ستمبر۱۹۶۸ء میں مجلس طلبائے اسلام پاکستان نے بمقام بنات الاسلام اکیڈمی‘ گلبرگ‘ لائل پور ( فیصل آباد) اپنا پہلا سالانہ تربیتی اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ جس میں بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ کو’’اسلام اور امن ِعالم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تھی. اس اجتماع کی عمومی نشستیں تو بعد میں حکام کے امتناعی احکام کے پیش نظر منعقد نہ ہو سکیں‘ البتہ کچھ شہر کے مقامی طلبہ اور کچھ باہر سے آنے والے مندوبین اپنے خصوصی اجلاس منعقد کرتے رہے. ایسی ہی ایک نشست میں محترم ڈاکٹر صاحب نے نہایت فکر انگیز اظہارِ خیال فرمایا‘ جسے افادۂ عام کی غرض سے کتابچے کی صورت میں شائع کر دیا گیا. امن و امان کی موجودہ عالمی صورتِ حال اور اہل ِمغرب کے اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کے تناظر میں آج اس تحریر کی افادیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اسے بہت بڑے پیمانے پر عام کرنے کی ضرورت ہے (ادارہ)

حمد و ثنا‘ درود و سلام اور دعا کے بعد :

عزیز طلبہ!
آج آپ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میں ایک خصوصی مسرت محسوس کررہا ہوں‘ جس کے دو اسباب ہیں: پہلا یہ کہ ابھی خود مجھے طالب علمی کے دور سے گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہوا. ۱۹۵۴ء میں‘ میں ایم بی بی ایس کے فائنل امتحان سے فارغ ہواتھا‘ اور ایک تو ویسے ہی گزرا ہوا وقت بہت مختصر معلوم ہوا کرتا ہے‘ چنانچہ قیامِ قیامت کے وقت لوگ نہ صرف اپنی پوری دنیوی زندگی بلکہ پورے دورِ عالم برزخ کو بھی بس ایک رات یا اس کی صبح جتنا مختصر محسوس کریں گے 
(۱پھر چودہ سال تو واقعتا بہت قلیل (۱) کَاَنَّہُمۡ یَوۡمَ یَرَوۡنَہَا لَمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوۡ ضُحٰہَا ﴿۴۶﴾ (النزعت) مدت ہے علاوہ بریں میرا معاملہ تو خاص طور پر یہ ہے کہ میں نے اس پورے عرصے میں بھی اپنے آپ کو ایک طالب علم ہی محسوس کیا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اب بھی میں خود کو بس ایک طالب علم ہی سمجھتا ہوں. چنانچہ شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ میں نے آج سے تین سال قبل ایک باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ایم اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا اور اس میں قطعاً کوئی حجاب محسوس نہ کیا‘ اور آج آپ کے مابین میں بالکل صحبت ہم جنس کی سی کیفیت محسوس کر رہا ہوں آج کے اس اجتماع سے خطاب کرنے میں جو مسرت مجھے حاصل ہوئی ہے اس کا ایک سبب اور بھی ہے جسے میں اپنی گزارشات کے آخر میں بیان کروں گا.

حضرات! آپ کو معلوم ہے کہ مجھے ’اسلام اور امن عالم‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے. میں اس موضوع پر تین سطحوں 
(levels) پر گفتگوکروں گا: ایک انفرادی امن‘ دوسرے سیاسی و معاشرتی سلامتی اور تیسرے امن ِعالم. 

(۱) انفرادی امن و سکون

آپ شاید حیران ہوں کہ امن عالم پر گفتگو اور اس کی ابتدا انفرادی سکون و اطمینان سے! لیکن آپ ذرا غور سے کام لیں گے تو خود محسوس فرما لیں گے کہ عالمی امن کے قیام میں اصل فیصلہ کن عامل افرادِ نسل انسانی کا انفرادی سکون و اطمینان ہی ہے‘ اس لیے کہ:

(۱) پورے عالم ِانسانی کی اصل اکائی 
(unit) بہرحال فردہی ہے. جس طرح ایک فصیل چاہے وہ کتنی ہی لمبی‘ چوڑی اور اونچی کیوں نہ ہو‘ بنی تو بہرحال اینٹوں ہی سے ہوتی ہے اور اس کی مضبوطی کا سارا دار و مدار اینٹوں کی پختگی ہی پر ہوتا ہے‘ اسی طرح امن عالم کا تصور بھی افراد نسل انسانی کے داخلی سکون و اطمینان کے بغیر نہیں کیا جا سکتا.

