انفرادی نجات اور اجتماعی فلاح کے لیے قرآن کا لائحہ عمل

خطبہ ٔ مسنونہ کے بعد تلاوتِ آیات : 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ:۲۱)
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۙ﴿۲﴾اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح:۱-۳)
یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (الاعراف:۵۹۶۵۷۳۸۵)
فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ (الشعراء:۱۰۸۱۲۶۱۴۴۱۵۰۱۶۳)
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت:۵۶)
وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ (البینۃ:۵)

اس تحریر کے ذریعے راقم کے دینی فکر کو ایک جامع اور مانع شکل میں پیش کرنا مقصود ہے. جہاں تک میرے دینی فکر کے اجزاء کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور میں انہیں اپنی تقاریر‘ گفتگوؤں ‘ دروسِ قرآن‘ خطباتِ جمعہ اور خطباتِ عید میں بارہا بیان کر چکا ہوں. دوسرے لفظوں میں یہ علیحدہ علیحدہ تو نہ صرف معلوم ہیں بلکہ معروف بھی ہیں اور بتکرارو اعادہ سامنے بھی آتے رہتے ہیں‘لیکن یہاں انہیں میں جامع اور مانع صورت میں بیان کرنا چاہتا ہوں.

جامع اور مانع‘ علم منطق کی دو اصطلاحات ہیں. کسی شے کی تعریف ’’جامع‘‘ اس اعتبار سے کہلائے گی کہ اس شے کی حقیقت کا کوئی جزو اس تعریف سے باہر نہ رہے‘ یعنی وہ اس کے تمام پہلوؤں کو جمع کر لے کہ وہ جامع ہو جائے ‘جبکہ ’’مانع‘‘ اس طرح سے ہوکہ اس کے خلاف کوئی شے اس میں داخل نہ ہونے پائے. اس طرح جامع اور مانع تعریف وہ کہلاتی ہے کہ جو کسی شے کو یوں معین کر دے کہ ایک طرف تو اس کے تمام اجزاء اس میں شامل ہوں اور دوسری طرف اس کے منافی کوئی شے اس میں شامل نہ ہو سکے. اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اپنی دینی سوچ اور فکر کا ایک جامع اور مانع خلاصہ آپ کے سامنے لا سکوں!

قرآن حکیم کی اصل دعوت : ’’عبادتِ رب‘‘

میرے نزدیک قرآن کی دعوت کا اوّلین اور جامع ترین عنوان ’’عبادتِ رب‘‘ ہے.باقی کی تمام چیزیں اسی کی شرح میں‘ اسی کے ذیل میں اور اسی کے مراحل کے طور پر آتی ہیں. یہ لفظ قرآن مجید میں کافی تکرار کے ساتھ آیا ہے.

قرآن مجید کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے ہوتا ہے. یہ گویا کہ پورے قرآن کے لیے ایک تمہید کی مانند ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دعا کی تلقین فرمائی ہے. اس میں سات آیات ہیں جن کو 
’’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ‘‘ کہا گیا ہے. اس کی مرکزی آیت اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ضمن میں اسی سے استعانت طلب کی گئی ہے. ابتدائی آیات میں یہ اقرار کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری تعریفوں کا سزاوار ہے‘ وہی تمام جہانوں کا پالن ہار اور پروردگار ہے‘ وہی رحمن اور رحیم ہے‘ جزا و سزا کے دن کا مختار مطلق ہے‘ اب اسی سے التجا کی جا رہی ہے کہ عبادت کے تقاضے پورے کرنے میں ہماری مدد فرما. سورۃ الفاتحہ کو نہ صرف قرآن مجید کا دیباچہ اور خلاصہ کہا جاتا ہے بلکہ اسے اُمّ القرآن‘ اساس القرآن‘ الکافیہ اور الشافیہ جیسے القابات بھی دیے گئے ہیں.ا سی سورۃ الفاتحہ کا مرکزی تصور یہ آیت اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ہے.

سورۃ الفاتحہ میں کی گئی دعا 
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ کا جواب اس سورۃ کے بعد دیا گیا ہے. اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کے پہلے دو رکوعوں میں تین قسم کے اشخاص کی نشاندہی کر دی گئی ہے : ۱) وہ گروہ جس نے قرآن مجید کی ہدایت سے بھرپور استفادہ کیا ہے. اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾ ’’یہی لوگ اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں‘‘.

۲) وہ افراد جنہوں نے اپنے دل اور ذہن کے دروازے ہدایت قرآنی سے بند کر کے ان پر تالے لگا دیے 
اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا اور وہ اپنے تعصب‘ ہٹ دھرمی‘ تکبر اور حسد کی وجہ سے اللہ کی ہدایت سے محروم ہو گئے. ان کے بارے میں فرمایاگیا: خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫(آیت۷’’اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیاہے‘‘.

۳) تیسرا طبقہ وہ ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا : 
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾ ’’انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے تو ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخر پر‘ لیکن وہ حقیقتاً مومن نہیں ہیں‘‘.

یہاں سب سے زیادہ بحث تیسرے طبقے سے متعلق ہوئی ہے. دو طبقوں کا ذکر تو پہلے رکوع میں کردیا گیا ہے جبکہ تیسرے طبقے کے لیے دوسرا رکوع پورے کا پورا مختص کیا گیا ہے.اس طبقے کا بہ تمام و کمال اطلاق یا تو منافقین پر تھا یا پھر اُس دور کے یہودی علماء پر‘ لیکن اس سے کم تر درجے میں وہ لوگ بھی اس زمرے میں آتے ہیں جو ضعفِ ایمان میں مبتلا ہیں. ان کے بارے میں سورۃ التوبۃ میں فرمایا گیا : 
خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ (آیت ۱۰۲یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے اندر نیکیاں اور بدیاں جمع کر لیتے ہیں. یہ اصل میں اس بیماری کے مختلف shades ہیں. منافقین میں یہ بیماری درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ (البقرۃ:۱۰.بدقسمتی سے ہماری ایک عظیم اکثریت کسی نہ کسی طرح اس مرض میں مبتلا ہے‘ لہذا اس کا شمار اسی زمرے میں ہوتا ہے. اس کے بعد سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱ سے قرآن مجید کی دعوت کا آغاز ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ 
’’اے بنی آدم! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلوں کو بھی (پیدا کیا) تاکہ تم بچ سکو.‘‘

چونکہ ’’عبادت ‘‘ کے لیے اردو میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں ہے جو مکمل طور پر اس کی ترجمانی کا حق ادا کر سکے‘ اس لیے فی الحال اسے اسی طرح رکھتے ہوئے آیت کے بقیہ حصے پر غور کیجیے.

’’ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘ خاص طور پر اس لیے کہا گیا کہ رسولوں کی دعوت کے جواب میں اُن سے اُن کی قوموں نے اکثر و بیشتر جو بات کہی وہ یہی ہوتی تھی کہ ہم نے تو اپنے آباء و اجداد کو یہی کرتے ہوئے پایا تھا جو ہم کر رہے ہیں. گویا ان کی طرف سے دلیل یہ تھی کہ ہم اپنے آباء و اجداد کی رسومات کو کیسے چھوڑ دیں؟ یہاں اس بات کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے‘ جیسے تم سے غلطی ہو سکتی ہے ویسے ان سے بھی ہو سکتی ہے‘ لہذا تمہیں ان کی پیروی نہیں کرنی‘ بلکہ پیروی تو اس کی کرنی ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر ہو اور تمہیں بھی سیدھا راستہ دکھائے‘ یا جو حق تم پر منکشف ہوجائے اس کی پیروی کی جائے.

’’لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کا ترجمہ عام طو رپر کر دیا جاتا ہے: ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘. یہ صحیح نہیں ہے . دراصل ’’وَقٰی‘ یَـقِیْ‘‘ کے عربی زبان میں معانی ہیں کسی کو بچانا. اس کو یاد رکھنے کے لیے آسان ترین حوالہ ’’وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ ہے ‘یعنی ’’اے اللہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیو!‘‘. ’’وَقٰی ‘ یَقِی‘‘ کامعنی بچانا اور ’’اِتَّقٰی‘ یَتَّقِیْ‘‘ کا معنی بچنا ہے. اسی طرح ’’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے معانی ہوں گے ’’تاکہ تم بچ سکو‘‘. کس چیز سے بچ سکو؟ اس دنیا کی زندگی میں افراط و تفریط کے دھکوں سے بچ جاؤ گے اور صراطِ مستقیم تمہیں میسر آ جائے گی اور آخرت میں اللہ کے غضب اور اس کی سزا سے بچ جاؤ گے اور اس کی رحمت و مغفرت کے امیدوار بن سکوگے. قرآن کی دعوت کا نکتہ ٔ اوّلین یہ ہے.

’’عبادتِ رب‘‘ کے ضمن میں دوسرے حوالے کے لیے سورۂ نوح کی ابتدائی تین آیات نہایت اہم ہیں ‘کیونکہ رسولوں کی تاریخ حضرت نوح  سے شروع ہوتی ہے. ان سے پہلے آنے والے تمام پیغمبر نبی تھے‘ رسول نہیں تھے. پہلے رسول حضرت نوح  تھے اور آخری رسول حضرت محمد  ہیں. آخری رسول کی دعوت یہ ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ:۲۱)
جبکہ پہلے رسول کی دعوت سورۂ نوح کی ابتدائی تین آیات میں بیان ہوئی:

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ۙ﴿۲﴾اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح:۱-۳)
’’یقینا ہم نے نوح ()کو بھیجا تھا اس کی قوم کی جانب (اس ہدایت کے ساتھ) کہ خبردار کر دو اپنی قوم کو اس سے پہلے کہ اُن پر دردناک عذاب ٹوٹ پڑے. اس نے کہا : اے میری قوم! میں یقینا تمہارے لیے ایک واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں. (تم کو آ گاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘

چنانچہ یہی ’’عبادتِ رب‘‘ پہلے رسول کی دعوت تھی اور یہی آخری رسول کی دعوت ہے. فرق صرف یہ ہے کہ نبی آخر الزمان  سے پہلے کے تمام رسولوں کی دعوت صرف اپنی قوم کی طرف تھی جبکہ آپؐ کی دعوت پوری نوعِ انسانی کی طرف ہے.لہذا پہلے رسولوں کی دعوت کے ضمن میں الفاظ آتے ہیں : 
اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ اور وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا اور وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صَالِحًا لیکن محمد رسول اللہ کی بعثت چونکہ پوری نوعِ انسانی کے لیے ہوئی ہے لہذا یہاں لفظ ’’یٰقَوْمِ‘‘ نہیں آیا بلکہ ’’یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ‘‘ آیا ہے: یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱

مکی سورتوں میں سورۃ الاعراف اور سورۃ الشعراء اس اعتبار سے بہت نمایاں ہیں کہ سورۃ الاعراف حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی سورۃ ہے جس کے ۲۴ رکوع ہیں جبکہ سورۃ الشعراء تعدادِ آیات کے اعتبار سے سب سے بڑی سورۃ ہے جس کی ۲۲۷ آیات ہیں . ان دونوں سورتوں میں ایک ایک رسول کا تذکرہ ایک ایک رکوع پر محیط ہے. حضرات نوح‘ ہود‘ صالح اور شعیب علیہم السلام کے لیے ایک ایک رکوع ہے. سورۃ الاعراف میں چار مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں : یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ چنانچہ نوح علیہ السلام کی دعوت بھی یہی تھی اور ہود‘صالح اور شعیب علیہم السلام کی دعوت بھی یہی تھی. سورۃ الشعراء میں پانچ مرتبہ یہ الفاظ آئے ہیں: فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ﴿۱۰۸﴾ۚ ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو‘‘.

اس سے آگے چل کر تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ازروئے قرآن انسانوں اور جنوں کی تخلیق کی غایت یہی ’’عبادت‘‘ تھی . یہاں دو الفاظ کو علیحدہ علیحدہ سمجھنا نہایت ضروری ہے.ایک ہے غایت تخلیق اور ایک ہے علت تخلیق‘ اور ان دونوں میں فرق ہے. علت تخلیق یہ کہ اللہ نے کیوں پیدا کیا؟ کس وجہ سے پیدا کیا؟ کس لیے پیدا کیا؟ یہ بہت بڑا فلسفیانہ سوال ہو جائے گا اور قرآن مجید فلسفیانہ سوالات سے کھل کر بحث نہیں کرتا. البتہ کس مقصد کے لیے پیدا کیا! یہ غایت ِتخلیق ہے. انسانوں اور جنوں کی غایت تخلیق سورۃ الذاریات میں بایں الفاظ بیان ہوئی ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ 
’’میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ میری عبادت کریں.‘‘

اس ضمن میں آخری حوالہ سورۃ البینہ کی پانچویں آیت ہے:

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ 
’’اور انہیں نہیں حکم دیا گیا تھا مگر اس کا کہ عبادت کریں صرف اللہ کی‘ اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکو ٰۃ ‘اور یہ ہے ہمیشہ کا قائم و دائم دین.‘‘

یہ گویا دین کا خلاصہ ہے. یہی ’’دین قیم‘‘ ہے جو آغاز سے اختتام تک ایک ہی رہے گا. یہ دین حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ایں دم تک بلکہ تاقیامِ قیامت ایک ہی ہے. جیسا کہ سورۃ الشوریٰ میں فرمایا:

شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَـیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی... (آیت ۱۳)
’’اللہ نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح ؑ کو دیا تھا‘ اور جسے (اے محمدؐ ) اب آپ کی طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے‘ اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ کو دے چکے ہیں…‘‘

چنانچہ دین تو سب کا ایک ہی ہے. قرآن مجید کے یہ حوالے اس لیے دیے گئے ہیں تاکہ یہ نکتہ واضح ہو جائے کہ ایک اصطلاح جو قرآن مجید کی دعوت کے اعتبار سے اوّلین اہمیت کی حامل بھی ہے اور جامع ترین عنوان کی حیثیت بھی رکھتی ہے وہ ہے ’’عبادتِ رب‘‘یا ’’اللہ کی عبادت‘‘.

’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ میں فرق

اصل میں ہمارے ہاں تصورات کے اندر جو خرابی اور کجی پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ہم نے ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کو گڈمڈ کر دیا ہے. نماز‘ روزہ‘ زکو ٰۃ اور حج عبادات ہیں لیکن عبادت فی الاصل کوئی اور شے ہے‘ جبکہ ہمارا تصورِ عبادت صرف انہی چند مراسم عبودیت تک محدودہو کر رہ گیا ہے . یہ ہمارے دینی فکر کی سب سے بڑی اور سب سے بنیادی کجی ہے ؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج!

یعنی اگر کسی عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہے تو ساری عمارت چاہے آسمان تک بلند ہو‘ جو بھی تعمیر ہو گی وہ ٹیڑھی ہی ہو گی. 

عبادت کا لفظ ’’عبد‘‘ سے بنا ہے . عبد کے معنی غلام کے ہیں اور غلام بھی پرانے 
زمانے کا تصور کیجیے‘ آج کا نہیں‘جب کہ ایک غلام ایک فرد کا مملوک ہوتا تھا‘ اس کی ملکیت ہوتا تھا. آقا اور غلام کی جو نسبت تھی وہ آج نہ ہمارے سامنے موجود ہے اور نہ ہی ہمارے تجربے میں ہے. ہمارے ہاں یہ تو ضرور ہے کہ فلاں قوم حاکم ہے‘ فلاں غلام ہے‘ لیکن اس صورت میں آقا اور غلام کا انفرادی رشتہ نہیں ہوتا. ہاں‘ بحیثیت مجموعی ایک قوم غلام ہو گئی ہے‘ لیکن انفرادی اعتبار سے جو آقا اور غلام میں رشتہ تھا وہ تو موجود نہیں ہوتا. لہذا اس تصور کو سمجھ لیجیے کہ ’’عبد‘‘ ہوتا کیا تھا؟ یعنی غلام کسے کہتے تھے؟

اوّلاً آقا اپنے غلام کا مالک ہوتا تھا. آقا نے اسے اگر رات کو سونے کے لیے کوئی کوٹھڑی دے رکھی ہے یا کوئی چارپائی دے دی ہے تو وہ ان اشیاء کا مالک نہیں ہو جاتا تھا. وہ تو خود مملوک ہے‘ لہذا اس کی ہر شے اس کے مالک کی ہے. جیسے کہ ایک بزرگ صحابی نے حضور سے اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ یہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا حالانکہ یہ اچھا بھلا صاحب ِ حیثیت ہے. حضور نے اس نوجوان صحابی کو گریبان سے پکڑا اور اس کا گریبان اس کے والد کے ہاتھ میں دے کر فرمایا : 
اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ ’’تو خود اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے‘‘. یہ انداز بتمام و کمال ایک غلام کا ہوتا تھا جو اپنے آقا کی ملکیت ہوتا تھا. چنانچہ غلام کا کام تھا کہ آقا جو حکم بھی دے اس پر سرتسلیم خم کرنا ہے‘ چاہے اس میں جان ہی چلی جائے.

دوسرے یہ کہ آج کل ہمارا آجر و مستأجر کے باہمی تعلق 
(Employer- employee relationship) کا تصور بالکل مختلف ہے. اگر آپ نے کسی کو اپنے ہاں خانساماں کی حیثیت سے ملازم رکھا ہے اور آپ اسے کہیں کہ جاؤ میرا غسل خانہ صاف کر آؤ تو وہ صاف جواب دے سکتا ہے کہ جناب یہ میرا کام نہیں‘ آپ نے جس کام کے لیے مجھے رکھا ہے وہ کام لیجیے. لیکن غلام کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ کسی وجہ سے انکارکرے.

پھر ہمارے ہاں ملازمت کے قواعد و ضوابط میں وقت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے. آپ گورنمنٹ کے ملازم ہیں تو جو بھی آٹھ گھنٹے دفتر کا وقت ہے اس میں آپ کام کیجیے‘ اس کے بعد آپ فارغ ہیں. آپ کاآفیسر اور باس اس وقت تک آپ کا حاکم ہے جب 
تک دفتر میں ہے. دفتر سے باہر آنے کے بعد اب وہ بھی عام شہری ہے اور آپ بھی عام شہری ہیں. اس کا بھی الیکشن میں آپ کی طرح ایک ہی ووٹ ہو گا. آپ کا باس اگر آپ سے دفتری اوقات کے بعد بھی کام لینا چاہے تو آپ اسے انکار بھی کر سکتے ہیں کہ میرا وقت ختم ہو گیا ہے‘ میں مزید کام کرنے کوتیار نہیں. لیکن غلام کا یہ کام نہیں‘ وہ تو ہمہ وقت‘ ہمہ تن خادم ہے. اسے جو حکم ملے اس پر اسے عمل کرنا ہے. 

عبدیت (غلامی) کے اس تصور کو ذہن میں رکھئے‘ لفظ عبادت اس سے بنا ہے. یعنی ’’عبادت‘‘ کے قریب ترین کوئی لفظ اگر آئے گا تو وہ غلامی کا لفظ آئے گا. تاہم یہ لفظ بھی قریب ترین ہے‘ عبادت کی پوری حقیقت اس میں بھی ادا نہیں ہو رہی. اس کی وضاحت بعد میں ہو جائے گی. چنانچہ قرآنی آیات میں جہاں بھی عبادت کا لفظ آیا ہے وہاں ان کے ترجمے میں غلامی کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے : 
اعْبُدُوا اللّٰہَ ’’اللہ کی غلامی اختیار کرو‘‘. تب ہی کسی حد تک اس کا مفہوم ادا ہو گا‘ ورنہ عبادت کا ترجمہ جب ہم عبادت ہی رکھ لیتے ہیں تو ذہن میں وہی نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکو ٰۃ ہی آئے گا. ’’عبادت‘‘ اور’’عبادات‘‘ کا فرق سورۃ البینہ کی اس آیت سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے:

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾ 
اس کے درمیان میں یہ جو حرف ’’و‘‘ ہے یہ حرفِ عطف کہلاتا ہے اور عربی نحو کی رو سے عطف دو مختلف اور مغا ئر چیزوں کو جوڑتا ہے‘ جیسے ’’میں اور وہ‘‘. ظاہر بات ہے ’’میں‘‘ اور ہوں ’’وہ‘‘ اور ہے. معطوف علیہ اور معطوف کے مابین مغائرت لازم ہے ‘لہذا معلوم ہوا کہ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ اور شے ہے اور وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ اور شے ہے.

اب یہ سمجھ لیجیے کہ ’’عبادت‘‘ اور ’’عبادات‘‘ کے مابین کیا رشتہ اور ربط و تعلق ہے. درحقیقت اس عظیم فریضہ ’’عبادت‘‘ کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ عبادات تسہیل اور آسانی کے لیے تجویز کی ہیں کہ ان کے ذریعے اس کی یاد دہانی ہوتی رہے. مبادا تم بھول 
جاؤ ‘ لہذا دن میں پانچ مرتبہ یاد کر لیا کرو : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘.حفیظ جالندھری کا بڑا پیارا شعر ہے ؎

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں ‘ لوح ِ جبیں تازہ کریں!

نماز اس عہد کو تازہ کرنے کا نام ہے. ازروئے الفاظ قرآنی: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ’’نماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘. روزہ اس لیے دیا گیا تاکہ آپ اپنے حیوانی تقاضوں پر کچھ کنٹرول حاصل کریں اور یہ حیوانی تقاضے آپ سے اللہ کی شریعت کے خلاف کوئی کام نہ کروا لیں. زکوٰۃ اس لیے دے دی گئی کہ قلب کے اوپر مال کی محبت کا تسلط نہ ہو جائے. حج میں ان ساری برکات کو جمع کر دیا گیا. تو یہ ’’تسہیل العبادۃ‘‘ ہے‘ جیسے آپ نے بچپن میں ایک قاعدہ ’’تسہیل الاملا‘‘ لکھا ہو گا. اس قاعدے میں حروفِ تہجی نقطوں (dots) کی صورت میں لکھتے ہوتے تھے‘ ان نقطوں پر قلم پھیرنے سے طالب علم کو لکھنا آ جاتا تھا. یہ تسہیل الاملا تھی. اسی طرح سے تسہیل العبادۃ ہے کہ ان عبادات کے ذریعے فریضہ عبادت کو آسان کر دینا جو کہ بہت مشکل اور بہت کٹھن ہے‘ اس کے تقاضے بڑے گھمبیر ہیں. ان کی آسانی کے لیے فرمایا تم نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ روزہ رکھا کرو‘حج کیا کرو‘ اس سے تمہارے اندر عبادت کے لیے کچھ قوت‘ ہمت‘ طاقت اور استقامت پیدا ہو گی.

’’عبادت‘‘ کا اصل مفہوم

’’عبادت‘‘ اصل میں کیا ہے؟ عبادت کی حقیقی تعریف میں دو لفظ خاص طور پر جمع ہوں گے : اطاعت +محبت. اس کے لیے بہترین اصطلاحات فارسی کی ہیں‘ یعنی بندگی+پرستش. پرستش انتہائی محبت کرنے کو کہتے ہیں. کہا جاتا ہے وطن کا پرستار‘ یعنی وطن سے انتہائی محبت رکھنے والا ‘ وطن کی آن پر اپنی جان پیش کر دینے والا. غلامی کے لیے فارسی لفظ بندگی ہے. اس کی شیخ سعدی رحمہ اللہ نے بہترین تعبیر اس شعر میں کی ہے جو کبھی اکثر و بیشتر مساجد میں لکھا جاتا تھا ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی!
ایک ہے بندگی‘ اطاعت‘ غلامی. لیکن ’’عبادت‘محض غلامی نہیں.

یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ محض لفظ اطاعت پر بھی قرآن مجید میں عبادت کا اطلاق ہوا ہے. اس کی بڑی پیاری مثالیں ہیں. جب حضرات موسیٰ و ہارون ( علیہما السلام) پہلی مرتبہ فرعون کے دربار میں پیش ہوئے تو فرعون نے پُرجلال انداز میں کہا کہ ان کی یہ جرأت! ہماری محکوم قوم بنی اسرائیل کے دو افراد اس طرح کھڑے ہو کر ہمارے سامنے مطالبہ کر رہے ہیں 
وَقَوْمَھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ ’’جبکہ ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام ہے‘‘. اب یہاں بنی اسرائیل کے لیے لفظ ’’عَابِدُوْنَ‘‘ آیا ہے تو ظاہر بات ہے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کی عبادت نہیں کرتے تھے. غلامی تو تھی‘ یہ قوم ان کی محکوم تو تھی‘ ان پر اطاعت لازم تھی‘ لیکن (معاذ اللہ) عبادت نہیں. وہ موحد قوم تھی‘ حضرت ابراہیم کی نسل سے تھی‘ حضرت اسحق اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی نسل سے تھی. گویا یہاں اطاعت کے لیے عبادت کا لفظ آیا ہے. اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تو فرعون کا قول ہے‘ یہ دلیل نہیں بن سکتا. لیکن یاد رہے کہ فرعون کے دربار میں حضرت موسٰی نے بھی یہی لفظ استعمال کیا. جب فرعون نے کہا : اَلَمۡ نُرَبِّکَ فِیۡنَا وَلِیۡدًا وَّ لَبِثۡتَ فِیۡنَا مِنۡ عُمُرِکَ سِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾ (الشعراء:۱۸یعنی اے موسیٰ ! تم وہی نہیں ہو جو ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور ہمارے محل میں تمہاری پرورش ہوئی؟ ہم نے تمہیں پالا جب کہ تم چھوٹے سے تھے اور دریا میں بہتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے تھے. اس کے جواب میں حضرت موسیٰ  کا جو قول تھا اسے قرآن نقل کر رہا ہے : وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۲۲﴾ یہ جو تم مجھ پر اتنا بڑا احسان جتا رہے ہو اس کی حقیقت یہی ہے ناکہ تم لوگوں نے ایک فرد کو پال لیا ہے جبکہ میری پوری قوم کو غلام بنا کے رکھا ہوا تھا.

متذکرہ بالا آیات میں غلامی اور اطاعت پر بھی محض لفظ عبادت کا اطلاق قرآن مجید میں ہوا ہے‘ لیکن اللہ کی جو عبادت مطلوب ہے وہ محض غلامی اور اطاعت نہیں‘ بلکہ اللہ کی وہ بندگی‘ اطاعت اور غلامی ہے جو کہ اس کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر کی 
جائے. جبری غلامی‘ جبری محکومی اور جبری اطاعت اس طرح کی عبادت قرار نہیں پائے گی جیسی عبادت اللہ کو ہم سے مطلوب ہے‘ جس کا تقاضا کیا جا رہا ہے. چنانچہ امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم (رحمۃ اللہ علیہما) جو ان کے اہم ترین شاگردوں میں سے ہیں‘ فلسفی ذہن اور صوفیانہ مزاج رکھنے والے ہیں‘ ان دونوں نے واقعتا ’’عبادت‘‘ کی بہترین تعبیر ان الفاظ میں کی ہے : ’’اَلْعِبــــادۃُ تجـمـع اثنین: غایۃ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع‘‘ یعنی ’’عبادت دو چیزوں کو جمع کرنے سے وجود میں آتی ہے : اللہ کی حد درجے محبت اور حد درجے اللہ کے سامنے بچھ جانا‘‘ اللہ کے سامنے ذلت‘ فروتنی اور تواضع اختیار کر لینا. یہ دو چیزیں جمع ہوں گی تو عبادت ہو گی.

اس کے لیے ایک مثال نوٹ کر لیجیے کہ انسانی وجود روح اور جسد کا مرکب ہے. انسان کا ایک جسد ہے جس کا دو اڑھائی من وزن ہے اور یہی ہے جو سب کو نظر آتا ہے. لیکن اس کی اصل حقیقت وہ ہے جسے جان یا روح کہتے ہیں اور جس کا کوئی وزن ہی نہیں. اگر اس جسم سے روح نکل جائے تب بھی اس کا وزن وہی رہے گا ‘ لیکن اس کے بعد بہترین کام یہ ہو گا کہ جلد از جلد اس کو قبر میں اتار دیا جائے‘ ورنہ یہ جسد خاکی متعفن ہوجائے گا‘ بدبو آئے گی‘ آپ اس کے قریب بیٹھ نہیں سکیں گے. جسد اور جان یا روح میں جو رشتہ ہے وہی رشتہ اطاعت اور محبت میں ہے . جسد جو کہ نظر آتا ہے‘ واضح ہے‘ وہ ہے اطاعت‘ لیکن اس کی اصل روح جو اسے ’’عبادت‘‘ بناتی ہے وہ ہے اللہ کی انتہائی محبت. یہ دو چیزیں جب جمع ہوتی ہیں تو پھر عبادتِ رب کا تقاضا پورا ہوتا ہے.

