عظمت ِقرآن قرآن و حدیث کے آئینے میں

۱۲/نومبر۲۰۰۴ء کا خطاب جمعہ عظمت ِقرآن


نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ (صٓ) 

رمضان المبارک کا دوگونہ پروگرام اور اس کا حاصل

رمضان المبارک کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کا اصل تحفہ قرآن حکیم ہے. ازروئے الفاظ قرآنی : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا‘‘. اس میں جو دو عبادات رکھی گئیں‘ ان میں سے ایک کو فرض قرار دیا گیا اور ایک کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا. رمضان میں دن کا روزہ فرض قرار دیا گیا‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے رات کا قیام بندے کی مرضی پر چھوڑ دیا. رسول اللہ نے رمضان کی راتوں میں قیام اللیل کی بہت زیادہ ترغیب دلائی . چنانچہ احادیث میں دن کے روزے اور رات کے قیام کا ذکر بالکل متوازی طور پر ہوا ہے. حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی متفق علیہ حدیث ہے :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَــــــــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ‘ وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لـَـــــــــــہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ 
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے گئے‘ اورجس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور خود احتسابی کی کیفیت کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے.‘‘

حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ‘ یَقُوْلُ الصِّیَامُ : اَیْ رَبِّ اِنِّیْ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ‘ وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ : مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ ‘ فَیُشَفَّعَانِ (رواہ احمد والطبرانی والبیھقی ) 

’’روزہ اور قرآن بندے کے حق میں شفاعت کریں گے. روزہ کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے سے اور اپنی خواہشاتِ نفس پوری کرنے سے روکے رکھا‘ تو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما! قرآن کہے گا: پروردگار! میں نے تیرے اِس بندے کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا‘ تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما! پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی.‘‘

رات کو جاگنا درحقیقت جو مطلوب ہے وہ کم سے کم تہائی رات ہے. ورنہ آدھی رات یا دو تہائی رات قیام کیا جائے‘ جیسا کہ سورۃ المزمل کی ابتدائی آیات میں رسول اللہ کو حکم دیا گیا. لیکن یہ کام ہر شخص کے لیے ممکن نہیں ہے. مزدور اور کاشت کار جو دن بھر محنت کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ رات کا قیام فرض نہیں کیا گیا. البتہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں تراویح کا نظام جاری کر دیا کہ نمازِ عشاء کے ساتھ متصلاً بیس رکعت میں لوگ ایک پارے کے لگ بھگ قرآن سن لیں‘ تاکہ ہر مسلمان اس مہینے میں قرآن میں سے گزر جائے. ان لوگوں کا تو معاملہ یہ تھا کہ ان کی اپنی زبان عربی تھی اور ان کے لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے اس کا سننا ہی کافی تھا.وہ براہِ راست ان کے ذہن و قلب میں سرایت کر جاتا تھا.سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۸۵ میں رمضان المبارک کے پورے پروگرام کا حاصل بایں الفاظ بیان کر دیاگیا: 
وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۱۸۵﴾ ’’اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت بخشی اور تاکہ شکر کرو‘‘. یعنی قرآن جیسی نعمت جو ہم نے تمہیں عطا کی ہے‘ اس کا شکر اسی مناسبت سے ادا کر سکو.میں نے بارہا مثال دی ہے کہ کسی بچے کے ہاتھ پر اگرہیرا رکھ دیجیے تو اس کے اندر کوئی جذبۂ تشکر پیدا نہیں ہو گا. وہ تو سمجھے گا کہ یہ کانچ کا کوئی ٹکڑا ہے جو میرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے‘ لیکن یہی ہیرا کسی جوہری کے ہاتھ پر رکھیے جسے اس کی قدرو قیمت معلوم ہے تو اس کے اندر سے جو جذباتِ تشکر ابلیں گے ان کا آپ تصور نہیں کر سکتے. تو جب آپ پر قرآن کی عظمت منکشف ہو گی تبھی آپ اس نعمت کا اتنا شکر ادا کر سکیں گے جتنا کہ اس کا حق ہے. رمضان المبارک کا دوگونہ پروگرام عظمتِ قرآن کے انکشاف کے لیے رکھا گیا کہ دن میں روزہ رکھو‘ تاکہ تمہیں کچھ تقویٰ کی پونجی حاصل ہو جائے لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ اور رات کو قرآن کے ساتھ کھڑے رہو ‘تاکہ قرآن مجید کی عظمت تم پر منکشف ہو اور اس کی عظمت کے انکشاف کے ساتھ تم اللہ کا شکر ادا کر سکو. 

عظمت ِقرآن‘ بزبانِ قرآن

عظمت قرآن کا مضمون خود قرآن مجید میں بہت مرتبہ آیا ہے. اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی خود تعریف کی ہے. بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہم انسانوں کے لیے تو برائی کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو زیب دیتی ہیں. جیسے تکبر بہت بڑی برائی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے بڑائی کو اپنی چادر اور عظمت کو اپنی اِزار قرار دیا ہے : اَلْـکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ (ابوداؤد‘ابن ماجہ‘مسنداحمد) . اُس کا نام اَلْمُتَـکَبِّر ہے. یہ جامہ اُسی کو راست آتا ہے. اسی طرح ہم اپنی کسی بات کی تعریف کریں تو یہ اچھی بات محسوس نہیں ہو گی. لیکن اللہ تعالیٰ خود اپنے کلام کی عظمت بیان کرتا ہے اور خود اِس کی تعریف کرتا ہے.قرآن مجید کے وہ بے شمار مقامات جن میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید کی عظمت بیان کی ہے‘ان میں سے پانچ مقامات میرے سامنے ایک عجیب ترتیب سے آئے ہیں‘ جسے میں نے بارہا بیان بھی کیا ہے. اس وقت وہ میرا اصل موضوع نہیں ہے‘ صرف انہیں گِنوا دینا کافی ہے. پہلے ایک آیت‘ پھر دو آیتیں‘ پھر چار آیتیں‘ پھر چھ آیتیں اور پھر آٹھ آیتیں‘ اور ہر مقام کا اپنا ایک خاص مضمون ہے. 

عظمت ِقرآن کی ایک تمثیل

عظمت ِ قرآن فی نفسہٖ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے. یہ اللہ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے. چنانچہ قرآن اللہ کی صفت ہے اور ہم اس کی عظمت کماحقہ ٗ نہیں سمجھ سکتے. لیکن سورۃ الحشر میں فرمایاکہ ایک مثال سے ہم تمہیں کچھ تھوڑا سا تصور دے سکتے ہیں:

لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱
’’اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کی خشیت سے. اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لیے تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘.

اور پہاڑ کے پھٹ جانے کا واقعہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا. حضرت موسٰی ؑ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ پردے کی اوٹ سے 
مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ہو رہا تھا. حضرت موسٰی ؑ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے دیداربھی حاصل ہو جائے. عرض کیا: رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ’’پروردگار! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں‘‘.فرمایا: لَنۡ تَرٰىنِیۡ ’’تم مجھے نہیں دیکھ سکتے‘‘ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ’’لیکن اس پہاڑ پر نظر جماؤ ‘(میں اس پر اپنی ایک تجلی ڈالوں گا) پس اگر وہ (اسے برداشت کر جائے اور) اپنی جگہ پر قائم رہ جائے تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے‘‘. فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (الاعراف:۱۴۳’’چنانچہ جب اُس کے ربّ نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی ؑ غش کھا کر گر پڑے‘‘.یہ بالواسطہ مشاہدہ تھا. حضرت موسٰی ؑ نے پہاڑ پر اللہ کی تجلی کا مشاہدہ کیا‘لیکن اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہوکر گر پڑے. اس سے ذرا عظمت ِ قرآن کا اندازہ کیجیے. قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت ہے‘ اور جو اللہ کی ذات تجلی کا اثر ہے وہی اللہ کی صفت کی تجلی کا اثر ہے. 

