اسی طرح اگر اس اُصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ ’’استثنامأت کلیہ‘‘ کو ثابت کرتے ہیں (۲تو سب جانتے ہیں کہ قانونِ قدرت یا سنت اللہ یہی رہی ہے کہ نبوت کا ظہور (۳یعنی وحی کا آغاز چالیس برس کی عمر میں ہوتا رہا ہے. (اس قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ غالباً صرف حضرت مسیح علیہ السلام ہیں، اور ہر شخص جانتا ہے کہ اُن کی تو پوری شخصیت ہی خرقِ عادت (۴کی حیثیت رکھتی ہے) چنانچہ نبی اکرم کے بارے میں تو صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ: 

عَنِ ابْنِ عَبَّاسؓ ٍ قَالَ بُعِثَ رَسُوْل اللّٰہِ  لِاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلٰثَ عشَرَۃَ سَنَۃً یُوْحٰی اِلَیْہِ ثُمَّ اُمِرَ بِالْھِجْرَۃِ فَھَاجَرَ عَشَرَ سِنِیْنَ وَمَاتَ وَھُوَ ابْنُ ثَلٰثٍ وَسِتِّیْنَ سَنَۃً 
(بخاری و مسلم) 

’’… حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے. اس کے بعد تیرہ برس مکہ میں مقیم رہے اور آپؐ پر وحی نازل ہوتی رہی. پھر آپؐ کو ہجرت کا حکم ہوا تو آپؐ نے ہجرت فرمائی اور دس برس (مدینہ میں مقیم) رہے اور تریسٹھ برس کی عمر میں آپؐ نے وفات پائی. (اس کو روایت کیا امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ دونوں نے).‘‘
پس ثابت ہوا کہ ازروئے قرآن و حدیث انسان کی عقلی و شعوری بلوغت اور جذباتی ونفسیاتی پختگی کی عمر

(۱) "Intellectual And Psychological Maturity"
(۲) "Exceptions Prove The Rule 

(۳) نہ کہ آغاز!!
(۴) یعنی عام قوانین طبعییہ کے خلاف ہے. 
چالیس سال ہے.