قرآن ’’حبلُ اللہ‘‘ ہے!

جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن ’’حبلُ اللّٰہ‘‘ ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟ ’’حَبْل‘‘ کے ایک معنی رسّی کے ہیں اور یہی اصل معنی ہیں. سورۃ اللّھب میں یہ لفظ آیا ہے : حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ ٪﴿۵﴾ یعنی مونج کی بٹی ہوئی رسّی. امام راغبؒ نے اس کی تعبیر کی ہے : ’’استعیر للوصل ولکل ما یتوسل بہ الی شی ء‘‘یعنی کسی شے سے جڑنے کے لیے اور جس شے سے جڑا جائے اس کے لیے استعارۃً یہ لفظ استعمال ہوتا ہے. عہد‘ قول و قرار اورمیثاق دو فریقوں کو باہم جوڑ دیتا ہے. چنانچہ یہ لفظ عہد کے معنی میں بھی آتا ہے‘اور قرآن حکیم میں یہ ایسے عہد کے لیے آیا ہے جس سے کسی کو امن مل رہا ہو‘ حفاظت اور امان حاصل ہو رہی ہو. سورۂ آل عمران (آیت ۱۱۲) میں یہود کے بارے میں ارشاد ہوا :

ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ

’’یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی‘ سوائے اس کے کہ کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی. یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں‘ ان پر محتاجی اور کم ہمتی مسلط کر دی گئی ہے.‘‘

گویا خود اپنے بل پر‘ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر‘ خود مختاری کی اساس پر اُن کے لیے عزت کا معاملہ اس دنیا میں نہیں ہے. یہ قرآن مجید کی پیشین گوئی ہے اور موجودہ ریاست اسرائیل اس کا واضح ثبوت ہے. امریکہ اگر ایک دن کے لیے بھی اپنی حفاظت ہٹا لے تو اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہے گا. 
قرآن مجید میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے : وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا (آل عمران:۱۰۳’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو سب مل کر‘‘.البتہ ’’حبلُ اللّٰہ ‘‘ کیا ہے؟ قرآن میں اس کی صراحت نہیں ہے. اور قرآن مجید میں جو بات پوری طرح واضح نہ ہو‘ مجمل ہو‘ اس کی تشریح اور تبیین رسول اللہ کا فرضِ منصبی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی : وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل:۴۴’’اور ہم نے (اے نبیؐ ) آپ کی طرف’ الذکر‘ نازل کیا‘ تاکہ جو چیز اُن کے لیے اتاری گئی ہے آپ اسے ان پر واضح کریں‘‘. چنانچہ احادیث نبویؐ میں یہ صراحت موجود ہے کہ ’’حبلُ اللّٰہ ‘‘ قرآن مجید ہے. صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَلَا وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ ‘ اَحَدُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ …
’’ آ گاہ رہو! میں تمہارے مابین دو خزانے چھوڑے جا رہا ہوں‘ اُن میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے‘ وہی حبل ُ اللہ ہے…‘‘

قرآن حکیم کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے‘جس میں الفا ظ آئے ہیں: 
ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ’’یہ (قرآن) ہی اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘‘. یہ روایت سنن ترمذی اور سنن دارمی میں موجود ہے. مزید برآں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو روایت رزین میں آئی ہے اس میں بھی یہی الفاظ ہیں: ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ’’یہ (قرآن) ہی اللہ کی مضبوط رسی ہے‘‘. سنن دارمی میں حضرت عبداللہ ا بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: اِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ حَبْلُ اللّٰہِ وَالنُّوْرُالْمُبِیْنُ ’’یقینا یہ قرآن حبل ُاللہ اور نورِ مبین ہے‘‘.

قرآن کو ’’رسّی‘‘ کس اعتبار سے کہا گیا ہے ‘اس کے دو پہلو ہیں. ایک تو بندہ اس رسّی کے ذریعے اللہ سے جڑتا ہے. یہ رسی ہمیں اللہ سے جوڑنے والی ہے. ’’تعلق مع اللہ‘‘ اور ’’تقرب الی اللہ‘‘ دونوں تصوف کی اصطلاحیں ہیں. تعلق کے معنی ہیں لٹک 
جانا. ’’علق‘‘ لٹکی ہوئی شے کو کہتے ہیں. ’’تعلق مع اللہ‘‘ کا مفہوم ہو گا اللہ سے لٹک جانا‘یعنی اللہ سے چمٹ جانا‘ اللہ کے ساتھ جڑ جانا. اسی طرح ’’تقرب الی اللہ‘‘ کا مطلب ہے اللہ سے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرنا. سلوک اور طریقت کا مقصد یہی ہے.تعلق مع اللہ میں اضافے اور تقرب الی اللہ کا مؤ ثر ترین اور سہل ترین ذریعہ قرآن حکیم ہے. 