(۲) واقعہ یہ ہے کہ انسان ’عالم اصغر‘ ہے اور اس کے باطن میں نہ صرف یہ کہ عالم ارضی بلکہ پوری کائنات منعکس موجود ہے. اس حقیقت ِعظمیٰ کو نفسیاتِ انسانی کے سب سے بڑے عالموں یعنی صوفیائے اسلام نے خوب سمجھا ہے. چنانچہ انہی کی 
اصطلاح کو میں نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے منتخب کیا ہے. اس بات کو تو عام طور پر سب ہی لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے باطن پر خارج کے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور کائناتِ ارضی و سماوی کے تمام واقعات و حوادث انسان کی داخلی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں‘ تاہم یہ ہے ایک امر واقعہ ‘ کہ اس عالم ِاصغر یعنی انسان کا باطن بھی عالم ِاکبر یعنی کائنات پر اثر انداز ہوتا ہے اور خارج کی وسعتوں اور پہنائیوں پر عکس ڈالتاہے. لہذا نسل انسانی کے افراد کے باطن میں اگر سکون واطمینان موجود ہو گا تو لامحالہ کائناتِ ارضی و سماوی پر بھی اس کا عکس پڑے گا اور امن عالم کا قیام ممکن ہوسکے گا.

(۳) تاریخ عالم پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے تو صاف نظر آئے گا کہ بسااوقات بعض افراد کے داخلی انتشار و فساد کی وجہ سے عظیم خوں ریزیاں ہوئیں اور امن عالم تہ و بالا ہوا. ہلاکو اور چنگیز خاں اور ہٹلر اور مسولینی ایسے لوگوں کی شخصیتوں کا ذرا دقت ِنظر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو صاف معلو م ہو جائے گا کہ ان کے جذبات و احساسات کے اختلال اور ذہنی و قلبی انتشار ہی کے نتیجے میں پورے عالم ِارضی کا سکون و چین ختم ہوا اور بے اندازہ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا.

(۴) اِس وقت بھی ذرا آنکھیں بند کر کے سوچیے کہ کریملن اور وہائٹ ہاؤس میں جو معدودے چند لوگ اقتدار و اختیار کی گدیوں پر قابض ہیں ‘ ان کے داخلی امن و سکون کا کتنا گہرا تعلق عالمی امن کے ساتھ ہے. آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ان میں سے کسی ایک یا چند ایک کے ذہنی اختلال ہی نہیں محض اعصابی تناؤ کی بدولت کتنی ہلاکت خیز جنگ چھڑ سکتی ہے اور کیسا کچھ خون خرابہ ہو سکتا ہے. 

ایمان

اس اعتبار سے دیکھاجائے تو اسلام کا معاملہ بالکل منفرد نظر آتا ہے. آپ کو معلوم ہے کہ اس کی اساس جن بنیادی اعتقادات پر قائم ہے ان کا مجموعی نام ہی ’ایمان‘ ہے ‘ جس کا مادہ ’امن‘ ہے اور جس کا اصل حاصل وہ سکون و اطمینان ہے جو اس کی بدولت نفس انسانی میں پیدا ہوتا ہے.

ایمان کا اصل الاصول ’ایمان باللہ‘ ہے‘ جو عبارت ہے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے ساتھ توکل و اعتماد اور تسلیم و تفویض کے ایسے تعلق سے جو انسان کو حقیقی امن و سکون اور راحت و چین سے ہمکنار کرتا ہے اور انسان کے داخلی امن کے لیے ایک مثبت و محکم اساس فراہم کرتا ہے. اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک فردِ نوعِ بشر کا مخلصانہ تعلق جس کا اصطلاحی نام ’توحید‘ ہے ‘ بالآخر انسان کو 
’’ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ‘‘ کے اُس مقامِ رضا پر فائز کرتا ہے جہاں پہنچنے کے بعد انسان کو نہ کوئی خطرہ و خدشہ رہتا ہے‘ نہ حزن و ملال (۱اور اس کے سینے میں انشراح اور قلب میں انبساط کی وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو محسوس تو کی جا سکتی ہے‘ بیان میں نہیں آ سکتی.
سورۃ الانعام کی آیات ۸۱.۸۲ میں پہلے ایک سوال کیا گیاکہ: 

فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾ 
’’اگر تم جانتے ہو توبتاؤ کہ امن کا اصل حق دار کون سا فریق ہے؟‘‘

اور پھر جواب دیا گیا ہے کہ: 

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ 
’’امن تو بس ان کے لیے ہے جو ایمان لائیں اور اس میں شرک کی کوئی آمیزش نہ کریں.‘‘

غرض ایمان باللہ انسان کے داخلی امن کا واحد مثبت ذریعہ ہے اور قلب انسانی کو حقیقی امن و سکون سوائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسے مخلصانہ اور مضبوط و محکم تعلق کے کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہو سکتا جس کا ذریعہ ذکر الٰہی ہے. اسی لیے فرمایا گیا کہ: 

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ ﴿ؕ۲۸﴾ (الرعد) 
’’ آگاہ ہوجاؤ کہ قلوب ِانسانی ذکرِ الٰہی ہی سے اطمینان پاتے ہیں.‘‘

