اب ہم اگلی بحث پر آتے ہیں کہ قرآن کا موضوع کیا ہے. کیا قرآن فلسفہ کی کتاب ہے؟ کیا یہ سائنس کی کتاب ہے؟ کیا یہ جیالوجی یا فزکس کی کتاب ہے؟ کس قسم کی کتاب ہے؟ تو پہلی بات یہ سمجھئے کہ قرآن کا موضوع ہے انسان لیکن انسان کی اناٹومی‘ اس کی فزیالوجی یا anthropology نہیں‘ بلکہ انسان کی ہدایت . یہ ہدایت کا لفظ قرآن مجید کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے. چنانچہ دیکھئے سورۃ البقرۃ کے شروع ہی میں فرمایا: ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ پھر اس کے وسط میں ارشاد ہوا : ہُدًی لِّلنَّاسِ یعنی پوری نوعِ انسانی کے لیے ہدایت . سورۂ یونس میں فرمایا: ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ .سورۂ لقمان میں فرمایا:ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّلۡمُحۡسِنِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ . سورۃ البقرۃ (آیت ۹۷) اور سورۃ النمل (آیت۲) میں ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ جبکہ سورۂ آل عمران میں ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۸﴾ اور سورۃ المائدۃ میں ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾ کے الفاظ آئے. معلوم ہوا کہ ’’ھُدًی‘‘ کا لفظ قرآن حکیم کے لیے کثرت کے ساتھ آیا ہے. پھر یہ صرف نکرہ نہیں‘ ’’ال‘‘ کے ساتھ معرفہ بن کر بھی کئی جگہ آیا ہے. تین مرتبہ تو اِس آیت مبارکہ میں آیا جو رسول اللہ کے مقصدِ بعثت کو بیان کرتی ہے : ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹ھُدًی نکرہ تھا‘ اَلْھُدٰی معرفہ ہو گیا.یعنی ہدایتِ کاملہ‘ ہدایتِ تامہ‘ ہدایتِ ابدی. اسی طرح سورۃ النجم میں فرمایا : وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمُ الۡہُدٰی ﴿ؕ۲۳﴾ . سورۃ الجن کا آغاز جنات کی ایک جماعت کے اس قول اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾ سے ہوتا ہے. آگے چل کر الفاظ آتے ہیں: وَّ اَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡہُدٰۤی اٰمَنَّا بِہٖ ؕ (آیت ۱۳گویا سورۃ الجن نے معین کیا کہ ’’قُرْاٰنًا عَجَبًا‘‘ اور ’’اَلْھُدٰی‘‘ مترادف الفاظ ہیں.سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں آیا ہے : وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی (بنی اسرائیل:۹۴‘ الکہف:۵۵.’’کیا شے ہے جو لوگوں کو ایمان لانے سے روکتی ہے جبکہ اُن کے پاس الہدیٰ آیا ہے؟‘‘ تو گویا قرآن کا موضوع ہے انسان کی ہدایت.

اب یہ بات ذہن میں رکھئے کہ انسان کے علم کے دو گوشے ہیں‘ علمِ انسانی دو حصوں میں منقسم ہے. (مشہور کہاوت ہے : 
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمُ الْاَبْدَانِ وَعِلْمُ الْاَدْیَانِ ) ایک حصہ ہے مادی دنیا (Physical World) کا علم‘ مادی حقائق کا علم‘ جو حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے. دیکھنا‘ سننا‘ سونگھنا‘ چکھنا‘ چھونا ہمارے حواسِ خمسہ ہیں. یہ تمام صلاحیتیں ہیں جن سے کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں اور عقل کا کمپیوٹر اِن کو پراسیس کرتا ہے ‘ ان سے نتائج نکالتا ہے اور انہیں سٹور کر لیتا ہے. پھر حواس کے ذریعہ سے مزید کوئی معلومات حاصل ہوتی ہیں تو اب ان کو بھی وہ پراسیس کر کے اپنے سابقہ’’memory store‘‘ کے ساتھ ہم آہنگ کر کے کوئی اور نتیجہ اخذ کرتا ہے.اس طرح رفتہ رفتہ انسان کا یہ علم بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ابھی اور کہاں تک جائے گا. آج سے سو سال پہلے بھی انسان تصور نہیں کر سکتا تھا کہ انسانی علم وہاں پہنچ جائے گا جہاں آج پہنچ چکا ہے .یہ علم بالحواس والعقل ہے اور اس علم کا وحی سے کوئی تعلق نہیں ہے. اس کا تعلق اس علمِ اَسماء سے ہے جو بالکل شروع میں حضرت آدم علیہ السلام میں ودیعت کر دیا گیا تھا اور یہی دنیا میں سربلندی کی بنیاد ہے. 

