(۱)
از مولانا امین احسن اصلاحی


یہ رسالہ،جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے،برادرم ڈاکٹر اسراراحمدصاحب سلّمہ،نے ان حقوق و فرائض کی تشریح کے مقصدسےلکھا ہےجوایک مسلمان پر قرآن سےمتعلق عائد ہوتے ہیں.اس زمانے میں قرآن پر ایمان کےمدّعیوں کی کمی نہیں ہے،لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کومعلوم ہےکہ اس ایمان کے تقاضےاورمطالبے کیا ہیں.ڈاکٹر صاحب سلّمہ،نے قرآن کے دلائل کی روشنی میں ان تقاضوں اورمطالبوں کی تشریح کی ہےاوربیک نظرمحسوس ہوتاہےکہ نہایت خوبی اورجامعیت کے ساتھ تشریح کی ہے.اندازِ بیان نہایت دل نشین،دلائل نہایت محکم اوراسلوبِ خطابت نہایت ہی مؤثر اوردردمندانہ ہے.ہر مسلمان جو قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کوصحیح بنیاد پرقائم کرنا چاہتا ہے،اس رسالے میں بہترین رہنمائی پائے گا.اللہ تعالٰی ڈاکٹر صاحب کے قلم میں برکت دےکہ وہ ایسی بہت سی چیزیں لکھنے کی توفیق پائیں.ہماری بہت سی عزیز امیدیں ان سے وابستہ ہیں. 

(۲)
از پروفیسر یوسف سلیم چشتی


میری رائے میں برادرم اسراراحمدسلمہ،پر اللہ تعالٰی کا خاص کرم ہے کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعداُن کی توجہ قوم کےروحانی امراض کے ازالے کی طرف منعطف ہو گئی ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ میری رائے میں انہوں نےبالکل ٹھیک تشخیص کی ہے.قوم کےتمام روحانی امراض ایک بنیادی مرض سے پیداہوئے ہیں اور وہ مرض ہے قرآن حکیم سے بےاعتنائی وبے تعلقی،بلکہ ہجرقبیح.اس لیے اللہ تعالیٰ نے قبل ازگرفت متنبہ فرما دیا ہے:
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾ 

ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان میں غالباًپہلی مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھایاہےکہ قرآن مجید کے ہم مسلمانوں پرکیاحقوق ہیں.عام طورسے مسلمان اپنےاوپرقرآن مجیدکایہ حق سمجھتے ہیں کہ

ا) اسے ریشمی جزدان میں رکھا جائے.
ب) لڑکی کو جہیز میں دیا جائے.
ج) قریب الموت کےسرہانےاس کی ایک خاص سورت پڑھی جائےتاکہ دم نکلنے میں قدرے آسانی ہوجائے.
د) عدالتوں میں قسم کھاتےوقت اسےسرپررکھ لیا جائے.
ھ) پریشانی کے وقت اس سےفال کھول لی جائے.
لیکن ڈاکٹر صاحب نے ان باتوں کی بجائےپانچ بالکل مختلف حقوق بیان کیےہیں.ان کو پڑھ کرراقم الحروف کے دل سے بےاختیارمصنف کےلیےدعانکلی.

مجھے یقین ہے کہ اگر مسلمان اس کتابچےکوجو’’بقامت کہترولےبقیمت بہتر‘‘ کا مصداق ہے،غور سے پڑھیں گےتوانھیں قرآن مجید سے وہی رابطۂ قلبی پیداہوجائےگاجوعین منشاءایزدی ہے،ان شاءاللہیہ مضمون لکھ کرڈاکٹر صاحب نےاپنے لیےسعادتِ اُخروی کا بڑا ذخیرہ جمع کر لیا ہے. 

اسلام،مسلمان اور قرآن حکیم 
اشعارِ اقبال کی روشنی میں


بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ ازیٰسینِ اوآساں بمیری 
(لیکن افسوس کہ اےمسلمان!)تجھے اس کی آیات سے اب اس کے سوااورکوئی سروکارنہیں رہاکہ اس کی سورۂ یٰسین کے ذریعےموت کو آسان کرلے!
خوار ازمہجورئ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ
دربغل داری کتاب ِ زندۂ 

(اے مسلمان!)تیری ذلّت اور رسوائی کا اصل سبب تویہ ہے کہ تُو قرآن سے دُور اور بے تعلق ہوگیاہے،لیکن تواپنی اس زبوں حالی پرالزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!اے وہ قوم کہ جوشبنم کے مانند زمین پربکھری ہوئی ہے(اورپاؤں تلے روندی جا رہی ہے!) اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتابِ زندہ موجود ہے(جس کے ذریعے توبامِ عروج پر پہنچ سکتی ہے!) 

جز بہ قرآں ضغیمی روباہی است
فقرِ قرآن اصلِ شاہنشاہی است
فقرِ قرآں اختلاطِ ذکروفکر
فکر راکامل نہ دیدم جُزبذکر 

قرآن کے بغیرشیربھی گیدڑبن جاتا ہے،اوراصل بادشاہی قرآن کے تعلیم کردہ فقرمیں ہے.جانتے ہو قرآن کا فقرکیا ہے؟ یہ ذکر اور فکردونوں کے جمع ہونےسے وجودمیں آتا ہےاورحقیقت یہی ہےکہ بغیرذکر کےفکرکامل نہیں ہو سکتا. 

گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن 

(اے مسلمان!) اگر تومسلمانوں والی زندگی گزارنا چاہتا ہےتو سن رکھ کہ یہ بغیر قرآن کے ممکن نہیں ہے!