نوعِ انسانی کا جو بدنصیب فرد اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہے گا اسے ذہنی سکون اور 
(۱) اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس) 
’’ آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن.‘‘ قلبی اطمینان کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتا. پھر لازم ہے کہ اس کی دنیوی خواہشات (worldly ambitions) ہر دم بڑھتی چلی جائیں اور وہ طولِ امل کے جال میں پھنستا چلا جائے. پھر اکثر و بیشتر تو آرزوؤں اور اُمیدوں کے سراب ہی پر دم توڑ دے‘ اور اگر نسبتاً ذہین تر ہو تو مزید پیچیدہ امراض کا شکار ہو. چنانچہ ایک طرف اس کا باطن مختلف اور متضاد خواہشات کے باہمی تصادم کی آماجگاہ بنے‘ جس کے نتیجے میں داخلی انتشار (internal conflicts) پیدا ہوں اور ناکامیاں و نارسائیاں مختلف النوع مایوسیوں (frustrations) کو جنم دیں اور ان سب کے نتیجے میں انسان کا باطن ایک سلگتی ہوئی بھٹی بنا رہے جس میں اس کے دل و جگر کباب ہوتے رہیں‘ اور دوسری جانب ابنائے نوع کے مفادات کے باہمی تصادم سے جہد للبقاء (struggle for existence) ہی نہیں ‘ بلکہ تکاثر و تنافس اور بغی و طغیان کی صورتیں پیدا ہوں اور خدا کی زمین فتنہ و فساد سے بھر جائے.

اس مرحلے پر ’ایمان‘ ہی کی ایک دوسری شاخ ’ایمان بالآخرۃ‘ جو درحقیقت ایمان باللہ ہی کی ایک فرع ہے‘ انسان کا سہارا بنتی ہے اور انسانی بغی وطغیان کی راہ میں ایک مؤثر رکاوٹ بن کر سامنے آتی ہے اور بعث بعد الموت ‘ حساب و کتاب اور جزاء و سزا کے حقائق کو اُجاگر کرکے انسان کو اپنے جائز حقوق پر قانع اور مناسب حدود کا پابند رہنے پر آمادہ کرتی ہے. سورۃ العلق کی آیات ۶ تا ۸ اگرچہ اوّلین وحی تو نہیں لیکن بالکل ابتدائی آیات میں سے ضرور ہیں اور ان کو اوّلین وحی سے بالکل متصل رکھ کر شارع نے ان کی اہمیت کو مزید اُجاگر کر دیا ہے. ان میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو حد سے تجاوز اور ظلم وتعدی سے باز رکھنے والی قوت ایک ہی ہے اور وہ عقیدۂ آخرت ہے. فرمایا گیا:

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾ (العلق)
’’کچھ نہیں‘ انسان سرکشی پر آمادہ ہو ہی جاتا ہے‘ اس لیے کہ پاتا ہے اپنے تئیں آزاد. (لیکن اسے) لازماً تیرے پروردگار کے پاس لوٹنا ہے.‘‘

میری ان گزارشات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امن کی اساس ایمان ہی پر قائم 
ہو سکتی ہے اور امن عالم کے قیام کی کوئی سکیم ‘جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ سے شروع نہ ہو ‘قطعاً کامیاب نہیں ہو سکتی. 

اسلام

میں عرض کر چکا ہوں کہ ایمان کا اصل تعلق انسان کی باطنی کیفیات سے ہے اور داخلی امن اس کا سب سے بڑا ثمرہ ہے. اس داخلی امن کے ظہورِ خارجی کو اصطلاح میں ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں ‘جو خارجی سلامتی کا مظہر ہے. یہی وجہ ہے کہ ایمان جس ہیئت ِاجتماعی کو جنم دیتاہے اور جو مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتی ہے اس کی اساس اسلام پر ہے نہ کہ ایمان پر ‘ لیکن یہ ایک ضمنی بات ہے. موضوع زیر بحث کے اعتبار سے اصل دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ایمان و اسلام درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں‘ ایک انسان کے داخلی امن کا مظہر ہے اور دوسرا خارجی سلامتی کا. ان عظیم حقائق کو نبی اکرم نے اس دعا میں جو آپ  ہر نئے ماہ کے چاند کو دیکھ کر پڑھا کرتے تھے ‘ نہایت فصاحت اور حد درجہ بلاغت کے ساتھ سمو دیا ہے. آپ فرمایا کرتے تھے:

اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ
’’پروردگار! اس ہلال کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ طلوع فرما.‘‘ (آمین)

