جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ

الحمد للّٰہ وکفی والصلوۃ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی 
خصوصا علی افضلھم سید المرسلین خاتم النبیین 
محمدٍ الامین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین… امَّا بَعد:
فاعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰
فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ 
(الفرقان)
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ (آل عمران:۱۰۳)

صدق اللّٰہ العظیم 

خطبۂ مسنونہ ‘ تلاوتِ آیات اور ادعیۂ ماثورہ کے بعد:

میں نے جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری دینی‘ ملّی‘ قومی اور معاشرتی زندگی میں اِس وقت پانچ محاذ ایسے ہیں جو جہاد بالقرآن کے شدید طور پر متقاضی ہیں رہا مسلمانوں سے باہر کا دائرہ تو وہ ابھی بڑی دُور کی بات ہے. پہلا مسئلہ تو 
’’Physician heals thyself‘‘ کے مصداق خود اپنا ہے. اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو پوری نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی کے لیے برپا فرمایا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ’’تم وہ بہترین اُمت ہوجس کو نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘ دنیا کی دوسری قومیں اپنے لیے جیتی ہیں لیکن تمہیں ان کے لیے جینا ہے. بقول علامہ اقبال ؎

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے‘ جام رہے؟

ہماری مثال تو اس ساقی کی سی ہے جس کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا جامِ ہدایت تھما دیا ہے اور ایک ایک فردِ نوعِ بشر کو اس سے سیراب کرنا ہماری ذمہ داری ٹھہرائی ہے. لیکن میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے. اِس وقت یہ خیر اُمت اور اُمت ِوسط خودکئی طرح کے ذہنی‘ فکری‘ اعتقادی ‘ نفسیاتی‘ جذباتی اور عملی انتشار سے دوچار ہے اور اسے مختلف روگ لگ گئے ہیں. یہ اس وقت نہایت مہلک اور مزمن امراض میں مبتلا ہوچکی ہے اور یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں ہے‘ ہمارا یہ زوال و انحطاط صدیوں پر پھیلا ہوا ایک عمل ہے. 
لہذا پہلی اور مقدم ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی ملت اور معاشرے کے دائرے کے اندر جائزہ لیں کہ اِس وقت وہ کون کون سے فکری‘ نظریاتی اور عملی محاذ ہیں جن پر ہمیں قرآن مجید کی شمشیربُرّاں کو ہاتھ میں لے کر صف آراء ہونا ہے اور ان کے بارے میں ہمیں قرآن مجید اور سیرتِ مطہرہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے کیابنیادی و اساسی ہدایات ملتی ہیں. نیز ان ہدایات کے انطباق کے عملی طریقے اور تقاضے کیا ہیں؟ اس مسئلہ پر غور و فکر کے نتیجے میں اِس وقت پانچ محاذ میرے سامنے آئے ہیں. 

محاذ اوّل

جاہلیت ِ قدیمہ

اس ضمن میں سب سے بڑا محاذ جاہلیت قدیمہ کا ہے. بڑا اس اعتبار سے کہ یہ ہمارے عوام کی اکثریت کا معاملہ ہے. عوام الناس کی بڑی عظیم اکثریت کے اندر جاہلیت قدیمہ رچی بسی ہے. میں چاہتاہوں کہ پہلے آپ جاہلیت قدیمہ کی اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھ لیں. قرآن مجید اور احادیث شریفہ کی رو سے اسلام سے پہلے کے دور کو ’’دورِ جاہلیت‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے. اس اصطلاح کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی حقانیت‘ صداقت اور ہدایت کے برعکس جو کچھ بھی پہلے تھا اور جو کچھ اب ہے وہ ’’جاہلیت‘‘ ہے. 

جاہلیت کو جہالت کے معنوں میں مت لیجیے گا‘ یہ خلط مبحث ہو جائے گا. ویسے 
جہالت کے بھی عربی میں وہ معنی نہیں ہیں جو ہم اُردو میں استعمال کرتے ہیں. اُردو میں ہم اَن پڑھ انسان کوجاہل کہتے ہیں ‘ یعنی عالم کے مقابلے میں اُردو میں جاہل کا لفظ مستعمل ہے‘ جبکہ عربی میں جاہل کا لفظ حلیم کے مقابلے میں بولا جاتا ہے. ایک وہ انسان ہے جو بردبار ہے‘ صاحب ِ عقل ہے‘ غور و فکر کرتاہے ‘محض جذبات سے مغلوب نہیں ہوتا‘ بلکہ عقل کی رہنمائی میں فیصلے کرتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کا رُخ متعین کرتا ہے. عقلی دلیل کی بنیاد پر کسی بات کو قبول یا مسترد کرتا ہے. یہ ہے حلیم انسان. اور ایک شخص وہ ہے جو جذباتی ہے‘ اکھڑ ہے‘ غیر مہذب ہے‘ ناشائستہ ہے‘ شہوات وجذبات کی رَو میں بہہ جاتا ہے. اس کی عقل پر تعصبات و خواہشات کے پردے پڑے ہوئے ہیں. ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص پی ایچ ڈی ہو‘ بہت تعلیم یافتہ انسان ہو‘ لیکن اسلام کی رُو سے یہ شخص جاہل ہے. جاہل سے ’’جہالت‘‘ بنے گا‘ لیکن اسی لفظ جہل سے ’’جاہلیت‘‘ کی اصطلاح بنتی ہے ‘جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے ماوراء اور اسلام کے سوا جو کچھ ہے اور جو کچھ تھا!

جاہلیت ِ قدیمہ کے اجزائے ترکیبی

اِس جاہلیت کو میں اس وقت دو حصوں میں تقسیم کر کے آپ حضرات کے سامنے رکھ رہا ہوں.ایک جاہلیت قدیمہ ہے. یہ وہ جاہلیت ہے جو عرب معاشرے میں اُس وقت نہایت غالب عنصر کی حیثیت سے موجود تھی جس وقت نبی اکرم کی بعثت ہوئی تھی.یہ جاہلیت قدیمہ دو چیزوں سے مرکب تھی. ایک شرک‘ یعنی مشرکانہ اوہام‘ جو توحیدکی ضد ہے اور دوسرے ’’شفاعت ِباطلہ‘‘ کا تصور وعقیدہ‘ جو ایمان بالآ خرۃ کی ضد ہے.

جاہلیت ِ قدیمہ میں اللہ کا انکار نہیں تھا. مشرکین مکہ اللہ کو مانتے تھے. قرآن مجید کی تلاوت کرنے والاشخص جو گاہ بگاہ بھی ترجمہ دیکھ لیتا ہے اُس پر یہ حقیقت روشن ہوگی کہ قرآن نے متعدد باریہ بات کہی ہے کہ اے نبیؐ !اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟تو یہ لوگ فوراً پکار اٹھیں گے کہ اللہ نے! 
(۱اور اے نبیؐ !اگر 

(۱) وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ (لقمان:۲۵آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے بارش کون برساتا ہے اور اس کے ذریعے سے مردہ زمین سے نباتات کون اُ گاتا ہے تو فوراً کہیں گے کہ اللہ! (۲تو وہ اللہ کے منکر نہیں تھے. البتہ انہوں نے اللہ کے ساتھ دیگر معبودوں کی ایک فوج تصنیف کر رکھی تھی. کہیں وہ اللہ کے ساتھ جنات کو پوجتے تھے‘ کہیں انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قراردے کر اُن کے نام پر دیویاں تراش لی تھیں اور ان کے لیے استھان بنا لیے تھے‘ جہاں وہ چڑھاوے چڑھاتے تھے‘ وہاں جا کر منتیں مانتے تھے اوردعائیں کیا کرتے تھے. یہ تھا ان کا شرک! یہ شرک آج بھی آپ کو اپنے عوام میں بتمام و کمال ملے گا‘ ایک شوشے کا فرق نہیں ہے. اس شرک نے صرف ہیئت بدل لی ہے کہ آج پتھر کی بنی ہوئی مورتیاں سامنے نہیں رکھی جاتی ہیں ‘ لیکن قبروں کے ساتھ وہی معاملہ ہو رہا ہے جو اُس دَور میں بتوں کے ساتھ ہوتا تھا. سر ِمو فرق نہیں. عرسوں کے نام سے یہ جو بڑے بڑے میلے ہوتے ہیں ذرا ان میں جا کر دیکھئے کہ وہاں کیا ہوتاہے! میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے عرب کے دورِ جاہلیت کے میلوں کی رودادیں پڑھی ہوں تو وہ شاید ان سے کہیں پیچھے رہ جائیں. تو اس جاہلیت ِ قدیمہ کا ایک جزو تویہ شرک ہے!

جاہلیت ِقدیمہ کا دوسرا جزو شفاعت ِ باطلہ کا عقیدہ و تصور ہے. جب ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ تم مانتے ہو کہ اللہ ہی خالق ہے‘ اللہ ہی مالک ہے‘ اُسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے‘ اُسی نے سورج اور چاندکو مسخر کر رکھا ہے تو 
فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ (۳اور فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ (۴
یہ سب کچھ مان کر کہاں سے اندھے ہوئے جا رہے ہو؟ کہاں سے پھرائے جا رہے ہو؟ کہاں سے تمہیں اُچکا جا رہا ہے؟ تمہاری مَت کیوں ماری جا رہی ہے؟ اس کے جواب میں قرآن مجید نے ان کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں . سورۂ یونس میں ان کا یہ قول نقل ہوا: یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ(آیت ۱۸کہ ہم ان بتوں کو خالق اور (۲) وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ (العنکبوت:۶۳
(۳) ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ ۘ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۚ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۶۲﴾ (غافر)
(۴) ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمۡ لَہُ الۡمُلۡکُ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَاَنّٰی تُصۡرَفُوۡنَ ﴿۶﴾ (الزمر) 
مالک تو نہیں مانتے‘ لیکن ہم کچھ برگزیدہ ہستیاں ضرور مانتے ہیں جن کے نام پر ہم نے یہ بُت بنا لیے ہیں. یہ ہستیاں مقربین بارگاہِ ربّ العزت ہیں. یہ اللہ کے لاڈلے اور چہیتے ہیں. فرشتے جن کو ہم نے دیویاں بنایا ہے‘ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں‘ اور بیٹیاں بہت لاڈلی ہوتی ہیں‘ کوئی لاڈلی بیٹی اگر فرمائش کرے تو کوئی باپ اس کی فرمائش کو رد نہیں کرتا. لہذا ہم جو اِن بتوں کو پوجتے ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی بنیں گے‘ ہماری شفاعت کریں گے اور وہاں ہمیں چھڑوالیں گے. گویا اللہ کے عدل و انصاف کے آگے یہ روک بن جائیں گے. اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر کی تیسری آیت میں ان کے اس باطل عقیدے کا ذکر فرما کراس کی قطعی طور پر نفی فرما دی. وہاں ارشاد ہوتا ہے:

اَلَا لِلّٰہِ الدِّیۡنُ الۡخَالِصُ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ۘ مَا نَعۡبُدُہُمۡ اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ اِلَی اللّٰہِ زُلۡفٰی ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ بَیۡنَہُمۡ فِیۡ مَا ہُمۡ فِیۡہِ یَخۡتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ مَنۡ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ﴿۳
’’آ گاہ رہو کہ دین خالص اللہ ہی کا حق ہے (ہر نوع کی عبادت و اطاعت کا سزاوار اورمستوجب و مستحق صرف اللہ ہے). رہے وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسروں کو اپنا پشت پناہ اور مددگاربنا رکھاہے (اس یقین کے ساتھ) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں(وہ اللہ کے ہاں ہمارے اور اُس کے درمیان عفو ومغفرت کا واسطہ اور ذریعہ بن جائیں اور ہمیں اس کاقرب دلا دیں. اے نبی‘ ان کو متنبہ کر دیجیے کہ) اللہ اُن کے درمیان ان تمام باتوں کا (آخرت میں) فیصلہ فرما دے گا جن میں یہ اختلاف کر رہے ہیں. اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا‘ منکر حق اور ناشکرا ہوا.‘‘

تو وہ لوگ آخرت کے منکر نہیں تھے‘ البتہ آخرت میں محاسبہ سے محفوظ رہنے کے لیے شفاعت ِ باطلہ کا تصور رکھتے تھے.