فاش گویم آنچہ دردل مضمراست
ایں کتابےنیست چیزےدیگراست!
چوں بجاں دررفت جاں دیگرشود
جاں چودیگرشدجہاں دیگرشود
مثلِ حق پنہاں وہم پیداست ایں
زندہ وپایندہ وگویاست ایں 

(اس کتاب کے بارے میں)جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہےاسےاعلانیہ ہی کہہ گزروں!حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں کچھ اورہی شے ہے.(یہ کتاب حکیم)جب کسی کے باطن میں سرایت کرجاتی ہےتواس کےاندرایک انقلاب برپاہوجاتاہےاورجب کسی کےاندرکی دنیابدل جاتی ہےتواس کےلیےپوری دنیا ہی انقلاب کی زدمیں آجاتی ہے!یہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ(کاکلام ہے،لہذااسی)کےمانندپوشیدہ بھی ہےاورظاہربھی،اورجیتی جاگتی بولتی بھی ہےاورہمیشہ قائم رہنےوالی بھی! 
صد جہانِ تازہ درآیاتِ اوست
عصرہاپیچیدہ درآناتِ اوست
یک جہانش عصرِ حاضررابس است
گیراگردرسینہ دل معنی رس است
بندۂ مؤمن ز آیاتِ خداست
ہرجہاں اندربرِاوچوں قباست!
چوں کہن گرددجہانےدر برش
می دہد قرآں جہانےدیگرش

اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہاں آبادہیں اوراس کے ایک ایک لمحے میں بےشمارزمانےموجودہیں!عصرِ حاضرکوبھی بس ایک ایساہی جہانِ نودرکارہے(جوقرآن سے ماخوذاورمستنبط ہو!)اے مسلمان!اگرتیرے سینےمیں ایک ایسا دل ہےجومعانی کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کر سکتاہوتو(مجھ سے)یہ رازکی بات حاصل کر لے!بندۂ مؤمن آیاتِ خداوندی میں سے ہےاوراس عالَم کی حیثیت بس ایسی ہےجیسی اس کے لباس میں ایک قبا.جب اس کے لباس کی کوئی قبایعنی کوئی عالم پرانا ہوجاتاہےتوقرآن اسےایک جہانِ نوعطافرما دیتا ہے. بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
پیش نظر کتابچہ 

’’مسلمانوں پر قُرآن مجید کے حُقوق‘‘

اس کے حقیر اورناچیزمؤلف نے
نومبر۱۹۷۰ءمیںمدینہ منوّرہ میں

مولاناسیّد محمدیُوسف بنّوریؒ

کی خدمت میں اس استدعا کے ساتھ پیش کیا کہ وہ اسےایک نظر دیکھ لیں اور اگرکوئی غلطی محسوس ہوتواصلاح فرما دیں،اس لیےکہ مؤلف اسے بڑی تعداد میں شائع کرنا چاہتا ہے

الحمد للہ کہ حضرت مولاناؒ نے 
مسجدِ نبویؐ (علی صاحبہ الصلوٰۃوالسّلام)میں بحالتِ اعتکاف
اسےبالاستیعاب پڑھااورصرف ایک مقام پراصلاح تجویز فرمائی،
جو دوسرے ایڈیشن میں کر دی گئی!

اس طرح اب اس کتابچے کو بحمدِاللہ حضرت مولاناؒ کی کُلّی تصدیق وتصویب کی سعادت حاصل ہے!
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ 

زوالِ اُمت کا اصل سبب اور اس کا علاج 
مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں

’’اگر ایک شخص مسلمانوں کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کی علت ِحقیقی دریافت کرنا چاہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دے کہ صرف ایک ہی علت ِاصلی ایسی بیان کی جائے جو تمام علل و اسباب پر حاوی اور جامع ہو تو اس کو بتایا جا سکتا ہے کہ علماءِ حق و مرشدین ِصادقین کا فقدان اور علماءِ سوء و مفسدین دجالین کی کثرت … رَبَّنَا اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْـلَا… اور پھر اگر وہ پوچھے کہ ایک ہی جملہ میں اس کا علاج کیا ہے‘ تو اس کو امام مالکؒ کے الفاظ میں جواب ملنا چاہیے کہ ’’لَا یَصْلُحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ یعنی اُ مت ِمرحومہ کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی‘ تاوقتیکہ وہی طریق اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی ‘اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ قرآن حکیم کے اصلی و حقیقی معارف کی تبلیغ کرنے والے مرشدین ِصادقین پیدا کیے جائیں.‘‘ 
(ماخوذ از ’’البلاغ‘‘ جلد اوّل‘ شمارہ اوّل‘ مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۱۵ء) 

مسلمانوں کی زبوں حالی کا اصل سبب
اوراس کے تدارک کے لیےکرنے کا اصل کام 

شیخ الہندحضرت مولانامحمودحسن دیوبندیؒ (اسیر مالٹا)کےتاثرات

’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پرغورکیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اوردُنیوی ہر حیثیت سےکیوں تباہ ہورہے ہیں تواس کےدوسبب معلوم ہوئے.ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا،دوسرے آپس کے اختلافات اورخانہ جنگی.اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظا ً اور معنا ً عام کیا جائے،بچوں کے لیےلفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی میں قائم کئے جائیں ، بڑوں کو عوامی درس ِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایاجائےاور قرآنی تعلیمات پر عمل کےلیےآمادہ کیا جائے،اورمسلمانوں کےباہمی جنگ وجدال کوکسی قیمت پر برداشت نہ کیاجائے.‘‘

(ماخوذ ازوحدت ِاُمّت،تالیف مولانامفتی محمدشفیع صاحبؒ )