انہی حقائق کو آپ نے دوسرے مواقع پر پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا. چنانچہ ایک طرف آپ نے اس شخص کے ایمان کی نفی پر تین بار اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی جس کی ایذا رسانیوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو 
(۱. دوسری طرف خلق حسن کو آپ نے ایمان اور اسلام دونوں کی بلند ترین منزلیں قرار دیا (۲. تیسری (۱) وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ : اَلَّذِیْ لَا یَاْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ (رواہ البخاری‘ عن ابی شریح العدویؓ )
(۲) ٭قِیْلَ اَیُّ الْاِیْمَانِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: خُلُقٌ حَسَنٌ (رواہ احمد ‘ عن عمرو بن عبسہ ؓ )
٭ اَکْمَلُ الْمُسْلِمِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا (رواہ الترمذی وابوداوٗد‘ عن ابی ھریرۃ ؓ ) 
طرف آپ نے مسلمان کی تعریف (definition) ہی یہ بیان فرمائی کہ ’’مسلم وہ ہے جس کے ہاتھوں اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (۱. اور چوتھی طرف عام ہدایت دی کہ ’’تم زمین والوں پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا.‘‘ (۲

(۲) سیاسی و معاشرتی سلامتی

افرادِ نسل انسانی کے باہمی میل جول اور ربط وتعلق سے پہلے خاندان‘ پھر کنبہ اور قبیلہ اور اس سے آگے بڑھ کر معاشرہ اور ریاست وجود میں آتے ہیں اور چونکہ یہ عالم ارضی بہرحال گنتی کے چند معاشروں اور معدودے چند ریاستوں ہی پر مشتمل ہے اور امن عالم سے مراد ان معاشروں اور ریاستوں کے باہمی پرامن ربط و تعلق کے سوا اور کچھ نہیں‘ لہذا ان معاشروں اور ریاستوں کے داخلی امن و سکون کو امن ِعالم سے بالکل وہی نسبت ہے جو ایک فرد کے داخلی امن یعنی ایمان کو اس خارجی سلامت روی یعنی اسلام سے ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام نے معاشرتی امن و سکون اور سیاسی عدل وانصاف پر غیرمعمولی زور دیا ہے. اسلامی معاشرے اور ریاست کی اکائی ایک فردِ مسلم ہے اور اس کی جو تعریف نبی اکرم نے کی اور اس کے جو اوصاف آنحضور نے بیان فرمائے ان کو ذہن میں مستحضر کر کے خود غور فرمایئے کہ جس معاشرے کی تعمیر ان اساسات پر ہو اور جس کے باشندے ایسے امن پسند‘ سلامت رو اور صلح جو واقع ہوئے ہوں اس میں امن و سلامتی کی کیسی فضا پائی جائے گی.

اسلامی ہیئت ِاجتماعیہ کی مثبت اساس 
’’اَلْحُبُّ فِی اللّٰہِ‘‘ پر قائم ہے اور اس کا امتیازی نشان یا علم سلامتی ہے. چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دو مسلمانوں کی خالصتاً لوجہ اللہ باہمی محبت کو نیکی کے چوٹی کے اعمال میں شمار فرمایا ہے اور مسلمان معاشرے میں سب سے (۱) اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ (متفق علیہ‘ عن عبداللّٰہ بن عمروؓ 
(۲) اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَآءِ (رواہ الترمذی وابوداوٗد‘ عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما) 
سے زیادہ کہی اور سنی جانے والی بات باہم سلامتی کی بشارت اور دعا یعنی ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘ ہے. اسلامی معاشرے کے ان دونوں نمایاں اوصاف کوآنحضور نے ایک حدیث مبارک میں اس طرح بیان فرمایا ہے: 

لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُـؤْمِنُوْا وَلَا تُــؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا‘ اَوَلَا اَدُلُّـکُمْ عَلٰی شَیْئٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ‘ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَـکُمْ (رواہ مسلم والترمذی‘ عن ابی ھریرۃ ؓ )

’’اے مسلمانو! تم جنت میں داخل نہ ہو سکو گے جب تک صاحب ایمان نہ ہو‘ اور تم صاحب ایمان نہیں ہو سکو گے جب تک باہم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو‘ تو کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمہارے مابین محبت پیدا ہو جائے (وہ یہ ہے کہ) اپنے مابین ’سلام‘ کا خوب چرچا کرو.‘‘

قربان جایئے اللہ کے رسول  کے کہ کیسے معجز نما ایجاز کے ساتھ اسلامی معاشرے کی پوری حقیقت از ابتدا تا انتہا کھول کر رکھ دی.