یہ دو چیزیں یعنی شرک اور شفاعت ِ باطلہ کا عقیدہ اصلاً تو ایک ہی ہے. انہیں تصویر کے دو رُخ کہہ لیجیے. میں نے بغرضِ تفہیم انہیں علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے کہ جاہلیت ِقدیمہ ان دو اجزاء سے مرکب تھی. قرآن مجید میں اس جاہلیت قدیمہ کا ذکر نہایت جلی انداز 
میں ہے. چونکہ اُس دور میں یہی شرک غالب تھا اور اصل گمراہی یہی تھی‘ لہذا مکی سورتوں کا سب سے بڑامضمون یہی ہے. اور جن حضرات کو بھی قرآن مجید سے شغف ہے وہ اس بات کو جانتے ہوں گے کہ قرآن مجید کا دو تہائی حصہ مکی سورتوں پر مشتمل ہے. قرآن حکیم میں بار بار مختلف پیرایوں اور مختلف اسالیب میں‘ مختلف انداز سے اس شرک اور شفاعت ِباطلہ کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے. کہیں تمثیلات کے انداز میں سمجھایا جا رہا ہے‘ کہیں عقلی دلائل کے ذریعے سے جھنجھوڑا جا رہا ہے‘ کہیں ان ہی کے موقف سے اُن پر حجت قائم کی جا رہی ہے. سورۃ الکہف میں تصریف الآیات کے متعلق جو الفاظ آئے ہیں : وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ (آیت ۵۴اور ذرا سی ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ یہی بات سورۃالاسراء میں بایں الفاظ آتی ہے: وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ (آیت ۸۹. یہ الفاظ اس بات کے اظہار کے لیے آئے ہیں کہ ہم نے کوئی طرزِ اسلوب اور کوئی اندازِ بیان چھوڑا نہیں ہے کہ جس کے ذریعے اس ضلالت وگمراہی کی نفی نہ کردی ہو اور اس کا ابطال نہ کر دیا ہو. آج اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر اپنے معاشرے کا تنقیدی جائزہ لے تو اسے صاف نظر آجائے گا کہ ہمارے معاشرے کی عظیم اکثریت بھی انہی دونوں گمراہیوں میں مبتلا ہے. اس عظیم اکثریت کا دین اولیاء پرستی‘ عرس میلے اور تعزیہ پرستی کا دین ہے‘ قبروں پر حاضری اور وہاں چڑھاوے چڑھانے‘ منتیں ماننے اور دعائیں مانگنے کادین ہے. نماز روزہ تو اس دین میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے. اگر ہو جائے تو بڑی بات ہے‘ ورنہ یہ اس عوامی دین کے لزوم میں داخل نہیں. یہ اکثریت اس وہم میں مبتلا ہے کہ یہ اولیاء کرام جن کی قبروں پر ہم نذر و نیاز چڑھاتے ہیں‘ آخرت میں ہمارے سفارشی بن جائیں گے‘ اور پھر ہمارے سب سے بڑے شفیع خود رسول اللہ ہوں گے جن کے ہم نام لیوا ہیں. چنانچہ کسی محاسبہ ٔ اُخروی کے خوف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

جاہلیت ِقدیمہ کے خلاف قرآن کی تلوار کا استعمال

پہلا محاذ یہ جاہلیت ِقدیمہ ہے جس کے خلاف ہمیں تلوار اٹھانی ہوگی. لیکن تلوار کون سی؟ قرآن کی تلوار!… اس محاذ پر ابلیس کے اس فریب و اغوا کے لیے قرآن ہی تلوار کا کام دے گا. میں سمجھتا ہوں کہ اس جاہلیت قدیمہ کے محاذ کے لیے کسی دقیق یا بھاری بھر کم علمی منصوبے کی ضرورت نہیں ہے. اگر صرف دورۂ ترجمہ قرآن کی مہم ہمارے معاشرے میں چل جائے تو وہ لوگوں کے عقائد کی تطہیر کے لیے کافی ہو جائے. اس کے لیے دقیق و عمیق تفاسیر کی ضرورت نہیں. خوش قسمتی سے ہمارے یہاں ایک کام عظیم پیمانے پر ہو رہا ہے‘ لیکن کاش کہ وہ کام فضائل سے متعلق ضعیف و شاذ روایات سے بلند تر ہو اور اس کا تعلق ترجمۂ قرآن کے ساتھ قائم ہو جائے کہ ہر مسجد میں فرض نمازوں کے بعد لوگ جمع ہو جائیں اور قرآن حکیم کے متن کے ساتھ کوئی مستند ترجمہ لوگوں کوسنایا جائے. مجھے یقین ہے کہ (اِن شاء اللہ العزیز) قرآن مجید کے متن کے ساتھ مجرد ترجمہ اس جاہلیت ِ قدیمہ کا قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہوگا. اس کے لیے قرآن حکیم کی حکمت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زنی کی ضرورت نہیں ہے. اس کے لیے میں مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر سمندر میں کہیں تیل گر جائے‘ فرض کریں کہ تیل کا کوئی ٹینکر پھٹ جائے تو تیل سطح سمندر کے اوپر ہی رہتاہے.بالکل اسی طریقے سے قرآن مجید میں جاہلیت قدیمہ کا جوابطال اور اس کی جو تردید ہے اور توحید خالص کی جو دعوت اور اس کے لیے جو استدلال ہے وہ بالکل سطح پر ہے‘ سامنے موجود ہے. اس کے لیے گہرائی میں ا ترنے کی ضرورت نہیں ہے.

تو یہ بات جان لیجیے کہ اس محاذ پر جب تک قرآن مجید کے ساتھ جہاد نہیں ہوگا تب تک مشرکانہ اوہام اور شفاعت ِ باطلہ کے عقیدے کی تردید ممکن نہیں ہے. پھریہ کہ ہمارے یہاں فرقہ وارانہ انداز سے ان عقائد کے حاملین پر جو تنقیدیں ہوتی ہیں اور جس انداز سے ان کی نفی کی جاتی ہے ‘ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا. اس طرح تو ضد اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہوتا ہے اور کدورت اور تلخی مزید پختہ ہوتی ہے. اس لیے کہ پھر وہاں معاملہ آجاتا ہے فرقہ وارانہ عصبیت اور فرقہ وارانہ مفادات کا. چنانچہ اس رنگ اور اس اندازمیں تردید کرنا اور چند مخصوص چیزوں کو نشانہ بنا کر انہی پر مسلسل گولہ باری کرتے چلے جانا‘ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے. قرآن مجید نے اس مسئلہ کا جو 
"Panoramic View" لیا ہے اور اسے اس کے وسیع پس منظر میں جس قابلِ فہم اور فصیح و بلیغ انداز اور بدیہیاتِ فطرت کے تاروں کو چھیڑنے والے اسلوب میں بیان کیا ہے‘ اس کے مقابل میں کون مسلمان یہ گمان کر سکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر اور دلنشین انداز اور ناقابل تردید دلائل اختیار کر سکتاہے؟اور اگر یہ گمان کرے تو کیا اس کا ایمان سلامت رہ جائے گا ؟ معاذ اللہ! کیا کوئی مسلمان بقائمی ٔہوش و حواس یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا بیان کردہ فلسفہ اور اس کے پیش کردہ دلائل قرآن حکیم کی حکمت اور آیاتِ بیّنات سے زیادہ محکم اور روشن ہیں؟ معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ!… آیاتِ بیّنات تو وہ ہیں جن کے متعلق سورۃالحدید میں ارشاد فرمایا گیا : 

ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ بِکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۹﴾ 
’’وہی (اللہ تبارک و تعالیٰ) تو ہے جو اپنے بندے (محمد رسول اللہ ) پر روشن اور واضح آیات نازل فرما رہا ہے تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے. اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے.‘‘

رسول اللہ کی بعثت اور قرآن حکیم کا نزول اُس کی شانِ رأفت اور شانِ رحمانیت و رحیمیت کے مظاہر اَ تم ہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی : 
اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾ (الرحمن) 
پس اگر ملک گیر پیمانے پر قرآن مجید کے ترجمے کی مہم شروع ہو جائے تو میرے نزدیک یہ ہے پہلے محاذ کے روگ کا مداوا. میں نے اس کو نمبر ایک پر اس لیے رکھا ہے کہ عددی اعتبار سے ہماری ملت اور ہماری قوم کی عظیم ترین اکثریت درحقیقت اسی جاہلیت قدیمہ کا شکار ہے.

محاذ دوم

جاہلیتِ جدیدہ

جہاد بالقرآن کا دوسرامحاذ جاہلیت ِجدیدہ کے خلاف ہے . جاہلیت ِجدیدہ الحاد و مادہ پرستی کا دوسرا نام ہے. اس میں اللہ کا انکار بھی ہے اور بعث بعد الموت کا بھی. اس میں مادے (matter) سے ماورا ء کسی شے کو تسلیم کرنے سے اعراض اور احتراز ہے. اسی جاہلیت ِ جدیدہ کے لیے میں طبیعیاتی عقل پرستی یا Scientific Rationalism کا لفظ بھی استعمال کیا کرتا ہوں.