علم انسانی کے دو گوشوں کے ضمن میں سورۃ البقرۃ کا چوتھا رکوع بہت اہم ہے. علم الاَسماء کا ذکر اس کے شروع میں ہے. جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں کی طرف سے یہ بات استفہاماً پیش کی گئی : 
اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ(آیت ۳۰’’کیا آپ اس کو زمین میں خلیفہ بنائیں گے جو اِس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزیاں کرے گا؟‘‘ فرشتوں کا یہ اشکال اس طرح دُور کیا گیا کہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا (آیت ۳۱’’اوراللہ نے آدم کو تمام نام سکھا دیے‘‘.یہ علمِ اسماء جو آدم کو دیا گیا ‘یہی حکومتِ ارضی کی بنیاد ہے . جو قوم اِس علم کے اندر ترقی کرے گی وہی اقتدارِ ارضی کی حق دار ٹھہرے گی. البتہ اس رکوع کے آخر میں فرمایا گیا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے خطا ہو گئی اور شیطان کے اغوا سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہو گئی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرنے کا بایں طور اعلان کر دیا: فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ (آیت ۳۷اس کے بعد ذکر ہے کہ جب آدم اور حوا علیہما السلام کو حکم دیا گیا کہ اب زمین میں جا کر رہو اور وہاں کا چارج سنبھالو تو فرمایا : فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾ ’’تو جب بھی میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا‘‘.وہ علمِ ہدایت ہے. 

یہ دو چیزیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں. علمِ اَسماء درحقیقت یوں سمجھئے کہ جیسے آم کی گٹھلی میں آم کا پورا درخت ہوتا ہے . وہی گٹھلی تو ہے جو آپ زمین میں دباتے ہیں. پھر اگر وہاں پانی پڑتا ہے اور زمین میں روئیدگی کی صلاحیت بھی ہے تو وہ گٹھلی پھٹے گی. اس میں سے جو دو پتے نکلیں گے وہ پھلیں پھولیں گے‘ پروان چڑھیں گے تو درخت بنے گا. وہ پورا درخت آم کی گٹھلی میں بالقوۃ 
(potentially) موجود تھا‘البتہ اسے بالفعل (actually) پورا درخت بننے میں تین چار سال لگیں گے.تو جس طرح پورا درخت آم کی گٹھلی میں بالقوہ موجود تھا لیکن وہ آم کا درخت کئی سال کے اندر بالفعل وجود میں آیا‘ بعینہٖ یہ معاملہ کُل مادی حقائق کا ہے کہ اس ضمن میں کُل علم حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں بالقوۃ (potentially) ودیعت کر دیا گیا! اب اس کی exfoliation ہو رہی ہے‘ وہ بڑھتا جا رہا ہے‘ برگ و بار لا رہا ہے. اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ اس علم کا کوئی تعلق آسمانی ہدایت سے نہیں ہے. اب یہ خودرَو پودا ہے جو بڑھتا چلا جا رہا ہے‘ اور معلوم نہیں کہاں تک پہنچے گا. علامہ اقبال نے اس کی صحیح تعبیر کی ہے ؎

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے!

علامہ کی زندگی میں تو انسان نے چاند پر قدم نہیں رکھا تھا‘ لیکن اب انسان چاند پر قدم رکھ کر آ گیا ہے. مزید یہ کہ اب تو جنیٹک انجینئرنگ اپنے کمالات دکھا رہی ہے. کلوننگ کے طریقے سے حیوانات پیدا کیے جا رہے ہیں.اس انسانی علم کے ساتھ اگر علم وحی یعنی علمِ ہدایت نہ ہو تو یہ علم بجائے خیر کے شر کا ذریعہ بن جاتا ہے. چنانچہ آج یہ علم واقعتا شیطانی قوت بن چکا ہے‘ ہلاکت کا سامان بن چکا ہے‘ تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے. 
فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ تک ارتقائی مراحل طے کیے. جیسے جیسے نوعِ انسانی شعور کی منزلیں طے کرتی گئی‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت میں بھی اضافہ ہوتا گیا‘ تاآنکہ یہ علمِ ہدایت قرآن حکیم میں آ کر ’’اَلْہُدٰی‘‘ (Final Guidance) کی صورت میں مکمل ہو گیا. اس ہدایت میں جو ارتقاء ہوا ہے اسے بھی آپ سمجھ لیجئے. پہلی کتابیں جو نازل ہوئیں ان میں بھی ھُدًی تو تھی . سورۃ المائدۃ میں ارشاد ہوا : اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ (آیت ۴۴’’ہم نے تورات نازل کی تھی‘اس میں ہدایت بھی تھی نور بھی تھا‘‘. اسی رکوع میں (سورۃ المائدۃ کا ساتواں رکوع )انجیل کے بارے میں فرمایا: فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ (آیت ۴۶’’اس میں بھی ہدایت بھی تھی نور بھی تھا‘‘.لیکن یہ ہدایت اور نور درجہ بدرجہ ترقی کرتا رہا ہے‘ یہاں تک کہ قرآن میں آ کر یہ کامل ہوا ہے اور اَلْھُدٰی بن گیا ہے. اب یہ ھُدًی نہیں‘ اَلْہُدٰی ہے‘ یعنی ہدایتِ تامہ.