قرآن حکیم میں سورۃ الحجرات خاص طورپر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے اصول و فروع سے بحث کرتی ہے اور اس میں اسلامی معاشرے اور مسلمان ریاست کے بہت سے اہم اور بنیادی امور بیان ہوئے ہیں. میرے لیے یہاں ان سب کا ذکر تو ممکن نہیں‘ البتہ اس امر کا تذکرہ موضوع زیر گفتگو کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس میں معاشرتی امن و سکون اور صلح وآشتی کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت باریک بینی کے ساتھ ہدایات دی گئی ہیں. چنانچہ ایک طرف افواہوں کی روک تھام اور جھگڑوںاور مناقشوں کے فوری حل کی سخت تاکید کی گئی ہے اور دوسری طرف تمسخر و استہزاء‘ تفاخر و تباہی ‘تجسس ّو سوءِ ظن اور غیبت و بدگوئی سے احتراز و اجتناب کا بھی نہایت سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے. میں آپ سب حضرات سے تاکیداً عرض کرتا ہوں کہ پوری سورۃ الحجرات کا بنظر غائر مطالعہ کر کے از خود اندازہ کریں کہ اسلام معاشرتی امن و سکون کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور بغض و نفرت کے تمام اسباب کا کتنی باریک بینی کے ساتھ سدّ باب کرتا ہے. 
اس سے بھی آگے بڑھیے تو نظر آتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے لیے ایسے زریں اصول قرآن حکیم میں متعین کر دیے گئے ہیں کہ جن کی نظیر کسی دوسری آسمانی کتاب میں بھی شاید ہی مل سکے‘ کہیں اور تو اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. مثلاً: 

(۱وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ (المائدۃ:۲)
’’اورنیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسر ے سے تعاون کرو ‘اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ہرگز تعاون نہ کرو.‘‘

(۲
کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ (النساء:۱۳۵)
’’عدل و انصاف کے علمبردار اور اللہ کے گواہ بن کر کھڑے ہو‘ چاہے اس کی زد خود تمہارے اپنے اوپر پڑے‘ چاہے تمہارے والدین اور اعزہ و اقرباء پر.‘‘

(۳
کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ (المائدۃ:۸
’’اللہ کے علمبردار اور عدل و انصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو‘ اور کسی گروہ کی عداوت تمہیں عدل و انصاف کی راہ سے ہٹانے نہ پائے . عدل سے کام لو ‘ اسی کو پرہیزگاری سے زیادہ مناسبت ہے.‘‘

(۴
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ (الحدید:۲۵)
’’ہم نے اپنے رسولوں کو بینات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (شریعت) اتاری ‘ تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں. اور ہم نے لوہا اتارا جس میں شدید حرب و ضرب کی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے منافع بھی ہیں اور (خصوصاً) اس لیے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون ہے وہ جوغیب میں رہتے ہوئے اللہ اوراس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے (یعنی عدل و انصاف کے خدائی نظام کو قائم کرتا ہے).‘‘

گویا کہ اسلامی ہیئت اجتماعی کے چار ستون بر و تقویٰ اور عدل و قسط ہیں‘ اور حیاتِ 
اجتماعی کا اصل مقصود و مطلوب اور آلاتِ حرب و ضرب کا اصل منشاء و مصرف اسلام کے نزدیک اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں.

(۳) امن ِعالم

عالمی امن کے قیام کے لیے جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ اسلام کے پاس دو سکیمیں ہیں‘ ایک دیرپا اور مستقل ‘ اور دوسری عارضی وعبوری. چنانچہ اب میں مختصراً ان ہی کے بارے میں کچھ عرض کروں گا.

عالم انسانی میں مضبوط و محکم اور پائیدار و دیرپا امن کے قیام کی صورت تو ایک ہی ہے ‘ اور وہ یہ کہ متذکرہ بالا اسلامی معاشرہ اور مسلم ریاست خود وسعت پذیر 
(expand) ہوں اور رفتہ رفتہ زیادہ سے زیادہ انسانوں حتیٰ کہ پوری انسانیت کو اپنے مضبوط حصارِامن میں لے کر ہر قسم کے فتنہ وفساد سے مامون و مصئون کر دیں‘ اس لیے کہ واقعہ یہی ہے کہ امن و سلامتی کی اس صراطِ مستقیم کے سوا جو ایمان و اسلام پرمبنی ہے‘ انسان کے لیے سکون اور اطمینان کی کوئی اور راہ ہے ہی نہیں‘ اور انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ انسان نے اس شاہراہ سے ہٹ کر جب کبھی کوئی دوسری راہ اختیار کی ‘ خدا کی زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی .

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ ﴿۪ۙ۱۲﴾ (الفجر)
’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ کیا کیا تیرے پروردگار نے عاد کے ساتھ ‘یعنی ستونوں والی قومِ ارم کے ساتھ‘ اور قومِ ثمود کے ساتھ جو وادیوں میں چٹانوں کو تراشاکرتے تھے‘ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ‘ جنہوں نے بلادِ ارضی میں سرکشی کی اور ان کو فساد سے بھر دیا!‘‘

لہذا اسلام کا اصل زور 
(emphasis) تو اس دعوت پر ہے کہ پوری نوعِ انسانی اپنے خالق و مالک پر ایمان لے آئے اور اس کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کر دے. 

