سب جانتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آباد ہونے کے بعد کئی صدیوں تک بنی اسرائیل مصر میں نہایت عیش و آرام کے ساتھ رہے. اس کے بعد تدریجاً حالات میں انقلاب آیا اور اُن پر شدائد و مصائب کے اُس دور کا آغاز ہو گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے متصلاً قبل اپنے نقطۂ عروج (Climax) کو پہنچ گیا. بنی اسرائیل اُس زمانے میں جن حالات سے دو چار تھے اُن کی تعبیر قرآنِ کریم کے متعدد مقامات پر قلیل فرق و تفاوت کے ساتھ ِان الفاظ میں ہوئی ہے: 

یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ﴿۴۹
(البقرہ ۴۹
’’… وہ چکھاتے تھے تمہیں بدترین عذاب کا مزہ (یہاں تک کہ) ذبح کر ڈالتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ رکھتے تھے تمہاری عورتوں کو اور اس میں یقینا تمہارے لیے تمہارے رب کی جانب سے بڑی آزمائش تھی.‘‘ 

(واضح رہے کہ سورۂ اعراف کی آیت نمبر۱۴۱ میں بھی یہ الفاظ مبارکہ جوں کے توں وارد ہوئے ہیں، صرف اس ایک فرق کے ساتھ کہ ’’یُذَبِّحُوْنَ‘‘ کی بجائے ’’یُقَتِّلُوْنَ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے)، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہی اللہ تعالیٰ کے اِس ارادے اور مشیت کے ساتھ ہوئی تھی کہ ان کے ذریعے بنی اسرائیل کو اِس عذاب سے نجات دلائی جائے، چنانچہ سورۂ قصص میں ارشاد ہوتا ہے: 

وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ نَجۡعَلَہُمۡ اَئِمَّۃً وَّ نَجۡعَلَہُمُ الۡوٰرِثِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ 
(القصص : ۵
’’…… اور ہم چاہتے تھے کہ احسان فرمائیں ان لوگوں پر جنہیں زمین میں دبا لیا گیا تھا اور بنا دیں ان ہی کو سربراہ اور بنا دیں ان ہی کو (زمین کا) وارث.‘‘

اور اگرچہ آنجناب ؑ کی بعثت کے مقاصد میں وہ جملہ اُمور بھی لازماً شامل تھے جن کے لیے تمام انبیاء و رسل مبعوث کیے ،گئے یعنی دعو ت الی اللہ اور شہادت علی الناس، تاہم آپؑ کی بعثت کا ایک خصوصی مقصد بنی اسرائیل کی نجات تھا. یہی وجہ ہے کہ منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد فرعون سے اپنی پہلی ہی ملاقات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام پر مطالبہ پیش فرما دیا کہ: 

اِنَّا رَسُوۡلَا رَبِّکَ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ وَ لَا تُعَذِّبۡہُمۡ 
(طہٰ : ۴۷
’’… ہم دونوں تمہاری جانب تمہارے رب کے پیغامبر ہیں. پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو اور اُن کو مت ستاؤ.‘‘

اِس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ، انداز وتبشیر اور فرمائش و فہمائش پر فرعون اور آلِ فرعون کی جانب سے کیا رد عمل ظاہر ہوا. اور کس طرح ’’تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ‘‘ (بنی اسرائیل: ۱۰۱یعنی نو عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود ؏ 
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

کے مصداق نہ صرف یہ کہ اُن کے کفر و اعراض اور تعلی و اِستکبار میں اضافہ ہوتا چلا گیا، بلکہ خود بنی اسرائیل پر اُن کے تشدد کی شدت بڑھتی چلی گئی. بہرحال یہ طویل داستان جس نتیجے پر منتج ہوئی وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے پے بہ پے معجزات کے ذریعے نجات عطا فرمائی. چنانچہ اُن کی نگاہوں کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی ایک ہی ضرب سے سمندر پھٹا جس سے اُن کے بچ نکلنے کی سبیل پیدا ہوئی. پھر عین اُن کی نگاہوں کے سامنے اُن کا دشمن پورے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوا، پھر عصا کی ایک ہی ضرب سے ایک چٹان سے اُن کے لیے پانی کے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، بے آب و گیاہ بیابان میں اُن کے لیے من و سلویٰ 
کی صورت میں غذا نازل فرمائی گئی، انہیں دُھوپ کی شدت و تمازت سے بچانے کے لیے غمام کا اہتمام کیا گیا. بعدازاں الواح کی صورت میں تورات عطا فرمائی گئی، اور اُس کی پیروی اور شریعت کی پابندی کا عہد و میثاق لیتے ہوئے کوہِ طور کو ان کے سروں پر معلّق کر دیا گیا.