اس کی وجہ کیا ہے؟ دیکھئے ایک بچے کو اگر آپ تعلیم دینا چاہتے ہیں تو اس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھے بغیر نہیں دے سکتے.آپ پرائمری میں زیر تعلیم کسی بچے کے لیے چاہے پی ایچ ڈی استاد رکھ دیں‘ لیکن وہ استاد بچے کی ذہنی استعداد کی مناسبت سے ہی اسے تعلیم دے سکے گا. بچہ رفتہ رفتہ آگے بڑھے گا. یہاں تک کہ جب وہ اپنی عقل اور شعور کی 
پوری شدت ‘ قوت اور بلوغت کو پہنچ جائے گا تب اسے آخری علم پڑھایا جائے گا . پہلے وہ تاریخ پڑھ رہا تھا‘ اب فلسفہ ٔ تاریخ پڑھے گا. اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت تدریج کے ساتھ اتاری ہے. تورات میں صرف احکام ہیں‘ حکمت ہے ہی نہیں‘ جبکہ انجیل میں حکمت ہے‘ احکام ہیں ہی نہیں. دونوں چیزیں مل کر ایک بات کو مکمل کرتی ہیں. تورات میں صرف احکام ہیں. جیسے آپ بچے کو بتا دیتے ہیں کہ بھئی کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘ روزے کا مطلب یہ ہے کہ اب دن بھر کھانا پینا کچھ نہیں ہے. چاہے بچہ ابھی چھ سات سال کا ہے‘ وہ یہ بات سمجھ لیتا ہے. اس طرح اسے احکام تو دے دیے جائیں گے کہ یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ یہ Do's ہیں یہ Donts ہیں .

چنانچہ تورات میں احکامِ عشرہ 
(The Ten Commandments) دے دیے گئے ‘ لیکن ابھی ان کی حکمت نہیں بتائی گئی. اس لیے کہ ابھی حکمت کا تحمل انسان کے لیے ممکن نہیں تھا. ابھی نوعِ انسانی کا عہدِ طفولیت تھا. یوں سمجھئے کہ وہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل کا انسان تھا. تورات چودہ سو قبل مسیح میں حضرت موسٰی علیہ السلام کو دی گئی . اس کے چودہ سو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل دی گئی‘ جس میں صرف حکمت ہے‘ احکام ہیں ہی نہیں. لیکن آج سے دو ہزار سال پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کے یہ الفاظ انجیل میں موجود ہیں (اب بھی موجود ہیں) کہ آپؑ نے اپنے حوارییّن سے فرمایا تھا: ’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی تھیں‘ مگر ابھی تم ان کا تحمل نہیں کر سکو گے‘ جب وہ فارقلیط آئے گا تو تمہیں سب کچھ بتائے گا‘‘. یہ محمدٌ رسول اللہ کی پیشین گوئی تھی. حضرت مسیحؑ نے فرمایا کہ ابھی تم تحمل نہیں کر سکتے. گویا تمہاری ذہنی بلوغت کے لیے چھ سو برس مزید درکار ہیں. چنانچہ الہدیٰ قرآن حکیم میں آ کر مکمل ہوا ہے.