(۱
فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ (التغابن:۸’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول ( )پر اور اس نور (قرآن مجید) پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے .‘‘

(۲
اَسْلِمُوْا تَسْلَمُوْا (متفق علیہ‘ عن ابی ھریرۃؓ ) 
’’اسلام لے آؤ ‘سلامتی پاؤ گے.‘‘

(۳
ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً (البقرۃ:۲۰۸
’’اسلام (اور سلامتی ) میں پورے کے پورے اور سب کے سب داخل ہو جاؤ.‘‘

(۴
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ (آل عمران:۱۹)
’’اللہ کے ہاں تو بس ایک ہی دین مقبول ہے اور وہ ہے اسلام.‘‘

اور اس عالم ارضی کے امن و سکون اور سلامتی و اطمینان کا گہوارہ بننے کی اصلی صورت یہی ہے کہ پہلے کسی ایک خطے میں صحیح اسلامی معاشرہ اور حقیقی اسلامی ریاست قائم ہو جو ایمان و اسلام کی عالمگیر دعوت کی علمبردار بن کر کھڑی ہو ‘جس کے نتیجے میں 
وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ (۱کی صورت ایک بڑے پیمانے پر دوبارہ پیدا ہو اور اس اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی چلی جائیں‘ تاآنکہ پورے عالم ارضی میں قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا (۲کا سماں بندھ جائے اور پورا عالم انسانیت اپنے رحیم و ودود رب کے دامن رحمت کے سائے تلے آ جائے.

تاہم بحالت موجودہ یہ ایک بہت دور کی بات معلوم ہوتی ہے 
(۳.جب تک یہ آخری صورت نہ ہو‘ عبوری دور میں بھی اسلامی معاشرے اور مسلم ریاست کے پاس پورے عالم انسانی کے لیے دو مشترک اقدار کی بنیاد پر صلح و امن اور محبت و رأفت کا پیغام موجود ہے ‘ اور اس سے قبل کہ میں آپ کے سامنے ان دو مشترک اساسات کو بیان کروں (۱) سورۃ النصر : ’’اور تم نے دیکھا لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہوئے فوج در فوج.‘‘

(۲) سورۃ الواقعہ : ’’ہر جانب سلامتی ہی سلامتی کا غلغلہ!‘‘

(۳) ’’اگرچہ ایسا صرف ہماری تقویم کی رو سے ہے‘ اللہ تعالیٰ کی تقویم کے حساب سے تو معاملہ اس کے بالکل برعکس اور آیت قرآنی : 
اِنَّہُمۡ یَرَوۡنَہٗ بَعِیۡدًا ۙ﴿۶﴾وَّ نَرٰىہُ قَرِیۡبًا ؕ﴿۷﴾ (المعارج) کے عین مصداق ہے! جن پر قیام امن کے لیے اسلام کی عبوری تجویزمبنی ہے ‘میں چاہتا ہوں کہ ایک نظر آپ عالم انسانی کی موجودہ صورت حال پر بھی ڈال لیں اور وقت کے اہم ترین تقاضے کو سمجھ لیں.

آپ کو معلوم ہے کہ سائنس کی حیرت انگیز ترقی اور ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل میں بے پناہ اضافے کی بنا پر پورا عالم انسانی ایک شہر کے مانند ہو کر رہ گیا ہے اور مختلف ممالک کی حیثیت اس کے محلوں سے زیادہ نہیں رہی ‘ لیکن فاصلوں کی یہ ساری کمی انسان کے خارج ہی میں وقوع پذیر ہوئی ہے‘ دلوں کے ُبعد میں قطعاً کوئی کمی واقع نہیں ہوئی‘ اور افرادِ نوعِ بشر اور اقوامِ و ملل عالم کے مابین دوری جوں کی توں قائم ہے. اور یہ عجیب مخمصہ ہے جس میں عالم انسانی اس وقت گرفتار ہے کہ حالات کا شدید تقاضا تو یہ ہے کہ انسان باہم ایک دوسرے سے قریب ہوں اور دنیا میں جلد از جلد ایک عالمگیر معاشرہ اور ایک عالمی ریاست 
(world state) قائم ہو جائے‘ لیکن انسان کی تہی دستی اور تنگ دامانی کا عالم یہ ہے کہ ایسی کوئی قدر مشترک اسے نہیں مل رہی جو مشرق و مغرب کے فاصلے‘ گورے اور کالے کے امتیاز‘ اور نسلوں اور عقائد و نظریات کے فرق و تفاوت کی خلیجوں کو پاٹ سکے ‘یا کم از کم ایسا پل بن جائے جس پر سے گزر کر ابنائے نوعِ بشر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو سکیں.

اس بدلی ہوئی صورت حال ہی کا تقاضا تھا جس کے تحت مرحوم انجمن اقوامِ عالم 
(League of Nations) وجود میں آئی تھی‘ اور انسان کی یہی تہی دستی تھی جس کے‘باعث وہ ناکام ہوئی ‘لیکن چونکہ تقاضا نہ صرف یہ کہ اپنی جگہ موجود تھا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ شدید صورت اختیار کر گیا تھا‘ لہذا پھر موجودہ تنظیم اقوام متحدہ 

(United Nations Organization) وجود میں آئی. لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی اسی تنگ دامانی کے باعث وہ بھی عملاًناکام ہو چکی ہے ‘اور اگرچہ اس کا ظاہری ٹھاٹھ باٹھ موجود ہے‘تاہم ہر شخص جانتا ہے کہ درحقیقت وہ ’’united‘‘ یعنی متحدہ کی بجائے ’’untied‘‘ یعنی منتشر اقوام کے زبانی جمع خرچ کا ایک ادارہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں. اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت کے اس اہم تقاضے کا جواب اسلام اور صرف اسلام کے پاس موجود ہے‘ جو دو ایسی مشترک قدروں کا علمبردار ہے جن کی لڑی میں پوری انسانیت کو پرویا جا سکتا ہے اور جن کی بنیاد پر مشرق بعید کے زردرو‘ مغرب بعید کے سرخ و سپید اور افریقہ کے سیاہ فام انسانوں میں بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے اور باہمی اپنائیت اور یگانگت کے احساسات بیدار ہو سکتے ہیں. سورۃ الحجرات کی ایک ہی آیت میں یہ دونوں مشترک اقدار بھی بیان ہوئی ہیں اور انسانوں کے مابین فرق و امتیاز کی تمام غلط بنیادوں اور عزت و شرف کے باطل پیمانوں کی نفی کر کے فرق و تمیز اور عزت و شرف کی واحد بنیاد بھی واضح کر دی گئی ہے. ارشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ (الحجرات:۱۳)
’’اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شعوب و قبائل میں تقسیم کر دیا تاکہ باہم ایک دوسرے کو پہچان سکو. (باقی رہا عزت کا سوال تو) تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.‘‘

گویا دنیا بھر کے تمام انسانوں کے مابین دو وحدتیں مشترک ہیں: ایک وحدتِ خالق اور دوسری وحدتِ آدم. روئے زمین پر جتنے انسان بھی بس رہے ہیں وہ سب خدا کی مخلوق‘ لہذا باہم مساوی ‘ اور آدم و حوا کی اولاد ‘لہذا آپس میں بھائی بھائی ہیں:
 یٰٓــاَیـُّـھَا النَّاسُ کُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا ان کے مابین رنگ و نسل اور شکل اور زبانوں کا اختلاف صرف باہمی تعارف کے لیے ہے. ان میں سے کوئی چیز بھی عزت و شرف کی بنیاد نہیں. عزت و شرف کا معیار تو ایک ہی ہے اور وہ ہے خدا کا خوف! غور فرمایئے یہ باتیں آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی کیسی بعید اور خالص نظری و کتابی محسوس ہوتی ہیں‘ لیکن محمد رسول اللہ کے بارے میں یہ بات آپ کے بدترین دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے واقعتا ان ہی اساسات پر ایک معاشرہ عملاً قائم فرمادیا اور ایک باقاعدہ ریاست کی بنیاد رکھ دی. (۱

سورۃ الحجرات کی محولہ بالا آیت میں جو تین مضامین بیان ہوئے ہیں ‘ وہی عکسی ترتیب کے ساتھ سورۃ النساء کی پہلی آیت میں بیان ہوئے ہیں:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾ (النسآء)
’’اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے رب سے جس نے پیدا کیا تمہیں ایک جان سے اور بنایا اسی سے اس کا جوڑا. اورپھیلا دیے انہی سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں. اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کا واسطہ تم ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہو اور رحمی رشتوں سے. بے شک اللہ تم پر نگران و نگہبان ہے.‘‘

یعنی وہی تقویٰ کی تعلیم اور وحدتِ الٰہ و رب اور وحدتِ آدم و حوا کو ملحوظ رکھنے کی تاکید‘ یہ دو بنیادیں ہر دو انسانوں کے مابین مشترک ہیں‘ چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ‘ کالے ہوں یا گورے‘ متمدّن ہوں یا غیر متمدّن‘ مرد ہوں یا عورت اور چاہے کسی نسل سے تعلق رکھتے ہوں‘ کوئی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہوں‘ کسی شکل و صورت کے مالک ہوں اور کوئی سی زبان بولتے ہوں. آیت کے دوسرے حصے میں ان ہی دو اساسات کے تقاضوں کو کھول کر بیان کر دیا . پہلی اصل کی معرفت کا تقاضا تقویٰ ہے اور دوسری اصل کا تقاضا رحمی تعلق کا لحاظ ہے جس کے اعتبار سے آدم و حوا پر جا کر پوری نوعِ انسانی ایک ہو جاتی ہے. 
(۲(۱) مثلاً ایچ جی ویلز جس نے آنحضور کی سیرت طیبہ پر نہایت رکیک حملے بھی کیے‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ اگرچہ انسانی اخوت و مساوات کے مواعظ حسنہ کی تو‘ بقول اس کے‘ مسیح ناصری (علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام) کے یہاں بھی کمی نہیں ‘لیکن ان اساسات پر ایک انسانی معاشرے کا واقعی قیام صرف محمد( )کا کارنامہ ہے!

(۲) قرآن حکیم کا یہ اعجاز پیش نظر رہے کہ محولہ بالا دونوں آیتوں میں خطاب 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سے نہیں بلکہ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ سے ہے‘ اس لیے کہ ان میں وہ اساسات اجاگر کی جا رہی ہیں جو پوری نوعِ انسانی میں مشترک ہیں. برادرانِ عزیز! یہ ہے قرآن حکیم کی وہ تعلیم جس میں ایک فرد کے داخلی سکون و اطمینان سے لے کر پورے عالم انسانی میں پائیدار اور محکم امن کے قیام کے امکانات مضمر ہیں. اب ذرا ایک جانب اپنی خوش قسمتی کا تصور کیجیے کہ آپ اس عالم انسانی کا وہ واحد گروہ ہیں جس کے پاس ایسی عظیم الشان تعلیم موجود ہے اور دوسری جانب اس صورتِ حال کو دیکھئے اور سر دھنیے کہ عالم اسلام بھی آج فلسفوں اور نظریوں کے لیے دست سوال ان لوگوں کے سامنے دراز کر رہاہے جو خود ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ کی کیفیت میں مبتلا ہیں. حتیٰ کہ آج ’’دنیا بھر کے مزدورو متحد ہو جاؤ !‘‘ کا نعرہ بھی عالم اسلام میں اس لیے مقبول ہو رہا ہے کہ اس میں بین الاقوامیت کی ایک جھلک تو نظر آتی ہے. یہی نہیں بلکہ آج اس دین کے نام لیوا‘ جس نے ہر قسم کی قوم پرستی (Nationalism) کاخاتمہ کیا اور جس کی تعلیم و تربیت کا منتہائے کمال یہ تھا کہ قریش کے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والا اور پورے عالم اسلامی اور وقت کی عظیم ترین مملکت کا فرمانروا ایک حبشی النسل ‘ سیاہ فام‘ آزاد شدہ غلام کو ’’سیدنا‘‘ کے خطاب سے یاد کیا کرتا تھا ‘ اپنی مشکلات کا حل ایک نسلی قومیت میں تلاش کر رہے ہیں اللہ اکبر‘ خود فراموشی ہو تو ایسی! اور قلب ماہیت ہو تو اتنی!

حضرات! چاہے ہمیں اس کے تسلیم کرنے میں کتنی ہی ہچکچاہٹ محسوس ہو‘ واقعہ یہی ہے کہ قرآن کی تعلیمات سے سب سے زیادہ بعید خود ہم مسلمان ہیں‘ اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ قرآن کے فکر کو اُجاگر کرنے اور اس کے نورِ ہدایت کو پھیلانے کا کام بالکل ابتدا سے شروع کیا جائے‘ اور پہلے خود مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کیا جائے اور پھر پورے عالم انسانی میں قرآن کی رہنمائی کو واضح کیا جائے. اور چونکہ یہ بنیادی کام صرف ایسے نوجوان طلبہ کے ذریعے ہو سکتاہے جو جدید علوم و فنون سے بھی آراستہ ہوں اور دینی جذبے اور مذہبی ذہن و فکر سے بھی مسلح ہوں اس لیے میں نے آپ کی اس مجلس میں شرکت کی دعوت کو غنیمت سمجھا اور یہی آج کی اس مجلس میں اظہارِ خیال پر خصوصی مسرت کا وہ دوسرا سبب ہے جس کا تذکرہ میں نے ابتدا میں کیا تھا 
کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں دین کے احیاء اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے لیے جس اساسی کام کی ضرورت ہے وہ درحقیقت کچھ ایسے نوجوان طلبہ ہی کے ذریعے انجام پا سکتا ہے جو جدید و قدیم علوم اور قرآن کے علم و حکمت کی تحصیل اور تعلیم و تعلّم کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے کو تیار ہوں. یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی ان گزارشات کی بنیاد قرآن مجید کے معروضی مطالعے پر رکھی ہے اور اپنی جانب سے کچھ عرض کرنے کی بجائے قرآن حکیم ہی کی چند آیات کے مضمرات کو کھول دیا ہے‘ تاکہ آپ لوگوں پر قرآن کی عظمت آشکارا ہو اور اس کے علم و حکمت کی تحصیل کا جذبہ پیدا ہوسکے‘ اور اگر میری آج کی ان گزارشات کے نتیجے میں آپ میں سے کسی ایک نوجوان طالب علم کے دل میں بھی قرآن کے تعلیم و تعلم کے لیے زندگی وقف کرنے کا ارادہ پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت سپھل ہوئی.

اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات 
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمینoo