فہم قرآن کے سلسلہ میں درج ذیل عنوانات کی تفہیم ضروری ہے.

۱) قرآن کریم کا اسلوب ِاستدلال

قرآن کے طالب علم کو جاننا چاہیے کہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں‘ فطری ہے. انسان جس فلسفے سے واقف ہے اس کی بنیاد منطق ہے. چنانچہ ہمارے فلاسفہ اور متکلمین استخراجی منطق (Deductive Logic) سے اعتناء کرتے رہے ہیں‘ جبکہ قرآن مجید نے اسے سرے سے اختیار نہیں کیا. وقتی تقاضے کے تحت ہمارے متکلمین نے اسے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ پایا. ایمانی حقائق کو جب استخراجی منطق کے ذریعے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو یقین کم اور شک زیادہ پیدا ہوا. اس ضمن میں کانٹ کی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے ‘ لہذا علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے. کانٹ نے حتمی طور پر ثابت کر دیا کہ کسی منطقی دلیل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا. منطق میں اللہ کی ہستی کے اثبات کے لیے ایک دلیل لائیں گے تو منطق کی دوسری دلیل اسے کاٹ دے گی. جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح منطق‘ منطق کو کاٹ دے گی. قرآن نے اگرچہ کہیں کہیں منطق کو استعمال توکیا ہے لیکن وہ بھی منطقی اصطلاحات میں نہیں. قرآن مجید کا اسلوبِ استدلال فطری ہے اور اس کا انداز خطابی ہے. جیسے ایک خطیب جب خطبہ دیتا ہے تو جہاں وہ عقلی دلائل دیتا ہے وہاں جذبات سے بھی اپیل کرتا ہے. اس سے اس کے خطبے میں گہرائی و گیرائی پیداہوتی ہے.ایک لیکچر میں زیادہ تر دارومدار منطق پر ہوتا ہے. یعنی ایسی دلیل جو عقل کو قائل کر سکے . لیکن شعلہ بیان خطیب انسان کے جذبات کو اپیل کرتاہے. اس کو خطابی دلیل کہا جاتا ہے. یہی خطابی انداز اور استدلال قرآن نے استعمال کیا ہے.

انسان کی فطرت میں کچھ حقائق موجود ہیں. قرآن کے پیش نظر اِن حقائق کو ابھارنا مقصود ہے. یعنی انسان کوآمادہ کیا جائے کہ ؏ 
’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی!‘‘

عقل اور منطق کا دائرہ توبڑا محدود ہے.انسان اپنے اندر جھانکے تو اس کے اندر صرف عقل ہی نہیں ہے‘ کچھ اور بھی ہے. بقول علامہ اقبال ؎ 

ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل! تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے! 

یہ جو اِس کے اندر ’’کوئی اور ‘‘شے بھی ہے‘ اسے اپیل کرنا ضروری ہے تاکہ انسان فطرت کی بنیاد پر اپنے اندر جھانکے اور محسوس کرے کہ ہاں یہ ہے! تاہم اس کے لیے کوئی منطقی دلیل بھی پیش کر دی جائے. تو یہ نورٌ علیٰ نورٍ ہو گا. یہ ہے درحقیقت قرآن کا فطری طرزِ استدلال. بعض مقامات پر ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے قرآن اپنے مخاطب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہہ رہا ہے اور اسے توجہ دلا رہا ہے کہ ذرا غور کرو‘ سوچو‘ اپنے اندر جھانکو. جیسے سورۃ ابراہیم کی آیت ۱۰ میں فرمایا گیا : اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ’’کیا اللہ کی ہستی میں کوئی شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟‘‘ یہاں کوئی منطقی دلیل نہیں ہے‘ لیکن مخاطب کو دروں بینی پر آمادہ کیا جا رہا ہے کہ اپنے اندر جھانکو ‘ تمہیں اپنے اندر ثبوت ملے گا ‘تمہیں اپنے اندر اللہ کی ہستی کی شہادت ملے گی. سورۃ الانعام کی آیت ۱۹ میں ارشاد ہوا : اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؕ ’’کیا تم واقعی اس بات کی گواہی دے رہے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ بھی ہے؟‘‘ یعنی تم یہ بات کہہ تو رہے ہو ‘لیکن ذراسوچو تو سہی کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تمہاری فطرت اسے تسلیم کرتی ہے؟ اپنے باطن میں جھانکو‘ کیا تمہارا دل اس کی گواہی دیتا ہے؟ حالانکہ ظاہر ہے کہ وہ تو اِس کے مدعی تھے اور اپنے معبودانِ باطل کے لیے کٹ مرنے کو تیار تھے. اس خطابی دلیل کے پس منظر میں یہ حقیقت موجود ہے کہ تم جانتے ہو کہ یہ محض ایک عقیدہ (dogma) ہے جو چلا آ رہا ہے‘ تمہارے باپ دادا کی روایت ہے‘ اس کی حیثیت تمہارے نسلی اعتقادات (racial creed) کی ہے. قرآن مجید درحقیقت انسان کی فطرت کے اندر جو شے مضمر ہے اسی کو ابھار کر باہر لانا چاہتا ہے. چنانچہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں ہے‘ بلکہ فطری ہے. اس کو خطابی انداز کہا جائے گا.

۲) قرآن حکیم میں محکم اور متشابہ کی تقسیم

سورۃ آل عمران کی آیت ۷ ملاحظہ کیجیے! ارشاد ہوا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ ’’وہی ہے (اللہ) جس نے (اے محمد ) آپ پر کتاب نازل کی ‘اس میں سے کچھ آیاتِ محکمات ہیں‘ وہی کتاب کی جڑ بنیاد ہیں اور دوسری متشابہ ہیں ‘‘. اس آیت میں لفظ کتاب دو دفعہ آیا ہے‘ دونوں کے مفہوم میں باریک سا فرق ہے. متشابہ ان معانی میں کہ ان کے اصل مفہوم کو سمجھنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے‘ وہ آیاتِ متشابہات ہیں. آگے فرمایا: فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ ’’تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں(ان ہی پر غور و فکر اور ان ہی میں کھوج کرید میں لگے رہتے ہیں) اُن کی نیت ہی فتنہ اٹھانے کی ہے‘ اور وہ بھی ہیں جو اُس کا اصل مفہوم جاننا چاہتے ہیں‘‘. وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘ ’’حالانکہ اس کے حقیقی معانی و مراد اللہ ہی جانتا ہے‘‘. وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ ’’البتہ جولوگ علم میں پختگی کے حامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اس پوری کتاب پر (محکمات پر بھی اور متشابہات پر بھی) ‘یہ سب ہمارے ربّ کی طرف سے ہے‘‘. وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾ ’’لیکن نصیحت نہیں حاصل کرتے مگر وہی جو ہوش مند ہیں‘‘. اللہ تعالیٰ ہمیں ان عقلمندوں اور ہوش مندوں میں شامل کرے‘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ میں ہمارا شمار ہو!

محکم اور متشابہ سے مراد کیا ہے؟ جان لیجیے کہ ’’محکم قطعی‘‘ یعنی وہ محکم جن کے قطعی ہونے میں نہ پہلے کوئی شبہ ہو سکتا تھا نہ اَب ہے ‘ نہ آئندہ ہو گا‘ وہ تو قرآن حکیم کے اوامر و نواہی ہیں. یعنی یہ کرو ‘یہ نہ کرو‘ یہ حلال ہے ‘یہ حرام ہے ‘ یہ جائز ہے‘یہ ناجائز ہے‘ یہ پسندیدہ ہے‘ یہ ناپسندیدہ ہے‘ یہ اللہ کو پسند ہے اور یہ اللہ کو ناپسند ہے!

قرآن حکیم کا عملی حصہ درحقیقت محکمات ہی پر مشتمل ہے. یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں کتاب کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے. پہلے بحیثیت مجموعی پورے قرآن کے لیے فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ قرآن مجیدکا جو حصہ عملی ہدایات پر مشتمل ہے اس کے لیے بھی لفظ ’’کتاب‘‘ مخصوص ہے. چنانچہ دوسری مرتبہ جو لفظ کتاب آیا ہے ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وہ اسی مفہوم میں ہے. جہاں کوئی شے واجب کی جاتی ہے وہاں ’’کُتِبَ‘‘ کا لفظ آتا ہے. جیسے کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ ... کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ... کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ نماز کے بارے میں فرمایا: اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾ یہاں کتاب سے مراد وہ حکم ہے جو دیا گیا ہے‘ تو اِن معانی میں ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ سے مراد قانون‘ شریعت‘ عملی ہدایات‘ اوامر و نواہی ہیں اور اصل میں وہی محکمات ہیں.

دائمی متشابہات عالَمِ غیب اور اس کے ضمن میں عالمِ برزخ ‘ عالمِ آخرت‘ عالمِ ارواح ‘ ملائکہ کا عالَم اور عالمِ امثال وغیرہ ہیں. یہ درحقیقت وہ دائرہ ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے اور اس کی حقیقتوں کو کماحقہ ٗ اس زندگی میں سمجھنا محال اور ناممکن ہے. لیکن ان کاایک علم دیا جانا ضروری تھا. مابعد الطبیعیات ایمانیات کے لیے ضروری ہے کہ اس سب کا ایک اجمالی خاکہ سامنے ہو. ہر انسان نے مرنا ہے‘ مرنے کے فوراً بعد عالمِ برزخ میں یہ کچھ ہونا ہے‘ بعث بعد الموت ہے‘حشر نشر ہے‘ حساب کتاب ہے‘ جنت و دوزخ ہے. ان حقیقتوں کا اجمالی علم موجود نہ ہو تو بنیادی ضرورت کے طور پر انسان کو جو فلسفہ درکار ہے وہ اس کو فراہم نہیں ہو گا.لیکن اِن کی حقیقتوں تک رسائی اس زندگی میں رہتے ہوئے ہمارے لیے ممکن نہیں‘ لہذا ان کا جو علم دیا گیا ہے وہ آیاتِ متشابہات ہیں‘ اور وہ دائماً متشابہات ہی رہیں گی. ہاں جب اُس عالم میں آنکھ کھلے گی تو اصل حقیقت معلوم ہو گی‘ یہاں معلوم نہیں ہو سکتی. البتہ متشابہات کا ایک دوسرا دائرہ ہے جو تدریجاً متشابہات سے محکمات کی طرف آرہا ہے. وہ دائرہ مظاہر طبیعی (physical phenomena) سے متعلق ہے. آج سے ہزار سال پہلے اس کا دائرہ بہت وسیع تھا‘ آج یہ کچھ محدود ہوا ہے‘ لیکن اب بھی بہت سے حقائق ہم نہیں جانتے. سات آسمانوں کی حقیقت آج تک ہمیں معلوم نہیں ہے. ہو سکتا ہے کچھ آگے چل کر ہمارا میٹیریل سائنسز کا علم اس حد تک پہنچ جائے کہ معلوم ہو کہ یہ ہے وہ بات جو قرآن نے سات آسمانوں سے متعلق کہی تھی ‘لیکن اِس وقت یہ ہمارے لیے متشابہات میں سے ہے.اسی طرح ایک آیت کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾ (یٰسٓ) (ہر شے اپنے مدار میں تیر رہی ہے) اس کو پہلے انسان نہیں سمجھ سکتا تھا‘ لیکن آج یہ حقیقت محکم ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ ؏ 

’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں!‘‘

اگر آپ نظامِ شمسی کو دیکھیں تو ہر چیز حرکت میں ہے. کہکشاں کو دیکھیں تو ہر شے حرکت میں ہے. کہکشائیں ایک دوسرے سے دُوربھاگ رہی ہیں‘ فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے. ایک ذرے (atom) کا مشاہدہ کریں تو اس میں الیکٹرون اور پروٹون حرکت میں ہیں. گویا ہر شے حرکت میں ہے.آج سے کچھ عرصہ قبل یہ بات متشابہات میں تھی‘ آج وہ محکمات کے دائرے میں آ گئی ہے. چنانچہ بہت سے وہ سائنسی حقائق جو ابھی تک انسان کو معلوم نہیں ہیں اور ان کے حوالے قرآن میں ہیں ‘ وہ آج کے اعتبار سے تو متشابہات میں شمار ہوں گے لیکن انسان کا فزیکل سائنسز کا علم آگے بڑھے گا تو وہ تدریجاً متشابہات کے دائرے سے نکل کر محکمات کے دائرے میں آ جائیں گے.

۳) تفسیر اور تاویل کا فرق

تفسیر اور تاویل دونوں لفظ قرآن مجید میں آئے ہیں. سورۃ آل عمران کی متذکرہ بالا آیت میں ارشاد ہوا : وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ’’اس کی تاویل کو ئی نہیں جانتا مگراللہ‘‘. تفسیر کا لفظ قرآن مجید میں سورۃ الفرقان میں آیا ہے: وَ لَا یَاۡتُوۡنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئۡنٰکَ بِالۡحَقِّ وَ اَحۡسَنَ تَفۡسِیۡرًا ﴿ؕ۳۳﴾ ’’اور نہیں لاتے وہ آپ کے سامنے کوئی نرالی بات مگر ہم پہنچا دیتے ہیں (اس کے جواب میں) آپ کو ٹھیک بات اور بہترین طریقے سے بات کھول دیتے ہیں‘‘. یہ لفظ قرآن میں ایک ہی مرتبہ آیا ہے ‘جبکہ تاویل کا لفظ سترہ (۱۷) بار آیا ہے. اس کے کچھ اور مفاہیم بھی ہیں اور قرآن کے علاوہ کچھ اور چیزوں پر بھی اس کا اطلاق ہوا ہے. تفسیر اور تاویل میں فرق کیا ہے ؟ تفسیر کا مادہ ’’ ف‘ س‘ ر‘‘ ہے. یہ گویا’’سفر‘‘ کی منقلب شکل ہے. سفر بمعنی Journey بھی ہے اور اس کا مطلب روشنی بھی ہے‘ کتاب بھی ہے. حروف ذرا آگے پیچھے ہو گئے ہیں‘ لفظ ایک ہی ہے . تفسیر کا معنی ہے کسی شے کا کھولنا‘ واضح کر دینا‘ کسی شے کو روشن کر دینا ‘لیکن یہ زیادہ تر مفردات اور الفاظ سے متعلق ہوتی ہے‘ جبکہ تاویل بحیثیت مجموعی کلام کا اصل مدلول ہوتی ہے کہ اس سے مراد کیا ہے‘ اس سے اصل مقصود کیا ہے‘ اس کی اصل حقیقت کیا ہے. لہذا زیادہ تر یہی لفظ قرآن کے لیے مستعمل ہے. اگرچہ ہمارے ہاں اردو دان لوگ زیادہ تر لفظ تفسیر استعمال کرتے ہیں کہ فلاں آیت کی تفسیر‘ فلاں لفظ کی تفسیر‘ لیکن اس کے لیے قرآن کی اصل اصطلاح تاویل ہی ہے اور حدیث میں بھی یہی لفظ آیا ہے. حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے لیے حضور کی دعا منقول ہے : اَللّٰھُمَّ فَقِّھہُّ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ یعنی اے اللہ !اس نوجوان کو دین کا فہم اور تفقہ عطا فرما اور تاویل کا علم عطا فرما!چنانچہ کلام کی اصل حقیقت ‘ اصل مراد‘ اصل مطلوب‘ اصل مدلول کو پالینا تاکہ انسان اصل مقصود تک پہنچ جائے‘ اسے تاویل کہتے ہیں. ؏ 

’’جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!‘‘

ا‘ و‘ ل کا مادہ عربی زبان میں کسی شے کی طرف لوٹنے کے مفہوم میں آتا ہے. اسی لیے لوگ کہتے ہیں ہم فلاں کی آل ہیں ‘یعنی وہ کسی بڑی شخصیت کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں. ’’ آلِ فرعون‘‘ کا مطلب فرعون کی اولاد نہیں ہے ‘بلکہ ’’فرعون والے ‘ فرعونی‘‘ ہے. وہ فرعون ہی کی اطاعت کرتے تھے اور اسی کو اپنا معبود یعنی حاکم اور پیشوا سمجھتے تھے. اسی معنی میں کسی عبارت کو اُس کے اصل مفہوم کی طرف لوٹانا تاویل ہے. تفسیر اور تاویل کے مابین اس فرق کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے.

