ہماری اس جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہمارے سامنے بھی نکل سکتا ہے کہ ہم دُنیوی اعتبار سے بھی کامیاب ہو جائیں‘ اور ان شاء اللہ ضرور ہوں گے. آج نہیں تو کل ہوں گے‘ ہم نہیں ہوں گے تو ہماری اگلی نسل ہو گی. اس لیے کہ اس کی خبر تو محمد رسول اللہﷺ نے دی ہے. اور اگر ہم کسی ایک ملک میں بھی اس نظام کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا ہو جائے گا. یہ اصل میں میرے فکر کی ایک اور dimension ہے. اس پر میری کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے موجود ہے.
اس وقت اُمت ِمسلمہ عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہے. اس کی ایک وجہ میں آپ کے سامنے پہلے بیان کر چکا ہوں کہ دین پر ہمارا عمل جزوی ہے‘ لہذا ہم خِزْیٌ فِی الْحَیٰـــوۃِ الــدُّنْیَا اور ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کی تصویر بنے ہوئے ہیں. اس کی عملی مثال کبھی یہودی تھے‘ آج ہم ہیں. دوسری بات یہ سمجھ لیجیے کہ جو امت حاملِ کتاب ہوتی ہے‘ شریعت الٰہی کی حامل ہوتی ہے اور اللہ کے رسول کی امت ہونے کی مدعی ہوتی ہے وہ زمین پر اللہ کی نمائندہ ہوتی ہے. اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی کرے تو وہ کافروں سے بڑھ کر مجرم ہے. اس وجہ سے آج ہم عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہیں اور عذاب الٰہی کی یہ گرفت ڈھیلی نہیں پڑے گی‘ ہلکی بھی نہیں ہو گی‘ سخت سے سخت تر ہوتی چلی جائے گی جب تک کہ کسی ایک قابل ذکر ملک میں اللہ کے نظام کو قائم کر کے پوری دنیا کے لیے فرض کفایہ ادا نہ ہو جائے کہ بھئی دیکھو‘ یہ ہے اسلام. آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھو‘ یہ ہے اسلام کا نظامِ حکومت‘ یہ ہے اسلام کا معاشی‘ عمرانی اور سوشل نظام. آؤ اور اس کی برکات کو دیکھو. افغانستان میں نظام اسلام کی تھوڑی سی برکات ہمارے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب دیکھ کر آئے ہیں. وہاں اگرچہ ابھی نظام کی بات نہیں ہے‘ لیکن شریعت کے احکام کچھ نافذ ہوئے ہیں‘ ان کی برکتیں وہ دیکھ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر دوسرے ملکوں میں بھی وہی نظام نافذ ہو جائے جو وہاں ہے تو پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی. (۱) یہ تاثر ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے‘ حالانکہ وہ آزاد خیال آدمی ہیں. میں نے ان کا یہ بیان پڑھا تو وقت لے کر ان کے پاس گیا اور انہیں مبارک باد پیش کی. نوٹ کیجیے کہ اگر ہم یہ کرتے ہیں تو پوری اُمت کی جانب سے فرض کفایہ ادا ہو جائے گا.
خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دورِ ثانی
اب ا س کے ضمن میں چند سال سے میرا ایک فکر سامنے آیا ہے جس سے کہ ہم نے خلافت کی تحریک کا آغاز کیا. اس کے نکات نوٹ کر لیجیے:
(۱) اس دنیا کے خاتمے سے قبل کُل روئے ارضی پر اللہ کا دین قائم ہو کر رہے گا. اس کے ضمن میں ہم نے بہت سی احادیث عام کی ہیں اور ان احادیث پر مشتمل کتابچے ہم نے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کیے ہیں.
(۲) اس بات کے اشارے ملتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نقطۂ آغاز ارضِ افغانستان اور پاکستان ہوں گے‘ اگرچہ حالات ان کے لیے بھی بہت سخت ہیں اور ہمارے لیے بھی بہت کڑے ہیں. لیکن ان دونوں ممالک کا معاملہ بڑا عجیب ہے. دستوری اعتبار سے پاکستان میں خلافت کے تمام تقاضے پورے کیے جا چکے ہیں‘ اگرچہ (۱) محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۰ء کا ہے جب افغانستان میں طالبان حکومت قائم تھی. دستور کے اندر چور دروازے موجود ہیں‘ اسی لیے میں اسے ’’منافقت کا پلندہ‘‘ کہتا ہوں. لیکن اگر یہ چور دروازے بند کر دیے جائیں تو ہمارا دستور کامل اسلامی دستور ہوجائے گا. اس میں اللہ کی حاکمیت پر مشتمل قراردادِ مقاصد موجود ہے‘ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پاس جو اختیار ہے وہ ہمارا ذاتی نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ہے اور یہ اختیار صرف حاکم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی معین کردہ حدود ہی میں استعمال ہو گا.
