واضح رہے کہ اگرچہ نظری طور پر تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جتنے رسول دنیا میں مبعوث ہوئے اتنی ہی مسلمان اُمتیں بھی لازماً وجود میں آئی ہوں گی، خواہ بڑی خواہ چھوٹی، لیکن قرآن حکیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اہم ترین قابل لحاظ اور قابل ذکر اُمتیں دو ہی ہیں: پہلی اُمت ِموسیٰ ؑ یعنی بنی اسرائیل اور دوسری اُمت محمدؐ یا موجودہ اُمت ِمسلمہ!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں بڑی گہری مماثلت پائی جاتی ہے. چنانچہ ایک جانب خارج سے وارِدو واقع ہونے والے حالات وواقعات کے ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظِ مبارکہ منقول ہیں: 

لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ کَمَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ (ترمذی عن عبداللہ بن عمرو) ’’میری اُمت پر بھی مصائب و حوادث اسی طرح واقع ہوں گے جیسے بنی اسرائیل پر ہوئے بالکل، ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے.‘‘

اور دوسری جانب امت کے داخلی احوال و کوائف اور اعمال 
(۱و اشغال کے ضمن میں آپ ؐ نے یہ فرمایا ہے کہ : 

’’ لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ دَخَلُوْا حُجْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوْھُمْ‘‘قِیْلَ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَلْیَھُوْدُ وَّالنَّصَارٰی؟‘‘ قَالَ: ’’فَمَنْ؟‘‘ 
(بخاری و مسلم عن ابی سعید خدری) 
’’…حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لازماً ان لوگوں (کے طور طریقوں) کی پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں، بالشت کے ساتھ بالشت اور ہاتھ کے ساتھ ہاتھ (کے انداز میں)، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے‘‘. پوچھا گیا: ’’حضور کیا یہود اور نصاریٰ (مراد ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’تو اور کون؟‘‘
(اس حدیث کو امام بخاری او رامام مسلم دونوں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا)

واقعہ یہ ہے کہ اس حدیث مبارک کی عظمت اور صدفی صد حقانیت کا کسی قدر اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب انسان بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے عائد شدہ اُس مفصل فردِ جرم کی روشنی میں اُمت ِمسلمہ کی موجودہ دینی و اخلاقی اور ایمانی و عملی حالت کا جائزہ لیتا ہے جو سورۂ بقرہ کے چھٹے رکوع
(۱) ان سطور کے راقم نے جب اس حدیث نبوی علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کی روشنی میں اُمت ِمسلمہ کی تاریخ کا بنظر غائر جائزہ لیا تو اسے اُمت ِکی گزشتہ چودہ سو سالہ تاریخ کے دوران دوبارہ عروج اور دو ہی بار بازوال کا بعینہٖ وہی نقشہ نظر آیا جو بنی اسرائیل کی تاریخ کے خلاصے کے ضمن میں سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے. چنانچہ اب سے ٹھیک گیارہ سال قبل راقم نے اپنے اسی مشاہدے اور غور و فکر کے نتیجے کو میثاق بابت اکتوبر نومبر ۱۹۷۴ء میں شائع کر دیاتھا اور اب وہ تحریر راقم کی تالیف ’’سرافگندیم‘‘ میں بطورِ مقدمہ شامل ہے اور برادرم ڈاکٹر ابصار احمد کے قلم سے اس کا انگریزی ترجمہ" Rise And Decline Of The Muslim Ummah 7کے نام سے مطبوعہ موجود ہے.

سے شروع ہو کر پندرھویں رکوع کے آغاز تک پھیلی ہوئی ہے. اس لیے کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نظری و فکری، اعتقادی و ایمانی اور اخلاقی و عملی گمراہی ایسی نہیں ہے جو سابقہ اُمت میں پیدا ہوئی ہو اور موجودہ اُمت مسلمہ اس سے بچی رہ گئی ہو. یہاں تک کہ کبھی کبھی تو بالکل ایسے لگتا ہے جیسے کہ یہ سارا خطاب ’’درحدیث دیگراں‘‘ کے انداز میں اصلاً اُمت ِمحمد ہی سے ہو رہا ہے.