اس اعتبار سے دو حدیثیں ملاحظہ کیجیے. ایک کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں: 
اَ لْقُرْآنُ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ’’یہ قرآن اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے‘‘.یہی الفاظ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی روایت کیے گئے ہیں. یعنی اگر اللہ سے جڑنا ہے‘ اللہ سے تعلق قائم کرنا ہے تو اس قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو‘ اس سے تم اللہ سے جڑ جاؤ گے‘ اللہ کا قرب حاصل کر لو گے.

دوسری معجم کبیر طبرانی کی بڑی پیاری روایت ہے. اس میں اِن الفاظ میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ حضور اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو آپؐ نے مسجد کے گوشے میں دیکھا کہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآ ن کا مذاکرہ کر رہے تھے‘ قرآن کو سمجھ اور سمجھا رہے تھے. حضور ان کے پاس تشریف لائے اور بڑا پیارا سوال کیا:
 أَلَسْتُمْ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ؟ ’’کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہ کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا: ’’بَلیٰ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !‘‘ یعنی ’’کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ‘‘ہم اس کے گواہ ہیں! اس پر آپ نے فرمایا: فَاسْتَبْشِرُوْا فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ طَرَفُــہٗ بِاَیْدِیْکُمْ وَطَرَفُــہٗ بِیَدِ اللّٰہِ ’’پس تم خوشیاں مناؤ ‘ اس لیے کہ یہ قرآن وہ شے ہے جس کا ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے اور دوسراسرا اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘. اِن احادیث مبارکہ سے ’’حبل ُاللہ‘‘ کا یہ تصور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ جوڑنے والی شے ہے . 

ابھی ہم نے جس حدیث کا مطالعہ کیا اس میں قرآن حکیم کے لیے ’’جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ کہ یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے. مستدرک حاکم اور مراسیل ابی داؤد میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ کی یہ حدیث نقل ہوئی ہے: اِنَّـکُمْ لَا تَرْجِعُوْنَ اِلَی اللّٰہِ بِشَیْ ءٍ اَفْضَلَ مِمَّا خَرَجَ مِنْہُ یَعْنِی الْقُرْآنَ یعنی تم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے یہاں تقرب اس چیز سے بڑھ کر کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتے جو خود اُسی (اللہ تعالیٰ) سے نکلی ہے‘ یعنی قرآن مجید.درحقیقت قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے‘ تو اس سے بڑھ کر قریب ہونے کا کوئی اور ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا. چنانچہ جب کوئی شخص قرآن پڑھتا ہے تو گویا وہ اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے. حضرت عبداللہ بن مبارکؒ تبع تابعین کے دَور کی شخصیت ہیں. انہوں نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ سال میں چھ مہینے سرحدوں پر جہاد میں شریک ہوتے. اُس دَور میں دارالاسلام کی سرحدیں بڑھ رہی تھیں اور اس کے لیے جہاد جاری تھا. جبکہ چھ مہینے آپؒ گھر پر گزارتے اور اِس عرصے میں لوگوں سے ملنے جلنے سے حتی الامکان گریز کرتے. صرف نمازباجماعت کے لیے مسجد میں آتے‘ باقی وقت گھر پر ہی رہتے. کسی نے کہا کہ عبداللہ! آپ تنہائی پسند ہو گئے ہیں‘ تنہائی سے آپ کی طبیعت اکتاتی نہیں؟انہوں نے فرمایا: ’’کیا تم اُس شخص کو تنہا سمجھتے ہو جو اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے اور رسول اللہ کی صحبت سے فیض یاب ہوتا ہے؟‘‘ لوگ حیران ہوئے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں. جب اس کی وضاحت طلب کی گئی تو فرمایا کہ دیکھو جب میں اکیلاہوتا ہوں تو قرآن پڑھتا ہوں یا حدیث پڑھتا ہوں. جب قرآن پڑھتا ہوں تو اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں اور جب حدیث پڑھتا ہوں تو رسول اللہ کی صحبت سے فیض یاب ہوتا ہوں. تم مجھے تنہا نہ سمجھو ؎

دیوانۂ چمن کی سیریں نہیں ہیں تنہا
عالم ہے اِن گلوں میں‘ پھولوں میں بستیاں ہیں!