افادیت ِ قرآن کے چار پہلو

سورۃ الحشر کی ایک آیت کے بعد اب سورۂ یونس کی دو آیتیں ملاحظہ کیجیے. دیکھئے‘ ایک ہے کسی شے کا اپنی جگہ عظیم ہونا اور ایک ہے اُس کی افادیت. تاج محل اپنی جگہ بڑا عظیم ہے‘ لیکن مجھے اس سے کیا فائدہ ہوا؟ تو قرآن کی عظمت فی نفسہٖ کیا ہے‘ اس کا بیان تو سورۃ الحشر کی آیت میں آ گیا ‘جبکہ اس کی افادیت کیا ہے‘ اسے سورۂ یونس کی دو آیات میں بیان کر دیا گیا. فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾ (یونس)
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے. (آپؐ ) کہہ دیجیے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے. وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں‘‘.

یہ قرآن تمہارے ربّ کی طرف سے 
مَوْعِظَۃ یعنی نصیحت ہے‘ جس سے دل نرم ہو جائیں گے. جب دل نرم ہو جائیں گے تویہ قرآن ان میں جذب ہو جائے گا‘ اس طرح ساری باطنی بیماریوں کا علاج ہو جائے گا.تکبر‘ حسد‘ حبّ دنیا‘ حبّ مال‘ حبّ جاہ اور حبّ شہرت کا علاج ہو جائے گا. پھر یہ ہدایت ہے . یہ تمہیں رستہ بتائے گا کہ تمہیں کدھر جانا ہے‘ کدھر نہیں جانا. اور آخرت میں رحمت ہے. یہ قرآن کی چار افادیتیں ہیں. پھر فرمایا کہ یہ قرآن اللہ کی رحمت اور اس کے فضل کا مظہر ہے جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے. تو خوشیاں منانی ہوں تو اس کی مناؤ! اور جان لو کہ جو کچھ تم دنیا میں جمع کرتے ہو‘ ان سب چیزوں سے کہیں بڑھ کر قیمتی چیز یہ قرآن ہے.

سورۃ الرحمن کی ابتدائی چار آیات

آگے چلیے. سورۃ الرحمن کی پہلی چار آیات ملاحظہ کیجیے. ان چار آیتوں میں چار چوٹی کی چیزیں بیان کی گئی ہیں. اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ یہ اللہ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ہے. عرب اس نام سے واقف نہیں تھے. سورۃ الفرقان کی آیت ۶۰ میں فرمایاگیا: وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ کرو رحمن کو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے؟‘‘اللہ کو تو وہ جانتے تھے ‘ اسم ’’اللہ‘‘ ان کے ہاں ہمیشہ سے چلا آ رہا تھا‘ لیکن ’’رحمن‘‘ سے ناواقف تھے. اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ اللہ کی رحمت ہے اور ’’رحمن‘‘ میں وہ رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوتی ہے‘ جس میں جوش اور ہیجان ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سب سے پیارا نام رحمن ہے. آگے فرمایا: عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ ’’سکھلایا قرآن‘‘. سارے علوم اللہ ہی نے سکھائے ہیں‘ چاہے مادّی علوم ہوں چاہے روحانی علوم ہوں‘ لیکن تمام علوم میں چوٹی کا علم قرآن کا علم ہے جو اللہ کی رحمانیت کا مظہر اتم ہے . اگلی آیت میں فرمایا: خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾ ’’پیدا کیا انسان کو‘‘. اللہ تعالیٰ نے ہی تمام مخلوقات کو پیدا کیا.جنوں کو بھی اسی نے پیدا کیا‘ فرشتوں کو بھی اسی نے پیدا کیا. آسمان بنایا‘ زمین بنائی‘ پہاڑ بنائے‘ سورج‘ چاند‘ ستارے بنائے. کیا نہیں بنایا؟ لیکن جو کچھ اس نے بنایا ہے اس میں چوٹی کی مخلوق انسان ہے جو مسجودِ ملائک ہے‘ خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے. آگے فرمایا: عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ ’’اسے بیان کی صلاحیت دی‘‘. تو کیا دیکھنے کی صلاحیت نہیں دی؟ سننے کی صلاحیت نہیں دی؟ ظاہر ہے انسان کو تمام صلاحیتیں اللہ تعالیٰ ہی نے عطا کی ہیں‘ لیکن انسان کی سب سے اونچی صلاحیت قوتِ بیان ہے. اسی لیے انسان کو حیوانِ ناطق کہتے ہیں .تو ان چار آیات میں چوٹی کی چار چیزیں بیان کر دی گئیں.

اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ جو سب سے اونچی صلاحیت ہے یعنی بیان‘ اس کو سب سے اونچے علم ’’ قرآن‘‘ پر صرف کرو. قرآن کوبیان کرو‘ قرآن کوعام کرو‘ قرآن کو پھیلاؤ . 
یہ نتیجہ حضور نے ایک حدیث میں بیان کر دیا: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور اسے سکھائیں‘‘. خود قرآن پڑھیں اور دوسروں کو پڑھائیں.یہ قرآن کی اس نعمت کو عام کرنے کے لیے تشویق و ترغیب کا انتہائی خوبصورت انداز ہے. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سب سے پیارا نام ’’رحمن‘‘اس نے جو علم انسان کو دیے اس میں چوٹی کا علم ’’ قرآن‘‘اس نے جو کچھ بنایا ہے اس میں چوٹی کی تخلیق ’’انسان‘‘انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں چوٹی کی صلاحیت ’’بیان‘‘.تو جیسے ہم کہتے ہیں توپ سے مکھی نہیں ماری جاتی‘ توپیں کسی اور کام کے لیے بنتی ہیں‘ اسی طرح تم اس قوتِ بیان کو دنیاوی چیزوں کے لیے صرف نہ کرو. دنیا کی چیزوں کی اللہ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں. ساری دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں. اسی قوتِ بیان کے زور پر ایک شخص عوامی مقرر اور لیڈر بن جاتا ہے‘ کوئی ڈکٹیٹر بن جاتا ہے‘ ہٹلر بن جاتا ہے‘ بھٹو بن جاتا ہے. اسی قوتِ بیان سے ایک وکیل ایک ایک پیشی کے پانچ پانچ لاکھ روپے لے لیتا ہے. حالانکہ وہی قانون ان وکیلوں نے بھی پڑھ رکھا ہوتا ہے جو بے چارے جوتیاں پٹخارتے پھر رہے ہوتے ہیں اور انہیں کوئی اپنا وکیل نہیں کرتا. وہ زیادہ سے زیادہ سرٹیفکیٹ attest کر کے تھوڑے سے پیسے کما لیتے ہیں.وہی قانون اے کے بروہی اور ایس ایم ظفر نے پڑھا ہے اور اپنی قوتِ بیان کے بل بوتے پر ایک مقام حاصل کیا ہے. تو اِس قوتِ بیان کا اصل مصرف یہ ہے کہ اسے قرآن کے لیے استعمال کیا جائے.

کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ 

سورۃ الرحمن کی چار آیات کے بعد اب ملاحظہ کیجیے سورۂ عبس کی چھ آیات.فرمایا:
کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’یوں نہیں! یہ قرآن تو ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے. جو چاہے اس سے یاد دہانی حاصل کر لے. یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بہت پُرعظمت ہیں. بہت بلند مقام کے حامل‘ نہایت پاکیزہ ہیں. ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو لائق تکریم اور پاک باز ہیں‘‘.