قرآن مجید جو ہدایت دیتا ہے اس کے بھی دو حصے ہیں. ایک فکر و نظر کی ہدایت ہے‘ جس کا عنوان ’’ایمان‘‘ ہے .اس کا موضوع وہی ہے جو فلسفے کا ہے. یعنی کائنات کی حقیقت کیا ہے‘ زندگی کی حقیقت کیا ہے‘ زندگی کا مآل کیا ہے‘ اس کا آغاز کیا ہے‘ انجام کیا ہے‘ صحیح کیا ہے‘ غلط کیا ہے‘ خیر کیا ہے‘ شر کیا ہے‘ علم کیا ہے؟ قرآن مجید کا دوسرا موضوع 
ہدایتِ عملی ہے‘ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی. یہ اوامر و نواہی اور حلال و حرام کے احکام پر مشتمل ہے. پھر اس میں معاشی و معاشرتی احکام بھی ہیں. یہ ہدایتِ فکر و نظر اور ہدایتِ فعل و عمل (انفرادی و اجتماعی) قرآن حکیم کا موضوع ہے. 

اس ضمن میں یہ بات نوٹ کر لیجئے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی قرآن حکیم کا موضوع نہیں ہے‘ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے‘ سائنس کی کتاب نہیں ہے‘ البتہ اس میں سائنسی علوم کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان کے حوالے موجود ہیں. قرآن مجید کائناتی حقائق کو آیاتِ الٰہیہ قرار دیتا ہے. سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۴ ملاحظہ کیجئے‘ جسے میں آیت الآیات قرار دیتا ہوں:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ 
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ‘رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں‘ اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤ ں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں‘ بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے ‘پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے‘ ہواؤ ں کی گردش میں‘ اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں‘ ان لوگوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘.

یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں .ان میں اللہ کی قدرت‘ اللہ کی عظمت‘ اللہ کا علمِ کامل‘ اللہ کی حکمتِ بالغہ سب کچھ شامل ہے. تو یہ جو مظاہر طبیعی 
(Physical phenomena) ہیں‘ قرآن حکیم ان کا جابجا حوالہ دیتا ہے . بعض کائناتی حقائق وہ ہیں جن کا تعلق فلکیات (Astronomy) سے ہے. فرمایا: وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾ یعنی یہ تمام اجرامِ سماویہ اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں. معلوم ہوا ہر شے حرکت میں ہے. انسان پر ایک دور ایسا گزرا ہے جب وہ یہ سمجھتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد حرکت کر رہا ہے. پھر ایک دَور آیا جس میں کہا گیا کہ نہیں‘ سورج ساکن ہے‘ زمین حرکت کرتی ہے‘ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے‘ اور آج ہمیں معلوم ہوا کہ ہر شے حرکت میں ہے. سورج کا بھی اپنا ایک مدار ہے‘ اس میں وہ اپنے پورے کنبے سمیت حرکت کررہا ہے. یہ نظامِ شمسی اس کا کنبہ ہے‘ اس پورے کنبے کو لے کر وہ بھی ایک مدار میں حرکت کر رہا ہے. تو معلوم ہوا کہ الفاظِ قرآنی :وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾ میں ’’کُلٌ‘‘ کا لفظ جس طرح منقح اور مبرہن ہو کر‘ جس شان کے ساتھ آج ہویدا ہوا ہے ‘ آج سے پہلے انسان کو معلوم نہیں تھا. قرآن مجید میں کائناتی مظاہر کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتی. یہ وہ حقیقت ہے جو اِس دَور میں آ کر پوری طرح واضح ہوئی ہے.

ڈاکٹر موریس بوکائی ایک فرانسیسی سرجن تھے. انہوں نے قرآن اور بائبل دونوں کا تقابلی مطالعہ کیا. واضح رہے کہ بائبل سے مراد عہد نامہ قدیم 
(Old Testament) اور عہد نامہ جدید (New Testament) دونوں ہیں. تقابلی مطالعہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ پورے قرآن میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جسے ہمارے سائنسی انکشافات میں سے کسی نے غلط ثابت کیا ہو‘جب کہ تورات میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں کہ سائنس انہیں غلط ثابت کر چکی ہے. اس پر انہوں نے ۲۵۰ صفحات کی کتاب تحریر کی :

