دیباچہ طبع ہفتم

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

پیش نظرتالیف جن تحریروں پر مشتمل ہے وہ حیطۂ تحریر میں تو ۱۹۸۵ ءمیں آ ئیں لیکن کتابی صورت میں پہلی مرتبہ ۱۹۸۶ء اور چھٹی مرتبہ ۱۹۹۹ء میں شا ئع ہوئیں. گویا کہ زیر نظر سطور اس کی اشا عت اوّل سے ٹھیک بیس سال بعد سپر د قلم ہو رہی ہیں.

پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے ضمن میں امید و بیم کے بہت سے ادوار مجھ پر اور میرے ہم خیال بہت سے دوسرے لوگوں پر وارد ہوتے رہے ہیں.میں قیام پاکستان کے فوراََ بعد ۵۰.۱۹۴۹ ء میں جماعت اسلامی کی تحریک سے وابستہ تھا اور سترہ اتھارہ برس کے نوجوان کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے ماحول میں جو رجائیت چھائی ہوئی تھی میں بھی اسی رنگ میں رنگا ہوا تھا.

چنانچہ قرار داد مقاصد کے پاس ہونے اور پھر جملہ مذ ہبی جماعتوں اور مکاتب فکر کے ۳۱ علما ؍ء کا دستور پاکستان کے ضمن میں بائیس اصولوں پر اتفاق راۓ سے تو معلوم ہوتا تھا کہ بس اب تو منزل بالکل سامنے ہے چنانچہ اس دور کی رجا ئیت ہی کی نیم مذہبی اور نیم سیاسی رومانویت کی ترجمانی شاعر جماعت اسلامی نعیم صدیقی صاحب (مرحوم)کے اس شعر سے سامنے آتی ہے.

بو ل شہر نظام اسلامی کیا ترے سقف و بام کہتے ہیں؟
تیرےدر پر کھڑے ترے والی آج تجھ کو سلام کہتے ہیں!

۱۹۵۱ء میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر جہاں جماعت اسلامی نے اپنے تاسیسی کردار کو خیر باد کہہ دیا اور اس نے ’’اصولی اسلامی انقلابی تحریک‘‘ 
کی بجاۓ ایک اسلام پسند قومی سیاسی جماعت کا رول اختیار کر لیا...وہاں انتخابات میں صد فی صد ناکامی امیدوں کے تاج محل کو بھی کم از کم وقتی طور پرمسمار کر دیا. اس کے بعد ۵۶؍ءکے مارشل لاء کے نفاذ‘اور دستور سمیت دستوریہ کی بساط تہہ کئے جانے نے دوبارہ تحلیل کر دیا.

اس کے بعد اگرچہ میں جماعت اسلامی سے تو علیحدہ ہو گیا تھا تاہم اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے ضمن میں اپنی سی بھاگ دوڑ کرتا رہا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے تا ہم اس پورے عرصے کے دوران میں بیم ورجا ءاور آ س دیاس کے اتار چڑھاؤ طبیعت میں پیدا ہوتے رہے.

۱۹۸۵ ء میں میرے نہاں خانۂ دل میں دفعتۂ ایک خاص خیال کے تحت امید کا ایک چراغ روشن ہوا اس وقت قمری تقویم سے پاکستان کی عمر چالیس سال ہونے والی تھی. چنانچہ قرآن و سنت سے اخذ شدہ ان مقدمات کی بناءپر کہ انسان کی ذہنی نفسیاتی اور جذباتی بلوغ 
(Maturity) کی عمر چالیس ہے...اور سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسر ا ئیل کی بھی مصر غلامی سے نجات پانے کے بعد چالیس برس صحراۓ تیہہ میں بھٹکنے کے بعد نشأةِ ثانیہ ہوئی تھی، لہٰذا کیا عجب کہ اب پاکستان بھی چالیس سال تک اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد اپنے اصل مقصدِ قیام کی طرف رجوع کر لے اور ؏ ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو!‘‘ والا معاملہ بن جاۓ!

یہ کتاب اس خاص ذہنی‘ قلبی اور جذباتی کیفیت میں ضبط تحریر میں آئی تھی. چنانچہ اس کے مقدمے میں میں نے مذکورہ بالا خیالات کو مفصل تحریر کیا ہےتا ہم بعد میں یہ اُمید بھی نقش بر آب ثابت ہوئی اور اب تو معاملہ بہت آگے جا چکا ہے اور بظاہر احوالِ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا معاملہ تو؏ ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا!‘‘ کا مصداق بن ہی چکا ہے، خود پاکستان کے وجود کو شدید خطرات و خدشات لاحق ہیں! اور عالمی نجومی تو اس کے خاتمے کے سن و سال کا تعین بھی وقتاً فوقتاً کرتے رہتے 
ہیں. تا ہم اس کے باوجود کہ میں زمینی حقائق کی بنا پر تو خود بھی شدید نا امیدی سے دو چار ہوں،لیکن برّ عظیم پاک و ہند کی گذشتہ چار سو سال کی تاریخ کے اشاروں اور مستقبل سے متعلق نبی اکرم کی پیشین گوئیوں کی بنا پر اسے خارج از بحث نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیتِ خصوصی اور اختیارِ مطلق سے پاکستان کےقیام کی طرح کی خالص معجزانہ صورت دوبارہ وجود میں آ جاۓ اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور دین حق کے موعودہ عالمی غلبے کے عمل کا آغاز اسی سر زمین سے ہو! بہر حال جب تک سانس تب تک آس کےمطابق ہمیں اس کے لیے مسلسل اور پیہم جدوجہد تو اپنے دینی فرض کی ادائیگی کے لیے جاری رکھنی ہی ہے؛ نتائج کا معاملہ بہر صورت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.

میرا ایک خیال یہ تھا کہ اب اس کتاب سے ’’مقدمہ‘‘ کے حصہ اوّل کو حذف کر دوں‘ لیکن پھر خیال آیا کہ یہ بھی ایک خالص علمی بحث ہےاور پھر میری اس خاص وقت کی رجائیت کی مظہر ہے، لہٰذا برقرار رہے. البتہ باقی پوری کتاب بحمداللہ پاکستان کے قیام 
(Geneses) اور اس کے استحکام کی اساسات کے ضمن میں ــ’’محکمات‘‘ پر مشتمل ہے اور جو لوگ ؏ ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ!‘‘پرعمل کرتے ہوۓ کچھ جدوجہد جاری رکھنا چاہیں ان کے لیے اس میں بہت رہنمائی ہے.

اس کتاب کے حصہ دوم کی 
as such تسوید کی تو نوبت نہیں آئی لیکن میری مفصل تالیف ’’منہج انقلابِ نبویؐ ‘‘ اور مختصر تحریر ’’رسولِ انقلاب کا طریقِ انقلاب.‘‘ اس ضرورت کو بتمام و کمال پورا کرتی ہیںگویا انہیں ہی اس کتاب کے موعودہ حصہ دوم کا قائم مقام سمجھنا چاہیےفقط.

خاکسار 
اسرار احمد
۹ مارچ ۲۰۰۶ء