۴)تاویلِ عام او ر تاویلِ خاص

قرآن حکیم کی کسی ایک آیت یا چند آیات کے مجموعے یا کسی خاص مضمون جو چند آیات میں مکمل ہو رہا ہے‘ پر غور کرنے میں دو مرحلے ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں: ایک تاویل خاص‘ دوسرے تاویل عام. اس سلسلہ میں یاد رہے کہ قرآن حکیم زمان و مکان کے ایک خاص تناظر میں نازل ہوا ہے. اس کا زمانۂ نزول ۶۱۰ء سے ۶۳۲ء کے عرصے پر محیط ہے اور اس کے نزول کی جگہ سرزمین حجاز ہے. اس کا ایک خاص پس منظر ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر اُس وقت اور اُس علاقے کے لوگوں کے عقائد و نظریات اور ان کی ذہنی سطح کو ملحوظ نہ رکھا جاتا تو ان تک ابلاغ ممکن ہی نہیں تھا. وہ تو اُمّی تھے‘ پڑھے لکھے نہ تھے. اگر انہیں فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا جاتا‘ سائنسی علوم کے بارے میں بتایا جاتا تو یہ باتیں اُن کے سروں کے اوپر سے گزر جاتیں. قرآنی آیات تو ان کے دل و دماغ میں پیوست ہو گئیں‘ کیونکہ براہِ راست ابلاغ تھا‘ کوئی barrier موجود نہیں تھا. تو قرآن حکیم کا یہ شانِ نزول ذہن میں رکھیے. ویسے تو ’’شانِ نزول‘‘ کی اصطلاح کسی خاص آیت کے لیے استعمال ہوتی ہے‘ لیکن ایک خاص time and space complex میں قرآن حکیم کا ایک مجموعی شانِ نزول ہے جس میں یہ نازل ہوا. وہاں کے حالات ‘اس عرصے کے واقعات‘ ان حالات میں تدریجاً جو تبدیلی ہوئی‘ پھر کون لوگ اس کے مخاطب تھے‘ مکّے والوں کے عقائد‘ ان کی رسمیں ریتیں‘ ان کے نظریات ‘ان کے مسلّمات‘ ان کی دلچسپیاں… جب قرآن کو اس سیاق و سباق (context) میں رکھ کر غور کریں گے تو یہ تاویل خاص ہو گی. اسی میں آپ مزید تفصیل میں جائیں گے کہ فلاں آیت کا واقعاتی پس منظر کیا ہے. یعنی قرآن مجید کی کسی آیت یا چند آیات پر غور کرتے ہوئے اوّلاً اس کو اس کے context میں رکھ کر غور کرنا کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں اس وقت لوگوں نے ان کا مفہوم کیا سمجھا‘ یہ تاویل خاص ہو گی . البتہ قرآن مجید چونکہ نوعِ انسانی کی ابدی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے‘ صرف خاص علاقے اور خاص زمانے کے لوگوں کے لیے تو نازل نہیں ہوا‘ لہذا اس میں ابدی ہدایت ہے ‘اس اعتبار سے تاویل عام کرنا ہو گی.

تاویل عام کے اعتبار سے الفاظ پر غور کریں گے کہ الفاظ کیا استعمال ہوئے ہیں. یہ الفاظ جب ترکیبوں کی شکل اختیار کرتے ہیں تو کیا ترکیبیں بنتی ہیں. پھر آیات کا باہمی ربط کیا ہے‘ سیاق و سباق کیا ہے؟ یہ آیات جس سورۃ میں آئیں اس کا عمود کیا ہے‘ اس سورۃ کا جوڑا کون سا ہے‘یہ سورۃ کس سلسلۂ سُوَر کا حصہ ہے. پھر وہ سورتیں مکّی اور مدنی کون سے گروپ میں شامل ہیں‘ ان کا مرکزی مضمون کیا ہے؟ اس پس منظر میں ایک سیاق و سباق متن (text) کا ہو گا‘ جس سے ہمیں تاویلِ عام معلوم ہو گی اور ایک سیاق و سباق واقعات کا ہو گا‘ جس سے ہمیں ان آیات کی تاویلِ خاص معلوم ہو گی.

اگر ہم قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے آیات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جس ترتیب سے اِس وقت قرآن مجید موجود ہے اصل حجت یہی ہے‘ یہی اصل ترتیب ہے‘ یہی لوحِ محفوظ کی ترتیب ہے. تاویل عام کے اعتبا ر سے ایک اصولی بات یاد رکھیں: الاعتبار لعموم اللفظ لا لخصوص السبب.یعنی اصل اعتبار الفاظ کے عموم کا ہو گانہ کہ خاص شانِ نزول کا . دیکھا جائے گا کہ جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مفہوم و معنی‘ نیز مدلول کیا ہے.کلامِ عرب سے دلائل لائے جائیں گے کہ وہ انہیں کن معانی میں استعمال کرتے تھے .اُس لفظ کے عموم کا اعتبار ہو گا نہ کہ اُس کے شانِ نزول کا.لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اسے بالکل نظرانداز کر دیا جائے. سب سے مناسب بات یہی ہو گی کہ پہلے اس کی تاویل خاص پر غور کریں اور پھر اس کے ابدی سرچشمہ ٔ ہدایت ہونے کے ناطے اس کے عموم پر غور کریں. اس اعتبار سے تاویل خاص اور تاویل عام کے فرق کو ذہن میں رکھیں.

۵)تذکر و تدبر

تذکر اور تدبر دونوں الفاظ الگ الگ تو بہت جگہ آئے ہیں‘ سورۃ صٓ کی آیت ۲۹ میں یکجا آ گئے ہیں: کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ ) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘. ان دونوں کا مطلب کیا ہے؟ ایک ہے قرآن مجید سے ہدایت اخذ کر لینا‘ نصیحت حاصل کر لینا‘ اصل راہ نمائی حاصل کرلینا‘ جس کو کہ مولانا روم نے کہا ؏ ’’ماز قرآں مغز ہا برداشتیم‘‘ یعنی قرآن کا جو اصل مغز ہے وہ تو ہم نے لے لیا. اس کا اصل مغز ’’ہدایت‘‘ ہے. اس مرحلے پر قرآن جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ ’’تذکر‘‘ ہے. یہ لفظ ذکر سے بنا ہے. تذکر یاددہانی کو کہتے ہیں. اب اس کا تعلق اسی بات سے جڑ جائے گا جو قرآن کے اسلوبِ استدلال کے ضمن میں پہلے بیان کی جا چکی ہے. یعنی قرآن مجید جن اصل حقائق (مابعد الطبیعیا تی حقیقتوں) کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ فطرتِ انسانی میں مضمر ہیں‘ ان پر صرف ذہول اور نسیان کے پردے پڑ گئے ہیں. مثلاً آپ کو کوئی بات کچھ عرصہ قبل معلوم تھی ‘لیکن اب اس کی طرف دھیان نہیں رہا اور وہ آپ کی یادداشت کے ذخیرے میں گہری اتر گئی ہے اور اب یاد نہیں آتی‘لیکن کسی روز اُس کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ ملتے ہی آپ کو وہ پوری بات یاد آ جاتی ہے. جیسے آپ کا کوئی دوست تھا‘ کسی زمانے میں بے تکلفی تھی‘ صبح شام ملاقاتیں تھیں ‘اب طویل عرصہ ہو گیا‘ کبھی اس کی یاد نہیں آئی. ایسا نہیں کہ آپ کو یاد نہیں رہا‘بلکہ ذہول ہے‘ نسیان ہے‘ توجہ اُدھر نہیں ہے‘کبھی ذہن اُدھر منتقل ہی نہیں ہوتا. لیکن اچانک کسی روز آپ نے اپنا ٹرنک کھولا اور اس میں سے کوئی قلم یا رومال جو اُس نے کبھی دیا ہو برآمد ہو گیا تو فوراً آپ کو اپنا وہ دوست یاد آ جائے گا. یہ phenomenon تذکر ہے. تذکر کا مطلب تعلّم نہیں ہے. تعلّم علم حاصل کرنا یعنی نئی بات جاننا ہے‘ جبکہ تذکر پہلے سے حاصل شدہ علم جس پر ذہول اور نسیان کے جو پردے پڑ گئے تھے ‘ان کو ہٹا کر اندر سے اسے برآمد کرنا ہے. فطرتِ انسانی کے اندر اللہ کی محبت‘ اللہ کی معرفت کے حقائق مضمر ہیں.یہ فطرت میں موجود ہیں ‘صرف اُن پر پردے پڑ گئے ہیں‘ دنیا کی محبت غالب آ گئی ہے. ؎

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے!
(فیضؔ)

یہاں کی دلچسپیوں‘ مسائل‘ مشکلات‘ مصروفیات‘ مشاغل کی وجہ سے ذہول ہو گیا ہے‘ پردہ پڑ گیا ہے. تذکر یہ ہے کہ اس پردے کو ہٹا دیا جائے. ؏ 

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں‘ لوح ِ جبیں تازہ کریں!

(حفیظؔ)
یادداشت کو recall کرنا اور اپنی فطرت میں مضمر حقائق کو اجاگر کر لینا تذکر ہے. قرآن کا اصل ہدف یہی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کا دعویٰ سورۃ القمر میں چار مرتبہ آیا ہے: وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿﴾ ’’ہم نے قرآن کو تذکر کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے‘ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ اس کے لیے بہت گہرائی میں غوطہ زنی کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ بہت مشقت و محنت مطلوب نہیں ہے. انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ (Communication) ہو جائے تو تذکر حاصل ہو جائے گا .اس کی شرط صرف ایک ہے اوروہ یہ کہ انسان کو اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ وہ قرآن سے ہم کلام ہو جائے.اگر آپ ترجمہ دیکھیں گے تو کچھ معلومات توحاصل ہوں گی ‘تذکر نہیں ہو گا. اقبال نے کہا تھا: ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف !

تذکر کے عمل کا اثر تو یہ ہے کہ آپ کے اندر کے مضمر حقائق ابھر کر آپ کے شعور کی سطح پر دوبارہ آ جائیں. یہ نہ ہو کہ پہلے آپ نے متن کو پڑھا ‘پھرترجمہ دیکھا‘ حاشیہ دیکھا‘ اس کے بعد اگلی آیت کی طرف گئے تو تسلسل ٹوٹ گیا اور کلام کی تأثیر ختم ہو گئی. ترجمہ سے کلام کی اصل تأثیر باقی نہیں رہتی. شیکسپئر کی کوئی عبارت آپ انگریزی میں پڑھیں گے تو جھوم جائیں گے‘ اگر اس کا ترجمہ کریں گے تو اس کا وہ اثر نہیں ہو گا.اسی طرح غالبؔ کا شعر ہو یا میرؔ کا ‘اس کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے تو وہ اثر باقی نہیں رہے گا اور آپ وجد میں نہیں آئیں گے‘ جھوم جھوم نہیں جائیں گے. عربی زبان کا اتنا علم کہ آپ عربی متن کو براہ راست سمجھ سکیں‘ تذکر کی بنیادی شرط ہے. چنانچہ اوّلاً حسنِ نیت ہو‘ طلبِ ہدایت ہو‘ تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو‘ اور ثانیاً عربی زبان کا اتنا علم ہو کہ آپ براہِ راست اس سے ہم کلام ہو رہے ہوں‘ یہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو تذکر ہو جائے گا.

دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ آیت کا مطلب نشانی ہے. نشانی اسے کہتے ہیں جس کو دیکھ کر ذہن کسی اور شے کی طرف منتقل ہو جائے. آپ نے قلم یا رومال دیکھا تو ذہن دوست کی طرف منتقل ہو گیا جس سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا تھا اور اس کا کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا. مولانا روم کہتے ہیں ؎ 

خشک تار و خشک مغز و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ 

ہمارا ایک ازلی دوست ہے ’’اللہ‘‘ وہی ہمارا خالق ہے‘ ہمارا باری ہے‘ ہمارا ربّ ہے.اس کی دوستی پر کچھ پردے پڑ گئے ہیں ‘اس پر کچھ ذہول طاری ہو گیا ہے. قرآن اس دوست کی یاد دلانے کے لیے آیا ہے.