’’.The Bible, The Quran and Science‘‘ 

سوال پیدا ہوتا ہے کہ تورات بھی تو اللہ کی کتاب ہے‘ پھر اس میں ایسی چیزیں کیوں آ گئیں جو سائنسی حقائق کے خلاف ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اصل تورات تو چھٹی صدی قبل مسیح ہی میں گم ہو گئی تھی جب بخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی ہوئی تھی . اس کے ڈیڑھ سو برس بعد کچھ لوگوں نے تورات کو یادداشتوں سے مرتب کیا. لہذا اُس وقت انسانی علم کی جو سطح تھی اس کے اعتبارات سے تاویلات تورات میں شامل ہو گئیں‘ کیونکہ انسان تو اپنی ذہنی سطح کے مطابق ہی سوچ سکتا ہے. تورات میں تحریف ہونے کی وجہ سے اِس میں ایسی چیزیں در آئیں جو سائنس کی رو سے غلط ثابت ہوئیں. البتہ قرآن میں ایسی کوئی تاویل نہیں ہوئی اور اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے.یہ بات بڑی اہم ہے .اس کو بڑے خوبصورت انداز میں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے کہا ہے کہ یہ کائنات اللہ کا فعل ہے . اس کی تخلیق اور اس کی تدبیر ہے ‘ جبکہ قرآن اللہ کا قول ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کے قول و عمل میں تضاد ممکن نہیں ہے. کسی انسان کے قول و عمل میں بھی اگر کوئی تضاد ہو تو وہ انسانیت کی سطح سے نیچے اتر جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ کے قول اور عمل میں تضاد کیسے ہو سکتا ہے؟ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دَور میں انسانوں نے بات سمجھی نہ ہو‘ اُن کا ذہن وہاں تک پہنچا نہ ہو‘ ان کی معلومات کا دائرہ ابھی اس حد تک ہو کہ ان حقائق تک نہ پہنچا جا سکے. لیکن جیسے جیسے وقت آئے گا مزید حقائق منکشف ہوں گے اور یہ بات زیادہ سے زیادہ واضح سے واضح تر ہوتی چلی جائے گی کہ جو کچھ قرآن نے فرمایا ہے وہی برحق ہے. ہاں آج سے پہلے انسانی ذہن اِس حد تک رسائی حاصل کرنے کا اہل نہیں تھا. سورۃحٰم السجدۃ کی آخری سے پہلی آیت ذہن میں رکھیے: 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ 
’’ہم انہیں دکھاتے چلے جائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور خود اُن کی جانوں میں بھی ‘یہاں تک کہ یہ بات پوری طرح نکھر کر اُن کے سامنے واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن ہی حق ہے‘‘.

ڈاکٹر کیتھ ایل مُور کینیڈا کے بہت بڑے ایمبریالوجسٹ ہیں. ان کی کتاب علمِ جنین 
(Embriology) میں سند مانی جاتی ہے اور یونیورسٹی کی سطح پر بطور ٹیکسٹ بک پڑھائی جاتی ہے. انہوں نے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے کے بعد انتہائی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آج سے چودہ سو برس قبل جبکہ نہ مائیکرو سکوپ موجود تھی اور نہ ہی dissection ہوتا تھا قرآن نے علمِ جنین کے متعلق جو معلومات دی ہیں وہ صحیح ترین حقائق پر مشتمل ہیں. ڈاکٹر موصوف سورۃ المؤمنون کی آیات ۱۲تا۱۴ کا مطالعہ کرتے ہوئے انگشت بدنداں ہیں:

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ
’’ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا‘ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا‘ پھر اُس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی‘ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا‘ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں‘ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا‘ پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا‘‘.

ان کا کہنا ہے کہ واقعہ یہ ہے کہ انسانی تخلیق کے مراحل کی اس سے زیادہ صحیح تعبیر ممکن نہیں ہے .تو یہ حقیقت ذہن میں رکھیے کہ اگرچہ قرآن مجید سائنس کی کتاب نہیں ہے‘ لیکن جن سائنسی حقائق یا سائنسی مظاہر 
(phenomena) کا قرآن نے حوالہ دیا ہے وہ یقینا حق ہیں‘چاہے تاحال ہم ان کی حقانیت کو نہ سمجھ پائے ہوں. مثلاً آج بھی مجھے نہیں معلوم کہ قرآن جو ’’سات آسمان‘‘ کہتا ہے تو اِن سے کیا مراد ہے. لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب انسان سمجھے گا کہ ’’سات آسمان‘‘ کے یہ الفاظ ٹھیک ٹھیک اس حقیقت پر منطبق ہوتے ہیں جو آج ہمارے علم میں آئی ہے‘ پہلے نہیں آئی تھی. البتہ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں‘ عملی اعتبار سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ قرآن سائنس یا ٹیکنالوجی کی کتاب نہیں ہے اور اس حوالے سے ایک بڑا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر ہمارے اسلاف نے اپنے دَور کی معلومات کی سطح پر قرآن کی ان آیات کا کوئی خاص مفہوم معین کیا تو ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں. ہم قرآن میں بیان کردہ سائنسی مظاہر کو اس سائنسی ترقی کے حوالے سے سمجھیں گے جو روزبروز ہو رہی ہے.یہاں تک کہ آخری بات عرض کر رہا ہوں کہ اس معاملے میں خود محمد رسول اللہ سے بھی اگر کوئی بات منقول ہو تو وہ بھی قطعی نہیں سمجھی جائے گی ‘ کیونکہ حضور یہ چیزیں سکھانے کے لیے نہیں آئے تھے. یہ بات اگرچہ بہت سے لوگوں پر ثقیل اور گراں گزرے گی لیکن صحیح طرز عمل یہی ہو گا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ضمن میں اگر حضور کی کوئی حدیث بھی سامنے آجائے تو اس کو بھی ہم دلیلِ قطعی نہیں سمجھیں گے. 

