واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی اس اعتبار سے نمایاں ترین صدی ہے کہ سابقہ صدیوں کے دوران حضور کی ذاتِ مبارک سے جو تعصب غیر مسلموں کو تھا وہ رفتہ رفتہ اس صدی کے دوران ختم ہوا ہے اور اس صدی کے دوران آپؐ کی عظمت کا اس پہلو سے اعتراف اور اقرار تدریجاً پوری دنیا میں ہوا ہے. اس صدی کے بالکل آغاز میں اسی شہر لاہور میں ایم این رائے نے ۱۹۲۰ء میں ’’بریڈلاہال‘‘ میں (جواب شاید کھنڈرات کی صورت اختیار کر گیا ہو گا یا وہاں کوئی اور چیز تعمیر ہو چکی ہو گی) ایک لیکچر دیا تھا جس کا موضوع ’’The Historical Role of Islam‘‘ تھا. یہ کتاب اب بھی ہندوستان میں طبع ہوتی ہے‘ جسے بمبئی کا ایک ناشر شائع کرتا ہے‘ میں نے حیدر آباد دکن میں اس کا نسخہ دیکھا ہے‘ لیکن پاکستان میں کہیں دستیاب نہیں ہے. ایم این رائے کون تھا؟ یہ ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل‘‘ کا ممبر تھا. روس میں ۱۹۱۷ء میں اشتراکی انقلاب آیا اور اس کے بعد پوری دنیا میں اس کا بڑا چرچا ہوا.

اس کے بعد عالمی سطح پر کمیونزم کی جو تنظیم قائم ہوئی وہ ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل‘‘کہلاتی تھی. دنیا کے چوٹی کے انقلابی لوگ اس کے ممبر تھے. ایم این رائے ہندوستان کی جانب سے اس کا رکن تھا جو کہ بہت بڑا انقلابی تھا‘ لیکن وہ ’’The Historical Role of Islam‘‘ میں صاف صاف کہتا ہے اور بڑی تفصیل سے کہتا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو محمد عربی ( ) نے برپا کیا تھا. حضور کے جانشینوں اور جاں نثاروں نے جس سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق‘ شام‘ ایران‘ مصر جس تیزی کے ساتھ فتح کئے‘ اگرچہ اس تیزی کے ساتھ تاریخ انسانی میں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہیں‘ ریکارڈ پر ہے کہ سکندرِ اعظم مقدونیہ سے چلا تھا اور دریائے بیاس تک پہنچا اور جس تیزی کے ساتھ علاقے فتح کرتے ہوئے آیا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے. وہ تو مغرب سے مشرق کی طرف آیا تھا جبکہ اٹیلا مشرق سے مغرب کی طرف گیا تھا. چین کے شمال میں صحرائے گوبی سے نکل کر وہ ڈینور کی وادی تک جا پہنچا تھا. لیکن ایم این رائے کہتا ہے کہ ان فاتحین کی فتوحات محض ہوسِ ملک گیری کا شاخسانہ تھیں. اس نے انہیں ’’brute military campaigns‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے نتیجے میں کوئی نئی تہذیب یا کوئی نیا تمدن وجود میں نہیں آیا‘ دنیا میں کوئی روشنی نہیں پھیلی‘ کوئی علم کا فروغ نہیں ہوا. جبکہ محمد عربی اور آپؐ کے جانشینوں کے ذریعے سے شرقاً غرباً جو فتوحات بڑی تیزی کے ساتھ ہوئیں ان کے نتیجے میں ایک نیا تمدن‘ ایک نئی تہذیب‘ علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود میں آیا. ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ہر طرح کی زیادتیوں سے پاک تھا. اس میں سیاسی جبر نہیں تھا‘ اس میں معاشی استحصال نہیں تھا‘ اس میں کوئی سماجی فرق و تفاوت نہیں تھا جیسے کہ علامہ اقبال نے محمد رسول اللہ کے بارے میں کہا ہے ؎