جدید دَور کی اس جاہلیت کی عمر قریباً تین سوبرس ہے. یورپ کے دو ممالک فرانس اورجرمنی میں دو تحریکیں بیک وقت شروع ہوئی تھیں: ایک تحریک اصلاح ِمذہب 
(Reformation) اور دوسری تحریک احیاء العلوم (Renaissance) . بدقسمتی سے اُس وقت یورپ میں عیسائیت کے نام سے جو مذہب تھا وہ نہایت ظالمانہ و جابرانہ اور انتہائی غیر معقول اور بعید از انصاف نظام کا حامل تھا. اس میں ملوکیت (Monarchy) اور پاپائیت (Theocracy) کا گٹھ جوڑ تھا. اس کی وجہ سے لوگوں میں رد عمل کے طور پر مذہب سے ایک نفرت پیدا ہو گئی تھی. اس پس منظر اور اس فضا میں جب سائنس کی ترقی شروع ہوئی تو سائنس کی جڑوں میں الحاد پیوست ہو گیا اور سائنسی نقطۂ نظر یہ بن گیا کہ جو چیز verifiable نہیں ہے‘ جس کی ہم توثیق یا تردیدنہیں کر سکتے‘ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہونی چاہیے‘ یہ چیزیں لائق اعتناء نہیں ہیں. ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم یقین کے ساتھ یہ جان سکیں کہ اللہ موجود ہے یا نہیں ہے‘ تو اس پر ایمان چہ معنی دارد! اسی طرح ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ہے. اس کا ہمارے پاس نہ کوئی سائنسی ثبوت ہے اور نہ کسی نے موت کی سرحد پار کرنے کے بعد پھر واپس آ کرہمیں خبر دی ہے. لہذا اس کو چھوڑیئے‘ یہ خواہ مخواہ کے ڈھکوسلے ہیں. کوئی اسے "Dogma" کے طور پر مانتا ہے تو مانتا رہے‘ لیکن یہ کوئی قابل توجہ مسئلہ نہیں ہے. اسی طریقے سے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ہمارے جسم میں جو جان (life) ہے‘ اس کے علاوہ روح نام کی بھی کوئی شے ہے. اس کی آج تک کوئی توثیق (verification) نہیں ہو سکی‘ لہذا اس مسئلہ کو چھوڑو. معقول طرزِ عمل یہی ہے کہ جو چیزیں موجود ہیں‘ ٹھوس ہیں‘ قابل ِتصدیق ہیں‘ ہمارے حواسِ خمسہ کے دائرے میں آتی ہیں اُن ہی پر توجہ مرتکز رکھو. لہذا طبیعیاتی عقل پرستی کا فارمولا یہ بنا کہ چونکہ اللہ ایک خیالی و تصوراتی چیز ہے جب کہ کائنات ایک حقیقت ہے‘ روح بھی ایک تصوراتی چیز ہے جب کہ مادہ اور جسم ایک ٹھوس حقیقت ہے‘ اور حیاتِ اُخروی بھی اسی قبیل کی شے ہے جب کہ حیاتِ دُنیوی ایک حقیقت ہے اور اس سے ہر وقت‘ ہر لمحہ اور ہر لحظہ سابقہ ہے‘ لہذا ماورائے حواس اور خیالی و تصوراتی باتوں پر غور کرنا وقت کا زیاں ہے. اس کے بجائے ہماری توجہات کا ارتکا ز اُن چیزوں پر ہونا چاہیے جو ٹھوس ہیں‘ نگاہوں کے سامنے ہیں‘ حواس کی گرفت میں آنے والی ہیں‘ قابل توثیق ہیں اور جن سے ہمیں ہر دم واسطہ پڑتا ہے. یہ ہے اصل میں اِس دَور کی جاہلیت ‘یعنی جاہلیت ِ جدیدہ کا صغریٰ کبریٰ. 

جاہلیت ِ جدیدہ کا ذکر قرآن میں

اس موقع پر میں آپ سے یہ عرض کر دوں کہ یہ نہ سمجھئے کہ یہ بالکل نئی جاہلیت ہے. دبے دبے انداز میں ایک محدود پیمانے پر الحاد و مادہ پرستی پر مشتمل یہ جاہلیت ‘جس کے لیے موزوں ترین لفظ ’’دہریت‘‘ استعمال کیا جا سکتا ہے‘ بعثت ِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے وقت بھی موجود تھی. میں حیران ہوں کہ قرآن مجید میں ایک ہی جملہ میں اُس قلیل گروہ کے فلسفہ دہریت کو اس طور سے بیان کر دیا گیا ہے کہ دورِ جدید کی ہر نوع کی جاہلیت اور دہریت کی طرف بھی اس میں واضح اشارات موجود ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے‘ جس کے متعلق نبی اکرم کا ارشاد ہے کہ اس میں پچھلے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور آنے والے زمانے کی بھی. تو قرآن کا یہ ایک جملہ دہریت و الحاد کے تمام مکاتیب فکر کی نمائندگی کرتا ہے: وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ (الجاثیہ:۲۴اس مکتب ِفکر کا قول نقل فرمایا گیا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی تو بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے. یعنی ہم نہیں مانتے کہ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے. پھر یہ کہ ایسی کوئی بالاتر طاقت یا ہستی نہیں ہے جس کے فیصلے سے ہمارا یہ مرنا اورجینا ہو رہا ہو. ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی زندہ ہوتے ہیں…جبکہ قرآن مجیدمیں اس کے بالکل برعکس حقیقت بیان ہوتی ہے: یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ’’وہ(اللہ) ہی زندہ رکھتا ہے اور وہی موت دیتا ہے‘‘. یہ کارگاہِ موت و حیات اُ سی کی تخلیق ہے: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ ’’وہی ہے جس نے موت اور زندگی کی تخلیق فرمائی‘‘. لیکن یہاں نسبت اپنی طرف ہے: نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا ’’ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں‘‘. وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ ’’اور ہمیں ہلاک کرنے والی چیز بھی سوائے گردشِ افلاک کے اور کچھ نہیں‘‘.ایک نظام رواں دواں ہے. کچھ قوانین طبیعیہ (Laws of Nature) ہیں جن کے تحت اس کائنات کا کارخانہ چل رہا ہے. لوگ پیدا ہوتے ہیں‘ جیتے ہیں‘ مرتے ہیں. کسی بالاتر طاقت اور موت کے بعد دوبارہ وجود اورکسی دوسری زندگی کو ہم نہیں مانتے…!

بتائیے کہ اِس دَور کی جدید جاہلیت اس سے آگے اور کہاں جائے گی؟ بلکہ آج کے دور کے سائنٹیفک ذہن رکھنے والے لوگ تو پھر بھی محتاط الفاظ استعمال کرتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ باتیں حقیقت رکھتی ہیں یا نہیں! ہم کوئی حتمی حکم نہیں لگا سکتے کہ اللہ ہے یا نہیں! آخرت ہے یا نہیں! اس طرح سے وہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتے ہیں. برٹرینڈرسل اس دَور کے عظیم ترین اور نہایت مسلمہ فلسفیوں میں سے تھا اور اس نے الحاد و مادیت اوردہریت کے فلسفے کا پرچار اور اللہ‘ آخرت‘ روح اور اخلاق کا ابطال جس بڑے پیمانے پر اور جس مقبولِ عام اور دلنشیں اسلوب و انذار سے کیا ہے‘ اس کا صحیح اندازہ ہم کو نہیں ہے. اس نے ہماری نئی نسل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت کے اذہان کو مغلوب کر رکھا ہے.

جیسا کہ میں نے ابھی سورۃ الجاثیہ کی ایک آیت کے ابتدائی حصے کے حوالے سے بیان کیاہے‘ اس نوع کی جاہلیت کے جراثیم اگرچہ وہاں بھی موجود تھے‘ لیکن اُس دور میں ایسے مسخ شدہ ذہنیت والے دانشور آٹے میں نمک کے برابر تھے. وہاں جو غالب جاہلیت تھی اسے میں جاہلیت قدیمہ کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں. یعنی اللہ کو ماننے کے ساتھ جھوٹے معبودوں کا اقرار اور اُن کی پوجا پاٹ‘ اور آخرت کو ماننے کے ساتھ شفاعت ِ باطلہ کا تصور و عقیدہ جس پر قرآن میں نہایت واضح اور نمایاں انداز میں بحث کر کے اُس کا پوری طرح سے ابطال کیا گیا ہے. البتہ جاہلیت ِ جدیدہ کا معاملہ چونکہ وہاں بہت کم تھا لہذا اس پر قرآن مجید میں بحث اس انداز میں نہیں ہے جس طرح 
جاہلیت قدیمہ کے ضمن میں کی گئی ہے. لیکن اس معاملے میں بھی قرآن حکیم بھرپور رہنمائی فراہم کرتا ہے اور یہ رہنمائی اُن باصلاحیت‘ باہمت اور ذہین لوگوں کے لیے ہے جو کمر کس لیں اور پھر قرآن حکیم کی آیاتِ بیّنات میں غوطہ زنی کریں اور جدید اسلوب و انداز کے ساتھ اس کا ابلاغ و اعلام کریں. اس لیے کہ زمانہ اور اس کے تقاضے بدل گئے ہیں‘ جن اصطلاحات میں لوگ بات سمجھتے ہیں وہ اصطلاحات بدل گئی ہیں. اگر آپ بہترین اور مسکت بات قدیم اصطلاحات میں کہیں گے تو یہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئے گی. اس کے لیے استدلال آپ کو جدید اصطلاحات میں ڈھال کر پیش کرنا ہوگا. پھر یہ کہ اس جاہلیت جدیدہ کے لیے اس دَور میں جو عقلی مواد فراہم کیا گیا ہے‘ اس کے ابطال کے لیے آپ کو عقلی دلائل لانے ہوں گے. اگرچہ ان تمام کاموں کے لیے اصل تلوار قرآن ہی کی استعمال ہوگی‘ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ اس میدان میں سخت محنت کی ضرورت ہوگی. اس کے لیے قرآن حکیم میں غوطہ زنی کرنی ہوگی جس کے لیے کچھ نوجوانوں کو اپنی پوری پوری زندگیاں وقف کرنی ہوں گی. 

جاہلیت ِجدیدہ کے لامحدود گوشے

جاہلیت ِ قدیمہ کے برعکس جاہلیت جدیدہ کئی گوشوں میں پھیلی ہوئی ہے. بے خدا سائنس اور فکر و فلسفہ کی جولانگاہیں لا محدود ہیں.اس دور میں علم الحیاتیات اور علم الحیوانات کی طرح کی "Physical Sciences" بھی ہیں ‘ پھر "Social Sciences" بھی ہیں‘ جن کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے. اور یہ بات جان لیجیے کہ ڈارون کا فلسفہ ٔ ارتقاء اب صرف حیاتیات کے میدان تک محدود نہیں رہا ہے‘اس نے انسان کی معاشرتی اقدار اور تمدنی و تہذیبی فکر‘ حتیٰ کہ فلسفہ ٔاخلاقیات تک کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے. اور یہ فلسفہ انسان کو محض ایک ترقی یافتہ حیوان کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے. اس فلسفہ نے حیوانی شہوات و داعیات کی تسکین کے لیے انسان کو حیوانات کی طرح کھلا لائسنس دے دیا ہے. چنانچہ ہمیں اس زہرکا تریاق فراہم کرنا ہوگا. پھر ماہرین نفسیات نے نفسیات (Psychology) کے میدان میں جو گل کھلائے ہیں اور جس طرح کی گمراہیاں پھیلائی ہیں‘ ان سب کا ابطال کرنا ہوگا. اس میدان میں سب سے بڑی گمراہی فرائیڈ کی پیدا کردہ ہے جس نے انسان کے تمام محرکاتِ عمل کو جنسی جذبے کے تابع قرار دے دیا ہے. اسی طرح عمرانیات (Socialogy) کے میدان میں جو بھی باطل اور گمراہ کن نظریات در آئے ہیں‘ ان سب کا توڑ کرنا ہوگا. 

مارکسزم 
(Marxism) اِس دَور کا سب سے مقبول فکر ہے جس کا صرف اذہان ہی پر نہیں‘ بلکہ دنیا کے قابل ذکر ممالک پر عملاً اس نظامِ فکر کا استیلاء و تسلط ہے. مارکسزم اور کمیونزم کے متعلق یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ مادیت ہی کا نقطہ ٔعروج ہے. مادیت (Materialism) ہی اپنی انتہا کو پہنچ کر جدلی مادیت (Dialectical Materialism) کی شکل اختیار کرتی ہے. اور جیسے ڈارون کے نظریے نے اخلاقیات‘ معاشرت اور عمرانیات میں نفوذ کر رکھا ہے ‘ اسی طرح مارکسزم کے نظریے نے انسان کی اخلاقی قدروں اور انسانی تہذیب کے تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے. اس نے دین و مذہب کے عقائد کی بنیادیں ڈھا کر رکھ دی ہیں اور اپنے ماننے والوں کو مکمل طور پردہریہ و ملحد بنا کر رکھ دیاہے. انسان کے ماورائی عقائد اور اخلاقی قدریں اس فکر و نظریہ کے تحت آ کر بالکل نیا رُخ اختیار کر گئی ہیں.

الغرض اس تیسرے محاذ یعنی جاہلیت جدیدہ کی کوکھ سے بہت سے فتنے جنم لے چکے ہیں. ان سب کے خلاف محاذ آرائی کرنی ہوگی. اس جاہلیت ِ جدیدہ کے ابطال کے لیے خود اِس کے اندر بہت سے محاذ کھولنے ہوں گے. لہذا ان میں سے ہر ایک کے مقابلے کے لیے ضرورت ہے کہ چند باصلاحیت نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر دیں. باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ باہمت ‘محنتی اور کام میں غرق ہو جانے والے ہوں. ایسے نوجوانوں کے لیے نبی اکرم کی بشارت ہے : 
خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’تم میں سے بہتر ین انسان وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں‘‘. قرآن حکیم کے معارف و حکم سے خود بھی بہرہ مند ہوں اور خلق ِخدا کو بھی مستفید کریں.

جاہلیت ِ قدیمہ کا ابطال ‘جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ محض ترجمۂ قرآن سے بھی 
ہوجائے گا‘ لیکن اس جاہلیت جدیدہ کے ابطال اور اس کی بیخ کنی کے لیے قرآن حکیم میں غور و تدبر کرنا ہوگا اور اس کے معانی و مفاہیم کے جواہر کی یافت کے لیے قرآن کے بحر ِبیکراں میں غوطہ زنی کرنی ہوگی.

ایک طویل حدیث میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ قرآن حکیم کی شان میں یہ الفاظ آئے ہیں:

وَلَایَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَآءُ وَلَا یَخْلَقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ (۱)
’’علماء کبھی اس کتاب سے سیر نہ ہو سکیں گے‘ نہ کثرت و تکرارِ تلاوت سے اس کے لطف و تأثیر میں کوئی کمی آئے گی اور نہ ہی اس کے عجائبات (یعنی نئے نئے علوم و معارف )کا خزانہ کبھی ختم ہو سکے گا.‘‘

قرآن مجید کی یہ تین شانیں جو نبی اکرم نے اس حدیث میں بیان فرمائی ہیں‘ ان میں سے آخری شان میری اس گفتگو سے بہت زیادہ متعلق ہے. ایک ہیرے کی کان کا تصور کیجیے‘ جس میں کارکن لگے ہوئے ہیں اورہیرے برآمد کر رہے ہیں. لیکن ایک وقت ایسا آکر رہتا ہے کہ کان خالی ہو جاتی ہے اور ہیرے دستیاب نہیں ہوتے. لیکن قرآن ایسی معدن ‘ ایسی کان نہیں ہے کہ جس کے متعلق کبھی یہ کہا جا سکے کہ حکمت کے موتی اب اس میں سے مزید نہیں نکل سکتے. قرآن تو اُس اتھاہ سمندر کے مانند ہے کہ انسان اس کی جتنی گہرائیوں میں جائے گا اتنے ہی اعلیٰ دُرِّ شہوار نکال کر لائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیش جاری و ساری رہے گا. لیکن ظاہر ہے کہ قرآن کی حکمت کے سمندر میں غوطہ زنی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے. اس بحر کی گہرائیوں سے حِکم و معارف کے موتی نکال لانے کے لیے جان گسل کوشش اور پِتا مار کر محنت کرنا ہوگی. لہذا ذہین و باصلاحیت اور دولت ِ ایمانی کے حامل حضرات کو اس بحر زخّار کی غواصی سے ہر دَور کے تمام باطل نظریات اورخدا نا آشنا افکار کے ابطال کے لیے نہایت محکم دلائل اور قاطع براہین ملتے رہیں گے‘ جیساکہ نبی اکرم نے ارشادفرمایا: 
وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ پس اس دوسرے محاذ پر یعنی جاہلیت جدیدہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے بھی ہمیں قرآن کی شمشیر ِبرّاں ہاتھ میں لے کر مورچہ لگانا ہوگا. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی فضل القرآن.

محاذِ سوم

بے یقینی

ہمارے معاشرے میں معتدبہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بحمداللہ شعوری سطح پر جاہلیت قدیمہ اور جدیدہ دونوں سے بچے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کی بیماری ایک تیسری نوع کی بیماری ہے اور وہ ہے بے یقینی کی بیماری. یعنی مثبت طور پر جو یقین ہونا چاہیے انہیں وہ میسر نہیں ہے.اور ظاہر بات ہے کہ محض منفی چیزوں سے اگر آپ نے خود کو بچابھی لیا تو اس سے آپ کے اخلاق و کردار پر اور آپ کی زندگی کے رُخ پر کوئی فیصلہ کن اثر مترتب نہیں ہو سکتا جب تک کہ مثبت طور پر یقین نہ ہو. سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ کے درس کے ضمن میں مَیں نفاق اور ایمان کے بارے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ان دونوں کو یوں سمجھئے کہ نفاق ایک منفی قدر (minus value) ہے اور ایمان ایک مثبت قدر (plus value) ہے. پھر اس مثبت قدر میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے. ایک میرا اور آپ کا ایمان ہے‘ ایک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘عشرہ مبشرہ اوربالخصوص انبیاء و رُسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ایمان ہے .تو یوں سمجھ لیجیے کہ یہ معاملہ لا محدود درجے (plus infinity) تک چلتا جائے گا. اسی طرح نفاق کا معاملہ ہے. اس کا ایک نقطۂ آغاز بھی ہے اور اس کا تیسرا درجہ بھی ہے‘ جہاں پہنچ کر یہ ٹی بی کے مرض کی طرح لا علاج ہو جاتا ہے. نفاق اور ایمان کے مابین ایک اور مقام ہے جسے میں ’’zero level ‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں. میں نے جس تیسرے طبقے کا ذکر کیا ہے‘ بدقسمتی سے اس کی اکثریت اسی سطح پر کھڑی ہے. یعنی کوئی منفی چیز بھی نہیں ہے‘ نہ جاہلیت قدیمہ ہے نہ جاہلیت ِ جدیدہ کم از کم شعوری سطح پر نہیں ہے لیکن مثبت طور پر یقین محکم والا ایمان بھی نہیں ہے اور اس کی طرف کوئی پیش قدمی بھی نہیں ہو رہی. تو ضرورت اسی یقینِ محکم اور ایمانِ کامل والے ایمان کی ہے‘ جیسے کہ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎

یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری 

ایمان جب یقین کی شکل اختیار کرے گا جب ہی تو اس میں ایک قوت پیدا ہوگی!جب ہی وہ شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالے گا اور پوری شخصیت کی کایا پلٹ دے گا!

سورۃالحجرات ہی کی آیت ۷ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے : 
وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ’’اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک بہت محبوب کر دیا ہے اور اس کو تمہارے دلوں کے اندرمزین کر دیا ہے‘‘. نورِ ایمان نے تمہارے دلوں کو منور کر دیا ہے. یہ ایمان اللہ کے فضل و کرم سے تمہارے دلوں میں راسخ اور جاگزیں ہوگیا ہے. جب تک یہ کیفیت نہ ہو‘ ایمان کے اثرات انسان کے سیرت و کردار‘ معاملات اور عملی رویے پرمترتب نہیں ہوں گے. اب اس بے یقینی کا علاج کہاں سے لایا جائے؟ اس کا داروکہاں ملتا ہے؟ 

علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی

اسی قرآنِ حکیم کی آیاتِ بینات ہی سے اس بے یقینی کا علاج ہوگا. بقول مولانا ظفر علی خان مرحوم : ؎ 

وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئے دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں! 