اس سلسلے میں تأبیر نخل کا واقعہ بہت اہم ہے. آپ کو معلوم ہے کہ حضور کی پیدائش مکہ کی ہے‘ ہجرت تک ساری زندگی آپ نے وہاں گزاری‘ وہ وادی ٔ غیر ذی زرع ہے‘ جہاں کوئی پیداوار‘ کوئی زراعت‘ کوئی کاشت ہوتی ہی نہیں تھی‘ لہذا آپؐ کو اس کا کوئی تجربہ سرے سے تھا ہی نہیں. ہاں تجارت کا بھرپور تجربہ تھا اور اس کے تمام اَسرار و رموز سے آپؐ واقف تھے. آپؐ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ کھجوروں کے سلسلہ میں انصارِ مدینہ ’’تأبیر نخل ‘‘ کا معاملہ کرتے تھے.کھجور ایک ایسا پودا ہے جس کے نر اور مادہ پھول علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں. اگر اس کے نر اور مادہ پھولوں کو قریب لے آئیں تو اس کے بارآور ہونے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے. اہل مدینہ کو یہ بات تجربے سے معلوم ہوئی تھی اور وہ اس پر عمل پیرا تھے. مدینہ تشریف آوری پر رسول اللہ نے جب اہل مدینہ کا یہ معمول دیکھا تو اُن سے فرمایا کہ اگر آپ لوگ ایسا نہ کریں تو کیا ہے؟ ایسا نہ کرنا شاید تمہارے حق میں بہتر ہو. یہ بات آپ نے اپنے اجتہاد اور فہم کے مطابق اس بنیاد پر فرمائی کہ فطرت اپنی دیکھ بھال خود کرتی ہے. اللہ تعالیٰ نے فطرت کا نظام انسانوں پر نہیں چھوڑا‘ بلکہ یہ تو خود کار نظام ہے. چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ اس قدرتی نظام میں دخل نہ دیں تو کیا ہے ؟ البتہ آپؐنے روکا نہیں. لیکن ظاہر بات ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لیے حضور کا اتنا کہنا بھی گویا حکم کے درجہ میں تھا.انہوں نے اس سال وہ کام نہیں کیا ‘لیکن فصل کم ہو گئی. اب وہ ڈرتے ڈرتے‘ جھجکتے جھجکتے حضور کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ حضور ! ہم نے اس مرتبہ تأبیر نخل نہیں کی تو فصل کم ہوئی ہے. اس پر آپ نے فرمایا : 
اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ اس حدیث کا ایک ایک لفظ یاد کر لیجئے . آپ نے فرمایا کہ یہ جو تمہارے اپنے دُنیوی اور مادی معاملات ہیں جن کی بنیاد تجربہ پر ہے‘ یہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو. تم زیادہ تجربہ کار ہو‘ تم ان حقائق سے زیادہ واقف ہو. ایک دوسری روایت میں رسول اللہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ ‘ اِذَا اَمَرْتُــکُمْ بِشَیْءٍ مِّنْ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ ‘ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ رَأْیِیْ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ ’’میں تو ایک بشر ہوں. جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کوئی حکم دوں تو اس سے سرتابی نہ کرنا‘ لیکن جب میں تمہیں اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو جان لو کہ میں ایک بشر ہی ہوں‘‘. (یہ دونوں حدیثیں صحیح مسلم کی ہیں. ) (کتاب الفضائل‘باب وجوب امتثال ما قالہ  شرعاً دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علٰی سبیل الرأ ی) گویا آپ نے واضح فرما دیا کہ میں یہ چیزیں سکھانے نہیں آیا ‘میں جو کچھ سکھانے آیا ہوں وہ مجھ سے لو! 

اس اعتبار سے یہ حدیث بنیادی اہمیت رکھتی ہے. ظاہر ہے آپؐ ٹیکنالوجی سکھانے نہیں آئے تھے. آپؐ طب و جراحت سکھانے نہیں آئے تھے‘ آپؐ کوئی اور سائنس پڑھانے نہیں آئے تھے. ورنہ تو ہم شکوہ کرتے کہ آپؐ نے ہمیں ایٹم بم بنانا کیوں نہیں سکھا دیا؟ جب رسول اللہ نے یہ فرمادیا کہ
اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ تو ہمارے لیے یہ بات آخری درجے میں سند ہے کہ جیسے جیسے سائنسی انکشافات ہو رہے ہیں‘ جیسے جیسے علم انسانی کی exploration ہو رہی ہے ‘ویسے ویسے حقائق فطرت ہماری نگاہوں کے سامنے منکشف ہو رہے ہیں. جیسے آم کی گٹھلی سے آم کا پورا درخت وجود میں آتا ہے ایسے ہی حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں علم بالحواس اور علم بالعقل کا جو mechanism رکھ دیا گیاتھا ‘یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ علم پھیل رہا ہے. اس سے جو بھی چیزیں ہمارے سامنے آئیں ان میں کہیں رکاوٹ نہیں ہے کہ ہم سلف کی بات کو لے کر بیٹھ جائیں کہ سائنس خواہ کچھ بھی کہے ہم تو اسلاف کی بات مانیں گے. یہاں پر اس طرز عمل کے لیے کوئی دلیل اور بنیاد نہیں. 

قرآن کا اصل موضوع ایمان ہے. ماوراء الطبیعیاتی حقائق عالم غیب سے متعلق ہیں‘ جو ہمارے عالمِ محسوسات سے ماوراء ہیں‘ جس کی خبریں ہمیں صرف وحی سے مل سکتی ہیں. علم حقیقت جسے ہم اجمالی طور پر ایمان کہتے ہیں یہ قرآن کا اصل موضوع ہے‘ یعنی ہدایتِ فکری و عملی. تمدنی میدان میں‘ معاشی واقتصادی اور معاشرتی میدان میں یہ 
کرو اور یہ نہ کرو. یہ چیزیں کھانے پینے کی ہیں‘ یہ چیزیں کھانے پینے کی نہیں ہیں. یہ حرام ہیں‘ یہ نجس ہیں. یہ علم حضور نے دیا ہے اور قرآن کا موضوع اصل میں یہی ہے. البتہ قرآن میں جو سائنسی ریفرنسز آئے ہیں‘ وہ غلط نہیں ہیں‘ وہ لازماً درست ہیں.

انسانی علم کے تین دائرے ہیں. ایک علم بالحواس ہے‘ یہ انسانی علم کا پہلا دائرہ ہے. حواس کے ذریعے ہمیں معلومات حاصل ہوتی ہیں‘ جنہیں آج کل ہم 
sense data کہتے ہیں. آنکھ نے دیکھا‘ کان نے سنا‘ ہاتھ نے اس کی پیمائش کی. اس کے بعد دوسرا دائرہ علم بالعقل ہے. عقل sense data کوپراسیس کرتی ہے. اس ضمن میں استدلال اور استنباط کے اصول معین کیے گئے ہیں. انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے‘پھر عقل ان معلومات کو process کرتی ہے تو انسان کسی نتیجے پر پہنچتا ہے. یوں عقل حواس کی محتاج ہوئی‘ لیکن عقل و حواس کے ماورا بھی ایک علم ہے جسے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے علم بالقلب کا نام دیا ہے. آج اسے extra sensory perceptions کہا جا رہا ہے.یہ علم کا تیسرا دائرہ ہے. اس سے پہلے ادب میں اس کے لیے وجدان (intuition) کا لفظ تھا. یہ علم بالقلب درحقیقت وہ خاص انسانی علم ہے جس سے آج کے مادہ پرست واقف نہیں ہیں. وحی کا تعلق اسی تیسرے دائرے سے ہے. اس لیے کہ وحی کا نزول قلب پر ہوتا ہے. ازروئے الفاظ قرآنی نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙعَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ ﴿۱۹۴﴾ 
(الشعراء)
عقل اور حواس سے حاصل ہونے والے علوم میں تمام فزیکل سائنسز ‘ میڈیکل سائنسز اور ٹیکنالوجی کے مضامین شامل ہیں. انسان نے مختلف چیزوں کے خواص معلوم کیے‘ کچھ طبعی اور کیمیائی تبدیلیوں کے اصول دریافت کیے. پھر ان اصولوں سے جو معلومات حاصل ہوئیں ان کو استعمال کیا. اس سے انسان کی ٹیکنالوجی ترقی کرتی جا رہی ہے اور ابھی نامعلوم کہاں تک پہنچے گی. یہ ایک علم ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا کے الفاظ میں کر دیا گیا. البتہ انسان صرف اس علم پر قانع نہیں رہا‘ اس لیے کہ اس سے تو صرف جزوی علم حاصل ہوتا ہے‘ انسان ایک ایک جزو ‘ قدم بقدم سیکھتا ہے. انسان کی ایک طلب (urge) ہے کہ وہ ماہیت معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ میری حقیقت کیا ہے؟ علم کی حقیقت‘ خیر و شر کی حقیقت کیا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ آج سے ایک ہزار سال قبل کے انسان کی معلومات (علم بالحواس اور علم بالعقل کے اعتبار سے) بڑی محدود تھیں‘ لیکن اُس وقت کے انسان کو بھی اس چیز کی ضرورت تھی کہ وہ کوئی رائے قائم کرے کہ یہ کائنات جس کا میں ایک فرد ہوں‘ اس کی حقیقت کیا ہے‘ خود میری حقیقت کیا ہے؟ میری زندگی کا آغاز کیا ہے؟ میرا اس کے ساتھ ربط و تعلق کیا ہے؟ اس سفر کی منزل کیا ہے؟ میں اپنی زندگی میں کیا کروں‘ کیا نہ کروں؟ کیا کرنا صحیح ہے کیا کرنا غلط ہے ؟ یہ انسان کی ضرورت ہے. لہذا اس ضرورت کے تحت جب انسان نے سوچنا شروع کیا تو فلسفہ کا آغاز ہوا جو گتھیوں کو سلجھانا چاہتا ہے. ان گتھیوں کو سلجھانے کے لیے پھر انسان نے عقل کے گھوڑے دوڑائے‘ اپنی منطق کو استعمال کیا. فلسفہ‘ مابعد الطبیعیات‘ الٰہیات‘ اخلاقیات اور نفسیات‘ یہ تمام علوم انسانی علوم میں سے ہیں. گویا کہ علم بالحواس اور علم بالعقل کے نتیجے میں یہ دو علم وجود میں آئے. ایک فزیکل سائنسز کا علم جس کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے‘ دوسرا سوشل سائنسز کا علم جس میں فلاسفی‘ سوشیالوجی‘ نفسیات‘ اخلاقیات‘ اقتصادیات اور سیاسیات وغیرہ شامل ہیں.

جان لیجئے کہ 
ھُديً جس کی تکمیلی شکل ’’الہُدٰی‘‘ قرآن مجید ہے ‘اس کا موضوع انسانی علم کا دائرۂ اوّل نہیں ہے. یہ سائنس کی کتاب نہیں ہے اور نہ ہی سائنس پڑھانے یا ٹیکنالوجی سکھانے آئی ہے. انبیاء اس لیے نہیں بھیجے گئے. اگرچہ قرآن حکیم میں سائنسی مظاہر کی طرف حوالے موجود ہیں اوروہ لازماً درست ہیں‘ لیکن وہ قرآن کا اصل موضوع نہیں ہے. جیسے جیسے انسان کے سائنسی علم میں تدریجاً ترقی ہو رہی ہے اسی طرح ان ریفرنسز کو سمجھنا بھی انسان کے لیے ممکن ہو رہا ہے. البتہ قرآن کا اصل موضوع مابعدالطبیعیات ہے. پھر فکر و عمل دونوں کے لیے راہنمائی درکار ہے‘ جیسے کہ کسی راستے پرچلنے والے کو ’’روڈ سائنز‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے کہ اِدھر نہ جانا‘ اِدھر خطرہ ہے‘ ہلاکت ہے. اسی طرح انسان کو سفر حیات میں ان cautions کی ضرورت ہے کہ ادھر خطرہ ہے‘ یہ تمہارے لیے ممنوع ہے‘ یہ حرام ہے‘ یہ نقصان دہ ہے‘ اس میں ہلاکت ہے‘ چاہے تمہیں ہلاکت نظرنہیں آ رہی لیکن تم ادھرجاؤ گے تو تمہارے لیے ہلاکت ہے. درحقیقت یہ قرآن کا اصل موضوع ہے.