چونکہ میں اپنے دینی فکر کا نچوڑ اور خلاصہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تو ایک نکتہ اور نوٹ کرتے جایئے. اطاعت اور محبت میں اللہ اور رسول ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں. قرآن حکیم میں متعدد بار فرمایا گیا: 
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ بلکہ اللہ کی اطاعت ہے ہی رسول کی اطاعت کے ذریعے. جیسا کہ ارشاد ہوا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘ اور سورۃ النساء ہی میں فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ (آیت ۶۴)
’’ہم نے جو رسو ل بھی بھیجا ‘اسی لیے (بھیجا ہے) کہ اذنِ باری تعالیٰ کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے.‘‘

سورۃ الشعراء میں رسولوں کا اپنی قوموں سے یہ مطالبہ بار بار نقل ہوا ہے: 

فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ 
(آیات ۱۰۸۱۲۶۱۴۴۱۵۰۱۶۳)
’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘
حضرت نوح ّنے بھی اپنی قوم سے یہی کہا:
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ

’’(میں تمہیں آ گاہ کرتا ہوں) کہ اللہ کی عبادت (اس کی بندگی اور پرستش) کرواور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘
جیسے اطاعت میں اللہ اور اس کا رسول دونوں جمع ہیں‘ اسی طرح محبت میں بھی اللہ اور اس کا رسول دونوں جمع ہیں. سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴ ملاحظہ کیجیے:
قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴
’’(اے نبیؐ ! ان سے) کہہ دیجئے: (دیکھو لوگو!) اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر) اور تمہارےعزیز و اقارب‘ اور یہ مال جو تم نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں اور تمہارے کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تمہیں اندیشہ ہوتا ہے (کہ کساد بازاری نہ ہو جائے) اور یہ گھر اور کوٹھیاں جو تمہیں بڑی محبوب ہیں اگر (یہ آٹھ چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے محبوب تر ہیں تو انتظار کرو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ (تمہارے سامنے) لے آئے‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.‘‘

البتہ اللہ کی محبت اوراللہ کی اطاعت مل کر ’’عبادت‘‘ بنتی ہے‘ مگر رسول کی محبت اور اطاعت مل کر عبادت نہیں بنتی (معاذ اللہ). اس کا نام اتباع ہے. فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ… (آل عمران:۳۱)
’’(اے نبیؐ )ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا…‘‘

جزوی اطاعت کی حقیقت

اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ اطاعت جو جسد ہے‘ جو عبادت کا اصل ظاہر ہونے والا جزو ہے‘ اس کے بارے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اطاعت نام ہے صرف کلی اطاعت کا‘ نہ کہ جزوی اطاعت کا. جزوی اطاعت اللہ کو قبول نہیں‘ وہ اسے منہ پر دے مارتا ہے . اللہ غنی ہے ‘ محتاج نہیں. فقیر تو کہتا ہے روپیہ ڈال دو تب بھی ٹھیک ہے‘ چار آنے ڈال دو تب بھی ٹھیک ہے‘ لیکن غنی کا معاملہ یہ نہیں ہوتا. اللہ تو الغنی اور الحمید ہے. اس کی طرف سے تو بات سیدھی سیدھی سی ہے کہ دین پر چلنا ہے تو پورے دین پر چلو‘ ورنہ دفع ہو جاؤ‘ ہمیں تمہاری جزوی اطاعت کی کوئی ضرورت نہیں. اس کو مثبت طور پر بھی کہا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ:۲۰۸)
’’اے اہل ایمان! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ!‘‘

یہاں ۳۳ فیصد نمبروں سے پاس شمار نہیں ہو گے. اپنی مکمل شخصیت اور مکمل نظام زندگی کے ساتھ اجتماعی اور انفرادی طور پر اللہ کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ.اور یہ چیز منفی انداز میں بھی قرآن میں آتی ہے اور اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ بہت اہم ہے. اس مقام پر جو تذکرہ ہو رہا ہے وہ اگرچہ بنی اسرائیل کا ہے‘ لیکن یہ جان لیجیے کہ مختلف اقوام اور افراد کے معاملے میں اللہ کا قانون تبدیل نہیں ہوا کرتا. اللہ کا قانون اٹل ہے. ازروئے الفاظ قرآنی:

فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ﴿۴۳﴾ (فاطر:۴۳)
’’پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے‘ اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقررہ راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے.‘‘

وہاں فرمایا گیا ہے:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ:۸۵)
’’تو کیا تم کتاب (اورشریعت) کے ایک حصے کو تو مانتے ہو اور ایک کو رد کرتے ہو؟ تو جو لوگ بھی تم میں سے یہ طرزِ عمل اختیار کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں وہ ذلیل و خوار کر دیے جائیں اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیے جائیں ‘اور اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کرتے ہو.‘‘

جزوی اطاعت کی حقیقت کے اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی اہم ترین آیت ہے. یہاں ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے والوں کے لیے ’’اَشَدَّ الْعَذَابِ‘‘ (شدید ترین عذاب) کا تذکرہ ہے. اللہ کی جزوی اطاعت کرنے والوں کا حشر کفار سے بدتر ہو گا. یہی وجہ ہے کہ منافقین کے بارے میں فرمایا گیا:

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵)
’’منافق آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے.‘‘

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان سے کہا گیا ہے:

لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ (الصف:۲،۳
’’کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے غضب کو بھڑکانے اور اس میں بیزاری پیدا کرنے والی ہے یہ بات کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں.‘‘

اللہ تعالیٰ کو تو پوری اطاعت چاہیے‘ اسے جزوی اطاعت قبول نہیں. ایسی اطاعت مردود ہے‘ لوٹا دی جاتی ہے‘ منہ پر مار دی جاتی ہے. یہ نکتہ اگر پورے طور پرآپ کے ذہن نشین ہو جائے تو میری اگلی بات کا منطقی ربط آپ کی سمجھ میں آ جائے گا.

ہیں آج کیوں ذلیل …؟

اسی میں درحقیقت ایک بہت بڑے سوال کا جواب ہمیں ملتا ہے اور وہ یہ کہ آج ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں‘ جبکہ کفار کا غلبہ ہے ؎

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

تو کیا اللہ کو کفر پسند ہے اورا سلام اور ایمان ناپسند ہے؟ ہم دل میں سوچتے ہیں کہ ہم کم سے کم اللہ کو مانتے تو ہیں‘ نمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں‘ ہمارے بیس بیس‘ تیس تیس لاکھ افراد جا کر حج بھی کرتے ہیں‘ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لیے عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے‘ دنیا میں ہمارا کوئی وقار اور کوئی حیثیت نہیں ہے. ؏ ’’کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی!‘‘کسی بھی بین الاقوامی مسئلے میں ہماری تو رائے بھی کوئی نہیں پوچھتا. وہ تو G-7‘ G-8‘ یا G-15 ہیں جن کے مشورے اور فیصلے چلتے ہیں. کوئی مسلمان ملک نہ G-7 میں ہے نہ G-15 میں. گویا نہ تین میں نہ تیرہ میں‘ کہیں بھی نہیں.یو این اوکے مستقل ممبران ‘جن کے پاس ویٹو پاور ہے ان میں کسی مسلمان ملک کے آنے کا کوئی امکان نہیں. اب بھی اگرکوئی نیا ملک آئے گا تو بھارت آئے گا‘ پاکستان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا. یہ کیوں ہے؟ ؎ 

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی ٔ فرشتہ ہماری جناب میں!

یہ بہت اہم سوال ہے‘ اگر آپ نے نہیں سوچا تو یہ آپ کی غفلت ہے. یہ قابل غور بات ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں‘ دنیا میں ہماری کیا حیثیت ہے. اب اگر قیامت ٹوٹ رہی ہے تو کشمیر میں مسلمانوں پر ٹوٹ رہی ہے‘ اس سے پہلے چیچنیا کا تہس نہس کر کے رکھ دیا گیا‘ کوسوو کا جو معاملہ ہوا ہے‘ بوسنیا میں جو کچھ ہوا ہے‘ ابھی فلپائن کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ سب کیوں ہے؟ نائیجیریا میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ وہاں ایک صوبہ شریعت اسلامی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور عیسائیوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان قتل ہو جاتے ہیں. یہی معاملہ انڈونیشیا کے اندر ہو رہا ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اللہ کو کفر سے محبت اور اسلام سے دشمنی ہے؟ یا پھراللہ عاجز اور لاچار ہے کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرنا تو چاہتا ہے لیکن نہیں کر سکتا؟ دونوں میں سے کسی بات کا جواب آپ ’’ہاں‘‘ میں نہیں دے سکتے. انہی دونوں چیزوں کو اقبال نے بڑی خوبصورتی سے جمع کیا ہے ؎

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات!

اے اللہ تُو قادر ہے‘ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ ہے اور عادل بھی ہے.پھر دنیا میں بے انصافی کیوں ہو رہی ہے؟ سرمایہ دار مزدور کا خون نچوڑ کر اس سے شراب کشید کر رہا ہے‘ پھر اسے شام کو بیٹہ کر پیتا ہے. بندۂ مزدور کے اوقات واقعتا بہت تلخ ہیں. اے اللہ! تو قادر بھی ہے‘ عادل بھی ہے‘ اسلام کو پسند کرتا ہے‘ کفر کو ناپسند کرتا ہے‘ پھر بھی ایسا سلوک کیوں ہے کہ تیرے نام لیوا ذلیل و خوار ہیں؟ اس کا جواب سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ میں دے دیا گیا ہے جس کا ہم نے ابھی مطالعہ کیا:

فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ
جو کوئی بھی مسلمان قوم اور مسلمان اُمت میں یہ طرزِ عمل اختیار کرے (کہ وہ دین کو جزوی طور پر اختیارکرے‘ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی) اُس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان پر ذلت و رسوائی اور خواری مسلط کر دی جائے. یہ تو بہرحال ہم بھگت رہے ہیں‘ لیکن آخرت کا معاملہ اس سے شدید تر ہے :

وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕ 
’’اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا.‘‘

اگر آپ کو یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آیا تو میری بات اور میرے دینی فکر کی اساس ہی آپ کے پلے نہیں پڑی‘ چاہے آپ نے میرے بہت سے دروس اور بہت سی تقریریں سنی ہوں. یہ میرے فکر کا اساسی نکتہ ہے.

اس پس منظر میں جائزہ لیجیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری اطاعت اس وقت کُّلی ہے یا جزوی؟ اوّل تو یہ کہ پوری دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ہم ایسا نہیں دکھا سکتے جہاں ہم نے اسلام کا عدل و قسط پر مبنی نظام قائم کیا ہو. سعودی عرب میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ عمرے سب کچھ ہے ‘لیکن کیا اللہ کا دین قائم ہے؟ کیا بادشاہت کا نظام اور ملکی دولت کے اوپر 
ایک خاندان کا قبضہ اور ارب ہا ارب ڈالر کا ایک ایک محل بنانا اسلام ہے؟ اگر یہ اسلام ہے تو پھر اس کی نوع انسانی کو کوئی ضرورت نہیں. اس اسلام کو تو نوعِ انسانی بہت عرصے پہلے ترک کر چکی ہے.

انفرادی محاسبہ کی ضرورت

یہ تو پوری امت کا مسئلہ ہے‘ لیکن ابھی آپ انفرادی معاملے پر آیئے. ہمارے ہاں ۹۹ء۹۹ فیصد آبادی وہ ہے کہ شریعت کے اوپر جتنا عمل کیا جا سکتا ہے وہ بھی نہیں کرتی. ہر ایک نے کسی نہ کسی حرام شے کو اپنے لیے حلال ٹھہرا رکھا ہے اور اسے بامر مجبوری کا نام دے رکھا ہے کہ کیا کریں جی سود کے بغیر تو کاروبار نہیں ہو سکتا! سرکاری ملازم کا رشوت کے بغیر کیسے گزارہ ہو سکتا ہے! کاروباری آدمی کہے گا کہ حساب کتاب صحیح رکھ کر ہمیں تو اپنی دکان بند کرنا پڑے گی. ہر ایک نے کوئی نہ کوئی حرام شے اختیار کی ہوئی ہے. باقی یہ کہ نمازیں‘ روزے‘ عمرے اور حج بھی ہیں. پردے کا تو خیر رواج ہی نہیں رہا. اعشاریہ صفر ایک فیصد لوگ ایسے ہوں گے یا ہو سکتے ہیں کہ وہ جتنے اسلام پر عمل کر سکتے ہیں اس پر کر رہے ہیں. وہ نماز پڑھ رہے ہیں‘ روزہ رکھ رہے ہیں‘ شراب نہیں پی رہے‘ سودی لین دین میں براہِ راست ملوث نہیں ہیں‘ انہوں نے سود پر سرمایہ لے کر کوئی کاروبار نہیں کیا‘ سود پر قرض لے کر مکان نہیں بنایا‘ کہیں بینک میں پیسہ رکھ کر سود نہیں کھا رہے. الغرض جتنا عمل ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں. ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟ لیکن ان کے حوالے سے بھی غور کیجیے کہ شریعت کے اجتماعی احکام پر وہ بھی عمل پیرا نہیں ہو سکتے. کیا یہ شریعت کا حکم نہیں ہے کہ زانی کو سو کوڑے مارو اور چور کے ہاتھ کاٹ دو؟ کیا یہ اس معاشرے کے رکن نہیں ہیں؟ اس ریاست کے شہری نہیں ہیں؟ کیااس اجتماعی نظام کی کوئی ذمہ داری ان پر نہیں آتی؟ کیا یہ اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کہاں ہے یہ قرآنی حکم کہ : وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَھُمَا ؟کہاں ہے شادی شدہ زانی کی سنگساری؟ کہاں ہیں وہ کوڑے جو زنا پر برسرعام لگائے جائیں تاکہ لوگ اپنی نگاہوں سے دیکھیں؟ معاشی نظام پورے کا پورا سود پر مبنی ہے. میں بھی اور آپ بھی سود کو inhale کر رہے ہیں. حدیث کے اندر تو صاف آیا ہے کہ ایک وقت آ جائے گا کہ ایک شخص چاہے براہِ راست سود نہ کھائے‘ لیکن اس کا غبار اور دھواں اس کے اندر ضرور جائے گا. بڑی پیاری تشبیہہ ہے. اگر فضا میں دھواں ہے تو آپ کیا ناک بند کر لیں گے کہ دھواں اندر نہ جانے پائے؟ جینے کے لیے سانس تو لینا ہے‘ دھواں بہرحال اندر جائے گا. گرمیوں میں بعض اوقات dust suspension ہو جاتا ہے تو کیا ناک بند کر لیں گے کہ میں تو dust کو اندر نہیں لے جانا چاہتا؟ جینے کے لیے سانس لینا پڑے گا. سانس لیں گے تو dust اندر جائے گا. حدیث میں الفاظ آئے ہیں کہ سود کا ’’دخان‘‘ اور ’’غبار‘‘ تو لازماً اندر جائے گا. اللہ کا شکر ہے کہ پوری انفرادی زندگی میں سود میں براہِ راست ملوث ہونے کا معاملہ نہیں ہے‘ لیکن یہ غبار تو جا رہا ہے. گندم کے ہر دانے کے ساتھ سود اندر جا رہا ہے.