یقین والے ایمان کا اصل ذریعہ (source) قرآن ہے. اگرچہ اس کا ایک ذریعہ اور بھی ہے‘ لیکن وہ ثانوی ہے. صاحب ِیقین کی صحبت سے بھی یقین والا ایمان پیدا ہوتا ہے ؏ ’’صحبت ِصالح ترا صالح کند‘‘.اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب ِ یقین کے قرب کی مثال ایسے ہے جیسے آگ کی ایک بھٹی دہک رہی ہو‘ آپ اس کے قریب جائیں گے تو حرارت آپ کو پہنچ کر رہے گی. یہ قانونِ طبعی ہے. برف کی سل کے پاس بیٹھیں گے تو برودت تو آپ سے آپ پہنچے گی. تو اگرکسی کے دل میں یقین والے ایمان کی شمع روشن ہے تو آپ اگر اُس کے قریب رہیں گے‘ اس کی صحبت سے فیض اٹھائیں گے تو آپ کوبھی یقین کی دولت ملے گی. لیکن میں اس کو ثانوی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ وہ صاحب ِ یقین کہاں سے آئے گا! تو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے کہ ایسے صاحب یقین پیداکرنے کا واحد ذریعہ بھی قرآن حکیم ہے. اس کا سب سے بڑا ثبوت میں یہ دوں گا کہ دنیا کے سب سے عظیم صاحب ِ یقین ‘ جن سے بڑا کوئی صاحب ِ یقین ہو ہی نہیں سکتا‘ خاتم النبیین‘ سید المرسلین حضرت محمد ہیں. قرآن مجید میں سورۃ الشوریٰ کی آخری سے پہلی آیت یعنی آیت ۵۲ میں نبی اکرم کے ایمان و یقین کا تجزیہ کر کے بتا دیا گیا کہ حضور کو ایمان و یقین کہاں سے ملا! ارشاد فرمایا گیا:

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا ؕ مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ وَ اِنَّکَ لَتَہۡدِیۡۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾ 
’’اور(اے نبیؐ !) اسی طرح ہم نے اپنے امر سے ایک روح ـ(یعنی یہ قرآن مجید) آپؐ کی طرف وحی کیا ہے‘ (اس سے پہلے) آپؐ کو معلوم نہ تھا کہ کتاب کسے کہتے ہیں اور ایمان کیا ہوتا ہے!لیکن ہم نے اس (قرآن) کو نور بنا دیا جس کے ذریعہ سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں اور (اب جبکہ آپ حامل ِقرآن بن گئے تو) آپؐ یقینا نوعِ انسانی کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیں گے.‘‘

نورِ وحی سے قبل حضور کے ایمان کی ماہیت

یہاں مجھے تھوڑی سی وضاحت کرنی ہوگی ‘مبادا مغالطہ ہو جائے. یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضور وحی کے نزول سے قبل مؤمن نہیں تھے؟ اسی نوع کی ایک بحث ہمارے یہاں حضور کے آبا ء و اجداد کے بارے میں بھی چلتی ہے کہ کیا جناب عبداللہ‘ جناب عبدالمطلب‘ جناب آمنہ کو ہم کافر یا مشرک کہیں گے؟ یہ بحثیں عوامی سطح پر ہوتی ہیں اور اس میں بڑی جذباتیت آجاتی ہے. تو جان لیجیے کہ قرآن مجید ہمیں سورۃ النور کی آیاتِ نور کے ذریعے یہ بتاتا ہے کہ نورِ ایمان کے دو اجزائے ترکیبی ہیں‘ ایک نورِ فطرت اور ایک نورِ وحی. نورِ فطرت کی مثال صاف شفاف روغن کی ہے جو گویا بھڑکنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے چاہے دیا سلائی ابھی اس کے قریب نہ آئی ہو‘ جیسے پٹرول. تو درحقیقت انسان کی فطرت میں ایمان کا نور بالقوہ (potentially) موجود ہوتا ہے‘ البتہ اس پر پردے پڑ جاتے ہیں. بعض لوگوں کے وہ پردے اتنے دبیز اور بھاری ہوتے ہیں کہ اٹھائے نہیں اٹھتے. نورِ وحی بھی آ کر اُن لوگوں کے ان پردوں کو چیر کر دل کے اندر موجود نورِ فطرت کے روغن تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا. لہذا ایسے لوگ نور ایمان سے محروم رہ جاتے ہیں. لیکن اس کے برعکس وہ شخص جس کے قلب پر کوئی حجاب نہیں‘ یعنی سلیم الفطرت اور سلیم القلب انسان‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں الفاظ آئے ہیں: اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ (الصّٰفّٰت) تو اس کے پاس جیسے ہی نورِ وحی آتا ہے تو یوںسمجھئے جیسے کہ آئینے کے سامنے روشنی آ گئی. لہذا نورِ وحی سے اس کا آئینہ قلب جگمگا اٹھتا ہے. تو یہ ہے مثال نورِ فطرت اور نورِ وحی کی. اسی کو سورۃ النور میں نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ سے تعبیر کیا گیا ہے. لہذا ہم یوں کہیں گے کہ نبی اکرم کے قلب ِ مبارک میں ایمان بالقوہ یا dormant form میں تو موجود تھا‘ لیکن اس کو تحریک وحی سے ملی‘ وحی نے اسے متحرک کیا‘ اسے actualise کیا. یہ ہے مفہوم ان الفاظ ِمبارکہ کا: مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ 

سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات جن کے متعلق صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یہ آیات حضور کو شب ِ معراج میں اُمت کے لیے بطور تحفۂ خاص عطا ہوئی تھیں ‘ ان میں سے پہلی آیت میں قرآن حکیم پر پہلے خود نبی اکرم کے ایمان لانے کا ذکر ہے اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان لانے کا : اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ 

دلکش ترین ایمان کس کا ہے؟

اس ضمن میں نبی اکرم کی ایک بڑی پیاری حدیث مشکوٰۃ شریف کے آخری باب : باب ثواب ھٰذہِ الاُمّۃ میں امام بیہقی ؒ کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ کے حوالے سے آئی ہے. اس حدیث کو حضر ت عمرو بن شعیب اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں. چشم ِتصور سے دیکھئے کہ ایک مرتبہ حضور مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں رونق افروز ہیں. آپؐ صحابہؓ سے سوال کرتے ہیں: اَیُّ الْخَلْقِ اَعْجَبُ اِلَـیْکُمْ اِیْمَانًا ’’مجھے بتاؤ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان کس کا ہے؟‘‘ اعجب‘ عجیب سے اسم تفضیل ہے. اردو میں عجیب کا لفظ حیران کن یا غیر معمولی بات کے لیے مستعمل ہے‘ لیکن عربی میں عجیب دل کو لبھانے والی شے کو کہتے ہیں ‘یعنی دلکش اور دل خوش کن چیز. سورۃ الاحزاب میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے. فرمایا گیا: وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکَ حُسۡنُہُنَّ (آیت۵۲’’اور چاہے ان کا حسن آپؐ کے دل کو کتنا ہی لبھانے والا کیوں نہ ہو‘‘. سورۃ المنافقون میں ارشاد ہوا: وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ (آیت۴’’اور جس وقت آپؐ ان کو دیکھتے ہیں تو اُن کے بدن آپ کو خوش لگتے ہیں‘‘. تو حضور نے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ دلکش‘ دل کو لبھانے والا اور حسین ایمان کس کا ہے؟ یہ بھی حضور کی تعلیم و تربیت کا ایک انداز ہے.صحابہؓ نے عرض کیا: ’’ فرشتوں کا‘‘. حضور نے اس کو رد فرما دیا: وَمَا لَھُمْ لاَ یُـؤْمِنُوْنَ وَھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ’’وہ ایمان کیسے نہیں لائیں گے جبکہ وہ اپنے ربّ تعالیٰ کے پاس ہیں!‘‘ ان کے لیے توغیب کا پردہ حائل نہیں ہے. وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو اس میں کون سا کمال ہے ؟پھر صحابہؓ نے عرض کیا: فَالنَّبِیُّوْنَ ’’پھر نبیوں کا ایمان ہے!‘‘

حضور نے فرمایا: 
وَمَالَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْیُ یَنْزِلُ عَلَیْھِمْ ’’ وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے جبکہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے!‘‘ انبیاء علیہم السلام پر اللہ کا فرشتہ وحی لے کر نازل ہوتا ہے‘ انہیں غیب کی خبروں سے مطلع کرتا ہے‘ پھر اللہ ان کو اپنی نشانیوں میں سے کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کراتا ہے. لہذا وہ کیسے ایمان نہیں لائیں گے اور ان کا ایمان ’’اعجب‘‘ کیسے ہوگا! تیسری بار صحابہ کرامؓ نے بڑی ہمت و جرأت کر کے اور ڈرتے ڈرتے عرض کیا: فَنَحْنُ ’’پھر ہم ہیں‘‘. ہمارا ایمان اعجب ہے. حضور نے اس کو بھی رد فرمادیا: وَمَا لَــکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَاَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ ’’ تم کیسے ایمان نہ لاتے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں‘‘. یعنی اللہ کی سب سے بڑی نشانی اور اس کا سب سے بڑا معجزہ تمہارے سامنے ہے. تم کو میرے دیدار اور میری صحبت کا فیض حاصل ہے. میری ذات سے جن برکات کا ظہور اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا جو نزول ہو رہا ہے وہ تمہارے سامنے ہے. انتہائی قلیل تعداد اور بے سروسامان ہونے کے باوجود اللہ کی نصرت و تائید سے تمہیں مشرکین و کفار پر جو فتوحات حاصل ہو رہی ہیں‘ ان کا تم اپنی چشم سر سے ہر لمحہ مشاہدہ کرتے ہو. میں نے بنفسِ نفیس تمہیں توحید کی دعوت پہنچائی ہے‘ تم پر قرآن مجید کی تبلیغ اور اس کے معارف و حکم کی تبیین کی ہے‘ تو تم کیسے ایمان نہ لاتے! اب حضور خو دجواب ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا لَّـقَوْمٌ یَّـکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ ’’میرے نزدیک تو سب سے زیادہ دلربا‘ دلکش اور حسین ایمان اُن لوگوں کا ہو گا جو میرے بعد ہوں گے‘‘ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْھَا کِتَابٌ ’’ان کو تو اوراق ملیں گے جن میں ایک کتاب (قرآن مجید) درج ہوگی‘‘ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْھَا ’’وہ اس پر ایمان لائیں گے جو کچھ اُن اوراق میں ہو گا‘‘. یعنی وہ نہ میرے دیدار سے شاد کام ہوئے‘ نہ انہوں نے میری صحبت سے فیض اٹھایا‘ نہ انہوں نے ان برکات‘ معجزات‘ نزولِ رحمت اور نصرتِ الٰہی کا بچشم سر مشاہدہ کیا‘ لیکن وہ اس قرآن پر ایمان لانے کے ذریعے سے ان تمام حقائق کو نیہ و تشریعیہ پر ایمان لائیں گے جو میں لے کر آیا ہوں. 

اس مقام پرایک اہم بات کی وضاحت ضروری ہے. یہاں افضلیت کی بات نہیں ہو رہی. انبیاء کے بعد افضل ترین ایمان لاریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کا ہے. یہاں حسین و دلکش ایمان کی بات ہو رہی ہے‘ ان کے ایمان کی جنہوں نے نہ اللہ کی سب سے عظیم نشانی یعنی نبی اکرم کے چہرۂ انور کا دیدار کیا اور نہ دنیاکے عظیم ترین مربی و مزکی کی صحبت سے مستفیض ہوئے‘ لیکن انہوں نے نورِ ایمان قرآن مجید سے حاصل کیا جو درحقیقت منبع و سرچشمۂ ایمان ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نور قرار دے رہا ہے: 
جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا ؕ تو ایک سند قرآن مجید سے اور ایک سند حدیث شریف سے کافی ہے. معلوم ہوا کہ بے یقینی کے اس روگ کا واحد علاج قرآن حکیم ہی ہے. یہی بے یقینی کو ختم کرنے والی واحد تلوار ہے. چنانچہ ’’بے یقینی‘‘ کے خلاف بھی ’’جہاد بالقرآن‘‘ کرنا ہوگا. اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارۂ کار نہیں!

محاذِ چہارم

نفس پرستی اور شیطانی ترغیبات

اس دَور میں نفس پرستی اور شیطانی ترغیبات کا محاذ بڑی اہمیت کا حامل ہے. اس ضمن میں عام لوگوں کی نفس پرستی اتنی اہمیت نہیں رکھتی. اس لیے کہ اس کا سبب تو وہی ہے جس پر جاہلیت ِ قدیمہ‘ جاہلیت ِ جدیدہ اور بے یقینی کے محاذوں کے ضمن میں گفتگو کے دوران اشارات ہو چکے ہیں‘اور پھر اس نفس پرستی کا تعلق زیادہ تر افراد کی اپنی ذاتی زندگی سے ہے‘ لیکن ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اسے باقاعدہ ایک منظم ادارے (institution) کی شکل دے رکھی ہے اور کلچراور ثقافت کے نام پر منکرات و فواحش کا بازار گرم کر رکھا ہے. ایک مسلمان کے دل میں اباحیت اور منکرات سے جو بعد اور نفور ہوتا تھا اور حرام چیزوں کے خلاف دل میں جو جذبۂ نفرت ہوتا تھا اسے ثقافتی طائفوں‘ریڈیو اور ٹی وی ڈارموں‘ راگ و رنگ کی محفلوں اور تعلیمی‘ کاروباری‘ دفتری اور صنعتی اداروں میں مرد و زن کے مخلوط طریق ِکار کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے. اور اس سارے نظام کو ایک طرف اباحیت پسند طبقے اور دوسری طرف خود سرکاری سطح پر سرپرستی حاصل ہے. اس کو تہذیب ‘ ثقافت‘ فنونِ لطیفہ اور مرد وزن کی مساوات کے خوشنما نام دیے گئے ہیں. اب بے پردگی‘ نیم عریانی‘ خواتین کی رنگین و مزین تصاویر کو تہذیب و تمدن کی ناگزیر ضرورت قرار دیا گیا ہے اور اس طرح عورت کو چراغِ خانہ سے شمع محفل اور اس سے بڑھ کر اشتہاری جنس بنا کر رکھ دیا گیا ہے.ہمارے اخبارات و رسائل (اِلّا ماشاء اللہ) اور دوسرے ذرائع ابلاغ اس میں مسابقت کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں‘اس کو وقت اور زمانے کا تقاضا سمجھ لیا گیا ہے. دین تو رہاایک طرف‘ ہماری جو معاشرتی‘ تہذیبی اور مجلسی اقدار تھیں‘ ان سب کو بھی پامال کیا جارہا ہے. 
جو لوگ یہ سب کچھ کر رہے ہیں وہ اگرچہ اقلیت پر مشتمل ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا 
ذرائع ابلاغ پر پوری طرح غلبہ اور تسلط ہے. اس اقلیتی گروہ نے کچھ وقتی تقاضوں اور کچھ لوگوں کے دینی رجحان کے پیش نظر ان ذرائع ابلاغ کا کچھ حصہ اسلامی اور دینی پروگراموں کے لیے بھی مخصوص کر رکھا ہے جو اکثر و بیشتر محض بہلاوے اور دکھاوے کے لیے ہوتے ہیں ‘اوربڑی چابک دستی ‘ہوشیاری اور احتیاط یہ برتی جاتی ہے کہ کہیں کوئی ایسا کام نہ ہو جائے کہ ان ذرائع ابلاغ سے عوام الناس تک دین کا حقیقی پیغام پہنچ جائے. مبادا اعجازِ قرآنی لوگوں کے اذہان و قلوب میں نفوذ کر کے ان کو مسخر کر لے. یہ وہی خوف ہے جس کا اظہار علامہ اقبال مرحوم نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس ِشوریٰ‘‘ میں ابلیس کی زبان سے اس طرح کرایا ہے ؎ 

عصر ِحاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبرؐ کہیں!

لہذا سرکاری ذرائع ابلاغ میں دین و مذہب کے نام سے جو پروگرام رکھے جاتے ہیں یا اخبارات و رسائل میں جو صفحات مختص کیے جاتے ہیں ان میں بظاہر احوال کوشش یہ ہوتی ہے کہ غیر محسوس طریقے سے انتشار (confusion) کو ہوا دی جائے. چنانچہ کوئی مشرق کی بات کہتا ہے تو کوئی مغرب کی بات لکھتا ہے. کوئی شمال کی بات کہے گا تو اگلا جنوب کی بات کرے گا‘تا کہ دین و مذہب کے بارے میں نفسیاتی الجھاؤ اور ذہنی انتشار بڑھتا چلا جائے. پھر بالفرض کوئی مؤثر بات آ ہی جائے تو فوری طور پر اس کے متصلاً بعد کچھ ایسے پروگرام رکھ دیے جائیں گے جن کے ذریعے یہ اثرات زائل ہو جائیں‘ ذہن سے محو ہو جائیں‘ یعنی ؏ 

چشم ِعالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب

پھر ان تمام ذرائع ابلاغ و وسائلِ ابلاغ کے کرتا دھرتا اُن خواتین کے بیانات‘ مضامین‘ انٹرویوز‘ تصاویر اور خبروں کو انتہائی نمایاں کرتے ہیں جو مغرب زدہ اور اباحیت پسند ہیں اور ہمارے ملک میں انتہائی اقلیت میں ہیں. لیکن تأ ثر یہ دیا جاتا ہے کہ گویا ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت اسی طرزِ فکر کی حامل خواتین کی ہے جن کے نزدیک 
دین و مذہب اور ہماری تہذیب و معاشرتی اقدار پر ِکاہ کے برابر بھی وقعت اور حیثیت نہیں رکھتیں. حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عظیم اکثریت ان دین پسند خواتین پر مشتمل ہے جن کے نظریات ان مغرب زدہ خواتین کے نظریات کے بالکل برعکس ہیں. لیکن معاملہ چونکہ یہ ہے کہ ؏ ’’ولیکن قلم در کف ِدشمن است‘‘ لہذا خواتین کے اس قلیل ترین طبقے کو وسائلِ ابلاغ کے ذریعے اس طرح project اور نمایاں کیا جاتا ہے گویا پاکستان میں بسنے والی تمام خواتین اسی نظریہ و خیال کی حامی ہیں. یہ ہے اس جہاد کا چوتھا محاذ. اب سوال یہ ہے کہ اس محاذ پر ہم کیا کر سکتے ہیں! 

کشتۂ شمشیر قرآنش کنی

ان ذرائع ابلاغ سے معاشرے میں نفس پرستی کا جو نفوذ ہو رہا ہے اور انسان کی سوچ اوررجحانات و میلانات کو جس طرح غلط رُخ پر ڈالا جا رہا ہے اس سے مقابلے کے لیے بھی ہمارے پاس ڈھال اور تلوار قرآن ہی ہے. میں نے حضرت شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ کے اس عزم کو بہت عام کیا ہے جس کا حضرت شیخ الہندؒ نے ۱۹۲۰ء میں اسارت ِ مالٹا سے رہائی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء کے ایک اجتماع میں اظہار کیا تھا:

’’میں وہیں (مراد ہے اسارتِ مالٹا) سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کر دوں کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناً عام کیا جائے. بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے…‘‘
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علمائے حقانی و ربانی جو اپنا تعلق امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہما اللہ سے قائم کرنے کو اپنے لیے موجب اعزاز و افتخار سمجھتے ہیں‘ وہ فقہی و کلامی تعبیر اور استنباط کی بحثوں سے صرفِ نظر کر کے ایک منظم تحریک کی شکل میں حضرت شیخ الہندؒ کے عزم کو عملی شکل دینے کے لیے کمر ہمت کس لیں. شہر شہر‘ محلہ محلہ‘ کوچہ کوچہ‘ قریہ قریہ عوامی درسِ قرآن کے حلقے قائم کریں اور قرآن مجید‘ فرقانِ حمید کی شمشیر برّاں کے 
ذریعے نفس پرستی اور اباحیت پسندی کے خلاف جہاد کریں اور اس سیلاب کے آگے سدِّذوالقرنین بن جائیں. یہی پیغام اس مردِ قلندر نے آج سے قریباً نصف صدی قبل دیا تھا جس کو بجا طور پر حکیم الامت کہا جاتا ہے ‘یعنی ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم و مغفور. ان کا پیغام تھا ؎ 

اے کہ می نازی بہ قرآنِ عظیم 
تاکجا در حجرہ ہا باشی مقیم!
در جہاں اسرارِ دیں رافاش کن 
نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن! 

’’اے وہ شخص جسے حاملِ قرآن عظیم ہونے پرفخر ہے‘ آخر کب تک حجروں اور گوشوں میں دَبکے رہو گے؟ اٹھو اور دنیا میں دینِ حق کے اسرار و رموز اور عرفان و فیضان کو عام کرو اور شریعت اسلامی کے حکم و عبر کی نشر و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہو جاؤ!‘‘

یہ ہے علامہ مرحوم کا پیغام حاملِ قرآن اُمت اور بالخصوص علمائے حق کے لیے. بفضلہ تعالیٰ ملک کا کوئی قابلِ ذکر شہر ایسا نہیں ہے جس میں غالب اکثریت ایسے علمائے کرام کی نہ ہو جن کا امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ یا حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے اکابر سے ارادت و عقیدت کا تعلق نہ ہو. آخر الذکر بھی درحقیقت ولی اللّٰہی اور دیوبند کے مکتب ِ فکر سے وابستہ رہے ہیں اور تھانوی مکتب فکر ہو یا ندوی‘ یہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں. اسی طرح مسلک ِ سلفی کا تعلق تو براہِ راست حضرت شاہ اسماعیل ؒ جیسے غازی و مجاہد اور شہید اور امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے قائم ہے. اگر ہمارے یہ علماءِ عظام منظم ہو کر عوامی درسِ قرآن کی تحریک برپا کر دیں تو اِن شاء اللہ العزیز نفس پرستی‘ اباحیت پسندی اور خدا ناآشنا ثقافت و فنونِ لطیفہ کے نام سے جو زہر ہمارے معاشرے میں پھیلایا جا رہا ہے اس کا سدّباب بھی ہو جائے گا اور جیسے جیسے قرآن حکیم اُمت کے اذہان و قلوب میں نفوذ اور سرایت کرے گا تو نتیجتاً ذرائع ابلاغ پر قابض اباحیت پسند قلیل طبقہ یا تو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر یا اسلام کے سچے خادموں کے لیے جگہ خالی 
کرنے پر مجبور ہو جائے گا. البتہ اس کے لیے ناگزیر شرط یہ ہے کہ تمام انواع کے فقہی و کلامی اختلافات و تأویلات سے دامن بچایا جائے اورقرآن حکیم کا انقلابی پیغام عامۃ الناس تک پہنچایا جائے. اگر اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھاگیا توابلیس کا وہ مشورہ کارگر ہوگا جو اُس نے اپنی شوریٰ میں بقول علامہ اقبال پیش کیا تھا کہ ؎ 

ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے 
یہ کتاب اللہ کی تأویلات میں اُلجھا رہے 

ذہن و فکر کی تطہیر اور سیرت و کردار کی تعمیر کی اساس اور نفس پرستی کے سیلاب کے آگے کوئی چیز اگر سد اور بند بن سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف قرآن مجید ہے. اباحیت و نفس پرستی کے قلع قمع کے لیے اگر ہمارے ہاتھ میں کوئی تیغ بے زنہار ہے تو وہ قرآن مجید ہے. علامہ اقبال کے یہ اشعار میں نے بارہا آپ کو سنائے ہیں‘ جن میں درحقیقت دو احادیث کی ترجمانی کی گئی ہے. یہ اشعار میرے مفہوم و مطلوب کو آپ کے اذہان و قلوب میں منتقل اور جاگزیں کرنے میں بہت ممد و معاون ہوں گے ؎

کشتن ابلیس کارے مشکل است 
زانکہ اُو گم اندر اعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی 
کشتۂ شمشیر قرآنش کنی! 

’’ابلیس کو ہلاک کر دینا ایک نہایت مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ اس کابسیرا نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ہے. بہتر صورت یہ ہے کہ اسے قرآنِ حکیم کی حکمت و ہدایت کی شمشیر سے گھائل کر کے مسلمان بنا لیا جائے.‘‘

واقعہ یہ ہے کہ آج ہماری ملی و قومی زندگی کے شعور کی گہرائیوں میں آرٹ کونسلز‘ ثقافتی طائفوں کے مبادلوں‘ راگ و رنگ کی محفلوں‘ رومانی ڈراموں‘ افسانوں اور لٹریچر اور ٹیلی ویژن کے مختلف 
"Cultural Shows" نے ڈیرا لگا رکھا ہے. ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیتیں اس میٹھے زہر کی سرپرستی کر رہی ہیں. ان سے نبرد آزما ہونا آسان کام نہیں ہے. بہتر شکل یہی ہے کہ قرآن کی تلوار سے ان ارباب ِ اختیار کومسلمان بنانے کی کوشش کی جائے.

حقیقت یہ ہے کہ نفسانیت اور شہوانیت تو ہمارے نفس کے اندر ہی ہیں. شیطان ان نفسانی خواہشات و داعیات کو بھڑکاتا ہے ‘ انہیں مشتعل کرتا ہے‘ اس سے زیادہ اور 
کچھ نہیں کرتا. چنانچہ آخرت میں جب فیصلے چکا دیے جائیں گے تو جو لوگ دنیا میں شیطان کے دجل و فریب کا شکار ہوئے تھے وہ اس کو ملامت کریں گے. شیطان اس کا جو طویل جواب دے گا اُسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ ابراہیم میں نقل فرمایا ہے. اس جواب میں وہ کہے گا:

وَ مَا کَانَ لِیَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُکُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِیۡ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِیۡ وَ لُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِکُمۡ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِیَّ ؕ (آیت ۲۲)
’’میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں‘ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنے راستے کی طرف بلایا (اسے خوش نما‘ دلفریب اور تمہارے نفس کے لیے لذت آفریں بنا کر پیش کیا) تو تم نے میری دعوت پر لبیک کہا. پس اب مجھے ملامت نہ کرو‘ بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو . یہاں نہ میں تمہاری کوئی فریاد رسی کر سکتا (اور تمہارے کام آ سکتا )ہوں اور نہ ہی تم میری فریاد رسی کر سکتے(اور میرے کام آ سکتے )ہو.‘‘

معلوم ہوا کہ شیطان اپنے راستے کو بہت مزین کر کے انسان کو اس کی طرف بلاتاہے ‘پھر انسان کے نفس میں‘ اس کے پورے وجود میں اس کی دعوت خوش نما زہر بن کر سرایت کر جاتی ہے. لہذا اس زہر کے لیے تریاق بھی وہ درکار ہے جو پورے وجود میں سرایت کر سکے اور پھر جس میں حلاوت اور تأثیر بھی ہو. ایسا کوئی تریاق سوائے قرآن کے اور کوئی نہیں ہے ؎ 

چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود 

’’یہ قرآن اگر کسی کے اندر اتر جائے تو اُس کے باطن میں ایک انقلاب آجائے‘ اور فرد کے اندر کا یہ انقلاب ایک بین الاقوامی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے.‘‘

محاذ پنجم

فرقہ واریت

ہمارا پانچواں محاذ جس پر ہمیں جہاد بالقرآن کرنا ہے‘ وہ فرقہ واریت ‘ تشتت‘ انتشار اور باہمی اختلافات کا محاذ ہے. یہ عناصر وحدت ِ اُمت کو صدیوں سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں. انہی کے باعث دولت ِ عباسیہ ختم ہوئی اور سقوطِ بغداد کا سانحہ پیش آیا. انہی کی وجہ سے بغداد کے گلی کوچوں میں اہل سنت کے دو گروہ دست بگریباں ہوئے‘ تلواریں بے نیام ہوئیں اور خون کی ندیاں بہائی گئیں. سلطنت ِ ہسپانیہ کے زوال و انحطاط اور پھر کامل سقوط کے عوامل میں جہاں قبائلی عصبیتیں کار فرما تھیں وہاں اس تباہی میں فقہی و کلامی اختلافات کا عمل دخل بھی تھا. اور اب محسوس ہو رہا ہے کہ یہ اختلافات سلطنت ِ خداداد پاکستان کے لیے بھی روز بروز زیادہ سے زیادہ نازک اور خطرناک صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں. 

ماضی قریب میں بادشاہی مسجد کے ایک مبینہ واقعہ بلکہ محض افواہ پر معرکہ آرائی کی جو تکلیف دہ صورتِ حال بنی تھی‘ یہ چنگاری جنگل کی آگ بن سکتی تھی اور ہم میں سے ہر شخص اپنے طور پر اس کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ آگ ہمارے لیے کتنی ہولناک اور تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی. فرقہ واریت کا بارود اب بھی ہمارے یہاںموجود ہے‘ کوئی شر پسند گروہ اس کو کسی وقت بھی دیا سلائی دکھا سکتاہے. اس نازک صورت حال میں ہماری ملی و سیاسی زندگی اورہمارے وطن کے مستقبل کے لیے جو خطرات مضمر ہیں ‘ میں اس وقت ان کے بارے میں بات نہیں کر رہا. پھر یہ کہ فی الوقت صورتِ حال جس ہلاکت خیزی کے دہانے تک پہنچی ہوئی ہے اس کے اسباب و علل کے متعلق بھی میں اس وقت کچھ عرض نہیں کروں گا. اِس وقت مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اس کا علاج صرف تشویش ظاہر کرنے سے تو نہیں ہو جائے گا‘ محض پریشان ہونے سے توکوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا! اس کے لیے مثبت کام کرنا 
ہوگا. اس کے لیے بھی جہاد کرنا ہوگا اور اس جہاد کے لیے بھی قرآن ہی واحد تلوار ہے. 

اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست!

فرقہ واریت کے اس عفریت کا سر قلم کرنے ‘ اس کا قلع قمع کرنے اوراس کو نیست و نابود کرنے کے لیے واحد تلوار صرف قرآن ہے. یہی سبق ہم کو سورۂ آل عمران کی آیت۱۰۳ کے ابتدائی الفاظ میں ملتا ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ تمام مفسرین اور تمام علماء عظام کا اس امر پر اجماع ہے کہ یہاں حبل اللہ سے مراد قرآن مجید ہے اور یہ رائے متعدد احادیث ِصحیحہ کی روشنی میں قائم کی گئی ہے. آیت ِ مبارکہ کے اس حصے سے علامہ اقبال مرحوم نے جو کچھ اخذ کیا ہے وہ میں آگے بیان کروں گا. اس وقت میں اکبر الٰہ آبادی مرحوم کا ایک شعر سناتا ہوں جو ہمارے موجودہ حالات پر منطبق ہوتا ہے. فرماتے ہیں: ؏ 

صوم ہے ایمان سے‘ ایمان غائب صوم گم

یعنی آدمی روزہ تو ایمان ہی کے تقاضے کے تحت رکھ سکتا ہے. (خاص طور پر موسمِ گرما کے روزے )جب ایمان ہی نہیں رہا تو صوم تو آپ سے آپ گیا! پھر اس کا التزام و اہتمام کیسے ہوگا؟ اگلا مصرع نہایت قابل توجہ ہے: ؏ 

قوم ہے قرآن سے‘ قرآن رخصت قوم گم

مسلمانوں کی ملّی اور قومی شیرازہ بندی قرآن سے ہے. قرآن درمیان سے ہٹ گیا یا آپ کی توجہ قرآن سے ہٹ گئی تو نتیجہ ایک ہی ہوا‘ یعنی وحدت ِ ملّی کا شیرازہ بکھر گیا. اسے اقبال نے اس طرح تعبیر کیا ہے ؏ 

یا مسلماں مُرد یا قرآں بمرد!

یعنی یا مسلمان مر چکا ہے یا (معاذ اللہ) قرآن مر چکا ہے. اقبال دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن تو زندہ و پائندہ ہے‘ لیکن مسلمانوں کی توجہ مر چکی ہے. قرآن سے ان کا شغف و التفات ختم ہو چکا ہے. چنانچہ علامہ مرحوم نے مسلمانوں کو چونکانے کی غرض سے یہ پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے. 
عظمت ِ قرآن کے بیان میں علامہ اقبال کے یہ اشعار بھی انتہائی قابل توجہ ہیں: ؎ 

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است 
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں 
زندہ و پائندہ و گویا ست ایں
صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست 
عصر ہا پیچیدہ در آناتِ او ست 

’’اس قرآن کے بارے میں جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اُسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں! حقیقت یہ ہے کہ یہ محض کتاب نہیں ہے‘ کچھ اور ہی شے ہے! یہ ذاتِ حق سبحانہ و تعالیٰ کا کلام ہے لہذا اُ سی کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی.اور یہ کتاب جیتی جاگتی اور بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی ہے. اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہاں آباد ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود ہیں.‘‘
لیکن مسلمانوں کا اس کتابِ الٰہی ‘ اس 
’’ہدًی للنّاس‘‘ اس فرقانِ حمید ‘ اس نسخہ ٔشفا کے ساتھ کیا سلوک و رویہ باقی رہ گیا ہے ‘اس کا نوحہ اقبال اس طرح کرتے ہیں : ؎ 

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست! 
کہ از یٰسین او آساں بمیری!

’’لیکن افسوس کہ اے مسلمان! تجھے اس قرآن کی آیات سے اب اس کے سوااورکوئی سروکار نہیں رہا کہ اس کی سورۂ یٰسین کے ذریعے موت کو آسان کرلے.‘‘

علامہ کے یہ اشعار بھی میں بارہا اپنی تقریر و تحریر میں پیش کر چکا ہوں جن میں انہوں نے بڑی دل سوزی کے ساتھ ہماری ذلت و خواری‘ ہمارے انتشار‘ ہماری آپس کی چپقلش اور تنازعات کی تشخیص بھی کی ہے اور علاج بھی تجویز کیا ہے : ؎

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی 
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ 
در بغل داری کتابِ زندۂ 

حضرت شیخ الہندؒ نے اسارتِ مالٹا سے رہائی کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں کی دینی و دُنیوی تباہی و بربادی کا جہاں ایک سبب ’’ قرآن کو چھوڑ دینا‘‘ قرار دیا تھا وہاں دوسرا سبب ’’ آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ‘‘ بھی بیان کیا تھا. عوامی درسِ قرآن کے حلقے قائم کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ آپ نے اس ارادہ کا اظہار بھی کیا تھا کہ مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو ختم کرنے کے کام میں بھی وہ اپنی باقی زندگی صرف کریں گے. مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ جو اِس روایت کے راوی ہیں‘ انہوں نے اس پر اس طرح تبصرہ فرمایا تھا کہ ’’حضرتؒ نے ہمارے زوال وانحطاط کے جو دو سبب بیان کیے تھے‘ غور کیا جائے تو یہ دونوں ایک ہی ہیں. ہمارے باہمی اختلافات اورباہمی جنگ و جدال کا سبب بھی قرآن کو ترک کر دینا ہی ہے‘‘. ان دو اکابر کا اس پرکامل اتفاق نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح اور ان کے باہمی اختلاف کو ختم یا کم‘ازکم ان کی شدت کو کم کرنے اور ان میں اعتدال پیدا کرنے کا واحد ذریعہ اعتصام بالقرآن ہے.

علامہ اقبال نے اسے جس پُر شکوہ انداز میں ادا کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے. فرماتے ہیں : ؎

ازیک آئینی مسلماں زندہ است 
پیکر ملت ز قرآں زندہ است
ماہمہ خاک و دل آگاہ اوست 
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست

’’ وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اورملت کے جسد ِظاہری میں روح ِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے‘ ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا یہ وجود مٹی ہے! ہاں اس میں دل ہے‘ جس کی دھڑکن اس کو زندہ رکھے ہوئے ہے. (ہمارا قلب ِ زندہ اور ہماری روح ِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے.) اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامو کہ یہی حبل اللہ یعنی اللہ کی مضبوط رسّی ہے.‘‘ 
اور فرماتے ہیں : ؎ 

چوں گہر در رشتۂ او سفتہ شو 
ورنہ مانند غبار آشفتہ شو 

’’اے ملت ِاسلامی! اب بھی وقت ہے کہ تو اپنے آپ کو تسبیح کے موتیوں کی طرح قرآن کے رشتے میں بیندھ لے اور پرو لے ‘ورنہ پھر اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ خاک اور دُھول کی مانند پریشان و منتشر اور ذلیل و خوار رہ!‘‘ میرا تأ ثر یہ ہے اور میں اسے تقریر میں بھی اور تحریر میں بھی برملا ظاہر کرتا رہا ہوں کہ ماضی قریب میں قرآن کی عظمت اور مرتبہ و مقام کا انکشاف جس شدت کے ساتھ علامہ اقبال پر ہوا شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو. علامہ مرحوم نے اپنی شاعری بالخصوص فارسی شاعری میں نہایت دل گداز‘ مؤثر اور تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جانے والے مختلف اسالیب سے ملت ِ اسلامیہ کو جھنجھوڑا ہے اور اسے دعوت دی ہے کہ دین و دنیا کی فوز وفلاح چاہتے ہو تو قرآن کو تھامو. یہی تمہارے اتحاد اور تمہارے عروج کا واحد ذریعہ ہے. ان کا یہ شعر آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ؎

گر تو می خواہی مسلماں زیستن!
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن!

’’تو اگر مسلمان ہو کر جینے کا خواہش مند ہے ‘ اس کی تمنا اور آرزو رکھتا ہے تو اچھی طرح جان لے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی حیات کی بنیاد قرآن پر قائم کرے.‘‘

حاصل کلام

حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے سامنے پانچ محاذ ہیں جن کے خلاف منظم ہو کر جہاد بالقرآن کے لیے کمر کسنے کی ضرورت ہے. آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ اسی جہادکے لیے میں نے اپنا پروفیشن تج دیا. میں اپنی زندگی کے بہترین دن اسی کام میں لگا چکا ہوں.اب تو بڑھاپے میں قدم رکھ چکا ہوں. ؏’’شادم از زندگی ٔ خویش کہ کارے کر کردم!‘‘. الحمدللہ میری زندگی کے جو بہترین ایام تھے وہ اس جہاد بالقرآن میں بسر ہوئے ہیں. میرے شب و روز اور میری صلاحیتیں اور توانائیاں دروسِ قرآن‘ تقاریر‘ خطباتِ جمعہ‘ انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے قیام‘ قرآن کانفرنسوں اور محاضراتِ قرآنی کے انعقاد‘ قرآنی تربیت گاہوں کے انصرام‘ قرآنی سلسلۂ اشاعت کے انتظام‘ قرآن کے پیغام پر مشتمل مطبوعات کی اشاعت اورملک کے مختلف شہروں کے دعوتی دَوروںمیں لگی ہیں. اور الحمدللہ قرآن کا پیغام لے کر میں دوسرے ممالک میں بھی گیا ہوں. صنم خانۂ ہند‘ عالم عرب‘ امریکہ اور یورپ میں چراغ روشن کیے ہیں. لوگوں کو آمادہ کیا ہے کہ کمر کسیں اور اس جہاد بالقرآن کے لیے میدان میں آئیں. ظاہر بات ہے کہ کام کے نتائج ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے. آپ کے اسی شہر لاہور میں میں نے یہ کام چھ سال تن تنہا کیا‘جبکہ کوئی ادارہ نہیں تھا‘ کوئی تنظیم نہیں تھی. مطب بھی کر رہا تھا اور یہ کام بھی کررہا تھا. وہ جو حسرت موہانیؔ نے کہا تھا ؏ ’’ہے مشقِ سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی‘‘ تو یہ دونوں چیزیں میرے لیے بھی جاری تھیں. پھر ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن قائم ہوئی اور بقول اقبال ؎

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں!

بہرحال میرا اور انجمن کا کام اسی جہاد بالقرآن کے گرد گھومتارہا ہے. آج میں نے اس پورے کام کو پانچ محاذوں کی شکل میں مرتب کر کے آپ حضرات کے سامنے رکھ دیا ہے ‘ورنہ یہ باتیں تو میں نے بارہا کہی ہیں. میں ان کو مختلف موضوعات و عنوانات کے تحت اور مختلف پیرایوں میں بیان کرتا رہا ہوں.

آج مجھے آپ حضرات سے یہ کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے جمعہ کی اس مبارک ساعت 
(۱میں کچھ غور کیجیے‘ کچھ سوچیے‘کچھ اپنے گریبانوں میں جھانکیے. میں عرض کروں گا کہ ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص یہ معین (assess) کرے کہ میں قرآن کریم کے اعتبار سے کس مقام پر کھڑا ہوں. کیا میں قرآن پڑھتا ہوں؟ قرآن پر غور و تدبر کرتاہوں؟ قرآن سے مجھے کتنا شغف اور تعلق ہے؟ پھر یہ کہ قرآن کا جو حکم سامنے آجائے کیا بے چون و چرا اُسے مان لیتا ہوں؟ کیا قرآن کے پیغام کو آگے پہنچانے کا کوئی ارادہ‘ کوئی عزم میرے اندر ہے؟ اس ضمن میں تن من دھن سے کوئی خدمت میں نے آج تک کی ہے؟ یہ خود احتسابی ضروری ہے. انسان پہلے خود اپنا جائزہ لے‘ پھر فیصلہ کرے کہ بحیثیت مسلمان اس کو قرآن مجید کے جو حقوق ادا کرنے (۱) واضح رہے کہ یہ خطاب رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ کے ایک مبارک جمعہ کے موقع پر کیا گیا . ہیں‘ اس کام کے لیے اس کے دل میں کتنی لگن‘ تڑپ‘ ولولہ اور حوصلہ ہے! اگر نہیں ہے تو شعوری طور پر اس کے لیے کوشاں ہو. یہ بھی نہ کر سکے تو پھر اپنے ایمان کی خیرمنائے. 

میں نے ۱۹۶۸ء میں ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کے موضوع پر تقریر کی تھی. اس میں قرآن مجید کے پانچ حقوق گنوائے تھے. پہلا یہ کہ اسے مانا جائے. دوسرا یہ کہ اسے پڑھا جائے. تیسرا یہ کہ اُسے سمجھا جائے. چوتھا یہ کہ اس پر عمل کیا جائے اور پانچواں یہ کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے. یہ تقریر مطبوعہ شکل میں موجود ہے. ان حقوق کے حوالے سے اپنا محاسبہ خود کیجیے کہ کیا ہم ان کو ادا کر رہے ہیں! اگر نہیں کر رہے ہیں تو آج ہی یہ عزم کر کے اٹھیے کہ ہم ان شاء اللہ ان حقوق کو ادا کریں گے.

یہ بھی حسنِ اتفاق ہے کہ میں نے قرآن مجید کے پانچ حقوق گنوائے تھے اور آج میں نے پانچ ہی محاذ آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں جو ہماری اپنی ملّت کی اصلاح اور اس کی دینی و ملّی زندگی کو سنوارنے کے لیے جہاد بالقرآن کے متقاضی ہیں. یہ توہماری جدوجہد کا پہلا مرحلہ ہے. ہمیں تو اس قرآن کی شمشیر بے زنہار‘ تیغ برّاں کو ہاتھ میں لے کر پورے کرۂ ارضی پر کفر‘ شرک‘ الحاد‘ دہریت‘ اباحیت‘ شیطنت اور ان کے ذریعے پیدا ہونے والے تمام امراض کا قلع قمع کرنا ہے. لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ 
" Physician heals thyself " کے مصداق اس کام کو اپنی ذات سے شروع کیجیے. پھر کمر کسیے کہ جہاد بالقرآن کے ذریعے پاکستان کے مسلم معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی بہترین توانائیاں‘ اپنی بہترین صلاحیتیں اور اپنے بہترین اوقات وقف کریں گے‘ اور اگر اللہ توفیق اور ہمت دے تو پوری زندگی اسی کے لیے وقف و مختص رہے گی ‘ ازروئے آیتِ قرآنیہ:

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام)
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو نیز تمام مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین!

اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسآئر المسلمین والمسلماتoo