انقلابِ نبوی ؐ کا دیگر انقلابات سے تقابل

محمد رسول اللہ کی اصل عظمت جس کو ہم بحیثیت انسان سمجھ سکتے ہیں‘ جس کا لوہا آج پوری دنیا مان رہی ہے اور جس کا انکشاف پورے عالم انسانی پر ہو چکا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ آپ نے ایک عظیم ترین‘ گھمبیر ترین‘ جامع ترین اور ہمہ گیر ترین انقلاب برپا کیا اور یہ انقلاب کم از کم وقت میں برپا کیا گیا. اس سے بھی زیادہ نمایاں بات یہ ہے کہ اس انقلابی جدوجہد کی ابتداء سے لے کر اختتام تک جتنے مراحل بھی آئے آنحضور نے اس کے ہر ہر مرحلے پر قیادت کی ذمہ داری خود ادا فرمائی. اس اعتبار سے تقابل کر لیجیے کہ تاریخ انسانی کے دو انقلابات بہت مشہور ہیں. انقلاب ِ فرانس یقینا ایک بہت بڑا انقلاب تھا‘ دنیا سے بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریت کے دور کا آغاز اسی انقلابِ فرانس سے ہوا‘ جو سوا دو سو برس قبل کی بات ہے. انقلابِ روس یعنی بالشویک انقلاب بھی یقینا ایک عظیم انقلاب تھا‘ جو ۱۹۱۷ء میں آیا. اگرچہ ستر برس کے اندر اندر اس انقلاب کی موت واقع ہو گئی لیکن کھنڈر بتا رہے ہیں کہ عمارت عظیم تھی. وہ بڑے جوش وخروش کے ساتھ وجود میں آیا تھا اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ پھیلتے ہوئے روس سے لاطینی امریکہ تک جا پہنچا. کتنی عظیم توسیع بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ہوئی ہے. لیکن ان دونوں انقلابات کا جائزہ لیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں:

(۱) دونوں جزوی انقلاب ہیں. انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی ڈھانچہ بدلا‘ باقی عقائد‘ رسومات‘ سماجی نظام‘ سماجی اقدار‘ معاشی نظام اور تمام معاشی ادارے اسی طرح قائم رہے. سیاسی نظام کے سوا باقی زندگی جوں کی توں رہی. دوسری طرف بالشویک انقلاب کے ذریعے معاشی ڈھانچہ بدل گیا‘ اس میں انفرادی ملکیت ختم ہو گئی‘ تمام وسائل پیداوار قومی ملکیت میں آ گئے‘ لیکن مکمل تبدیلی نہیں آئی. آپ کو معلوم ہے کہ وہاں جیسے پہلے کرسچین موجود تھے اسی طرح بعد میں بھی رہے‘ جو عقائد پہلے تھے وہی بعد میں رہے. سماجی اقدار بھی وہی رہیں. سارا نقشہ جوں کا توں رہا‘ بس معاشی انقلاب آ گیا. اس کو پس منظر میں رکھ کر دیکھئے محمد عربی  کالایا ہوا انقلاب کس قدر جامع اور گھمبیر ترین تھا. یہاں آپ خورد بین لگا کر دیکھ لیجیے‘ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو سابقہ حالت میں باقی رہ گئی ہو؟ جواب نفی میں ملے گا. عقائد و نظریات بدل گئے‘ شخصیتیں بدل گئیں‘ اخلاق بدل گئے‘ ان کے شب و روز کے انداز بدل گئے‘ صبح و شام بدل گئے‘ نشست وبرخاست کے انداز بدل گئے‘ پھر یہ کہ سماجی نظام‘ سیاسی نظام اور معاشی نظام بدل گیا. وہ قوم جس میں پڑھے لکھے لوگ بمشکل انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے وہ علوم کے موجد ہو گئے‘ دنیاکے استاد بن گئے. انہوں نے مشر ق و مغرب کے علوم ہندو یونان سے لیے اور انہیں ترقی دے کر پورے عالم میں پھیلا دیا. آپؐ کا انقلاب ہمہ گیر ترین‘ جامع ترین اور عظیم ترین انقلاب تھا. انقلابِ محمدیؐ کے مقابلے میں انقلابِ روس اور انقلابِ فرانس کی کیا حیثیت ہے؟ چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک!