اس کے برعکس تدبر گہرائی میں غوطہ زن ہونے کو کہتے ہیں . ؏ ’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!‘‘ تدبر کے اعتبار سے قرآن حکیم مشکل ترین کتاب ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ اس کا منبع اور سرچشمہ علمِ الٰہی ہے اور علمِ الٰہی لامتناہی ہے. یہ حقیقت ہے کہ کلام میں متکلم کی ساری صفات موجود ہوتی ہیں‘ لہذا یہ کلام لامتناہی ہے. اس کو کوئی شخص نہ عبور کر سکتا ہے نہ گہرائی میں اس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے.یہ ناممکن ہے ‘چاہے پوری پوری زندگیاں کھپا لیں. وہ چاہے صاحبِ کشاف ہوں ‘ صاحبِ تفسیر کبیر ہوں‘ کسے باشد. اس کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں. بعض لوگ غیرمحتاط انداز میں یہ الفاظ استعمال کر دیتے ہیں کہ ’’انہیں قرآن پر بڑا عبور حاصل ہے.‘‘ یہ قرآن کے لیے بڑاتوہین آمیز کلمہ ہے.عبور ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ جانے کو کہتے ہیں. قرآن کا تو کنارہ ہی کوئی نہیں ہے. کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن پر عبور حاصل کرے. یہ ناممکنات میں سے ہے. اسی طرح اس کی گہرائی تک پہنچ جانا بھی ناممکن ہے.
اس سلسلہ میں ایک تمثیل سے بات کسی قدر واضح ہو جائے گی. کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سمندر میں کوئی ٹینکر تیل لے کر جا رہا ہے اور کسی وجہ سے اچانک تیل لیک کرنے لگ جاتا ہے. لیکن وہ تیل سطح سمندر کے اوپر ہی رہتا ہے ‘نیچے نہیں جاتا. سطح سمندر پر اوپر تیل کی تہہ اور نیچے پانی ہوتا ہے اور وہ تیل پانچ دس میل تک پھیل جاتا ہے . سمندر کی اتھاہ گہرائی کے باوجود تیل سطح آب پر ہی رہتا ہے. اسی طرح سمجھئے کہ قرآن مجید کی اصل ہدایت اور اصل تذکر اس کی سطح پر موجود ہے .اس تک رسائی کے لیے سائنس دان یا فلسفی ہونا‘ عربی ادب کا ماہر ہونا‘ کلامِ جاہلی کا عالم ہونا ضروری نہیں. صرف دو چیزیں موجود ہوں. پہلی خلوصِ نیت اور طلب ہدایت‘ دوسری قرآن سے براہِ راست ہم کلامی کا شرف اور اس کی صلاحیت. یہ دونوں ہیں تو تذکر کا تقاضا پورا ہو جائے گا. البتہ تدبر کے لیے گہرائی میں اترنا ہو گا اور اس بحرِ زخّار میں غوطہ زنی کرنا ہو گی. تدبر کا حق ادا کرنے کے لیے شعرِ جاہلی کو بھی جاننا ضروری ہے. ہر لفظ کی پہچان ضروری ہے کہ جس دور میں قرآن نازل ہوا اُس زمانے اور اُس علاقے کے لوگوں میں اس لفظ کا مفہوم کیا تھا‘ یہ کن معانی میں استعمال ہو رہا تھا. قرآن نے بنیادی اصطلاحات وہیں سے اخذ کی ہیں. وہی الفاظ جن کو عرب اپنے اشعار اور خطبات کے اندر استعمال کرتے تھے انہی کو قرآن مجید نے لیا ہے. چنانچہ نزولِ قرآن کے دَور کی زبان کو پہچاننا اور اس کے لیے ضروری مہارت کا ہونا تدبر کے لیے ناگزیر ہے. پھر یہ کہ احادیث‘ علمِ بیان‘ منطق ‘ ان سب کو انسان بطریقِ تدبر جانے گا تو پھر وہ اس کاحق ادا کر سکے گا. 

مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر کا نام ہی ’’تدبر قرآن‘‘ رکھا ہے اور وہ تدبر قرآن کے بہت بڑے داعی ہیں. اس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی ہے.ان کے بعض شاگرد حضرات نے بھی محنتیں کی ہیں اور وقت لگایا ہے. اس کے ان تقاضوں کو تو اُن حضرات نے بیان کیا ہے ‘لیکن تدبر قرآن کا ایک اور تقاضا بھی ہے جو بدقسمتی سے ان کے سامنے بھی نہیں آیا. اگر وہ تقاضا بھی پورا نہیں ہو گا تو عصر حاضر کے تدبر کا حق ادا نہیں ہو گا. وہ تقاضا یہ ہے کہ علم انسانی آج جس لیول تک پہنچ گیا ہے‘ میٹیریل سائنسز کے مختلف علوم کے ضمن میں جو کچھ معلومات انسان کوحاصل ہوچکی ہیں اور وہ خیالات و نظریات جن کو آج دنیا میں مانا جا رہا ہے ان سے آگاہی حاصل کی جائے. اگر ان کا اجمالی علم نہیں ہے تو اِس دَور کے تدبر قرآن کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا . قرآن حکیم وہ کتاب ہے جو ہر دَور کے اُفق پر خورشیدِ تازہ کی مانند طلوع ہو گی. آج سے سو برس پہلے کے قرآن اور آج کے قرآن میں اس حوالے سے فرق ہو گا. متن اور الفاظ وہی ہیں ‘لیکن آج علم انسانی کی جو سطح ہے اس پر اس قرآن کے فہم اور اس کے علم کو جس طریقے سے جلوہ گر ہونا چاہیے اگر آپ اس کا حق ادانہیں کر رہے تو آپ سو برس پہلے کا قرآن پڑھا رہے ہیں‘ آج کا قرآن نہیں پڑھارہے. جیسے اللہ کی شان ہے کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ اسی طرح کا معاملہ قرآن حکیم کا بھی ہے.

اسی طرح ہدایتِ عملی کے ضمن میں اقتصادیات‘ سماجیات اور نفسیاتِ انسانی کے سلسلہ میں راہنمائی اور حقائق قرآن میں موجود ہیں‘ انہیں کیسے سمجھیں گے؟ قرآن کی اصل تعلیمات کی قدر و قیمت اور اس کی اصل evaluation کیسے ممکن ہے اگر انسان آج کے اقتصادی مسائل کو نہ جانتا ہو؟اس کے بغیر وہ تدبر قرآن کا حق نہیں ادا کر سکتا.مثلاً آج کے اقتصادی مسائل کیا ہیں؟ پیپر کرنسی کی حقیقت کیا ہے؟ اقتصادیات کے اصول و مبادی کیا ہیں؟بینکنگ کی اصل بنیاد کیا ہے؟ کس طرح کچھ لوگوں نے اس پوری نوعِ انسانی کو معاشی اعتبار سے بے بس کیا ہوا ہے. اس حقیقت کو جب تک نہیں سمجھیں گے تو آج کے دَور میں قرآن حکیم کی اقتصادی تعلیمات واضح کرنے کا حق ادانہیں ہو سکتا. 
واقعہ یہ ہے کہ آج تدبر قرآن کسی ایک انسان کے بس کا روگ ہی نہیں رہا‘ اس کے لیے تو ایک جماعت درکار ہے. میرے کتابچے ’’مسلمانوں پرقرآن مجید کے حقوق‘‘ کے باب ’’تذکر و تدبر‘‘ میں یہ تصور پیش کیا گیا ہے کہ ایسی یونیورسٹیز قائم ہوں جن کا اصل مرکزی شعبہ ’’تدبر قرآن‘‘ کا ہو. جو شخص بھی اس یونیورسٹی کا طالب علم ہو‘ وہ عربی زبان سیکھے اورقرآن پڑھے. لیکن اس مرکزی شعبے کے گرد تمام علومِ عقلی‘ جیسے منطق‘ مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات‘ نفسیات اور الٰہیات‘ علومِ عمرانی جیسے معاشیات‘ سیاسیات اور قانون ‘اور علومِ طبعی‘ جیسے ریاضی ‘ کیمیا‘ طبیعیات‘ ارضیات اور فلکیات وغیرہ کے شعبوں کا ایک حصار قائم ہو‘ اور ہر ایک طالب علم ’’تدبر قرآن‘‘ کی لازماً اور ایک یا اس سے زائددوسرے علوم کی اپنے ذوق کے مطابق تحصیل کرے اور اس طرح ان شعبہ ہائے علوم میں قرآن کے علم و ہدایت کو تحقیقی طور پر اخذ کر کے مؤثر انداز میں پیش کر سکے. طالب علم وہ بھی پڑھے تب معلوم ہو گا کہ اس شعبے میں انسان آج کہاں کھڑا ہے اور قرآن کیا کہہ رہاہے. فلاں شعبے میں نوعِ انسانی کے کیا مسائل ہیں اور اس ضمن میں قرآن حکیم کیاکہتاہے. مختلف شعبے مل کر تدبر قرآن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں جو وقت کا اہم تقاضا ہے. 

جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ تذکر کے اعتبار سے قرآن آسان ترین کتاب ہے جو ہماری فطرت کی پکار ہے. ؏ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں تھا!‘‘ اگر انسان کی فطرت مسخ شدہ نہیں ہے ‘بلکہ سلیم ہے‘ صالح ہے‘ سلامتی پر قائم ہے تو وہ قرآن کو اپنے دل کی پکار محسوس کرے گا‘ اس کے اور قرآن کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو گا‘ وہ اسے اپنے دل کی بات سمجھے گا‘ اس کے لیے عربی زبان کا صرف اتنا علم کافی ہے کہ براہِ راست ہم کلام ہو جائے.جبکہ تدبر کے تقاضے پورے کرنے کسی ایک انسان کے بس کا روگ نہیں ہے. جو شخص بھی اس میدان میں قدم رکھنا چاہے اس کے ذہن میں ایک اجمالی خاکہ ضرور ہونا چاہیے کہ آج جدید سائنسز کے اعتبار سے انسان کہاں کھڑا ہے. جب انسان کو اپنے مقام کی معرفت حاصل ہو جائے تو وہ قرآن مجید سے بہتر طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے. اس کی مثال ایسے ہے کہ سمندر میں تو بے تحاشا پانی ہے ‘ آپ اگر پانی لینا چاہتے ہیں تو جتنا بڑا کٹورا‘ کوئی دیگ‘ دیگچی یا بالٹی آپ کے پاس ہے اسی کو آپ بھر لیں گے. یعنی جتنا آپ کا ظرف ہو گا اتنا ہی آپ سمندر سے پانی اخذ کر سکیں گے. اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہ ہو گا کہ سمندر میں پانی ہی اتنا ہے! انسانی ذہن کا ظرف علوم سے بنتا ہے. یہ ظرف آج سے پہلے بہت تنگ تھا. ایک ہزار سال پہلے کا ظرفِ ذہنی بہت محدود تھا. انسانی علوم کے اعتبار سے آج کا ظرف بہت وسیع ہے. اگر آج آپ کو قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو آپ کو اپنا ظرف اس کے مطابق وسیع کرنا ہوگا.اور اگر کچھ لوگ ابھی اُسی سابق دور میں رہ رہے ہیں تو قرآن حکیم کے مخفی حقائق اُن پر منکشف نہیں ہوں گے.

۶) عملی ہدایات اور مظاہر طبیعی کے بارے میں متضاد طرزِ عمل

قرآن حکیم میں سائنسی علوم کے جو حوالہ جات آتے ہیں اور اس میں جو عملی ہدایات ملتی ہیں‘ ان کے ضمن میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک اعتبار سے ہمیں آگے سے آگے بڑھنا ہے اور دوسرے اعتبار سے ہمیں پیچھے سے پیچھے جانا ہے.چنانچہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرنے والے کا انداز(attitude) دو اعتبارات سے بالکل متضاد ہونا چاہیے.سائنسی حوالہ جات جو قرآن میں آئے ہیں ان کی تعبیر کرنے میں آگے سے آگے جائیے. آج انسان کو کیا معلومات حاصل ہو چکی ہیں‘ کون سے حقائق پایۂ ثبوت کو پہنچ چکے ہیں‘ ان کے حوالے پیش نظر رہیں گے. اس میں پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے. امام رازی اور دیگر قدیم مفسرین کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے. بلکہ اس ضمن میں نبی اکرم نے بھی کچھ فرمایا ہے تو وہ بھی ہمارے لیے لازم نہیں ہے. اس لیے کہ حضور سائنس اور ٹیکنالوجی سکھانے نہیں آئے تھے. تأبیر نخل کا واقعہ پیچھے گزر چکا ہے‘ اس کے ضمن میں آپنے فرمایا تھا : اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاَمْرِ دُنْیَاکُمْ ’’اپنے دنیاوی معاملات کے بارے میں تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو‘‘. تجرباتی علوم کے مطابق جو تمہیں علم حاصل ہے اس پر عمل کرو .لیکن دین کا جو عملی پہلو ہے اس میں پیچھے سے پیچھے جائیے. یہاں یہ دلیل نہیں چلے گی کہ جدید دَور کے تقاضے کچھ اور ہیں ‘ جبکہ یہ دیکھنا ہو گا کہ رسول اللہ نے اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا کیا. اس حوالے سے قرآن کے طالب علم کا رُخ پیچھے کی طرف ہونا چاہیے کہ اسلاف نے کیا سمجھا. متأخرین کو چھوڑ کر متقدمین کی طرف جایئے. متقدمین سے تبع تابعین‘ پھر تابعین سے ہوتے ہوئے ’’مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ ‘‘ یعنی حضور اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل تک پہنچئے. اس اعتبار سے اقبال کا یہ شعر صحیح منطبق ہوتا ہے ؎

بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر باُو نرسیدی تمام بولہبی ست!

دین کا عملی پہلو وہی ہے جو اللہ کے رسول سے ثابت ہے. اس میں اگرچہ روایات کے اختلاف کی وجہ سے کچھ فرق ہو جائے گا مگر دلیل یہی رہے گی : صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ’’نماز اِس طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘. اب نماز کی جزئیات کے بارے میں روایات میں کچھ فرق ملتا ہے. کسی کے نزدیک ایک روایت قابل ترجیح ہے‘ کسی کے نزدیک دوسری. اس اعتبار سے جزئیات میں تھوڑا بہت فرق ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.البتہ دلیل یہی رہے گی کہ رسول اللہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل یہ تھا. حضور اکرم کا یہ فرمان بھی نوٹ کر لیجیے :عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ ’’تم پر میری سنت اختیار کرنا لازم ہے اور میرے خلفاءِ راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں‘‘. چنانچہ حضور کا عمل اور خلفاء راشدین کا عمل ہمارے لیے لائق تقلید ہے. پھر اسی سے متصل وہ چیزیں ہیں جن پر ہماری چودہ سو برس کی تاریخ میں اُمت کا اجماع رہا ہے. اب دنیا اسلامی سزاؤ ں کو وحشیانہ قرار دے کر ہم پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور ہمیں بنیاد پرست (Fundamentalist) کی گالی دے کر چاہتی ہے کہ ہمارے اندر معذرت خواہانہ رویہ پیدا کر دے ‘مگر ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ان باتوں سے قطعاً متاثر ہوئے بغیر دین کے عملی پہلو کے بارے میں پیچھے سے پیچھے جاتے ہوئے مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ تک پہنچ جائیں!