غور کیجیے‘ یہ میں کن کی بات بتا رہا ہوں؟ ان کی جو باقی شریعت پر سو فیصد عمل پیرا ہیں. فرض کیجیے کہ انہوں نے گھر میں شرعی پردہ بھی نافذ کر رکھا ہے تو اس کے کیا کہنے‘ یہ بہت بڑا جہاد ہے. ان کی پوری شرعی داڑھی ہے‘ لباس شرعی ہے‘ ہر اعتبار سے زندگی شریعت کے مطابق ہے‘ لیکن جو اس اجتماعی نظام کے تابع ہیں اس کے اعتبار سے تو وہ کفر ہی کا حصہ ہیں کہ وہ اس کفر کے نظام کے اندر سانس لے رہے ہیں‘ اس کے اندر جی رہے ہیں. یہ صورت حال آپ کے لیے اور میرے لیے لمحۂ فکریہ ہے. جان لیجیے ہماری اطاعت جزوی ہے. خاص طور پر جو لوگ بڑے شوق سے جا کر امریکہ میں آباد ہو گئے انہیں تو وہاں کے عائلی قوانین کو قبول کر کے آباد ہونا ہے. یہاں ہم اپنے شرعی عائلی قوانین پر تو چل رہے ہیں. یہاں ہمارے عائلی قوانین میں بھی گڑبڑ کی گئی تھی تاہم ان ترمیمات پر زیادہ عمل نہیں ہو رہا ہے. ہم سے کہیں بہتر بھارت کے مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے عائلی قوانین میں ہندو اکثریت کو اب تک دخل نہیں دینے دیا. میں بھارتی مسلمانوں کو سلام کرتا ہوں. امریکہ میں رہنے والے مسلمان کا شرعی قوانین پر بھارتی مسلمان سے بھی کم عمل ہے. بھارتی مسلمان ابھی تک اپنے عائلی قوانین پر قائم ہے. امریکہ میں تو ظاہر بات ہے کہ شادی ‘ طلاق اور وراثت کے قوانین میں آپ کا کوئی عمل 
دخل نہیں. جب میں نے یہ بات امریکہ میں کہی تو ایک صاحب بڑے دھڑلے سے کہنے لگے کہ اب یہاں ’’Will‘‘ (وصیت) ہو سکتی ہے. میں نے کہا یہ خود خلافِ شریعت ہے. وصیت تو ایک تہائی سے زیادہ میں ہو ہی نہیں سکتی. لہذا اگر آپ نے will کر دی ہے تو وہ بھی شریعت کے خلاف ہے‘ شریعت پر عمل پیرا ہونا تو ممکن ہی نہیں ہے. بہرحال یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے. ایک طرف صورت وہ ہے کہ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاٌ ۚ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕ اور دوسری طرف یہ بیڑیاں ہیں جو ہمارے پاؤں میں پڑی ہوئی ہیں.

فتنے سے نکلنے کا راستہ

اس وقت میرے ذہن میں وہ حدیث آ رہی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ فتنے سے نکلنے کا راستہ مَخرَج کیا ہے! بڑی مشہور حدیث ہے جو ہم نے بڑی عام کی ہے. قرآن مجید کی مدح میں حضرت علی ؓ سے مروی حدیث آتی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اَلَا اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ
’’ آ گاہ رہو عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہو گا.‘‘ 
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں ‘ میں نے پوچھا:

مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟
’’اللہ کے رسول ! اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟‘‘

امام طبرانی کی معجم کبیر میں یہ روایت اور انداز سے آئی ہے کہ جبرائیل ؑ نے حضور سے پوچھا:

یَا مُحَمَّد!اُمَّتُکَ بَعْدَکَ؟
یعنی ــ’’اے محمد !کبھی سوچا ہے کہ آپؐ کی امت کا آپ ؐ کے بعد کون والی وارث ہوگا؟‘‘

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ :مَا الْمَخْرَجُ یَا جِبْرَائِیلْ؟ 
’’حضور پوچھتے ہیں کہ اےجبرائیل!(سوال تو واقعی بہت اہم ہے)تم ہی بتاؤ اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہے؟‘‘انھوں نے فرمایا:

کِتَابُ اللّٰہِ‘ فِیْہِ خَبَرُ مَا قَبْلَکُم و نَـبَأُ مَا بَعْدَکُمْ ‘وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ‘وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ‘ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ ‘وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ
’’اللہ کی کتاب. اس میں تم سے پہلوں کے حالات بھی ہیں، تم سے بعد کی خبریں بھی ہیں اور تمھارے جھگڑوں کا فیصلہ بھی یہی ہے. یہی صراط مستقیم ہے، یہ پرحکمت بیان ہے اور یہی اللہ کی مضبوط رسی ہے.‘‘ 

یہ بڑی طویل اور پیاری حدیث ہے. بہرحال میں نے یہ اس لیے بتایا کہ اس گھمبیر صورت حال سے نکلنے کا کیا مخرج 
(exit) ہے. بڑے بڑے ہالوں میں سرخ Exit لکھا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آگ لگ جائے‘ بم دھماکہ ہو جائے تو اس Exit کی طرف بھاگو. تو ہمارے لیے مخرج (Exit) کیا ہے؟

(۱) اس وقت کے حالات میں جتنے اسلام پر عمل کرنا قانوناً ممکن ہے‘ لازماً کیا جائے ‘مشکل اگرچہ کتنا ہی ہو. مشکل اور ناممکن میں فرق ہے. چور کا ہاتھ کاٹنا میرے لیے ناممکن ہے‘ زانی کو سنگسار کرنا میرے لیے ناممکن ہے‘ لیکن گھر میں شرعی پردہ نافذ کر لینا میرے لیے ممکن ہے‘ مشکل ضرور ہے. یہاں بے پردگی کا کوئی قانون آج تک نہیں بنا‘ کوئی مصطفی کمال پاشا یہاں نہیں آیا اور (ان شاء اللہ) ہرگز نہیں آ سکتا جو خواتین کا برقع زبردستی اتروا دے. جس کسی نے برقع اتارا ہے اس نے خود اتارا ہے اور خود بے پردگی اختیار کی ہے. پہلی بات تو یہ ہے کہ آدمی جتنے دین پر عمل کر سکتا ہو پہلے وہ اس پر تو عمل کرے. وہ ۰۱ء۰فیصد پر تو آ جائے. چاہے مشکل ہو‘ چاہے اس میں بھوک آ جائے‘ چاہے تکلیف آ جائے‘ چاہے بائیکاٹ ہو جائے. آپ شرعی پردہ نافذ کریں گے ‘ آپ کا سوشل بائیکاٹ ہو جائے گا. کچھ بھی ہو جائے‘ ہرچہ بادا باد‘ شریعت کے حکم پر جتنا عمل کر سکتے ہیں وہ تو پورا کریں.

(۲) ایک اہم بات یہ ہے کہ اس اجتماعی نظام کو جس کی وجہ سے آپ مکمل شریعت پر عمل نہیں کر سکتے اسے ذہناً قبول کر یں نہ قلباً.

Don't accept it! don't reconcile with it!
(۳) اس کی چاکری اور غلامی نہ کریں ‘نہ اسے promote کریں ‘نہ اس کے تحت پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی کوشش کریں کہ جائیداد زیادہ ہو جائے‘ کاروبار میں اضافہ ہو جائے‘ بلڈنگز زیادہ ہو جائیں. 

یہ میں نے تین منفی پہلو بیان کیے ہیں. یہ بات بہت اہم ہے کہ اسے ذہناً تسلیم نہ کریں. گویا کہ اس کے اندر 
under protest رہیں‘ کم از کم passive resistance تو ہو کہ اسے ذہناً اور قلباً تسلیم نہیں کیا‘ اس کی چاکری کرنے کو تیار نہیں. میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جس وقت ہندوستان میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت اٹھی تو اپنے ابتدائی دور میں وہ دعوت صد فیصد اسلامی تھی‘ اور اس کی بنیاد پر ان پر بغاوت کا مقدمہ چل سکتا تھا. انگریز کا دور تھا‘ لیکن انہوں نے واضح طور پر کہا کہ فوج کی ملازمت حرام ہے‘ آپ انگریز کی فوج میں جاتے ہیں تو گویا آپ اسے تقویت دے رہے ہیں. ہمارے ہی مسلمان فوجیوں نے جا کر پہلی جنگ عظیم میں جنرل ایلن بی کو یروشلم کا قبضہ لے کر دیا تھا. ہمارے یہ فوجی جہلم اور راولپنڈی کے علاقے کے تھے. یہی لوگ تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر بھی گولیاں چلائی تھیں. مولانا مودودیؒ کا فتویٰ تھا کہ یہ ملازمت حرام ہے. اسی طرح سرکاری ملازمت بھی حرام ہے‘ خاص طور پر عدلیہ سے متعلق ملازمت کسی طور پر جائز نہیں. آپ عدالت کے اندر وکیل کی حیثیت سے پیش ہو رہے ہیں اور اس قانون کے تحت مقدمہ لڑ رہے ہیں جو اللہ کا قانون نہیں ہے‘ کسی اور کا ہے. اور غضب خدا کا کہ اس عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں اللہ کے قانون کی بجائے انگریز کے قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے. جبکہ اللہ کاتو حکم ہے: وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ (المائدۃ:۴۴’’اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ (احکام) کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں‘‘. انگریز کے دور میں ایسی مثالیں موجود تھیں کہ نماز روزہ بھی ہے‘ تہجد بھی ہے‘تسبیحات بھی ہیں اور حج بھی ہے‘ اور ان سب کے ساتھ ساتھ انگریز کی عدالت میں جج بھی ہیں. اس وقت مولانا مودودیؒ کا یہ بات کہنا بڑی ہمت و جرأت کا کام تھا. وہ تو یہ کہ انگریز یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ رہا تھا‘ لہذا اس نے اسے نظر انداز کیا‘ ورنہ اس بات کو کون برداشت کر سکتا ہے؟ انہوں نے زیادہ سے زیادہ یہ اجازت دی تھی کہ پبلک یوٹیلٹی کے محکمے مثلاً محکمہ ڈاک‘ ریلوے وغیرہ ‘یعنی جن سے عوام کے کام اور سہولتیں وابستہ ہیں ان کی ملازمت تو اختیار کی جا سکتی ہے لیکن وہ محکمے جو حکومت کی گاڑی کو چلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور وہ محکمے جو حکومت کی اس گاڑی کے اندر جتے ہوئے ہیں‘ اس بگھی کو آگے لے کر دوڑ رہے ہیں‘ ان محکموں میں ملازمت اختیار کرنا نظامِ باطل کو support کرنا ہے‘ جو سراسر حرام ہے.

اس بات کو میں نے منفی پہلو 
(negative aspect) قرار دیا ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ دراصل کفارہ ہے. اگر میں ایسے نظام کے تحت زندہ رہنے پر مجبور ہوں جہاں حق کا بول بالا نہیں ہے‘ پورا نظام حق کے تابع نہیں ہے‘ اجتماعی زندگی میں اللہ کی اطاعت نہیں ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں کہاں جاؤں؟ امریکہ چلا جاؤں‘ لیکن وہاں تو یہاں سے زیادہ کفر ہے . سعودی عرب میں مجھے بسنے ہی نہیں دیں گے اور وہاں میں نے حکومتِ الٰہیہ کا نام لے لیا تو میرے وجود کا نام و نشان نہیں ملے گا. ہم مجبور ہیں‘ لہذا اس کا کوئی کفارہ ہونا چاہیے. کفارہ کسے کہتے ہیں؟ کفر (ک ف ر ) کا اصل مفہوم کسی چیز کا چھپا دینا ہے. اس کا ایک معنی ناشکری کرنا بھی ہے. اس لیے کہ کسی نے آپ کے ساتھ احسان کیا ہے تو آپ کے دل سے اس کے لیے احسان مندی کے جذبات کا فوارہ ابلنا چاہیے. اگر آپ نے اس کو دبا لیا تو یہ کفر کہلائے گا‘ یعنی کفرانِ نعمت.شکرکے مقابلے میں کفر آتا ہے. ’’کفار‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں کاشت کار کے لیے بھی آتا ہے:

کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰىہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا (الحدید:۲۰)
اس لیے کہ وہ بیج کو زمین میں دباتا ہے تو اس سے پودا نکلتا ہے. کفارہ یہ ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو اس کے اثرات کو زائل کرنے اور دھونے کے لیے کوئی عمل کیا جائے. اب یہ گناہ کہ میں نظام باطل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں‘ میری پوری اجتماعی زندگی اس نظام سے متعلق ہے اور وہ نظام کفر پر مبنی ہے‘ میں انفرادی زندگی کے اعتبار سے فرض کیجیے ۰۱ء۰ فیصد میں بھی آ گیا ہوں کہ میر ے لیے جتنے بھی شرعی احکام پر عمل ممکن تھا وہ میں کر رہا ہوں‘ تب بھی حال یہ ہے کہ میری پوری اجتماعی زندگی تو کفر کے تابع ہے‘ تو اس کا مخرج اور کفارہ کیا ہے؟ یہی کفارہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نظام کو ذہناً و قلباً تسلیم نہ کیا جائے‘ اس کے ساتھ reconcile نہ کیا جائے. یہی منفی انداز آیت الکرسی کے بعد آنے والی آیت میں اختیار کیا گیا ہے:

فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا (البقرۃ:۲۵۶)
’’جو کفر کرے طاغوت کا اور ایمان لائے اللہ پر وہ ہے کہ جس نے مضبوط کنڈے پر ہاتھ ڈال لیا ہے اور یہ کنڈا اپنی جگہ چھوڑنے والا نہیں ہے.‘‘

لہذا اسے مضبوطی سے تھامے رکھو!

اس نظام کو 
promote نہ کیا جائے. اس کی چاکری ‘ اس کی خدمت نہ کی جائے‘ بلکہ اس سے انحراف کیا جائے.اس کے تحت پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی کوشش نہ کی جائے‘ بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی کم سے کم لازمی بنیادی ضروریات کے لیے جتنا وقت اور جتنی صلاحیت اور محنت کی ضرورت ہے اس کو ایک طرف کرتے ہوئے باقی پوری محنت و صلاحیت اور تمام اوقات اس نظام کے خلاف جدوجہد میں لگا دیے جائیں. باطل نظام کے تحت مجبوراً زندگی گزارنے والا انسان اگر اس نظام کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے اور نظامِ حق کو غالب کرنے کے لیے جدوجہد کرے گا تو یہ اس کے لیے کفارہ ہوتا چلا جائے گا. گویا اگرچہ گندگی اندر جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ دھل بھی رہی ہے. اس جدوجہد میں مصروف انسان اللہ کا شکر ادا کرے کہ میں نے جو سانس لیا تھا اس کے ساتھ اگرچہ سود بھی اندر گیا تھا لیکن اس کے ساتھ جو آکسیجن آئی تھی اس نے مجھے توانائی بخشی تھی‘ اس توانائی کا اکثر حصہ میں نے اس نظام کو ختم کرنے کے لیے لگا دیا ہے‘ لہذا میں پاک ہو گیا ہوں‘ یہ اس کا کفارہ ہے.