در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید

دنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں‘ لیکن محمد عربی نے غارِ حرا میں چند روز کے لیے جو خلوت گزینی اختیار کی تھی وہ اس قدر 
productive اور نتیجہ خیز تھی کہ ا س سے ایک نیا قوم‘ نیا تمدن‘ نیا آئین اور حکومت وجود میں آ گئی ہے. یہ ہے آنحضور کی وہ عظمت کہ جس کا اظہار ایم این رائے نے اس صدی کے رُبع اوّل کے آخری سالوں میں کیا‘ جو مسلمان نہیں‘ ہندو کمیونسٹ تھا.
دوسری طرف اس صدی کے رُبع آخر کے ابتدائی سالوں میں امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’The Hundered‘‘ ۱۹۸۰ء میں منظر عام پر آئی ‘ جس میں اس نے پوری معلوم تاریخ انسانی کا جائزہ لیا ہے کہ تاریخ کے سفر کے دوران کن کن شخصیات نے اس تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا ہے. اس نے ایسے سو افراد کو چن کر اُن پر کتاب لکھی ہے اور ان کے اندر بھی درجہ بندی (Gradation) کی ہے کہ کس شخصیت نے سب سے زیادہ تاریخ کے دھارے کو متاثر کیا ہے اور سب سے زیادہ گھمبیر انداز میں اسے موڑا ہے. چنانچہ اس نے حضرت محمد کو اس درجہ بندی میں سب سے اوپر رکھا ہے. اس کتاب کا مصنف تاحال عیسائی ہے اور ابھی زندہ ہے. وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیسرے نمبر پر لایا ہے جبکہ نیوٹن کو دوسرے نمبر پر لایا ہے. نیوٹن کی فزکس نے جس طرح تاریخ انسانی کو متأثر کیا ہے اس میں واقعتا کوئی شک نہیں. سائنس اور ٹیکنالوجی کے پورے explosion کا نقطۂ آغاز نیوٹن ہے. شخصیات کے انتخاب اور درجہ بندی میں مؤلف نے کوئی مذہبی پہلو مدنظر نہیں رکھا‘ نہ ہی اپنے عقائد کو پیش نظر رکھا ہے‘ بلکہ اس کا موضوع ہی یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے دھارے کے رُخ کو موڑنے والی کون کون سی شخصیات ہیں. ان شخصیات میں نمبر ایک پر محمد رسول اللہ ‘ نمبر دو پر نیوٹن اور نمبر تین پر حضرت مسیح علیہ السلام ہیں. مسلمانوں میں اس نے ایک اور شخصیت کو ان سو (۱۰۰) کی فہرست میں شمار کیا ہے اور وہ ہیں ٹھیک پچاسویں نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ. اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ اس نے خود سوال اٹھایا ہے کہ میں ایک عیسائی ہوں اور عیسائی ہوتے ہوئے محمد ( ) کو میں نمبر ایک پر کس اعتبار سے رکھ رہا ہوں؟ اس کا جواب وہ خود دیتا ہے :

