زیر نظر کتاب میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں وہ متفرق طور پر اور اختصار کے ساتھ گذشتہ دس پندرہ سال کے دوران خطاباتِ جمعہ اور عام تقاریر خصوصاً مختلف مقامات کی بارایسوسی ایشنز اور نیپا لاہور کے مختلف کورسز میں بارہا بیان ہوئے ہیں…… لیکن گذشتہ ماہ اگست میں یہ مضامین پہلے ۲/تاریخ کو لاہور میں واپڈا ہائوس کے کھچا کھچ بھرے ہوئے آڈٹیوریم میں ایک تین گھنٹے کی نشست میں اور پھر چند ہی روز بعد ۷/اور ۸/اگست کو را ولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگھم پر انجمن فیض الاسلام کے ہال میں ڈھائی ڈھائی گھنٹے کی دو نشستوں میں بیان ہوئے…… تو اس پر خود میرے اندر بھی یہ داعیہ شدت کے ساتھ پیدا ہوا کہ انہیں تحریری صورت میں بڑے پیمانے پر مسلمانانِ پاکستان اور خاص طور پر اُس نوجوان نسل کے سامنے لایا جائے جو قیام پاکستان کے پس منظر اور قافلہ ملی کی اصل منزل مقصود کے بارے میں شدید ذہنی انتشار سے دو چار ہے…… ساتھ ہی اس کا شدید تقاضا رُفقاء واحباب کی جانب سے بھی ہوا.

اِدھر میں ادیب یا مصنف تو سرے سے ہوں ہی نہیں، اگر کبھی کسی زمانے میں مقصد زندگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اظہار مافی الضمیر کے لیے قلم کا ذریعہ اختیار کیا بھی تھا تو گذشتہ دس سال سے تو یہ سلسلہ بھی بالکل منقطع تھا. چنانچہ اس عرصے کے دَوران جو کچھ میرے نام سے شائع ہوا وہ اصلاً میرے خطابات اور دروس تھے، جنہیں ٹیپ کی ریل سے صفحۂ قرطاس پر میرے بعض رُفقائِ کار بالخصوص رفیق مکرم شیخ جمیل الرحمن صاحب نے منتقل کیا تھا… لہٰذا دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ خاص اس مقصد سے حرمین شریفین کا سفر کیا جائے اور وہاں کسی پُرسکون گوشے میں بیٹھ کر ان خیالات کو قلمبند کرنے کی کوشش کی جائے……اور اس خواہش نے رفتہ رفتہ ’’ارادہ‘‘ کی صورت اختیار کر لی.

رہا یہ معاملہ کااس ارادے کی تکمیل اس قدر جلد کیسے ہوئی؟… تو یہ ایک طویل داستان ہے جس کو تفصیلاً بیان کرنے کی اس وقت کوئی ضرورت نہیں ہے. حاصل کلام یہ کہ اللہ کے فضل و کرم سے ماہ اکتوبر ہی میں حرمین کی زیارت بھی نصیب ہو گئی اور ہفتہ ۱۲ تا منگل ۲۲/اکتوبر ۸۵ء تقریباً دس روزطائف میں برادرم ڈاکٹر شجاعت علی برنی کے مکان پر مطلوبہ سکون میسر آگیا اور اس عرصے میں کتاب کا مقدمہ اور پہلے تین ابواب 
ضبط تحریر میں آگئے!

واپس آیا تو دل جہاں جگر کے الفاظ میں ’’ہلاک عشرت آغاز‘‘ تھا وہاں یہ خوف بھی مسلط تھا کہ اب اس کی تکمیل پاکستان کی شدید مصروفیات کے علی الرغم کیسے ہو گی کہ اچانک ایک خیال دل میں آیا کہ کیوں نہ اس ’’نسیمے ازحجاز‘‘ کی اشاعت کسی روز نامے کے ذریعے بالاقساط شروع کر دی جائے. اس سے مزید تحریر کا داعیہ تقویت پائے گا اور پاسِ عہد سے احساسِ فرض دو آتشہ ہو جائے گا. اللہ تعالیٰ نے اِس کی صورت بھی فوراً پیدا فرمادی. رفیق گرامی شیخ جمیل الرحمن صاحب کے دیرنہ تعلقات اور نوجوانی کے دَور کی محبت ورفاقت کا رشتہ میر خیل الرحمن صاحب سے تھا. انہوں نے میر صاحب سے یہ وعدہ حاصل کر لیا کہ یہ مضامین ہر جمعہ کولازماً ’’جنگ‘‘ کے جملہ ایڈیشنوں میں بیک وقت شائع ہوں گے. میں میر صاحب کا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پوری طرح نباہا اور اس طرح ایک تو ان خیالات کی اشاعت وسیع حلقے میں ہو گئی اور دوسری اور اہم تر بات یہ کہ میرے اندر بھی پاسِ عہد کی بنا پر مسلسل لکھتے رہنے کا داعیہ برقرار رہا.
جمعہ ۲۸/ فروری تک جو کچھ اخبار میں چودہ اقساط میں چھپا وہ ساتھ کے ساتھ ماہانہ ’’میثاق‘‘ کی چار اشاعتوں میں بھی طبع ہو گیا… اور اب کتابی صورت میں پیش خدمت ہے.

چونکہ یہ پیش نظر تالیف کا صرف ’’حصہ اوّل‘‘ ہے، لہٰذا اس کے خاتمے پر ایک شدید تشنگی کا احساس پید اہونا لازمی ہے. چنانچہ راقم کا ارادہ ہے کہ بلاتاخیر ’’حصہ ثانی‘‘ بھی ضبط تحریر میں لے آیا جائے، جس کا عنوان ’’اسلامی انقلاب: کیا اور کیسے؟‘‘ ہوگا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جیسے اُس نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے نصف اوّل کی تکمیل کرا دی اُسی طرح نصف ِآخر کی تسوید واشاعت کے مراحل بھی طے کرا دے.

ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی جانب ہم سب کو لوٹ جانا ہے، نہ کوئی خیر اللہ کی توفیق کے بغیروجود میں آ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شر اُس کے اِذن کے بغیر ظاہر ہو سکتا ہے اور ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے نیت کی ہو.

آخر میں پھر دست بدعا ہوں کہ 
اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الْطَیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ . کے مصداق اللہ ہم سب کو اچھی اور درست بات بھی نصیب فرمائے اور نتیجہ خیر پیدا کرنے والا نیک عمل بھی. آمین.
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ 
لاہور. ۲۱ مارچ ۸۶ء