مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ!

برادرانِ دین!
آپ کو معلوم ہے کہ آج کل ہمارے ملک میں سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطحوں پر ’’ نزولِ قرآن مجید کا چودہ سو سالہ جشن‘‘ منایا جا رہا ہے. 
(۱اس سلسلے میں دو باتیں سمجھ لینے کی ہیں .

ایک یہ کہ اس قسم کی نئی نئی تقریبات کی ایجاد و ترویج ہمارے دین کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی. ہمیں اپنے تمام دینی جذبات کے اظہار کے لیے صرف ان تقریبات پر اکتفاء و قناعت کرنا چاہیے جو حضور نبی اکرم سے ماثور چلی آ رہی ہیں. ان میں نت نئے اضافوں سے دین میں بدعت کا دروازہ کھلتا ہے‘ جس سے بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی ہیں. آنحضور کا یہ فرمان مبارک ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ : 

وَشَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ (۲
’’سب سے برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کر لیے جائیں. ایسا ہر کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی و ضلالت ہے.‘‘

موجودہ سلسلۂ تقریبات کے ساتھ لفظ ’’جشن‘‘ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے‘ اس سے ذہن خواہی نخواہی جشنوں کے اس سلسلے کی جانب منتقل ہو جاتا ہے جو خیبر سے کراچی تک مختلف علاقائی ناموں سے منائے جا رہے ہیں اور جن میں اس نام نہاد ثقافت کا (۱) واضح رہے کہ یہ تقریراس دور کی ہے جب ۱۹۶۸ء میں صدر ایوب خان کے دور اقتدار کے دس برس مکمل ہونے کی خوشی میں پورے ملک میں سرکاری سطح پر مختلف عنوانات کے تحت ’’جشن‘‘ منائے جا رہے تھے‘ مثلاً جشن خیبر اور جشن مہران وغیرہ. اسی سلسلہ ہائے جشن میں ایک اضافہ ’’جشن نزول قرآن‘‘ کا بھی تھا. 

(۲) سنن النسائی‘ کتاب صلاۃ العیدین‘ باب کیف الخطبۃ . مظاہرہ کیا جاتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات پر ایک کھلا طنز ہے. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الحاد پسند اور اباحیت پرست لوگوں کے لیے اس قسم کے بے شمار جشنوں کے اہتمام کے ساتھ جشن نزولِ قرآن مجید کا انعقاد غالباً ایک رشوت ہے جو مذہبی ذوق رکھنے والے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے .واللہ اعلم.

دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس قسم کی تقریبات سے اگر یہ فائدہ اٹھایا جائے کہ ان کے ذریعے عوام میں دین و مذہب سے لگاؤ پیدا ہو‘ قرآن حکیم کے ساتھ ان کا ربط و تعلق بڑھے اور اس بُعد میں کمی ہو جو آج ہمارے اور قرآن مجید کے مابین پیدا ہو گیا ہے ‘تو پھر بھی ان کے انعقاد کے جواز کا کوئی پہلو شاید پیدا کیا جا سکے‘ لیکن جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس قسم کا کوئی فائدہ اس نوعیت کی تقاریب سے حاصل نہیں ہوتا. قرآن کی تزئین و آرائش یا حسن قراءت کے مظاہروں اور مقابلوں سے تو بہرحال اس قسم کے کسی فائدے کے حصول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. جو کانفرنسیں یا جلسے قرآن مجید کے نام پر منعقد ہوتے ہیں ان میں بھی اکثر سارا زور قرآن مجید کے مقام و مرتبہ کی وضاحت یا اس کی شان کے بیان پر صرف کر دیا جاتا ہے اور اس بات کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے کہ ہم پر بحیثیت مسلمان قرآن مجید کے کیا کیا حقوق عائد ہوتے ہیں اور ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہے! حالانکہ جہاں تک قرآن مجید کے مقام یا مرتبے اور شان و عظمت کا تعلق ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ اس کا بیان تو کجا کماحقہ‘ ادراک بھی کسی انسان کے بس میں نہیں. سیدھی سی بات ہے کہ ؏ قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند گوہری! 

قرآن حکیم کے اصل مقام و مرتبہ کا علم صرف اُس شاہِ ارض و سماوات کو ہے جس کا یہ کلام ہے اور اس کی حقیقی قدر و قیمت سے آگاہ صرف وہ ذاتِ بابرکت ہے جس پر یہ نازل ہوا 
صلی اللّٰہ علیہ وسلم. (۱)

(۱) قرآن مجید کی حقیقی قدر و منزلت اور واقعی مقام و مرتبہ کا ادراک عام انسانی ادراکات کی سطح سے اس قدر ماوراء ہے کہ فکر انسانی کی رہنمائی کے لیے خود قرآن نے ایک تمثیل کے ذریعے اس کا بس ایک ہلکا سا تصور پیش کیا ہے کہ: (باقی اگلے صفحہ پر) ہمارا اصل کام یہ ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے یہ سمجھیں کہ اس کتابِ مبارک کے کیا حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں. پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں. اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے کہ تو پھر یہ سوچیں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہو سکتی ہے اور پھر بلاتاخیر اِس کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں. اس لیے کہ اس کا براہِ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے اوراس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی قرآن حکیم کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہو سکتی. چنانچہ میں آج کی صحبت میں انہی امور پر کسی قدر وضاحت سے گفتگو کروں گا. 

ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق

ثقیل الفاظ یا دینی اصطلاحات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے عام زبان میں بیان کیا جائے تو قرآن مجید کے یہ پانچ حقوق ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں:

ایک یہ کہ اسے مانے. (ایمان و تعظیم)
دوسرے یہ کہ اسے پڑھے. (تلاوت و ترتیل)
تیسرے یہ کہ اسے سمجھے. (تذکر و تدبر)
چوتھے یہ کہ اس پر عمل کرے . (حکم و اقامت)
اور پانچویں یہ کہ اسے دوسروں تک پہنچائے. (تبلیغ و تبیین)

اب میں چاہتا ہوں کہ ان پانچوں حقوق کی قدرے تفصیل ان اصطلاحات کی مختصر تشریح کے ساتھ آپ حضرات کے سامنے پیش کروں جو خود قرآن مجید میں ان کے لیے استعمال ہوئی ہیں ‘تاکہ ضمنی فائدے کے طو ر پر آپ حضرات قرآن مجید کی بعض بنیادی اصطلاحات سے بھی مانوس ہو جائیں.(گزشتہ صفحہ سے پیوستہ) لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕ وَ تِلۡکَ الۡاَمۡثَالُ نَضۡرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (الحشر) 

’’اگر ہم اُتار دیتے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ پڑتا. اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں.‘‘

پہلا حق

ایمان وتعظیم

ماننے کا اصطلاحی نام ایمان ہے اور اس کے دو پہلو ہیں. ایک ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘‘ اور دوسرے ’’ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ اقرارِ لسانی دائرۂ اسلام میں داخلے کی شرطِ لازم ہے اور تصدیق قلبی حقیقی ایمان کا لازمہ ہے.

قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ جو برگزیدہ فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ کے آخری رسول حضرت محمد پر نازل ہوا. اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے ‘لیکن حقیقی ایمان اسے اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے قلب میں پیدا ہو جائے. پھر ظاہر ہے کہ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو خودبخود قرآن کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہو جائے گا اور جوں جوں قرآن پر ایمان بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم و احترام میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا. گویا ایمان و تعظیم لازم و ملزوم ہیں.

قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پر ایمان سب سے پہلے خود نبی کریم اور آپ کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین لائے. 

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ (البقرۃ :۲۸۵)
’’ایمان لایا رسولؐ اس پر جو نازل کیا گیا اس کی جانب اور (اس کے ساتھی) اہل ایمان.‘‘

یہ ایمان پورے تصدیق قلب کے ساتھ تھا اور اس گہرے یقین پر مبنی تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے. چنانچہ ایک طرف تو اس کی تعظیم و احترام کا گہرا نقش ان کے قلوب پر ثبت ہو گیا اور دوسری طرف گہری محبت اور والہانہ عشق کا ایک تعلق اس کے ساتھ قائم ہوگیا. چنانچہ نبی کریم کو نزولِ وحی کا شدت کے ساتھ انتظار رہتا تھا اور آپؐ اس کے لیے 
بے چین رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ وحی جلد جلد آیا کرے. پھر جب قرآن ا ترتا تھا تو آپ کمالِ شوق سے جلد از جلد اس کو یاد کر لینے کی کوشش کرتے تھے. حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ازراہِ محبت و شفقت ان امور میں مبالغے سے منع فرمایا. چنانچہ ارشاد ہوا کہ : 

وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ … (طٰـہٰ : ۱۱۴
’’ قرآن کے لیے جلدی نہ کرو.‘‘

اور 
لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾ (القیامۃ: ۱۶)
’’ قرآن (کو یاد کرنے) کی جلدی میں اپنی زبان کو (تیزی سے) حرکت نہ دو.‘‘

نزولِ قرآن کے ابتدائی دَور میں جب ایک بار وحی کی آمد میں قدرے دیر ہو گئی تو یہ وقفہ آنحضور پر اس قدر شاق گزرا کہ حضور فرماتے ہیں کہ شدتِ غم سے میں سوچتا تھا کہ اپنے آپ کو پہاڑ پرسے گرا دوں. رات کا اکثر حصہ آپ اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑے ہو کر قرآن پڑھتے ہوئے گزار دیتے تھے ‘حتیٰ کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے اور قرآن ہی کی شہادت ہے کہ ایک تہائی‘ آدھی اور دو تہائی رات اس طرح بسر کرنے میں بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ کا اتباع کرتے تھے. جیسا کہ مَیں بعد میں تفصیل سے عرض کروں گا ‘اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کرتے تھے اور خود حضور جن پر قرآن نازل ہوا‘ ان کا حال یہ تھا کہ صحابہؓ سے باصرار فرمائش کر کے قرآن مجید سنا کرتے تھے اور بسا اوقات شدتِ تاثر سے آپ کے آنسو بہہ نکلتے تھے.
آنحضور اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قرآن سے اس گہرے شغف اور اس کی جانب اس قدر التفات کا سبب یہ تھا کہ انہیں یہ ’’حق الیقین‘‘ حاصل تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اس کے بالکل برعکس ہمارا حال ہے. قرآن کے 
مُنزَّل من اللّٰہ ہونے کا اقرار تو ہم کرتے ہیں‘ اور اس پر بھی خدا کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں پیدا فرما دیا جو قرآن کو خدا کا کلام مانتے ہیں‘ لیکن‘ اِلا ماشاء اللّٰہ ‘ اس کے کلامِ الٰہی ہونے کا یقین ہمیں حاصل نہیں اور درحقیقت یہی ہمارے قرآن سے بُعد اور اس کی جانب عدمِ التفات و توجہ کا اصل سبب ہے. آپ شاید میری اس بات سے ناراض ہوں ‘لیکن اگر ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ واقعی ہمارے قلوب قرآن پر یقین سے خالی ہیں اور ریب اور شک نے ہمارے دلوں میں ڈیرا ڈالا ہوا ہے. ہماری اس کیفیت کا نقشہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں کھینچاہے :

وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾ (الشوریٰ:۱۴
’’اور جو لوگ وارث ہوئے کتابِ الٰہی کے ان کے بعد وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں.‘‘

یہی وجہ ہے کہ نہ ہمارے دلوں میں اس کی کوئی عظمت ہے‘ نہ اس کو پڑھنے پر ہماری طبیعت آمادہ ہوتی ہے‘ نہ اس پر غور و فکر کی کوئی رغبت ہم اپنے اندر پاتے ہیں اور نہ ہی اسے زندگی کا واقعی لائحہ عمل بنانے کا خیال کبھی ہمیں آتا ہے. اس پوری صورتِ حال کا اصل سبب ایمان اور یقین کی کمی ہے اور جب تک اسے دُور نہ کیا جائے کسی وعظ و نصیحت سے کوئی پائیدار نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا.

لہذا ہم میں سے ہر ایک کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے دل کواچھی طرح ٹٹولے اور دیکھے کہ وہ قرآن مجید کو بس ایک متوارث مذہبی عقیدے 
(dogma) کی بنا پر ایک ایسی ’’مقدس آسمانی کتاب‘‘ سمجھتا ہے جس کا زندگی اور اس کے جملہ معاملات سے کوئی تعلق نہ ہو‘ یا اسے یقین ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ اس سے ہدایت پائیں اور اسے اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنائیں.

اگر دوسری بات ہے تو 
فہوالمطلوب اور اگر پہلا معاملہ ہے‘ اور مجھے اندیشہ ہے کہ ہماری ایک عظیم اکثریت کے ساتھ یہی صورت ہے‘ تو پھر سب سے پہلے ایمان کی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی. اس لیے کہ قرآن مجید کے دوسرے تمام حقوق کی ادائیگی کا مکمل انحصار اسی پر ہے.

پوچھا جا سکتا ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کی عملی تدبیر کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان کی تحصیل کا سب سے زیادہ آسان اور سب سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ تو اصحابِ ایمان و یقین کی صحبت ہے. یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں ایمان و یقین کی جو کیفیت مجسمہ ایمان اور پیکر یقین کی صحبت کی بدولت پیدا ہوئی تھی اس کا تصور بھی اب ناممکن ہے آپ کی وفات کے بعد بھی عوام الناس تو نورِ ایمانی کے اکتساب کے لیے ایسے خواص کی صحبت ہی کے محتاج ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین کی شمعیں روشن ہوں‘ لیکن خود اُن ’’خواص‘‘ کے لیے نورِ ایمان کا سب سے بڑا منبع قرآن مجید ہے. اور اس کے بعد اخبار و آثار اور سیرتِ رسول  اور سیر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایسا مطالعہ جس سے طالب کو حضورؐ اور صحابہؓ کی معنوی صحبت میسر آ جائے رہا خود قرآن پر یقین اور اس میں اضافہ تو اس کا تو بس ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ خود قرآن مجید ہے. 
(۱

جیسا کہ میں بعد میں کسی قدر تفصیل سے عرض کروں گا‘ ایمان درحقیقت کوئی خارج سے ٹھونسی جانے والی چیز ہے ہی نہیں‘ اس کی شمع تو انسان کے اپنے باطن میں روشن ہے اور اس کا قلب بذاتِ خود وہ جامِ جہاں نما ہے جس میں کائنات کے وہ تمام حقائق ازخود منعکس ہیں جن کا دوسرا نام ایمان ہے. ہوتا صرف یہ ہے کہ غلط ماحول اور غلط تعلیم و تربیت کے اثرات سے انسان کی شمعِ باطن کی روشنی دھندلا جاتی ہے (۲اور اس (۱) ؎ 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآں کے سیپاروں میں
(مولانا ظفر علی خان) 

(۲
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ… الخ (حدیث نبویؐ ) ’’ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.‘‘ 

کے اعمال بد کے سبب سے اس کا آئینۂ قلب مکدر ہو جاتا ہے! (۱)

اور اس آئینے کو صیقل کرنے اور انسان کی اس شمع باطن کے نور کو اجاگر کرنے کے لیے ہی کلامِ الٰہی تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ (۲بن کر نازل ہوا ہے. تلاشِ حق کی نیت سے اسے پڑھا اور اس پر غور و فکر کیا جائے تو سارے حجابات دُور ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسان کا باطن نورِ ایمان سے جگمگااٹھتا ہے.

