بنی اسرائیل کی چالیس سالہ صحرانوردی اور چالیس سال کے بعد انقلابِ حال

اب چونکہ افراد ہی سے اجتماعیت وجود میں آتی ہے اور بقول علامہ اقبال :

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

لہٰذا قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ اجتماعیت ِانسانیہ میں بھی چالیس برس کی مدت کو اہمیت حاصل ہونی چاہئے، اور قرآن حکیم میں بھی اس کی کم از کم ایک مثال تو نہایت واضح طور پر سامنے آتی ہے. چنانچہ سورۂ مائدہ کے چوتھے رکوع میں تفصیلاً مذکور ہے کہ مصر سے ’’خروج‘‘ 
(EXODUS) کے کچھ عرصے کے بعد جب بنی اسرائیل کو’’قتال فی سبیل اللہ‘‘کا حکم ہوا اور انہوں نے اس سے پہلوتہی اختیار کی اور اللہ کے دو جلیل القدر پیغمبروں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام اور اُن کے دو وفادار اور تقویٰ شعار ساتھیوں یعنی یوشع بن نون اور کالب بن یفنا رحمہمااللہ کی کل تشویق و ترغیب اور فرمائش وفہمائش کے جواب میں بالکل دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ: 

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ ﴿۲۴﴾ 
(المائدہ: ۲۴
’’… انہوں نے کہا: ’’اے موسیٰ! ہرگز ہم اس (سرزمین مقدس) میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ (یعنی عمالقہ) وہاں موجود ہیں. پس جائو تم اور تمہارا رب اور تم دونوں جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.‘‘

تو اس پر ایک جانب تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس درجہ بیزاری کی کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے بارگاہِ خداوندی میں اپنی بے بسی کے ذکر کے ساتھ اپنی امت سے قطع تعلق کی اجازت طلب کی: 

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۲۵﴾ 
(المائدہ: ۲۵
’’موسیٰ ؑنے عرض کیا: اے رب میرے! مجھے تو سوائے اپنی جان اور اپنے بھائی کے (اور کسی پر) کوئی اختیار حاصل نہیں ہے. پس علیحدگی فرما دے ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے مابین.‘‘ 
اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرما دیا کہ اگر یہ لوگ بزدلی نہ دکھاتے تو ہم ارضِ مقدس ابھی ان کو عطا فرما دیتے، لیکن اُن کے قتال فی سبیل اللہ سے جان چرانے کی بناء پر یہ ارضِ مقدس اُن پر چالیس برس تک حرام رہے گی اور اس عرصے کے دوران یہ اسی صحرائے سینا میں بھٹکتے پھریں گے. بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ 
(المائدہ:۲۶
’’…اللہ نے فرمایا: اب یہ (ارضِ مقدس) ان پر چالیس برس تک حرام رہے گی (اور) یہ زمین میں بھٹکتے (ہی) رہیں گے. 

تاریخ بتاتی ہے کہ اِسی چالیس سال کے عرصے کے دوران حضرت موسیٰ ؑ کا بھی انتقال ہو گیا اور حضرت ہارون ؑ کا بھی، اور یہ دونوں جلیل القدر پیغمبر اللہ کے دین اور اپنی امت کے ارضِ مقدس پر غلبہ و تمکن کو اپنے جسد عنصری کی آنکھوں سے دیکھے بغیر دنیا سے رُخصت ہو گئے! لیکن چالیس برس کی مدت کی تکمیل کے بعد بنی اسرائیل کی اُس نئی نسل نے جو صحرا ہی میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی تھی، حضرت یوشع بن نون ؒ کی قیادت میں جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے مراحل طے کیے اور اس طرح بنی اسرائیل کی تاریخ کے عہد زریں کے آغاز کی تمہید ہوئی.