دیکھئے مثبت اور منفی دو چیزیں آ گئیں کہ اس نظام کو ذہناً تسلیم نہ کرے‘ اس کی چاکری نہ کرے اور اسے درہم برہم کرنے کی جدوجہد کرے. نظام باطل کی چاکری 
کرنے والوں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے. رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

مَنْ مَشٰی مَعَ فَاسِق لِقُوِّیَہٗ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ 
’’جو شخص کسی فاسق کے ساتھ اسے تقویت پہنچانے کے لئے چلا‘اس نے اسلام کی جڑیں کھودنے میں مدد کی.‘‘

اگر حال یہ ہو کہ نظام باطل کی سروس ہو رہی ہے‘ اور اس کے حوالے سے طرے پر طرے چڑھائے جا رہے ہیں‘ خطابات لیے جا رہے ہیں‘ نظامِ باطل کی محافظ پولیس اور فوج میں سروس ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ اسلام کا کیا سوال؟

مثبت بات یہ ہے کہ اپنے تن من دھن کا کم سے کم حصہ اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رکھا جائے‘ باقی سارے کا سارا اس نظام کو 
uproot کر کے اس کی جگہ پر نظامِ دین حق کو قائم کرنے کے لیے صرف کر دیا جائے. بصورت دیگر ‘ایک حدیث سن لیجیے .فرض کیجیے کوئی شخص ۰۱ء۰ فیصد میں آ گیا ہے‘ یعنی شریعت کے تمام احکام پر کاربند ہے‘ نماز ‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ پر عمل پیرا ہے ‘ حرام خورد و نوش کے قریب نہیں جاتا‘ براہ راست سود میں ملوث نہیں ہے اور اسی طرح اس کے گھر میں شرعی پردہ بھی رائج ہے‘ لیکن وہ inactive ہے‘ باطل کے خلاف فعال نہیں ہے ‘ activist نہیں ہے تو اس کے لیے اس حدیث نبویؐ میں بہت سارا سامانِ عبرت موجود ہے:

اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَ اِلٰی جِبْرِِیْلَ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا ‘ قَالَ فَقَالَ: یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ‘ قَالَ: فَقَالَ: اِقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ذریعے سے حکم دیا کہ فلاں فلاں شہروں کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو (تلپٹ کر دو‘ جیسے کہ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے ساتھ کیا گیا‘ جہاں حضرت لوط  کو بھیجا گیا تھا). اس پر جبرائیل ؑنے عرض کیا : اے رب! ان لوگوں میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی. حضور فرماتے ہیں اس پر اللہ نے فرمایا : الٹو اس بستی کو پہلے اس بدبخت پر‘ پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ (وہ اتنا بے غیرت اور بے حمیت انسان ہے کہ) میری وجہ سے کبھی اس کے چہرے کی رنگت تک نہیں بدلی.‘‘

اسے اس بات پر کبھی غصہ بھی نہیں آیا کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے. اندازہ کیجیے اس حدیث میں جس بندے کا ذکر ہو رہاہے یہ وہ شخص ہے جو ۰۱ء۰ فیصد میں سے ہے‘ جس کا پلک جھپکنے جتنا وقت بھی کبھی گناہ میں بسر نہیں ہوا. اس سے زیادہ پاک صاف‘ نیک‘ زاہد اور عابد کا آپ تصور کر سکتے ہیں؟ یہاں گواہی دینے والے حضرت جبرائیل ؑ ہیں‘ کوئی کرائے کا وکیل نہیں ہے‘ اور یہ کہ گواہی بھی اللہ کے سامنے دی جا رہی ہے جہاں ابوجہل بھی جھوٹ نہیں بول سکے گا. یہ زاہد و عابد آدمی ایسا بے غیرت ہے کہ کیا مجال اس کو کبھی غصہ آیا ہو کہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے . آپ کو کوئی ماں کی گالی دے دے تو اوّل تو آپ اسے جانے نہیں دیں گے‘ لیکن اگر آپ میں طاقت نہیں ہے تو آپ اپنی جگہ کانپ کر رہ جائیں گے‘ آپ کے چہرے میں پورے جسم کا خون آ جائے گا. اس بدبخت کو تویہ بھی نہیں ہوا ہے ؎

مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!
یہ فقط ’’اللہ ہُو‘‘ میں لگا رہا.

تو جان لیجیے کہ واحد مخرج یہ ہے کہ شریعت کے جن اجزاء پر عمل ممکن ہے‘ چاہے کتنا ہی مشکل ہو‘ اس پر تو عمل لازم ہے ‘ بقیہ جس پر آپ عمل نہیں کر سکتے اس کا کفارہ یہ ہے کہ منفی طور پر 
’’یَکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ‘‘ کیا جائے‘ اسے ذہناً اور قلباً تسلیم نہ کیا جائے‘ اس کی چاکری نہ ہو‘ اس کے ساتھ تعاون نہ ہو‘ اس کی ملازمت نہ ہو‘ اسے promote نہ کیا جائے اور اس کے تحت پھلنے پھولنے کی کوشش نہ کی جائے‘ بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کم سے کم پر قناعت کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں‘ قوتوں‘ توانائیوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کے اندر وقف کر دیا جائے. یہ ہے وہ جدوجہد جس کا شریعت کی رو سے جامع عنوان ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے اورجس کے بغیر ایمان کا تصور ہی نہیں. سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ میں مومن کی جامع اور مانع تعریف آئی ہے : 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵
’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر شک میں نہیں پڑے‘ اور پھر انہوں نے جہاد کیا اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں. صرف یہ لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

اس کے بغیر نجات نہیں ہے. سورۃ الصف میں فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱
’’اے اہل ایمان! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جو تم کو عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں سے بھی اور اپنی جانوں سے بھی. یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.‘‘

اگر تم جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو اس کے لیے یہ ناگزیر ضرورت ہے.

امت مسلمہ کا فرضِ منصبی

اب میں اپنی دعوتِ قرآنی اور فکر قرآنی کا دوسرا نکتہ بیان کر رہا ہوں جو اہم ترین ہے. ہم عبادت سے اب جہاد پر آتے ہیں‘ لیکن جہاد کی دو منزلیں ہیں. پہلی منزل یہ ہے کہ پہلے اس کی دعوت عام کرنی ہو گی. دعوتِ دین کو پھیلاؤ. جو لوگ آئیں انہیں جمع کرو‘ انہیں منظم کرو‘ ان کو تربیت دو‘ تیار کرو‘ پھر انہیں میدان میں لا کر طاقت کا استعمال کر کے نظام کو بدلو. دعوتِ دین‘ اللہ کی کتاب کی دعوت اور نشر و اشاعت جہاد کا پہلا مرحلہ ہے. اس کے لیے اصطلاح ’’شہادت علی الناس‘‘ ہے جو اجتماعی فریضہ ہے‘ جس کے لیے اُمت وجود میں آئی ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو.‘‘

یہ دراصل فریضۂ رسالت ہے جو اُمت کو ادا کرنا ہے. یہ رسالتِ محمدیؐ کا تسلسل ہے جوقیامت تک جاری رہے گا. پہلے رسول اللہ نے بنفس نفیس یہ فریضہ انجام دیا اوراس کے بعد حجۃ الوداع میں آپؐ اسے اُمت کے حوالے کر کے دنیا سے رخصت ہوئے:

فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبِ

’’اب جو موجود ہیں وہ ان تک پہنچائیں جو غیر موجود ہیں.‘‘
اور اس کی آخری منزل اقامتِ دین یعنی دین کو قائم کردینا ہے:

لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا
’’تاکہ اللہ کی بات سب سے اونچی ہو جائے.‘‘

تکبیرربّ ہو جائے‘ اللہ کا کلمہ بلند ہو‘ اللہ کا حکم بالادست ہو. اسی اقامتِ دین پر جا کر عبادتِ رب بھی مکمل ہو گی. اب میں اگر اس نظام کے تحت زندگی گزار رہا ہوں تو میری عبادت مکمل ہو گئی‘ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی.میری بندگی اس وقت مکمل ہوئی ہے‘ اس سے پہلے ناقص تھی. اس نقص کی تلافی مَیں اس جدوجہد سے کررہا تھا‘ اس جدوجہد کی صورت میں مَیں اس گناہ کا کفارہ ادا کر رہا تھا. اب اگر یہ ہو گیا تو میری عبادت بھی پوری ہو جائے گی اور شہادت علی النّاس کا تقاضا بھی پورا ہو جائے گا‘ اور آپ پوری دنیا کو دعوت دے سکیں گے کہ آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھو یہ ہے اسلام‘ یہ ہے محمد رسول اللہ‘ کی رحمت للعالمینی کا مظہر اَ تم‘ یہ ہے وہ نظامِ حق ‘ نظامِ عدل وقسط‘ یہ ہے انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت کا مظہر. یہ نظام جو اللہ نے 
محمد رسول اللہ‘ کو دیا اور جسے اللہ تعالیٰ نے آپؐ پرکامل کیا: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدۃ:۳)
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے ‘ اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین قبول کر لیا ہے.‘‘

یہ ہے میرے دینی فکر کی بنیاد! اس دینی فکر سے کماحقہ آگاہی کے لیے اب میں لٹریچرتجویز کرتا ہوں. اس ضمن میں سب سے اہم تو میرا مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ہے‘ جو ایک ایک گھنٹے کے چوالیس آڈیوکیسٹس پر مشتمل (۱ہے. اب یہ دروس کتابچوں کی صورت میں بھی شائع کر دیے گئے ہیں. یہ میں نے قرآن مجید کے اجزاء منتخب کر کے قرآن کے حوالے سے دعوت پیش کی ہے. ایک کتاب ’’مطالباتِ دین‘‘ کے نام سے موجود ہے‘ جس میں عبادتِ ربّ ‘ شہادت علی الناس اور اقامتِ دین تین اصطلاحات کے حوالے سے دین کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں. ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ پر کتابچہ موجود ہے. انگریزی میں بھی دو گھنٹے کا ویڈیو اور آڈیو موجود ہے اور اردو میں بھی کہ جہاد کسے کہتے ہیں‘ جس کو کہ آج ہم نے دنیا کے اندر بدنام کر کے رکھ دیا ہے. ’’حقیقت ایمان‘‘ پر میرے پانچ لیکچرز ویڈیوز کی صورت میں موجود ہیں (۲. ایمان یعنی ایمان حقیقی کو جتنا emphasize میں نے کیا ہے‘ وہ زور کسی اور تحریک میں نہیں ہے. تبلیغی جماعت میں ایمان کی محنت کی بات ضرور ہوتی ہے لیکن وہ علمی اور فکری بنیادپر نہیں.

اب ایک بات یہ سمجھ لیجیے کہ ایک ہے بنیادی طور پر کسی فرض کا ادا ہو جانا اور ایک ہے اس کا کماحقہ ادا ہوجانا . ایک وہ شخص ہے جو کسی فرضِ عین کی ادائیگی سرے سے نہیں کر رہا تھا‘ وہ تو فرض کا تارک ہو گیا‘ لیکن کوئی ہے جس نے اپنی زندگی کو اس رخ پر تو ڈھال لیا ہے لیکن ا س کے لیے وہ اتنی محنت نہیں کر رہا جتنی کہ وہ کر سکتا تھا‘ تو اس کا معاملہ بھی اللہ کے ہاں قابل گرفت ہو جائے گا.نماز آپ نے جیسے تیسے پڑھی‘ وہ ادا تو ہو گئی‘ 
(۱) مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے یہ دروس اب ایک آڈیو سی ڈی میں بھی دستیاب ہیں. 
(۲) یہ پانچ لیکچرز اب ’’حقیقت ِایمان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیے گئے ہیں. 
لیکن اگر اس میں خشوع و خضوع اور استحضار نہ ہوا‘ اللہ کی طرف انابت ہی نہ ہوئی‘ اس کی طرف توجہ ہی نہ ہوئی تو بات وہی ہوئی کہ نماز پڑھی تو ہے مگر نماز کی حقیقت حاصل نہ ہوئی. چنانچہ پہلی بات تو یہ کہ آدمی اس فریضے کی فرضیت کو پہچان لے جو آج اُمت مسلمہ کے ذہنوں سے بالکل خارج ہے. انہیں نماز‘ روزے‘ حج‘ زکوٰۃ کی فرضیت تو معلوم ہے لیکن ’’اقامت دین‘‘ کی فرضیت معلوم ہی نہیں. لیکن اس کے بعد خاص طور پر تنظیم اسلامی کے رفقاء میں سے ہر ایک کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہو گا‘ تو آپ اپنی قوتوں‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کا کتنا حصہ اس کام کے لیے صرف کر رہے ہیں؟ کیا محض قانونی تقاضا پورا ہو رہا ہے یا واقعتا حتی المقدور اور حسب استطاعت جدوجہد ہو رہی ہے؟ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ:

لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں ٹھہرائے گا مگر اس کی وسعت کے مطابق.‘‘

چنانچہ ہو سکتا ہے کم والا وہاں کامیاب ہو جائے اور زیادہ والا ناکام ہو جائے. کیوں؟ اس لیے کہ کم والے کی استعداد ہی اتنی تھی جتنا اس نے کیا ہے‘ اس سے زیادہ استعداد تھی ہی نہیں ‘ جبکہ زیادہ والے کی استعداد اس سے کہیں زیادہ تھی‘ اس نے اپنی استعداد سے کم کیا تو وہ ناکام ہو جائے گا.

فریضہ اقامت دین کی شرطِ لازم : التزامِ جماعت

اب میرا اگلا نکتہ سمجھ لیجیے! اور یہ بھی ہمارے مجموعی دینی فکر سے اوجھل اور بالکل غائب ہے. یوں سمجھئے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہے. اس فرضِ عین کے لیے شرطِ لازم ہے التزامِ جماعت. جیسے نماز فرضِ عین ہے‘ اس کے لیے وضو شرطِ لازم ہے اور اگر پانی نہ ہو تو تیمم ضروری ہے (یہ دونوں الفاظ آپ نوٹ کر لیں)‘ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہو گی‘ اسی طرح اگر آپ باطل کے غلبے کے تحت رہ رہے ہیں تو طاغوت کا انکار‘ نظامِ باطل کو ذہناً اور قلباً تسلیم نہ کرنا‘ اس کی چاکری نہ کرنا‘ اس کے تحت پھلنے پھولنے کی کوشش نہ کرنا‘ بلکہ اپنے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کم سے کم پر قناعت کرتے ہوئے اپنے باقی اوقات اور صلاحیتوں اور وسائل و ذرائع کو اللہ کے دین کے لیے کھپا دینا آپ کے لیے فرضِ عین ہے. میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ اس کا کفارہ ہے.لیکن اس کے لیے التزامِ جماعت ناگزیر ہے ‘جماعت کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا. رسول اللہ‘ نے التزامِ جماعت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور یہ جوامع الکلم قسم کی احادیث ہیں. فرمایا: عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ (ترمذی) ’’تم پر جماعت سے وابستگی لازم ہے‘‘. یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ (مجمع الزوائد) ’’اللہ کا ہاتھ‘ یعنی اس کی تائید و نصرت جماعت پر آتی ہے‘‘. 

اس ضمن میں عظیم ترین حدیث وہ ہے جو حضرت حارث الاشعری ؓ سے مروی ہے. یہ مشکوٰۃ شریف (کتاب الامارۃ )میں بھی ہے اور یہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی روایت ہے. حضور  نے فرمایا:

اِنِّیْ آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ [اللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِھِنَّ] بِالْجَمَاعَۃِ‘ وَالسَّمْعِ‘ وَالطَّاعَۃِ‘ وَالْھِجْرَۃِ‘ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
’’(دیکھو مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. (ایک روایت میں اضافی الفاظ ہیں : اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے) جماعت کا‘ سننے اور ماننے کا اور ہجرت اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا.‘‘

خود حدیث میں وضاحت فرما دی گئی کہ جماعت محض لوگوں کا انبوہ نہ ہو‘ بلکہ سمع و طاعت والی جماعت ہو. وہ جماعت 
Listen and Obey والی ہو‘ اس کا ڈسپلن مضبوط ہو.