اس دستور کی دفعہ ۲۲۷ بھی موجود ہے :
.No legislation can be done here repugnant to the Quran and the Sunnah
لیکن چور دروازے بھی ہیں. فیڈرل شریعت کورٹ موجود ہے لیکن اس پر ایک ہتھکڑی اور ایک بیڑی اب تک پڑی ہوئی ہے. ایک بیڑی (معاشی معاملات سے متعلق) اتفاق سے دس سال قبل کھل گئی تھی. تب اس نے فیصلہ دیا تھا کہ بینک انٹرسٹ سود ہے‘ ربا ہے اور حرام ہے. ابھی تک تو ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکے اور عملی اعتبار سے بہت دور ہیں‘ لیکن دستوری اعتبار سے آج ہم نظامِ خلافت کے بہت قریب ہیں. آج کی دنیا کے اعتبار سے دستور کی بہت بڑی اہمیت ہے. سیاسی اور معاشی اعتبار سے نظری طور پر ہم نے بہت پیش رفت کر لی ہے لیکن حقیقتاً قوانین شریعت کا معاملہ بہت کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہے‘ جبکہ افغانستان میں تو دستور اور نظام کا ابھی تصور ہی نہیں ہے. تاہم انہوں نے شریعت اسلامی کے ایک خاص مکتب فکر یعنی فقہ حنفی کی تنفیذ کر دی ہے.
دونوں ملکوں کے حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب قدرت ہمیں قریب سے قریب تر ہونے پر مجبور کر رہی ہے. افغانستان میں روس کا اپنی فوجیں داخل کردینا‘ جواب میں وہاں سے شدیدردعمل کا اٹھنا‘ پھر ضیاء الحق کے دور میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ جانا اور پاکستان کے راستے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کرنا‘ یہ سب معاملات ایسے تھے کہ ان کے نتیجے میں ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایٹم بم بھی بنا لیا. پھر اس موقع نے ہمیں افغانستان کے قریب تر کر دیا. آپ تصور کیجیے کہ یہ وہ ملک تھا جس کا شہر کابل بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی میں پیرس کی مانند تھا. ظاہر شاہ جب پاکستان آئے تھے تو ان کی ملکہ سکرٹ میں ملبوس تھیں‘ نیم عریاں لباس میں تھیں اور اب وہاں برقع کے بغیر کوئی عورت نظر نہیں آتی. کیسی کیسی کرامات ظہور میں آ گئی ہیں. اب اگر وہاں پابندیاں لگتی ہیں تو پاکستان کڑے امتحان میں گرفتار ہو جائے گا. اب ہمارے لیے دو ہی راستے ہیں. یا تو اقوام متحدہ کے خلاف بغاوت کیجیے. اور اگر نہیں کرتے اور افغانستان کے معاملات میں اس کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرتے ہیں تو اس ملک کے اندر ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا. اگر کسی کے اندر ذرا سی بھی بصیرت ہے تو وہ ایسی حماقت نہیں کرے گا. لہذا امریکہ خود ہمیں ایک رسّی کے ساتھ باندھ رہا ہے کہ تم ایک ہی ہو‘ باہم جڑ جاؤ‘ ایک ہو جاؤ. (۱)
نظامِ خلافت کی علمبردار دوتنظیموں حزب التحریر اور المہاجرون نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے. شہر بھر میں بہت بڑے پیمانے پر ان کے بینرز لگے ہیں اور بڑے خوبصورت اور نفیس ہینڈ بل شائع ہو رہے ہیں. ان میں ای میل ایڈریس بھی دیے گئے ہیں. کم از کم ایک گروپ کا تو پورا پتہ بھی تحریر ہے. ایک صاحب نے جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں ‘مجھ سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے حکومت کی ایجنسیز نے یہ سلسلہ اٹھایا ہے. انہیں شاید معلوم نہیں ہو گا ‘ میں ان کا پس منظر جانتا ہوں. ان تنظیموں کا رشتہ الاخوان المسلمون سے قریباً وہی ہے جو تنظیم اسلامی کا رشتہ جماعت اسلامی سے ہے‘ بہت تھوڑا سا فرق ہے. میں جمعیت اور جماعت میں دس برس شامل رہا ہوں اور مولانا مودودیؒ سے بہت قریب رہا ہوں. علامہ تقی الدین نبہانی ؒ الاخوان کے اوّلین مرشد عام اور مؤسس یعنی حسن البناء شہیدؒ کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ لیکن غالباً الاخوان میں یہ شامل نہیں ہوئے تھے‘ تاہم فکر ایک ہی تھا. اس کے (۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۰ء کا ہے .