(۲) فرانس اور روس کے انقلابات بلکہ دنیا کے دوسرے تمام انقلابات کے اندر یہ چیز قدر مشترک ہے کہ فکر دینے والے اور دعوت کا آغاز کرنے والے کچھ اور لوگ تھے‘ لیکن وہ صرف قلم کار اور مصنفین تھے‘ وہ مَرد میدان نہیں تھے‘ چنانچہ وہ انقلاب کی عملی جدوجہد میں سامنے نہیں آئے . نہ انہوں نے خود آگے بڑھ کر کوئی انقلابی جماعت بنائی اور نہ آگے بڑھ کر انقلابی جدوجہد کی قیادت کی. وہ تو صرف people of the desk تھے. انقلاب کچھ اور لوگوں کے زیرقیادت و زیرراہنمائی وجود میں آیا‘کیونکہ انقلابی فکر فراہم کرنے والے میدان کے آدمی تھے ہی نہیں. یہی وجہ ہے کہ انقلابِ فرانس بڑا خونی انقلاب کہلاتا ہے‘ کیونکہ قیادت کوئی نہیں تھی‘ وہ تو ایک فکر تھا جو پھیل گیا اوراس نے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کر دیا‘ اور پھر اچانک وہ لاوا پھٹ پڑا. چونکہ کوئی تنظیم نہیں تھی اور کوئی قیادت نہیں تھی لہٰذا انتہائی خونی انقلاب آیا. روس میں بالشویک انقلاب کی بنیاد ’’Das Capital‘‘ نامی کتاب بنی‘ جو کارل مارکس اور اینجلز نے مشترکہ طور پر لکھی. اندازہ کیجیے کہ یہ کتاب کتنے ٹھوس دلائل پر مبنی ہو گی کہ ا س نے کس طرح انسانی ذہن کو اپنی گرفت میں لیا اور کس طرح ساری تعبیرات کو بدل کر رکھ دیا. اس کتاب میں پوری حیاتِ انسانی کی خالصتاً مادی تعبیر کی گئی ہے اور مذہب و روحانیت کی بالکل نفی کی گئی ہے‘ لیکن اس کتاب کے دلائل نے لوگوں کو اس طرح اپنی گرفت میں لے کر انہیں متحرک کیا کہ لوگ جانیں تک دینے کو تیار ہو گئے اور انقلاب برپا کر دیا. اقبال نے یونہی نہیں کہا کہ ع

’’نیست پیغمبر ولیکن دربغل دارد کتاب!‘‘
تو واقعتا اس ایک کتاب نے یہ بالشویک انقلا ب برپا کیاہے‘ جس کے مصنف مارکس اور اینجلز تھے. ان دونوں نے اپنی یہ کتاب جرمنی اور لندن میں بیٹہ کر لکھی‘ لیکن جرمنی اور لندن میں کوئی انقلاب واقع نہیں ہوا. پھر یہ دونوں مصنف اپنی زندگی میں اپنی قیادت اور سرکردگی میں کسی ایک گاؤں میں بھی انقلاب برپا نہیں کر سکے. انقلاب تو وہاں سے ہزاروں میل دور بالشویک پارٹی کے ذریعے روس میں آیا. اور جس طرح انقلابِ ایران سے پہلے خمینی صاحب فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور انہوں نے عین وقت پر آ کر ایران میں ہونے والے ہنگاموں کی قیادت سنبھال لی‘ اسی طرح عین وقت پر لینن نے آ کر اس تحریک کو ہائی جیک کیا اور انقلاب برپا کر دیا.