بدقسمتی سے ہمارے عام علماء کا حال یہ ہے کہ انہوں نے عربی علوم تو پڑھے ہیں‘ عربی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں ‘مگر وہ آگے بڑھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں. انہوں نے سائنس نہیں پڑھی‘ وہ جدید علوم سے واقف نہیں ‘وہ نہیں جانتے آئن سٹائن کس بلا کا نام ہے اور اس شخص کے ذریعے طبیعیات کے اندر کتنی بڑی تبدیلی آ گئی ہے. نیوٹونین ایرا کیا تھااور آئن سٹائن کا دَور کیا ہے‘ انہیں کیا پتہ! آج کائنات کا تصور کیا ہے‘ ایٹم کی ساخت کیا ہے‘ انہیں کیا معلوم! ایٹم تو پرانی بات ہو گئی‘اب تو انسان نیوٹرون پروٹون سے بھی کہیں آگے کی باریکیوں تک پہنچ چکا ہے. اب ان چیزوں کو نہیں جانیں گے تو ان حقائق کو صحیح طور پرسمجھنا ممکن نہیں ہو گا. مظاہر طبیعی کا معاملہ تو آگے سے آگے جا رہا ہے. اس کی تعبیر جدید سے جدید ہونی چاہیے .البتہ اس ضمن میں یہ فرق ضرور ملحوظ رہنا چاہیے کہ ایک تو سائنس کے میدان کے محض نظریات (theories) ہیں جنہیں مسلّمہ حقائق کا درجہ حاصل نہیں ہے‘ جبکہ ایک وہ چیزیں ہیں جن کی تجرباتی توثیق ہو چکی ہے اور انہیں اب مسلّمہ حقائق کا درجہ حاصل ہے. ان دونوں میں فرق کرنا ہو گا. خواہ مخواہ کوئی بھی نظریہ سامنے آ جائے یا کوئی مفروضہ (hypothesis) منظر عام پر آجائے اس پر قرآن کو منطبق کرنے کی کوشش کرنا سعی لاحاصل بلکہ مضر شے ہے. لیکن اصولی طور پر ہمیں ان چیزوں کی تعبیر میں آگے سے آگے بڑھنا ہے. اور جہاں تک دین کے عملی حصے کا تعلق ہے جسے ہم شریعت کہتے ہیں‘ یعنی اوامر و نواہی‘حلال و حرام‘ حدود و تعزیرات وغیرہ ‘ان تمام معاملات میں ہمیں پیچھے سے پیچھے جانا ہو گا‘ یہاں تک کہ محمدٌ رسول اللہ کے قدموں میں اپنے آپ کو پہنچا دیجیے. اس لیے کہ دین اسی کا نام ہے.

؏ بمصطفیٰ ؐ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

۷) فہم قرآن کے لیے جذبۂ انقلاب کی ضرورت

فہم قرآن کے لیے بنیادی اصول اور بنیادی ہدایات یا اشارات کے ضمن میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ بات بڑی خوبصورتی سے تفہیم القرآن کے مقدمے میں کہی ہے کہ قرآن محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ کسی ڈرائنگ روم میں یا کتب خانے میں آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں. کوئی محقق یا ریسرچ سکالر ڈکشنریوں اور تفسیروں کی مدد سے اسے سمجھنا چاہے تو نہیں سمجھ سکے گا. اس لیے کہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے. مولانا مرحوم لکھتے ہیں:

’’ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکۂ اسلام و جاہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گزرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہواور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہو جائیں! اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُسی طرح قدم اٹھاتے چلے جائیں…‘‘

قرآن مجید کی بہت سی بڑی ا ہم حقیقتیں اس کے بغیر منکشف نہیں ہوں گی‘ اس لیے کہ قرآن ایک ’’کتابِ انقلاب‘‘ (Manual of Revolution) ہے.اس قرآن نے انسانی جدوجہد کے ذریعے عظیم انقلاب برپا کیا ہے. محمدٌ رسول اللہ اورآپؐ کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک حزب اللہ تھے‘ ایک جماعت اور ایک پارٹی تھے‘ انہوں نے دعوت اور انقلاب کے تمام مراحل کو طے کیا اور ہر مرحلے پر اس کی مناسبت سے ہدایات نازل ہوئیں. ایک مرحلہ وہ بھی تھا کہ حکم دیا جا رہا تھا کہ مار کھاؤ لیکن ہاتھ مت اٹھاؤ . کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ . پھر ایک مرحلہ وہ بھی آیا کہ حکم دے دیا گیا کہ اب آگے بڑھو اور جواب دو‘ انہیں قتل کرو . سورۃ الانفال میں ارشاد ہوا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (آیت ۳۹’’اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین کُل کا کُل اللہ کے لیے ہو جائے‘‘.سورۃ البقرۃ میں فرمایا: وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ (آیت۱۹۱’’اور اُن کو قتل کر دو جہاں کہیں تم ان کو پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے‘‘.

دونوں مراحل میں یقینا فرق ہے‘ بلکہ بظاہر تضاد ہے‘ لیکن جاننا چاہیے کہ یہ ایک ہی جدوجہد کے دو مختلف مراحل ہیں. پھر ایک داعی جب دعوت دیتا ہے تو جو مسائل اسے درپیش ہوتے ہیں ان کو ایک ایسا شخص قطعاً نہیں جان سکتا جس نے اُس کوچے میں قدم ہی نہیں رکھا ہے. اسے کیا احساس ہو گا کہ محمدٌ رسول اللہ سے یہ کیوں کہا جا رہا ہے : نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾وَ اِنَّ لَکَ لَاَجۡرًا غَیۡرَ مَمۡنُوۡنٍ ۚ﴿۳﴾ ’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں! آپ اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہیں. اور آپ کے لیے تو بے انتہا اجر ہے‘‘. یعنی اے نبیؐ آپ محزون اور غمگین نہ ہوں. آپ ان کے کہنے سے (معاذ اللہ) مجنون تو نہیں ہو جائیں گے .ایسے الفاظ جب کسی کو کہے جاتے ہیں تو اس کا ہی دل جانتا ہے کہ اس پر کیا گزرتی ہے. اندازہ لگائیے کہ قریش مکّہ سے اس قسم کے الفاظ سن کر قلبِ محمدیؐ پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہو گی. یہ قرآن ہم پر reveal نہیں ہو سکتا جب تک ان احساسات و کیفیات کے ساتھ ہم خود دوچار نہ ہوں.جب تک کہ ہماری کیفیات و احساسات اس کے ساتھ مماثلت نہ رکھیں ہم کیسے سمجھیں گے کہ کیا کہا جا رہا ہے اور کس کیفیت کے اندر کہا جا رہا ہے.

میڈیکل کالج میں داخل ہونے والے طلبہ سب سے پہلے جس کتاب سے متعارف ہوتے ہیں وہ ’’Manual of Dissection ‘‘ ہے.اس میں ہدایات ہوتی ہیں کہ لاش کے بدن پر یہاں شگاف لگاؤ اور کھال ہٹاؤ تو تمہیں یہ چیز نظر آئے گی‘ یہاں شگاف لگاؤ تو تمہیں فلاں شے نظر آئے گی‘ اسے یہاں سے ہٹاؤ گے تو تمہیں اس کے پیچھے فلاں چیز چھپی ہوئی نظر آئے گی. اس اعتبار سے قرآن حکیم ’’Manual of Revolution ‘‘ ہے. جب تک کوئی شخص انقلابی جدوجہد میں شریک نہیں ہو گا قرآن حکیم کے معارف کا بہت بڑا خزانہ اُس کے لیے بند رہے گا. ایک شخص فقیہہ ہے‘ مفتی ہے تو وہ فقہی احکام کو ضرور اس کے اندر سے نکال لے گا. آپ کو معلوم ہو گا کہ بعض تفاسیر ’’احکام القرآن‘‘ کے نام سے لکھی گئی ہیں جن میں صرف اُن ہی آیات کے بارے میں گفتگو اور بحث ہے جن سے کوئی نہ کوئی فقہی حکم مستنبط ہوتا ہے. مثلاً حلت و حرمت کا حکم‘ کسی شے کے فرض ہونے کا حکم جس سے عمل کا معاملہ متعلق ہے.باقی تو گویا قصص ہیں‘ تاریخی حقائق و واقعات ہیں. یہاں تک کہ قصۂ آدم و ابلیس جو سات مرتبہ قرآن میں آیا ہے‘ یا ایمانی حقائق کے لیے جو دلائل و براہین ہیں ان سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی‘ بلکہ صرف احکام القرآن جو قرآن کا ایک حصہ ہے‘ اسی کو اہمیت دی گئی ہے. 

قرآن کے تدریجاً نزول کا سبب یہ ہے کہ صاحبِ قرآن  کی جدوجہد کے مختلف مراحل کو سمجھا جائے ‘ورنہ فقہی احکام تو مرتب کر کے دیے جا سکتے تھے ‘جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دیے گئے تھے. ’’احکامِ عشرہ ‘‘تختیوں پر کندہ تھے جو موسٰی ؑکے سپرد کر دیے گئے. لیکن محمدٌ رسول اللہ کی انقلابی جدوجہد جس جس مرحلے سے گزرتی رہی قرآن میں اس مرحلے سے متعلق آیات نازل ہوتی رہیں. تنزیل کی ترتیب کے اندر مضمر اصل حکمت یہی تو ہے کہ آنحضور کی جدوجہد‘ حرکت اور دعوت کے مختلف مراحل سامنے آ جاتے ہیں. اب بھی قرآن کی بنیاد پر اور منہج انقلابِ نبویؐ پر جو جدوجہد ہو گی اسے ان تمام مراحل سے ہو کر گزرنا ہو گا. چنانچہ کم سے کم یہ توہو کہ اس جدوجہد کو علمی طور پر فہم کے لیے انسان سامنے رکھے. اگر علمی اعتبار سے سیرت النبیؐ ‘ کا خاکہ ذہن میں موجود نہ ہو تو فہم کسی درجے میں بھی حاصل نہیں ہو گا. فہمِ حقیقی تو اُسی وقت حاصل ہو گا جب آپ خود اس جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور وہی مسائل آپ کو پیش آ رہے ہیں تو اب معلوم ہو گاکہ یہ مقام اور مرحلہ یا مسئلہ وہ تھا جس کے لیے یہ ہدایتِ قرآنی آئی تھی. 

۸) قرآن کے منزّل من اللہ ہونے کا ثبوت

اس ضمن میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے منزل من اللّٰہ ہونے کا ثبوت کیا ہے. یاد رکھیے کہ ثبوت دو قسم کے ہوتے ہیں ‘خارجی اور داخلی. خارجی ثبوت خود محمد رسول اللہ کا یہ فرمانا ہے کہ یہ کلام مجھ پر نازل ہوا.پھر آپ کی شہادت بھی دو حیثیتوں سے ہے. آپ کی شخصاً شہادت زیادہ نمایاں اُس وقت تھی جب کہ قرآن نازل ہوا اور حضور خود موجود تھے. وہ لوگ بھی وہاں موجود تھے جنہوں نے آپ  کی چالیس سالہ زندگی کا مشاہدہ کیا تھا‘ جنہیں کاروباری شخصیت کی حیثیت سے آپؐ کے معاملات کا تجربہ تھا. جن کے سامنے آپ کی صداقت‘ دیانت‘ امانت اور ایفائے عہد کا پورا نقشہ موجود تھا. بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جن کے سامنے چہرۂ محمدیؐ موجود تھا. سلیم الفطرت انسان آپ کا روئے انور دیکھ کر پکار اٹھتا تھا کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَا ھٰذَا بِوَجْہِ کَذَّابٍ (اللہ پاک ہے‘ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا ).تو حضور  کی شخصیت‘ آپؐ کی ذات اور آپؐ کی شہادت کہ یہ قرآن مجھ پر نازل ہوا‘ سب سے بڑا ثبوت تھا. 

اس اعتبار سے یاد رکھیے کہ محمدٌ رسول اللہ اور قرآن باہم ایک دوسرے کے شاہد ہیں. قرآن محمد کی رسالت پر گواہی دیتا ہے: یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ قرآن گواہی دے رہا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن کے منزل من اللّٰہ ہونے کا ثبوت ذاتِ محمدیؐ ہے. اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت رسول اللہ کی ذات‘ آپؐ کی شخصیت‘ آپؐ کی سیرت و کردار‘ آپؐ کا اخلاق ‘ آپؐ کا وجود‘ آپؐ کی شبیہہ اور چہرہ سامنے تھا. دوسرا پہلو جو دائمی ہے اور آج بھی ہے وہ حضور کا وہ کارنامہ ہے جو تاریخ کی اَن مٹ شہادت ہے. آپ ایچ جی ویلز ‘ ایم این رائے یا ڈاکٹر مائیکل ہارٹ سے پوچھیں کہ وہ کتنا عظیم کارنامہ ہے جو محمدٌ رسول اللہ نے سرانجام دیا. اور آپؐ خود کہہ رہے ہیں کہ میرا آلۂ انقلاب قرآن ہے‘ یہی میرا اسلحہ اور اصل طاقت ہے‘ یہی میری قوت کا سرچشمہ اور میری تأثیر کا منبع ہے. اس سے بڑی گواہی اور کیا ہو گی؟ یہ تو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی خارجی شہادت ہے. یعنی ’’حضورؐ کی شخصیت‘‘. شہادت کا یہ پہلو حضور کے اپنے زمانے میں اورآپ کی حیاتِ دنیاوی کے دوران زیادہ نمایاں تھا. اور جہاں تک آپؐ کے کارنامے کا تعلق ہے اس پر تو عقل دنگ رہ جاتی ہے. دیکھیے مائیکل ہارٹ محمدٌ رسول اللہ کے بارے میں یہ کہنے پر مجبورا ہوا ہے:

"He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels."

یعنی تاریخ انسانی میں صرف وہی واحد شخص ہیں جو سیکولر اور مذہبی دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب رہے اور آپ کا یہ ارشاد ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے. تو خارجی ثبوت گویا بتمام و کمال حاصل ہو گیا.

قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا داخلی ثبوت یہ ہے کہ انسان کا دل گواہی دے. داخلی ثبوت انسان کا اپنا باطنی تجربہ ہوتا ہے. اگر ہزار آدمی کہیں چینی میٹھی ہے مگر آپ نے نہ چکھی ہو تو آپ کہیں گے کہ جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں میٹھی ہے تو ہو گی میٹھی. ظاہر ہے ایک ہزار آدمی مجھے کیوں دھوکہ دیناچاہیں گے‘ یقینا میٹھی ہو گی. لیکن ’’ہو گی‘‘ سے آگے بات نہیں بڑھتی .البتہ جب انسان چینی کو چکھ لے اور اس کی اپنی حس ذائقہ بتا رہی ہو کہ یہ میٹھی ہے تو اب ’’ہوگی‘‘ نہیں ’’ہے‘‘. ’’ہوگی‘‘ اور ’’ہے‘‘ میں درحقیقت انسان کے ذاتی تجربے کا فرق ہے . افسوس یہ ہے کہ آج کی دنیا صرف خارجی تجربات کو جانتی ہے. ایک تجربہ اس سے کہیں زیادہ معتبر ہے اور وہ باطنی تجربہ ہے‘ یعنی کسی شے پر آپ کا دل گواہی دے. اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎ 

تو عرب ہو یا عجم ہو تیرا لا الٰہ اِلاّ
لغتِ غریب ‘ جب تک تیرا دل نہ دے گواہی!

لا الٰہ الاّ اللہ کے لیے اگر دل نے گواہی نہ دی تو انسان خواہ عربی النسل ہو‘ عربی زبان جانتا ہو‘ لیکن اس کے لیے یہ کلمہ لغتِ غریب ہی ہے‘ نامانوس سی بات ہے‘ اس کے اندر پیوست نہیں ہے‘ اس کو متاثر نہیں کرتی. قرآن انسان کی اپنی فطرت کو اپیل کرتا ہے اور انسان کو اپنے من میں جھانکنے کے لیے آمادہ کرتا ہے. وہ کہتا ہے اپنے من میں جھانکو‘دیکھو تو سہی‘ غور تو کرو: اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ؟ کیا تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے؟ اَئِنَّکُمۡ لَتَشۡہَدُوۡنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخۡرٰی ؟ کیا تم واقعتاً یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں ہے!

علامہ ابن قیّم ؒ نے اس کی بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے.وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو یوں محسوس کرتے ہیں کہ وہ مصحف سے نہیں پڑھ رہے بلکہ قرآن اُن کے لوحِ قلب پر لکھا ہوا ہے‘ وہاں سے پڑھ رہے ہیں. گویا فطرتِ انسانی کو قرآن مجید کے ساتھ اتنی ہم آہنگی ہو جاتی ہے. 

ہمارے دَور کے ایک صوفی بزرگ کہا کرتے ہیں کہ روحِ انسانی اور قرآن حکیم ایک ہی گاؤ ں کے رہنے والے ہیں. جیسے ایک گاؤں کے رہنے والے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور باہم انسیت محسوس کرتے ہیں ایسا ہی معاملہ روحِ انسانی اور قرآن حکیم کا ہے.قرآن کو پڑھ کر اور سن کر روحِ انسانی محسوس کرتی ہے کہ اس کا منبع اور سرچشمہ وہی ہے جو میرا ہے. جہاں سے میں آئی ہوں یہ کلام بھی وہیں سے آیا ہے. یقینااس کلام کا منبع اور سرچشمہ وہی ہے جو میرے وجود‘ میری ہستی اور میری روح کا منبع اور سرچشمہ ہے. یہ ہم آہنگی ہے جو اصل باطنی تجربہ بن جائے تب ہی یقین ہوتا ہے کہ یہ کلام واقعتا اللہ کا ہے. 

باب ہفتم

اعجازِ قرآن کے اہم اور بنیادی وجوہ

قرآن اور صاحبِ قرآنؐ کا باہمی تعلق


میں عرض کر چکا ہوں کہ قرآن مجید اور نبی اکرم دونوں ایک دوسرے کے شاہد ہیں. قرآن کے منزَّل مِن اللّٰہ ہونے کی سب سے بڑی اور سب سے معتبر خارجی گواہی نبی اکرم کی اپنی گواہی ہے. آپؐ ‘ کی شخصیت‘ آپ ؐ ‘ کا کردار‘ آپ ؐ ‘ کا چہرۂ انور اپنی اپنی جگہ پرگواہ ہیں.ہمارے لیے اگرچہ آپ کی سیرت آج بھی زندہ وپائندہ ہے‘ کتابوں میں درج ہے‘ لیکن ایک مجسم انسانی شخصیت کی صورت میں آپ ہمارے سامنے موجود نہیں ہیں‘ ہم آپ کے روئے انور کی زیارت سے محروم ہیں. تاہم آپ کا کارنامہ زندہ و تابندہ ہے اور اس کی گواہی ہر شخص دے رہا ہے. ہر مؤرخ نے تسلیم کیا ہے ‘ ہر مفکر نے مانا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو حضور نے برپا کیا. آپؐ ‘کی یہ عظمت آج بھی مبرہن ہے‘ آشکارا ہے‘ اظہر من الشمس ہے. چنانچہ قرآن کے منزَّل مِن اللّٰہ اور کلامِ الٰہی ہونے پر سب سے بڑی خارجی گواہی خود نبی اکرمہیں‘ اور نبی اکرم کے نبی اور رسول ہونے کا سب سے بڑا گواہ ‘ سب سے بڑا شاہداورسب سے بڑا ثبوت خود قرآن مجید ہے.
اس اعتبار سے یہ دونوں جس طرح لازم و ملزوم ہیں اس کے لیے میں قرآن حکیم کے دو مقامات سے استشہاد کر رہا ہوں. سورۃ البینہ میں فرمایا:

لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾ 
’’اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کیا اور مشرک باز آنے والے نہ تھے یہاں تک کہ اُن کے پاس ’بیّنہ‘ آ جاتی‘‘. 

’’بیّنۃ‘‘ کھلی اور روشن دلیل کو کہتے ہیں. ایسی بالکل روشن حقیقت جس کو کسی خارجی دلیل کی مزید حاجت نہ ہو وہ ’’بیّنہ‘‘ ہے. جیسے ہم اپنی گفتگو میں کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل بیّن ہے‘ بالکل واضح ہے‘ اس پر کسی قیل و قال کی حاجت ہی نہیں ہے. بلکہ اگر بیّنہ پر کوئی دلیل لانے کی کوشش کی جائے تو کسی درجے میں شک و شبہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے‘ اس پر یقین میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا. اور یہ بیّنہ کیا ہے؟ فرمایا:

رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳
’’ایک رسول اللہ کی جانب سے جو پاک صحیفے پڑھ کر سناتا ہے‘ جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں‘‘.

یہاں قرآن حکیم کی سورتوں کو اللہ کی کتابوں سے تعبیر کیا گیا ہے ‘جو قائم و دائم ہیں اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہیں. تو گویا رسولؐ ‘ کی شخصیت اور اللہ کا یہ کلام جو اُن پر نازل ہوا ‘ دونوں مل کر ’’بیّنہ‘‘ بنتے ہیں.

میں نے قرآن فہمی کا یہ اصول بارہا عرض کیا ہے کہ قرآن مجید میں اہم مضامین کم سے کم دو جگہ ضرور آتے ہیں. چنانچہ اس کی نظیر سورۃ الطلاق میں موجود ہے. اس کی آیت ۱۰ اِن الفاظ پر ختم ہوتی ہے : قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا ﴿ۙ۱۰﴾ ’’اللہ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کر دیا ہے‘‘.اور یہ ذکر کیا ہے؟ فرمایا: رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ ’’ایک ایسا رسول جو تمہیں پڑھ کر سنا رہا ہے اللہ کی آیات جو ہر شے کو روشن کر دینے والی (اور ہر حقیقت کو مبرہن کر دینے والی) ہیں‘ تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے‘‘.یہاں ’’اٰیٰتٍ بَـیِّنٰتٍ‘‘ کے بجائے ’’اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ‘‘ آیا ہے. ’’بیِّن‘‘ وہ چیز ہے جو خود روشن ہے اور ’’مُـبَــیِّن‘‘ وہ چیز ہے جو دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہے‘ حقائق کو اجاگر کرتی ہے. تو یہاں پر ذکر کی جو تاویل کی گئی کہ رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُبَیِّنٰتٍ اس سے واضح ہوا کہ قرآن اور محمدٌ رسول اللہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے اور ملے ہوئے ہیں کہ ایک حیاتیاتی وجود (Organic Whole) بن گئے ہیں. یہ ایک دوسرے کے لیے شاہد بھی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے complimentary بھی ہیں.اس حوالے سے یہ دونوں حقیقتیں اس طرح جمع ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں کی جا سکتیں. 

محمدٌ رسول اللہ کا اصل معجزہ:قرآن حکیم

اگلی بات یہ سمجھئے کہ نبی اکرم کی رسالت کا اصل ثبوت یا بالفاظِ دیگر آپؐ ‘ کا اصل معجزہ ‘بلکہ واحد معجزہ قرآن حکیم ہے. یہ بات ذرا اچھی طرح سمجھ لیجیے. ’’معجزہ‘‘ کالفظ ہمار ے ہاں بہت عام ہو گیا ہے اور ہر خرقِ عادت شے کو معجزہ شمار کیا جاتا ہے. معجزہ کے لفظی معنی عاجز کر دینے والی شے کے ہیں. قرآن مجید میں ’’عجز‘‘ مادہ سے بہت سے الفاظ آتے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں اصطلاح کے طور پر اس لفظ کا جو اطلاق کیا جاتا ہے وہ قرآن حکیم میں مستعمل نہیں ہے‘ بلکہ اللہ کے رسولوں کو جو معجزات دیے گئے انہیں بھی آیات کہا گیا ہے.انبیاء و رُسل اللہ تعالیٰ کی آیات یعنی اللہ کی نشانیاں لے کر آئے. 

اس اعتبار سے معجزہ کا لفظ جس معنی میں ہم استعمال کرتے ہیں‘ اس معنی میں یہ قرآن مجید میں مستعمل نہیں ہے. البتہ وہ طبیعی قوانین (Physical Laws) جن کے مطابق یہ دنیا چل رہی ہے ‘ اگر کسی موقع پر وہ ٹوٹ جائیں اور ان کے ٹوٹ جانے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی مشیتِ خصوصی ظاہر ہو تو اسے خرقِ عادت کہتے ہیں .مثلاً قانون تو یہ ہے کہ پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے‘ لیکن حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنے عصا کی ضرب لگائی اور سمندر پھٹ گیا‘یہ خرقِ عادت ہے ‘یعنی جو عادی قانون ہے وہ ٹوٹ گیا. ’’خرق‘‘ پھٹ جانے کو کہتے ہیں‘ جیسے سورۃ الکہف میں یہ لفظ آیا ہے ’’خَرَقَہَا‘‘ یعنی اس اللہ کے بندے نے جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ‘کشتی میں شگاف ڈال دیا.پس جب بھی کوئی طبیعی قانون ٹوٹے گا تو وہ خرقِ عادت ہو گا. اللہ تعالیٰ ان خرقِ عادت واقعات کے ذریعے سے بہت سے قوانینِ قدرت کو توڑ کر اپنی خصوصی مشیت اور خصوصی قدرت کا اظہار فرماتا ہے. اور یہ بات ہمارے ہاں مسلّم ہے کہ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا معاملہ صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے بھی جن کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا چاہے کرتا ہے‘ لیکن اصطلاحاً ہم انہیں کرامات کہتے ہیں. خرقِ عادت یا کرامات اپنی جگہ پر ایک مستقل مضمون ہے.
معجزہ بھی خرقِ عادت ہوتا ہے‘ لیکن رسول کا معجزہ وہ ہوتا ہے جو دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے اور جس میں تحدّی (challenge) بھی موجود ہو.یعنی جسے رسول خود اپنی رسالت کے ثبوت کے طور پر پیش کرے اور پھر اُس میں مقابلے کا چیلنج دیا جائے. جیسے حضرت موسی ٰعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات عطا کیے ان میں ’’یدِ بیضا‘‘ اور ’’عصا‘‘ کی حیثیت اصل معجزے کی تھی. ویسے آیات اور بھی دی گئی تھیں جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے : وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ’’اور بیشک ہم نے موسیٰ ؑکو نو روشن نشانیاں دیں‘‘. مگر یہ اُس وقت کی بات ہے جب آپؑ ابھی مصر کے اندر تھے. پھر جب آپؑ مصر سے باہر نکلے تو عصا کی کرامات ظاہر ہوئیں کہ اس کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا‘اس کی ضرب سے چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے. یہ تمام چیزیں خرقِ عادت ہیں ‘لیکن اصل معجزے دو تھے جن کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ میری رسالت کا ثبوت ہے. 

جب آپؑ فرعون کے دربار میں پہنچے اور آپ نے اپنی رسالت کی دعوت پیش کی تو دلیلِ رسالت کے طور پر فرمایا کہ میں اس کے لیے سند (سُلۡطٰنٌ مُّبِیۡنٌ ) بھی لے کر آیا ہوں. فرعون نے کہا کہ لاؤ پیش کروتو آپؑ نے یہ دومعجزے پیش کیے. یہ دو معجزے جواللہ کی طرف سے آپؑ کو عطا کیے گئے ‘ آپؑ کی رسالت کی سند تھے. اس میں تحدّی بھی تھی. لہذا مقابلہ بھی ہوا اور جادوگروں نے پہچان بھی لیا کہ یہ جادو نہیں ہے‘ معجزہ ہے. معجزہ جس میدان کا ہوتا ہے اسے اُسی میدان کے افراد ہی پہچان سکتے ہیں. جب جادوگروں کا حضرت موسٰی علیہ السلام سے مقابلہ ہوا تو عام دیکھنے والوں نے تو یہی سمجھا ہو گا کہ یہ بڑا جادوگر ہے اور یہ چھوٹے جادوگر ہیں‘ اس کا جادو زیادہ طاقتور نکلا‘ اس کے عصا نے بھی سانپ اور اژدھا کی شکل اختیار کی تھی اور ان جادوگروں کی رسیوں اور چھڑیوں نے بھی سانپوں کی شکل اختیار کر لی تھی‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کا بڑا سانپ باقی تمام سانپوں کو نگل گیا. یہی وجہ ہے کہ مجمع ایمان نہیں لایا‘ لیکن جادوگر تو جانتے تھے کہ اُن کے فن کی رسائی کہاں تک ہے‘ اس لیے اُن پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ یہ جادو نہیں ہے‘ کچھ اورہے.