پہلی دو آیات میں فرمایا کہ آ گاہ ہو جاؤ‘ یہ قرآن تذکرہ ہے‘ یاد دہانی ہے. جو چاہے اس سے یاد دہانی حاصل کرے. یہ بہت اہم مضمون ہے. قرآن جس چیز کی طرف تمہیں بلا رہا ہے وہ تمہارے دل کے اندر موجود ہے. تم دنیا میں گم ہو گئے ہو اس لیے تمہیں پتا ہی نہیں کہ تمہارے پاس کتنا قیمتی ہیرا ہے. ہندی کا ایک بڑا پیارا دوہا ہے ؎ 

بھیکاؔ بھوکا کوئی نہیں‘ سب کی گدڑی لال
گرہ کھول جانے نہیں اس بدیے کنگال 

یعنی ’’اے بھیکؔ (شاعر کا نام) بھوکا اور محروم کوئی انسان بھی نہیں ہے‘ ہر انسان کی گدڑی کے اندر لعل موجود ہے‘لیکن جو گرہ لگی ہوئی ہے وہ کھولی نہیں جا سکتی‘ اس لیے کنگال بن گئے ہیں.‘‘ پس تمہارے اندر تو سب کچھ ہے‘ لیکن ذہول ہے‘ توجہ نہیں ہے. یہ قرآن یاد دہانی ہے.قرآن حکیم کے لیے خود قرآن میں الذّکر‘ذکریٰ اور تذکرہ جیسے الفاظ آئے ہیں. فرمایا: فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) ’’پس آپ قرآن کے ذریعے اسے یاددہانی کرائیں جو میری تنبیہہ سے ڈرے‘‘. ایسے مقامات پر تعلیم کے بجائے تذکیر کا لفظ آتا ہے.

اور یہ قرآن کتنی عظمت والا ہے؟ یہ لوح ِ محفوظ میں ان صحیفوں میں درج ہے جو بہت محترم‘ باعزت اور پُرعظمت ہیں‘ بہت بلند مقام پر ہیں‘ نہایت پاک ہیں ‘ ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بہت ہی لائق تکریم اور پاک باز ہیں. یعنی یہ قرآن لوح ِ محفوظ میں عالی مرتبت فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے. 

سورۃ الواقعہ کی آٹھ آیات


اس کے بعد سورۃ الواقعہ کی آٹھ آیات کا مطالعہ کر لیجیے:
 

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۷۵﴾وَ اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوۡ تَعۡلَمُوۡنَ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۷۶﴾اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۷۷﴾فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۸۰﴾اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ 

’’پس نہیں‘ میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کے مقام کی‘ اور اگر تمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے‘ کہ یہ بڑی عزت والا قرآن ہے. ایک محفوظ کتاب میں ثبت ہے‘ جسے نہایت پاک مخلو ق (فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا. یہ ربّ العالمین کا نازل کردہ ہے. پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بے اعتنائی برتتے ہو‘ اور اس نعمت میں اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے ہو؟‘‘

ان آیات کا آغاز ایک بہت بڑی قسم سے ہوا. فرمایا : ’’میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کے مقام کی. اور یہ قسم بہت بڑی ہے اگر تمہیں معلوم ہوتا‘‘. تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کتنی بڑی قسم ہے. یہ تو وقت آئے گا تو پتا چلے گا .چنانچہ آج نزولِ قرآن کے چودہ سو سال بعد ہمارے علم میں آیا ہے کہ اس کائنات میں بلیک ہولز ہیں‘ جو ستاروں کے سکڑ کر ختم ہو جانے کے نشانات ہیں. گویا ستارے ڈوب رہے ہیں‘ ان کی موت واقع ہو رہی ہے. کائنات میں کہیں ایک خلا پیدا ہوتا ہے. اس خلا کے اندر جو ویکیوم ہے اس میں کھینچنے کی اتنی طاقت ہے کہ جو ستارہ اس کے قریب سے گزرجائے اسے کھینچ کر اس قبر میں دفن کر دیتا ہے. یہ ہے وہ جگہ جہاں ستارے ڈوبتے ہیں. فرمایا اگر تم جانتے تو یہ بہت بڑی قسم ہے جو ہم نے کھائی ہے. اور یہ عظیم قسم اس بات پر کھائی جا رہی ہے کہ یقینا یہ بہت باعزت قرآن ایک چھپی ہوئی محفوظ کتاب میں درج ہے‘ جسے کوئی چھو ہی نہیں سکتا‘مگرنہایت پاک مخلوق یعنی فرشتے. یہ ربّ العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے. لوحِ محفوظ سے اس کی تنزیل ہو رہی ہے محمدٌ رسول اللہ پر.وہاں سے تھوڑا تھوڑا کر کے جو یہ نازل ہو رہا ہے‘ یہ اللہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے.

اس کے بعد ڈانٹ کا انداز ہے: 
اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾ ’’پھر کیا اس کلام سے تم لاپرواہی برت رہے ہو ؟‘‘اور سہل انگاری کر رہے ہو؟ تم نے انگریزی پڑھ لی‘ دنیا کی دوسری زبانیں سیکھ لیں‘ لیکن اتنی عربی نہیں پڑھی کہ ہمارے کلام کو سمجھ سکو. ڈاکٹری پڑھ لی اور اس میں بیس سال لگا دیے. انجینئرنگ میں اٹھارہ سال لگادیے‘ لیکن اتنا وقت نہ نکال سکے کہ عربی پڑھتے اور قرآن کو براہِ راست اپنے قلب کے اندر اتارتے؟ وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۸۲﴾ ’’اور اپنا حصہ تم نے بس یہی رکھا ہے کہ اسے جھٹلاتے پھرو؟‘‘ قرآن کے ساتھ تمہاری بے اعتنائی کا یہ طرزِعمل اس کی تکذیب کے مترادف ہے. اگر تم اسے اللہ کا کلام مانتے تو یہ بے اعتنائی اور یہ بے توجہی ہو سکتی تھی؟ قطعاً نہیں!

عظمتِ قرآن کے ضمن میں مَیں نے پانچ مقامات آپ کو گِنوائے ہیں‘ جن کے درمیان بڑی حسین ترتیب بن گئی ہے پہلے ایک آیت‘ پھر دو آیتیں‘ پھر چار آیتیں‘ پھر چھ آیتیں اور پھر آٹھ آیتیں. پہلی آیت میں اللہ کے کلام کی عظمت بیان ہوئی ہے جیسے کہ وہ ہے . دوسرے مقام پر قرآن کی عظمت اس کے افادے کے لحاظ سے بیان ہوئی ہے. تیسرے مقام میں اس کو عام کرنے کی ترغیب و تشویق ہے. چوتھے مقام میں کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں تذکرہ اور یاد دہانی ہے ‘ کوئی نئی شے نہیں ہے‘ تمہاری فطرت میں ہدایت موجود ہے‘ جسے وہاں سے یہ قرآن نکال کر تمہارے سامنے لاتا ہے. اور پھر پانچویں مقام پر فرمایا گیا کہ یہ کتابِ مکنون میں ثبت ہے‘ جہاں اسے کوئی چھو ہی نہیں سکتاسوائے فرشتوں کے جو نہایت پاک باز اور مطہر ہیں. اس آیت سے ضمنی طور پر یہ فقہی مسئلہ بھی نکالا گیا ہے کہ آپ قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے اگر آپ باوضو نہ ہوں. 

لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾ کا ایک تیسرا مطلب بھی ہے. دیکھئے‘ ایک ہے اِس قرآن کا گودا اور مغز‘ جبکہ ایک اس کا چھلکا ہے. متذکرہ بالا الفاظِ قرآنی سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ جن لوگوں کا اندر پاک نہیں ہو چکا‘ جن لوگوں کا تزکیۂ نفس نہیں ہو چکا‘ وہ اس کے چھلکے ہی کے ساتھ کھیلتے رہیں گے‘ اس کے مغز تک اُن کی رسائی نہیں ہو گی‘ چاہے وہ کہنے کو مفسر بن جائیں‘ جلدیں کی جلدیں لکھ دیں. غلام احمد پرویزنے ’’مفہوم القرآن‘‘ لکھ دی‘ غلام احمد قادیانی آنجہانی کے بیٹے نے تفسیر کبیر بھی لکھی تفسیرصغیر بھی‘
 
لیکن قرآن کے مغز تک اِن حضرات کی رسائی نہیں ہوئی . مولانا روم نے یہ بات اپنے ایک شعر میں بیان کی ہے‘ اگرچہ انداز اچھا نہیں ہے‘ لیکن بہت گہری بات کہی ہے ؎

ما ز قرآں مغزہا برداشتیم
اُستخواں پیشِ سگاں انداختیم

یعنی ہم نے قرآن سے اس کا مغز حاصل کر لیا ہے‘ ہڈی کا گودا تو ہم نے لے لیا ہے اور جو ہڈی تھی وہ کتوں کے آگے ڈال دی ہے. تو انسان قرآن کے مغز تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اس کا باطن پاک نہ ہو. 