اس تناظر میں دیکھئے کہ محمد عربی نے ایک فردِ واحد کی حیثیت سے اپنی دعوت کا آغاز کیا. آپ ہی فکر دینے والے تھے‘ آپؐ ہی دعوت دینے والے تھے‘ آپؐ ہی مکے کی گلیوں میں گھوم پھر کر تبلیغ کررہے تھے : یٰٓــاَیـُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ تُفْلِحُوْا ’’اے لوگو!کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ کوئی الٰہ نہیں‘ کامیاب ہو جاؤ گے.‘‘ آپؐ ہی ہیں جو کبھی اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے ان کے سامنے دعوت پیش کر رہے ہیں اور کبھی کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارتے ہوئے لوگوں کو جمع کرتے ہیں اور دعوت پیش کرتے ہیں.آپؐ ایک فردِ واحد اور داعی کی حیثیت سے سامنے آئے اور کل بائیس برس میں پورے جزیرہ نمائے عرب میں انقلاب کی تکمیل کر دی اور ہر ہر مرحلے پر اس کی قیادت خود فرمائی. وہی گلیوں میں تبلیغ کرنے والے غزوۂ بدر میں کمانڈر ہیں‘ غزوۂ احد میں وہی سپہ سالار ہیں. جیسے کہ میں نے مائیکل ہارٹ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے‘ یہ نقشہ دنیا نے کبھی دیکھا ہی نہیں‘ اس کی کوئی نظیر یا مثال ہی نہیں. کیونکہ گلی کوچوں میں تبلیغ کرنے والے تو یہی کام کرتے رہ جاتے ہیں‘ مربی اور مزکی کا اپنا ایک دائرہ ہوتا ہے‘ جو ان کے پاس چل کر آئیں‘ ان کی خانقاہ میں طالب بن کر آئیں تو ان کا کچھ تزکیہ کر دیں گے‘ کچھ اصلاح ہو جائے گی. لیکن یہ منظر چشمِ فلک نے ایک ہی بار دیکھا ہے کہ ایک فردِ واحد فکر دے رہا ہے‘ وہی دعوت دے رہا ہے اور اس مرحلے پر بظاہر کیسی کیسی ناکامیاں سامنے آتی ہیں.

جب پہلی مرتبہ حکم ہوا: وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشعرا ء:۲۱۴’’(اے نبیؐ !) اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے‘‘ تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو کہ آپؐ کے زیر کفالت اور زیرتربیت تھے اور گھریلو سامان لانا اور اس کا بندوبست کرنا انہی کے ذمہ تھا‘ حکم دیا کہ ایک دعوتِ طعام کا انتظام کرو اور تمام بنوہاشم کو بلاؤ. چنانچہ دعوت کا اہتمام ہوا اور تمام بنی ہاشم جمع ہو گئے. جب لوگوں نے کھانا کھا لیا تو اب حضور بات کرنے کے لیے کھڑے ہوئے‘ لیکن کچھ لوگوں نے ہوٹنگ کی‘ کچھ نے فقرے چست کیے اور کچھ نے شور مچایا اور سارا مجمع چلا گیا. 

حضور اپنی بات کہہ بھی نہ سکے. یہ نہ سمجھئے کہ ادھر آپؐ نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور ادھر کامیابیوں نے قدم چومنے شروع کر دیئے ہوں. آنحضور کی انقلابی جدوجہد کے اس اہم نکتے کو نوٹ کر لیجیے کہ یہ جدوجہد خالص انسانی سطح پر ہوئی اور اس میں وہ سارے مراحل آئے جو کسی بھی انسانی جدوجہد میں آتے ہیں. چنانچہ ابتدائی طور پر ناکامیاں اور مایوسیاں بھی آئیں‘ بے پناہ محنت اور مشقت کا نتیجہ مرئی طور پر صفر دکھائی دیتا تھا.