اسی طرح قرآن حکیم کے معجزہ ہونے کا اصل احساس عرب کے شعراء‘ خطیبوں اور زبان دانوں کو ہوا تھا. عام آدمی نے بھی اگرچہ محسوس کیا کہ یہ خاص کلام ہے‘ بہت پُرتأثیر اور میٹھا کلام ہے‘ لیکن اس کا معجزہ ہونا یعنی عاجز کر دینے والا معاملہ تواسی طرح ثابت ہوا کہ قرآن مجید میں بار بار چیلنج دیاگیا کہ اس جیسا کلام پیش کرو. اس اعتبار سے جان لیجیے کہ رسول اللہ کا اصل معجزہ قرآن ہے. 

آپ کے خرقِ عادت معجزات تو بے شمار ہیں. شقّ قمر قرآن حکیم سے ثابت ہے‘ لیکن یہ آپ نے دعوے کے ساتھ نہیں دکھایا ‘نہ ہی اِس پر کسی کو چیلنج کیا‘ بلکہ آپؐ سے جو مطالبے کیے گئے تھے کہ آپؐ یہ یہ کر کے دکھایئے‘ اُن میں سے کوئی بات اللہ تعالیٰ کے ہاں منظور نہیں ہوئی. اللہ چاہتا تو اُن کا مطالبہ پورا کرا دیتا ‘لیکن اُن مطالبوں کو تسلیم نہیں کیا گیا. البتہ خرقِ عادت واقعات بے شمار ہیں. جانوروں کا بھی آپؐ ‘کی بات کو سمجھنا اور آپؐ سے عقیدت کا اظہار کرنا بہت مشہور ہے. حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ ‘اونٹوں کو حضور نے خود اپنے ہاتھ سے نحر کیا تھا. قطار میں سو اونٹ کھڑے کیے گئے تھے. روایات میں آتا ہے کہ ایک اونٹ جب گرتا تھا تو اگلا خود آگے آ جاتا تھا. اسی طرح ’’ستونِ حنانہ‘‘ کا معاملہ ہوا. حضور مسجد نبویؐ میں کھجور کے ایک تنے کا سہارا لے کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ‘مگر جب اِس مقصد کے لیے منبر بنادیا گیا اور آپؐ پہلی مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگے تو اُس سوکھے ہوئے تنے میں سے ایسی آواز آئی جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رورہا ہو‘ اسی لیے تو اسے ’’ حنّانہ‘‘ کہتے ہیں. ایسے ہی کئی مواقع پر تھوڑا کھانا بہت سے لوگوں کو کفایت کر گیا. 

اِن خرقِ عادت واقعات کو بعض عقلیت پسند (Rationalists) اور سائنسی مزاج کے حامل لوگ تسلیم نہیں کرتے. پچھلے زمانے میں بھی لوگ ان کا انکار کرتے رہے ہیں. اس پر مولانا روم نے خوب فرمایا ہے کہ : ؎

فلسفی کو منکرِ حنّانہ است
از حواسِ انبیا بیگانہ است!

بہرحال خرقِ عادت واقعات حضور کی حیاتِ طیبہ میں بہت ہیں. (تفصیل دیکھنا ہو تو ’’سیرت النبیؐ ‘‘ از مولانا شبلی کی ایک ضخیم جلد صرف حضور کے خرقِ عادت واقعات پر مشتمل ہے) لیکن جیسا کہ اوپر گزرا ‘معجزہ دعوے کے ساتھ اور رسالت کے ثبوت کے طور پر ہوتا ہے. 
قرآن مجید میں ا س کی دوسری مثال حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آئی ہے کہ آپؑ لوگوں سے فرماتے ہیں کہ دیکھو میں مُردوں کو زندہ کر کے دکھا رہا ہوں. میں گارے سے پرندے کی صورت بناتا ہوں اور اُس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑتا ہوا پرندہ بن جاتا ہے. خرقِ عادت کا معاملہ تو غیر نبی کے لیے بھی ہو سکتا ہے. اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے لیے بھی اس طرح کے حالات پیدا کر سکتا ہے. اُن کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے اظہار کے لیے کرامات کا ظہور ہو سکتا ہے. یہ چیزیں بعید نہیں ہیں‘ لیکن انبیاء کی کرامات کو عرفِ عام میں ’’معجزات‘‘ کہا جاتا ہے اور غیرانبیاء اور اولیاء کے لیے ’’کرامات‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے. لیکن معجزہ وہ ہے جسے اللہ کا رسول دعوے کے ساتھ پیش کرے اور چیلنج کرے. 

یہ بات کہ قرآن مجید ہی حضور کا اصل معجزہ ہے ‘دو اعتبارات سے قرآن میں بیان کی گئی ہے. ایک مثبت اندازہے‘ جیسے سورۂ یٰسٓ کی ابتدائی آیات میں فرمایا: یٰسٓ ۚ﴿۱﴾وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡحَکِیۡمِ ۙ﴿۲﴾اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ ’’یٰسٓ . قسم ہے قرآن حکیم کی (اور قسم کا اصل فائدہ شہادت ہوتا ہے‘ یعنی گواہ ہے یہ قرآن حکیم) کہ یقینا (اے محمد ) آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘. خطاب بظاہر حضور سے ہے ‘حالانکہ حضورؐ ‘ کو یہ بتانا مقصود نہیں ہے‘ بلکہ مخاطبین یعنی اہل عرب اور اہل مکّہ کو سنایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن شاہد ہے‘ یہ ثبوت ہے‘ یہ دلیلِ قطعی ہے کہ محمد  اللہ کے رسول ہیں‘ یہ قرآن پکار پکار کر محمد رسول اللہ کی رسالت کا ثبوت پیش کر رہا ہے. 

اس کے علاوہ قرآن حکیم کے چار مقامات اور ہیں جن میں یہی آیت اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۳﴾ مقدر ہے ‘اگرچہ بیان نہیں ہوئی . سورۂ صٓ کا آغاز ہوتا ہے : صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ ﴿۲﴾ ’’ص‘ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت (یاد دہانی) والا ہے. لیکن وہ لوگ کہ جو منکر ہیں‘ گھمنڈ اور ضد میں پڑے ہوئے ہیں‘‘.یہاں ’’صٓ‘‘ ایک حرف ہے ‘لیکن اس سے آیت نہیں بنی ‘ جبکہ ’’یٰسٓ‘‘ ایک آیت ہے. سورۂ صٓ کی پہلی آیت قسم پر مشتمل ہے. ’’بَلْ‘‘ سے جو دوسری آیت شروع ہو رہی ہے یہ ثابت کر رہی ہے کہ مُقسَم علیہ (جس چیز پر قسم کھائی جا رہی ہے) یہاں محذوف ہے اور وہ (اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ) ہے. گویا کہ معناً اسے یوں پڑھا جائے گا: صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ ؕ﴿۱﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا... . اسی طرح سورۂ قٓ میں ہے: قٓ ۟ۚ وَ الۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ ۚ﴿۱﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) بَلۡ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمۡ.... 

ایسے ہی دو سورتیں الزخرف اور الدخان ’’حٰمٓ ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں. ان کی پہلی دو آیات بالکل ایک جیسی ہیں : حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ . پہلی آیت حروفِ مقطعات پر اور دوسری آیت قَسم پر مشتمل ہے. اس کے بعد مُقسَم علیہ (اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ) محذوف ماننا پڑے گا. گویا: حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾ اور: حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ (اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ) اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ . یہ ایک اسلوب ہے کہ محمدٌ رسول اللہ کی رسالت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی قسم کھائی گئی‘ یعنی قرآن کی گواہی اور شہادت پیش کی گئی . یہ اِس بات کوکہنے کا ایک اسلوب ہے کہ حضور کی رسالت کا اصل ثبوت یا آپؐ ‘ کا اصل معجزہ قرآن ہے. 
قرآن کا دعویٰ اور چیلنج

پہلے گزر چکا ہے کہ معجزے میں تحدّی (چیلنج) بھی ضروری ہے اور دعویٰ بھی. لہذا وہ مقامات گن لیجیے جن میں چیلنج ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ محمدﷺ کا کلام ہے‘ انسانی کلام ہے جسے محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے‘ یہ اُن کی اپنی اختراع ہے تو تم مقابلہ کرو اور ایسا ہی کلام پیش کرو. قرآن مجید میں ایسے پانچ مقامات ہیں . سورۃ الطور میں فرمایا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَہٗ ۚ بَلۡ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۚ۳۳﴾فَلۡیَاۡتُوۡا بِحَدِیۡثٍ مِّثۡلِہٖۤ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾
’’کیا اُن کا یہ کہنا ہے کہ یہ محمد ؐ نے خود گھڑ لیا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں. پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں‘‘.

قَالَ ‘ یَـقُوْلُ کا معنی ہے کہنا. جبکہ تَقَوَّلَ‘ یَتَقَوَّلُ کا مفہوم ہے تکلف کر کے کہنا‘ یعنی محنت کر کے کلام موزوں کرنا (جس کے لیے انگریزی میں composition کا لفظ ہے.) توکیا اُن کا خیال ہے کہ یہ محمد نے خود کہہ لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں‘ لہذا اس طرح کی کٹ حجتیاں کر رہے ہیں. اگر یہ سچے ہیں تو ایسا ہی کلام پیش کریں. آخر یہ بھی انسان ہیں‘ اِن میں بڑے بڑے شعراء اور بڑے قادر الکلام خطیب موجود ہیں. ان میں وہ شعراء بھی ہیں جن کو دوسرے شعراء سجدہ کرتے ہیں. یہ سب کے سب مل کر ایسا کلام پیش کریں.سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا:

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا ﴿۸۸﴾ 
’’(اے نبیؐ ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمام جن و اِنس جمع ہو جائیں (اوراپنی پوری قوت و صلاحیت اور اپنی تمام ذہانت و فطانت‘ قادر الکلامی کو جمع کر کے کوشش کریں) کہ اِس قرآن جیسی کتاب پیش کر دیں تو وہ ہرگز ایسی کتاب نہیں لاسکیں گے چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی ہی مدد کریں‘‘.

یہ تو بحیثیت مجموعی پورے قرآن مجید کی نظیر پیش کرنے سے مخلوق کے عاجز ہونے کا دعویٰ ہے جو قرآن مجید نے دو مقامات پر کیا ہے. سورۂ یونس میں اس سے ذرانیچے ا تر کر‘ جسے برسبیل تنزّل کہا جاتا ہے‘ فرمایا کہ پور ے قرآن کی نظیر نہیں لا سکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑکر لے آؤ! ارشاد ہوا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾ (ھود) 
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن خود گھڑ کر لے آیا ہے؟ (اے نبیؐ ! ان سے ) کہیے پس تم بھی دس سورتیں بنا کر لے آؤ ایسی ہی گھڑی ہوئی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو‘‘.
اس کے بعد دس سے نیچے اتر کر ایک سورۃ کا چیلنج بھی دیا گیا:
اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾ (یونس)
’’کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن خود بنا کر لے آیا ہے؟ (اے نبیؐ !ان سے ) کہیے پس تم بھی ایک سورت بنا کر لے آؤ ایسی ہی اور بلا لو جس کو بلا سکو اللہ کے سوا اگر تم‘سچے ہو‘‘.
یہ چاروں مقامات تو مکی سورتوں میں ہیں. پہلی مدنی سورۃ ’’البقرۃ‘‘ ہے. اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے :
وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثۡلِہٖ ۪ وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾
’’اگر تم لوگوں کو شک ہے اس کلام کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پرنازل کیا ہے (کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے) تو اس جیسی ایک سورۃ تم بھی (موزوں کر کے) لے آؤ اور اپنے تمام مددگاروں کو بلا لو( ان سب کو جمع کر لو) اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو. اور اگر تم ایسا نہ کر سکو‘ اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے‘ تو بچواُس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے‘ یہ منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘.

یہاں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تم سچے نہیں ہو‘ تمہارا دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے‘ لیکن چونکہ تم زبان سے تنقید کر رہے ہو اور جھٹلا رہے ہو تو اگرواقعتا تمہیں شک ہے تو اِس شک کو رفع کرنے کے لیے ہمارا یہ چیلنج موجود ہے.

یہ ہیں قرآن مجید کے معجزہ ہونے کے دو اسلوب. ایک مثبت انداز ہے کہ قرآن گواہ ہے اس پر کہ اے محمد ! آپ اللہ کے رسول ہیں ‘اور دوسرا انداز چیلنج کا ہے کہ اگر تمہیں اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک ہے تو اس جیسا کلام تم بھی بنا کر لے آؤ . 

قرآن کس کس اعتبار سے معجزہ ہے؟
اب اس ضمن میں تیسری ذیلی بحث یہ ہوگی کہ قرآن مجید کس کس اعتبار سے معجزہ ہے. یہ مضمون اتنا وسیع اور اتنا متنو ّع الاطراف ہے کہ ’’وجوہِ اعجاز القرآن‘‘ پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں. ظاہر بات ہے اس وقت اِس کا احاطہ مقصود نہیں ہے‘ صرف موٹی موٹی باتیں ذکر کی جاتی ہیں. 

اصل شے تو اِس کی تأثیر قلب ہے کہ یہ دل کو لگنے والی بات ہے. اس کا اصل اعجاز یہی ہے کہ یہ دل کو جا کر لگتی ہے بشرطیکہ پڑھنے والے کے اندر تعصب‘ ضد اور ہٹ دھرمی نہ ہو اور اسے زبان سے اتنی واقفیت ہو جائے کہ براہِ راست قرآن اس کے دل پر اتر سکے. یہ قرآن کے اعجاز کا اصل پہلو ہے. لیکن اضافی طور پر جان لیجئے کہ جس وقت قرآن نازل ہوا اُس وقت کے اعتبار سے اس کے معجزہ ہونے کا نمایاں اور اہم تر پہلو اِس کی ادبیت‘ اِس کی فصاحت و بلاغت ‘ا س میں الفاظ کا انتخاب‘ بندشیں اور ترکیبیں‘ اس کی مٹھاس اور اس کا صوتی آہنگ ہے. یہ درحقیقت نزول کے وقت قرآن کے معجزہ ہونے کا سب سے نمایاں پہلو ہے.

یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ہر رسول کو اُسی طرز کا معجزہ دیا گیا جن چیزوں کا اُس کے زمانے میں سب سے زیادہ چرچا اور شغف تھا. حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو عام تھا لہذا مقابلے کے لیے آپؑ کو وہ چیزیں دی گئیں جن سے آپؑ جادوگروں کو شکست دے سکیں. حضور نے جس قوم میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اُس قوم کا اصل ذوق قدرتِ کلام تھا. وہ کہتے تھے کہ اصل میں بولنے والے تو ہم ہی ہیں‘ باقی دنیا تو گونگی ہے. ان کی زبان دانی کا یہ عالَم تھا کہ وہ اپنی پسند کی اشیاء کے نام رکھنا شروع کرتے تو ہزاروں نام رکھ دیتے. چنانچہ عربی میں شیر اور تلوار کے لیے پانچ پانچ ہزار الفاظ ہیں. گھوڑے اور اونٹ کے لیے لاتعداد الفاظ ہیں. یہ اُن کی قادر الکلامی ہے کہ کسی شے کو اُس کی ہر ادا کے اعتبار سے نیا نام دے دیتے. گھوڑا اُن کی بڑی محبوب شے ہے‘ لہذا اُس کے نامعلوم کتنے نام ہیں. شعر و شاعری میں ان کے ذوق و شوق کا یہ عالَم تھا کہ اُن کے ہاں سالانہ مقابلے ہوتے تھے تاکہ اس سال کے سب سے بڑے شاعر کا تعین کیا جائے. شعراء اپنے اپنے قصیدے لکھ کر لاتے تھے‘ مقابلہ ہوتا تھا. پھر جب فیصلہ ہوتا تھا کہ کس کا قصیدہ سب پر بازی لے گیاہے تو باقی تمام شعراء اس کی عظمت کے اعتراف کے طور پر اُس کو سجدہ کرتے تھے. پھر وہ قصیدہ خانۂ کعبہ کی دیوارپر لٹکا دیا جاتا تھا کہ یہ ہے اس سال کا قصیدہ. چنانچہ اس طرح کے سات قصیدے خانہ کعبہ میں آویزاں کیے گئے تھے جنہیں ’’سَبْعَۃ مُعَلَّقَۃ‘‘ کہا جاتا تھا. سبعۃ معلقۃ کے آخری شاعر حضرت لبید رضی اللہ عنہ تھے جو ایمان لے آئے. ایمان لانے کے بعد انہوں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا کہ اے لبیدؓ ! اب آپ شعر کیوں نہیں کہتے؟ تو جواب میں انہوں نے بڑا پیارا جملہ کہا کہ ’’اَبَعْدَ الْقُرْآنِ؟‘‘ یعنی کیا قرآن کے نزول کے بعد بھی؟ اب کسی کے لیے کچھ کہنے کا موقع باقی ہے؟ قرآن کے آ جانے کے بعد کوئی اپنی فصاحت و بلاغت کے اظہار کی کوشش کر سکتا ہے؟ گویا زبانیں بند ہو گئیں‘ اُن پرتالے پڑ گئے‘ ملک الشعراء نے شعر کہنے چھوڑ دیے. 

جن لوگوں کی مادری زبان عربی ہے وہ آج بھی قرآن کے اِس اعجاز کو محسوس کر سکتے ہیں. غیرعرب لوگوں کے لیے اس کو محسوس کرنا ممکن نہیں ہے. اگر کوئی اپنی محنت سے عربی ادب کے اندر مولانا علی میاں (۱) کی سی مہارت حاصل کر لے تو وہ واقعتا اس کو محسوس کر سکے گا اور اس کی تحسین کر سکے گا کہ فصاحت و بلاغت میں قرآن کا کیا مقام ہے. ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے‘ البتہ اس کا صوتی آہنگ ہم محسوس کر سکتے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی قراء ت کے اندر ایک معجزانہ تأثیر ہے جو قلب کے اندر عجیب کیفیات پیدا کر دیتی ہے. قرآن کا صوتی آہنگ ہماری فطرت کے تاروں کو چھیڑتا ہے. قرآن کی یہ معجزانہ تأثیر آج بھی ویسی ہے جیسی نزولِ قرآن کے وقت تھی. اس میں مرورِ ایام سے کوئی فرق واقع نہیں ہوا.

قرآن کی فصاحت و بلاغت‘ اس کی ادبیت‘ عذوبت اور اس کے صوتی آہنگ کی معجزانہ تأثیر پر مستزاد عہد حاضر میں قرآن کے اعجاز کے ضمن میں جو چیزیں بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں اُن میں سے ایک چیز تو وہ ہے جس کا قرآن مجید نے بڑے صریح الفاظ میں ذکر کیا ہے :

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ (حمٓ السجدۃ:۵۳)
’’ہم عنقریب انہیں اپنی آیات دکھائیں گے آفاق میں بھی اور اُن کی اپنی جانوں میں بھی یہاں تک کہ یہ بات اُن پر واضح ہو جائے گی کہ یہ قرآن حق ہے.‘‘

اِس آیت مبارکہ میں علمِ انسانی کے دائرہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدید اکتشافات وانکشافات کی طرف اشارہ ہے. یہ آیاتِ آفاقی ہیں. فرانسیسی سرجن ڈاکٹر مورس بکائی کا پہلے بھی حوالہ دیا جا چکا ہے کہ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد اُس نے کہا کہ میرا دل اس پر مطمئن ہو گیا ہے کہ اس قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جسے سائنس نے غلط ثابت کیا ہو. البتہ اُس دَور میں جبکہ انسان کا اپنا ذہنی ظرف وسیع نہیں ہوا تھا‘ علومِ انسانی اور معلوماتِ انسانی کا دائرہ محدود تھا ‘اس وقت سائنسی اشارات کی حامل آیاتِ قرآنیہ کا کیا مفہوم سمجھا گیا‘ وہ بات اور ہے. کلام اللہ ہونے کے اعتبار سے اصل اہمیت تو (۱) مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی جو اب وفات پا چکے ہیں‘ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَـہٗ وَیَرْفَعُ دَرَجَاتِہٖ فِی الْجَنَّۃِ. آمین! قرآن کے الفاظ کو حاصل ہے. ڈاکٹر مورس بکائی نے قرآن کا تورات کے ساتھ تقابل کیا ہے! تورات سے مراد Old Testament ہے. اناجیلِ اربعہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں‘اُن میں تو کئی چیزیں ایسی ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں. اناجیل میں زیادہ تر اخلاقی مواعظ ہیں یا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح حیات ہیں.تورات میں یہ مباحث موجود ہیں کہ کائنات کیسے پیدا ہوئی‘ اللہ نے کیسے اسے بنایا. مختلف سائنسی phenomena اس میں موجود ہیں. 

آپ کو معلوم ہے کہ فزکس میں آج سب سے زیادہ اہم موضوع جس پر تحقیق ہو رہی ہے ‘یہی ہے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی ‘ ابتدائی حالات کیا تھے اور بعد ازاں ان میں کیا تبدیلیاں ہوئیں.ڈاکٹر مورس بکائی نے اس اعتبار سے محسوس کیا کہ تورات میں تو ایسی چیزیں ہیں جو غلط ثابت ہو چکی ہیں. اس لیے کہ اصل تورات تو چھٹی صدی قبل مسیح ہی میں گم ہو گئی تھی. بخت نصر کے حملے میں یروشلم کو تہس نہس کر دیا گیا اور ہیکلِ سلیمانی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی‘ اس کی بنیادیں تک کھود ڈالی گئیں اور یروشلم کے بسنے والے چھ لاکھ کی تعداد میں قتل کر دیے گئے جبکہ بخت نصر چھ لاکھ کو قیدی بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے اپنے ہمراہ بابل لے گیا. چنانچہ یروشلم میں ایک متنفس بھی باقی نہیں رہا. آپ اندازہ کریں‘ اگر یہ اعداد و شمار صحیح ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام سے بھی چھ سو سال قبل یعنی آج سے ۲۶۰۰ برس قبل یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا اور اس شہر پر کیا قیامت گزری ہو گی! اس کے بعد سے وہ اصل تورات دنیا میں نہیں ہے.موسیٰ علیہ السلام کو جو احکامِ عشرہ (Ten Commandments) دیے گئے تھے وہ پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے تھے. یہ تختیاں بھی لاپتہ ہو گئیں اور باقی تورات کا وجود بھی باقی نہ رہا. قرآن حکیم میں ’’صُحُفِ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی‘‘ کا ذکر ہے. موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے پانچ ہیں جو عہد نامۂ قدیم (Old Testament) کی پہلی پانچ کتابیں ہیں.سانحۂ یروشلم کے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد لوگوں نے تورات کو اپنی یادداشتوں سے مرتب کیا. چنانچہ اُس وقت کی نوعِ انسانی کی ذہنی اور علمی سطح جو تھی وہ اِس پر لازمی طور پر اثرانداز ہوئی . ڈاکٹر مورس بکائی کے علاوہ میں ڈاکٹر کیتھ ایل مور کا حوالہ بھی دے چکا ہوں کہ وہ قرآن حکیم میں علمِ جنین سے متعلق اشارات پا کر کس قدر حیران ہوا کہ یہ معلومات چودہ سو برس پہلے کہاں سے آگئیں! فزیکل سائنسز کے مختلف فیلڈ ہیں‘ ان میں جیسے جیسے علمِ انسانی ترقی کرتا جائے گا یہ بات مزید مبرہن ہوتی چلی جائے گی کہ یہ کلام حق ہے اور یہ کلام مظاہرِ طبیعی کے اعتبار سے بھی حق ثابت ہو رہا ہے. یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں.

عہد حاضر کے اعتبار سے قرآن حکیم کے اعجاز کا دوسرا اہم تر پہلو اِس کی ہدایتِ عملی ہے. اس میں انفرادی زندگی سے متعلق بھی مکمل ہدایات ہیں اور انسانی اخلاق و کردار اور انسان کے رویہ کے بارے میں بھی پوری تفصیلات موجود ہیں. انفرادی زندگی سے متعلق یہ تمام چیزیں سابقہ انبیاء کی تعلیمات میں بھی موجود ہیں. یہ اخلاقی اقدار ویسے بھی فطرتِ انسانی کے اندر موجود ہیں. قرآن کا اپنا کہنا ہے : فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس) یعنی نفسِ انسانی کو الہامی طور پر یہ معلوم ہے کہ فجور کیاہیں اورتقویٰ کیا ہے. پرہیزگاری کسے کہتے ہیں اور بدکاری کسے کہتے ہیں. البتہ قرآن حکیم کا اعجاز یہ ہے کہ اس میں عدل و قسط پر مبنی اجتماعی نظام دیا گیا ہے جس میں انتہائی توازن رکھا گیا ہے.
انسان غور کرے تو معلوم ہوگا کہ نوعِ انسانی کو تین بڑے بڑے عقدہ ہائے لاینحل (dilemmas) درپیش ہیں جو توازن کے متقاضی ہیں اور ان میں عدم توازن سے انسانی تمدن فساد اور بگاڑ کا شکار ہے.ان میں پہلا عقدۂ لاینحل یہ ہے کہ مَرد اور عورت کے حقوق و فرائض میں کیا توازن ہے؟ دوسرا یہ کہ سرمایہ اور محنت کے مابین کیا توازن ہے؟ پھر تیسرا یہ کہ فرد اور ریاست یا فرد اور اجتماعیت کے مابین حقوق و فرائض کے اعتبار سے کیا توازن ہے؟ اِن تینوں معاملات میں توازن قائم کرنا انتہائی مشکل ہے. اگر فرد کو ذرا زیادہ آزادی دے دی جاتی ہے تو انارکی (chaos) پھیلتی ہے. آزادی کے نام پر دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے! دوسری طرف اگر فرد کی آزادی پر قدغنیں اور بندشیں لگا دی جائیں تو وہ ردّعمل ہوتا ہے جو کمیونزم کے خلاف ہوا. فطرتِ انسانی اور طبیعتِ انسانی نے یہ قدغنیں قبول نہیں کیں اور اِن کے خلاف بغاوت کی .

عورت اور مرد کے حقوق کے مابین توازن کا معاملہ بھی انتہائی حساس ہے. اس میزان کا پلڑا اگر ذرا سا مَرد کی جانب جھکا دیا جائے تو عورت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی‘ وہ بالکل بھیڑ بکری کی طرح مرد کی مِلکیت بن کر رہ جاتی ہے‘ اس کا کوئی تشخص نہیں رہتا اور وہ مرد کی جوتی کی نوک قرار پاتی ہے. لیکن اگر دوسرا پلڑا ذرا جھکا دیا جائے تو عورت کو جو حیثیت مل جاتی ہے وہ قوموں کی قسمتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے. اس سے خاندانی ادارہ ختم ہوجا تاہے اور گھر کے اندر کا چین اور سکون برباد ہو کر رہ جاتا ہے. اس کی سب سے بڑی مثال سکینڈے نیوین ممالک ہیں. معاشی اور اقتصادی اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ روئے ارضی پر اگر جنت دیکھنی ہو تو اِن ممالک کو دیکھ لیا جائے. وہاں کے شہریوں کی بنیادی ضروریات کس عمدگی کے ساتھ پوری ہو رہی ہیں! وہاں علاج اور تعلیم کی سہولیات سب کے لیے یکساں ہیں اور اس ضمن میں خیرات (charity) پر پلنے والوں اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے مابین کوئی فرق و تفاوت نہیں ہے. لیکن ان ممالک میں مرد اور عورت کے حقوق کے مابین توازن برقرار نہیں رکھا گیا جس کے نتیجے میں خاندان کا ادارہ مضمحل ہوا ‘بلکہ ٹوٹ پھوٹ کرختم ہو گیا اور گھر کا سکون ناپید ہو گیا. چنانچہ آج خود کشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے .اس لیے کہ گھر کا سکون ختم ہو جانے کے باعث اعصاب پرشدید تناؤ ہے.

اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں خاندان کا ادارہ برقرار ہے. اگرچہ یہاں بھی نام نہاد طور پر بہت اونچی سطح کے لوگوں کے ہاں تو وہ صورتیں پیدا ہو گئی ہیں‘ تاہم مجموعی طور پر ہمارے ہاں خاندان کا ادارہ ابھی کافی حد تک محفوظ ہے. اس ضمن میں قرآن مجید میں لفظ ’’سکون‘‘ استعمال ہوا ہے. سورۃ الروم کی آیت ۲۱ ملاحظہ ہو:

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ 
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی نوع سے جوڑے بنائے‘ تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.‘‘

اگر انسان کو یہ سکون نہیں ملتا تو اگرچہ اس کی کھانے پینے کی ضروریات ‘ جنسی تسکین اوردوسری ضروریاتِ زندگی خوب پوری ہو رہی ہوں لیکن زندگی انسان کے لیے جہنم بن جائے گی.