مسند احمد ‘ ترمذی‘ ابوداؤد‘ نسائی‘ ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت عبداللہ بن 
عمرو رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نبویؐ منقول ہے:

یُـقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَاِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَأُھَا 

’’(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن شریف پڑھتا جا اور (جنت کے درجات پر) چڑھتا جا‘ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا. پس تیرا مقام وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے‘‘.

لیکن واضح رہے کہ صاحب قرآن سے مراد صرف حافظ قرآن یا ہمارے ہاں پائے جانے والے قاری نہیں ہیں‘ بلکہ وہ حافظ اور قاری مراد ہیں جو قرآن کے علم و حکمت سے بھی واقف ہیں‘ اس کو پڑھتے بھی ہیں اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں. جنت میں اس قرآن کے ذریعے ان کے درجات میں ترقی ہوتی چلی جائے گی اور ان کا آخری مقام وہاں معین ہو گا جہاں ان کا سرمایۂ قرآن ختم ہو گا.تو واقعہ یہ ہے کہ تقرب الی اللہ اور وصل الی اللہ کا مؤثر ترین ذریعہ قرآن حکیم ہی ہے. میں نے اسی لیے امام راغبؒ کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا کہ ’’حبل‘‘ کا لفظ وصل کے لیے استعارۃً استعمال ہوتا ہے اور یہ ہر اُس شے کے لیے استعمال ہوگا جس کے ذریعے کسی شے کے ساتھ جڑا جائے. اس معنی میں حبل اللہ قرآن مجید ہے.

اگر پیرا شوٹ کی مثال سامنے رکھیں تو جملہ ایمانیات اس قرآن کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح پیرا شوٹ کی چھتری کی رسیاں نیچے آ کر ایک جگہ جڑ جاتی ہیں. جب پیرا شوٹ کھلتا ہے تو اس کی چھتری کس قدر وسیع ہوتی ہے ‘ لیکن اس کی ساری رسیاں ایک جگہ آ کر جڑی ہوئی ہوتی ہیں.بالفاظِ دیگر ایمانیات کے جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب کے سب قرآن کے ساتھ منسلک ہیں. چنانچہ قرآن پر یہ یقین مطلوب ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے‘ بلکہ اس کا منبع اور سرچشمہ وہی ہے جو میری روح کا منبع اور سرچشمہ ہے. یہ کلام بھی ذاتِ باری تعالیٰ ہی سے صادر ہوا ہے اور میری روح بھی اللہ ہی کے امرِ کُن کا ظہور ہے. اس انداز سے قرآن پر یقین‘ اللہ تعالیٰ پر یقین اور قرآن لانے 

والے محمد رسول اللہ پر یقین مطلوب ہے. (’’حقیقت ایمان‘‘ کے موضوع پر میری پانچ تقاریر میں یہ مضمون آ چکا ہے).

ایک ایمان تو تقلیدی ہے‘ یعنی غیر شعوری ایمان‘ کہ ایک یقین کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے‘ چاہے وہ علیٰ وجہ البصیرت نہ ہو‘ اور وہ بھی بہت بڑی دولت ہے‘ لیکن اس سے کہیں زیادہ قیمتی ایمان وہ ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو. ازروئے الفاظ قرآنی :

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ (یوسف:۱۰۸’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے ‘ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں سمجھ بوجھ کر اور جو میرے ساتھ ہیں (وہ بھی)‘‘. علیٰ وجہ البصیرت ایمان یعنی شعوری ایمان ‘ اکتسابی ایمان اور حقیقی ایمان کا واحد منبع اور سرچشمہ قرآن حکیم ہے. مولانا ظفر علی خان بہت ہی سادہ الفاظ میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کر گئے ہیں : ؎

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں!

عاقل یعنی غور و فکر کرنے والے اور سوچ بچار کرنے والے کے لیے ایمان کا منبع و سرچشمہ صرف قرآنِ حکیم ہے. 