لیکن حضور نے چند دن کا وقفہ دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوبارہ فرمایا کہ پھر دعوت کا اہتمام کرو. میں کہا کرتا ہوں کہ شاید لوگوں کو شرم آ گئی ہو‘ آخر اتنی شرافت تو ان لوگوں کے اندر بھی تھی کہ دو دفعہ ان کے دسترخوان پر کھانا کھا لیا ہے‘ اب آخر ان کا حق بن گیا ہے کہ ان کی بات سن لیں. چنانچہ حضور نے دعوت پیش کی. آپؐ نے نہایت عظیم‘ مختصر مگر جامع اور نہایت مؤثر خطبہ پیش کیا. بہرحال لوگوں نے سن لیا اور پورے مجمع کو سانپ سونگھ گیا کہ کوئی نہیں بولا. اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگرچہ میں سب سے کم عمر ہوں‘ اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں‘ اگرچہ میری آنکھیں دکھتی ہیں‘ لیکن میں آپؐ کا ساتھ دوں گا. (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آشوبِ چشم کا عارضہ بچپن ہی سے تھا‘ معلوم ہوتا ہے کہ ککروں کا مرض تھا جو بچپن ہی سے شروع ہوتا ہے. مختلف جنگوں کے مواقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھتی تو حضور اپنا لعابِ دہن لگا دیتے جس سے انہیں کچھ سکون حاصل ہوتا اور پھر وہ جنگ میں حصہ لے سکتے.) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات سن کر پورا مجمع کھلکھلا کر ہنس پڑا کہ یہ دنیا کی تقدیر بدلنے چلے ہیں اور یہ ہیں ان کے ساتھی! ذرا غور کیجیے کہ یہاں سے محمد رسول اللہ کی جدوجہد کا آغاز ہو رہا ہے.

اس کے بعد حکم آتا ہے کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ’’(اے نبی !) ڈنکے کی چوٹ کہیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘.شروع میں تین سال تک حضور اکرم نے انفرادی طور پر ذاتی رابطے کے ذریعے دعوت کو پھیلایا. تاہم یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ حضور کی ذاتی زندگی میں خفیہ دعوت کا کوئی دورنہیں آیا‘ آپؐ نے کوئی بات خفیہ طور پر نہیں کی‘ آپؐ کی کوئی زیرزمین سرگرمیاں نہیں تھیں.البتہ low profile میں ذاتی رابطوں کے ذریعے یہ بات پھیلائی‘ لیکن اب حکم آ گیا : فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ یعنی ’’(اے محمد !) اب ڈنکے کی چوٹ کہو جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے‘‘تو آپؐ کوہِ صفا پر چڑھے. اب تو کوہِ صفا کی بس علامت باقی رہ گئی ہے. حضور کے زمانے میں وہ باقاعدہ پہاڑی تھی‘ ایسی پہاڑی کہ جس کے پیچھے کوئی لشکر بھی چھپ سکتا تھا. کوہِ صفا پر چڑھ کر آنحضور نے عرب کے مروّجہ دستور کے مطابق قوم کو ندا دی. یہیں سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دعوت و ابلاغ کے لیے اپنے زمانے میں جو بھی مروجہ طریقے ہوں ان سب کو اختیار کیا جانا چاہیے. البتہ اگر حیا اور شرافت کے منافی کوئی شے ہو تو اس سے احتراز کیا جائے. اس دور میں غارت گری اور لوٹ مار کے لیے قبائل ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہتے تھے. یہ حملہ عام طور پر رات کو ہوتا‘ بلکہ رات کے بھی پچھلے پہر small hours of the morning میں‘ یعنی رات کے دو‘ تین‘چار بجے‘ جبکہ نیند کا انتہائی غلبہ ہوتا ہے. اس وقت سوئے ہوؤں پر آ کر ٹوٹ پڑنا اور قتل و غارت گری اور لوٹ مار کر کے بھاگ جانا‘ یہ ان کا ایک عام رواج تھا.لہذا کسی قبیلے کے کسی فرد کو اگر یہ اطلاع مل جاتی کہ کوئی قبیلہ ان پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے تو وہ بلند مقام پر چڑھ کر کپڑے اتار کر مادر زاد برہنہ ہو کر نعرہ لگاتا تھا کہ ’’وَاصَبَاحَا‘‘ (ہائے وہ صبح جو آیا چاہتی ہے)یعنی جس میں غارت گری‘ لوٹ مار اور کشت و خون ہو گا.اب اس میں دونوں صورتیں یعنی سمعی اور بصری جمع ہو جاتیں. اس لیے کہ جہاں تک تو اس کی آواز جا رہی ہوتی وہاں تک لوگ اس کی آواز کو سنتے اور دوڑے چلے آتے اور جہاں اس کی آواز نہیں جا رہی ہوتی تو وہ کھڑا ہو کر عریاں نظر آتا. اسی لیے اسے ’’نذیر عریاں‘‘ کہا جاتا تھا‘ یعنی وہ خبردار کرنے والا‘ متنبہ کرنے والا جو بالکل ننگا ہو گیا ہو. حضور نے بھی قوم کو آگاہ کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا اور کوہِ صفا پر چڑھ گئے. آپؐ نے اس طریقے میں صرف یہ کمی کی کہ آپؐ نے کپڑے نہیں اتارے‘ کیونکہ ظاہر ہے یہ حیا و فطرت کے خلاف ہے اور آپؐ کے لیے ایسا کرنا ناممکن تھا‘ لیکن نعرہ وہی لگایا کہ ’’وَاصَبَاحَا‘‘.

اب لوگ آ کر جمع ہو گئے اور انہوں نے آپؐ سے اس کا سبب دریافت کیا. آپؐ اونچائی پر کھڑے تھے‘ آپؐ نے قوم کواپنی دعوت پیش کی. اس پر آپؐ کا چچا ابولہب کہنے لگا ’’تَـبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘تمہارے لیے ہلاکت و بربادی ہو‘ کیا تم نے ہمیں اس کام کے لیے جمع کیا ہے؟‘‘ہم تو سمجھے تھے کہ تم واقعتا کوئی خبر دینے والے ہو‘ کوئی بات بتانے والے ہو. نوٹ کیجیے کہ حضور نے پہلے فرمایا کہ لوگو! میں اگر تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو تم میری بات مانو گے یا نہیں؟ یعنی وہ پہاڑی اتنی بڑی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی لشکر چھپ سکتا تھا. انہوں نے کہا ضرور‘ اس لیے کہ آپؐ پہاڑی کی بلندی پر کھڑے ہیں اور پہاڑ کے دونوں جانب دیکھ رہے ہیں. دوسرے یہ کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں‘ آپؐ تو الصادق اور الامین ہیں. آپؐنے لوگوں سے پہلے یہ گواہی لے کر بات کی ہے کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں‘ آخرت کے محاسبے سے خبردار کرتا ہوں. جس پر آپؐ کے چچا نے کہا تھا کہ ’’تَـبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟‘‘ اس پر پھر یہ سورۃ نازل ہوئی : (۵)

تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ ؕ﴿۱﴾مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَ مَا کَسَبَ ؕ﴿۲﴾سَیَصۡلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ ۚ﴿ۖ۳﴾وَّ امۡرَاَتُہٗ ؕ حَمَّالَۃَ الۡحَطَبِ ۚ﴿۴﴾فِیۡ جِیۡدِہَا حَبۡلٌ مِّنۡ مَّسَدٍ ٪﴿۵

یہ میں نے آنحضور کی دعوت کے دو مناظر آپ کو دکھائے ہیں‘ اندازہ کیجیے کہ دل کو توڑ دینے والا آغاز ہے‘ انسان کے لیے کس قدر ہمت شکن اور صبر آزما ہے یہ معاملہ جس سے کہ آغاز ہوا ہے.