوازن ہے کہ اس میں سات سورتیں مکی ہیں( سورۃ ق سے سورۃ الواقعہ تک )جبکہ دس سورتیں مدنی ہیں (سورۃ الحدید سے سورۃ التحریم تک) لیکن حجم کے اعتبار سے تقریباً برابر ہیں. یہ بھی غور و فکر اور سوچ بچار کا ایک موضوع ہے اوراس سے بھی قرآن مجید کی حکمت و ہدایت اور اس کے علم کے نئے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں. 

قرآن حکیم کی سورتوں کے جوڑے ہونے کا معاملہ قرآن مجید میں بعض جگہوں پر تو 
بہت ہی نمایاں ہے. ’’المُعوَّذَتین‘‘ آخری دو سورتیں ہیں جو تعو ّذ پر مشتمل ہیں: قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ الۡفَلَقِ ۙ﴿۱﴾ اور: قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۙ﴿۱﴾ . اسی طرح الزّہراوَین ’’دو نہایت تابناک سورتیں‘‘ سورۃ البقرۃ اور آل عمران ہیں. حضور نے ان دونوں کو بھی ایک نام دیا جیسے آخری دو سورتوں کو ایک نام دیا . اسی طرح سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر میں اور سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الانشراح میں معنوی ربط ہے. سورۃ التحریم اور سورۃالطلاق میں تو یہ ربط بہت ہی نمایاں ہے . دونوں سورتوں کا آغاز بالکل ایک جیسا ہے :یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ اور یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ . مضمون کے اندر بھی بڑی گہری مناسبت ہے. اس کے بعد سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا جوڑاہے. سورۃ الصف سَبَّحَ لِلّٰہِ سے اور سورۃ الجمعہ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ کے الفاظ سے شروع ہو رہی ہے . سورۃ الصف کی مرکزی آیت جو رسول اللہ کے مقصدِ بعثت کو معین کر رہی ہے ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ہے ‘جبکہ سورۃ الجمعہ کی مرکزی آیت جوحضور کے انقلاب کا اساسی منہاج معین کر رہی ہے ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ ہے. بہرحال سورتوں کا جوڑا ہونا‘ سورتوں کا گروپ کی شکل میں ہونا‘ ان گروپس کا اپنا ایک عمود اور ایک مرکزی مضمون ہونا ‘ پھر اس کے دو رخ بن جانا جو اُس کی مکیات اور مدنیات میں آتے ہیں‘ قرآن مجید کے علم و حکمت کے خزانے کے وہ دروازے ہیں جو اَب کھلے ہیں.اس طرح کے دروازے ہر دور میں کھلتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کھلتے رہیں گے. چنانچہ قرآن مجید پر تذکر اور تدبر تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے. 

پیچھے سات منزلوں اور سات احزاب کا ذکر ہو چکا . اب مکی اور مدنی سورتوں کے سات گروپس کا بیان ہوا. یہ دونوں قسم کے گروپ دو جگہ پر آ کر مل جاتے ہیں. پہلی منزل تو سورۃ النساء پر ختم ہوجاتی ہے اور پہلا گروپ سورۃ المائدۃ پر ختم ہوتا ہے. سورۃ التوبۃ پر دوسری منزل بھی ختم ہو تی ہے اور دوسرا گروپ بھی ختم ہوتا ہے. سورۂ یونس سے 
تیسری منزل شروع ہوتی ہے اور تیسرا گروپ بھی شروع ہوتا ہے .اسی طرح ایک مقام اور ہے. سورۂ ق سے آخری منزل بھی شروع ہو رہی ہے اور اسی سے چھٹا گروپ بھی شروع ہو رہا ہے. سورۂ ق چھٹے گروپ کی پہلی مکی سورۃ ہے. یہ چھٹا گروپ سورۃ التحریم پر ختم ہو جاتا ہے اور آخری گروپ سورۃ الملک سے شروع ہوتا ہے‘ لیکن جو منزل سورۂ ق سے شروع ہوتی ہے وہ سورۃ الناس تک ایک ہی ہے.

یہ وہ چیزیں ہیں جو معلومات کے درجے میں سامنے رہیں اور ذہن میں موجود رہیں تو انسان جب غور کرتا ہے تو ان کے حوالے سے بعض اوقات حکمت کے بڑے قیمتی موتی ہاتھ لگتے ہیں.