?Theirs not to reason why 
!Theirs but to do and die 

یہ چیزیں عوام کے ذہنوں سے نکل گئی تھیں‘ خواص بھی ان احادیث کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے ہیں کہ بس جی پوری امت جماعت ہے. لَا حولَ ولا قوَّۃ اِلاَّ باللّٰہ. جماعت کا تو ایک امیر یا امام ہوا کرتا ہے‘ بغیر امام کے جماعت نہیں ہوتی. اس جماعت کا امیر کون ہے؟شاہ فہد صاحب ہیں یا پرویز مشرف صاحب ہیں؟ کسی نے کہا جو ہماری حکومتیں ہیں وہی ہماری جماعتیں ہیں. تو گویا آپ کی بیعت پرویز مشرف صاحب سے ہے‘ یاکبھی بھٹو صاحب سے تھی. یہ چور دروازے ہیں‘ اِدھر سے اُدھر بھاگنا ہے‘ ذمہ داریوں سے کترانا ہے اور اس کے لیے اس طرح کے عذرات تراشنا ہیں. حضرت عمرؓفرماتے ہیں کہ جماعت کے بغیر اسلام ہی نہیں. نوٹ کیجیے یہ بھی حدیث شمار ہوتی ہے. حدیث اخبار اور آثار کا مجموعہ ہے. ’’خبر ‘‘رسول اللہ کے قول‘ فعل یا تقریر کا نام ہے (تقریر سے مراد ہے کہ کوئی کام حضور کے سامنے ہوا اور آپؐ نے اسے نہیں روکا) جبکہ صحابیؓ کے قول و فعل اور تقریر کو ہم ’’اثر‘‘ کہتے ہیں. خبر کی جمع اخبار اور اثر کی جمع آثار ہے. چنانچہ یہ بھی حدیث ہے. حضرت عمر ؓ ‘فرماتے ہیں:

اِنَّــہٗ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃٍ وَلَا جَمَاعَۃَ اِلاَّ بِاِمَـــارَۃٍ وَلَا اِمَارَۃَ اِلاَّ بِطَاعَۃٍ
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں ہے اور امارت کے بغیر جماعت نہیں ہے اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں ہے.‘‘

اب آپ پر لازم ہے کہ فریضہ ٔاقامت دین کی جدوجہد کے لیے جو بھی موجودہ 
(existing) جماعتیں ہیں ان میں سے جس پر آپ کا دل مطمئن ہو‘ اسے قبول کریں اور اس میں بلاتاخیر شامل ہو جائیں. اس کے لیے میں آپ کے سامنے چار معیارات (Cardinal Characteristics) رکھ رہا ہوں.ان کی راہنمائی میں آپ تلاش کریں‘ یہ آپ کا کام ہے. ہماری دسویں جماعت کی عربی کی کتاب میں آخری نظم یہ تھی : ’’ فَتِّشْ لِقَلْبِکَ عَنْ رَفِیْقٍ!‘‘ یعنی ’’اپنے دل کے لیے کوئی رفیق تلاش کرو!‘‘ کوئی تو ہو جس سے تم دل کی بات کر سکو. میں آپ سے کہتا ہوں ؏ ’’ فَتِّشْ لِنَفْسِکَ عَنْ جَمَاعَۃٍ ! کہ اپنے لیے کوئی جماعت تلاش کرو!

اگر کوئی جماعت آپ کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو آپ کو ارادہ کرنا ہو گا کہ کھڑے ہوں اور خود جماعت قائم کریں. اس میں جو وقت بھی گزرے گا وہ ’’تیمم‘‘ کے درجے میں ہو گا. تیمم کے لفظی معانی ارادہ کرنے کے ہیں. قرآن حکیم میں ارشاد ہے : 
فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا (المائدۃ:۶یعنی ’’(اگر پانی موجود نہیں ہے) تو قصد کرو پاک مٹی کا‘‘. امام اور تیمم ‘ان الفاظ کا مادہ تو ایک ہی ہے. تیمم یہ ہو گا کہ جو انسان طے کر لے کہ کوئی جماعت اس کے معیار پر پوری نہیں اتر رہی وہ ارادہ کر لے کہ مجھے اس جدوجہد کے لیے خود جماعت قائم کرنی ہے. جو شخص ہر جماعت کو کسی دلیل کی بنا پر رد کرتا ہے کہ اس میں یہ خرابی ہے‘ اس کا مطلب ہے اس کے ذہن میں جماعت کا ایک تصور موجود ہے‘ ایک معیار ہے‘ ایک ہیولا ہے‘ ایک فریم آف ریفرنس ہے. اب اس کو چاہیے کہ اپنے اس ہیولے کو سامنے لائے اور لوگوں سے کہے کہ آؤ میرے دست و بازو بنو! میرے ساتھ جمع ہو جاؤ! ہم جماعت بنیں گے. ایک اکیلا ہوتا ہے اور دو کی حیثیت جماعت کی ہوتی ہے. ایک امام اور ایک مقتدی ہو تو جماعت بن جائے گی. 

میں اپنی زندگی کا ہلکا سا نقشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. تقریباً ۱۸ برس کی عمر میں مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی جو اب میں آپ کے سامنے ۶۸ برس کی عمر میں رکھ رہا ہوں. پچاس سال سے میں خود بھی اس پر کاربند ہوں اور میں نے حتی الامکان اسے عام بھی کیا ہے. میں زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن رہا اور جس دن میرا ایم بی بی ایس فائنل ایئر کا رزلٹ آیا تو میں اسی دن چاہتا تھا کہ جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست لکھ دوں تاکہ کوئی ایک رات بھی مجھ پر بغیر جماعت کے نہ آئے. پندرہ دن کی تاخیر صرف اس وجہ سے ہوئی کہ مولانا اصلاحی صاحبؒ اس وقت قائم مقام امیر جماعت تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ میں لاہور ہی میں مقیم رہوں جب کہ میرا خیال تھا کہ میں منٹگمری (ساہیوال) چلا جاؤں. پندرہ دن اسی معاملے میں گزر گئے‘ ساہیوال جاتے ہی پہلا کام میں نے یہ کیا کہ جماعت کی رکنیت کی درخواست دے دی. اس میں لکھ دیا کہ چاہتا تو میں یہ تھا کہ ایک دن بھی مجھ پر جماعتی زندگی کے بغیر نہ گزرے‘ لیکن صرف اس وجہ سے کہ معلوم نہ تھا کہاں 
settle ہوں گا اور کہاں درخواست دینی چاہیے (حلقہ لاہور میں یا حلقہ اوکاڑہ میں) تقریباً پندرہ دن کی تاخیر ہو گئی ہے.

پھر جب جماعت سے علیحدہ ہوا تو مسلسل چار سال تک مولانا امین احسن اصلاحی‘ مولانا عبدالغفار حسن اور مولانا عبدالرحیم اشرف جیسے بزرگوں کے پیچھے دن رات ایک 
کیا. میری کوشش تھی کہ یہ اکابر ایک جماعت بنا لیں. میری عمر تو اُس وقت صرف پچیس برس تھی. تاہم جب ان سے مایوس ہوا تو طے کر لیا تھا کہ میں اب خود کھڑا ہوں گا. اُس وقت سے میں ’’تیمم‘‘ پر تھا. یہاں تک کہ جب میں نے ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن قائم کی تو اُس وقت بھی واضح کر دیا تھا کہ میرے پیشِ نظر صرف انجمن نہیں ہے‘ جماعت کا قیام ہے. اس کے بعد ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی قائم کر لی. چنانچہ ’’وضو‘‘ والا درجہ تو یہ ہے کہ ایک شخص جماعت میں شامل ہے اور ایک درجہ یہ ہے کہ جماعت کا متلاشی ہے‘ یا یہ کہ طے کر چکا ہے کہ اس وقت مطلوبہ جماعت موجود نہیں ہے اور مجھے خود جماعت بنانی ہے. یہ گویا قائم مقام ہو گا‘ جیسے تیمم وضو کے قائم مقام ہے. لیکن اگر یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں تو پھر وہی بات ہے کہ آپ بغیر جماعت کے ہیں‘ بغیر جماعت کے ہیں تو آپ اس اقامت دین کی جدوجہد میں شریک نہیں ہیں. اور اگر آپ اس جدوجہد میں شریک نہیں ہیں تو کفارہ ادا نہیں کر رہے. اس کا مطلب ہے کہ آپ کی بندگی جزوی ہے اور آپ کے لیے سورۃ البقرۃ کی یہ آیت تلوار بن کر سر پر لٹکی ہے: 

فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵
جہاں تک ’’خِزْیٌ فِی الْحَیٰــوۃِ الدُّنْیَا‘‘ یعنی دنیا کی رسوائی کا معاملہ ہے اسے تو ہم آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں. اس آیت کے آخر میں فرمایا: ’’اللہ اس سے غافل نہیں ہے جو کچھ تم کر رہے ہو‘‘.تمہاری داڑھیوں سے‘ حج و عمرہ سے اور تمہارے اعتکافوں سے اللہ دھوکہ نہیں کھائے گا. وہ جانتا ہے تمہاری کمائی حلال کی ہے یا حرام کی ‘ تمہارے گھر میں پردہ بھی نافذ ہے یا نہیں. تم تو شریعت کے اتنے حصے پر بھی عمل پیرا نہیں ہو جتنے پر عمل کر سکتے ہو‘ کجا یہ کہ جس پر عمل کر ہی نہیں سکتے اس کا کفارہ ادا کرو.

اقامت ِدین کے لیے مطلوبہ جماعت کے خصائص

اب آیئے کہ اِس جماعت کی تلاش کیسے کی جائے! اس جماعت کے چار بنیادی خصائص (Cardinal Characteristics) یہ ہیں: (۱) اس جماعت کا اعلانیہ ہدف (declared goal) اقامتِ دین ہونا چاہیے.کرنے کے اور بھی بہت سے اچھے کام ہیں‘ جیسے غالب نے کہا ہے ؎

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور!

چنانچہ علمی ‘تعلیمی‘ تبلیغی‘ اصلاحی اور خدمت ِخلق جیسے بہت سے کام ہیں. ان میں سے ہر ایک کام کرنا اچھا ہے‘ لیکن آپ یہ کہہ لیں کہ یہ سارے کام اس ایک کام میں بالقوۃ موجود ہیں‘ گویا implied ہیں. اس جماعت کا ہدف برملا اور اعلانیہ یہ ہو کہ یہ جماعت اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قائم کی گئی ہے‘ اس کا مقصد دین کو مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے دنیا میں قائم کرنا ہے. 

(۲) یہ جماعت حد درجے منظم ہو اور سمع و طاعت 
(Listen and Obey) کے اصول پر پوری طرح عمل پیرا ہو‘ جس میں کہ صرف ایک استثناء ہو گا کہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا تو نہیں مانیں گے‘ باقی شریعت کے دائرے کے اندر اندر جو بھی نظمِ جماعت کے تحت فیصلہ ہو گا وہ ہمیں قبول کرنا ہو گا اور اس پر عمل کرنا ہو گا. اس سمع و طاعت (Listen and Obey) کا نام ہی بیعت ہے.

واضح رہے کہ بیعت ’’بیع‘‘ سے ہے‘ یعنی اپنے آپ کو بیچ دینا‘ کسی کے حوالے کر دینا کہ جو حکم دیں گے وہ میں مانوں گا. اسی کا تذکرہ سورۃ التوبۃ کی آیت ۱۱۱ میں ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ… فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱
’’یقینا اللہ نے خرید لیے ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے میں. وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں … پس تم خوشیاں مناؤ اس بیع پر جو تم نے اللہ کے ساتھ کی ہے. یہی ہے اصل کامیابی.‘‘

پھر جو بیع اللہ سے ہوئی تھی اس کی بیعت حضور کے ہاتھ پر ہوئی: 
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ
(الفتح:۱۰

’’(اے نبیؐ !) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کر رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.‘‘
ایک ہاتھ حضور کا ہوتا تھا‘ دوسرا ہاتھ بیعت کرنے والے صحابی کا‘ جبکہ تیسرا غیر مرئی 
(invisible) ہاتھ اللہ کا. یہ بیعت ہے.

البتہ بیعت کے بارے میں دو وضاحتیں ہیں. یہ بیعت دستوری بھی ہو سکتی ہے یعنی اس جماعت کا یہ دستور ہے‘ یہ مقصد ہے‘ اقامت ِدین کے لیے یہ جماعت قائم ہوئی ہے‘ فلاں شخص اس کا رکن بن سکتا ہے. یہ ارکان اپنے میں سے ایک معین وقت کے لئے امیر چنیں گے‘ مثلاً پانچ سال کےلئے یا دو سال کے لئے. پھر یہ کہ اس کے لئے ایک شوریٰ ہو گی‘ جسے ارکانِ جماعت منتخب کریں گے‘ پھر ارکان اور شوریٰ کے اختیارات کا تعین ہوگا.طے کیا جائے گا کہ امیر کے کیا اختیارات ہوں گے. یہ دستور 
(constitution) ہے. ایک شخص جماعت میں شامل ہوتے وقت اس دستور کا حلف اٹھائے گا کہ میں اس کی اطاعت کروں گا تو یہی اس کی بیعت ہے. یہ دستوری (constitutional) بیعت ہے اور یہ مباح اور جائز ہے‘ حرام نہیں ہے ‘ لیکن وہ بیعت جو منصوص‘ مسنون اور ماثور ہے‘ لہذا اس دستوری بیعت سے کم از کم تین درجے افضل ہے‘ وہ شخصی بیعت ہے‘ یعنی کسی شخص(individual) سے بیعت کرنا کہ مَیں اپنے آپ کو آپ سے وابستہ کر رہا ہوں ‘ جو حکم آپ دیں گے میں اسے مانوں گا بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو‘ اپنا مشورہ ضرور پیش کروں گا لیکن فیصلہ آپ کے اختیار میں ہو گا. یہ شخصی بیعت ہے.