افسوس کہ ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد حکومت پاکستان نے امریکہ کے آلۂ کار ہونے کا کردار ادا کیا اور طالبان حکومت افغانستان میں اسلامی معاشرے کے قیام کی جس جدوجہد میں مصروف تھی اسے یکسرسبوتا ژ کر دیا گیا. کے بعد انہوں نے اپنے طور پر ’’حزب التحریر‘‘ قائم کی. یہ اردن کے رہنے والے تھے. انہوں نے کافی کتابیں لکھی تھیں اور خاص طور پر اسلامی فقہ ان کا موضوع تھا. یعنی اب اگر اسلامی نظام قائم ہو گا تو اس میں فقہی اعتبار سے کیا کیا امور غور طلب ہیں‘ اس حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا ہے. چند سال پہلے حزب التحریر ہی سے ’’المہاجرون‘‘ کا ایک گروپ علیحدہ ہوا ہے. انگلینڈ میں حزب التحریر کے بہت بڑے لیڈر بِکری تھے‘ جنہوں نے علیحدہ ہو کر المہاجرون قائم کی ہے. ان کا بنیادی فکر ایک ہی ہے. یہ اصل میں انہی احیائی تحریکوں کا تسلسل ہے جو ایک وقت میں عالم اسلام میں شروع ہوئی تھیں. انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی‘ ہندوستان میں جماعت اسلامی‘ ایران میں فدائین‘ مصر میں الاخوان‘ لبنان میں عبادالرحمن اور ترکی میں سعید نورسی کی تحریک‘ یہ تمام تحریکیں ایک وقت میں شروع ہوئی تھیں.نعیم صدیقی مرحوم نے ان تحریکوں کے بارے میں بڑا پیارا شعر کہا تھا ؎
ہے ایک ہی جذبہ کہیں واضح کہیں مبہم
ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدّھم!
ان تحریکوں میں ایک ہی نغمہ یعنی ایک ہی فکر اور ایک ہی سوچ کارفرما ہے. ان تحریکوں پر چونکہ ستر برس گزر گئے ہیں لہذا ان پر بڑھاپا بھی طاری ہو گیا ہے. اب تک کسی کو خاص کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی. ان میں سے کچھ گروپ علیحدہ ہوئے ہیں. جیسے مَیں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہواتو میں نے ایک علیحدہ جماعت تنظیم اسلامی بنائی‘ لیکن میرا فکر تو وہی ہے‘ میں نے اس فکرسے کبھی اعلانِ براء ت نہیں کیا. اسی طرح یہ تحریک حزب التحریر ہے. یہ لوگ خلافت کے عنوان سے کام کر رہے ہیں. ان کے اکثر لوگ امریکہ یا انگلینڈ میں ہیں‘ عالم اسلام میں ان پر ہر جگہ پابندی عائد ہے‘ سوائے پاکستان کے کہ یہاں کچھ آزادیاں حاصل ہیں (۱) . مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ لندن میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے کارکن جمع ہوئے اور وہاں اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ پوری دنیا میں اسلام کے صحیح اور مکمل نظام کا اگر کوئی امکان کسی ملک میں ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان میں ہے. اس کے ضمن میں یہ ایک مزید گواہی ہے کہ حزب التحریر اور المہاجرون نے یہ سمجھا ہے کہ کام کرنے کا موقع اگر کہیں ہے تو یہاں ہے‘ کیونکہ یہاں پر بہرحال حقوق ہیں. آپ بات کر سکتے ہیں‘ تقریریں کر سکتے ہیں‘ آپ جماعت بنا سکتے ہیں‘ جب تک امن و امان کا مسئلہ نہ کھڑا کیا جائے اورکوئی توڑ پھوڑ نہ کی جائے اس وقت تک آپ کو آزادی ٔ اظہارِ خیال کے اختیارات حاصل ہیں. اس وجہ سے یہ تحریکیں یہاں آئی ہیں. اللہ کرے ان کے ذریعے سے بھی مزید کچھ لوگوں کے اندر آگاہی (awareness) پیدا ہو جائے. بہرحال یہ بھی درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ؎
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!
اصل بات ہمت‘ ارادے اور عزم کی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے استقامت طلب کرنی چاہیے.
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
(۱) اب پاکستان میں یہ صورت حال برقرار نہیں اور یہاں بھی حزب التحریر پر پابندی عائد کی جا چکی ہے.