یہ توہوئی نور ِ ایمانی کی اوّلین تحصیل‘ اس کے بعد بھی جب کبھی غفلت یا غلبۂ بہیمیت کے سبب سے آئینۂ قلب غبار آلود ہو جائے تو اس کے جلاء و صیقل کا مؤثر ترین ذریعہ قرآن مجید ہی ہے‘ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق آنحضور نے فرمایا :

اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُکَمَا یَصدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَاءُ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا جِلَاءُ ھَا؟ قَالَ : کَثَرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ (رواہ البیہقی)
’’بنی آدم کے قلوب بھی اسی طرح زنگ آلود ہو جاتے ہیں جیسے لوہا پانی پڑنے سے!‘‘ دریافت کیا گیا : یا رسول اللہ! اس زنگ کو دُور کس چیز سے کیا جائے؟ فرمایا : ’’موت کی بکثرت یاد اور قرآن مجید کی تلاوت!‘‘

خلاصۂ کلام یہ کہ محض ایک متوارث عقیدے کے طور پر قرآن کو ایک مقدس آسمانی کتاب ماننے سے ہماری موجودہ صورتِ حال میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی اور قرآن مجید کے ساتھ عدم التفات کا جو رویہ ہمارا اس وقت ہے ‘وہ نہیں بدل سکتا. قرآن مجید کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کی ادائیگی کی اوّلین شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمارے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے. 
(۱) کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ ( المطففین:۱۴)

’’نہیں‘ بلکہ ان کے اعمال کے نتیجے میں ان کے قلوب پر زنگ چڑھ گیا ہے.‘‘

(۲) سورۂ ق‘ آیت ۸ : ’’سجھانے والی اور یاددہانی ہر اُس بندے کے لیے جو (خدا کی طرف) رجوع کرے.‘‘ اس یقین کے پیدا ہوتے ہی قرآن کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آجائے گا. یہ احساس کہ یہ ہمارے اس خالق و مالک کا کلام ہے جس کی ذات تبارک و تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے‘ اور جس کا کسی ادنی ٰ ترین درجے میں بھی کوئی تصور ہمارے بس میں نہیں اور جس کی ذات کے ادراک سے عجز کا احساس ہی بقول افضل البشر بعد الانبیاء کمالِ ادراک (۱ہے‘ ہمارے فکر و نظر میں ایک انقلاب برپا کر دے گا. پھر ہمیں محسوس ہو گاکہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے قرآن سے بڑی کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت موجود نہیں. (۲)

پھر اس کی تلاوت ہماری روح کی غذا اور اس پر غور و فکر ہمارے قلوب و اذہان کے لیے روشنی بن جائیں گے اور یقینا یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی کہ اس کی تلاوت سے ہم کبھی سیرنہ ہو سکیں گے اور اپنی بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں اور اپنی پوری عمر کو اس پر تدبر و تفکر میں کھپا کر بھی ہم محسوس کریں گے کہ ؏ 

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ! 
(۱) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک قول ’’اَلْعِجْزُ عَن درکِ الذَّاتِ اِدْرَاکٗ‘‘ جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ گرہ لگائی کہ ’’وَالْبَحْثُ عَن کُنْہِ الذَّاتِ اِشراکٗ‘‘

(۲) جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضور نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن ایسی دولت عطا ہوئی اور پھر بھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی اور کو اس سے بڑھ کر نعمت ملی ہے ‘اس نے قرآن کی قدر و منزلت کو نہ پہچانا. 

دوسرا حق

تلاوت و ترتیل

قرآن کے پڑھنے کے لیے خود قرآن مجید میں اگرچہ قراء ت اور تلاوت دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘لیکن احترام و تعظیم کے ساتھ اسے ایک مقدس آسمانی کتاب سمجھتے ہوئے ذہنی اور نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو اس کے حوالے کر کے اتباع اور پیروی کے جذبے کے ساتھ قرآن کو پڑھنے کے لیے اصل قرآنی اصطلاح ’’ تلاوت‘‘ ہی کی ہے. اس لیے بھی کہ یہ لفظ صرف آسمانی صحیفوں کے پڑھنے کے لیے خاص ہے‘ جبکہ قراء ت ہر چیز کے پڑھنے کے لیے عام ہے اور اس لیے بھی کہ تلاوت کا لغوی مفہوم ساتھ لگے رہنے اور پیچھے پیچھے آنے کا ہے ‘جبکہ قراء ت مجرد جمع و ضم کے لیے آتا ہے.

عام گفتگو میں ابتداء ً قراء ت کا لفظ قرآن سیکھنے اور اس کے علم کی تحصیل کے لیے استعمال ہوتا تھا اور قاری عالم قرآن کو کہا جاتا تھا ‘لیکن بعد میں یہ اصطلاح قرآن کو اہتمام اور تکلف کے ساتھ قواعد تجوید کی خصوصی رعایت اور حروف کے مخارج کی صحت کا پورا پورا لحاظ کرتے ہوئے پڑھنے کے لیے خاص ہوتی چلی گئی‘ جبکہ تلاوت کا اطلاق عام طریقے پر انابت اور خشوع وخضوع کے ساتھ حصولِ برکت و نصیحت کی غرض سے قرآن پڑھنے پر ہونے لگا.

تلاوتِ کلامِ پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کامؤثر ترین ذریعہ ہے.

قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے‘ اس لیے کہ یہ روح کے لیے بمنزلۂ غذا ہے اور جس طرح جسم انسانی اپنی بقاء و 
تقویت کے لیے مسلسل غذا کا محتاج ہے جو انسان کے جسدِ حیوانی کی طرح سب زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح روح ِ انسانی جو خود آسمانی چیز ہے‘ کلامِ ربّانی کے ذریعے مسلسل تغذیہ و تقویت کی محتاج ہے!

اگر قرآن بس ایک مرتبہ پڑھ لینے کی چیز ہوتی تو کم از کم نبی اکرم کو تو اس کے بار بار پڑھنے کی قطعاً کوئی حاجت نہ تھی. لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مسلسل قرآن پڑھتے رہنے کی بار بار تاکید ہوئی. عہدِ رسالت کے بالکل ابتدائی ایام میں تو انتہائی تاکیدی حکم ہوا کہ رات کا اکثر حصہ اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہو کر ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے ہوئے بسر کرو. بعد کے ادوار میں بھی‘ خصوصاً جب مشکلات و مصائب کا زور ہوتا تھا اور صبر و استقامت کی خصوصی ضرورت ہوتی تھی‘ آنحضور کو تلاوتِ قرآن ہی کا حکم دیا جاتا تھا. چنانچہ سورۃ الکہف میں ارشاد ہوا ہے :

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾ (الکہف:۲۷)
’’اور پڑھا کر جو وحی ہوئی تجھ کو تیرے پروردگار کی کتاب سے. کوئی اس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور نہ ہی تو کہیں پا سکے گا اس کے سوا پناہ کی جگہ.‘‘

اور سورۃ العنکبوت میں ارشاد ہوا :

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ (العنکبوت:۴۵)
’’پڑھا کر جو وحی ہوئی تیری طرف کتاب ِ الٰہی اور قائم رکھ نماز کو!‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تلاوت مسلسل کرتے رہنا ضروری ہے اور یہ مؤمن کی روح کی غذا ‘ اس کے ایمان کو تروتازہ اور سرسبز و شاداب رکھنے کا اہم ترین ذریعہ اور مشکلات و موانع کے مقابلے کے لیے اس کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے.

کتابِ الٰہی کے اصل قدر دانوں کی یہ کیفیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے کہ :

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ (البقرۃ : ۱۲۱)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.‘‘ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آیت ِکریمہ کا مصداق بنائے اور ہم سب کو توفیق دے کہ ہم قرآن مجید کا حق تلاوت ادا کر سکیں. لیکن اس کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کا حق ہے کیا؟ اور اس کی ادائیگی کی شرائط کیا ہیں؟

۱) تجوید

اس سلسلے میں سب سے پہلی ضروری چیز قرآن مجید کے حروف کی شناخت‘ ان کے مخارج کا صحیح علم اور رموزِ اوقافِ قرآنی کی ضروری معلومات کی تحصیل ہے‘ جسے اصطلاحاً تجوید کہتے ہیں اور جس کے بغیر قرآن مجید کی صحیح اور رواں تلاوت ممکن نہیں. آج سے تیس چالیس سال قبل تک ہر مسلمان بچے کی تعلیم کی ابتدا اسی سے ہوئی تھی اور وہ سب سے پہلے قرآن کے حروف کی پہچان اور ان کی صحیح ادائیگی کی صلاحیت حاصل کرتا تھا. افسوس کہ اِدھر ایک عرصے سے مساجد و مکاتب کی تعلیم کے زوال اور کنڈرگارٹن قسم کے مدارس کے رواج کی بدولت یہ صورتِ حال پیدا ہو چکی ہے کہ مسلمان قوم کی نوجوان نسل کی ایک عظیم اکثریت حتیٰ کہ بہت سے بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھی قرآن مجید کو ناظرہ پڑھنے پر بھی قادر نہیں. میں ایسے تمام حضرات سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی اس کمی کا احساس کریں اور جلد از جلد اسے دُور کرنے کی کوشش کریں‘ اور خواہ وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہوں قرآن مجید کو صحیح پڑھنے کی صلاحیت لازماً پیدا کریں. ساتھ ہی ہمیں چاہیے کہ اپنی اولاد کے بارے میں یہ طے کر لیں کہ ان کی تعلیم کی ابتدا اسی سے ہو گی اور سب سے پہلے وہ قرآن کے حروف کی پہچان اور ان کو صحیح مخارج سے ادا کرنا سیکھیں گے. اس معاملے میں حد سے زیادہ غلو تو اگرچہ اچھا نہیں لیکن قرآن مجید کو روانی کے ساتھ صحیح اصوات و مخارج اور رموزِ اوقاف کی رعایت و لحاظ کے ساتھ پڑھنے پر قادر ہونا تو ہر معمولی پڑھے لکھے انسان کے لیے بھی لازم اور قرآن مجید کے حق تلاوت کی ادائیگی کی شرطِ اوّلین ہے.

۲) روزانہ کا معمول
قرآن مجید کے حق تلاوت کی ادائیگی کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن کو زندگی کے معمولات میں مستقل طور پر شامل کیا جائے اور ہر مسلمان تلاوت کا ایک مقررہ نصاب پابندی کے ساتھ لازماً پورا کرتا رہے. مقدارِ تلاوت مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے. زیادہ سے زیادہ مقدار جس کی آنحضور نے توثیق فرمائی ہے‘ یہ ہے کہ تین دن میں قرآن ختم کیا جائے‘ یعنی دس پارے روزانہ پڑھے جائیں. اور کم سے کم مقدار‘ جس سے کم کا تصور بھی ماضی قریب تک نہ کیا جا سکتا تھا‘ یہ ہے کہ ایک پارہ روزانہ پڑھ کر ہر مہینے قرآن ختم کر لیا جائے. واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ کم از کم نصاب ہے جس سے کم پر تلاوتِ قرآن کے معمول کا اطلاق نہیں ہو سکتا. درمیانی درجہ جس پر اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم عامل تھے اور جس کا حکم بھی ایک روایت کے مطابق آنحضور نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکو دیا تھا‘ یہ ہے کہ ہر ہفتے قرآن ختم کر لیا جائے. یہی وجہ ہے کہ دورِ صحابہؓ میں قرآن کی تقسیم سورتوں کے علاوہ صرف سات احزاب میں تھی (۱جن میں سے پہلے چھ احزاب علی الترتیب تین‘ پانچ‘ سات‘ نو‘ گیارہ اور تیرہ سورتوں پر مشتمل ہیں اور ساتواں جو حزبِ مفصل کہلاتا ہے‘ بقیہ قرآن مجید پر مشتمل ہے. اس طرح ہر حزب کم و بیش چار پاروں کا بنتا ہے جن کی تلاوت انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ دو گھنٹوں میں کی جا سکتی ہے جو دن رات کے عشر سے بھی کم ہے.

تلاوتِ قرآن مجید کا یہ نصاب ہر اُس شخص کے لیے لازمی ہے جو دینی مزاج اور مذہبی ذوق رکھتا ہو اور قرآن مجید کا حقِ تلاوت ادا کرنے کا خواہش مند ہو‘ چاہے وہ عوام میں سے ہو یا اہل علم و فکر کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو‘ اس لیے کہ جہاں تک روح کے تغذیہ و تقویت کا تعلق ہے اس کے اعتبار سے تو سب ہی اس کے محتاج ہیں. اس کے علاوہ عوام کو اس سے ذکر و موعظت حاصل ہو گی اور اہل علم و فکر حضرات اس سے اپنے علم کے 
(۱) واضح رہے کہ تیس پاروں اور رکوعوں میں قرآن کی تقسیم بعد کی چیز ہے. لیے روشنی اور فکر کے لیے رہنمائی پائیں گے. (۱حتیٰ کہ وہ حضرات بھی جو دن رات قرآن حکیم پر تفکر و تدبر میں لگے رہتے ہوں اور قرآن کی ایک ایک سورت پر برسوں غور و فکر کرتے اور اس کے مشکل مقامات پر عرصۂ دراز تک توقف کرتے ہوں‘ وہ بھی قرآن کی اس تلاوتِ مسلسل سے مستغنی نہیں ‘بلکہ ان کو اس کی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہی ضرورت ہے‘ اس لیے کہ قرآن کی تلاوتِ مسلسل سے اُن کی بہت سی مشکلیں ازخود حل ہوتی چلی جاتی ہیں اور بے شمار نئے پہلو سامنے آتے رہتے ہیں. 