مذکورہ بالا تین عقدہ ہائے لاینحل میں سے معاشیات کا مسئلہ سب سے مشکل ہے. سرمائے کو زیادہ کھل کھیلنے کا موقع دیں گے تو صورت حال ایک انتہا کو پہنچ جائے گی اور مزدور کا بدترین استحصال ہو گا‘ جبکہ مزدور کو زیادہ حقوق دے دیں گے تو سرمائے کو کوئی تحفظ حاصل نہیں رہے گا. اگر نیشنلائزیشن ہو جائے تو لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ ہی نہیں رہتا. آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں نیشنلائزیشن کے بعد کیا ہوا! روس کی اقتصادی موت کی اہم وجہ یہی نیشنلائزیشن تھی. تو اب سرمائے اور محنت میں توازن کے لیے کیا شکل اختیار کی جائے؟ یہ ہے درحقیقت عہد حاضر میں قرآن کی ہدایت کا اہم ترین حصہ! آج اس پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے.فزیکل سائنسز سے قرآن کی حقانیت کے ثبوت خود بخود ملتے چلے جائیں گے.جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے نئے نئے گوشے سامنے آ رہے ہیں اور اِن سے ثابت ہو رہا ہے کہ یہ قرآن حق ہے. لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن حکیم نے عمرانیاتِ انسانیہ اور اجتماعیات مثلاً اقتصادیات‘ سیاسیات اور سماجیات کے ضمن میں جو عدلِ اجتماعی دیا ہے اس کو مبرہن کیا جائے. علامہ اقبال کے یہ دو شعر اسی حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں: 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نور مصطفی اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است!

یعنی دنیا میں جو سوشل انقلاب آیا ہے اس کی ساری چمک دمک اور روشنی یا تو نورِ مصطفی ہی سے مستعار اور ماخوذ ہے یا پھر انسان چار و ناچار حضور کے لائے ہوئے نظام ہی کی طرف بڑھ رہا ہے. وہ دائیں بائیں کی ٹھوکریں اور افراط و تفریط کے دھکے کھا کر لڑکھڑاتا ہوا چاروناچار اسی منزل کی طرف جا رہا ہے جہاں محمدٌ رسول اللہ اور قرآن حکیم نے اسے پہنچایا تھا.

عہدِ حاضر میں اعجازِ قرآن کا مظہر : علامہ اقبال

وجوہِ اعجازِ قرآن کے ضمن میں ایک اہم بات عرض کر رہا ہوں کہ میرے نزدیک عہدِ حاضر میں قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا مظہر علامہ اقبال کی شخصیت ہے. میں نے عرض کیا تھا کہ قرآن حکیم زمان و مکان کے ایک خاص تناظر میں آج سے چودہ سو برس قبل نازل ہوا تھا. اس کے اوّلین مخاطب عرب کے اجڈ‘ دیہاتی‘ بدو اور ناخواندہ لوگ تھے جنہیں قرآن نے ’’اُمِّـیّین‘‘ اور ’’قَوْمًا لُّــدًّا‘‘ قرار دیا ہے. لیکن اِس قرآن نے ان کے اندر بجلی دوڑا دی. اُن کے ذہن‘ قلب اور روح کو متأثر کیا‘ پھر اُن میں ولولہ پیدا کیا‘ ان کے باطن کو منور کیا.ان کی شخصیتوں میں انقلاب آیا اور افراد بدل گئے. پھر انہوں نے ایسی قوت کی حیثیت اختیار کی کہ جس نے دنیا کو ایک نیا تمدن‘ نئی تہذیب اور نئے قوانین دے کر ایک نئے دَور کا آغاز کیا لیکن بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسا ایک شخص جس نے وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا‘ جس نے مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھ لیے‘ جو قدیم اور جدید دونوں کا جامع تھا‘ جو جرمنی اور انگلستان میں جا کر فلسفہ پڑھتا رہا‘ اُس کو اِس قرآن نے اس طرح possess کیا اور اس پر اس طرح اپنی چھاپ قائم کی کہ اس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآن حکیم سے اور اس کی تشنگی ‘ٔ علم کو آسودگی حاصل ہو سکی تو صرف کتاب اللہ سے. گویا بقول خود اُن کے ؎

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں!

میر اایک کتابچہ ’’علامہ اقبال اور ہم‘‘ ایک عرصے سے شائع ہوتا ہے. یہ میری ایک تقریر ہے جو میں نے ایچی سن کالج میں ۱۹۷۳ء میں کی تھی. اس میں مَیں نے علامہ اقبال کے لیے چند اصطلاحات استعمال کی ہیں. ’’اقبال اور قرآن‘‘ کے عنوان سے میں نے علامہ اقبال کو (۱) عظمتِ قرآن کا نشان‘ (۲) واقفِ مرتبہ و مقامِ قرآن‘ اور (۳) داعی الی القرآن کے خطابات دیے ہیں. میں علامہ اقبال کو اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن سمجھتا ہوں. قرآن مجید کے علوم و معارف کی جو تعبیر علامہ اقبال نے کی ہے اس دَور میں کوئی دوسری شخصیت اس کے آس پاس بھی نہیں پہنچی. ان سے لوگوں نے چیزیں مستعار لی ہیں اور پھر اُن کو بڑے پیمانے پر پھیلایا ہے. ان حضرات کی یہ خدمت اپنی جگہ قابل قدر ہے ‘لیکن فکری اعتبار سے وہ تمام چیزیں علامہ اقبال کے ذہن کی پیداوار ہیں.

مذکورہ بالا کتابچے میں مَیں نے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گواہی بھی شائع کی ہے. کئی سال پہلے کاواقعہ ہے کہ مولانا آنکھوں کے آپریشن کے لیے خانقاہ ڈوگراں سے لاہور آئے ہوئے تھے اور آپریشن میں کسی وجہ سے تأخیر ہو رہی تھی. گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے اُن کا لکھنے پڑھنے کا سلسلہ معطل ہو گیا. تاہم فرصت کے اُن ایّام میں مولانا نے علامہ اقبال کا پورا اردو اور فارسی کلام دوبارہ پڑھ لیا. اس کے بعد انہوں نے اس کے بارے میں مجھ سے دو تأ ثر بیان کیے. مولانا کا پہلا تأ ثر تو یہ تھا کہ ’’قرآن حکیم کے بعض مقامات کے بارے میں مجھے کچھ مان سا تھا کہ میں نے ان کی تعبیر جس اسلوب سے کی ہے شاید کوئی اور نہ کر سکے. لیکن علامہ اقبال کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ وہ ان کی تعبیر مجھ سے بہت پہلے اور مجھ سے بہت بہتر کر چکے ہیں!‘‘ مولانا اصلاحی صاحب کا دوسرا تأ ثر یہ تھا کہ ’’اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد میرا دل بیٹھ سا گیا ہے کہ اگر ایسا حُدی خواں اِس اُمت میں پیدا ہوا‘ لیکن یہ اُمت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ہماشما کے کرنے سے کیا ہو گا!‘‘ جو قوم علامہ اقبال کے کلام سے حرکت میں نہیں آئی اسے کون حرکت میں لا سکے گا؟ 

واقعہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن اور سب سے بڑا داعی الی القرآن علامہ اقبال ہے. اس لیے کہ قرآن مجید کی عظمت کا جس گیرائی اور گہرائی کے ساتھ احساس علامہ اقبال کو ہوا ہے میری معلومات کی حد تک (اگرچہ میری معلومات محدود ہیں) اس درجے قرآن کی عظمت کا انکشاف کسی اور انسان پر نہیں ہوا. جب وہ قرآن مجید کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اُن کی دید اور اُن کا تجربہ ہے‘ کیونکہ جس انداز سے وہ بات بیان کرتے ہیں وہ تکلف اور آورد سے ماورا انداز ہوتا ہے. ملاحظہ کیجیے کہ علامہ اقبال قرآن مجید کے بارے میں کیا کہتے ہیں: ؎ 

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اُو لا یزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ اُو را ریب نے ‘ تبدیل نے
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویا است ایں
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود!
’’وہ زندہ کتاب‘ قرآن حکیم ‘ جس کی حکمت لازوال بھی ہے اور قدیم بھی!

زندگی کے وجود میں آنے کا خزینہ‘ جس کی حیات افروز اور قوت بخش تأثیر سے بے ثبات بھی ثبات و دوام حاصل کر سکتے ہیں.

اس کے الفاظ میں نہ کسی شک و شبہ کا شائبہ ہے نہ ردّ و بدل کی گنجائش. اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں. (اس کتاب کے بارے میں) جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں کچھ اور ہی شے ہے!

یہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ (کا کلام ہے لہذا اسی) کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی‘ اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی!

(یہ کتابِ حکیم) جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے تو اُس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے ‘ اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آ جاتی ہے‘‘.

قرآن حکیم کے بارے میں مزید لکھتے ہیں: ؎ 

صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست
عصر ہا پیچیدہ در آناتِ اوست! 

’’اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہان آباد ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود ہیں‘‘.(گویا ہر زمانے میں یہ قرآن ایک نئی شان اور نئی آن بان کے ساتھ دنیا میں آیا ہے اور آتا رہے گا.)

اب آپ علامہ اقبال کے تین اشعار ملاحظہ کیجیے جو انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مناجات کرتے ہوئے کہے. اِن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ انہیں کتنا یقین تھا کہ میرے فکر کا منبع قرآن حکیم ہے. چنانچہ ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ کے آخر میں ’’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃٌ لّلعالمینؐ ‘‘ کے ذیل میں یہاں تک لکھ دیا کہ : ؎

گر دِلم آئینۂ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن!
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا!
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا!

’’اگر میرے دل کی مثال اس آئینے کی سی ہے جس میں کوئی جوہر ہی نہ ہو‘ اور اگر میرے کلام میں قرآن کے سوا کسی اور شے کی ترجمانی ہے‘ تو (اے نبیﷺ !) آپ میرے ناموسِ فکر کا پردہ خود چاک فرما دیں اور اس چمن کو مجھ ایسے خار سے پاک کر دیں. (مزید برآں) حشر کے دن مجھے خوار و رسواکردیں اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) مجھے اپنی قدم بوسی کی سعادت سے محروم فرمادیں!‘‘

میں نے اپنی امکانی حد تک قرآن حکیم کا پور ی باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے اور اس پر غور و فکر اور سوچ بچار کیا ہے. میں نے علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام بھی پڑھا ہے.اس کے بعد میں نے یہ بات ریکارڈ کرانی ضروری سمجھی ہے کہ علامہ اقبال کے بارے میں مَیں نے جو بات ۱۹۷۳ء میں کہی تھی آج بھی میں اسی بات پر قائم ہوں کہ ’’اس دَور میں عظمتِ قرآن اور مرتبہ و مقامِ قرآن کا انکشاف جس شدت کے ساتھ اور جس درجہ میں علامہ اقبال پر ہوا شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو‘‘. اور یہ کہ میرے نزدیک اس دَور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن اور داعی الی القرآن اقبال ہے . علامہ اقبال مسلمانوں کی قرآن سے دُوری پر مرثیہ کہتے ہیں : ؎ 

جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مؤمن کا دیں!

مسلمانوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ؎ 

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسینِ او آساں بمیری!

’’اس قرآن کے ساتھ تمہارا اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں رہا کہ تم کسی شخص کو عالمِ نزع میں اِس کی سورۂ یٰسٓ سنا دو ‘تاکہ اس کی جان آسانی سے نکل جائے.‘‘

ہمارے ہاں صوفی اور واعظ حضرات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی مجالس اور اپنے وعظ کے لیے کچھ اور چیزوں کو منتخب کر لیا ہے‘ تو اس پر اقبال نے کس قدر دردناک مرثیے کہے ہیں اور کس قدر صحیح نقشہ کھینچا ہے : ؎ 

صوفی ٔ پشمینہ پوشِ حال مست
از شرابِ نغمۂ قوال مست
آتش از شعرِ عراقی ؔ در دلش
در نمی سازد بقرآں محفلش 

اور ؎ 

واعظِ دستاں زن و افسانہ بند
معنی ٔ اُو پست و حرفِ اُو بلند
از خطیب و دیلمی گفتارِ او
با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ اُو! 

’’ادنی ٰ لباس میں ملبوس اور اپنے حال میں مست صوفی قو ال کے نغمے کی شراب ہی سے مدہوش ہے. اس کے دل میں عراقی ؔ کے کسی شعر سے تو آگ سی لگ جاتی ہے لیکن اس کی محفل میں قرآن کا کہیں گزر نہیں!

(دوسری طرف) واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ بھی خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھ دیتا ہے اور اس کے الفاظ بھی پُرشکوہ اور بلند و بالا ہیں‘ لیکن معنی کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے! اس کی ساری گفتگو (بجائے قرآن کے) یا تو خطیب بغدادی سے ماخوذ ہوتی ہے یا امام دیلمی سے‘ اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف ‘ شاذ اور مرسل حدیثوں سے رہ گیا ہے!‘‘

علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال و اضمحلال کا اور اُمت مسلمہ کے نکبت و افلاس اور ذلت وخواری کا اصل سبب قرآن سے دُوری اور کتابِ الٰہی سے بُعد ہی ہے. چنانچہ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے : ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

بعد میں اسی مضمون کا اعادہ علامہ مرحوم نے فارسی میں نہایت پُرشکوہ الفاظ اور حد درجہ درد انگیز اور حسرت آمیز پیرائے میں یوں کیا: ؎ 

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ! 

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے! اے وہ قوم کہ جو شبنم کے مانند زمین پر بکھری ہوئی ہے (اور پاؤں تلے روندی جا رہی ہے) !اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتابِ زندہ موجود ہے (جس کے ذریعے تو دوبارہ بامِ عروج پر پہنچ سکتی ہے).‘‘

میں اپنا یہ تا ٔثر ایک بار پھر دہرا رہا ہوں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کی عظمت جس درجہ اُن پر منکشف ہوئی تھی‘ میں اپنی محدود معلومات کی حد تک کہنے کو تیار ہوں کہ وہ مجھے کہیں اور نظر نہیں آتی. میرے نزدیک علامہ اقبال دورِ حاضر میں اعجازِ قرآن کا ایک عظیم مظہر ہیں.