میں نے اس کے لیے تین الفاظ (منصوص‘ مسنون اور ماثور) استعمال کیے ہیں. رسول اللہ سے کسی صحابی نے پوچھا: ’’حضور میرے حسنِ سلوک کا اوّلین مستحق کون ہے؟حضور‘ نے فرمایا : تمہاری والدہ. پوچھا : پھر کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ. پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ. چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا : تمہارا والد. چنانچہ ادب اور خدمت کے حوالے سے والدہ کا حق والد کے مقابلے میں 
تین گنا زیادہ ہے. اسی طرح شخصی بیعت ‘دستوری بیعت سے تین گنا افضل ہے. چونکہ قرآن اور حدیث میں اس کا ذکر ہے‘ لہذا یہ منصوص ہے. پھر یہی مسنون ہے‘ کیونکہ پوری سیرت میں ہم اس کا تذکرہ دیکھتے ہیں. حضور کے بعد سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کا ہر اجتماعی کام اسی بیعت کی بنیاد پر ہوا ہے‘ لہذا یہ ماثور بھی ہے. خلافت کا نظام قائم تھاتو بیعت کی بنیاد پر. حضرات ابوبکرؓ ‘ عمرؓ ‘ عثمانؓ ‘ علی ؓ کی بیعت منعقد ہوئی تھی.پھر یہ کہ خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی تھی تو وہ نظام بھی بیعت پر قائم تھا. یزید کی امارت کے لیے بھی لوگوں سے بیعت لی گئی تھی. اس کے خلاف اگر حضرت حسین ؓ کھڑے ہوئے تو وہ بھی بیعت لے کر.عبد اللہ ؓ بن زبیر ؓ بھی بیعت لے کر کھڑے ہوئے. حضرت نفس زکیہ اور امام زید رحمۃ اللہ علیہما بیعت لے کر سامنے آئے. پھر انیسویں صدی میں جب نو آبادیاتی نظام (colonial rule) آیا تو جس ملک میں بھی اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلی اور یورپی استعمار کے خلاف جہاد کیا گیا تو وہ بھی بیعت کی بنیاد ہی پر ہوا. سوڈان میں مہدی سوڈانی‘ لیبیا میں سنّوسی ‘ الجزائر میں عبدالقادر الجزائری اور روس میں امام شامل نے بیعت کی بنیاد پر لوگوں کو جہاد کے لیے منظم کیا. اس ضمن میں سب سے بڑی جہادی تحریک ہندوستان میں سید احمد بریلویؒ اور ان کے سب سے بڑے لیفٹیننٹ شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اٹھائی جو بیعت کی بنیاد پر ہی تھی. پھر بیسویں صدی کے آغاز میں کوشش ہوئی تھی کہ ابوالکلام آزاد کو ’’امام الہند‘‘ مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے‘ لیکن وہ کوشش ناکام ہو گئی. اس کے بعد مذہبی دنیا میں انتشار ہے ‘ chaos ہے‘ تفریق در تفریق ہے. بہرحال ہم نے تنظیم اسلامی قائم کی ہے‘ جس کا نظم شخصی بیعت کی بنیاد پر قائم ہے.

رسول اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے جو بیعت لی اس کے الفاظ احادیث میں نقل ہوئے ہیں. یہ حدیث متفق علیہ ہے ‘یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں آئی ہے. حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ  عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَ مَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 
’’ہم نے بیعت کی تھی اللہ کے رسول سے اس پر کہ آپ کا ہر حکم سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے‘ مشکل میں بھی اور آسانی میں بھی‘ چاہے طبیعت آمادہ ہو چاہے طبیعت پر جبر کرنا پڑے‘ چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے‘ اور جن کو بھی آپ امیر بنائیں گے ہم ان سے جھگڑیں گے نہیں‘ اور یہ کہ جہاں کہیں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے‘ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کے خوف سے زبان پر تالا نہیں ڈالیں گے .‘‘

یہ اس بیعت کے نکات ہیں جو حدیث میں بیان ہوئے. اور اس امت کی اس قدر ناشکری ہے کہ اس وقت بیعت کی بنیاد پر کوئی جماعت قائم نہیں ہے‘ سوائے تنظیم اسلامی کے. ہم نے تنظیم کے رفقاء کے لیے بیعت کے جو الفاظ رکھے ہیں وہ اسی حدیث سے ماخوذ ہیں. ہم نے اس بیعت میں 
’’فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ کا اضافہ کیا ہے : ’’اِنِّیْ اُبَایِعُکَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْمَعْرُوْفِ‘‘ اور یہ اضافہ بھی حدیث کی بنیاد پر کیا گیا ہے. اسی حدیث کی جو مسلم شریف کی روایت میں ہے اس میں یہ اضافی الفاظ موجود ہیں. رسول اللہ‘ تو ظاہر بات ہے کوئی غلط حکم نہیں دے سکتے تھے‘ لیکن فرض کریں آپؐ نے کوئی لشکر بھیجا ہے تو اس کا ایک امیر ہے‘ اس کی اطاعت بھی تو کرنی ہے‘ وہ امیر کوئی غلط کام کر سکتا ہے‘ غلط حکم دے سکتا ہے‘ لہذا فرمایا:

اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ فِیْہِ مِنَ اللّٰہِ بُرْھَانٌ
’’اِلاّ یہ کہ تم (اپنے امیر کی طرف سے) کوئی ایسا کفر دیکھوجس کے لیے تمہارے پاس (کتاب و سنت سے) کھلی دلیل موجود ہو (کہ یہ کفر ہے).‘‘

تب تم کہہ سکتے ہو کہ 
’’لَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ‘‘ . ہم نے اپنی بیعت میں اسی اصول کو اختیار کیا ہے. بیعت کے باقی الفاظ وہی ہیں جو متذکرہ بالا حدیث میں آئے ہیں.

مسلم شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے ایک طویل حدیث مروی ہے‘ جس میں یہ الفاظ آئے ہیں:

مَنْ مَاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً 
’’جو مسلمان مرا اس حال میں کہ اس کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے وہ جاہلیت کی موت مرا.‘‘

دیکھئے کس قدر دوٹوک الفاظ استعمال کیے گئے ہیں. میں نے عرض کیا تھا کہ بیعت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنے آپ کو بیچ دینا. جیسے آپ قربانی کے لیے جانور خرید کر لے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کی گردن میں آپ نے ایک رسی ڈالی ہوئی ہوتی ہے جو آپ نے خود تھام رکھی ہوتی ہے. بالکل یہی کیفیت نظم جماعت کی ہے.جس شخص کی آپ نے بیعت کی ہے گویا کہ اپنی گردن میں قلادہ ڈال کر اس کے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ جدھر حکم دو گے ادھر مڑ جائیں گے. لیکن اگر کسی شخص کی گردن میں بیعت کا قلادہ نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا. جاہلیت سے مراد حضور‘ سے پہلے کا معاشرہ ہے.

اس بیعت کی دو ہی شکلیں ہوتی ہیں. اوّلاً:اسلامی نظامِ خلافت موجود ہے تو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گی. اور ثانیاً: اگر اسلامی نظامِ خلافت موجود نہیں ہے تو وہ خود بخود آسمان سے تو ٹپکے گا نہیں‘ اسے قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑے گی اور اس جدوجہد کے لیے جماعت اسی طرح لازم و ملزوم ہے جیسے نماز کے لیے وضو.چنانچہ جماعت کے امیر کے ہاتھ پر بیعت ہو جائے گی. تیسری کوئی شکل سرے سے ہی نہیں. لیکن تاویلیں کرنے والے نہ معلوم کیا کیا تاویلیں کرتے ہیں!

اقامت دین کی جدوجہد کے لیے مطلوبہ جماعت کے خصائص اربعہ میں سے دو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں. ان کا اعادہ کرتے ہوئے آگے چلیے:

(۱) اس جماعت کے پیش نظر اقامت دین کا اعلانیہ ہدف ہو.

(۲) اس کا نظم سمع و طاعت والا ہو‘ چاہے وہ دستوری بیعت ہو جو کہ مباح اور جائز ہے‘ چاہے وہ شخصی بیعت ہو جو کہ تین درجے بہتر ہے.

(۳) آپ یہ معلوم کیجیے کہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اس جماعت کے پیش نظر طریق کار کیا ہے. ان سے معلوم کیجیے کہ آپ کیا کام کرنا چاہتے ہیں اور کیسے کرنا چاہتے ہیں! آپ ہمیں بتایئے کہ سیرت النبیؐ کے ساتھ اس کاکیا ربط و تعلق ہے؟ حضور کے منہاج کے ساتھ اس کا کیا correlation ہے؟ ان موضوعات پر میرے کتابچے موجود ہیں. بیعت سمع و طاعت کے موضوع پر میرا اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی کتابچہ موجود ہے. ’’منہج انقلاب نبویؐ ‘‘ کے عنوان سے چار سو صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب موجود ہے. ان موضوعات پر میرے بے شمار خطابات ہوئے ہیں‘ مختصر بھی ہیں‘ مطول بھی ہیں اور ان کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹ موجود ہیں. اقامت ِدین یا انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے لیے جو طریق کار اختیار کیا جائے وہ سیرت النبیؐ سے ماخوذ ہونا چاہیے اور اگر اس میں کہیں حالات کی مناسبت سے تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو‘ اجتہاد کرنا لازم ہو تو معین کرنا چاہیے کہ موجودہ حالات میں کیا بنیادی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں یہاں اجتہاد کرنا پڑا‘ اور وہ معین اجتہاد ہو گا‘ یہ نہیں کہ ہم سارے مسنون راستے کو چھوڑ دیں.

(۴) چوتھی اور آخری بات یہ کہ اس جماعت کی قیادت کے قریب ہو کر انہیں دیکھیں اور پرکھیں. اس لیے کہ پیچھے چلنے والوں میں تو ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں. حضور کے پیچھے صف اوّل میں عبد اللہ بن ابی منافق اعظم بھی کھڑا ہوتا تھا اور جب حضور خطبہ دینے کھڑے ہوتے تو وہ اپنی چوہدراہٹ ظاہر کرنے کے لیے کہا کرتا کہ لوگو غور سے سنو! یہ اللہ کے رسول ہیں‘ ان کی بات توجہ سے سنو! پیچھے چلنے والوں کا معاملہ مختلف بھی ہو سکتا ہے. لہذا آپ قیادت کے قریب ہو کر سونگھیں کہ خلوص و اخلاص اور للٰہیت کی خوشبو آ رہی ہے یا نفسانیت کی بدبو آ رہی ہے. کہیں اپنی شخصیت کی 
promotion یا جائیداد بنانے یا اپنے مفادات اور کاروبار چمکانے کے لیے تو یہ سارا ڈھونگ نہیں رچایاہوا ہے. میں نے ’’سونگھنے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ اس لیے کہ یہ تو بڑا مشکل ہوتا ہے کہ بہت تفصیل میں جا کر آپ دیکھ سکیں‘ البتہ ؏ ’’دل را بدل رہیست‘‘ کے مصداق آپ کو خوشبوآجائے گی یا بدبو بھی آ جائے گی.

ان چار معیارات پر جو جماعت پاس مارکس بھی لے جائے ‘آپ پر فرضِ عین ہے کہ 
اس میں شامل ہوں. آپ کا ایک دن بھی اس میں شمولیت کے بغیر نہیں گزرنا چاہیے‘ ورنہ آپ کا یہ دن کفر میں گزرے گا. سائیں عبدالرزاق صاحب یہ کہا کرتے تھے کہ ’’جو دم غافل سو دم کافر!‘‘ یعنی صوفیاء کے نزدیک کفر اور اسلام کی ایک definition یہ بھی ہے کہ انسان کا جو سانس اللہ کی یاد کے بغیر گزرا ہے وہ کفر کا سانس ہے. اقبال بھی کہتا ہے ؎

بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟ 

میرے نزدیک آپ پر جو دن اور رات جماعتی زندگی کے بغیر گزرے ‘وہ دن کفر کا دن اور وہ رات کفر کی رات ہے.

البتہ کسی جماعت میں شامل ہو کر بھی آنکھوں پر تعصب کی پٹی مت باندھ لیجیے. مزید غور کیجیے‘ سوچتے رہئے‘ آنکھیں دیکھتی رہیں‘ کان سنتے رہیں‘ دماغ سوچتا رہے‘ اگر اس سے بہتر کوئی جماعت نظر آئے تو اسے چھوڑ کر اس میں شامل ہو جائیں. اس لیے کہ اب نبی کی جماعت کوئی نہیں. نبی کی جماعت میں ایک دفعہ شامل ہو کر ‘ ایک مرتبہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر اگر آپ اسے چھوڑ دیں گے تو 
’’مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ‘‘ کے مصداق ٹھہریں گے.اب تو کوئی جماعت نبی کی جماعت نہیں ہے‘ سب ہمارے جیسے انسان ہیں. ہاں اللہ نے کسی کو درد زیادہ دے دیا‘ کسی کو سوچ اور فکر زیادہ دے دی‘ کسی میں قوتِ کار زیادہ رکھ دی‘ کسی کے اندر ذہانت زیادہ ہے‘ کسی کے لیے حالات ایسے سازگار کر دیے کہ اس پر حق واضح ہو گیا اور اس کو قبول کرنے کی ہمت بھی ہو گئی.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے‘ لیکن اس سے بڑھ کر کسی کو کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے. جیسے کہ ہم سورۂ حٰم السجدۃ کے درس میں پڑھتے ہیں:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳
’’اور اُس شخص سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور عمل صالح پر کاربند ہو اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں.‘‘ یعنی میں تم پر کوئی دھونس نہیں جمانا چاہتا کہ میں کوئی بہت بڑا متقی‘ بڑی روحانی شخصیت کا مالک اور کوئی بڑا عارف باللہ ہوں‘ بلکہ میں عام مسلمان ہوں.

یہ ہیں جماعت کے ضمن میں وہ چار خصائص جو دیکھنے ضروری ہیں. اگر ان خصائص پر پورا اترنے والی کوئی جماعت نہ ملے تو کھڑے ہو جائیں‘ کمر ہمت کس لیں اور اپنی جماعت بنانے کی تیاری کریں.

گر جیت گئے تو کیا کہنے‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں!

اب آخری نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ جدوجہد کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ جیسے میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے پوری زندگی یہ جدوجہد کی ہے‘ اس کے لیے اللہ ہی نے میرے لیے حالات سازگار بنائے. اب دو ہی امکانات ہیں کہ یا تو میں اسی دنیا میں اپنی زندگی ہی میں کامیابی دیکھ لوں یا مجھے اس زندگی میں اس کوشش کا کوئی ثمر نظر نہ آئے. تو جان لیجیے کہ اگر ہم دنیا میں ناکام رہتے ہیں تب بھی یہ ناکامی نہیں ہے‘ اس لیے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے.اگر میں نے یہ ساری جہد و کوشش خلوص و للہیت کے ساتھ کی ہے تو کم سے کم انفرادی سطح پر میری نجات لازم ہے. اگر کسی میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اے اللہ! تو نے مجھے جو توانائی‘ قوت‘ ذہانت‘ صلاحیت‘ وسائل و ذرائع اور جو اولاد دی میں نے اسی کام کے اندر لگا دی تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات کی امید کی جا سکتی ہے. اگر یہ ہو جائے تو ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یہی سب سے بڑی کامیابی ہو جائے گی. دوسری چیز (دنیا میں نصرت و کامیابی) کو تو قرآن ایک طرح سے تنقید کے انداز میں بیان کرتا ہے وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ’’ایک اور شے جو تمہیں بہت پسند ہے ‘‘ اللہ کو تو اس سے غرض ہی نہیں . اللہ کو اگر اس سے غرض ہو کہ دین قائم ہو جائے تو اسے ایک آن میں قائم کر دے وَھُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ یہ سارا سلسلہ تو تمہارے امتحان کے لیے ہے. اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کرنے والے کامیاب ہیں‘ چاہے وہ حضرت سمیہ اور یاسر رضی اللہ عنہماکی طرح مکہ میں ہی شہید کر دیے گئے . اس سے بڑی کامیابی کس کی ہو گی جن کو حضور نے خبر دی تھی کہ اصْبِرُوْا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃَ ’’اے یاسر کے گھر والو! صبر کرو‘ تمہارے استقبال کی تیاریاں تو جنت میں ہو رہی ہیں‘‘. حضرت حمزہؓ سمیت ستر صحابہؓ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے. ابھی تو سمجھئے پانچ سال کے بعد وہ منظر سامنے آنا تھا کہ جب حضور دس ہزار کے لشکر کے ہمراہ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے. ستر صحابہ کرام بئر معونہ پر لے جا کر ذبح کر دیے گئے. اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے. ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ (التغابن:۹’’وہی ہے اصل ہار جیت کے فیصلے کا دن‘‘. اصل کامیابی وہاں کی کامیابی ہے.
میری آج کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ جدوجہد نہیں ہے تو انفرادی نجات قطعاً نہیں ہے. اگر قرآن سچا ہے اور حضرت محمد سچے ہیں تو میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ اس کے بغیر ہماری انفرادی نجات ممکن نہیں ہے. یہ میرے پچاس برس کے مطالعۂ قرآن کا حاصل‘ لب لباب اور خلاصہ ہے.

ہماری اس جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہمارے سامنے بھی نکل سکتا ہے کہ ہم دُنیوی اعتبار سے بھی کامیاب ہو جائیں‘ اور ان شاء اللہ ضرور ہوں گے. آج نہیں تو کل ہوں گے‘ ہم نہیں ہوں گے تو ہماری اگلی نسل ہو گی. اس لیے کہ اس کی خبر تو محمد رسول اللہ نے دی ہے. اور اگر ہم کسی ایک ملک میں بھی اس نظام کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا ہو جائے گا. یہ اصل میں میرے فکر کی ایک اور 
dimension ہے. اس پر میری کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے موجود ہے.

اس وقت اُمت ِمسلمہ عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہے. اس کی ایک وجہ میں آپ کے سامنے پہلے بیان کر چکا ہوں کہ دین پر ہمارا عمل جزوی ہے‘ لہذا ہم 
خِزْیٌ فِی الْحَیٰـــوۃِ الــدُّنْیَا اور ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کی تصویر بنے ہوئے ہیں. اس کی عملی مثال کبھی یہودی تھے‘ آج ہم ہیں. دوسری بات یہ سمجھ لیجیے کہ جو امت حاملِ کتاب ہوتی ہے‘ شریعت الٰہی کی حامل ہوتی ہے اور اللہ کے رسول کی امت ہونے کی مدعی ہوتی ہے وہ زمین پر اللہ کی نمائندہ ہوتی ہے. اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی کرے تو وہ کافروں سے بڑھ کر مجرم ہے. اس وجہ سے آج ہم عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہیں اور عذاب الٰہی کی یہ گرفت ڈھیلی نہیں پڑے گی‘ ہلکی بھی نہیں ہو گی‘ سخت سے سخت تر ہوتی چلی جائے گی جب تک کہ کسی ایک قابل ذکر ملک میں اللہ کے نظام کو قائم کر کے پوری دنیا کے لیے فرض کفایہ ادا نہ ہو جائے کہ بھئی دیکھو‘ یہ ہے اسلام. آؤ اپنی آنکھوں سے دیکھو‘ یہ ہے اسلام کا نظامِ حکومت‘ یہ ہے اسلام کا معاشی‘ عمرانی اور سوشل نظام. آؤ اور اس کی برکات کو دیکھو. افغانستان میں نظام اسلام کی تھوڑی سی برکات ہمارے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب دیکھ کر آئے ہیں. وہاں اگرچہ ابھی نظام کی بات نہیں ہے‘ لیکن شریعت کے احکام کچھ نافذ ہوئے ہیں‘ ان کی برکتیں وہ دیکھ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر دوسرے ملکوں میں بھی وہی نظام نافذ ہو جائے جو وہاں ہے تو پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی. (۱یہ تاثر ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہے‘ حالانکہ وہ آزاد خیال آدمی ہیں. میں نے ان کا یہ بیان پڑھا تو وقت لے کر ان کے پاس گیا اور انہیں مبارک باد پیش کی. نوٹ کیجیے کہ اگر ہم یہ کرتے ہیں تو پوری اُمت کی جانب سے فرض کفایہ ادا ہو جائے گا.

خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دورِ ثانی

اب ا س کے ضمن میں چند سال سے میرا ایک فکر سامنے آیا ہے جس سے کہ ہم نے خلافت کی تحریک کا آغاز کیا. اس کے نکات نوٹ کر لیجیے:
(۱) اس دنیا کے خاتمے سے قبل کُل روئے ارضی پر اللہ کا دین قائم ہو کر رہے گا. اس کے ضمن میں ہم نے بہت سی احادیث عام کی ہیں اور ان احادیث پر مشتمل کتابچے ہم نے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کیے ہیں.

(۲) اس بات کے اشارے ملتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نقطۂ آغاز ارضِ افغانستان اور پاکستان ہوں گے‘ اگرچہ حالات ان کے لیے بھی بہت سخت ہیں اور ہمارے لیے بھی بہت کڑے ہیں. لیکن ان دونوں ممالک کا معاملہ بڑا عجیب ہے. دستوری اعتبار سے پاکستان میں خلافت کے تمام تقاضے پورے کیے جا چکے ہیں‘ اگرچہ 
(۱) محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۰ء کا ہے جب افغانستان میں طالبان حکومت قائم تھی. دستور کے اندر چور دروازے موجود ہیں‘ اسی لیے میں اسے ’’منافقت کا پلندہ‘‘ کہتا ہوں. لیکن اگر یہ چور دروازے بند کر دیے جائیں تو ہمارا دستور کامل اسلامی دستور ہوجائے گا. اس میں اللہ کی حاکمیت پر مشتمل قراردادِ مقاصد موجود ہے‘ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پاس جو اختیار ہے وہ ہمارا ذاتی نہیں ہے‘ بلکہ یہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ہے اور یہ اختیار صرف حاکم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی معین کردہ حدود ہی میں استعمال ہو گا.

اس دستور کی دفعہ ۲۲۷ بھی موجود ہے :
.No legislation can be done here repugnant to the Quran and the Sunnah

لیکن چور دروازے بھی ہیں. فیڈرل شریعت کورٹ موجود ہے لیکن اس پر ایک ہتھکڑی اور ایک بیڑی اب تک پڑی ہوئی ہے. ایک بیڑی (معاشی معاملات سے متعلق) اتفاق سے دس سال قبل کھل گئی تھی. تب اس نے فیصلہ دیا تھا کہ بینک انٹرسٹ سود ہے‘ ربا ہے اور حرام ہے. ابھی تک تو ہم اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکے اور عملی اعتبار سے بہت دور ہیں‘ لیکن دستوری اعتبار سے آج ہم نظامِ خلافت کے بہت قریب ہیں. آج کی دنیا کے اعتبار سے دستور کی بہت بڑی اہمیت ہے. سیاسی اور معاشی اعتبار سے نظری طور پر ہم نے بہت پیش رفت کر لی ہے لیکن حقیقتاً قوانین شریعت کا معاملہ بہت کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہے‘ جبکہ افغانستان میں تو دستور اور نظام کا ابھی تصور ہی نہیں ہے. تاہم انہوں نے شریعت اسلامی کے ایک خاص مکتب فکر یعنی فقہ حنفی کی تنفیذ کر دی ہے.

دونوں ملکوں کے حالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب قدرت ہمیں قریب سے قریب تر ہونے پر مجبور کر رہی ہے. افغانستان میں روس کا اپنی فوجیں داخل کردینا‘ جواب میں وہاں سے شدیدردعمل کا اٹھنا‘ پھر ضیاء الحق کے دور میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ جانا اور پاکستان کے راستے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کرنا‘ یہ سب معاملات ایسے تھے کہ ان کے نتیجے میں ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایٹم بم بھی بنا لیا. پھر اس موقع نے ہمیں افغانستان کے قریب تر کر دیا. آپ تصور کیجیے کہ یہ وہ ملک 
تھا جس کا شہر کابل بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی میں پیرس کی مانند تھا. ظاہر شاہ جب پاکستان آئے تھے تو ان کی ملکہ سکرٹ میں ملبوس تھیں‘ نیم عریاں لباس میں تھیں اور اب وہاں برقع کے بغیر کوئی عورت نظر نہیں آتی. کیسی کیسی کرامات ظہور میں آ گئی ہیں. اب اگر وہاں پابندیاں لگتی ہیں تو پاکستان کڑے امتحان میں گرفتار ہو جائے گا. اب ہمارے لیے دو ہی راستے ہیں. یا تو اقوام متحدہ کے خلاف بغاوت کیجیے. اور اگر نہیں کرتے اور افغانستان کے معاملات میں اس کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرتے ہیں تو اس ملک کے اندر ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا. اگر کسی کے اندر ذرا سی بھی بصیرت ہے تو وہ ایسی حماقت نہیں کرے گا. لہذا امریکہ خود ہمیں ایک رسّی کے ساتھ باندھ رہا ہے کہ تم ایک ہی ہو‘ باہم جڑ جاؤ‘ ایک ہو جاؤ. (۱)

نظامِ خلافت کی علمبردار دوتنظیموں حزب التحریر اور المہاجرون نے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے. شہر بھر میں بہت بڑے پیمانے پر ان کے بینرز لگے ہیں اور بڑے خوبصورت اور نفیس ہینڈ بل شائع ہو رہے ہیں. ان میں ای میل ایڈریس بھی دیے گئے ہیں. کم از کم ایک گروپ کا تو پورا پتہ بھی تحریر ہے. ایک صاحب نے جو جماعت اسلامی کے رکن ہیں ‘مجھ سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے حکومت کی ایجنسیز نے یہ سلسلہ اٹھایا ہے. انہیں شاید معلوم نہیں ہو گا ‘ میں ان کا پس منظر جانتا ہوں. ان تنظیموں کا رشتہ الاخوان المسلمون سے قریباً وہی ہے جو تنظیم اسلامی کا رشتہ جماعت اسلامی سے ہے‘ بہت تھوڑا سا فرق ہے. میں جمعیت اور جماعت میں دس برس شامل رہا ہوں اور مولانا مودودیؒ سے بہت قریب رہا ہوں. علامہ تقی الدین نبہانی ؒ الاخوان کے اوّلین مرشد عام اور مؤسس یعنی حسن البناء شہیدؒ کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ لیکن غالباً الاخوان میں یہ شامل نہیں ہوئے تھے‘ تاہم فکر ایک ہی تھا. اس کے (۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب ۳۱؍دسمبر ۲۰۰۰ء کا ہے .افسوس کہ ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد حکومت پاکستان نے امریکہ کے آلۂ کار ہونے کا کردار ادا کیا اور طالبان حکومت افغانستان میں اسلامی معاشرے کے قیام کی جس جدوجہد میں مصروف تھی اسے یکسرسبوتا ژ کر دیا گیا. کے بعد انہوں نے اپنے طور پر ’’حزب التحریر‘‘ قائم کی. یہ اردن کے رہنے والے تھے. انہوں نے کافی کتابیں لکھی تھیں اور خاص طور پر اسلامی فقہ ان کا موضوع تھا. یعنی اب اگر اسلامی نظام قائم ہو گا تو اس میں فقہی اعتبار سے کیا کیا امور غور طلب ہیں‘ اس حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا ہے. چند سال پہلے حزب التحریر ہی سے ’’المہاجرون‘‘ کا ایک گروپ علیحدہ ہوا ہے. انگلینڈ میں حزب التحریر کے بہت بڑے لیڈر بِکری تھے‘ جنہوں نے علیحدہ ہو کر المہاجرون قائم کی ہے. ان کا بنیادی فکر ایک ہی ہے. یہ اصل میں انہی احیائی تحریکوں کا تسلسل ہے جو ایک وقت میں عالم اسلام میں شروع ہوئی تھیں. انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی‘ ہندوستان میں جماعت اسلامی‘ ایران میں فدائین‘ مصر میں الاخوان‘ لبنان میں عبادالرحمن اور ترکی میں سعید نورسی کی تحریک‘ یہ تمام تحریکیں ایک وقت میں شروع ہوئی تھیں.نعیم صدیقی مرحوم نے ان تحریکوں کے بارے میں بڑا پیارا شعر کہا تھا ؎

ہے ایک ہی جذبہ کہیں واضح کہیں مبہم
ہے ایک ہی نغمہ کہیں اونچا کہیں مدّھم!

ان تحریکوں میں ایک ہی نغمہ یعنی ایک ہی فکر اور ایک ہی سوچ کارفرما ہے. ان تحریکوں پر چونکہ ستر برس گزر گئے ہیں لہذا ان پر بڑھاپا بھی طاری ہو گیا ہے. اب تک کسی کو خاص کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی. ان میں سے کچھ گروپ علیحدہ ہوئے ہیں. جیسے مَیں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہواتو میں نے ایک علیحدہ جماعت تنظیم اسلامی بنائی‘ لیکن میرا فکر تو وہی ہے‘ میں نے اس فکرسے کبھی اعلانِ براء ت نہیں کیا. اسی طرح یہ تحریک حزب التحریر ہے. یہ لوگ خلافت کے عنوان سے کام کر رہے ہیں. ان کے اکثر لوگ امریکہ یا انگلینڈ میں ہیں‘ عالم اسلام میں ان پر ہر جگہ پابندی عائد ہے‘ سوائے پاکستان کے کہ یہاں کچھ آزادیاں حاصل ہیں (۱. مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ لندن میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے کارکن جمع ہوئے اور وہاں اس بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ پوری دنیا میں اسلام کے صحیح اور مکمل نظام کا اگر کوئی امکان کسی ملک میں ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان میں ہے. اس کے ضمن میں یہ ایک مزید گواہی ہے کہ حزب التحریر اور المہاجرون نے یہ سمجھا ہے کہ کام کرنے کا موقع اگر کہیں ہے تو یہاں ہے‘ کیونکہ یہاں پر بہرحال حقوق ہیں. آپ بات کر سکتے ہیں‘ تقریریں کر سکتے ہیں‘ آپ جماعت بنا سکتے ہیں‘ جب تک امن و امان کا مسئلہ نہ کھڑا کیا جائے اورکوئی توڑ پھوڑ نہ کی جائے اس وقت تک آپ کو آزادی ٔ اظہارِ خیال کے اختیارات حاصل ہیں. اس وجہ سے یہ تحریکیں یہاں آئی ہیں. اللہ کرے ان کے ذریعے سے بھی مزید کچھ لوگوں کے اندر آگاہی (awareness) پیدا ہو جائے. بہرحال یہ بھی درحقیقت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ؎

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے!

اصل بات ہمت‘ ارادے اور عزم کی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے استقامت طلب کرنی چاہیے.

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات 

(۱) اب پاکستان میں یہ صورت حال برقرار نہیں اور یہاں بھی حزب التحریر پر پابندی عائد کی جا چکی ہے.