۳) خوش الحانی

قرآن کی تلاوت کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی حد تک بہتر سے بہتر اسلوب‘ اچھی سے اچھی آواز اور زیادہ سے زیادہ خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرے. اس لیے کہ حسن سماعت کا ذوق کم و بیش ہر انسان میں ودیعت کیا گیا ہے اور اچھی آواز ہر شخص کو بھاتی ہے. اسلام دین فطرت ہے اور انسان کے کسی فطری جذبے کو یکسر ختم نہیں کرتا ‘بلکہ تمام فطری داعیات کو صحیح راستوں پر ڈالتا ہے. حسن نظر اور حسن سماعت انسان کے فطری داعیات میں سے ہیں. قرآن مجید کی خوبصورت اور خوش نما کتابت سے ایک مؤمن کے حسن نظر کو حقیقی تسکین حاصل ہوتی ہے اور اس کی خوش الحانی کے ساتھ قراء ت اس کے ذوقِ سماعت کو آسودگی عطا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضور نے تاکیداً فرمایا ہے : 

زَیِّنُوا الْقُرآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ (۲)
’’ قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو.‘‘ ____________________________ (۱) واقعہ یہ ہے کہ اصحاب فکر جو خرد کی کسی گتھی کو سلجھانے میں مگن ہوں اور سخت اُلجھن میں ہوں‘بسااوقات قرآنِ حکیم کی تلاوتِ مسلسل کے دوران یہ محسوس کریں گے کہ جیسے دفعتہ ان کی گتھی سلجھ گئی اور الجھن حل ہو گئی اور قرآن مجید کے کسی ایسے مقام سے انہیں روشنی حاصل ہو گئی جس کو اس سے قبل بے شمار مرتبہ پڑھا تھا‘ لیکن چونکہ وہ مسئلہ ذہن میں موجود نہ تھا‘ لہٰذا اس پہلو کی جانب توجہ نہ ہوئی تھی. 

(۲) عن البراء بن عازب رضی اللّٰہ عنہ‘ رواہ ابوداوٗد والنسائی. ساتھ ہی اس معاملے میں کوتاہی پر ان الفاظ میں تنبیہ فرمائی کہ : 

مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا (۱
’’جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں.‘‘

اور اس کے لیے مزید تشویق کے لیے خبر دی ہے کہ :

مَا اَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْ ءٍ مَا اَذِنَ لِنَبِیٍٍ اَنْ یَتَغَنّٰی بِالْقُرْآنِ یَجْھرُ بِہٖ (۲
’’اللہ تعالیٰ کسی چیز پر ا س طرح کان نہیں لگاتا جس طرح نبی کی آواز پر لگاتا ہے‘ جبکہ وہ قرآن کو خوش الحانی کے ساتھ بآواز بلند پڑھ رہا ہوتاہے.‘‘

بارہا ایسا ہوتا تھا کہ حضور راہ چلتے کسی صحابی ؓ کو اچھی آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے سنتے تو دیر تک کھڑے ہو کر سنتے رہتے تھے اور بعد میں اس کی تحسین بھی فرماتے تھے. اس کے علاوہ آپ فرمائش کر کے بھی صحابہؓ سے قرآن مجید سنا کرتے تھے. چنانچہ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے قرآن سنانے کی فرمائش کی. انہوں نے عرض کیا : ’’حضورؐ ! کیا آپ کو قرآن سناؤں؟ حالانکہ آپ ہی پر تو وہ نازل ہوا ہے!‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’ہاں میں چاہتا ہوں کہ دوسرے سے سنوں!‘‘ چنانچہ حضرت ابن مسعودؓ نے آپ کو قرآن سنایا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اسی طرح ایک بار آپ نے ایک صحابی (حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) کوحسن صوت کے ساتھ قرآن پڑھتے سنا اور ان الفاظ میں تحسین فرمائی کہ تمہیں مزامیر آلِ داؤد (علیہ السلام) میں سے حصہ ملا ہے.

اس معاملے میں بھی غلو اگرچہ مضر ہے‘ خصوصاً جب اس میں تصنع یا ریا شامل ہوجائیں اور اس کی صورت ایک پیشے کی بن جائے تب تو یہ مہلکات میں سے شمار ہونے والی چیز بن جاتی ہے‘ لیکن ہر شخص کو اپنے ذوقِ حسن سماعت کی تسکین بہرحال قرآن کی تلاوت و سماعت ہی میں تلاش کرنی چاہیے‘ اور خود اپنے حد ِامکان تک اچھے سے اچھے طریقے پر تلاوت کی سعی کرنی چاہیے. 
(۱) عن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ‘ رواہ ابوداوٗد.
(۲) عن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ‘ رواہ ابوداوٗد.

۴) آدابِ ظاہری و باطنی

قرآن کے حق تلاوت کی ادائیگی کی شرائط میں سے تلاوت کے کچھ ظاہری اور باطنی آداب بھی ہیں. یعنی یہ کہ انسان باوضو ہو‘ قبلہ رُخ بیٹھ کر تلاوت کرے‘ اور اس کی ابتدا تعو ّذ سے کرے پھر یہ کہ اس کا دل کلام اور صاحب کلام دونوں کی عظمت سے معمور ہو. حضورِ قلب‘ خشوع و خضوع اور انابت و رجوع الی اللہ کے ساتھ تلاوت کرے‘ اور خالص طلب ہدایت کی نیت اور قرآن حکیم کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے عزمِ مصمم کے ساتھ قرآن کو پڑھے‘ اور مسلسل تذکر و تدبر اور تفہم و تفکر کرتا رہے اور اپنے خود ساختہ خیالات و نظریات کی سند قرآن سے حاصل کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ حتی الامکان معروضی طور پر اس سے ہدایت اخذ کرنے کے لیے پڑھے. اس لیے کہ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘تلاوت کا لغوی مفہوم ’’پیچھے لگنے‘‘ اور ’’ساتھ رہنے‘‘ کا ہے ‘اور نفس میں حوالگی و سپردگی کی کیفیت تلاوت کا اصل جوہر ہے. 

۵) ترتیل

تلاوت قرآن پاک کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ نماز (خصوصاً تہجد) میں اپنے ربّ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو کر انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ متذکرہ بالا تمام شرائط کی پابندی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور توقف کرتے ہوئے قرآن پڑھا جائے جس سے قلب پر اثرات مترتب ہوتے چلے جائیں. قرآن کی اصطلاح میں اس قسم کی تلاوت کا نام ترتیل ہے اور نبی اکرم  کو جو احکام بالکل ابتدائی عہد رسالت میں ملے ان میں سے غالباً اہم ترین حکم یہی تھا کہ : 

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ (المزمل:۱_۴)

’’اے مزمل! رات کو کھڑے رہا کرو سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے‘ (یعنی) آدھی رات‘ یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زائد. اور قرآن کو پڑھا کرو ٹھہر ٹھہر کر.‘‘ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے میں ایک گونہ مماثلت اس کے طریق نزول سے بھی پیدا ہو جاتی ہے‘ اس لیے کہ قرآن خود آنحضور پر ’’جُـمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘‘ یعنی یک بارگی نہیں اترا‘ بلکہ تھوڑا تھوڑا ا ترا ہے. اور سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ اعتراض نقل کرکے کہ آخر پورا قرآن ایک ہی بار کیوں نازل نہیں ہو جاتا‘ جواباً آنحضور سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ:

کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ﴿۳۲﴾ (الفرقان:۳۲)
’’اسی طرح (اُتارا) تاکہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو ثبات عطا فرمائیں‘ چنانچہ پڑھ سنایا ہم نے اس کوٹھہر ٹھہر کر.‘‘

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ترتیل تثبیت قلبی کا مؤثر ذریعہ ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے سے قلب انسانی کو زیادہ سے زیادہ فیض و افادہ حاصل ہوتا ہے. حتیٰ کہ شدتِ تاثر سے قلب پر گریہ طاری ہو جاتا ہے. چنانچہ علامہ ابنِ عربی صاحب ’’احکام القرآن‘‘ نے ترتیل کی تفسیر میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جو قرآن مجید اس طرح پڑھ رہا تھا کہ ایک ایک آیت پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا. اس پر حضور نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا : ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا قولِ مبارک 
وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا نہیں سنا؟ دیکھ لو یہ ہے ترتیل!‘‘ قرآن مجید کو بطریق ترتیل تلاوت کرنے ہی کا حکم ہے آنحضور کے اس قولِ مبارک میں کہ :

اُتْلُوا الْقُرْآنَ وَابْکُوْا (ابن ماجہ)
’’ قرآن کو پڑھو اور روؤ!‘‘

چنانچہ خود نبی اکرم کی صلوٰۃِ لیل کی یہ کیفیت روایات میں بیان ہوئی ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے جوشِ گریہ سے آپ کے سینۂ مبارک سے ایسی آواز نکلتی تھی جیسے کوئی ہانڈی چولہے پر پک رہی ہو. 

۶) حفظ

اس ترتیل کی شرط لازم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کیا جائے. بدقسمتی سے اس کا ذوق بھی ہمارے یہاں کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا ہے. ایک تو حفظِ قرآن کی صرف یہ صورت مروّج رہ گئی ہے کہ پورا کلامِ پاک حفظ کیا جائے اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ بچپن ہی کا زمانہ موزوں ہو سکتا ہے‘ جبکہ کلام پاک کا مفہوم سمجھنے کا کوئی سوال ہی سرے سے پیدا نہیں ہوتا. اگرچہ اس کا ذوق بھی اب کم ہورہا ہے اور الاّماشاءَ اللہ حفظ قرآن صرف غرباء کے ایک طبقے کے لیے ایک پیشہ بن کر رہ گیا ہے. حالانکہ بالکل ماضی قریب میں یہ حال تھا کہ شرفاء اور اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں حفظ قرآن کا چرچا تھا اور ہندوستان کے بعض شہر تو ایسے بھی تھے جن میں اکثر گھروں میں کئی کئی حافظ قرآن ہوتے تھے اور وہ گھرانا نہایت منحوس سمجھا جاتا تھا جس میں کوئی ایک شخص بھی حافظ نہ ہو. حفظ قرآن کا یہ سلسلہ نہایت مبارک ہے اور حفاظت قرآن کی خدائی تدابیر میں سے ہے اور اس کی جانب بھی ازسرِنو توجہ و انہماک کی شدید ضرورت ہے‘ لیکن میں یہاں بالخصوص جس حفظ کا تذکرہ کر رہا ہوں وہ حفظ وہ ہے جو ترتیل قرآن کا حق ادا کرنے کے لیے ہر مسلمان پر واجب ہے‘ یعنی یہ کہ ہر مسلمان مسلسل زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے کے لیے کوشاں رہے تاکہ اس قابل ہو سکے کہ رات کو اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہو کر اس کا کلام اسے سنا سکے! افسوس ہے کہ اس کا ذوق بالکل ہی ختم ہو گیا ہے حتیٰ کہ علماء تک اس سے مستغنی ہو گئے ہیں‘ اور ائمہ مساجد جنہیں قرآن مجید سے سب سے زیادہ شغف ہونا چاہیے ان کا حال بھی یہ ہو گیا ہے کہ بس جتنا قرآن کبھی یاد کر لیا تھا اسی پر قناعت کیے بیٹھے ہیں اور ادل بدل کر انہی حصوں کو نمازوں میں پڑھتے رہتے ہیں.

اس کے برعکس ہونا یہ چاہیے کہ ہر شخص قرآن کے اس حصے کو جو اُسے یاد ہو‘ اپنا اصل اثاثہ اور سرمایہ سمجھے اور اس میں مسلسل اضافے کے لیے کوشاں رہے‘ تاکہ تلاوتِ قرآن کی سب سے اعلیٰ صورت یعنی ترتیل سے زیادہ سے زیادہ حظ حاصل کر سکے اور اپنی روح کو زیادہ سے زیادہ غذا عمدہ سے عمدہ صورت میں فراہم کر سکے !

تیسرا حق

تذکّر و تدبّر

ماننے اور پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اسے ’’سمجھا‘‘ جائے اور ظاہر ہے کہ کلامِ الٰہی نازل ہی اس لیے ہوا ہے اور اس پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کا فہم حاصل کیا جائے. بغیر فہم کے مجرد تلاوت کا جواز ایسے لوگوں کے لیے تو ہے جو پڑھنے لکھنے سے بالکل محروم رہ گئے ہوں اور اب تعلیم کی عمر سے بھی گزر چکے ہوں. ایسے لوگ اگر ٹوٹے پھوٹے طریق پر تلاوت کر لیں تو بھی بہت غنیمت ہے اور اس کا ثواب انہیں ضرور ملے گا ‘بلکہ ایک ایسا اَن پڑھ شخص جو ناظرہ بھی نہ پڑھ سکتا ہو اور اب اس کے لیے اس کا سیکھنا بھی ممکن نہ ہو‘اگر اس یقین کے ساتھ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے‘ اسے کھول کر بیٹھتا ہے اور محبت و عقیدت اور احترام و تعظیم کے ساتھ اس کی سطور پر محض انگلی پھیرتا رہتا ہے تو اس کے لیے اس کا یہ عمل بھی یقینا موجب ثواب و برکت ہو گا. لیکن (۱پڑھے لکھے لوگ جنہوں نے تعلیم پر زندگیوں کا اچھا بھلا عرصہ صرف کر دیا ہو اور دنیا کے بہت سے علوم و فنون حاصل کیے ہوں‘ مادری ہی نہیں غیرملکی زبانیں بھی سیکھی ہوں‘ اگر قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھیں تو عین ممکن ہے کہ وہ قرآن کی تحقیر و توہین اور تمسخرو استہزاء کے مجرم (۱) دراصل یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث میں بیان ہوئی‘ لیکن جس سے یہ بات بالکل غلط طور پر سمجھی گئی کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا اور صاحب استعداد آدمی بھی قرآن کو بے سمجھے بوجھے اور غلط سلط پڑھنے پر بھی عنداللہ ثواب کا حقدار ہو گا :

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : الْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّــفَـرَۃِ الْکِـرَامِ الْبَرَرَۃِ وَالَّـذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَھُوَ عَلَـیْہِ شَاقٌّ لَّہٗ اَجْرَانِ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا : ’’ قرآن کے ماہر کا درجہ تو معزز اور وفادار اور فرمانبردار فرشتوں کا ہے ہی‘ رہا وہ شخص جو قرآن کو پڑھتے ہوئے اٹکتا ہو اور اس کے لیے زحمت اور مشقت اٹھاتا ہو تو اس کے لیے دوہرا اَجر ہے.‘‘ 

گردانے جائیں اور اس اعراض عن القرآن کی سزا تلاوت کے ثواب سے بڑھ جائے. الاّ یہ کہ وہ قرآن کا علم حاصل کرنے کا عزم کر لیں اور اس کے لیے سعی و جدوجہد شروع کردیں تو درمیانی عرصے میں اگر مجرد تلاوت بھی کرتے رہیں تو امید ہے کہ اس کا اجر انہیں ملتا رہے گا.

پھر ’’فہم قرآن‘‘ کوئی سادہ اور بسیط شے نہیں‘بلکہ اس کے بے شمار مدارج و مراتب ہیں اور ہر انسان علم کے اس اتھاہ و ناپیدا کنار سمندر سے اپنی فطری استعداد‘ ذہنی ساخت‘ طبیعت کی اُفتاد پھر اپنی اپنی سعی و جہد‘ محنت و مشقت‘ کدوکاوش اور تحقیق و جستجو کے مطابق حصہ پا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ کوئی انسان خواہ کیسی ہی اعلیٰ استعداد کا مالک کیوں نہ ہو اور کتنی ہی محنت و کاوش کیوں نہ کر لے‘ پھر چاہے پوری کی پوری عمر قرآن پر تدبر و تفکر میں بسر کر دے‘ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بھی مرحلے پر پہنچ کر وہ سیر ہو جائے اور یہ محسوس کرے کہ قرآن کا فہم کماحقہ ٗ اسے حاصل ہو گیا ہے‘ اس لیے کہ خود صادق و مصدوق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے اور جس پر غور و فکر سے انسان کبھی فارغ نہ ہو سکے گا. 
(۱وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ پس چاہیے کہ اصحابِ عزم و ہمت اور اربابِ حوصلہ و امنگ اس میدان کو اپنے حوصلوں اور امنگوں کی آماجگاہ بنائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کریں.

’’سمجھ‘‘ کے لیے یوں تو قرآن مجید نے فہم و فکر اور عقل و فقہ کے قبیل کے تمام ہی 
(۱) حضرت علی رضی اللہ عنی سے مروی ایک طویل حدیث میں قرآن کے بارے میں آنحضور  کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں :

وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ (رواہ الترمذی والدارمی) ’’ علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرت و تکرارِ تلاوت سے اس کے لطف میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات (یعنی نئے نئے علوم و معارف) کا خزانہ کبھی ختم ہو سکے گا.‘‘ الفاظ استعمال کیے ہیں ‘لیکن عجیب بات یہ ہے کہ فہم قرآن کے لیے وسیع ترین اصطلاح جو قرآن میں سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہے وہ ذکر و تذکر کی ہے. چنانچہ خود قرآن اپنے آپ کو جابجا ذکر‘ ذکریٰ اور تذکرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے. یہ اصطلاح درحقیقت فہم قرآن کی اوّلین منزل کا پتہ بھی دیتی ہے اور اس کی اصل غایت اور حقیقی مقصود کا سراغ بھی اس سے ملتا ہے‘ اور ساتھ ہی اس سے اس حقیقت کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے کہ تعلیماتِ قرآنی نفس انسانی کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہیں بلکہ یہ درحقیقت اس کی اپنی فطرت کی ترجمانی ہے اوراس کی اصل حیثیت ’’یاددہانی‘‘ کی ہے‘ نہ کہ کسی نئی بات کے ’’سکھانے‘‘ کی قرآن تمام ذی شعور انسانوں کو جنہیں وہ ’’اُولُوا الْاَلْبَابِ‘‘ اور ’’قَوْمٌ یَّعْقِلُوْنَ‘‘ قرار دیتا ہے ‘تفکر اور تعقل کی دعوت دیتا ہے اور اس کا اوّلین میدان خود آفاق و انفس کو قرار دیتا ہے جو آیاتِ الٰہی سے بھرے پڑے ہیں. ساتھ ہی وہ انہیں آیاتِ قرآنی میں بھی تفکر و تعقل کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ :

کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (یونس:۲۴)
’’اسی طرح ہم کھولتے ہیں اپنی آیات ان لوگوں کے لیے جو تفکر کریں.‘‘

اور فرمایا :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (النحل:۴۴)
’’اور اتارا ہم نے تم پر ذکر کہ تم جو کچھ لوگوں کے لیے اتارا گیا ہے اس کی وضاحت کرو ‘تاکہ وہ تفکر کریں.‘‘

اسی طرح :

کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۲۴۲﴾٪ (البقرۃ:۲۴۲)
’’اسی طرح اللہ اپنی آیات کی وضاحت فرماتا ہے تاکہ تم تعقل کر سکو.‘‘

اور :

اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۚ﴿۳﴾ (الزخرف:۳)
’’ہم نے اسے قرآن عربی بنا کر اتارا تاکہ تم اسے سمجھ سکو.‘‘

آیاتِ قرآنی‘ آیاتِ آفاقی اور آیاتِ انفسی میں تفکر و تعقل کے 
نتیجے میں انسان محسوس کرتا ہے کہ ایک تو ان تینوں میں گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دوسرے یہ سب کامل توافق کے ساتھ بعض ایسے حقائق کی جانب رہنمائی کرتی ہیں جن کی شہادت خود اس کی اپنی فطرت میں مضمر ہے. اس طرح اس کے اپنے باطن کی مخفی شہادت اجاگر ہو کر اس کے شعور کے پردوں پر جلوہ فگن ہوتی ہے اور حقیقت نفس الامری کا علم ‘جس کا دوسرا نام ایمان ہے‘ اس کے شعور میں بالکل اس طرح ابھرتا ہے جیسے کسی تحریک کی بنا پر کوئی پرانی بھولی بسری بات انسان کی یادداشت کے ذخیرے کی گہرائیوں سے ابھر کر افق شعور پر طلوع ہوتی ہے اسی عمل (phenomenon) کا نام قرآنی اصطلاح میں ’’تذکر‘‘ ہے. 
اس ’’تذکر‘‘ کی احتیاج ہر انسان کو ہے‘ خواہ وہ عوام الناس میں سے ہو خواہ خواص کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’تذکر‘‘ کے لیے قرآن کو انتہائی آسان بنا دیا ہے اور قرآن کی ایک ہی سورت میں چار مرتبہ یہ فرماکر کہ :

وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ 
(القمر :۱۷‘ ۲۲‘ ۳۲۴۰)
’’ہم نے آسان بنا دیا ہے قرآن کو ذکر کے لیے‘ تو ہے کوئی یاددہانی سے فائدہ اٹھانے والا؟‘‘

ہر انسان پر حجت قائم کر دی ہے کہ خواہ وہ کتنی ہی کم اور کیسی ہی معمولی استعداد کا حامل کیوں نہ ہو‘ فلسفہ و منطق اور علوم و فنون سے کتنا ہی نابلد اور زبان و ادب کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں سے کتنا ہی ناواقف کیوں نہ ہو ‘وہ قرآن سے تذکر کر سکتا ہے‘ بشرطیکہ اس کی طبع 
سلیم اور فطرت صحیح ہو اور ان میں ٹیڑھ اور کجی راہ نہ پا چکی ہو اور وہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اس کا ایک سادہ مفہوم روانی کے ساتھ سمجھتا چلا جائے.

’’تیسیر قرآن للذکر‘‘ کے متعدد پہلو ہیں. مثلاً ایک تو یہی کہ اس کا اصل موضوع اور اساسی مضامین فطرتِ انسانی کے جانے پہچانے ہیں اور قرآن کو پڑھتے ہوئے ایک سلیم الطبع انسان خود اپنے باطن کی آواز سن رہا ہوتا ہے. دوسرے یہ کہ اس کا طریق استدلال نہایت فطری اور انتہائی سادہ ہے. مزید یہ کہ مشکل مضامین کو نہایت دل نشین مثالوں کے ذریعے آسان بنا دیا گیا ہے. تیسرے یہ کہ اس کے باوجود کہ یہ ادب کا شاہکار اور فصاحت و بلاغت کی معراج ہے ‘اس کی زبان عام طور پر نہایت آسان ہے اور عربی زبان کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ اور معمولی سا ذوق رکھنے والا شخص بھی بہت جلد اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور بہت ہی کم مقامات ایسے رہ جاتے ہیں جہاں ایسے شخص کو دقت پیش آئے.
لیکن تذکر بالقرآن کے لیے بھی عربی زبان کا بنیادی علم بہرحال ناگزیر ہے اور متن کے ساتھ ساتھ قرآن کے کسی مترجم نسخے میں ترجمہ دیکھتے رہنا اس مقصد کے لیے قطعاً ناکافی ہے اور میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ عربی کی اس قدر تحصیل کہ انسان قرآن مجید کا ایک رواں ترجمہ ازخود سمجھ سکے اور تلاوت کرتے ہوئے بغیر متن سے نظر ہٹائے اس کے سرسری مفہوم سے آگاہ ہوتا چلا جائے‘ ہر پڑھے لکھے مسلمان کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے.

اور میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسا مسلمان جس نے کچھ بھی پڑھا لکھا ہو‘ کجا یہ کہ غیرملکی زبان تک سیکھی ہو‘ بی اے اور ایم اے پاس کیا ہو‘ ڈاکٹری اور انجینئرنگ جیسے مشکل علوم و فنون حاصل کیے ہوں ‘وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اتنی سی عربی بھی نہ سیکھ سکنے پر کیا عذر پیش کر سکے گا جس سے وہ اس کے کلام پاک کا 
فہم حاصل کرسکتا . حضرات! میں پورے خلوص اور خیرخواہی کے ساتھ آپ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا عربی سیکھ کر قرآن کا فہم حاصل کرنے سے باز رہنا اللہ کے کلام کا تمسخر اور استہزاء ہی نہیں بلکہ اس کی تحقیر و توہین ہے اور آپ خود سوچ لیں کہ اپنے اس طرزِعمل سے ہم اپنے آپ کو اللہ کی کیسی شدید بازپُرس اور کتنی سخت عقوبت کا مستحق بنا رہے ہیں ! 
میرے نزدیک عربی زبان کی کم از کم اتنی تحصیل کہ قرآن مجید کا سرسری مفہوم انسان کی سمجھ میں آ جائے ‘ہر پڑھے لکھے مسلمان پر قرآن کا وہ حق ہے جس کی عدم ادائیگی نہ صرف قرآن بلکہ خود اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ہے.

فہم قرآن کا دوسرا مرتبہ ’’تدبر قرآن‘‘ کا ہے. یعنی یہ کہ قرآن کو گہرے غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور اس کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی کوشش کی جائے. اس لیے کہ قرآن 
’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے اور جس طرح عوام کو کائنات اور اپنی ذات کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اور زندگی بسر کرنے کی واضح ہدایات عطا فرماتا ہے اسی طرح خواص اور اصحاب ِ علم و فکر کے لیے بھی کامل ہدایت اور مکمل رہنمائی ہے اور ان کے ذہنی و فکری سفر کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر ان کی دستگیری فرماتا ہے.

قرآن نے اپنے محلِ تدبر ہونے کو بایں الفاظ خود واضح فرمایا ہے کہ :

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (صٓ:۲۹)
’’(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں.‘‘

اور عدم تدبر کا گلہ ان الفاظ میں کیا ہے :

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ (النساء : ۸۲)
’’ کیا یہ لوگ قرآن پر تدبر نہیں کرتے؟‘‘

اور 
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا ﴿۲۴﴾ (محمد :۲۴)
’’ کیا یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر؟ یا دلوں پر لگے ہوئے ہیں ان کے قفل؟‘‘

’’تذکر‘‘ کے اعتبار سے قرآن مجید جس قدر آسان ہے واقعہ یہ ہے کہ ’’تدبر‘‘ کے نقطہ نظر سے یہ اسی قدر مشکل ہے اور اس سمندر میں اترنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کی گہرائیوں کا اندازہ ممکن ہے اور نہ اس کے کناروں ہی کا سراغ کسی کو مل سکتا ہے. صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اس امر کی تصریح ملتی ہے کہ وہ ایک ایک سورت پر تدبر و تفکر میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے‘ حتیٰ کہ ان ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جن کو آنحضور نے ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کر لینے کی تاکید کی تھی‘ یہ تصریح ملتی ہے کہ انہوں نے صرف سورۃ البقرۃ پر تدبر میں آٹھ سال صرف کیے. ذرا غور فرمائیں کہ یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کی اپنی زبان میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا. چنانچہ نہ تو انہیں عربی زبان اور اس کے قواعد کی تحصیل کی کوئی ضرورت تھی نہ شانِ نزول اور سُور و آیات کے تاریخی پس منظر کو جاننے کے لیے کھود کرید کی کوئی حاجت. اس کے باوجود ایک ایک سورت پر ان کا سالہا سال غور و فکر کرنا یہ بتلاتا ہے کہ قرآن حکیم کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کوئی آسان کام نہیں‘ بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور شدید ریاضت کی ضرورت ہے. چنانچہ بعد میں ابن جریر طبری‘ علامہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی ایسے دسیوں بیسیوں نہیں سینکڑوں اور ہزاروں انسانوں نے اپنی پوری پوری زندگیاں کھپائیں تب بھی کسی ایک ہی پہلو سے قرآن حکیم پر غور و فکر کر سکے اور حق یہ ہے کہ حق پھر بھی ادا نہ ہوا اور ان چودہ صدیوں میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں گزرا جس نے ضخیم سے ضخیم تفسیر لکھنے کے بعد بھی اس امر کا دعویٰ کیا ہو کہ اس نے قرآن حکیم پر تدبر کا حق ادا کر دیا اور اس کا فہم کماحقہ حاصل کر لیا تابہ دیگراں چہ رسد؟

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کسی عارف کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے قرآن کی عام تلاوت برائے تذکر اور اس پر گہرے غور و فکر کا فرق معلوم ہوتا ہے. وہ 
صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک ختم تو قرآن مجید کا ہر جمعہ کو کر لیتا ہوں‘ ایک ختم میں ماہانہ کرتا ہوں اور ایک سالانہ‘ اور ایک اور ختم بھی ہے جس میں میں تیس سال سے مشغول ہوں اور تاحال فارغ نہیں ہو سکا.

قرآن کو بطریق تدبر پڑھنے کی شرائط بڑی کڑی ہیں اور ان کا پورا کرنا اس کے بغیر ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اپنے آپ کو بس اسی کے لیے وقف کر دے اور اپنی پوری زندگی کا مصرف صرف تعلیم و تعلم قرآن ہی کو بنا لے. اس کے لیے اوّلاً عربی زبان کے قواعد کا گہرا اور پختہ علم ضروری ہے. پھر اس کے ادب کا ایک ستھرا ذوق اور فصاحت و بلاغت کا عمیق فہم لازمی ہے. اس پر مستزاد یہ کہ جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے اس کا صحیح فہم اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ادبِ جاہلی کا تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور دورِ جاہلی کے شعراء و خطباء کے کلام سے ممارست بہم پہنچائی جائے. پھر اسی پر بس نہیں‘ قرآن نے خود اپنی مخصوص اصطلاحات وضع کی ہیں اور اپنے خاص اسالیب ایجاد کیے ہیں جن سے انسان ایک طویل مدت تک قرآن کو پڑھتے رہنے اور اس پر غور کرتے رہنے کے بعد ہی مانوس ہوتا ہے اس کے علاوہ نظم قرآن کا فہم بجائے خود تدبر قرآن کی راہ کی ایک کٹھن منزل ہے اور مصحف کی موجودہ ترتیب کی حکمت کا علم جو ترتیب نزولی سے قطعاً مختلف ہے‘ اور اوّلاً مختلف سورتوں اور پھر ہر سورت کی آیتوں کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنا ایسا مشکل مرحلہ ہے جس پر بڑے بڑے اصحابِ عزم و ہمت تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں.

لیکن ظاہر ہے کہ اس مرحلے کو سر کیے بغیر ’’ تدبر قرآن‘‘ کے حق کی ادائیگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسی معدن سے قرآن حکیم کے علم و حکمت کے اصل موتی حاصل ہوتے ہیں اور اسی سے اس بحرِ ناپیدا کنار کی وسعتوں کا اصل اندازہ ہوتا ہے !

ساتھ ہی قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث کے تمام ذخیرے پر انسان کی گہری نظر 
بھی لازمی ہے اور قدیم صحف آسمانی کا گہرا مطالعہ بھی ضروری ہے. ان ساری منزلوں سے گزر کر تو انسان اس قابل ہوتا ہے کہ قرآن کو بطریق تدبر (۱پڑھ سکے. اس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی تاریخ کے ہر دَور میں تجرباتی و عقلی دونوں قسم کے علوم ایک خاص سطح پر ہوتے ہیں اور قرآن پر تدبر کا حق اس کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا کہ حکمت قرآنی کا طالب اپنی معلومات کے دائرے کو کم از کم اتنا وسیع ضرور کرے کہ ان تمام علوم طبعی و نظری کا ایک اجمالی خاکہ ان کے مقدمات و مبادی‘ طریق استدلال اور نہج استنتاج اور نتائج و عواقب کی اجمالی معرفت سمیت اس کے ذہن کی گرفت میں آ جائے اس لیے کہ قرآن مجید کے علم و حکمت کے بحر زخار سے ہر طالب بہرحال اپنے ’’ظرفِ ذہنی‘‘ کے عمق اور وسعت کے مطابق ہی حصہ پا سکتا ہے اور اس کتابِ منیر کا نورِ ہدایت ہر شخص پر اس کے ’’افق فکر و نظر‘‘ کی وسعت کی نسبت ہی سے روشن ہو سکتا ہے اور انسان کا ظرفِ ذہنی اور افق فکری بہرحال متداول علوم طبعی و عقلی ہی سے تیار ہوتا ہے.

خاص طور پر تبلیغ و تبیین للناس کے اعتبار سے تو اس کی اہمیت بہت ہی زیادہ ہے‘ بلکہ اس کے بغیر ان کا حق ادا ہونا تو کسی درجے میں بھی ممکن نہیں‘ اس لیے کہ ہر دَور کے تجرباتی علوم کی سطح کے مطابق اور اسی کی مناسبت سے منطق و فلسفہ‘ الٰہیات و مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات و نفسیات اور دیگر علومِ عمرانی کا ایک طومار ہوتا ہے جس سے ذہن بالعموم مرعوب ہوتے ہیں. ان کے پھیلائے ہوئے غلط افکار و نظریات کا توڑ اس کے بغیر قطعاً ممکن نہیں ہوتا کہ خود ان کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور ان کے اصل سرچشموں 
(۱) اس موضوع پر مولانا امین احسن اصلاحی کی تالیف ’’مبادیٔ تدبر قرآن‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید رہے گا. (Original Sources) تک رسائی بہم پہنچا کر علیٰ وجہ البصیرت ان کی جڑوں پر اسی طرح ضربِ کاری لگائی جائے جس طرح اپنے اپنے وقت میں امام ابن تیمیہ اور امام غزالی رحمہما اللہ لگا چکے ہیں. دورِ جدید اس معاملے میں غالباً اپنی منطقی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور علومِ متذکرہ بالا کے علاوہ علومِ طبعی (Physical Sciences) اور فنونِ صنعتی (Technology) نے انتہائی بلندیوں کو چھو کر عقلِ انسانی کو اس طرح مبہوت و ششدر کر دیا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے ان کے جلو میں آنے والے غلط نظریات و افکار پر جرح و تنقید قطعاً ناممکن ہو گئی ہے اندریں حالات‘ دورِ حاضر میں ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ اصحابِ ہمت اور اربابِ عزیمت کی ا یک بڑی جماعت اپنے آپ کو پوری طرح کھپا کر ایک طرف تدبر قرآن کی متذکرہ بالا جملہ شرائط کو پورا کرے اور دوسری طرف جدید علومِ عقلی و عمرانی کی گہری و براہِ راست ممارست بہم پہنچائے ‘اور پھر نہ صرف یہ کہ قرآن کی روشنی میں علومِ جدیدہ کے صحیح و غلط اجزاء کو بالکل علیحدہ کر دے ‘بلکہ جدید استدلال اور معروف اصطلاحات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کے قریب ہو کر کلام کرے اور قرآن کے نورِ ہدایت کو لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دے! تاکہ ’’لِتُبَـیِّنَہٗ لِلنَّاسِ‘‘ کا جو فریضہ آنحضور نے اپنی حیاتِ طیبہ میں ادا فرمایا تھا وہ اس دور میں آپ کی اُمت کے ذریعے پھر پورا ہو اور یہ کام ظاہر ہے کہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عالم اسلام میں جابجا ایسی یونیورسٹیاں قائم نہ ہوں جن میں سے ہر ایک کا اصل مرکزی شعبہ ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا ہو اور اس کے گرد تمام علومِ عقلی‘ جیسے منطق‘ مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات‘ نفسیات اور الٰہیات‘ علومِ عمرانی جیسے معاشیات‘ سیاسیات اور قانون اور علومِ طبعی جیسے ریاضی‘ کیمیا‘ طبیعیات‘ ارضیات اور فلکیات وغیرہ کے شعبوں کا ایک حصار قائم ہو‘ اور ہر ایک طالب علم ’’تدبرِ قرآن‘‘ کی لازماً اور ایک یا اس سے زائد دوسرے علوم کی اپنے ذوق کے مطابق تحصیل کرے اور اس طرح ان شعبہ ہائے علوم میں قرآن کے علم و ہدایت کو تحقیقی طور پر اخذ کر کے مؤثر انداز میں پیش کر سکے. ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں! اسی لیے اس پر ہر شخص مکلف بھی نہیں. یہ کام اوّل تو ہے ہی صرف ان لوگوں کے کرنے کا جو علم کی ایک فطری پیاس لے کر ہی پیدا ہوتے ہیں اور جن کے ذہنوں میں ایسے سوالات ازخود پیدا ہو جاتے ہیں جن کا حل عقل کی جملہ وادیاں طے کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا. یہ لوگ طلب علم پر اسی طرح ’’مجبور‘‘ ہوتے ہیں جیسے ایک بھوکا تلاشِ غذا پر یا ایک پیاسا تحصیل ماء پر. ایسے ہی لوگ مسلسل ’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘ کی دعا کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں‘ اور اگر صحیح رہنمائی میسر آجائے تو علم وحکمت سے حصہ وافر پاتے ہیں. ’’تدبر قرآن‘‘ اصلاً تو ایسے ہی لوگوں کے کرنے کا کام ہے‘ ویسے ہر ’’طالب علم‘‘ اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی محنت کے مطابق اس سے فیض یاب ہو سکتا ہے اور اس کے لیے ایک عام تشویق ہی کے لیے آنحضور نے فرمایا :

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (صحیح البخاری‘ عن عثمان بن عفانؓ ) 
’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہیں.‘‘

اور قرآن حکیم نے ایک عام ہدایت دی کہ :

فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ (التوبہ:۱۲۲)
’’پس کیوں نہیں نکلتا ہر ہر فرقے میں سے ان کا ایک گروہ تاکہ سمجھ پیدا کرے دین میں.‘‘

یہ 
’’ تفقّہ فی الدِّین‘‘ تدبرِ قرآن کا وہ ثمرہ ہے جس کے لیے آنحضور نے چیدہ چیدہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے دعا فرمائی ہے (۱اور جس کا آپ نے خِیَارُھُمْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ کے کلیہ کے ساتھ بطورِ شرط تذکرہ فرمایا ہے‘ یعنی یہ کہ اِذَا فَقُھُوْا (۲(۱) جیسے مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے لیے حضور نے ان الفاظ میں دعا فرمائی :

اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ
(۲) متفق علیہ‘ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ . ترجمہ حدیث : ’’ان میں سے جو لوگ دورِ جاہلیت میں سب سے اچھے تھے وہی اسلام میں بھی سب سے اچھے ہیں‘ بشرطیکہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں.‘‘

چوتھا حق

حکم و اقامت

’’ایمان و تعظیم‘‘ ’’تلاوت و ترتیل‘‘ اور ’’تذکر و تدبر‘‘ کے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے. اور ظاہر ہے کہ ماننا‘ پڑھنا اور سمجھنا‘ سب فی الاصل عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں. اس لیے کہ قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا جنتر منتر کی کتاب ہے جس کا پڑھ لینا ہی دفعِ بلیات کے لیے کافی ہو‘ نہ یہ محض حصولِ برکت کے لیے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب حاصل کر لیا جائے یا اس کے ذریعے جان کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے. (۱اور نہ ہی یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضت ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے بلکہ‘ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ یہ ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی انسانوں کے لیے رہنمائی ہے ‘اور اس کا مقصد نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے واقعتا اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنا لیں.

یہی وجہ ہے کہ خود قرآن حکیم اور اُس ذاتِ اقدس نے جس پر یہ نازل ہوا ( ) اس بات کو بالکل واضح فرما دیا ہے کہ قرآن پر عمل نہ کیا جائے تو اس کی تلاوت یا اس پر غور و فکر کے کچھ مفید ہونے کا کیا سوال‘ خود ایمان ہی معتبر نہیں رہتا. چنانچہ قرآن مجید نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ :

وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ (المائدۃ:۴۴)
’’اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق کہ جو اللہ نے نازل فرما یا تو ایسے ہی لوگ تو کافر ہیں.‘‘ (۱) بآیا تش ترا کارے جز ایں نیست 
کہ از یٰسینِ اُو آساں بمیری! (علامہ اقبال) 
اور آنحضرت  نے مزید وضاحت فرما دی کہ :

۱
لاَ یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (شرح السنۃ،علامہ بغوی)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں.‘‘

۲
مَا اٰمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ (رواہ الترمذی)
’’جو شخص قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرائے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا.‘‘

ایک ایسے شخص کا معاملہ تو مختلف ہے جو ابھی تلاشِ حق میں سرگرداں ہو اور قرآن کو پڑھ اور سمجھ کر ابھی اس کی حقانیت کے عدم یا اثبات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہو‘ لیکن جو لوگ قرآن کو کتابِ الٰہی تسلیم کریں ان کے لیے اس سے استفادے کی شرطِ لازم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے رُخ کوقرآن کی سمت میں عملاً موڑ دینے اور اس کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کی حتی الامکان سعی کے عزمِ مصمم کے بعد قرآن کو پڑھیں. چاہے اس میں انہیں کیسے ہی کسر و انکسار‘ ترک و اختیار اور قربانی و ایثار کے ساتھ سابقہ پیش آئے. بلکہ جیسا کہ اس سے قبل ’’تلاوت‘‘ کے لغوی مفہوم کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کی ہدایت تامہ تو درحقیقت ’’منکشف‘‘ ہی صرف ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر کے اس کا مطالعہ کریں اس عزمِ صادق کے بعد بھی ایک طویل مجاہدے اور کٹھن ریاضت کے بعد ہی نفس انسانی میں تسلیم و انقیاد کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو آنحضور کے اس قولِ مبارک میں بیان ہوئی جو ابھی میں نے آپ کو سنایا تھا. یعنی :

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں.‘‘

نفس انسانی میں اس کیفیت کا پیدا ہو جانا قرآن کی ’’ہدایت تامہ‘‘ کا نقطۂ آغاز ہے. پھر جوں جوں اس کتابِ ہدایت سے تمسک بڑھتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے. 
وَ الَّذِیۡنَ اہۡتَدَوۡا زَادَہُمۡ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمۡ تَقۡوٰىہُمۡ ﴿۱۷﴾ (محمد :۱۷)
’’اور جو لوگ راہ یاب ہوئے تو ان کو مزید عطا ہوئی سوجھ‘ اور نصیب ہوئی پرہیزگاری.‘‘

یعنی انسان قرآن کی انگلی پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش عملاً شروع کردے تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائے گا اور درجہ بدرجہ رشد و ہدایت میں ترقی کرتا چلا جائے گا ورنہ اس کی تلاوت صرف وقت کا ضیاع ہی نہ ہو گی بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے لیے موجب لعنت ہو. جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں بعض عارفین کا قول نقل فرمایا کہ قرآن کے بہت سے پڑھنے والے ایسے ہیں جنہیں سوائے لعنت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا. اس لیے کہ جب وہ پڑھتا ہے کہ : 
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ یعنی اللہ کی لعنت ہو جھوٹوں پر‘ تواگر وہ خود جھوٹا ہے تو یہ لعنت اسی پر ہوئی! اسی طرح جب ایک قاری تلاوت کرتاہے کہ :

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ (البقرۃ : ۲۷۹)
’’اور اگر ایسے نہیں کرتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ سے.‘‘

تو اگر وہ خود اس حکم الٰہی سے سرتابی کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ کے اس ’’اذانِ حرب‘‘ 
(ultimatum) کا مخاطب خود وہی ہوا. اسی طرح کم تولنے اور تھوڑا ناپنے والے‘ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے اور رو‘در رو طعنہ دینے والے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ اور وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ کی دردناک ’’بشارتوں‘‘ کے مصداق خود ہی بنتے ہیں اسی پر مزید قیاس کر لیجئے کہ عمل کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کو درحقیقت کیا حاصل ہوتا ہے.

رہا ان لوگوں کا معاملہ جو قرآن حکیم پر تحقیق و تدقیق‘ غور و فکر اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے ہوں‘ لیکن خود اس کے تقاضوں کی ادائیگی سے غفلت برتیں تو ان کا معاملہ تو سب سے بڑھ کر سنگین ہو جاتا ہے اور ان کی یہ ساری کدوکاوش اور تحقیق و جستجو صرف ذہنی عیاشی ہی نہیں 
’’تلعّب بالقرآن‘‘ یعنی ؏ ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی!‘‘ کے مصداق قرآن کے ساتھ کھیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے. نتیجتاً ان کے اپنے حصے میں بھی قرآن سے ہدایت نہیں ضلالت آتی ہے.

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا (البقرۃ : ۲۶)
’’گمراہ کرتا ہے (اللہ تعالیٰ) اس سے بہت سوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس کے ذریعے بہت سوں کو.‘‘

اور خلق خدا کے لیے بھی یہ طرح طرح کے فتنوں کا باعث اور نت نئی گمراہیوں اور ضلالتوں کا سبب بنتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کا سارا ’’ قرآنی فکر‘‘ اس آیت قرآنی کا مصداق بن جاتا ہے کہ :

فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ (آلِ عمران : ۷)
’’تو وہ پیچھے پڑتے ہیں متشابہات کے تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت و ماہیت معلوم کریں.‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جنہیں ’’تدبرِ قرآن‘‘ کا خاص ذوق عطا ہوا تھا اور جو کئی کئی برس ایک ایک سورت پر غور و فکر اور تدبرو تفہم میں صرف کر دیتے تھے ان کے بارے میں یہ تصریح ملتی ہے کہ ان کے اس توقف کا اصل سبب یہ ہوتا تھا کہ وہ قرآن کے علم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ اس پر پورے پورے عمل کا بھی حتی المقدور اہتمام کرتے تھے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک انہیں یہ اطمینان نہیں ہو جاتا تھا کہ جتنا کچھ انہوں نے سیکھا اور پڑھا ہے اس پر عمل کی توفیق بھی انہیں حاصل ہو گئی ہے آپ شایدیہ معلوم کر کے حیران ہوں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم قرآن کی کسی سورت یا اس کے کسی حصے کے حفظ کا مطلب صرف یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اسے یاد کر لیا جائے‘ بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم و فہم بھی حاصل ہو جائے اور اس پر عمل کی توفیق بھی بارگاہِ ربّ العزت سے ارزانی ہو جائے اور اس طرح قرآن ان کے فکر و عمل دونوں پر حاوی ہو جائے.

گویا ’’حفظ قرآن‘‘ کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ قرآن ان کی پوری شخصیت میں رچ بس جائے اور اس کا نورِ ہدایت 
ان کے رگ و پے حتیٰ کہ ریشے ریشے میں سرایت کر جائے. نتیجتاً اس کے الفاظ ان کے حافظے میں‘ اس کا علم ان کے ذہن میں‘ اور اس کی تعلیمات ان کے اخلاق و عادات اور سیرت و کردار میں محفوظ ہو جائیں ! (۱)

اسی عمل (phenomenon) کی تکمیل اور اتمامی کیفیت کا ذکر ہے معلمہ اُمت‘ اُم المؤمنین حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے اس غایت درجہ حکیمانہ قول میں جو انہوں نے اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ آنحضور کی سیرت کیسی تھی؟ کہ : ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ‘‘ یعنی آپ کی سیرت تعلیماتِ قرآنی کا مکمل نمونہ تھی اور گویا کہ آپ مجسم قرآن تھے. فداہ ابی واُمی و صلی اللّٰہ علیہ وسلم.
غرضیکہ قرآن سے استفادے کی صحیح صورت صرف یہ ہے کہ اس کا جتنا جتنا علم و فہم انسان کو حاصل ہو اُسے وہ ساتھ کے ساتھ اپنے اعمال و افعال‘ عادات و اطوار اور سیرت و کردار کا جزو بناتا چلا جائے اور اس طرح قرآن مجید مسلسل اس کے ’’خُلق‘‘ میں سرایت کرتا چلا جائے. بصورتِ دیگر اس کا خدشہ ہے کہ نبی اکرم کے اس قو ل (۱) ملاحظہ ہو ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کی مندرجہ ذیل روایت (بحوالہ مبادیٔ تدبر قرآن. مؤلفہ مولانا امین احسن اصلاحی)

وقد قال ابوعبد الرحمٰن السلمی حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن کعثمان بن عفان و عبداللّٰہ بن مسعود وغیرھما انھم اذا کانوا تعلموا من النبی  عشر آیات لم یتجا وزوھا حتی یعلموا مافیھا من العلم والعمل‘ قالوا فتعلمنا القرآن والعمل جمیعًا ولھذا کانوا یبقون مدۃ فی حفظ السورۃ 

’’ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ مجھ سے ان لوگوں نے بیان کیا جو قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے‘ جیسے حضرت عثمانؓ بن عفان اور عبداللہ بن مسعودؓ وغیرہ کہ ان لوگوں کا دستور یہ تھا کہ اگر نبی  سے دس آیتیں بھی پڑھ لیتے تھے تو جب تک ان آیات کے تمام علم و عمل کو اپنے اندر جذب نہ کر لیتے آگے قدم نہ بڑھاتے. انہوں نے کہا کہ ہم نے قرآن کے علم و عمل دونوں کو ایک ساتھ حاصل کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک ایک سورت کے حفظ میں وہ برسوں لگا دیا کرتے تھے.‘‘ مبارک کے مطابق کہ اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَیْکَ ( قرآن یا تو تمہارے حق میں حجت بنے گا یا تمہارے خلاف) قرآن کا علم و فہم الٹا انسان کے خلاف حجت قاطع اور اس کی بدعملی پر سزا و عقوبت کی شدت میں اضافے کا سبب بن جائے. 
یہاں یہ وضاحت البتہ ضروری ہے کہ ’’عمل بالقرآن‘‘ کے دو پہلو ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی. قرآن مجید کے ایسے تمام احکام جو انسان کی انفرادی و نجی زندگی سے متعلق ہوں یا جن پر عمل کا اختیار اسے فی الفور حاصل ہو اُن کو بجا لانے پر ہر انسان اسی دم مکلف ہو جاتا ہے جس دم وہ اس کے علم میں آئیں اور ان کے معاملے میں تاخیر و تعویق کا کوئی جواز سرے سے موجود نہیں ہے.ایسے احکام کی اطاعت و تعمیل میں کوتاہی وہ جرمِ عظیم ہے جس کی سب سے بڑی سزا خذلان اور سلب توفیق کی شکل میں ملتی ہے ‘حتیٰ کہ قول و کردار اور علم و عمل کا یہ فرق و تفاوت اور 
لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (۱کی یہ کیفیت بالآخر نفاق پر منتج ہوتی ہے. یہی حقیقت ہے جو آنحضور کے اس قولِ مبارک میں بیان ہوئی کہ :

اَکْثَرُ مُنَافِقِیْ اُمَّتِیْ قُرَّاءُ ھَا (مسند احمد)
’’میری اُمت کے منافقین کی سب سے بڑی تعداد قراء (۲کی ہے.‘‘

لہذا سلامتی کی راہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کا جس قدر علم بھی انسان کو حاصل ہو اس پر وہ حتی الامکان فوری طور پر عمل شروع کر دے.

رہے دوسری قسم کے احکام‘ یعنی وہ جو ایسے اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں جن پر ایک فرد کو کلی اختیار حاصل نہیں ہوتاتو ان کے بارے میں ظاہر ہے کہ ہر شخص بجائے خود مسئول و مکلف نہیں ہوتا. اگرچہ وہ اس پر ضرور مکلف ہے کہ اپنی امکانی حد تک حالات کو بدلنے اور ایسا اجتماعی ماحول برپا کرنے کی سعی و جہد کرے جس میں پورے کا پورا 
(۱) سورۃ الصف آیت ۲ : ’’اے اہل ایمان‘ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘
(۲) واضح رہے کہ یہاں قراء سے مراد معروف معنی میں محض قاری نہیں‘ بلکہ ان میں وہ عالم بھی شامل ہیں جو قرآن پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے ہوں لیکن اس پر عمل نہ کریں. 
قرآن سمویا جا سکے اور اس کے تمام احکام کی مکمل تنفیذ کی جا سکے. ان حالات میں اس کی یہ کوشش اور جدوجہد ’’مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ ‘‘ (۱اور ان اجتماعی احکامات کی بالفعل تعمیل کی قائم مقام ہو جائے گی. لیکن اگر انسان ایسی جدوجہد بھی نہ کرے اور مطمئن ہو کر بس اپنی زندگی کی بقاء اور اپنے بال بچوں کی پرورش میں لگا رہے تو اس صورت میں سخت خطرہ ہے کہ قرآن کے انفرادی و نجی نوعیت کے احکام پر عمل بھیاَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ (۲کے مصداق گردانا جائے!

جس طرح فہم قرآن کے لیے قرآن مجید کی وسیع تر اصطلاح ’’تذکر‘‘ ہے اسی 
(۱) سورۃ الاعراف آیت ۱۶۴ : ’’اور جب کہا ان میں سے ایک گروہ نے کہ کیوں نصیحت کرتے ہوایسے لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک یا شدید عذاب میں مبتلا کر کے رہے گا ‘تو انہوں نے جواب دیا : تاکہ پروردگار کے یہاں ہمارا عذر قبول ہو. اور (پھر) کیا عجب کہ وہ (خدا سے) ڈر ہی جائیں.‘‘

(۲) سورۃ البقرۃ آیت ۸۵ :’’تو کیا تم ایمان رکھتے ہو کتابِ الٰہی کے کچھ حصے پر اور کفر کرتے ہو دوسرے سے؟‘‘ ان الفاظِ مبارکہ کے بعد جو تہدید قرآن میں وارد ہوئی ہے اس کو پڑھتے ہوئے ہر صاحب دل انسان لازماً کانپ اٹھتا ہے. لیکن افسوس کہ ہم نے بعینہٖ یہی روش اختیار کی اور نتیجتاًاسی تہدید کا ایک عملی مظہر بن کر رہے یعنی یہ کہ :

’’تو جوکوئی تم میں سے یہ روش اختیار کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں اسے ذلیل و رسوا کیا جائے اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے‘‘ 

توجہاں تک دنیا کی رسوائی کا تعلق ہے اس کا تو ایک عبرتناک نقشہ اُمت مسلمہ پیش کر رہی ہے. رہا عذابِ اُخروی ‘تو اس کے بھی حق دار بننے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی. ویسے اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دستگیری فرما لے تو دوسری بات ہے :

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾ (المائدۃ:۱۱۸)

اللہ اکبر! کیسی صادق آتی ہے ہمارے حال پر آنحضور کی یہ حدیث مبارک کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتٰبِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ (مسلم : عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ)
’’اللہ تعالیٰ اس کتابِ عزیز کی وجہ سے کچھ قوموں کو عزت وسربلندی عطا فرمائے گا اور دوسروں کو ذلت ونکبت سے ہم کنار کرے گا.‘‘
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور ’’ہم‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر! 
طرح قرآن پر ’’عمل‘‘ کے لیے قرآن کی سب سے جامع اور کثیرالاستعمال اصطلاح ’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ ہے. 

’’حکم‘‘ کے ذیل میں قرآن مجید نے اصل الاصول تو یہ متعین کیا کہ : 

اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ (الانعام : ۵۷‘ یوسف : ۴۰ و ۶۷
’’حکم (کا اختیار) سوائے اللہ کے اور کسی کو حاصل نہیں.‘‘ 

پھر خود قرآن مجید کو ’’حکم‘‘ قرار دیا :

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ حُکۡمًا عَرَبِیًّا ؕ (الرعد : ۳۷
’’اور اسی طرح اتارا ہم نے اسے حکم بنا کر عربی زبان میں.‘‘

اور نبی اکرم کا فرضِ منصبی یہ قرار دیا کہ :

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ (النساء : ۱۰۵)
’’بے شک اتاری ہم نے تجھ پر کتاب حق کے ساتھ تاکہ تو فیصلہ کرے لوگوں کے مابین اس سوجھ کے ساتھ جو اللہ نے تجھ کو عطا فرمائی ہے.‘‘
اور سورۃ المائدۃ میں دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ جو لوگ اللہ کی کتاب کے مطابق ’’حکم‘‘ نہ کریں وہی کافر‘ ظالم اور فاسق ہیں . 
(آیات ۴۴‘ ۴۵‘ ۴۶ اور ۴۷)

’’حکم‘‘ کا مفہوم ایک لفظ میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ لفظ ’’فیصلہ‘‘ ہی ہوسکتا ہے. لیکن اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات پیش نظر رہے کہ انسان میں اصل اہمیت کی چیزیں دو ہیں‘ ایک اس کا فکر اور دوسرے اس کاعمل. ’’حکم‘‘ ایک ایسی جامع اصطلاح ہے جو بیک وقت ان دونوں کا احاطہ بھی کرتی ہے اور خاص طور پر ان کے ربط و تعلق کو واضح اور ان کے مقامِ اتصال کو نمایاں کرتی ہے.

کوئی خیال یا نظریہ جب انسانی فکر میں ایسا رچ بس جائے کہ اس کی ’’رائے‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘ یعنی ’’حکم‘‘ بن جائے تو اس کا عمل خودبخود اس کے تابع ہو جاتا ہے ! 
اسی حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے قرآن حکیم نے عمل بالقرآن کے لیے حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی اصطلاح استعمال کی ‘تاکہ یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ قرآن مجید پر عمل درحقیقت اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کا فکر قرآن کے تابع ہو جائے اور قرآن کا بیان کردہ علم حقیقت انسان کے دل اور دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائے.

آسمانی کتابوں پر عمل کے لیے قرآن مجید کی دوسری اصطلاح ’’اقامت‘‘ کی ہے‘ جیسا کہ یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا گیا کہ :

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اَقَامُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِمۡ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ لَاَکَلُوۡا مِنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ مِنۡ تَحۡتِ اَرۡجُلِہِمۡ ؕ (المائدۃ : ۶۶)
’’اور اگر وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو‘ اور اس کو جو نازل ہوا اُن کی جانب ان کے ربّ کی طر ف سے‘ تو کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے پاؤں کے نیچے سے بھی.‘‘

اور اس کے متصلاً بعد یہ فیصلہ سنا دیا گیا :

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (المائدۃ : ۶۸)
’’کہہ دو (اے محمد  )!!ے اہل کتاب! جب تک تم تورات‘ انجیل اور جو تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری جانب نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہ کرو تم کسی بنیاد پر نہیں ہو.‘‘

’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ کا تعلق زیادہ تر افراد کے فکر و عمل سے ہے‘ جبکہ ’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ سے مراد خاص طور پر اس نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام ہے جو کسی اجتماعیت کے شریک افراد اور کسی معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین قسط اور عدل و انصاف پر مبنی ’’توازن‘‘ کا ضامن ہوتا ہے اور جس میں بندھنے کے بعد کسی کے کسی پر ظلم و عدوان اور بغی و طغیان کا امکان باقی نہیں رہتا اور سیاسی جبر (Political repression) اور معاشی استحصال (Economic Exploitation) سب کے دروازے بند ہو جاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ سورۃ المائدۃ کی آیت ۶۶ جو ابھی میں نے آپ کو سنائی تھی‘ اس میں ’’اقامت مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے ثمرات کے طور پر عمومی خوش حالی و فارغ البالی کا تذکرہ خاص طور پر کیا گیا ہے. اس نظامِ عدل و قسط کے قیام کا تذکرہ کمالِ اجمال و غایت ِاختصار کے ساتھ تو سورۃ الحدید کی اس آیت میں ہوا ہے کہ :

لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (آیت ۲۵)
’’ہم نے بھیجے اپنے رسول کھلی نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ لوگ سیدھی طرح انصاف پر قائم رہیں!‘‘

لیکن سورۃ الشوریٰ میں اس کا بیان ایسی وضاحت کے ساتھ ہوا ہے کہ اس سے حکم الٰہی اور اقامت ِدین اور ایمان بالکتاب اور قیامِ نظامِ عدلِ اجتماعی کا باہمی ربط و تعلق بالکل واضح ہو جاتا ہے. اس سورت کے دوسرے رکوع میں ایک نہایت حکیمانہ تدریج و ترتیب کے ساتھ اس مضمون کی تفاصیل بیان ہوئی ہیں. چنانچہ سب سے پہلے وہی اصل الاصول بیان ہوا جس کا تذکرہ میں پہلے کر چکا ہوں ‘یعنی یہ کہ حکم کا اصل اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے. چنانچہ آیت نمبر۱۰ میں ارشاد ہوا :

وَ مَا اخۡتَلَفۡتُمۡ فِیۡہِ مِنۡ شَیۡءٍ فَحُکۡمُہٗۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ
’’اور جس معاملے میں بھی تمہارے مابین اختلاف ہو اُس کے فیصلے کا حق اللہ ہی کو ہے.‘‘

پھر آیت نمبر۱۳ میں اس حکم الٰہی کے دین و شریعت کی شکل میں ڈھلنے کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ :

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ
’’راستہ مقرر کر دیا تمہارے لیے دین میں وہی جس کا حکم دیا تھا نوح کو اور جو وحی کیا ہم نے(اے نبیؐ ) تیری طرف اور جس کا حکم دیا ہم نے ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ کو‘ کہ قائم رکھو دین اور مت اختلاف میں پڑو اِس کے بارے میں!‘‘

پھر آیت نمبر ۱۵ میں آنحضور  سے خطاب کر کے فرمایا گیا : 

فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ 
’’پس تو اسی کی دعوت دے اور قائم رہ جیسا حکم ہوا تجھے اور مت پیچھے چل ان کی خواہشوں کے اور کہہ دے کہ میں ایمان لایا اس کتاب پر جو نازل فرمائی ہے اللہ نے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مابین عدل کرو.‘‘

پھر آیت نمبر۱۷ میں اس پوری بحث کا خاتمہ ان جامع الفاظ پر ہوا کہ :

اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷
’’اللہ ہی تو ہے جس نے اتاری کتابِ کامل حق کے ساتھ اور میزان بھی.اور تجھے کیا خبر‘ شاید قیامت قریب ہی ہے.‘‘

سورۃ الحدید کی متذکرہ بالا آیت کی طرح سورۃ الشوریٰ کی اس آیت میں بھی کتاب کے ساتھ ’’میزان‘‘ کا لفظ بھی وارد ہوا ہے. اس کی تشریح میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بڑی جامع بات فرمائی ہے کہ :

’’اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں‘ اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے صفت عدل وانصاف کہا جاتا ہے‘ اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق اور مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے‘ نہ کم نہ زیادہ!‘‘

قرآن مجید تشتّت و انتشار اور افتراق و اختلاف کا اصل سبب 
’’بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ‘‘ کو قرار دیتا ہے‘ چنانچہ سورۃ الشوریٰ کے اس دوسرے رکوع میں بھی ’’وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ‘‘ کے تاکیدی حکم کے بعد آیت نمبر ۱۴ میں تفرقہ و انتشار کا سبب یہ بیان کیا گیا ہے :

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ 
’’اور نہیں تفرقے میں پڑے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس ’العلم‘ پہنچ چکا‘ ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کی غرض سے.‘‘

دین حق اور اللہ کی نازل کردہ کتاب اور میزان کی اقامت سے اس بغی و طغیان کی تمام راہیں مسدود ہو جاتی ہیں‘ پھر نہ احبار اور رہبان کے لیے موقع رہتا ہے کہ وہ 
’’اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ‘‘ بن کر بیٹھ سکیں‘ نہ سرمایہ ’’دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ‘‘ (۱کی صورت اختیار کر سکتا ہے‘ نہ ہی کسی سیاسی جبر و استبداد کا موقع باقی رہتا ہے‘ بلکہ تمام انسان اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاتے ہیں اور ان کے اولواالامر کا فرض یہ قرار پاتا ہے کہ وہ ہر ضعیف کو قوی سمجھیں جب تک اسے اس کا حق نہ دلوا دیں اور ہر قوی کو ضعیف سمجھیں جب تک اس سے حق وصول نہ کر لیں ’’اقامۃ مَا اُنْزِلَ مِنَ اللّٰہِ‘‘ کے ذریعے ایسے عادلانہ و منصفانہ نظامِ اجتماعی کا قیام کتابِ الٰہی کے ماننے والوں کا وہ فرض ہے جس پر وہ بحیثیت مجموعی مکلف ہیں اور جس کے بارے میں جواب دہی کی فکر انہیں کرنی چاہیے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ الشوریٰ میں اس سلسلۂ مضمون کے آخر میں یہ فرما کر کہ کیا عجب کہ قیامت قریب ہی ہو‘ متنبہ کر دیا گیا ہے کہ کتاب اور میزان کے حقوق کی ادائیگی کی جلد فکر کرو‘ ایسا نہ ہو کہ تم لیت و لعل اور تاخیر و تعویق ہی میں پڑے رہو اور آخری حساب کتاب کی گھڑی اچانک آن کھڑی ہو. اور اللہ کی کتاب اور میزان کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ بفحوائے لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ اور وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ اس نظامِ عدلِ اجتماعی کو عملاً قائم کر دیا جائے جو اللہ نے دین و شریعت کی صورت میں عطا فرمایا ہے.

پوچھا جا سکتا ہے کہ کتابِ الٰہی کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیا عملی تدبیر اختیار کی جائے؟ تو اگرچہ یہ موضوع میری اس وقت کی گفتگو سے براہِ راست متعلق نہیں تاہم یہ 
(۱) سورۃ الحشر‘ آیت ۷ : ’’تمہارے دولت مندوں ہی کے مابین الٹ پھیر میں.‘‘ 

اشارہ مناسب بلکہ ضروری ہے کہ اقامت ِدین اور قیام نظامِ عدلِ قرآنی کی جدوجہد کو دنیا کی کسی دوسری سیاسی‘ معاشی یا معاشرتی تحریک پر قیاس کرنا نہایت غلط اور اس کا عملی نقشہ کسی دوسری تحریک سے اخذ کرنا سخت مضر ہی نہیں انتہائی مہلک ہے. جس طرح ایک فرد میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے قرآن کو اس کے دل و دماغ میں اتارا جائے تاکہ اس کا ذہن و فکر اور جذبات و احساسات سب قرآن کے تابع ہو جائیں‘ نتیجتاً اس کا عمل ازخود قرآن کے تابع ہو جائے گا‘ اسی طرح کسی ہیئت اجتماعی میں بھی اسلامی انقلاب صرف اس طرح برپا کیا جاسکتا ہے کہ پہلے اس کے ذہین اور سوچنے اور سمجھنے والے طبقات کے قلوب و اذہان نورِ قرآن سے منور ہوں اور ان کے ’’فکر و نظر‘‘ میں قرآنی انقلاب برپا ہو جائے. کسی ہیئت اجتماعیہ کے اصحابِ علم و فکر کے طبقے میں ایمان اور یقین کا ایک مضبوط مرکز (nucleus) قائم ہو جائے تو پھر اس سے نورِ ایمان اور بصیرتِ دینی ان دوسرے طبقات میں لازماً سرایت کریں گے جو جسد اجتماعی میں اعضاء و جوارح کی حیثیت رکھتے ہیں اور رفتہ رفتہ پوری اجتماعیت نورِ ایمان سے جگمگا اٹھے گی اور پورے کا پورا دین اپنے مکمل نظامِ عدلِ اجتماعی سمیت عملاً قائم ہو سکے گا اس ایک راہ کے سوا اقامت دین کی کوئی اور راہ موجود نہیں اور یہ خیال تو بالکل ہی خام اور ’’اَوۡہَنَ الۡبُیُوۡتِ لَبَیۡتُ الۡعَنۡکَبُوۡتِ ‘‘ (۱کا کامل مصداق ہے کہ کسی مسلمان قوم کے اسلام کے ساتھ ایک موروثی مذہب کی حیثیت سے جذباتی لگاؤ اور تعلق کو مشتعل (exploit) کر کے ایک سیاسی تحریک برپا کر دینے سے قرآن کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے بہرحال یہ ایک جملہ معترضہ تھا. اصل بات جو اس وقت عرض کرنی مقصود ہے‘ یہ ہے کہ قرآن مجید پر عمل یعنی ’’حُکم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘‘ اور ’’اقامت مَا اُنزِلَ مِنَ اللّٰہ‘‘ قرآن مجید کا وہ حق ہے جو ہر مسلمان پر اس کی انفرادی حیثیت میں اور پوری اُمت مسلمہ پر اجتماعی اعتبار سے عائد ہوتا ہے اور جس کی ادائیگی کی فکر ہم میں سے ہر شخص کو انفرادی طور پر اور پوری اُمت کو اجتماعی طور پر کرنی چاہیے. (۱) سورۃ العنکبوت‘ آیت ۴۱ : ’’اور سب گھروں میں سب سے بودا گھر مکڑی کا گھر ہے‘‘. 

پانچواں حق

تبلیغ و تبیین

ماننے‘ پڑھنے‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور حق بھی ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچائے.

پہنچانے کے لیے قرآن حکیم کی اصل اور جامع اصطلاح ’’تبلیغ‘‘ ہے‘ لیکن تبلیغ کے پہلو بھی بہت سے ہیں اور مدارج و مراتب بھی. حتیٰ کہ تعلیم بھی تبلیغ ہی کا ایک شعبہ اور تبیین بھی اسی کا ایک بلند تر درجہ ہے.

قرآن حکیم خود اپنے مقصد نزول کی تعبیر اِن الفاظ میں کرتا ہے :

ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنۡذَرُوۡا بِہٖ (ابراہیم : ۵۲)
’’یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں کے لیے اور تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کر دیے جائیں.‘‘

او ر نبی اکرم  پر اپنے نزول کا اوّلین مقصد یہ قرار دیتا ہے کہ :

وَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ لِاُنۡذِرَکُمۡ بِہٖ وَ مَنۡۢ بَلَغَ ؕ (الانعام : ۱۹)
’’اور وحی کیا گیا میری طرف یہ قرآن تاکہ میں تمہیں اور جنہیں بھی یہ پہنچ جائے انہیں اس کے ذریعے خبردار کر دوں.‘‘ (۱)
ساتھ ہی اس بات کو غیرمبہم الفاظ میں واضح کر دیتا ہے کہ اس قرآن پاک کی بلاکم و کاست اور بعینہٖ تبلیغ آنحضور کا وہ فرضِ منصبی ہے جس میں ادنیٰ کوتاہی بھی فرائضِ نبوت و رسالت میں تقصیر شمار ہو گی. چنانچہ سورۃ المائدۃ میں انتہائی تاکیدی حکم دیا گیا : 
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ : ۶۷(۱) واضح رہے کہ ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں ’’تبلیغ‘‘ کا پہلا قدم ’’انذار‘‘ ہی کا ہوتا ہے. ’’اے رسول ! جو کچھ تم پر تمہارے ربّ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی (بلا کم و کاست) تبلیغ کرو‘ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے خدا کے فرضِ رسالت کو ادا نہیں کیا.‘‘

بعثت کی پہلی ساعت سے لے کر حیاتِ دُنیوی کی آخری گھڑی تک مسلسل تیئیس سال آنحضور اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت اٹھاتے اور شدائد و مصائب برداشت کرتے رہے اور اس عرصہ میں آپ کی دعوت اگرچہ بہت سے مراحل سے گزری جن میں آپؐ کی مصروفیات بہت متنوع نظر آتی ہیں‘ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ کی جدوجہد کا اصل محور قرآن مجید ہی رہا‘ اور اسی کی تلاوت و تبلیغ اور تعلیم و تبیین میں آپؐ مسلسل مصروف رہے. چنانچہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آپ کے طریق دعوت و تبلیغ اور نہجِ اصلاح و انقلاب کی وضاحت ان الفاظ میں ہوئی ہے کہ :

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ 
(آل عمران : ۱۶۴‘ الجمعۃ : ۲
’’وہ (آنحضور ) تلاوت کرتے ہیں ان پر اس (خدا) کی آیات‘ اور تزکیہ کرتے ہیں ان کا‘ اور تعلیم دیتے ہیں ان کو کتاب اور حکمت کی.‘‘

ظاہر ہے کہ ان الفاظِ کریمہ کا مطلب وہی ہے جو میں اس سے قبل آپ کے سامنے اسلامی انقلاب کے مخصوص طریق کی وضاحت کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں. بہرحال اس طریق پر مسلسل تیئیس برس محنت کر کے آنحضور  نے قرآن مجید کی تبلیغ کا حق ادا فرما دیا‘ اور اللہ کی امانت اس کے بندوں تک پہنچا دی. ادائے امانت الٰہی کی اس جدوجہد کے دوران بھی آپ نے اپنے جاں نثاروں 
(۱سے اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی میں اس تاکیدی حکم کے ذریعے تعاون حاصل فرمایا کہ :

بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً (۱) ان نفوسِ قدسیہ میں سے حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کی مثال تو حد درجہ تابناک ہے‘ جن کی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی مدینہ منورہ میں انقلاب برپا ہوا اور یہ سرزمین ’’دار الہجرت‘‘ کا شرف و اعزاز پانے کے قابل ہوئی. اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے! ’’پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت!‘‘اور اپنے مشن کی تکمیل پر مستقبل کے لیے فریضہ تبلیغِ قرآن کی پوری ذمہ داری اپنی اُمت کے حوالے فرما دی. چنانچہ حجۃ الوداع کے خطبے میں سوا لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعدد بار یہ شہادت لے کر کہ میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے آئندہ کے لیے یہ مستقل ہدایت جاری فرما دی کہ : فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ یعنی اب جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں. اور اس طرح قیامت تک کے لیے فریضۂ تبلیغ قرآن کا بوجھ اُمت محمد  کے کاندھوں پر آ گیا جس کے لیے بحیثیت مجموعی وہ خدا کے ہاں مسئول ہو گی. اب ظاہر ہے کہ اُمت افراد ہی پر مشتمل ہے. لہذا اس اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے. علماء اور فضلاء پر ذمہ داری ان کے علم و استعداد کی نسبت سے عائد ہوتی ہے اور عوام پر ان کی صلاحیت کی نسبت سے.

بہرنوع آنحضور کے ان مبارک الفاظ کے عموم سے کہ 
’’بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً‘‘ ثابت ہوتا ہے کہ اس ذمہ داری سے بالکل بَری کوئی بھی نہیں. جسے ناظرہ پڑھنا آتا ہے وہ دوسروں کو ناظرہ پڑھنا سکھا دے‘ جسے حفظ ہے وہ دوسروں کو یاد کرائے‘ جسے ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو ترجمہ پڑھائے اور جسے اس کا کچھ علم و فہم حاصل ہے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے. حتیٰ کہ اگر کسی کو ایک آیت ہی یاد ہو اور وہ اسے ہی دوسروں کو یاد کرا دے یا قرآن کی کسی ایک آیت یا سورت کا مفہوم معلوم ہو اور وہ صرف اسی کا علم دوسروں تک منتقل کر دے تو یہ بھی ’’تبلیغ قرآن‘‘ میں شامل ہے. اگرچہ اس مقدس اورعظیم الشان فرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری اُمت ِمسلمہ پر بحیثیت ِمجموعی عائد ہوتی ہے وہ صرف اس وقت پوری ہو سکتی ہے جب قرآن کا متن اور اس کا مفہوم اطراف و اکنافِ عالم تک پہنچا دیا جائے!

بحالاتِ موجودہ یہ ایک بہت دُور کی بات اور سہانا خواب معلوم ہوتا ہے‘ اس لیے کہ واقعی صورت حال یہ ہے کہ وہ اُمت کو قرآن کو اقوام و اُممِ عالم تک پہنچانے کی ذمہ دار بنائی گئی تھی آج اس کی محتاج ہے کہ خود اسے قرآن ’’پہنچایا‘‘ جائے. لہذا اس وقت اصل ضرورت اس کی ہے کہ خود اُمت مسلمہ میں تعلیم و تعلّم قرآن کی ایک رَو چل نکلے اور مسلمان درجہ بدرجہ قرآن سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے. میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین!

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا‘ تبلیغ ہی کا ایک شعبہ تعلیم بھی ہے اور اسی کا ایک اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے قرآن حکیم ’’تبیین‘‘ کا نام دیتا ہے. یعنی یہ کہ قرآن مجید کو صرف ’’پہنچا‘‘ ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کی پوری وضاحت کی جائے. اور ایک تو جیسا کہ میں نے قرآن پر تدبر کے ضمن میں عرض کیا تھا ‘لوگوں کے ذہنوں کے قریب ہو کر کلام کیا جائے اور قرآن کا نورِہدایت لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دیا جائے اور دوسرے یہ کہ اس کی سور و آیات کے مدلولات و متضمنات کو پوری طرح کھول دیا جائے.قرآن حکیم نے اپنے آپ کو ’’بیان‘‘ کے لفظ سے بھی تعبیر کیا ہے جیسے:

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۸﴾ (آلِ عمران:۱۳۸)
’’یہ وضاحت ہے لوگوں کے واسطے اور ہدایت اور نصیحت ہے ڈرنے والوں کے لیے.‘‘

اور اپنے لیے ’’مبین‘‘ اور اپنی آیات کے لیے ’’بیّنات ‘‘اور ’’مبیّنات‘‘ کی صفات کا استعمال نہایت کثرت سے کیا ہے. ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کتب الٰہی کی تبیین و 
توضیح انبیاءِ کرام علیہم السلام کی ذمہ داری بھی ہے اور ان اُمتوں کی بھی جو اِن کی حامل بنائی جاتی ہیں‘ جیسا کہ آنحضور سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ :

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل : ۴۴)
’’اور اتاری ہم نے تجھ پر یہ ’’یاددہانی‘‘ تاکہ تو واضح کر دے لوگوں کے سامنے جو کچھ اترا ہے ان کے لیے.‘‘
اور اہل کتاب کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان سے تبیین کتاب کا عہد لیا گیا تھا :

وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ 
(آلِ عمران : ۱۸۷)
’’اور جب عہد لیا اللہ نے ان سے جنہیں عطا فرمائی گئی کتاب کہ اس کو واضح کرو گے لوگوں کے لیے.‘‘

لیکن جب انہوں نے اپنے اس فرض کو ادا نہ کیا اور اُلٹا کتمانِ حق کے مرتکب ہوئے تو لعنت خداوندی کے مستحق قرار دیے گئے.

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾ۙ (البقرۃ :۱۵۹
’’بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں اس واضح تعلیم اور ہدایت کو جو ہم نے نازل فرمائی ہے اس کے بعد کہ واضح کر دیا ہم نے اس کو لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں‘ تو لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں سب لعنت کرنے والے.‘‘

اس ’’تبیین‘‘ کا ادنی ٰ درجہ یہ ہے کہ ہر قوم پر اس کی عام زبان اور آسان محاورے میں سہل انداز سے قرآن مجید کا سرسری مفہوم واضح کر دیا جائے. اس لیے کہ کسی قوم کے لیے تبیینِ قرآن اس کی اپنی زبان ہی میں ہو سکتی ہے‘ جیسا کہ فرمایا گیا :

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ (ابراہیم : ۴)
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر بولی بولنے والا اپنی قوم ہی کی تاکہ واضح کر دے ان پر (اللہ کا پیغام).‘‘

اور اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ کتابِ الٰہی کے علم و حکمت اور اس کے مضمرات و مقدرات 
کو کھول کر بیان کیا جائے‘ اس کے نہج استدلال کو واضح کیا جائے‘ اس کے دلائل و براہین کی مدد سے تمام گمراہ کن خیالات و نظریات کی مدلل تردید کی جائے‘ اور وقت کی بلند ترین علمی سطح پر اعلیٰ ترین علمی استدلال کے ساتھ قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی حقانیت کو مبرہن کر دیا جائے. تبیین قرآن کے ادنیٰ درجے کے حق کی ادائیگی کی صورت فی الوقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر قابل ذکر زبان میں قرآن مجید کے فصیح و بلیغ تراجم مع مختصر تشریح و تفسیر شائع کیے جائیں اور ان کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی جائے اور اعلیٰ درجہ میں اس کے حق کی ادائیگی صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ ‘جیسا کہ میں نے تدبر قرآن کے ضمن میں عرض کیا تھا‘ عالم اسلام میں جابجا اکیڈمیاں اوریونیورسٹیاں قائم ہوں جن کا مرکزی موضوع قرآن حکیم ہو اور ان کے ذریعے اعلیٰ ترین علمی سطح پر قرآن مجید کی ہدایت کی وضاحت کی جائے. 

حضرات! یہ ہیں قرآن مجید کے وہ حقوق جو میرے فہم کے مطابق ہم سب پر بحیثیت مسلمان عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کی فکر ہمیں کرنی چاہیے. ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں جس کے پاس اللہ کا کلامِ پاک من و عن محفوظ اور موجود ہے. یہ بات جہاں بڑے اعزاز کا باعث ہے وہیں اس کی بنا پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے. ہم سے پہلے کتابِ الٰہی کے حامل بنی اسرائیل بنائے گئے تھے ‘لیکن جب انہوں نے اس منصب عظمیٰ کی ذمہ داریوں کوادا نہ کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ اس اعزاز و اکرام کے لائق نہیں تو ایک دوسری اُمت برپا کر دی گئی اور اسے قرآن مجید کا حامل بنا کر کھڑا کر دیا گیا. سورۃ الجمعۃ کی آیت ۵ میں کتابِ الٰہی کے حامل ہو کر اس کے حقوق کو ادا نہ کرنے والوں کے لیے پہلے ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ :

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ
’’ان لوگوں کی مثال جو حامل تورات بنائے گئے ‘پھر نہ اٹھایا انہوں نے اس (کی ذمہ داری) کو ‘اس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ پیٹھ پر لادے پھر رہا ہو.‘‘ اور پھر اس کے فوراً بعد واضح کر دیا گیا کہ ان کا طرزِعمل آیاتِ الٰہی کی تکذیب کے مترادف ہے. 

بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ 
’’بری ہے مثال ان لوگوں کی جو جھٹلاتے ہیں اللہ کی آیات کو.‘‘

اور ساتھ ہی یہ سنت اللہ بھی بیان کر دی گئی ہے کہ :

وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵
’’اور اللہ (ایسے) ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

مَیں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میرا یا آپ کا شمار اللہ کے نزدیک ان لوگوں میں ہو اور دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں صحیح معنی میں قرآن کا حامل بنائے.
سورۃ الفرقان کی اس آیت ِکریمہ میں کہ :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
’’اور کہا رسولؐ نے اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کردیا.‘‘

اگرچہ اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن سرے سے کوئی قابلِ التفات چیزہے ہی نہیں ‘لیکن قرآن کے وہ ماننے والے یقینا اس کے ذیل میں آتے ہیں جوعملاً قرآن کے ساتھ عدم توجہ و التفات کی روش اختیار کریں. چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’ آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا‘اس میں تدبر نہ کرنا‘ اس پر عمل نہ کرنا‘ اس کی تلاوت نہ کرنا‘ اس کی تصحیح قرا ء ت کی طرف توجہ نہ کرنا‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں.‘‘ 
(۱(۱) عجیب اتفاق ہے‘ بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے ذاتِ نبوی ( ) سے قرب کی دلیل ہیں وہ الفاظ جو مولانا کے ان الفاظ کے بالکل مشابہ ایک حدیث میں وارد ہوئے جو حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور جس کے مطابق آنحضور  نے فرمایا : 

میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ہمارا شمار ایسے لوگوں میں ہو.اور اس دعائے ماثورہ پر اپنی اس تقریر کو ختم کرتا ہوں جو بالعموم صرف ختم قرآن پر پڑھی جاتی ہے‘ لیکن جس کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ ہمیں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بارگاہِ ربّ العزت سے حاصل ہو جائے :
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَۃً‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہٗ آنَاءَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّۃً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (آمین)
’’پروردگار!ہم پرقرآن عظیم کی بدولت رحم فرما اور اسے ہمارے لیے پیشوا‘ نور اور ہدایت و رحمت بنا دے. پروردگار! اس میں سے جو کچھ ہم بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کرا دے اور جو ہم نہیں جانتے ہمیں سکھا دے .اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس کی تلاوت کریں راتوں کو بھی اور دن کے حصوں میں بھی اور بنا دے اسے دلیل ہمارے حق میں اے تمام جہانوں کے پروردگار! ‘‘(آمین)

 یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (شعب الایمان للبیہقی‘ بحوالہ معارف الحدیث‘ جلد پنجم) 
’’اے قرآن والو! قرآن کو بس اپنا تکیہ ہی نہ بنا لو‘ بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے‘ اور اس کو (چار دانگ عالم میں) پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو‘ اور اس پر غور و فکر کرو‘ تاکہ تم فلاح پاؤ .‘‘ 

سبحان اللہ کتنا پیارا ہے وہ خطاب جواس اُمت کو ملا اور کتنے جامع ہیں حدیث شریف کے الفاظ جنہوں نے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق کا کمال اختصار کے ساتھ احاطہ کر لیا. حقیقت یہ ہے کہ ہماری سینکڑوں تقریریں قربان آنحضور کے ان چند الفاظ مبارکہ پر بالکل سچ فرمایا آنحضور نے کہ 
اُوْتِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلَمِ (مجھے نہایت جامع کلمات عطا ہوئے ہیں) فِدَاہُ اَبِیْ وَاُمِّیْ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.