قرآن حکیم کے 
’’حبل اللّٰہ‘‘ ہونے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل ایمان کو جوڑنے والی رسّی ‘ ان کو باہم ایک دوسرے سے باندھ دینے والی شے‘ ان کو بنیانِ مرصوص بنانے والی چیز یہ قرآن ہے. اس لیے کہ قرآن حکیم میں جہاں اللہ کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم آیا ہے وہاں اس کے ساتھ ہی باہم متفرق ہونے سے روکا گیا ہے. فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ’’اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسّی کو سب مل جل کر اور تفرقہ مت ڈالو!‘‘اہل ایمان کو جوڑنے والی اور بنیانِ مرصوص بنانے والی رسی یہی قرآن حکیم ہے.اس لیے کہ انسانی اتحاد وہی مستحکم اور پائیدار ہو گا جو فکر و نظر کی ہم آہنگی کے ساتھ ہو. بہت سے اتحاد و قتی طور پر وجود میں آجاتے ہیں. جیسے کچھ سیاسی مصلحتیں ہیں تو اتحاد قائم کر لیا‘ کوئی دنیاوی مفادات ہیں تو ان کی بنا پر اتحاد قائم کر لیا. یہ اتحاد حقیقی نہیں ہوتے اور نہ ہی پائیدار اور مستحکم ہوتے ہیں. انسان حیوانِ عاقل ہے. یہ سوچتا ہے‘ غور کرتا ہے‘ اس کے نظریات ہیں‘ اس کے کچھ اہداف و مقاصد ہیں‘ کوئی نصب العین ہے. نظریات‘ مقاصد اور نصب العین کا بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے. تو جب تک ان میں ہم آہنگی نہ ہو کوئی اتحاد پائیدار اور مستحکم نہیں ہو گا. اس اعتبار سے اللہ کی اس رسّی کو مضبوطی سے تھامو گے تو گویا دو رشتے قائم ہو گئے. ایک رشتہ اہل ایمان کا اللہ کے ساتھ اور ایک رشتہ اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ.جیسے کُل شریعت کو تعبیر کیا جاتا ہے کہ شریعت نام ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا. اللہ کے ساتھ جوڑنے والی سب سے بڑی عبادت نماز ہے اور بندوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے والی شے زکوٰۃ ہے. اسی طرح حبل اللہ ایک طرف اہل ایمان کو اللہ سے جوڑ رہی ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو آپس میں جوڑ رہی ہے. یہ انہیں بنیانِ مرصوص اور ’’کَجَسَدٍ وَّاحِدٍ‘‘ بنا دینے والی شے ہے.یہی وہ بات ہے جسے علامہ اقبال نے انتہائی خوبصورتی سے کہا ہے : ؎ 

از یک آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملت ز قرآں زندہ است
ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کُن کہ حبل اللہ اوست!

’’وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسدِ ظاہری میں روح ِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے. ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے. لہذا اے مسلمان! تو قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کہ ’حبل اللہ‘ یہی ہے‘‘.

حبل اللہ کے بارے میں مفسرین کے ہاں بہت سے اقوال ملتے ہیں کہ حبل اللہ سے مراد قرآن ہے‘ کلمہ طیبہ ہے‘ اسلام ہے. یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن احادیث نبویؐ کی روشنی میں اس کا مصداقِ کامل قرآن ہی ہے. اور پھر اس کی جس قدر عمدہ تعبیر علامہ اقبال نے کی ہے‘ یہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی میرے 
نزدیک بہت عمدہ مقام ہے: ؎ 

ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست! 

نوٹ کیجیے کہ قرآن مجید میں وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا کے الفاظ کے بعد فرمایا گیا ہے : وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا (آل عمران: ۱۰۳’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو کہ جب تم باہم دشمن تھے ‘ پھر اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا تو تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے‘‘.یہ قرآن مجید ہی ہے جو اہل ایمان کے دلوں کو جوڑتا اور ان کو باہم پیوست کرتا ہے‘ اور یہ دلی تعلق اور دلی ہم آہنگی ہی ہے جو مسلمانوں کو بنیانِ مرصوص بنانے والی شے ہے. 

مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق

تعارفِ قرآن کے ضمن میں جو کچھ میں نے عرض کیا ان سب باتوں کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے وہ کیا ہے؟ یعنی قرآن حکیم کے بارے میں مجھ پر اور آپ پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس کے اعتبار سے میں خاص طور پر اپنی کتاب ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہماری تحریک رجوع الی القرآن کے لیے دو بنیادوں میں سے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے. ہماری اس تحریک کا آغاز ۱۹۶۵ء سے ہوا تھا. ابتدائی چھ سات سال تو میں تنہا تھا. نہ کوئی انجمن تھی‘ نہ کوئی ادارہ‘ نہ جماعت. پھر انجمن خدام القرآن قائم ہوئی‘ پھر۱۹۷۶ء میں قرآن اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھا گیا. قرآن اکیڈمی کی تعمیرات مکمل ہونے کے بعد پھر اسی کے بطن سے قرآن کالج کی ولادت ہوئی‘ جس کے سر پر قرآن آڈیٹوریم کا تاج سجا ہوا ہے. اس پوری جدوجہد کی بنیاد اور اساس دو کتابچے ہیں: (۱) ’’اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کرنے کا اصل کام‘‘. یہ مضمون میں نے ۱۹۶۷ء میں میثاق کے اداریے کے طور پر لکھا تھا . (۲) ’’مسلمانوں پر قرآن مجیدکے حقوق‘‘. یہ کتابچہ میری دو تقریروں پر مشتمل ہے جو میں نے ۱۹۶۸ء میں کی تھیں. 

اس کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے میں جشن خیبر اور جشن مہران وغیرہ جیسے مختلف عنوانات سے جشن منائے جا رہے تھے‘ جن میں راگ رنگ کی محفلیں بھی ہوتی تھیں . صدر ایوب خان کا زمانہ تھا. اگرچہ شکست و ریخت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے‘ لیکن ’’سب اچھا ہے ‘‘کے اظہار کے لیے یہ شاندار تقریبات منعقد کی جارہی تھیں. یہ گویا اُن کے دورِ حکومت کی آخری بھڑک تھی‘ جیسے بجھنے سے پہلے چراغ بھڑکتا ہے.
علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے: ؏ ’’مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے!‘‘ لیکن اُن دنوں ذکر و فکر کی بجائے لوگوں کو راگ رنگ کی محفلوں میں مست رکھنے کا اہتمام ہو رہا تھا. اسی زمانے میں مذہبی لوگوں کو رشوت کے طور پر ’’جشنِ نزولِ قرآن‘‘ عطا کیا گیا کہ تم بھی جشن مناؤ اور اپنا ذوق و شوق پورا کرلو. چنانچہ چودہ سو سالہ ’’جشنِ نزولِ قرآن‘‘ کا انعقاد ہوا. اس کے ضمن میں قراء ت کی بڑی بڑی محفلیں منعقد ہوئیں‘ جن میں پوری دنیا سے قراء حضرات شریک ہوئے. اسی سلسلے میں سونے کے تار سے قرآن لکھنے کا پروجیکٹ شروع ہوا. 

اُس وقت میرا ذہن منتقل ہوا کہ کیا قرآن حکیم کا ہم پر یہی حق ہے؟ کیا اپنے ان کاموں سے ہم قرآن مجید کا حق ادا کر رہے ہیں؟چنانچہ میں نے مسجد خضراء سمن آباد میں اپنے دو خطاباتِ جمعہ میں مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق بیان کیے کہ ہر مسلمان پر حسب استعداد قرآن مجید کے پانچ حق عائد ہوتے ہیں:

۱) اسے مانے جیسا کہ ماننے کا حق ہے . (ایمان و تعظیم)
۲) اسے پڑھے جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے . (تلاوت و ترتیل)
۳) اسے سمجھے جیسا کہ سمجھنے کا حق ہے . (تذکر و تدبر)
۴) اس پر عمل کرے جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے. (حکم وا قامت)

انفرادی زندگی میں حکم بالقرآن یہ ہے کہ ہماری ہر رائے اور ہر فیصلہ قرآن پر مبنی ہو. اور اجتماعی زندگی میں قرآن پر عمل کی صورت 
اقامت ما انزل من اللّٰہ یعنی قرآن کے عطا کردہ نظامِ عدلِ اجتماعی کو قائم کرنا ہے. قرآن حکیم میں ارشاد ہے :

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (المائدۃ:۶۸)
’’اے کتاب والو! تمہارا کوئی مقام نہیں جب تک کہ تم قائم نہ کرو تورات اور انجیل کو اور جو کچھ تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے تمہارے ربّ کی طرف سے‘‘.

۵) قرآن کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اسے پھیلانا اور عام کرنا. (تبلیغ و تبیین)

ان پانچ عنوانات کے تحت الحمد للہ ثم الحمد للہ یہ بہت جامع کتابچہ مرتب ہوا اور بلامبالغہ یہ لاکھوں کی تعداد میں چھپا ہے. پھر انگریزی ‘ عربی‘ فارسی‘پشتو‘ تامل‘ ملیشیا کی زبان اور سندھی میں اس کے تراجم ہوئے. جو حضرات بھی ہماری اس تحریک رجوع الی القرآن سے کچھ دلچسپی رکھتے ہیں‘ میرے دروس میں شریک ہوتے ہیں یا ہمارے لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں میرا ناصحانہ مشورہ ہے کہ اس کتابچے کا مطالعہ ضرور کریں. یہ درحقیقت ’’تعارفِ قرآن‘‘ پر میرے خطابات کا لازمی نتیجہ اور ان کا ضروری تکملہ ہے.

یہ بھی جان لیجیے کہ اگر ہم یہ حقوق ادا نہیں کرتے تو ازروئے قرآن ہماری حیثیت کیا ہے. قرآن مجید کے حقوق کو ادا نہ کرنا قرآن کو ترک کر دینے کے مترادف ہے. سورۃ الفرقان میں محمد رسول اللہ کی فریاد نقل ہوئی ہے :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
’’اور پیغمبر کہے گا کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا.‘‘

مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اس آیت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھا ہے : 

’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘ اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قراء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں‘‘. 
بحیثیت مسلمان ہم پر قرآن مجید کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں‘ اگر انہیں ہم ادا نہیں کر رہے تو حضور کے اس قول اور فریاد کا اطلاق ہم پر بھی ہو گا. گویا کہ حضور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارے خلاف مدعی کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے.

علامہ اقبال اسی آیت قرآنی کی طرف اپنے اس شعر میں اشارہ کرتے ہیں : ؎

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی!

’’(اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہو گیا ہے‘ لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!‘‘
قرآن مجید میں دو مقامات پر قرآن کے حقوق ادا نہ کرنے کو قرآن کی تکذیب قرار دیا گیا ہے. آپ لاکھ سمجھیں کہ آپ قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں‘ لیکن اگر آپ اس کے حقوق کی ادائیگی اپنی استعداد کے مطابق‘ اپنی امکانی حد تک نہیں کر رہے تو درحقیقت قرآن کو جھٹلا رہے ہیں. سابقہ اُمت مسلمہ یعنی یہود کے بارے میں سورۃ الجمعہ میں یہ الفاظ آئے ہیں:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ 
’’مثال ان لوگوں کی جو حاملِ تورات بنائے گئے‘ پھر انہوں نے اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اُس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو. بُری مثال ہے اُس قوم کی جس نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا. اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

ہمیں کانپنا چاہیے‘ لرزنا چاہیے کہ کہیں ہمارا شمار بھی انہی لوگوں میں نہ ہو جائے .
اس ضمن میں دوسرا مقام سورۃ الواقعہ کے تیسرے رکوع کی ابتدائی آیات ہیں: 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ 

’’پس نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی‘ اور اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے‘ کہ یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے‘ ایک محفوظ کتاب میں ثبت‘ جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا. یہ ربّ العالمین کا نازل کردہ ہے. پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو‘ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو؟‘‘

اس قرآن ‘ اس عظمت والی کتاب‘ جو کتاب کریم ہے‘ کتاب مکنون ہے‘ کے بارے میں تمہاری یہ سستی‘ تمہاری یہ کسل مندی‘ تمہاری یہ ناقدری اور تمہارا یہ عملی تعطل کہ تم اسے جھٹلا رہے ہو! تم نے اپنا حصہ اور نصیب یہ بنا لیا ہے کہ تم اس کی تکذیب کر رہے ہو؟ تکذیب اس معنی میں بھی کہ قرآن کا انکار کیا جائے‘ اسے اللہ کا کلام نہ مانا جائے اور تکذیب عملی کے ضمن میں وہ چیز بھی اس کے تابع اور شامل ہو گی جو میں بیان کر چکا ہوں. یعنی حاملِ کتابِ الٰہی ہونے کے باوجود اس کی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجام سے محفوظ رکھے کہ ہم بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں. ہم میں سے ہر شخص کو ان حقوق کے ادا کرنے کی اپنی امکانی حد تک بھرپور کوشش کرنی چاہیے. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلماتoo