قرآن مجید کی تدوین کے ضمن میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ رسول اللہ کی حیات ِطیبہ میں مکمل ہو گئی تھی. کسی شاعر کا دیوان اس کی غزلوں اور قصائد پر مشتمل ہوتا ہے. قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور اس کی بھی تدوین ہوئی ہے. یہ بھی ایک دیوان کی شکل میں ہے‘ اس کو بھی جمع کیا گیا ہے. جمع و تدوین قرآن اپنی جگہ پر بہت اہم موضوع ہے. اس کے بارے میں خاص معلومات ہمارے ذہنوں میں ہر وقت مستحضر رہنی چاہئیں‘ کیونکہ عام طور پر اہل تشیع کے حوالے سے ہمارے ہاں جو چیزیں مشہور ہیں( واللہ اعلم وہ حقیقت پر مبنی ہیں یا محض مخالفین کا پراپیگنڈا ہے) ان کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں شبہات پیدا ہوئے ہیں اور وہ کافی بڑے حلقے کے اندر پھیلے ہیں.

ہمارے ہاں جمعے کے خطبے جو مرتب کیے گئے ہیں اورعام خطیب پڑھتے ہیں‘ ان میں بھی ایسے الفاظ آ گئے ہیں جو بہت بڑے بڑے مغالطوں کی بنیاد بن گئے ہیں. ہو سکتا ہے کسی دشمن اسلام نے ‘کسی باطنی نے ‘کسی غالی قسم کے رافضی نے یہ الفاظ شامل کردیئے ہوں. بظاہر تعریف ہو رہی ہے مگر حقیقت میں تنقیص ہو رہی ہے اور دین کی جڑ کاٹی جا رہی ہے. اس کی مثال بھی اسی تدوین کے ذیل میں آئے گی.

قرآن حکیم کی تدوین تین مراحل میں مکمل ہوئی. پہلی تدوین رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ میں ہوگئی تھی ‘لیکن وہ تدوین اس شکل میں تھی کہ سورتیں معین ہو گئیں‘ سورتوں کی ترتیب معین ہو گئی. کتابی شکل میں قرآن مجید حضور کی حیات ِطیبہ میں موجود نہیں تھا. لوگوں کے پاس مختلف حصّوں میں لکھا ہوا قرآن تھا. لوگ اونٹ کے شانے کی ہڈی (جو کافی چوڑی ہوتی ہے) پر لکھتے تھے یا کولہے کی ہڈی پر لکھا جاتا تھا. اونٹ کی 
پسلیاں (ribs) بھی بڑی چوڑی ہوتی ہیں‘ یہ بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں. کاغذ اس زمانے میں کہاں تھا‘ کپڑا زیادہ دستیاب تھا‘ لہذا کپڑے پر بھی لکھا جاتا تھا. اسی طرح چھوٹے چھوٹے پتھروں پر بھی آیات لکھ لیتے تھے. یاد رہے کہ قرآن مجید کی اصل حیثیت ’’قول‘‘ کی ہے. اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۚۙ۴۰﴾ (الحاقّۃ) نہ تویہ حضور کو لکھی ہوئی شکل میں دیا گیا نہ حضور نے لکھی ہوئی شکل میں اُمت کو دیا. حضور کو بھی یہ پڑھایا گیا ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾ (الاعلٰی) ’’ہم آپ کو پڑھائیں گے ‘پھر آپ بھولیں گے نہیں‘‘. یہ اوّلاًقولِ جبرائیل ؑ‘ پھر قولِ محمد بن کر لوگوں کے سامنے آیا. جبرائیل علیہ السلام سے حضور نے سنا‘ حضورؐ سے صحابہؓ نے سنا.چنانچہ اصل میں تو قرآن پڑھی جانے والی شے ہے. لیکن جیسے جیسے قرآن نازل ہوتا آپ اسے لکھوا بھی لیتے . بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کتابتِ وحی کی ذمہ داری پر مامور تھے. اور حضور نے اس بات کا حکم بھی دے دیا تھا کہ لاَ تَــکْتُبُوا عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْآنِ ’’ میری طرف سے سوائے قرآن کے کچھ نہ لکھو‘‘.

احادیث کو لکھنے سے حضور نے منع فرما دیا تھا تا کہ کہیں اللہ اور رسولؐ کا کلام گڈمڈ نہ ہو جائے‘ صرف قرآن مجید کو ہی لکھنے کا حکم دیا.لیکن اصل قرآن اللہ تعالیٰ نے حضور کے سینے میں جمع کیا اور محمد رسول اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سینوں میں جمع کر دیا. وہ قول سے قول کی شکل میں گیا ہے‘ لوگوں نے حضور کے دہن مبارک سے سیکھا ہے.بہرحال رسول اللہ کے دور میں لکھا ہوا قرآن بھی تھا لیکن کتابی شکل میں جمع شدہ نہیں تھا. جمع شدہ شکل میں صرف سینوں میں تھا‘ حفاظ کو یاد تھا. انہیں یاد تھا کہ قرآن اس ترتیب کے ساتھ ہے. اس کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحیح روایات کے مطابق ہر رمضان المبارک میں جتنا قرآن اُس وقت تک نازل ہو چکا ہوتا تھا‘ حضور اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اس کا دَور کرتے تھے ‘جیسا کہ ہمارے ہاں رمضان کے آنے سے پہلے حفاظ دَور کرتے ہیں‘ ایک حافظ سناتا ہے‘ دوسرا سنتا ہے تا کہ 
تراویح میں سنانے کے لیے تازہ ہو جائے.تو رمضان المبارک میں حضور اور حضرت جبرائیل ؑ مذاکرہ کرتے تھے‘ قرآن مجید کا دور ہوتا تھا. آپ کی زندگی کے آخری رمضان میں آپؐ نے حضرت جبرائیل ؑ سے قرآن مجید کا دو مرتبہ مکمل دَور کیا.چنانچہ جہاں تک حافظے میں اور سینے میں قرآن کا مدون ہو جانا ہے وہ تو نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے دوران مکمل ہو گیا تھا.

تدوینِ قرآن کا دوسرا مرحلہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آیا جب مرتدین اور مانعین زکو ٰۃ سے جنگیں ہوئیں. جنگ یمامہ میں تو بہت بڑی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے .یہ بڑی خو ن ر یز جنگ تھی اور اس میں کثیر تعداد میں حفاظِ قرآن شہید ہو گئے تو تشویش پیدا ہوئی اور یہ خیال آیا کہ اس قرآن کو اب کتابی شکل میں جمع کر لینا چاہیے. یہ خیال سب سے پہلے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دل میں آیا. حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ بات حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے کہی تو وہ بڑے متردّد ہوئے کہ میں وہ کام کیسے کروں جو حضور نے نہیں کیا! لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ اصرار کرتے رہے اور رفتہ رفتہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوبھی اس پر انشراح ِ صدر ہو گیا. انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب تمہاری اس بات کے لیے اللہ نے میرے سینے کو کشادہ کر دیا ہے. اس کے بعد یہ ذمہ داری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ پر ڈالی گئی جو حضور کے زمانے میں کاتب وحی تھے.آپ کے چند خاص صحابہ جو کتابتِ وحی پر مامور تھے ان میں حضرت زید بن ثابتؓ بہت معروف تھے. ان سے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم یہ کام کرو ‘ اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی.وہ بھی پہلے بہت متردّد رہے. ان کی دلیل بھی یہ تھی کہ جو کام حضور نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں! علاوہ ازیں یہ توپہاڑ جیسی ذمہ داری ہے ‘یہ میں کیسے اٹھاؤ ں! لیکن جب حضرات ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہما دونوں کا اصرار ہوا تو ان کا بھی سینہ کھل گیا. پھر جن صحابہؓ کے پاس قرآن حکیم کا جو حصہ بھی لکھی ہوئی شکل میں تھا‘ ان سے لیا گیا اور مختلف شہادتوں اور حفاظ کی مدد سے عہد صدیقی میں قرآن پاک کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر لیا گیا. یاد رہے کہ ایک 
کتاب کی شکل میں بھی قرآن مجید کی تدوین رسول اللہ کے انتقال کے دو سال کے اندر اندر مکمل ہو گئی . حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت کل سوا دو برس ہے.

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں یہ مسئلہ بھی زیر غورآیا کہ حضور کے زمانے میں تو قرآن ایک جلد کے مابین جمع نہیں کیا گیا‘ لہذا اس کا نام کیا رکھا جائے! ایک تجویز یہ آئی کہ اسے بھی انجیل کا نام دیا جائے. ایک رائے یہ دی گئی کہ اس کا نام ’’سِفر‘‘ ہو‘ اس لیے کہ سفر کا لفظ توراۃ کی کتابوں کے لیے معروف چلا آرہا تھا‘ جیسے سفر ایوب ایک کتاب تھی . تو سِفر کتاب کو کہتے ہیں جس کی جمع ’’اَسفار‘‘ ہے اور یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے. سفر کا لفظی مطلب ہے روشنی دینے والی. پھر حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے تجویز پیش کی کہ اس کا نام ’’مصحف‘‘ ہونا چاہیے. انہوں نے کہا کہ میرا آنا جاناحبشہ ہوتا ہے‘ وہاں کے لوگوں کے پاس ایک کتاب ہے اور وہ اسے مصحف کہتے ہیں. اب ’’مصحف‘‘ کے لفظ پر اتفاق و اجماع ہو گیا. چنانچہ قرآن کے لیے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی تجویز پر مصحف نام رکھا گیا اور اس پر لوگوں کا اجماع ہوا. تدوین قرآن کا یہ دوسرا مرحلہ ہے. 

قرآن حکیم کی تلاوت کے ضمن میں ایک معاملہ چلا آ رہا تھا‘ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا تھا .عربوں کی زبان تو ایک تھی لیکن بولیاں مختلف تھیں ‘الفاظ کے لہجے مختلف تھے. تو سب لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنے اپنے لہجے کے اندر قرآن پڑھ لیا کریں تا کہ سہولت رہے ‘ورنہ بڑی مشقت کی ضرورت تھی کہ سب لوگ اپنے لہجے بدلیں. یہ وہ زمانہ تھا کہ انقلابی جدوجہد کا 
tempo اتنا تیز تھا کہ ان کاموں کے لیے زیادہ فرصت نہیں تھی کہ اس کے لیے باقاعدہ ادارے قائم ہوں‘ مختلف جگہوں سے لوگ آئیں اور اپنا لہجہ بدل کر قریش کے لہجے کے مطابق کریں‘ حجازی لہجہ اختیار کریں. چنانچہ اجازت دی گئی تھی کہ اپنے اپنے لہجوں میں پڑھ لیں. مختلف لہجوں میں پڑھنے کے ساتھ کچھ لفظی فرق بھی آنے لگے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے نوبت یہ آ گئی کہ مختلف لہجوں میں لفظی فرق کے ساتھ بھی قرآن پڑھا جانے لگا. کوئی شخص قرآ ن پڑھ رہا ہوتا‘ دوسرا کہتا کہ یہ غلط پڑھ رہا ہے‘یہ یوں نہیں ہے ‘جیسے میں پڑھ رہا ہوں وہ صحیح ہے. اس پر اس جذباتی قوم کے اندر تلواریں نکل آتی تھیں. اندیشہ ہوا کہ اگر اس طرح سے یہ بات پھیل گئی تو قرآن کا کوئی ایک ٹیکسٹ متفق علیہ نہیں رہے گا. امت کو جمع کرنے والی شے تو یہ قرآن ہی ہے ‘ اس میں لفظی فرق کے نتیجے میں دائمی افتراق و انتشار پیدا ہو جائے گا. چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہؓ کے مشورے سے طے کیا کہ قرآن کا ایک ٹیکسٹ تیار کیا جائے. ا س ٹیکسٹ کے لیے لفظ ’’رسم ‘‘ہے. رسم الخط کا لفظ ہم استعمال کرتے ہیں. ’’ ا ب ت‘‘ حروف ہیں ‘لیکن عربی میں لکھے جائیں گے تو ان کا رسم الخط کچھ اور ہے‘ اردو میں لکھے جائیں گے تو ان کی شکل اور ہے.حضرت عثمانؓ نے ایک رسم الخط اور ایک ٹیکسٹ پر قرآن جمع کیا. انہوں نے بھی ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی کو یہ حکم دے دیا گیا کہ تمام لہجوں کو رد کر کے قریش کے لہجہ پر قرآن کاٹیکسٹ تیار کیا جائے جو متفق علیہ ٹیکسٹ ہو گا. چنانچہ اس کمیٹی نے بڑی محنت شاقہ سے اس کام کی تکمیل کی. اس طرح قرآن کا رسم الخط معین ہو گیا اور ایک متفق علیہ ٹیکسٹ وجود میں آ گیا. رسم عثمانی کے مطابق سورۃ الفاتحہ میں ’’ملک یوم الدین‘‘ لکھا جائے گا‘ لکھنے کی شکل یہ نہیں ہو گی: ’’مالک یوم الدین‘‘ . ایک قراء ت میں چونکہ مَلِکِ بھی ہے تو ’’ملک‘‘ کو ’’مٰلِکِ‘‘ بھی پڑھا جا سکتا ہے اور ’’مَلِکِ‘‘ بھی . تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ ؓ کے مشورے سے سرانجام دیا کہ قرآن کا ایک رسم الخط معین ہو گیا اور مصاحف عثمانؓ تیار ہو گئے . بعض روایات کے مطابق اس کی چار نقول تیار کی گئیں‘ بعض روایات کے مطابق پانچ اور بعض میں سات کا عدد بھی ملتا ہے. ان میں سے ایک مصحف official version کے طور پر مدینے میں رکھا گیا اور باقی نقلیں مکہ مکرمہ‘ دمشق‘ کوفہ‘ یمن‘ بحرین اور بصرہ کو بھیج دی گئیں. ان میں سے کوئی کوئی نقل اب بھی موجود ہے. ترکی اور تاشقند میں وہ ’’مصاحفِ عثمانی‘‘ موجود ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کرائے تھے.

یہاں ایک اہم بات توجہ طلب ہے کہ ہمارے ہاں خطباتِ جمعہ میں بعض خطیب یہ 
جملہ پڑھ جاتے ہیں: ’’جامعُ آیاتِ القرآن عثمان بن عفان ؓ ‘‘ .یہاں ہم قافیہ الفاظ جمع کر کے صوتی آہنگ کے ساتھ ایک خاص انداز پیدا کیا گیا ہے‘ لیکن یہ الفاظ اس قدر غلط اور اتنے گمراہ کن ہیں کہ اس سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ آیات قرآنیہ کو سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع کیا. یہ بات قرآن پر سے اعتماد کو ہٹا دینے والی ہے. آیاتِ قرآنیہ تو رسول اللہ کے زمانے میں جمع ہو چکی تھیں ‘ سورتیں حضورؐ کے زمانے میں وجود میں آچکی تھیں‘ سورتوں کی تدوین ہی نہیں ترتیب بھی حضورکے زمانے میں عمل میں آ چکی تھی. کتابی شکل میں قرآن ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمع ہوا. حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں دس پندرہ سال کا فصل ہے. اگر ’’جامعُ آیاتِ القرآن‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قرار دیا جائے تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن کی تدوین حضور کے پندرہ یا بیس برس بعد ہوئی ہے. حضرت عثمانؓ کا عہد خلافت بارہ برس ہے اور حضور کے انتقال کے ۲۴برس بعد ان کا انتقال ہوا. تو اس طرح قرآن کے متن (text) کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا سکتے ہیں‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آیاتِ قرآنی کے جمع کرنے والے نہیں ہیں بلکہ اُمت کو قرآن کے ایک ٹیکسٹ اور رسم الخط پر جمع کرنے والے ہیں. اسی لیے آج دنیا میں جو مصحف موجود ہے یہ ’’ مصحف عثمان ‘‘کہلاتا ہے. اس کا نام ’’مصحف‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رکھا تھا اور مصحف عثمان میں رسم الخط اور ٹیکسٹ معین ہو گیا کہ اب قرآن اسی طریقے سے لکھا جائے گا اور یہی پوری دنیا کے اندر official ٹیکسٹ ہے.

ہمارے ہاں اکثر و بیشتر قرآن پاک کی اشاعت کے ادارے رسم عثمانی کا پورا اہتمام نہیں کرتے اور اس اعتبار سے ان میں رسم کی غلطیاں بھی آ جاتی ہیں‘ اس لیے کہ ان کے سامنے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں یعنی کم خرچ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش لیکن اب سعودی حکومت نے اس کا اہتمام کر کے بڑی نیکی کمائی ہے. قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے ایک نیکی مصرنے کمائی تھی. جب اسرائیل نے قراء تِ قرآن مجید کے اندر تحریف کر کے اس کو عام کرنے کی کوشش کی تو حکومت مصر 
نے اپنے چوٹی کے قراء‘ قاری محمود خلیل حُصری اور عبدالباسط عبدالصمد سے پورا قرآن مجید مختلف قراء توںمیں تلاوت کرایا اور ان کے کیسٹس تیار کر کے دنیا میں پھیلا دیئے کہ اب گویا وہ ریفرنس کا کام دیں گے. ا ن کے ہوتے ہوئے اب کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس طرح قراء ت کے حوالے سے قرآن میں کوئی تحریف کر سکے. اسی طرح سعودی عرب کی حکومت نے کروڑوں روپے کے خرچ سے بہت بڑی فاؤ نڈیشن بنائی ہے‘ جس کے زیر اہتمام بڑے عمدہ آرٹ پیپر پر عالمی معیار کی بڑی عمدہ جلد کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن مجید چھاپے جا رہے ہیں‘ جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے معین کردہ رسم الخط کے مطابق ہیں. 

بہرحال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ’’جامع آیات القرآن‘‘ کی بجائے 
’’جامع الاُمّۃِ علٰی رسمٍ واحدٍ‘‘ یعنی اُمت کو قرآن حکیم کے ایک رسم الخط پرجمع کرنے والے ہیں. یہ تدوین بھی حضور کے انتقال کے ۲۴ برس کے اندر مکمل ہو گئی. یہی وجہ ہے کہ دنیا مانتی ہے اور تمام مستشرق مانتے ہیں کہ جتنا خالص متن (pure text) قرآن کا دنیا میں موجود ہے‘ کسی دوسری کتاب کا موجود نہیں ہے. یہ بات ’’الفضل ما شھدت بہ الاعداء ‘‘ کا مصداق ہے‘یعنی فضیلت تو وہ ہے جس کو دشمن بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے .اوریہ کسی شے کی حقانیت کے لیے آخری ثبوت ہوتا ہے. پس یہ بات پوری دنیا میں مسلّم ہے کہ قرآن حکیم کاٹیکسٹ محفوظ ہے یا جتنا محفوظ ٹیکسٹ قرآن کا ہے اتنا اور کسی کتاب کا نہیں ہے .یعنی قراء ت کے فرق بھی ریکارڈ پر ہیں‘ سبعہ قراء ت اور عشر ہ قراء ت ریکارڈ پر ہیں‘ ان میں بھی ایک ایک حرف کا معاملہ مدوّن ہے کہ فلاں قراء ت میں یہ لفظ زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے یا زیر کے ساتھ. اور یہ تمام official قرا ء ات ہیں. باقی جہاں تک رسم الخط کا تعلق ہے اس کاٹیکسٹ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے معین کر دیا. اُمتِ مسلمہ پر یہ ان کا بہت بڑا احسان ہے.قرآن حکیم کی compilation اور اس کی تدوین کے متعلق یہ چیزیں ذہن میں رہنی چاہئیں. یہ حقائق سامنے نہ ہوں تو کچھ لوگ ذہنوںمیں شکوک و شبہات پیدا کر سکتے ہیں.