"This is because he is the only person supremely successful in both the religious and the secular fields."
یہ بہت گھمبیر اور معانی خیز جملہ ہے. لیکن اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ اس وقت کی عالمی فضا میں انسانی زندگی کو دوجداگانہ گوشوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے. ایک مذہب کا گوشہ ہے‘ اس کا تعلق اجتماعیت سے نہیں ہے‘ بلکہ صرف افراد سے ہے کہ ہر فرد کو اجازت ہے کہ جس کو چاہے مانے‘ جس پر چاہے یقین رکھے‘ ایک خدا کو مانے‘ سو کو مانے‘ کسی کو نہ مانے‘ فرد کو اس کی پوری آزادی حاصل ہے‘ جسے چاہے پوجے‘ پتھروں کو پوجے‘ درختوں کو پوجے‘ ستاروں کو پوجے‘ چاند کو پوجے‘ یہاں تک کہ اعضاءِ تناسل کو پوجے‘ ٹھیک ہے اسے اجازت ہے. لیکن یہ معاملہ انفرادی ہے. اس میں مراسم عبودیت (rituals) کے علاوہ کچھ سماجی رسومات (Social customs) کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے. مثلاً بچے کی پیدائش ہوئی ہے تو اس کی خوشی کیسے منائیں‘ کوئی فوت ہو گیا ہے تو اس کی میت کو کیسے ٹھکانے لگائیں؟ جلائیں‘ دفن کریں یا کہیں رکھ دیں کہ چیل اور کوے کھا جائیں‘ وغیرہ. اس کی بھی ہر شخص کو آزادی ہے. لیکن یہ تینوں چیزیں عقیدہ (dogma)‘ مراسم عبودیت (rituals)اور سماجی رسوم (Social Customs) انفرادی زندگی سے متعلق ہیں.دوسری طرف معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام کا تعلق زندگی کے سیکولر میدان سے سمجھا جاتا ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں. اس پر تو لوگ خود غور کریں گے‘ ان کے نمائندے بیٹھیں گے اور طے کریں گے‘ اور وہ بیٹہ کر اکثریت سے جو طے کر لیں وہی سماجی اقدار فروغ پا جائیں گی. جو بھی اکثریت سے طے کر لیں کہ یہ سماجی برائیاں ان کا وہ قلع قمع کریں گے. اگروہ شراب کی اجازت دینا چاہیں تو دیں اور اگر شراب پر پابندی لگانا چاہیں تو پابندی لگائیں. زنا کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دینا چاہیں گے تو دے دیں گے‘ اگر زنا بالرضا ہے تو اس میں کوئی جرم والی بات ہی نہیں. اگر اس میں کسی شوہر کا حق مارا گیا ہو تو وہ جائے اور سول مقدمہ دائر کردے. اسی طرح اگر چاہیں گے تو دو مَردوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے دیں گے کہ ٹھیک ہے ایک شخص ملکی قانون میں شوہر کی حیثیت اور دوسرا شخص بیوی کی حیثیت رکھتا ہے. گویا سماجی‘ معاشی یا سیاسی معاملات میں سے کسی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ secular field of life ہے.
اب نوٹ کیجیے کہ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں جتنی عظیم شخصیات ہیں وہ اگر ایک پہلو سے بلندی کی حامل ہیں تو دوسری طرف ان کا سرے سے کوئی مقام نہیں‘ ممکن ہے وہ کسی معاملے میں صفر ہوں‘ بلکہ شاید ان کے لیے کوئی minus value معین کی جائے. مثلاً مشرق میں گوتم بدھ اور مغرب میں حضرت مسیح علیہ السلام ‘دونوں کی مذہب اور روحانیت کے میدان میں اور پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے کتنی عظمت ہے‘ لیکن ریاست‘ سیاست اور معاملاتِ ملکی میں ان کا کوئی مقام اور کوئی حصہ نہیں‘ اس میں وہ دونوں صفر تھے. اسی طرح دوسری طرف اٹیلا ہو‘ سکندر اعظم ہو یا اور بہت بڑے بڑے حکمران جو دنیا میں گزرے ہیں‘ یہ سیکولر میدان میں تو بہت بلندی پر ہیں لیکن مذہبی میدان میں اس درجے پستی کا شکار ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ صفر سے بھی کام نہ چلے بلکہ منفی (minus) ویلیو لانی پڑے. سکندر اعظم کے لیے لازماً کوئی نہ کوئی منفی (minus) ویلیو لانی پڑے گی. مائیکل ہارٹ کا کہنا یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف ایک ہی انسان (The only Person) ہے جو دونوں میدانوں میں انتہائی بلندی پر ہے.
He is the only person supremely successful in both the religious and secular field.
یعنی اور کوئی ہے ہی نہیں‘ اس کا تقابل کیا ہو گا؟
یہ میں نے آپ کو صدی کے اُس سرے اور اِس سرے سے دو مثالیں دی ہیں. اب ذرا صدی کے درمیان سے بھی مثال دے دوں. H.G.Wells برطانوی سائنٹیفک فکشن رائٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت رکھتا تھا. اس نے بڑے اچھے اچھے ناول اور کہانیاں لکھیں جن میں اس نے یہ reflict کیا کہ سائنس کدھر جا رہی ہے. سائنس کی جو ایجادات اور جو اکتشافات ابھی ہونے تھے ان کو پہلے سےvisualize کر کے ان پر اس نے اپنی کہانیوں اور ناول کے بنیادی خاکے اور پلاٹس کو مبنی کیا.لہذا وہ Scientific fiction کے اعتبار سے مشہور ہے. لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے تاریخ عالم پر دو کتابیں ’’Short History of the World‘‘ اور ’’Concise History of the World‘‘ لکھیں.مؤخر الذکر کتاب زیادہ ضخیم ہے اور اس میں آنحضور پر جو باب ہے اس میں اس نے اپنے (میں اپنے دل پر جبر کر کے آپ کو بتا رہا ہوں کہ )ابتداء میں حضور کی ذاتی‘ نجی و خانگی زندگی پر نہایت رکیک حملے کئے ہیں. یوں سمجھئے جیسے دو ملعون نام نہاد مسلمانوں‘انگلینڈ میں سلمان رشدی اور بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین نے‘ آنحضور کی شخصیت پر جس قدر چھینٹے اڑائے ہیں اسی طرح کے چھینٹے H.G.Wells نے حضور کی ذاتِ مبارکہ پر خصوصاً خانگی زندگی کے حوالے سے اڑائے ہین‘ لیکن جب وہ اس باب کے اخیر میں پہنچتا ہے اور خطبہ حجۃالوداع کا ذکر کرتا ہے تو آنحضور کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے. وہ آپؐ کے الفاظ نقل کرتا ہے:

لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (۲)
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنوْ آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرابٍ (۳

’’لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں! اسی طرح کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں! کسی سرخ و سفید رنگ والے شخص کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اسی طرح کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں! فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے. تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے‘‘.

ان جملوں کا وہ باقاعدہ حوالہ دیتا ہے اور پھر لکھتا ہے :

"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before. We find a lot of these sermons that it was Mohammad who for the first time in history established a society based on these principle."
’’اگرچہ انسانی حریت ‘ مساوات اور اخوت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربی ( ) ہی تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا.‘‘

آپ اندازہ کیجیے کہ یہ دشمن کا خراج تحسین ہے جو کہ معتقد نہیں ہے. میں نے اسی لیے جبر کر کے بتایا ہے کہ وہ شخص اتنی بڑی حماقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ (معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ‘ نقل کفر کفرنباشد) محمد جیسے گھٹیا آدمی کے گرد خدیجہؓ ‘ ابوبکرؓ ‘ عثمانؓ اور عمرؓ جیسے عظیم انسان کیسے جمع ہو گئے.‘‘ حالانکہ اس احمق سے کوئی پوچھے کہ اس سوال کا جواب تو تمہیں دینا چاہیے. درخت تو اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے. تم مخمصے میں ہو جبکہ تمہیں حضرت خدیجہ ‘ ابوبکر‘عمر‘ عثمان وعلی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا اعتراف و اقرار ہے پھر بھی تمہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی عظیم شخصیتیں محمد ( ) کے گرد کیسے جمع ہو گئیں. آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ان لوگوں کے دل و دماغ کے اندر ذاتی طور پر کتنا عناد‘ بغض اور دشمنی ہے‘ لیکن اس کے باوجود وہ اس حقیقت کے اعلان و اعتراف پر مجبور ہے کہ محمد عربی کے ہاں انسانی حریت و اخوت و مساوات کے صرف وعظ ہی نہیں ملتے بلکہ آپؐ نے ان اصولوں پر بالفعل ایک معاشرہ قائم کر کے دکھایا. سچ ہے کہ ’’الفضل ما شھدت بہ الاعداء‘‘ یعنی اصل فضیلت تو وہ ہے جس کا اعتراف و اقرار دشمن بھی کریں. گویا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.

ظاہر بات ہے جو دوست ہے‘ عقیدت مند ہے اور محبت کرنے والا ہے‘ اس کی نگاہ تو محبوب کی کسی خامی کو دیکھ ہی نہیں سکتی‘ اس کی طرف سے تو گویا وہ نابینا ہو جاتی ہے جبکہ دشمن میں کوئی خیر اور خوبی نظر نہیں آتی‘ لیکن اگر کوئی دشمن کسی کی فضیلت کا اعتراف کرے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.یہاں البتہ ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ آنحضور کی مدح میں H.G.Wells نے اپنی کتاب میں یہ جملے جو لکھ دیئے تھے انہیں کتاب کے موجودہ مرتبین اور نئے ایڈیٹرز نے حذف کر دیا ہے. یہ جملے ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر پائے. H.G.Wells کو تو فوت ہوئے بہت عرصہ گزر چکا ہے. اب ’’Concise History of the World‘‘ کا جو نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے اس میں وہ جملے حذف کر دیئے گئے ہیں. یہ وہ کڑوی گولی تھی جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اُتر پائی.لیکن آپ کو پنجاب پبلک لائبریری یا کسی او رپرانی لائبریری سے یہ پرانے نسخے مل جائیں گے جس میں مذکورہ بالا الفاظ موجود ہیں.