عظمت ِ قرآن‘ احادیثِ نبویؐ کے آئینے میں

میری آج کی گفتگو کا موضوع ’’عظمتِ قرآن بلسانِ نبوت‘‘ ہے. یعنی رسول اللہ نے قرآن کی عظمت کو کس طرح بیان کیا ہے. اس ضمن میں ایک حدیث تومیں بیان کر چکاہوں:

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھائے‘‘. 

یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور صحیح بخاری کی ہے.

دوسری حدیث جو میں آپ کو سنارہا ہوں یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مسلم شریف کی ہے.رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ
’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کر نے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا‘‘.

اس حدیث کو جس قدر اہمیت علامہ اقبال نے دی ہے میرے علم کی حد تک کسی اور نے نہیں دی. اس حدیث کا مفہوم اقبال اپنے شعر میں یوں بیان کرتے ہیں ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

کہ وہ ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں تلوار لے کر نکلے تھے اور دنیا پر چھا گئے تھے ‘ اور تم اسی قرآن کو چھوڑ کر ذلیل و رسوا ہو گئے ہو! اور اسی مضمون کو علامہ نے فارسی میں کس قدر خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ؎

خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی!

کہ اے اُمت مسلمہ! تو قرآن کو ترک کرنے کے باعث ذلیل و خوار ہوئی ہے‘ لیکن توگردشِ دوراں کا شکوہ کر رہی ہے اور اپنے زوال کا سبب ’’فلک کج رفتار‘‘ کو قرار دے رہی ہے‘ حالانکہ فلک تو کسی قوم کی قسمت نہیں بدلتا. اپنی ذلت و رسوائی کے ذمہ دار تم خود ہو.

اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ 
در بغل داری کتابِ زندۂ 

اے وہ اُمت جو شبنم کی طرح زمین پر پامال پڑی ہوئی ہے اور لوگ تجھے اپنے پاؤ ں تلے روند رہے ہیں‘ اگراب بھی تم بلندی چاہتے ہو تو جان لو کہ تمہاری بغل میں ایک زندہ کتاب (قرآن مجید) موجود ہے.

فتنوں سے بچاؤ کا راستہ

اب جو حدیث میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں یہ کلامِ نبوت کی فصاحت وبلاغت اور عذوبت کا ایک نادر نمونہ ہے.کلام کی فصاحت یہ ہوتی ہے کہ کلام واضح ہو‘ سمجھ میں آ جائے‘ اس میں کوئی ایچ پیچ نہ ہو‘ پہیلیاں بجھوانے کا انداز نہ ہو. کلام کی بلاغت یہ ہے کہ وہ قلب و ذہن تک پہنچ جائے‘ ذہن اور دل کی گہرائیوں میں اتر جائے. اور عذوبت سے مراد کلام کی مٹھاس اور شیرینی ہے. تو فصاحت‘ بلاغت اور عذوبت‘ ان تینوں اعتبارات سے رسول اللہ کی احادیث کے مجموعے میں اس حدیث کا بہت اونچا مقام ہے. 

عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: 
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا‘‘: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ’’عنقریب ایک بہت بڑافتنہ رونما ہو گا‘‘. آنحضور نے جس فتنے کی پیشین گوئی فرمائی تھی وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری عہد میں رونما ہوا. یہ فتنہ ایک بدمعاش یہودی عبداللہ بن سبا کا اٹھا یاہوا تھا‘ جس میں حضرت عثمانؓ شہید ہوئے. اس کے بعد مسلسل چار سال تک جنگ ہوتی رہی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کاپورا دورِ خلافت خانہ جنگی اور فتنے کی نذر ہو گیا. جنگ جمل‘ جنگ صفین اور جنگ نہروان میں تقریباً ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں ‘نیزوں اور تیروں سے قتل ہوئے. اس کے علاوہ اسلام جو پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا تھا‘ اس کی نشأۃِ اولیٰ کا سیلاب کسی کے روکے نہ رکتا تھا؏ ’’تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا‘‘وہ سیلِ رواں اندر کے فتنے اور خانہ جنگی نے روک دیا اور یہ معاملہ رجعتِ قہقری کا شکار ہو گیا. اس پر ایک مصری مصنف نے’’الفتنۃ الکبرٰی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ عظیم ترین فتنہ ہے جو تاریخِ اسلامی میں ہوا ہے . حضور نے اس کی خبر اِن الفاظ میں دی: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ.

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  ؟ ’’میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ ! اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو گا‘‘؟ ’’مَخْرَج‘‘ نکلنے کی جگہ کو کہتے ہیں. آپ نے دیکھاہو گا کہ بڑے بڑے ہالز میں باہر نکلنے کے راستوں پر سرخ لائٹ کے ساتھ ’’EXIT‘‘ لکھا ہوتا ہے. اس لیے کہ اگر کوئی دھماکہ ہو جائے یا آگ لگ جائے یا کوئی اور ایمرجنسی کی صورت پیش آ جائے تو ہال میں موجود لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ان راستوں کی طرف بھاگیں.عرب ممالک میں EXIT کی جگہ ’’مَخْرَج‘‘ لکھا ہوتا ہے. لسانِ نبوتؐ سے فتنے کی خبر سنتے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے بچاؤ کے لیے مَخْرَج کا پوچھا کہ اس فتنے سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو گا؟ اس میں جو بات میرے اور آپ کے لیے قابل غور ہے وہ ہمارے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل کا بنیادی فرق ہے. اگر ہم وہاں ہوتے توپوچھتے حضور ! یہ فتنہ کیا ہو گا؟ کیسے ہو گا؟ کب آئے گا؟ کدھر سے آئے گا؟ کیوں آئے گا؟ حالانکہ ان سب سوالات کا عملی فائدہ کیا ہے؟ یہ تو سب معلومات ہیں. حضرت علی ؓ نے بڑا عملی سوال پوچھا کہ اس سے بچ نکلنے کا راستہ کیا ہو گا؟ رسول اللہ نے اس کا جو جواب ارشاد فرمایا اس پر توجہ کیجیے. قَالَ: کِتَابُ اللّٰہِ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کی کتاب!‘‘فتنوں سے نکالنے والی شے اللہ کی کتاب ہو گی! 

جنگ صفین میں جب حضرت معاویہؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی تجویز کے تحت قرآن نیزے پر اٹھا دیا گیا کہ لڑنے جھگڑنے کا فائدہ نہیں ہے‘ یہ قرآن ہمارے مابین فیصلہ کرے گا‘ تو حضرت علی ؓ جنگ بندی پر تیار ہو گئے. حالانکہ آپؓ کے ساتھیوں میں سے بڑی تعداد نے کہا کہ علیؓ دھوکہ کھا گئے. بلکہ خوارج نے تو (معاذ اللہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر اور واجب القتل قرار دے دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کو حَکَم کیسے نہ مانتے؟ انہیں تو رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ قرآن ہے.میاں بیوی میں چپقلش اِس حد تک بڑھ جائے کہ تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ: 
فَابۡعَثُوۡا حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنۡ اَہۡلِہَا ۚ (النساء:۳۵یعنی ایک حَکَم مَرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک حَکَم عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کیا جائے. چنانچہ حضرت علی اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنہما)دونوں نے اپنی اپنی جانب سے ایک ایک حَکَم مقرر کر دیا. حضرت علیؓ نے حضرت ابوموسٰی اشعریؓ اور حضرت معاویہؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو حَکَم مقرر کیا. بعض لوگ اسے حضرت علی ؓ کی سیاسی غلطی کہتے ہیں لیکن حضرت علی ؓ کے پیشِ نظر یہ حدیث ہو گی کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ قرآن ہے. 

قرآن : ماضی ‘حال اور مستقبل کا آئینہ

اس حدیث میں رسول اللہ نے قرآ ن کی مدح جس انداز میں بیان فرمائی ہے یہ کلامِ نبویؐ کی فصاحت و بلاغت اور عذوبت کی بہترین مثال ہے. فرمایا: فِیْہِ نَبَاُ مَا قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ ’’اس قرآن میں خبریں ہیں ان کی جو تم سے پہلے گزر گئے (یعنی قومِ نوح‘ قومِ عاد‘ قومِ ثمود‘ قومِ شعیبؑ‘ آلِ فرعون)اور اس میں خبر ہے تم سے بعد والوں کی بھی ‘اور تمہارے مابین جو اختلافات ہو جائیں ان کا فیصلہ بھی اس کے اندر ہے‘‘. وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ کے حوالے سے میں قرآن مجید کے تین مقامات سے دس آیتیں بارہا بیان کر چکا ہوں جو آج کے پاکستان کا نقشہ کھینچ رہی ہیں. قرآن میں پاکستان کا ذکر موجود ہے. پاکستان کیسے بنا‘ اس کا بھی ذکر ہے. پھرپاکستان حاصل کر کے ہم نے بحیثیت قوم کیا وطیرہ اختیار کیا‘ اس کا بھی ذکر ہے‘ اور اب اس کا کیسا انجام ہونے والا ہے‘ اس کا بھی ذکر ہے. سورۃ الانبیاء میں الفاظ آئے ہیں: لَقَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ کِتٰبًا فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿٪۱۰﴾ ’’(لوگو!) ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ذکر ہے‘ کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟‘‘ 

فیصلہ کن کتاب

آگے فرمایا: ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ ’’یہ قرآن ایک فیصلہ کن کتاب ہے‘ یاوہ گوئی نہیں ہے‘‘.یہ شاعروں کی شاعری نہیں ہے. یہ تو قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے کرنے والی کتاب ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کے مطابق اب قوموں کی تقدیر کے فیصلے اس قرآن سے ہوں گے . اگر کوئی قوم ابھرے گی تو قرآن لے کر ابھرے گی اور گرے گی تو قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے گرے گی. یہاں آپ کسی مغالطے کا شکار نہ ہو جائیں‘ مغرب (West) ابھرا ہے تو وہ بھی قرآن کی وجہ سے ابھرا ہے. نوٹ کر لیجیے‘ اقبال نے یہ کہا ہے : 
".The inner core of the Western Civilization is Quranic"
’’مغربی تہذیب کا باطن قرآنی ہے. ‘‘

قرآن نے انسان کو توہمات سے نجات دلائی ہے. قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ آنکھوں سے کام لو‘ کانوں سے کام لو‘ دیکھو‘ مشاہدہ کرو ؎

کھول آنکھ ‘ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! 

یہ بات مستشرقین بھی تسلیم کرتے ہیں اور مغربی مفکرین بھی کہ حقیقتاً دنیا میں توہمات کو ختم کرنے والی اور انسان کے عمل کو علم کی بنیاد پر استوار کرنے والی کتاب قرآن مجید ہے. اسلام سے قبل علم کی بنیاد ارسطو کی استخراجی منطق (deductive logic) پر تھی. اسی سے گتھیوں پر گتھیاں بن بھی رہی تھیں اور سلجھ بھی رہی تھیں‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلجھتی کم ‘ الجھتی زیادہ تھیں. اسلام نے آ کر انسان کو منطق کی اس تنگ نائے سے نکالا اور اسے استقراء (induction) کی طرف متوجہ کیا کہ اللہ نے تمہیں سماعت دی ہے تاکہ سنو‘ بصارت دی ہے تاکہ دیکھو‘ تمہیں تفکر و تعقل کی استعداد دی ہے تاکہ غور و فکر اور سوچ بچار کرو. تمہیں استنباط‘ استدلال اور استنتاج کی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں.یہ روحِ عصر ہے اور اس روح ِ عصر کا آغاز کرنے والا قرآن ہے. یورپ نے اسی کو اختیار کیا اور وہ بامِ عروج پر پہنچ گئے. اگرچہ اس میں انہوں نے بہت سی ٹھوکریں بھی کھائی ہیں‘ وہ ایک علیحدہ مضمون ہے‘ لیکن مغربی تہذیب کے باطن (inner core) کے بارے میں علامہ کہتے ہیں کہ یہ قرآنی ہے.البتہ اس کے ظاہر کے بارے میں اقبال نے ’’The dazzling exterior‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ یہ بڑی چکاچوند کا حامل ہے ؎ 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

ہمار ے نوجوان یورپ اور امریکہ میں جا کر اسی ظاہری چکاچوند سے مبہوت ہو جاتے ہیں‘ لیکن علامہ کہتے ہیں ؎ 

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ حجاز و حولِ قدس!

اس شعر کے دوسرے مصرع میں مَیں نے کچھ لفظی تصرف کیا ہے . بہرحال قرآن کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ ’’یہ ایک فیصلہ کن کتاب ہے‘ یاوہ گوئی نہیں ہے‘‘.سورۃ الطارق میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ ’’بے شک یہ قرآن دوٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے‘ یہ ہنسی کی اور بے فائدہ بات نہیں ہے‘‘.یہی بات رسول اللہ نے اس حدیث مبارک میں ارشاد فرمائی. 

حدیث کے اگلے الفاظ ملاحظہ کیجیے. دیکھیے فصاحت‘ بلاغت اور عذوبت کے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں کس قدر غنائیت ہے. فرمایا: 
مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ ’’جو شخص اپنے تکبر کی وجہ سے اس قرآن کو ترک کر دے گا اللہ اسے پیس کر رکھ دے گا‘‘.اگرچہ قرآن کو ترک ہم نے بھی کیا ہے لیکن تکبر کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ اپنی کم ہمتی کی وجہ سے کیا ہے. قرآن ترک کرنے کے مجرم تو ہم بھی ہیں‘ لیکن ہم نے قرآن کے خلاف تکبر نہیں کیا ہے. یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جو کوئی جابر و سرکش اپنی سرکشی کے قہر اور جوش میں آ کر اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر قرآن کو ترک کرے گا اللہ اسے پیس کر رکھ دے گا. 

ہدایت کا سرچشمہ

وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُ ’’اور جو کوئی قرآن کے سوا کسی اور شے میں ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے لازماً گمراہ کر دے گا‘‘.فلسفہ سے آپ ہدایت لینا چاہتے ہیں تو لازماً ناکام ہوں گے. مولانا ظفر علی خان کا شعر آپ کو یاد ہو گا ؎ 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دُکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں

اور علامہ اقبال مشرق و مغرب کے فلسفے کھنگال چکنے کے بعد کس کرب سے کہتے ہیں ؎

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رطب

وہ آخر کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فلسفہ تو کھجور کا ایسا بانجھ درخت ہے جس پر کھجور لگتی ہی نہیں‘ لہذا مجھے اس سے کچھ نہیں ملا ؎
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!

تو ثابت ہوا کہ فلسفہ ہدایت کا ذریعہ نہیں ہے. اسی طرح سائنس بھی ذریعۂ ہدایت نہیں ہے. سائنس تو آلات ایجاد کرنے کا ذریعہ ہے. سائنس تو توانائی کے سرچشمے تلاش کرنے اور قدرتی طاقتوں کو دریافت کرنے کا ذریعہ ہے. توانائی (energy) کا سب سے پہلا ذریعہ جو انسان نے دریافت کیا وہ آگ ہے ‘ اور وہ اتفاقاً انسان کے علم میں آگئی ہو گی. ہزاروں سال قبل کسی انسان نے دیکھا کہ ایک چٹان اوپر سے گری‘ نیچے بھی چٹان تھی‘ دونوں کے ٹکرانے سے شعلہ نکلا. اب اس نے اس مشاہدے کی بنیاد پر خود تجربہ کیا اور دو پتھر لے کر خوب زور سے ٹکرائے تو شعلہ نکل آیا. لیجیے آگ ایجاد ہو گئی. اس سے پہلے انسان کچا گوشت کھاتا تھا ‘اس کے علاوہ پھل کھاتا تھا‘ درختوں کی جڑیں کھاتا تھا.آگ کی دریافت کے بعد انسان نے گوشت کو بھون کر اور پکا کر کھانا شروع کر دیا. اسے اوّلین سورس آف انرجی مل گئی . پھر کسی سائنس دان نے دیکھا کہ ایک ہانڈی چولہے کے اوپر چڑھی ہوئی ہے اور اس کا ڈھکنا ہل رہا ہے. اس نے سوچا اس کو کون ہلا رہا ہے؟کیا کوئی جن بھوت ہے؟ معلوم ہوا کہ اندر بھاپ (steam) پیدا ہو رہی ہے اور بھاپ میں اس قدر طاقت ہے کہ وہ اسے ہلا رہی ہے. اس طرح توانائی کا ایک ذریعہ بھاپ دریافت ہو گئی اور اس سے بڑا کام لیا گیا. کبھی سٹیم کے انجن چلتے تھے ‘ جو بڑے ہیبت ناک اور دیو ہیکل ہوا کرتے تھے. فرنٹیئر میل کا انجن دیکھ کرخوف آتا تھا. انسانی قد سے زیادہ تو اس کے پہیے کا گھیرا تھا. یہ سٹیم سے چلتے تھے. پھربجلی ایجاد ہو گئی. تو سائنس سے ہدایت نہیں ملتی. اس سے تو آپ کو کچھ چیزوں کے استعمال کا علم حاصل ہو جاتا ہے. ہدایت صرف قرآن سے ملے گی. حضور نے فرمایا جو کوئی قرآن کے سوا کہیں اور سے ہدایت ڈھونڈے گا اللہ اسے لازماً گمراہ کردے گا. 

اللہ کی مضبوط رسّی

آگے پھر حدیث کے تین ٹکڑے فصاحت و بلاغت اورعذوبت و غنائیت کی بہترین مثال ہیں. فرمایا: وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ‘ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ شاعری نہیں ہے‘ لیکن آزاد شاعری سے ملتا جلتا انداز ہے. وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ’’یہی ہے اللہ کی مضبوط رسّی‘‘. سورۂ آل عمران کی آیت۱۰۳ میں ارشاد ہوا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ ’’اللہ کی رسّی کو مل جل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں مت پڑو‘‘. لیکن وہ اللہ کی رسّی کون سی ہے؟ اسے قرآن میں واضح نہیں کیا گیا‘ بلکہ اس کی صراحت حدیث سے ہوتی ہے. حدیث سے ناواقف لوگ ایسی آیات کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے . آپ کو یاد ہوگا کہ جب۱۹۷۴ء میں پاکستان میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس ہو رہی تھی تو جگہ جگہ اس آیت کے بینر لگے ہوئے تھے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪. ہر رکشا اور ٹیکسی پر بھی یہی آیت لکھی ہوئی تھی. اُن دنوں میں اپنی ایک کتاب کی طباعت کے سلسلے میں مکتبہ جدید پریس گیا تو وہاں آزاد کشمیر حکومت کے محکمہ اطلاعات کے سربراہ آئے ہوئے تھے جو کمیونسٹ تھے. انہوں نے بڑی دریدہ دہنی سے کہا کہ یہ کیا مہمل کلام ہے؟ کہاں ہے اللہ کی رسّی جسے مل کر تھامنا ہے؟ کہاں لٹکی ہوئی ہے وہ رسّی؟ دکھاؤ مجھے! یہ اصل میں حدیث سے ناواقفیت ہے. اس لیے کہ قرآن مجید میں اگر کوئی شے تشریح طلب ہو تو اُس کو واضح کرنا حضور کا فرضِ منصبی ہے. منکرینِ حدیث تو حضور کا یہ حق بھی تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ آپؐ کا فرضِ منصبی ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل:۴۴’’اور (اے نبی!) ہم نے آپ پر یہ ذکر (قرآن حکیم) نازل کیا تاکہ آپ واضح کر دیں اس کو لوگوں کے لیے جو اُن کی طرف نازل کیا گیاہے‘‘. تو آپؐ نے واضح فرما دیا کہ: وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ’’یہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسّی ہے‘‘. اس کو پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے. خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: 

وَقَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللّٰہِ (مسلم) 
’’اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے‘ وہ کتاب اللہ ہے‘‘. 

ایک اور حدیث میں ہے :

کِتَابُ اللّٰہِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ (الترمذی)
’’اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا) جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ایک رسّی ہے‘‘.

اس ضمن میں ایک اور حدیث بڑی ہی پیاری ہے. حضور اپنے حجرے سے برآمد ہوئے‘ دیکھا کہ مسجد کے ایک کونے میں کچھ لوگ بیٹھے قرآ ن مجید کا مذاکرہ کر رہے ہیں‘ سمجھ رہے ہیں‘ سمجھا رہے ہیں‘ تو آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے آثار ظاہر ہوئے‘ آپؐ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: 
اَلَسْتُمْ تَشْھَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنـِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَھٰذَا الْقُرْآنَ جَاءَ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ ؟ ’’کیا آپ لوگ اس کے گواہ نہیں ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں‘ اور یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے؟‘‘ سب صحابہؓ نے کہا : بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ’’کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!‘‘ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اور یہ کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں اور یہ قرآن اللہ کے پاس سے آیا ہے. اب آپ نے فرمایا: فَاسْتَبْشِرُوْا فَاِنَّ الْقُرْآنَ طَرَفُـہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرَفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ ’’پس تم خوشیاں مناؤ ‘ اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘. 

قرآن : پرحکمت ذکر

زیر مطالعہ حدیث میں آگے فرمایا: وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ’’اور یہی پُرحکمت ذکر ہے‘‘. قرآن اپنے آپ کو ’’الذکر‘‘ کہتا ہے ‘ لیکن تم نے ذکر کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں. سب سے مضبوط اور مستحکم ذکر یہ قرآن ہے‘ لیکن اس پر توجہ ہی نہیں‘ جبکہ ذکر و اذکار اور اوراد ووظائف کے مجموعے توجہات کا مرکز بنے ہوئے ہیں.

دعا کے بارے میں رسول اللہ کا ارشاد ہے: 
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (ترمذی) یعنی ’’دعا عبادت کا جوہر ہے‘‘. بلکہ یہاں تک فرمایا : اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (ترمذی) یعنی ’’دعا ہی تو عبادت ہے‘‘. لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَمَسْاَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَا اُعْطِی السَّائِلِیْنَ’’جو شخص قرآن کی (تلاوت اور درس و تدریس کی) مصروفیت کی وجہ سے میرا ذکر نہ کر سکے اور مجھ سے دعا نہ کر سکے میں اُسے اس شے سے افضل عطا کرتا ہوں جو میں دعا کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں‘‘. اس حدیث کے اگلے الفاظ ہیں : وَفَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ عَلٰی سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ عَلٰی خَلْقِہٖ (ترمذی) ’’اور اللہ کے کلام کو جملہ کلاموں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی خود اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر‘‘. 

قرآن : صراطِ مستقیم

زیر مطالعہ حدیث کے اگلے الفاظ ہیں : وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ ’’اور یہی صراطِ مستقیم ہے‘‘.نماز کی ہر رکعت میں ہم ’’اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت طلب کرتے ہیں. اس حدیث میں صراحت آگئی کہ صراطِ مستقیم یہی قرآن ہے.

ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ ’’یہ وہ شے ہے جس کے ہوتے ہوئے خواہشاتِ نفس (تمہیں) گمراہ نہیں کر سکیں گی‘‘.اس قرآن سے رابطہ ہو گا تو خواہشاتِ نفسانی ٹیڑھے رُخ پر نہیں لے جا سکیں گی. 

وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَۃُ ’’اور زبانیں اس میں گڑبڑ نہیں کرسکیں گی‘‘.اس کے ساتھ سابقہ آسمانی کتابوں والا معاملہ کرنا ممکن نہیں ہو گا کہ ذرا سا زبان کومروڑ کر پڑھا تو کچھ کا کچھ بن گیا. اس طرح اُن کتابوں میں تحریف ہو گئی. قرآن حکیم میں اس طرح کی تحریف کے سارے راستے بند کر دیے گئے ہیں. یہاں تک کہ رسول اللہ کو متوجہ کرنے کے لیے جو لفظ ’’رَاعِنَا‘‘ استعمال ہو رہا تھا‘ مسلمانوں کو اس سے بھی روک دیا گیا. رَاعِنَا کا مطلب ہے ذرا ہماری رعایت کیجیے‘ ہمارا لحاظ کیجیے‘ میں آپ کی بات سمجھا نہیں ہوں‘ آپ دوبارہ سمجھا دیجیے. لیکن یہود نے اسے زبان مروڑ کر ’’رَاعِیْنَا‘‘ کہنا شروع کر دیا تو اس لفظ کے استعمال سے روک دیا گیا. قرآن میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس کو توڑ مروڑ کر کہیں کا کہیں پہنچایا جا سکے. قرآن اپنی حفاظت خود کرتا ہے. قرآن میں ہے : لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ ’’اس پر باطل حملہ آور ہو ہی نہیں سکتا‘ نہ سامنے سے نہ پیچھے سے.‘‘

بے مثل و بے مثال کتاب

وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ ’’اور علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہو سکیں گے‘‘. سیرہونا کس کو کہتے ہیں؟ آپ نے کھانا اتنا کھا لیا کہ پیٹ بھر گیا اور آپ سیر ہو گئے. اب آپ کے سامنے کوئی بہترین ڈش بھی لے آئے اور تھوڑا سا کھانے کی فرمائش کرے تو آپ کی طبیعت آمادہ نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ آپ سیر ہو چکے ہیں. لیکن قرآن کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ علماء اس سے کبھی سیر نہیں ہوں گے. اس پر غور کرتے رہیں‘ تدبر کرتے رہیں‘ پڑھتے رہیں‘ لیکن قرآن سے سیر نہیں ہوں گے. یہ اس کا اعجازہے. 

وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ ’’اور تکرارِ تلاوت سے اس پر کوئی باسی پن طاری نہیں ہو گا‘‘.دنیا کی کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے. آپ نے کوئی کتاب ایک دفعہ پڑھی تو اب دوسری دفعہ پڑھنے کو جی نہیں چاہے گا. اور اگر دوسری دفعہ پڑھ لی تو اب اسے دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہے گا. لیکن یہ قرآن کا اعجازہے کہ اسے پڑھتے رہیے‘ پڑھتے رہیے‘ سینکڑوں دفعہ پڑھ جایئے‘ہر دفعہ آپ کو نئی چیزیں ملیں گی‘ نئے نئے نکتے ملیں گے. امام شافعیؒ اصولِ فقہ کے امام تھے. ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فقہ کے چار مآخذ قرآن‘ سنت‘ اجماع اور قیاس کے لیے قرآن سے دلائل جمع کر رہے تھے‘ لیکن اجماع کے لیے انہیں قرآن سے کوئی دلیل نہیں مل رہی تھی. اس کے لیے انہوں نے تین سو مرتبہ شروع سے آخر تک قرآن پڑھا‘ لیکن دلیل نہیں ملی. اس کے بعد جب تین سو ایک مرتبہ پڑھ رہے تھے تو سورۃ النساء کی آیت ۱۱۵ کے ان الفاظ پر توجہ مرتکز ہو گئی : ....وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾٪ ’’اورجو کوئی مسلمانوں کے راستے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا تو ہم اس کو اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے‘ اور وہ بدترین جائے قرار ہے‘‘. مسلمانوں کا راستہ وہ ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہو جائے. کیونکہ ایک اور حدیث میں آیا ہے : اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ (ابن ماجہ) ’’یقینا میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی‘‘. 

جواہر علم و حکمت کا لامتناہی خزانہ

وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ’’اوراس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘. یہ وہ کان ہے جس میں سے علم و حکمت کے گوہر نایاب ہمیشہ نکلتے رہیں گے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا.حدیث مبارک کا یہ ٹکڑا بہت اہم ہے. ہم نے عام طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ قرآن کی تفسیر و تشریح میں جو کچھ اسلاف لکھ گئے‘ وہ حرفِ آخر ہے. یہ تصور غلط ہے‘ کیونکہ قرآن اتنا محدود نہیں ہے. ہیروں کی ایک کان سے آپ ہیرے نکالتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ معلوم ہو گا کان خالی ہو گئی. لیکن قرآن ایسی کان نہیں ہے جو کبھی خالی ہو جائے. اس میں سے ہیرے نکلتے رہیں گے. اس میں غور و فکر اور تدبرکے نتیجے میں علم و حکمت کے موتی ہمیشہ نکلتے رہیں گے.بقول اقبال ؎ 

آں کتابِ زندہ قرآن حکیم
حکمتِ او لا یزال است و قدیم 

خاص طور پر جدید سائنس جیسے جیسے ترقی کرے گی‘ قرآن میں سے نئے نئے ہیرے نکلتے چلے آئیں گے. سورۃ حٰم السجدۃ کے آخر میں فرمایا گیا ہے : سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ ’’ہم عنقریب اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی‘ یہاں تک کہ یہ بات بالکل مبرہن ہو جائے گی کہ یہ قرآن حق ہے‘‘.چنانچہ آج کے سائنس دان انگشت بدنداں ہیں کہ چودہ سو برس پہلے یہ بات قرآن نے کہی ہے جو ہم پرآج کھلی ہے‘ جبکہ نہ مائیکرو سکوپ کا وجود تھا‘ نہ dissection کا معاملہ تھا اور ماں کے پیٹ میں جنین کی نشوونما کے تمام مراحل قرآن نے کس قدر صراحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں. البتہ جہاں تک فقہی و شرعی احکام کا تعلق ہے ا س ضمن میں آپ پیچھے کی طرف چلیں.اسلاف کی بات سنیں‘ پھر اُن کے بھی اسلاف کی بات سنیں. فقہائے متأخرین کا نقطۂ نظر معلوم کر لیا ہے تو متقدمین کا نقطۂ نظر معلوم کریں.ان سے بھی پیچھے جائیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس پہنچ جائیں. ان سے بھی پیچھے جائیں اور محمدٌ رسول اللہ کے قدموں میں سر رکھ دیں. جیسے اقبال نے کہاہے ؎ 

بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است 

’’اپنے آپ کو محمد مصطفی  کے قدموں تک پہنچا دو‘کیونکہ دین تو نام ہی ان کا ہے. اگر وہاں تک نہیں پہنچو گے تو یہ سراسر بولہبی ہی ہے.‘‘ 

جنات کا قبول اسلام

ھُوَ الَّذِیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ اِذْ سَمِعَتْہُ حَتّٰی قَالُوْا : اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ ’’یہ وہ کتاب ہے کہ اسے جیسے ہی جنوں نے سنا‘ فوراً پکار اٹھے: ہم نے ایک بہت خوبصورت قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘ تو ہم اس پر ایمان لے آئے‘‘.ہمارا حال یہ ہے کہ سینکڑوں مرتبہ سنتے ہیں مگر ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘ جیسے چکنے گھڑے کے اوپر سے پانی بہہ جائے.اور جنوں کی جماعت نے اسے ایک مرتبہ سنا تو وہ اس پر ایمان لے آئی. اس واقعہ کا ذکر سورۃ الجن کے آغاز میں ہے. جبکہ سورۃ الاحقاف میں بتایا گیا ہے کہ یہ جنات ایمان لانے کے بعد اپنی قوم کے پاس گئے تو جاتے ہی دعوت و تبلیغ کا آغاز کر دیا. انہوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ ’’ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسٰی ؑ کے بعد نازل کی گئی ہے‘ تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی ‘رہنمائی کرتی ہے حق اور رشد و ہدایت کی طرف‘‘. پھر انہوں نے اپنی قوم کو رسول اللہ کی پکار پر ایمان لانے کی دعوت دی: یٰقَوۡمَنَاۤ اَجِیۡبُوۡا دَاعِیَ اللّٰہِ وَ اٰمِنُوۡا بِہٖ.... ’’اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ‘‘ 

حدیث کا کلائمکس

حدیث کے آخری ٹکڑے اس حدیث کا کلائمکس ہیں. فرمایا: مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ‘ وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ‘ وَمَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ‘ وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ ’’جس نے قرآن کی بنیاد پر بات کہی اُس نے سچ کہا‘ اور جس نے قرآن پر عمل کیا اس کا اجر محفوظ ہے ‘اور جس نے قرآن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا اس نے عدل کیا اور جس نے قرآن کی طرف بلایا اُسے تو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دی گئی‘‘.کسی اور کو ہدایت حاصل ہویا نہ ہو‘ یہ داعی کے ذمے نہیں ہے‘ البتہ جو قرآن کی طرف بلا رہا ہے اس کی ہدایت یقینی (ensured) ہے. 

دعوت الی القرآن کا مدّعا

اب جان لیجیے کہ دعوت الی القرآن کا مطلب کیا ہے . لوگوں سے یہ کہنا کہ قرآن پڑھو اور پھر انہیں قرآن پڑھانا‘ لوگوں کو دعوت دینا کہ قرآن سمجھو اور پھر انہیں سمجھانا دعوت الی القرآن ہے. دعوت الی القرآن کا مقصد یہ بھی ہے کہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی قرآن پر عمل کرو اور اجتماعی زندگی میں بھی اسے ایک نظام کی حیثیت سے قائم کرو. یہ بھی دعوت الی القرآن ہے کہ اس قرآن کو پہنچاؤ دنیا کے ایک ایک انسان تک.اس لیے کہ حضور کو پوری نوعِ انسانی کے لیے بھیجا گیا تھا: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸اور خطبہ حجۃ الوداع میں آپؐ نے کہہ دیا تھا کہ دیکھو میں نے تمہیں پہنچا دیا: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (متفق علیہ) ’’اب جو موجود ہیں وہ ان کو پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں‘‘. چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس عظیم مشن کو لے کر پوری دنیا میں پھیل گئے. ہم مدینے کی گلیوں کی بات کرتے ہیں‘ مدینے میں دفن ہونے کی آرزو کرتے ہیں‘ لیکن وہ مدینہ منورہ کوچھوڑ کر نکلے. ان میں سے کوئی فارس میں دفن ہے تو کوئی عراق میں. کوئی شام میں ہے تو کوئی مصر میں. اور آپ کو معلوم ہے کہ حضور کے میزبان حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے دفن ہیں. اس لیے کہ اُن حضرات کے پیش نظر دین کو پھیلانا تھا.

یہ حدیث امام ترمذیؒ اور امام دارمیؒ نے اپنی اپنی سنن میں اور امام بیہقی ؒ نے 
’’شعب الایمان‘‘ میں نقل کی ہے. مزید برآں مسند احمد اور معجم کبیر طبرانی میں یہ مختلف انداز میں آئی ہے. حدیث کا آغاز اس طور سے ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَـقَالَ : یَا مُحَمَّدُ اِنَّ اُمَّتَکَ مُخْتَلِفَۃٌ بَعْدَکَ ’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اے محمد ! آپ کی اُمت آپ کے بعد اختلاف کا شکار ہو جائے گی‘‘. قَالَ فَقُلْتُ : فَاَیْنَ الْمَخْرَجُ یَا جِبْرِیْلُ؟ ’’ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے دریافت کیا : اے جبرائیل ! تو(اس اختلاف سے) نکلنے کا راستہ کیا ہوگا؟‘‘ قَالَ فَقَالَ: کِتَابُ اللّٰہِ تَعَالٰی… ’’ آپؐ نے فرمایا کہ جبرائیل ؑ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کی کتاب…‘‘اس روایت کی رو سے اس حدیث کے راوی ٔ اوّل حضرت جبرائیل علیہ السلام ‘ راوی ٔ ثانی محمد رسول اللہ اور راوی ٔ ثالث حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. 
عظمت ِقرآن کے موضوع پر یہ عظیم حدیث میری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے.آپ اس حدیث کا متن اور ترجمہ اپنے پاس محفوظ کر لیں‘ بلکہ لیمینیشن کرا کے نمایاں جگہ پر لٹکا لیں اور کوشش کریں کہ یہ آپ کو یاد ہو جائے. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات

(قرآن مجید کی عظمت و فضیلت پر مبنی متذکرہ بالا حدیث کا مکمل متن اور اردو ترجمہ اگلے صفحات پر ملاحظہ کیجیے.) 

قرآن مجید کی عظمت و فضیلت بلسانِ نبوتؐ


عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ : اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ قُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  ؟ قَالَ : کِتَابُ اللّٰہِ ‘ فِیْہِ نَبَاُ مَا قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ‘ ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ‘ مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ‘ وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللّٰہُ ‘ وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ ‘ وَھُوَ الذِّکْرُِ الْحَکِیْمُ ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ‘ ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَۃُ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ‘ ھُوَ الَّذِیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ اِذْ سَمِعَتْہُ حَتّٰی قَالُوْا : اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ‘ وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ‘ وَمَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ‘ وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاط مُسْتَقِیْمٍ
 (رواہ الترمذی والدارمی) 


نوٹ: یہ حدیث مبارکہ طبرانی ؒ کی معجم کبیر میں ا س طرز سے آئی ہے کہ : حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرم سے دریافت کیا: ’’یَا مُحَمَّدَُ  ! اُمَّتَکَ بَعْدَکَ؟‘‘ یعنی اے محمد آپ کے بعد آپ کی اُمّت کا کیا بنے گا؟‘‘ جس پر آنحضور نے فرمایا: ’’مَا الْمَخْرَجُ یَا جِبْرِیْلُ؟‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا وہ وہی ہے جو مندرجہ بالا حدیث کے مطابق نبی اکرم نے فرمایا! 

( ترجمہ) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے سنا‘ آپؐ نے ایک دن فرمایا: ’’ آ گاہ ہو جاؤ ‘ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے! ‘‘میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ کتاب اللہ! اس میں تم سے پہلی اُمتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دُنیوی و اُخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں‘ قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے!) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں اُن کا حکم اور فیصلہ موجود ہے. (حق وباطل اور صحیح و غلط کے بارے میں) وہ قولِ فیصل ہے‘ وہ فضول بات اور یاوہ گوئی نہیں ہے .جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے مُنہ موڑے گا!) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا ‘اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا!) قرآن ہی حبل اللّٰہ المتین (یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ )ہے! اور محکم نصیحت نامہ ہے ‘ اور وہی صراط مستقیم ہے‘ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں‘ اور زبانیں اس کو گڑبڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی.

اللہ تعالیٰ نے تاقیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے!) اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبرکاعمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گااور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا. بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علمِ قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ‘ جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے) اور وہ (قرآن)کثرتِ مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا(یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد اُن کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا‘ قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے‘ وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا!) اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہو ں گے. قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بے اختیار بول اٹھے: ’’ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے‘ رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی‘ پس ہم اس پر ایمان لے آئے‘‘.جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی‘ اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحق اجر و ثواب ہوا .اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا ‘ اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی!‘‘